Tag: ہندوستان کی تاریخ

  • الیگزینڈر برنس: افغان تاجر کے روپ میں جاسوسی کرنے والا انگریز افسر

    الیگزینڈر برنس: افغان تاجر کے روپ میں جاسوسی کرنے والا انگریز افسر

    وادیِ مہران میں قدیم دور سے تہذیب اور ثقافت کا سفر جاری ہے۔ یہاں صدیوں سے زندگی رواں دواں ہے اور وہ دریا بھی آج تک بہہ رہا ہے جسے تاریخ کے صفحات میں‌ ہندو، سندھو، سندھ، اٹک یا نیلاب کے نام سے پکارا گیا ہے۔

    دنیا کی قدیم ترین تہذیبیں اسی دریا کے دونوں کناروں پر پروان چڑھیں۔ ہم اسے دریائے سندھ کہتے ہیں۔ مشہور ہے کہ صدیوں قبل سکندرِ اعظم اور ابنِ بطوطہ نے بھی اس دریا کی سیر کی تھی، لیکن الیگزینڈر برنس وہ انگریز جاسوس، محقق، تاریخ نویس اور سیّاح تھا جس نے علمی و تحقیقی مقصد کے لیے دریائے سندھ کی سیر کی اور اسے پہلی بار تحریری طور پر محفوظ کیا۔

    الیگزینڈر برنس ایسٹ انڈیا کمپنی کا ایک افسر تھا جسے ہندوستان کی تاریخ میں جاسوس کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔ وہ اسکاٹ لینڈ کا باسی تھا۔ اس نے 1805ء میں ’مونٹروس‘ شہر میں آنکھ کھولی۔ الیگزینڈر برنس نے ابتدائی تعلیم مکمل کرنے کے بعد نوجوانی میں برطانوی کمپنی کی ملازمت اختیار کی اور اسے بمبئی بھیج دیا گیا۔ ابتدائی طور پر اسے ہندوستان کے ساحلی شہر سورت میں ہندی زبان کا ترجمان مقرر کیا گیا تھا۔

    وہ ذہین، قابل اور زبانیں‌ سیکھنے کا شوقین تھا۔ اس نے ہندوستان میں جلد فارسی سیکھ لی بلکہ اس پر عبور حاصل کر لیا۔ اس کام یابی نے برنس کو عدالت میں فارسی سے دستاویز کا مترجم مقرر کروایا۔ کمپنی نے الیگزینڈر برنس کی صلاحیتوں کو دیکھتے ہوئے اسے ’ڈپٹی اسسٹنٹ کوارٹر ماسٹر جنرل‘ کے عہدے پر فائز کردیا۔ اس وقت وہ صرف 21 سال کا تھا۔ اسی زمانے میں‌ اس نے ہندی کے علاوہ بھی کئی مشرقی زبانیں لکھنے، پڑھنے اور بولنے میں مہارت حاصل کرلی تھی۔

    1831ء میں اس نے کمپنی کی جانب سے دریائے سندھ کے داخلی راستوں کا سروے مکمل کیا تھا۔ برنس نے اس کام کے لیے اس وقت کے تالپور حکم راں اور کمپنی سے دریائے سندھ میں سفر کرنے کی اجازت لی تھی۔ اس سروے کے دوران الیگزینڈر برنس نے بحیثیت تاریخ نویس بھی اپنے مقاصد کو مدِ نظر رکھا اور دریا کے بہاؤ کے بالکل اختتامی علاقوں کے نقشے بھی مرتب کیے۔ وہ اس سفر کو مکمل کر کے 1831ء میں لاہور پہنچا تھا اور بہت خوش تھا، کیوں کہ اس نے سرکاری کام ہی مکمل نہیں‌ کیا تھا بلکہ ایک تاریخی اور سیاحتی مقصد بھی پورا ہوگیا تھا۔ اس نے اپنی سروے رپورٹ جمع کروائی، جس میں سندھ سمیت پورے ہندوستان کی مکمل رپورٹ مع نقشہ جات شامل تھی۔ کہتے ہیں یہ رپورٹ ایسٹ انڈیا کمپنی کے ہندوستان پر قبضہ کرنے کی غرض پوری کرنے میں‌ بہت مددگار ثابت ہوئی۔

    اس کے ایک برس بعد وہ 1832ء اسے افغانستان کا مشن سونپا گیا جس میں اسے انتہائی خطرناک علاقوں کا سروے جو حقیقتاً‌ کمپنی کے لیے ”جاسوسی“ تھا، کا کام انجام دینا تھا۔ اسے محتاط اور غیر محسوس طریقے سے اپنا کام انجام دینے کے لیے تیّار کیا گیا تھا، کیوں کہ ان علاقوں میں کمپنی اور انگریزوں کے لیے بہت خطرہ تھا اور وہاں بغاوت کی فضا تھی۔

