Tag: ہندوستان کی پہلی خاتون حکمران

  • ہندوستان کی پہلی خاتون حکمران کے مزار کی حالت دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے

    ہندوستان کی پہلی خاتون حکمران کے مزار کی حالت دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے

    نئی دہلی: ہندوستان کی پہلی خاتون حکمران کے مزار کی حالت دیکھ کر دل خون کے آنسو رونے لگتا ہے، سلطنت دہلی کی پہلی مسلمان حکمران خاتون رضیہ سلطان کا مزار بھارتی حکومت کی شدید عدم توجہی کا شکار ہے۔

    رضیہ سلطان کا مقبرہ گنجان آبادی میں واقع ہے، مقبرے کی مناسب دیکھ بھال نہ ہونے کی وجہ سے تاریخ کی اس بہادر سلطان کی آخری آرام گاہ کی حالت بے حد خراب ہو چکی ہے، مزار کے گرد گندگی کا انبار لگا رہتا ہے۔

    جلالۃ الدین رضیہ افغان غوري نسل سے تعلق رکھتی تھیں اور کئی دیگر مسلم شہزادیوں کی طرح جنگی تربیت اور انتظام سلطنت کی تربیت بھی حاصل کی تھی، انھوں نے اپنی غیر معمولی صلاحیتوں سے بھارت پر حکمرانی کی، لیکن حکومت کی غفلت کی وجہ سے آج رضیہ سلطان کا مزار گم نامی کے اندھیرے میں دفن ہے۔

    ہندوستان کی تاریخ میں پہلی خاتون حکمران رضیہ سلطان اس دور میں سلطان بنی تھی جب خواتین کو امور خانہ داری تک ہی محدود رکھا جاتا تھا، جب انھوں نے دہلی کی گدی سنبھالنی چاہی تو انھیں عوام نے اپنا حکمران تسلیم کرنے سے ہی انکار کر دیا تھا لیکن انھوں نے ہار نہیں مانی اور کم و بیش 3 برس 6 ماہ اور 6 دن تک حکومت کی۔

    رضیہ سلطان کی پیدائش 14 اکتوبر 1205 کو ریاست اترپردیش کے ضلع بدایوں میں ہوئی تھی جب کہ ان کی وفات کیتھال میں 14 اکتوبر 1240 میں ہوئی تھی، سلطنت دہلی کے خاندان غلاماں کے بادشاہ شمس الدین التمش ان کے والد تھے جنھوں نے اپنے کئی بیٹوں پر ترجیح دیتے ہوئے رضیہ کو اپنا جانشین مقرر کیا۔

    رضیہ سلطان کے سکے

    رضیہ سلطان کا مقبرہ قومی دارالحکومت دہلی کے موجودہ دور کے بلبلی خانہ میں واقع ہے، 1240 میں یہ علاقہ ویران اور صحرا نما ہوا کرتا تھا لیکن آج یہاں گنجان آبادی ہے، نہ تو مقامی لوگ اس کے تحفظ کے لیے کچھ کر رہے ہیں، نہ ہی حکومت کوئی خاطر خواہ قدم اٹھا رہی ہے۔

    آثار قدیمہ کی جانب سے مزار کے اندر ایک جھونپڑی ڈالی گئی ہے جس میں مزار کی دیکھ بھال کے لیے ایک شخص کو مامور کیا گیا ہے لیکن وہ بھی نظر نہیں آتا۔

    مقامی لوگوں نے مزار کی دیواروں پر اپنے گھروں کی دیواریں کھڑی کی ہوئی ہیں، جس سے مزار کی خوب صورتی نہ صرف متاثر ہو رہی ہے بلکہ اس کی اہمیت بھی ختم ہوتی جا رہی ہے۔

