Tag: ہندوستانی گلوکار

  • گرامو فون پر نغمہ ریکارڈ کروانے والی پہلی ہندوستانی گوہر جان کا تذکرہ

    گرامو فون پر نغمہ ریکارڈ کروانے والی پہلی ہندوستانی گوہر جان کا تذکرہ

    بیسویں صدی کے اوائل میں جب گرامو فون ریکارڈ تیار کرنے والی کمپنیاں‌ ایشیائی ممالک کی طرف متوجہ ہوئیں اور مقامی گلوکاروں‌ کی آوازیں ریکارڈ کرنے کا سلسلہ شروع کیا گیا تو گوہر جان پہلی ہندوستانی مغنّیہ تھیں‌ جنھیں اس مشین پر اپنی آواز ریکارڈ کروانے کا موقع ملا۔ وہ اپنے زمانے کی مشہور کلاسیکی گلوکارہ اور مقبول رقاصہ تھیں جنھوں نے 1930ء میں آج ہی کے دن ہمیشہ کے لیے اپنی آنکھیں موند لی تھیں۔

    1898ء میں جب لندن کی ایک کمپنی نے ہندوستان میں پہلی مرتبہ گرامو فون ریکارڈنگ مہم شروع کی، تو اس کام کے لیے یہاں ایک ایجنٹ کا انتخاب کرتے ہوئے فریڈرک ولیم گیسبرگ نامی ایک ماہر کو بھی کلکتہ بھیجا گیا۔ اس انگریز ماہر نے مختلف شخصیات کی مدد سے ہندوستان میں موسیقی کی محافل اور تھیٹروں تک رسائی حاصل کی اور گلوکاروں کو سنا، تاہم اسے کوئی آواز نہ بھائی، لیکن اس کی یہ کھوج اور بھاگ دوڑ رائیگاں نہیں گئی۔ گوہر جان کی آواز اُن دنوں ہندوستان کے تمام بڑے شہروں میں گونج رہی تھی۔ وہ ہر خاص و عام میں مقبول تھیں۔

    کمپنی کے نمائندے کو گوہر جان کو سننے کا موقع ملا اور اس نے ملاقات کر کے انھیں ریکارڈنگ کی پیش کش کردی جو بامعاوضہ تھی۔ 14 نومبر 1902ء کو کلکتے میں گوہر جان کو ریکارڈنگ کے لیے بلایا گیا۔ اس مغنیہ نے راگ جوگیا میں اپنی آواز کا جادو جگایا۔

    26 جون 1873ء کو اعظم گڑھ میں پیدا ہونے والی گوہر جان کا پیدائشی نام انجلینا یووارڈ تھا، اور وہ ایک برطانوی کی اولاد تھی، لیکن اس کی ماں وکٹوریہ ہیمنگز جو ایک کلاسیکی رقاصہ اور گلوکارہ تھی، اس نے بعد شوہر سے طلاق کے بعد جب ایک مسلمان سے شادی کی تو اسلام قبول کرلیا اور اپنی بیٹی انجلینا کو گوہر جان کا نام دے دیا۔

    انھوں نے استاد کالے خان، استاد وزیر خان اور استاد علی بخش جرنیل سے رقص اور موسیقی کی تربیت حاصل کی اور کتھک رقص کے ساتھ ساتھ غزل، ٹھمری، کجری، ترانہ اور دادرا کی اصناف پر عبور حاصل کیا۔ 1911ء میں انھیں دہلی دربار میں جارج پنجم کی تاج پوشی کے موقع پر نغمہ سرا ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہوا۔

    کہتے ہیں کہ گرامو فون ریکارڈنگ کے لیے گوہر جان صبح 9 بجے زیورات سے لدی پھندی اپنے سازندوں کے ساتھ ہوٹل پہنچی تھیں جہاں‌ انھیں‌ بلایا گیا تھا۔ یہ تین منٹ کی ریکارڈنگ تھی جو گوہر جان اور ان کے سازندوں کے لیے ایک نہایت اہم اور یادگار موقع تھا۔ ریکارڈ پر لیبل لگانے میں آسانی کی غرض سے اور محفوظ کی گئی آواز کی شناخت کے لیے انگریزی زبان میں گوہر جان نے مخصوص جملہ ‘مائی نیم از گوہر جان’ بھی ادا کیا تھا۔

  • مائی نیم از گوہر جان….