    الیگزینڈر برنس نے اس کام کے لیے بھیس بدل لیا اور افغان تاجر کا روپ میں روانہ ہوا۔ وہ فارسی اور چند مقامی زبانیں‌ جانتا تھا جس کے بعد اس نے حلیہ ہی نہیں عادات و اطوار بھی افغان شہری جیسی اپنا لیں۔ وہ اس کی مشق کرتا رہا اور اپنے اس سفر میں بنگالی فوج کے ایک سرجن ’سر جیمس جیراڈ‘ کو بھی شریک کرلیا۔ برنس کو اس وقت رنجیت سنگھ کی جانب سے فوجی دستے دیے گئے تھے جن کے ساتھ وہ پشاور، جلال آباد اور کابل سے ہوتے ہوئے، لکھنؤ اور بخارا تک جا پہنچا اور کام یابی سے اپنا کام انجام دیتے ہوئے بمبئی لوٹ آیا۔ اس پورے سفر کی سروے رپورٹ اور تمام تحقیقی کام ”دی نیویگیشن آف دی انڈس اینڈ جرنی بائی بلخ اینڈ بخارا“ کے نام سے کمپنی نے شایع کروایا اور اس کے فرانسیسی اور جرمن زبانوں میں تراجم بھی کرائے گئے۔

    برنس کے اس کام کی انگلستان میں بھی بہت پذیرائی ہوئی۔ اسے ہندوستان میں اہم فوجی ذمہ داریاں نبھانے کو دی گئیں اور اس نے لیفٹیننٹ کرنل کے عہدے پر ترقی پائی۔ لیکن اب وہ ایک جاسوس مشہور ہو چکا تھا اور افغانستان کے باغی گروہ موقع کی تلاش میں تھے جب اس سے بدلہ چکا سکیں۔ وہ کابل میں‌ رہائش پذیر تھا جہاں اس کی حفاظت کا بھی انتظام کیا گیا تھا۔

    2 نومبر 1841ء کو باغی افغانوں نے کابل میں اس کی رہائش گاہ پر دھاوا بول دیا، اور الیگزینڈر برنس، اس کے اہلِ خانہ اور دیگر انگریز افسران کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ برنس کے گھر کو جلا کر راکھ کر دیا گیا۔ یوں افغانوں نے ایسٹ انڈیا کمپنی اور انگریزوں‌ سے بدلہ لے لیا۔

    الیگزینڈر برنس کو اس وقت کے ہندوستان اور پورے خطّے میں انگریزوں کا جاسوس ہی لکھا اور کہا جاتا ہے، لیکن وہ پہلا تاریخ نویس ہے جس نے دریائے سندھ کی سیر کو تحریری شکل میں محفوظ کیا اور اس سے متعلق معلومات و حقائق کو تفصیل سے بیان کیا ہے۔

  • جدوجہدِ آزادی: ہندوستان میں جداگانہ مسلم تشخّص اور تحریکِ پاکستان

    جدوجہدِ آزادی: ہندوستان میں جداگانہ مسلم تشخّص اور تحریکِ پاکستان

    مسلمانوں کے ساتھ ساتھ صدیوں تک ہندوستان میں‌ ہر مذہب کے ماننے والے اسلامی احکامات، علما اور بزرگانِ دین کی تعلیمات اور صوفیائے کرام کے پیار و محبّت کے درس کی بدولت امن و سکون سے زندگی بسر کرتے رہے، لیکن انگریزوں کی آمد کے بعد جب اس اتحاد و اتفاق اور یگانگت نے دم توڑا تو ہندوستان بھی تقسیم ہوگیا۔

    برصغیر اور مسلم ہند کی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو سب سے نمایاں اور اہم بات یہ سامنے آتی ہے کہ یہاں مسلم قومیت کا تصوّر پہلے سے موجود تھا۔ جب ہندوؤں نے انگریزوں سے گٹھ جوڑ کرکے مسلمانوں کو سیاست و سماج، تعلیم و معیشت غرض ہر شعبے میں پیچھے رکھنے کی کوششیں شروع کیں اور مسلمانوں میں‌ احساس محرومی پیدا کرنے کے ساتھ مذہبی تفریق اور نفرت پھیلا کر ہندوستان پر حکومت کرنے کا خواب دیکھنے لگے جس نے جداگانہ تشخّص کو برقرار رکھنے کے تصّور کو تقویت دی اور تحریکِ پاکستان کا سفر شروع ہوا۔

    تحریکِ پاکستان کے یوں کئی عوامل ہیں، لیکن یہاں ہم اس حوالے سے چند بنیادی اور نمایاں پہلوؤں کا جائزہ لیتے ہیں۔

    جداگانہ تشخص اور تحریکِ پاکستان
    تحریکِ پاکستان کا ایک وسیع پس منظر ہے جسے جاننے کے بعد یہ کہنا مشکل نہیں کہ مسلمانوں میں جداگانہ تشخص اور علیحدہ وطن کی خواہش نے متعصب اور انتہا پسند ہندوؤں کی وجہ سے جنم لیا اور حالات کو بگاڑتے ہوئے مسلمان قیادت کو اس مقام پر پہنچا دیا جہاں انھوں نے اسلامیانِ ہند کے لیے الگ ریاست کی تشکیل کا مطالبہ کیا اور اس کے لیے ہر محاذ پر انگریزوں اور متعصب ہندوؤں کا مقابلہ کیا۔ 1920ء کے بعد جو حالات پیدا کردیے گئے تھے، ان کا بغور جائزہ لیا جائے تو عیاں ہوتا ہے کہ مسلمان انگریزوں اور ہندوؤں کی سازشوں کے سبب اکٹھے نہیں رہ سکتے تھے۔

