Tag: ہندوستانی موسیقی

  • زہرہ بائی آگرے والی

    برصغیر میں کلاسیکی موسیقی کے لیے ممتاز گھرانوں سے وابستہ شخصیات کے علاوہ ہندوستان میں پیشہ وَر گلوکارائیں اور رقاص بھی اپنے فن و کمال کے سبب مشہور ہوئیں۔ انھیں طوائف اور مغنیہ بھی کہا جاتا تھا جو ہندوستان کی فن و ثقافت کا ایک اٹوٹ حصّہ رہی ہیں۔ انہی میں زہرہ بائی آگرہ والی بھی شامل ہیں جن کی آواز اس وقت کی مشہور گرامو فون کمپنی کے ریکارڈ میں‌ بھی محفوظ ہوئی۔

    ایک زمانہ تھا جب یہ گانے بجانے والیاں اپنے اردو اور فارسی زبان و ادب کے عمدہ ذوق کی وجہ سے امرائے وقت اور شرفا کے نزدیک بھی قابلِ احترام تھیں۔ ناچ گانے کو اپنا پیشہ بتانے والی یہ عورتیں انگریزوں کے دور میں ’ڈانس گرل‘ کہلائیں، اور پھر 19 ویں‌ صدی کے آواخر میں‌ گلوکاری اور رقص کے لیے مشہور ان عورتوں کے کوٹھے عیّاشی اور جسم فروشی کے لیے بدنام ہونے لگے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان گانے والیوں نے اپنے زمانے میں کتھک، دادرا، غزل اور ٹھمری کو عروج دیا اور ہندوستان میں کلاسیکی موسیقی کو بڑی دھج سے زندہ رکھا۔

    زہرہ بائی کا تعلق آگرہ کے موسیقار گھرانے سے تھا۔ ان کا سنہ پیدائش 1868ء ہے۔ وہ 1913ء میں وفات پاگئی تھیں‌۔ زہرہ بائی کی زندگی کا بیشتر عرصۂ حیات آگرہ میں بسر ہوا۔ وہ ان گلوکاراؤں میں سے ایک تھیں جنھوں نے 1900ء تک طوائف کی حیثیت سے کلاسیکی موسیقی کے فن کو زندہ رکھنے میں اپنا حصّہ ڈالا تھا۔ زہرہ بائی اپنے زمانے کی مشہور مغنیہ تھیں۔

    آگرے سے تعلق رکھنے والی زہرہ بائی نے موسیقی کی تعلیم استاد شیر خان اور استاد کلن خان سے حاصل کی تھی۔ وہ اپنے شہر کی نسبت آگرے والی مشہور ہوئیں۔ انھوں نے امراء اور نوابوں کے دولت خانوں پر اپنے فن کا مظاہرہ کرکے خوب داد سمیٹی اور انھیں پٹنہ کے زمین داروں کے یہاں بھی گانے کے لیے مدعو کیا جاتا تھا۔ زہرہ بائی نے غزل اور ٹھمری کی تعلیم ڈھاکا کے استاد احمد خان سے حاصل کی تھی۔

    ہندوستان کی اس مشہور مغنیہ کی خاصیت ان کا مردانہ آواز میں گانا بھی تھا۔ اس زمانے میں‌ ہندوستان میں گرامو فون کمپنیوں نے اپنا کاروبار شروع کیا تو زہرہ بائی آگرے والی کی آواز بھی ریکارڈ کی اور اس ایجاد کی بدولت زہرہ بائی کی آواز اور ان کے فنِ گائیکی کا ہندوستان بھر میں شہرہ ہوا۔ زہرہ بائی آگرے والی نے 1908ء میں ایک گرامو فون کمپنی سے معاہدہ کیا تھا جس کے تحت انھوں نے 2500 روپے میں 25 گیت ریکارڈ کروائے۔ یہ سلسلہ آگے بڑھا اور 1908ء سے 1911ء تک زہرہ بائی آگرے والی نے 60 گیت ریکارڈ کروائے۔ 1994ء میں زہرہ بائی کے ریکارڈ دوبارہ ترتیب دیے گئے اور ان کے فنِ موسیقی اور انداز کو بہت سراہا گیا۔

    زہرہ بائی آگرے والی نے زندگی کی 45 بہاریں دیکھیں اور اپنے آبائی وطن آگرہ میں انتقال کیا۔

  • سہ تار جو ستار ہو گیا!

    سہ تار جو ستار ہو گیا!

    برصغیر میں موسیقی اور راگ راگنیوں کے ساتھ کئی خوب صورت سازوں نے بھی شائقین کے ذوق کی تسکین کی۔

    ان میں بعض ساز ایسے ہیں جو ایجاد کے بعد مختلف ادوار میں ماہر سازندوں کی اختراع سے مزید سحرانگیز اور پُرلطف ثابت ہوئے۔ ستار وہ ساز ہے جس سے کلاسیکی موسیقی کا ہر شائق واقف ہے، مگر یہ کب ایجاد ہوا، اسے برصغیر میں کس نام سے جانا جاتا تھا اور کیا ستار کسی دوسرے ساز کی ایک شکل ہے؟

