Tag: ہندوستان کے مغل بادشاہ

  • سلاطینِ دہلی کی قانون سازی اور فتاویٰ کی تیّاری میں دل چسپی

    سلاطینِ دہلی کی قانون سازی اور فتاویٰ کی تیّاری میں دل چسپی

    جب ہندوستان میں مسلمان حکم رانوں نے دہلی کو اپنا پایہ تخت بنایا اور یہاں ان کی سلطنت قائم ہوئی تو یہاں نظم و نسق، انتظامی امور اور فوجی و معاشی قوّت کے حوالے سے فیصلے کرنے کی ضرورت پیش آئی اور فرما راؤں نے اس پر توجہ دیتے ہوئے یہاں عوام کے لیے عدلیہ اور قانون کا بہتر نظام پیش کرنے کے لیے اقدامات کیے۔

    1206ء میں جب دہلی سلطنت قائم ہوئی تو اس وقت یہ بات بھی اہم تھی کہ سلاطین خود ایک ایسی مذہبی اقلیت تھے، جن کے چاروں طرف بھاری اکثریت دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کی تھی۔ اس صورت حال میں انھوں نے جہاں اس بات کی کوشش کی کہ اکثریتی طبقے کے عوام کو ہر طرح کی آزادی اور خوش حالی دے کرکے ان کا اعتماد اور تعاون حاصل کریں، وہیں حکومتی کارکردگی کے لیے قوانین بھی تیار کرائے، اور اس سلسلے میں کتابیں تصنیف کرائیں۔ چناں چہ مختلف ادوار میں حکم رانوں کے حکم پر عالم فاضل شخصیات کی سرپرستی میں قانون اور فتاویٰ کی کتابیں لکھی گئیں۔

    عام قارئین اور بالخصوص تاریخ کے طلبہ کے لیے یہ بات دل چسپی سے خالی نہ ہوگی کہ قانون کے میدان میں اس زمانے میں سلاطین اور حکم رانوں نے کیا انتظامات کیے۔ ان کی نگرانی و سرپرستی میں کس طرح کی قانونی کتابیں اور فتاویٰ کے مجموعے تیار کیے گئے۔

    خوش آئند پہلو یہ ہے کہ ایسی متعدد کتابیں آج یا تو مطبوعہ شکل میں یا مخطوطات کے طور پر دست یاب ہیں، اور ان کا مطا لعہ کیا جاسکتا ہے۔ سلاطینِ دہلی نے قانون کے میدان میں جو متنوع خدمات انجام دیں ان میں قانونی کتابوں کی تصنیف و تالیف اور فتاویٰ بہت اہم ہیں، جن میں سے چند اہم ترین اور قابلِ ذکر کتب کے نام یہ ہیں۔

    فتاویٰ تاتار خانیہ:
    یہ فیروز شاہ تغلق کے دور کی قانونی کتاب ہے، جسے ایک ذی علم امیر تاتار خان کی سرپرستی میں مرتب کیا گیا۔ تاہم اس بارے میں مختلف شخصیات کے نام بھی لیے جاتے ہیں۔ اس کتاب کے نام سے متعلق بھی مختلف آرا ہیں، ایک رائے یہ ہے کہ اس کا نام ’زاد السفر‘ یا ’زاد المسافر‘ تھا، جسے بعد میں امیر تاتار خان سے منسوب کر دیا گیا تھا۔

    اس کتاب کے امتیازی اوصاف میں سے یہ ہے کہ اس میں قوانین کے ساتھ ان کے مآخذ (قرآن و حدیث) نقل کرنے کا التزام نہیں کیا گیا ہے، البتہ مختلف فیہ قوانین میں متعلقہ تمام رایوں کو جمع کر دینے کا التزام ہے۔ فتاویٰ تاتار خانیہ کا یہ بھی ایک نمایاں وصف ہے کہ اِس میں اُس وقت کے نئے پیش آمدہ مسائل سے متعلق بھی قوانین بیان کیے گئے ہیں۔

    فوائدِ فیروز شاہی:
    یہ کتاب فیروز شاہ تغلق کے دور میں شرف محمد عطائی نے مرتب کی تھی۔ اس کتاب کی خاص بات یہ ہے کہ اس میں عقائد، عبادات، معاملات اور اخلاقیات وغیرہ، عہد فیروز شاہی کے سماجی، معاشی، معاشرتی حالات و واقعات، مسائل و معاملات اور علوم و فنون کی بڑی اہم معلومات فراہم کی گئی ہیں۔ اس وقت عوام و خواص کی زبان فارسی تھی لہٰذا اس کتاب کو فارسی زبان ہی میں مرتب کیا گیا تاکہ سب کے لیے استفادہ آسان ہو۔ فوائدِ فیروز شاہی اس اعتبار سے امتیازی وصف کا حامل ہے کہ اس میں مسلم وغیر مسلم تعلقات وغیرہ سے متعلق بکثرت مسائل مذکور ہیں۔