    حالات میں بگاڑ اور ہندوؤں کا انگریزوں سے گٹھ جوڑ
    جنگِ بلقان کے دوران 1913ء میں کانپور میں مچھلی بازار کی مسجد کا بیرونی حصہ شہید کر دیا گیا جس سے مذہبی جذبات بُری طرح مجروح ہوئے ، اور مسلمانوں کو یہ احساس ہوگیا کہ برطانوی حکومت نے مسلمانوں کو مذہبی اور سماجی اعتبار سے پامال کرنے کا تہیہ کر لیا ہے، چناں چہ سانحہ کانپور سے اسلامیانِ ہند کی سیاست نے ایک نیا رخ اختیار کیا۔

    اس واقعے سے پورے ہندوستان کے مسلمانوں میں انگریزوں کے خلاف
    غم و غصہ پیدا ہوا اور ہر طرف ہلچل مچ گئی۔ مولانا ظفر علی خان، مولانا محمد علی جوہر، مولانا ابوالکلام آزاد جیسے راہ نماؤں اور اکابرین نے بالترتیب لاہور سے ’’زمیندار‘‘، دہلی سے ’’کامریڈ‘‘ اور کلکتہ سے ’’الہلا ل‘‘ نامی اخبارات جاری اور مسلمانوں کا مؤقف سامنے رکھتے ہوئے انگریز سرکار کی پالیسیوں پر تنقید کی۔ دیگر مسلم زعماء مثلا ًمولانا عبدالباری فرنگی ، محلی، مولانا آزاد سبحانی ، مولانا شوکت علی وغیرہ نے ایسے واقعات کو انگریزوں کی مسلم دشمن پالیسی قرار دے کر کڑی نکتہ چینی کی۔

    اسی واقعے کے بعد جب مسلمانوں پر فائرنگ اور مسلم راہ نماؤں کی گرفتاریاں شروع ہوئیں تو ان راہ نماؤں نے شدید احتجاج کیا جس سے مسلمانوں میں ملّی بیداری اور عملی سیاست میں حصّہ لینے کی سوچ کو تقویت پہنچی۔

    ہندو مسلم فسادات
    1920ء کے بعد ہندوستان میں انگریز سرکار کی مسلم دشمن پالیسیوں اور ہندوؤں سے گٹھ جوڑ کر کے نقصان پہنچانے کا جو سلسلہ شروع ہوا وہ نہ صرف برطانوی دور کی بدترین یاد ہے بلکہ مسلسل فسادات نے ایک خونیں تاریخ رقم کی۔ اس عشرے میں ہندو مسلم فسادات کی تاریخ میں ایک نئے اور سنگین باب کا اضافہ ہوا اور ہندو مسلم اتحاد کے لیے ماضی میں کی جانے والی تمام کوششیں برباد ہوگئیں۔ مسلمانوں پر عیاں ہوگیا کہ انگریز اور ہندو ان کے بدترین دشمن ہیں اور وقت گزرنے کے ساتھ ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان ایک ایسی خلیج حائل ہوگئی جسے پاٹنا ممکن نہ تھا۔

    محمد علی جناح اور ہندو مسلم اتحاد کی کوششیں
    محمد علی جناح جو اس وقت ہندو مسلم اتحاد کے ایک سفیر اور اہم راہ نما تھے، وہ بھی حالات سے دل گرفتہ نظر آئے۔ اسی عشرہ میں اتحاد و اتفاق بڑھانے اور انگریزوں سے ہندوستان کو آزاد کرانے کے حوالے سے کانفرنسیں بھی ہوئیں اور ہندو مسلم مفاہمت کے لیے کئی تجاویز سامنے آئیں جن میں قائد اعظم کے ایما پر دہلی تجاویز اہم ترین تھیں۔ یہ تجاویز 1937 میں مسلم زعما کے ایک اجلاس میں مرتب کی گئی تھیں، مگر آل انڈیا نیشنل کانگریس نے گاندھی اور نہرو کی سرکردگی میں ان مطالبات پر غور کیا اور اپنے ابتدائی اجلاس میں تسلیم بھی کرلیا لیکن بعد میں چند متعصب ہندوؤں کے زیرِ اثر ان میں سے چند مطالبات کو رد کر دیا گیا۔

    کانگریس کی چالیں اور مسلمانوں کو کم زور کرنے کی سازشیں
    اس کے بعد جب نہرو رپورٹ سامنے آئی جو کانگریس نے ہندوستان کے آئین کی حیثیت سے تیار کی تھی، ان میں بھی مسلم حقوق کو پامال کیا گیا تھا۔ یہی نہیں بلکہ دسمبر 1928ء اور جنوری 1929ء میں جب نہرو رپورٹ کو حتمی شکل دینے کے لیے کلکتہ میں نیشنل کنونشن منعقد ہوا تواس میں بھی محمد علی جناح کے تین بنیادی مطالبات کو مسترد کر دیا گیا۔