    آئیے، اس ساز سے متعلق معلومات میں اضافہ کرتے ہیں۔

    کبھی یہ سہ تار کے نام سے جانا جاتا تھا جسے بعد میں ستار کہا جانے لگا۔ ستار دراصل ایک پرانے ہندی ساز وینا کی سادہ شکل ہے۔ برصغیر میں کلاسیکی موسیقی کی دنیا اور اس کے شائقین میں اب یہ ساز ستار کے نام سے ہی مشہور ہے۔ چند دہائیوں قبل تک اسے بہت شوق اور دل چسپی سے سنا جاتا ہے اور آج بھی موسیقی کی محافل میں ستار لازمی ہوتا ہے۔

    محققین کے مطابق یہ ساز امیر خسرو کا ایجاد کردہ ہے، لیکن یہ بھی کہا جاتا ہے کہ خود امیر خسرو نے اپنی تحاریر میں اس ساز کا ذکر نہیں کیا۔ ماہرین کے ایک گروہ نے اپنی کھوج کے بعد یہ بھی لکھا ہے کہ یہ ساز اصل میں فارس یا کاکیشیا میں مروج تھا اور وہیں سے ہندوستان میں آیا، مگر معتبر اور مستند حوالوں میں اس ساز یعنی ستار کا موجد امیر خسرو کو ہی بتایا گیا۔

    مغل دور سے لے کر عہدِ حاضر تک اس ساز کو کئی باکمال فن کار ملے، لیکن جدید دور میں مزید چند دہائیاں بیت جانے پر یہ ساز اور اس کے تار انگلیوں سے چھیڑ اور سازندے کی مہارت کو ترس جائیں گی۔

    کلاسیکی آلاتِ موسیقی کا علم رکھنے والے اور سازوں کی زبانی آپ کو معلوم ہو گا کہ ستار کے کدو کو تونبا کہتے ہیں جب کہ اس کی لمبی کھوکھلی لکڑی کو ڈانڈ کہا جاتا ہے۔ تونبے کی چھت پر ہڈی کے دو پل سے ہوتے ہیں جو جواریاں کہلاتے ہیں، ان پر سے تاریں گزرتی ہیں۔

    ڈانڈ پر لوہے یا پیتل کے قوس سے بنے ہوتے ہیں جنھیں پردے یا سندریاں پکارا جاتا ہے۔ تاروں کا ایک سِرا تونبے کے پیچھے ایک کیل سے بندھا ہوتا ہے اور دوسرے کو ڈانڈ میں لگی ہوئی کھونٹیوں سے باندھ دیا جاتا ہے۔ موجودہ دور میں ستار کے تاروں کی تعداد تو متعیّن نہیں رہی، مگر زیادہ تر اس میں چار تاریں، دو چکاریاں اور تیرہ طربیں رکھی جاتی ہیں۔

  • اکبر، محمد شاہ رنگیلا اور موسیقی کا شوق

    اکبر، محمد شاہ رنگیلا اور موسیقی کا شوق

    قوموں کے عروج و ترقی کے زمانے میں جو اشتغال تحسینِ فکر اور تہذیبِ طبع کا باعث ہوتا ہے وہی دورِ تنزل میں طبیعت کے لیے مہلک اور فکر کے لیے آفت بن جاتا ہے۔

    ایک ہی چیز حسنِ استعمال اور اعتدالِ عمل سے فضل و کمال کا زیور ہوتی ہے اور سوئے استعمال اور افراط و تفریط سے بداخلاقی اور صد عیبی کا دھبا بن جاتی ہے۔

    موسیقی کا ایک شوق تو اکبر کو تھا کہ اپنی یلغاروں کے بعد جب کمر کھولتا تو مجلسِ سماع و نشاط سے تھکن مٹاتا اور پھر ایک شوق محمد شاہ رنگیلے کو تھا کہ جب تک محل کی عورتیں اسے دھکیل دھکیل کر پردہ سے باہر نہ کر دیتیں دیوان خانہ میں قدم نہیں رکھتا۔

    صفدر جنگ جب دیوان کی مہمات سے تھک جاتا تو موسیقی کے باکمالوں کو باریاب کرتا۔ اسی کی نسل میں واجد علی شاہ کا یہ حال تھا کہ جب طبلہ بجاتے بجاتے تھک جاتا تو تازہ دَم ہونے کے لیے اپنے وزیر علی تقی کو باریابی کا موقع دیتا۔ موسیقی کا شوق دونوں کو تھا، مگر دونوں کی حالتوں میں جو فرق تھا وہ محتاجِ بیان نہیں۔

    مشرق و مغرب کی دو متضاد سمتوں کی طرف روانہ ہونے والوں میں بہت بُعد ہوتا ہے۔ اس بات کی عام طور پر بہت شہرت ہوگئی ہے کہ اسلام کا دینی مزاج فنونِ لطیفہ کے خلاف ہے اور موسیقی محرماتِ شرعیہ میں داخل ہے۔ حالاں کہ اس کی اصلیت اس سے زیادہ کچھ نہیں کہ فقہا نے سدِ وسائل کے خیال سے اس بارے میں تشدد کیا اور یہ تشدد بھی بابِ قضا سے تھا، نہ کہ بابِ تشریع سے۔

    (ابوالکلام آزاد کی مشہور تصنیف غبارِ خاطر سے ایک ٹکڑا)