    مائی نیم از گوہر جان….

    بیسویں صدی کے اوائل میں گرامو فون ریکارڈ تیار کرنے والی کمپنیاں‌ ایشیائی ممالک کی طرف متوجہ ہوئیں اور یہاں‌ کاروبار کی غرض سے فن کاروں‌ کی آوازیں‌ ریکارڈ کرنا شروع کیا۔

    اس دور میں گرامو فون ریکارڈ کا چرچا ہندوستان میں‌ بھی ہورہا تھا اور فن کار اسے بہت اہمیت دے رہے تھے۔

    برطانوی، امریکی، فرانسیسی اور جرمن کمپنیوں نے اسی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے یہاں‌ بھی گرامو فون کو عام کرنے کے لیے مہم کا آغاز کر دیا۔

    1898 کی بات ہے جب لندن کی ایک کمپنی نے ہندوستان میں پہلی مرتبہ گرامو فون ریکارڈنگ مہم شروع کی۔

    اس کام کے لیے یہاں ایک ایجنٹ کا انتخاب کیا گیا جب کہ کمپنی کی جانب سے فریڈرک ولیم گیسبرگ نامی ایک ماہر کو بھی کلکتہ بھیجا گیا۔

    ابتدائی چند ہفتوں کے دوران تو ریکارڈنگ کا سلسلہ چند اینگلو انڈین آوازوں تک محدود رہا اور کسی ہندوستانی آرٹسٹ کی آواز ریکارڈ نہیں کی جاسکی، لیکن اس انگریز ماہر نے مختلف مقامی شخصیات کی مدد سے موسیقی کی محافل اور تھیٹروں تک رسائی حاصل کی اور گلوکاروں کو سنا، تاہم اسے کوئی آواز نہ بھائی۔ یوں کہیے کہ وہ ریکارڈنگ کے لیے کسی فن کار کا انتخاب نہ کرسکا، مگر اس کی یہ کھوج اور بھاگ دوڑ رائیگاں نہیں گئی۔

    گوہر جان کی آواز اُن دنوں ہندوستان کے تمام بڑے شہروں میں گونج رہی تھی۔ وہ ہر خاص و عام میں مقبول تھیں۔ اتفاق سے گرامو فون کے اس ماہر اور کمپنی کے نمائندے کو گوہر جان کو سننے کا موقع مل گیا اور اس نے ملاقات کر کے انھیں فوراً ریکارڈنگ کی پیش کش کر دی۔ اس کے لیے گلوکارہ سے مالی معاملات طے کیے گئے اور 14 نومبر 1902 کو کلکتے میں انھیں ریکارڈنگ کے لیے بلا لیا گیا۔

    گوہر جان نے راگ جوگیا میں اپنی آواز کا جادو جگایا۔ کہتے ہیں اس ریکارڈنگ کے لیے وہ صبح 9 بجے خوب تیار ہو کر، زیورات سے لدی پھندی اپنے سازندوں کے ساتھ ہوٹل پہنچ گئیں۔ اس ریکارڈ کا دورانیہ تین منٹ تھا۔ گوہر جان اور سازندوں کے لیے وہ نہایت اہم اور یادگار دن تھا۔

    اس زمانے میں کسی ریکارڈ کو محفوظ کرتے ہوئے اس پر لیبل لگانے میں آسانی کی غرض سے گائیک کو ہدایت کی جاتی کہ اختتام پر انگریزی زبان میں ایک جملہ ادا کر دے۔ گوہر جان کو بھی یہی ہدایت کی گئی اور انھوں نے بھی اپنی ریکارڈنگ کے اختتام پر چند سیکنڈز کے توقف سے کہا۔

    مائی نیم از گوہر جان

    یہی وہ جملہ تھا جس کی ہدایت کی جاتی تھی اور اس کی مدد سے ریکارڈ‌ میں‌ محفوظ آواز کی شناخت ممکن ہوتی تھی۔

    گوہر جان ہندوستان کی پہلی گلوکارہ تھیں جنھوں نے گرامو فون پر اپنی آواز ریکارڈ کروائی تھی۔