    ہندو انڈیا اور مسلم انڈیا
    محمد علی جناح اور ان ساتھیوں کے لیے یہ ایک انتہائی مایوس کن اور چونکا دینے والی صورت حال تھی۔ محمد علی جناح نے اپنے پارسی دوست جمشید نسروانجی سے کہا کہ’’آج ہندو انڈیا اور مسلم انڈیا اس طرح جدا ہو گئے ہیں کہ اب کبھی متحد نہیں ہو سکیں گے۔‘‘

    اس رپورٹ کے بعد اس وقت مختلف معاملات پر گروہ بندی اور اختلافات کی وجہ سے دور ہو جانے والے مسلمان راہ نماؤں کو بھی جب کانگریس کی مسلم دشمنی کا یقین ہوگیا تو وہ سب متحد ہوگئے۔

    مسلمان قیادت کا اتحاد اور آل پارٹیز مسلم کانفرنس
    جنوری 1929ء میں آل پارٹیز مسلم کانفرنس اسی اتحاد کا مظہر ہے۔ اس کانفرنس کا اجلاس دہلی میں ہوا جس کی صدارت سر سلطان محمد آغا خان نے کی۔ اس کانفرنس میں نہ صرف میاں محمد شفیع اور سر شفاعت احمد خان پیش پیش تھے بلکہ ترک موالات اور تحریک خلافت کے راہ نما مولانا محمد علی جوہر، مولانا شوکت علی اور حسرت موہانی جیسے جید علما اور سیاست دانوں نے بھی اس میں اہم کردار اداکیا۔

    قائدِ اعظم کے 14 نکات
    ان واقعات کی روشنی میں محمد علی جناح نے 1929ء میں اپنے مشہور چودہ نکات پیش کیے اور اسے برصغیر کی تاریخ میں اسلامیانِ ہند کے منشور کی حیثیت حاصل ہوئی۔ بعد کے برسوں میں مسلم لیگ اور محمد علی جناح کی قیادت میں مختلف مسلم جماعتوں کے اتحاد کی کوششیں جاری رہیں اور لندن میں تین گول میز کانفرنسیں منعقد ہوئیں جس کے بعد ایک مشترکہ پارلیمانی کمیٹی کی سفارشات کی روشنی میں گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1935ء مرتب کیا گیا۔

    انتخابات اور کانگریس کی غیر متوقع کام یابی
    1906ء سے 1938ء تک ہندو مسلم مفاہمت کی کوششیں اور اس ضمن میں تجاویز مسلمانوں کی ہی جانب سے پیش کی جاتی رہی تھیں لیکن کانگریس اور ہندوؤں کی جانب سے منفی رویہ اور غیر ذمہ داری کا مظاہرہ دیکھا گیا جس نے 1937ء کے انتخابات کے بعد شدت اختیار کرلی۔ انتخابات سے قبل قوی امید تھی کہ کانگریس اور مسلم لیگ میں مفاہمت ہو جائے گی اور دونوں جماعتیں مل کر مخلوط وزارتیں قائم کریں گی، لیکن انتخابات میں کانگریس کی غیر متوقع کام یابی کے بعد طاقت کے نشے میں بدمست کانگریس نے کچھ اور ہی منصوبہ بنا لیا۔

    کانگریس کے متعصب اور مفاد پرست ہندو راہ نماؤں نے دوسری تمام پارٹیوں کو اپنے اندر ضم کرکے ہندوستان کی واحد سیاسی جماعت بن جانے کا سوچا اور مخلوط وزارتوں کے بارے میں مسلم لیگ کی پیش کش کو ٹھکرا دیا، یہی نہیں جن ہندو اکثریتی صوبوں میں کانگریسی وزارتیں قائم ہوئیں وہاں مسلمانوں کو ان کے حقوق سے محروم کردیا۔

    کانگریس کی پالیسیاں اور مسلم کش اقدامات
    سیاسی طاقت کے حصول کے بعد کانگریس کی جانب سے ایک سوچی سمجھی پالیسی کے تحت یکے بعد دیگرے مسلم کش اقدامات کیے جن میں بندے ماترم کو قومی ترانہ کی حیثیت دینا، تمام سرکاری عمارتوں پر کانگریس کے پرچم کو قومی پرچم کی حیثیت سے لہرانا، اردو کی جگہ ہندی زبان، گائے کو ذبح کرنے پر پابندی، ملازمتوں میں مسلمانوں کو ان کے مخصوص اور مقررہ حقوق سے محروم کرنا۔

    آل انڈیا مسلم لیگ کی مقبولیت
    مسلم قیادت اور اکابرین نے یہ سب دیکھتے ہوئے مسلمانوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنے کی غرض سے قائدِ اعظم کے ساتھ 1934ء میں‌ کوششوں کا آغاز کیا اور جب مسلم لیگ کا اجلاس لکھنؤ میں 1937ء میں ہوا تو اس نے ہندوستان بھر میں مسلمانوں کو ایک ایسے جوش وجذبہ سے سرشارکردیا جس کی اس سے پہلے کوئی نظیر نہیں ملتی۔ اس اجلاس کے صرف تین ماہ بعد ہی مسلم لیگ کی نئی شاخیں قائم ہونے لگیں اور رکنیت سازی زوروں پر تھی۔