    الفتاویٰ الغیاثیہ:
    قانون کی یہ کتاب ہندوستانی مسائل کے پس منظر میں عہدِ سلطنت میں مرتب کردہ غالباً پہلی کتاب ہے جسے اس وقت کے معروف ماہرِ قانون ’داؤد بن یوسف الخطیب‘ نے فقہ حنفی کے مطابق عربی زبان میں مرتب کیا تھا اور اپنے عہد کے حکم راں ’غیاث الدین بلبن‘ سے منسوب کرتے ہوئے اس کا نام ’الفتاویٰ الغیاثیہ‘ رکھا۔

    فتاویٰ قراخانی:
    عہدِ سلطنت کی مرتب کردہ یہ قانونی کتاب خلجی خاندان کے حکم راں جلال الدین فیروز شاہ خلجی کے دور کی یادگار ہے۔ اس کتاب کے مصنف یعقوب مظفر کرامی یا کرمانی ہیں۔ مصنّف نے اپنی یہ کتاب فارسی زبان میں فقہ حنفی کے مطابق تصنیف کی ہے۔

    اس دور کی دیگر کتابوں میں مطالبُ المؤمنین (بدر بن تاج لاہوری)، فقہ مخدومی (مخدوم علی مہائمی)، طرفۃ الفقہا (رکن الدین ملتانی)، تیسیر الاحکام (قاضی شہاب الدین دولت آبادی)، عدۃ الناسک فی المناسک (عمر بن اسحاق غزنوی)، کتاب الفرائض (رضی الدین حسن بن محمد صغانی)، نصابُ الاحتساب (قاضی ضیاء الدین مستانی)، الفائق و اصولِ فقہ (صفی الدین محمد بن عبد الرحیم الشافعی) وغیرہ شامل ہیں۔

    (استفادہ بحوالہ: ہندوستانی عہدِ وسطیٰ کا قانونی منظرنامہ)

  • کلائی کے زخم نے اکبر کی جان بچالی

    کلائی کے زخم نے اکبر کی جان بچالی

    ہر دور میں بادشاہوں اور حکم رانوں کے دربار میں مشیر، علما اور مختلف شعبوں کے قابل اور باصلاحیت لوگ اور دانا شخصیات موجود رہے ہیں جن سے یہ حکم راں مختلف امور اور عوامی مسائل پر صلاح مشورہ کرنے کے بعد ہی کوئی فرمان جاری کرتے تھے۔

    مغل بادشاہ جلال الدین اکبر کی بات کی جائے تو تاریخ میں اکبر کے "نو رتن” بہت مشہور ہیں۔ یہ نو لوگ انتہائی ذہین، دانا اور اپنے علم و کمال کی وجہ سے اکبر کو پسند تھے۔

    انہی میں ایک "بیربل” بھی تھا جسے تاریخ کی کتابوں میں ذہین اور حاضر جواب لکھا گیا ہے۔ یہ واقعہ جو ہم یہاں نقل کررہے ہیں اکبر اور بیربل سے منسوب ہے۔

    کہتے ہیں ایک روز بادشاہ چاقو سے سیب چھیل رہا تھا۔ ذرا توجہ بٹی اور چاقو کی نوک اس کی کلائی پر لگ گئی اور وہ زخمی ہو گیا۔ بیربل کے منہ سے بے اختیار شکر الحمدللہ نکل گیا۔

    بادشاہ نے غصے سے اس کی طرف دیکھا اور کہا کہ میں زخمی ہوا ہوں اور تم شکر ادا کر رہے ہو۔

    بیربل نے عرض کیا، حضور میں نے سیانوں سے سنا تھا انسان کو چھوٹی مصیبت بڑی مصیبت سے بچاتی ہے۔ آپ کی کلائی زخمی ہو گئی، میرا خیال ہے خدا نے آپ کو کسی بڑی مصیبت سے بچا لیا ہے۔

    بادشاہ کو اس کی یہ بات سمجھ نہ آئی۔ اس نے بیربل کو جیل میں ڈلوا دیا اور اگلے روز شکار پر چلا گیا۔ شکار کے دوران وہ اور اس کے چند درباری اپنے لشکر سے بچھڑ گئے اور جنگل میں ایک قبیلے کے وحشی لوگوں کے ہتھے چڑھ گئے۔

    انھوں نے اکبر اور اس کے ساتھیوں کو اپنی دیوی پر قربان کرنے کا فیصلہ کیا۔ درباریوں کی گردن اتارنے کے بعد جب اکبر کی باری تو اس کی کلائی پر پٹی بندھی تھی، قبیلے کے سردار کے دریافت کرنے پر اکبر نے بتایا کہ وہ زخمی ہو گیا تھا، تو اس نے مایوسی سے سر ہلایا اور اسے جانے کی اجازت دے دی، سردار نے کہا کہ ہم دیوی کو کسی زخمی کی قربانی پیش نہیں کرسکتے۔

    کہتے ہیں یوں اکبر کی جان بچی اور تب اسے بیربل کی بات یاد آئی۔ اس نے واپس آکر بیربل کو جیل سے نکالا اور اس سے معذرت اور اس کی دل جوئی کی۔