    واضح رہے کہ شمس الدین التمش، سلطان قطب الدین ایبک کے ترک غلام تھے، ان کی ہونہاری اور صلاحیتوں کو دیکھتے ہوئے قطب الدین نے انھیں پہلے اپنا داماد اور پھر بہار کا صوبیدار بنایا، 1211 میں التمش نے قطب الدین کے بیٹے آرام شاہ کو تخت سے اتار دیا اور خود بادشاہ بن گئے، انھوں نے تقریباً 35 سال حکومت کی اور رضیہ سلطان انھی کی بیٹی تھیں۔

  • رضیہ سلطانہ: میدانِ جنگ سے زندہ نکل کر موت کے مقام تک کیسے پہنچی؟‌

    رضیہ سلطانہ: میدانِ جنگ سے زندہ نکل کر موت کے مقام تک کیسے پہنچی؟‌

    ہندوستان کی تاریخ میں رضیہ سلطانہ کا نام دہلی کا تخت سنبھالنے والی پہلی مسلم حکم راں کے طور پر محفوظ ہے اور اس کی دلیری اور شجاعت کے قصے بھی مشہور ہیں۔

    رضیہ سلطانہ کا تعلق خاندانِ غلاماں سے تھا اور وہ اس خاندان کے ایک فرماں روا سلطان شمس الدین التمش کی بیٹی تھی۔ کہتے ہیں کہ سلطان التمش علم و ادب کا شیدائی اور فنون سے گہرا لگاوٴ رکھتا تھا۔ اس نے اپنی بیٹی کی تعلیم و تربیت پر بھی خاص توجہ دی اور اسے اس دور کے رواج کے مطابق فنِ حرب، سپاہ گری اور گھڑ سواری بھی سکھائی۔

    کہتے ہیں‌ سلطان نے اپنے تخت کے لیے بیٹوں پر رضیہ کو ترجیح دی لیکن امرا کی حمایت و مخالفت، سازشوں کے ساتھ جنگوں میں رضیہ سلطانہ کو تخت سے محروم ہونا پڑا اور پھر وہ وقت آیا جب ملک التونیہ کی مدد سے رضیہ نے دوبارہ تخت حاصل کرنا چاہا، مگر موت اس کا مقدر بنی۔ رضیہ کی موت کے حوالے سے بھی مختلف باتیں مشہور ہیں۔

    کہتے ہیں‌ رضیہ سلطانہ نے ملک التونیہ سے شادی کے بعد اسے دہلی کا اقتدار حاصل کرنے پر آمادہ کیا اور لشکر کے ساتھ نکلی، لیکن ایک مقام پر جنگ کے بعد انھیں‌ جان بچا کر بھاگنا پڑا۔ التونیہ اور رضیہ کافی گھنٹوں تک گھوڑے دوڑاتے ہوئے کتھل کے علاقہ میں‌ پہنچے اور ایک جگہ سستانے کے لیے بیٹھے، بھوک سے ان کا برا حال تھا۔ وہاں سے ایک دیہاتی کا گزر ہوا تو انھوں‌ نے اس سے کھانے پینے کے لیے کچھ مانگا، اس شخص نے رضیہ کے زیورات دیکھ لیے اور انھیں‌ کھانے کو کچھ دینے کے بعد خاموشی سے جاکر اپنے ساتھیوں کو لے آیا اور انھوں‌ نے ان دونوں‌ کو قتل کر کے بیش قیمت زیورات اور مال لوٹ لیا۔ یوں 1240 اس کی زندگی کا آخری سال ثابت ہوا۔

    کہتے ہیں‌ بعد میں‌ یہ بات کھلی تو رضیہ کے بھائی اس کی لاش دہلی لے گئے اور ترکمانی دروازے کے پاس بلبل خانے میں دفن کیا۔ یہاں دو قبریں دیکھی جاسکتی ہیں‌ جن میں‌ سے ایک کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ رضیہ سلطانہ کی بہن کی قبر ہے۔

    مشہور سیاح ابنِ بطوطہ نے بھی اپنے سفر نامے میں‌ رضیہ سلطانہ کے مقبرے کا ذکر کیا ہے اور اسے ایک زیارت گاہ کہا ہے جہاں‌ دعا کے لیے لوگوں کا آنا جانا لگا رہتا ہے۔