    محمد علی جناح کی حکمت عملی، صبر و تحمل اور سیاسی بصیرت کے باوصف تحریک کام یاب ہوتی چلی گئی اور ہندوستان بھر میں ترقی کی اور بڑے صوبوں میں اسلامیانِ ہند کے کام یاب ترین اجلاس منعقد ہوئے۔ مسلم لیگ کی روز افزوں قوّت اور مقبولیت بڑھنے کا اندازہ ضمنی انتخابات کے نتائج سے بھی ہوتا ہے جس نے سیاسی طور پر مسلمانوں کو بہت فائدہ پہنچایا۔ مسلم لیگ کی مقبولیت کا ایک ثبوت 1939ء میں یومَِ نجات منانے کی جناح صاحب کی اپیل تھی جس پر برصغیر کے مسلمانوں نے والہانہ انداز اور جوش و جذبے سے لبیک کہا۔

    مسلم قومیت کا فروغ اور علیحدہ ریاست کا قیام
    وہ وقت بھی آیا جب قائداعظم نے الگ مسلم قومی تشخص کی اس طرح توضیح اور تشریح کی کہ مسلم اکثریتی صوبوں میں ایک علیحدہ مملکت کے قیام پر سب رضامند ہوگئے۔ چنانچہ قائداعظم کی زیرِ قیادت مسلم لیگ نے لاہور میں 1940ء میں منعقدہ اجلاس میں ایک علیحدہ مسلم ریاست کے قیام کو اپنا نصب العین قرار دے دیا جو بعد میں پاکستان کے نام سے مشہور ہوا۔

    یہ پہلا موقع تھا جب اسلامیانِ ہند نے اتنے واضح اور مدلل انداز میں اپنی منفرد اور علیحدہ قومیت کا نہ صرف اعلان اور دعویٰ کیا بلکہ برصغیر میں ایک علیحدہ وطن کی تشکیل پر بھی زور دیا اور 14 اگست 1947ء میں لاکھوں جانوں کی قربانیاں دے کر مسلمانوں نے پاکستان حاصل کیا۔

  • کُشان کون تھے، کہاں‌ سے آئے تھے؟

    کُشان کون تھے، کہاں‌ سے آئے تھے؟

    ہندوستان میں زیادہ تر غیر ملکی قوموں کے قبیلے وسطی ایشیا سے آئے تھے جو سبھی ستیھین تھے۔ کچھ سیتھین قبیلے بکٹریا کی طرف اور کچھ مغرب میں پرتھیا کی طرف چلے گئے جب کہ زیادہ تر درّۂ دانیال سے ہو کر شمالی ہند میں پنجاب اور راجپوتانا کے میدانوں میں بس گئے۔

    اسی طرح سیتھین قبیلوں نے شمال کے بعد مغرب سے بھی دراوڑوں، بھیلوں اور سنتھال وغیرہ کو کھدیڑ کر ان کے ٹھکانوں پر اپنا قبضہ جما لیا اور بعد میں پورے ہندوستان میں پھیل گئے۔

    سیتھین قبیلوں میں شک اور شکوں کی اولادوں میں ’’کُشان‘‘ مشہور حکم راں ہوئے۔

    شمال مغربی چین میں’’یوہ چی‘‘ نام کی برادری کے کئی قبیلے تھے جنھوں نے وسط ایشیا کے مشرقی حصے پر قبضہ کر لیا تھا۔

    پہلی صدی قبلِ مسیح کے آخر تک اس برادری کے ایک طاقت ور قبیلے’’کشان‘‘ نے اپنی برادری کے بقیہ قبیلوں کو شکست دے کر ان پر اپنا قبضہ (بالا دستی) جمالیا۔ اس کے بعد پوری برادری کا نام ہی’’کُشان‘‘ پڑ گیا۔

    کُشان نسل کے لوگوں نے وسطی اشیا میں کاشغر اور کھیتان سے لے کر ہندوستان کے شمال مغرب میں پرتھیا اور بکٹریا پر قبضہ کر کے سندھ، پنجاب اور شمالی ہند میں کاشی تک اپنی حکومت پھیلا دی۔

    کشان شاہی گھرانے کا پہلا شہنشا ہ کڈ فائسِس اوّل تھا اور دوسرا بیٹا بِیم کڈ فائسِس دوم تھا۔ اس نسل کا تیسرا شہنشاہ کَنِشک ہندوستان کے کشان حکم رانوں میں سب سے زیادہ مشہور ہوا۔ وہ بودھ مذہب کا پیرو تھا۔ ہندوستان میں اس کی حکومت کشمیر، پنجاب، سندھ و موجودہ اتر پردیش کے مغرب سے کاشی اور پاٹلی پُتر تک پھیلی ہوئی تھی۔ جس میں شمالی ہند کا سنبھل علاقہ بھی شامل تھا۔

    اس کے علاوہ افغانستان، بکٹریا اور وسطی ایشیا کے یار قند، تاشقند، کاشغر اور کھیتان بھی اس کی ریاست میں ملے ہوئے تھے۔ کَنِشک کی راجدھانی پورُشپور (موجودہ پشاور) تھی۔ کَنِشک نے تقریباً 45 سال حکومت کی۔

    (ہندوستان میں بیرونی اقوام کی آمد، از پرنسپل ایم۔ عثمان، اقتباسات)

  • دربارِ اکبری وہ تصنیف جس پر مولانا آزاد "اکبر پرست” مشہور ہوگئے

    دربارِ اکبری وہ تصنیف جس پر مولانا آزاد "اکبر پرست” مشہور ہوگئے

    دربارِ اکبری اردو کے نام وَر ادیب، انشا پرداز اور شاعر محمد حسین آزاد کی تصنیف ہے جس میں انھوں شہنشاہ اکبرِ اعظم کی زندگی، دربار کے حالات، اراکینِ سلطنت کا احوال اور اُس زمانے کی تہذیب و ثقافت کو نقش کیا ہے۔

    یہ کتاب آزاد کے سحر انگیز اسلوب کا خوب صورت نمونہ ہے۔ دربارِ اکبری کی اشاعت کے بعد آزاد پر سخت نکتہ چینی کی گئی اور کتاب پر کڑی تنقید ہوئی۔ اس زمانے کے محققین نے اس تصنیف کو آزاد کی اکبر پرستی کا ثبوت بھی کہا ہے۔

    اس کتاب میں شامل مولانا محمد حسین آزاد کے قلم سے نکلا ہوا ایک پارہ یہاں‌ نقل کیا جارہا ہے۔

    وہ لکھتے ہیں: "میرے باکمال دوستو۔ میں نے خود دیکھا اور اکثر دیکھا کہ بے لیاقت شیطان جب حریف کی لیاقت اپنی طاقت سے باہر دیکھتے ہیں تو اپنا جتھا بڑھانے کو مذہب کا جھگڑا بیچ میں ڈال دیتے ہیں، کیوں کہ اس میں فقط دشمنی ہی نہیں بڑھتی بلکہ کیسا ہی بالیاقت حریف ہو اس کی جمعیت ٹوٹ جاتی ہے اور ان شیطانوں کی جمعیت بڑھ جاتی ہے۔

    دنیا میں ایسے نافہم بے خبر بہت ہیں کہ بات تو نہیں سمجھتے، مذہب کا نام آیا اور آپے سے باہر ہو گئے۔ بھلا دنیا کے معاملات میں مذہب کا کیا کام؟ ہم سب ایک ہی منزلِ مقصود کے مسافر ہیں۔ اتفاقاً گزر گاہ دنیا میں یکجا ہو گئے ہیں۔ رستہ کا ساتھ ہے۔ بنا بنایا کارواں چلا جاتا ہے۔

    اتفاق اور ملن ساری کے ساتھ چلو گے۔ مل جل کر چلو گے۔ ایک دوسرے کا بوجھ اٹھاتے چلو گے۔ ہم دردی سے کام بٹاتے چلو گے تو ہنستے کھیلتے رستہ کٹ جائے گا۔

    اگر ایسا نہ کرو گے اور ان جھگڑالوؤں کے جھگڑے تم بھی پیدا کرو گے تو نقصان اٹھائو گے۔ آپ بھی تکلیف پاؤ گے۔ ساتھیوں کو بھی تکلیف دو گے۔ جو مزے کی زندگی خدا نے دی ہے، بدمزہ ہو جائے گی۔”

    اکبر کی شخصیت، خاص طور پر اس کے مذہبی عقائد، اس دور کی ثقافت اور مولانا کی تصنیف کے حق و رد میں متعدد کتب سامنے آئیں‌ جن میں محققین نے اپنی رائے اور‌ اپنے مؤقف کے حق میں دلائل پیش کیے ہیں، لیکن آزاد کی علمیت اور قابلیت، ان کی قلمی کاوشوں اور ان کے خلوصِ فکر سے کسی کو انکار نہیں۔

  • جزائرِ ہند کے بے رحم یورپی تاجر

    جزائرِ ہند کے بے رحم یورپی تاجر

    سولھویں صدی کے اخیر میں ہالینڈ کے بہادر جہاز رانوں کو بھی یہ امنگ ہوئی کہ ایک عرصے سے پرتگیز ہند کی تجارت سے مالا مال ہو رہے ہیں، آئو اب ہم بھی وہاں چلیں اور اُس ملک کی تجارت سے ہاتھ رنگیں۔

    یہ دُھن باندھ کر وہ ہند کی طرف آئے اور پچاس برس کے عرصے میں انہوں نے پرتگیزوں سے کئی بستیاں چھین لیں اور یا تو پرتگیز ہند کے ساحلِ بحر پر حکم راں تھے یا اب اہلِ ہالینڈ کا بحری اقتدار سب پر غالب ہو گیا۔

    بنگالے میں جو چنسرا نام کا ایک مقام ہے، وہ ان لوگوں کی حکومت کا صدر تھا۔ مگر اُن کی حکومت کو بہت عرصہ نہیں گزرا تھا کہ اُن کو ایک ایسی ہم سَر قوم سے آکر مقابلہ پڑا جو اہلِ پرتگال سے کہیں زیادہ زبردست تھی۔ یعنی اب ان کی اہلِ انگلستان سے مڈ بھیڑ ہوئی۔ کیوں کہ کچھ عرصے سے انگریز بھی ہند میں اپنے قدم جمانے لگے تھے۔

    ولندیز ہی یورپ کی پہلی قوم تھی جو پرتگیزوں کی تجارت میں مخل ہوئی۔ سولھویں صدی میں برگس اینٹ ورپ اور ایم سٹرڈم میں ہندوستان کی پیداوار زیادہ تر جایا کرتی تھی اور جرمن اور انگریز اسے خرید لے جاتے تھے۔ ولندیزوں نے بھی یورپ اور ایشیا کے شمالی کنارے کے برابر برابر ہند کا بحری راستہ دریافت کیا۔

    ولیم بارنٹس تین دفعہ اس کام کے لیے روانہ ہوا مگر آخری بار راستے ہی میں مر گیا۔ پہلا ولندیز جو راس امید کے گرد ہو کر ہندوستان میں آیا، کارنیلس ہوئیمن تھا۔ ہالینڈ کے بہت سے شہروں میں تجارت کی کمپنیاں فوراً ہی بن گئیں اور پھر سب مل کر ایک ہو گئیں۔ 1619ء میں ولندیزوں نے جاوا میں شہر بیٹویا کی بنیاد ڈالی۔ ان کی بڑی تجارت کی کوٹھی امبونا میں تھی۔

    سترھویں صدی میں ولندیزوں کی بحری طاقت دنیا میں سب سے بڑھی ہوئی تھی۔ 1623ء میں انہوں نے بہت سے انگریزوں کو قتل کر ڈالا۔ چند ایک ہندوستان سے بھاگ آئے اور ہند میں سلطنتِ انگریزی قائم کرنے کا سبب ہوئے۔ ولیم آف اورمینج کے بادشاہِ انگلستان ہو جانے سے انگریزوں اور ولندیزوں میں لڑائیاں کم ہوئیں۔

    ولندیز کچھ عرصے تک بے خوف و خطر جزائرِ ہند میں حکم راں رہے اور انہوں نے پرتگیزوں کو چُن چُن کر وہاں سے نکالا۔

    ولندیزوں کا عروج کچھ بہت عرصے تک نہیں رہا۔ اُن کے زوال کا باعث اُن کی تجارت ہی ہوئی۔ تجارت زیادہ تر مسالوں ہی کی ہوا کرتی تھی اور وہ بھی بغیر کسی اصول کے، وہ اپنے ہم سَروں پر بڑی بے رحمیاں کیا کرتے تھے اور شائستگی بالکل نہ پھیلاتے تھے۔

    رابرٹ کلابو نے اُن کو بڑا ضعف پہنچایا۔ جب اُس نے چنسرا پر حملہ کیا تو قلعہ کے اندر قید ہونے پر مجبور ہوگئے۔ انگریزوں اور فرانسیسوں کی لڑائی میں انگریزوں نے ولندیزوں کی مشرقی کوٹھیاں چھین لیں۔ زمانہ حال میں ولندیز ہندوستان میں کسی جگہ کے حاکم نہیں ہیں، مگر چنسرا اور ناگ پٹن کے مکانات کی وضع اور ساحل کارومنڈل اور ملیبار کے بندرگاہوں کی چھوٹی چھوٹی نہریں اُن کی یاد کو تازہ کرتی رہتی ہیں۔

    (علامہ اقبال اور لالہ رام پرشاد کی کتاب تاریخِ ہند سے انتخاب)

  • مغل بادشاہوں کو قابل، ماہر اور وفادار لوگ کیسے ملے؟

    مغل بادشاہوں کو قابل، ماہر اور وفادار لوگ کیسے ملے؟

    منصب فارسی زبان کا لفظ ہے جو عہدہ، حیثیت اور رتبہ کے معنٰی پر دلالت کرتا ہے۔ منصب کی اصطلاح دورِ مغلیہ کے سرکاری سلسلۂ مدارج میں اس کے رکھنے والے (منصب دار) کی حیثیت سے دلالت کرتا تھا۔

    منصب بذاتِ خود کوئی عہدہ تعین نہیں کرتا تھا بلکہ منصب دار کی حیثیت کا تعین کرنے کے علاوہ یہ اس کا مشاہرہ بھی طے کرتا تھا اور اس کے ساتھ ساتھ سواروں کی متعینہ تعداد اور گھوڑوں اور ساز و سامان کے مہیا کرنے کی ذمے داری بھی عائد کرتا تھا۔

    اکبر کے عہد میں سب سے چھوٹا منصب دس کا تھا اور سب سے بڑا منصب پانچ ہزار کا تھا جو افراد کے لیے مخصوص تھا۔ قریبی رشتہ کے شہزادوں کے لیے اس سے بھی اونچے منصب ہوتے تھے۔

    شہزادوں کو جو عہدہ ملتا تھا وہ منصب اور منصب دار لفظ کے علاوہ ترکی اور تیول اور تیول دار کے نام سے معروف تھا۔

    بابر کے عہد میں عہدے داروں کے لیے منصب دار کی جگہ وجہ دار لفظ مستعمل تھا لیکن بابر کے بعد مغلیہ عہد میں جس منصبِ نظام کا ارتقا ہوا وہ بابر کے وجہ داری نظام سے مختلف تھا۔

    مغل عہد میں جس منصب داری نظام نے ترقی پائی، وہ ایک نادر اور مخصوص نظام تھا جس کی مثال ہندوستان سے باہر کہیں اور نہیں ملتی۔ منصب داری کے طریقہ کی ابتدا غالباً چنگیز خان نے شروع کی تھی۔

    چنگیز نے اپنی فوج کو اعشاریتی بنیاد پر منظم کیا تھا۔ اس کی فوج میں سب سے چھوٹا دستہ دس سپاہیوں کا تھا اور سب سے بڑا دستہ دس ہزار تھا۔ اس منگلول طریقہ کار نے کسی حد تک دلّی سلطنت کے فوجی نظام کو بھی متاثر کیا تھا کیوں کہ ہم، صدی اور ہزارہ نامی فوجی کے نام سنتے ہیں جو سو اور ایک ہزار سپاہیوں کے کمانڈر ہوتے تھے۔ بہرحال ہمیں باہر اور ہمایوں کے عہد حکومت میں اس نظام کے بارے میں کچھ معلومات نہیں ملتی۔

    جو منصب داری نظام اکبر نے رائج کیا وہ سابق نظام سے کئی نہایت اہم پہلوؤں سے مختلف تھا۔ بہت زیادہ پیچیدہ اور قابلِ انتظام دونوں تھا۔

    مغل منصب داری نظام میں سب منصب دار براہِ راست بادشاہ کے ماتحت تھے۔ خواہ ان کی ماتحتی میں دس سوار ہوں یا پانچ ہزار۔

    منصب داروں میں سبھی ذات کے لوگوں کو ان کی قابلیت اور صلاحیت کے مطابق نمائندگی ملی۔ اس سے مغل بادشاہوں کو قابل، ماہر اور وفادار لوگوں کی برابر خدمات حاصل ہوتی رہیں اور حکومت کے نظم ونسق کو پُراثر رکھنے میں آسانی رہی۔

    (ہندوستان میں‌ مغل دور سے متعلق عظیم الدّین کے تحقیقی مضمون سے اقتباس)

  • "ست پڑا پہاڑ” کے دامن میں آباد "اچل پور” کی کہانی

    "ست پڑا پہاڑ” کے دامن میں آباد "اچل پور” کی کہانی

    شہر اچل پور، جو صوبہ مہا راشٹر کے علاقے ودربھ میں ضم ہوگیا، کبھی سلطنتِ برار کا پایہ تخت ہوا کرتا تھا۔

    "ست پڑا پہاڑ” کے دامن میں بسا یہ شہر ماضی میں شاعروں، ادیبوں، صوفیوں اور فن کاروں کی آماج گاہ رہا ہے۔

    دہلی سے حیدر آباد دکن جانے والے قدیم اور واحد راستے میں واقع اس بستی سے بڑے بڑے بادشاہوں، سورماؤں، سپاہ سالاروں اور بزرگوں کے ساتھ ساتھ اس دور میں چوروں، ڈاکوؤں اور ٹھگوں کا گزر بھی ہوا ہے۔

    گمان غالب ہے کہ برار میں اسلام کی آمد شاہ دولھا رحمٰن غازی ؒ کے معرکۂ جہاد (392ھ بمطابق 1002) سے ہوئی، اچل پور میں عظیم الشّان تاریخی مدرسوں کا قیام عمل میں آیا، اور یہاں مزارات بنے۔ ہندو دیو مالائی داستانوں کی کتابوں میں اس کا نام اچل پور ہی ملتا ہے۔ مختلف ادوار میں اسے اڑس پور، ایلچا پور اور ایلچ پور بھی کہا جاتا رہا ہے۔

    اچل پور کی ادبی تاریخ بھی اپنے اندر بلا کی آب و تاب رکھتی ہے۔ مراٹھی زبان کی پہلی نثر بعنوان ’لیلا چرتر‘ یہیں لکھی گئی۔ جہاں تک اردو شعر و ادب کا سوال ہے یہ شہر ہمیشہ ہی علم و فن کا گہوارہ رہا ہے۔

    ایک وقت تھا جب یہاں پر ملک بھر سے طالب علم اور تشنگانِ ادب اپنی پیاس بجھانے آتے تھے۔ یہاں سیکڑوں کی تعداد میں ادیب و شاعر پیدا ہوتے رہے ہیں جن میں ودربھ کا پہلا اردو نثر نگار حاجی امام الدّین عرف حاجی محمد عبداللہ اور پہلا صاحب دیوان ہندو شاعر انبا پرشاد طرب اسی شہر کی ہواؤں کے پروردہ تھے۔

    (حیدر بیابانی کے مضمون سے خوشہ چینی)