Tag: ہندو انتہا پسند

  • مغل بادشاہ اورنگزیب کی پوسٹ لگانے پر ہندو انتہا پسند آپے سے باہر

    مغل بادشاہ اورنگزیب کی پوسٹ لگانے پر ہندو انتہا پسند آپے سے باہر

    مغل بادشاہ اورنگزیب سے متعلق انسٹاگرام اسٹوری لگانے پر ہندو انتہا پسند آپے سے باہر ہوگئے اور پولیس اسٹیشن شکایت درج کروانے پہنچ گئے۔

    بھارتی ذرائع ابلاغ پر آنے والی خبروں کے مطابق وشو ہندو پریشد کے ضلعی عہدیدار پرکاش اوم شنکر پانڈے نے اورنگزیب کی انسٹا گرام اسٹوری پوسٹ کرنے پر شکایت درج کروائی، جس پر بھنڈارہ پولیس نے مسلم نوجوان کے خلاف کیس درج کیا ہے۔

    پانڈے کا کہنا تھا کہ شعیب شیخ نامی مسلم نوجوان نے اپنے انسٹاگرام اکاؤنٹ پر اورنگزیب کی2 اسٹوریز اپ لوڈ کیں جو ہندوؤں کے جذبات کو ٹھیس پہنچانے والی اور اشتعال انگیز ہیں۔

    شعیب نے پہلی ’اسٹوری‘ میں، چھترپتی شیواجی مہاراج کی تصویر کے ساتھ ’’بادشاہ تو بہت سارے تھے..!” کا کیپشن لکھا، بعدازاں مغل بادشاہ اورنگزیب کی تصویر پوسٹ کی گئی جس میں لکھا گیا کہ ’’لیکن باپ ایک ہی تھا..!‘‘

    اسٹوری میں مزید لکھا گیا کہ ’’نہ سز ا نہ معافی، تمہارا سسٹم پھاڑنے کے لیے صرف حضرت اورنگزیب عالمگیر کا نام ہی کافی ہے‘‘، اس اسٹوری میں ’’باپ ہی باپ رہے گا‘‘ کا گانا بھی لگایا گیا۔

    پانڈے نے اپنی شکایت میں شعیب شیخ کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ اس نے چھترپتی شیواجی مہاراج کی توہین کی جبکہ اورنگزیب کی بالادستی ظاہر کرکے ہمارے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچائی۔

    وشو ہندو پریشد اور بجرنگ دل کے تقریباً 200 کارکن بھی پولیس اسٹیشن میں موجود رہے اور مطالبہ کیا کہ مذکورہ شخص کے خلاف کیس درج کیا جائے اور اسے گرفتار کیا جائے۔

    پولیس نے کشیدہ صورتحال پر قابو پانے کے لیے رات گئے نوجوان شعیب شیخ کے خلاف کیس درج کرکے اسے گرفتار کرلیا ہے۔

  • جشن میلاد النبی، جھنڈے لگانے پر ہندو انتہا پسندوں کا مسلم آبادی پر حملہ

    جشن میلاد النبی، جھنڈے لگانے پر ہندو انتہا پسندوں کا مسلم آبادی پر حملہ

    گجرات: بھارتی ریاست گجرات کے شہر سورت میں ہندو انتہا پسندوں نے مسلمانوں کے محلے پر دھاوا بول دیا۔

    تفصیلات کے مطابق بھارتی ریاست گجرات میں بھروچ اور سورت کے شہروں میں مسلم کمیونٹیز پر ہندوؤں کی جانب سے حملوں کے ساتھ فرقہ وارانہ تشدد ایک بار پھر بھڑک اٹھا۔

    سورت میں جشن میلاد النبی کی مناسبت سے جھنڈے لگانے پر ہندو انتہا پسند مسلم آبادی پر ٹوٹ پڑے، انتہا پسندوں نے مسلم اکثریتی علاقوں میں ڈنڈوں سے حملے کر کے نوجوانوں سمیت خواتین اور بچوں کو زخمی کر دیا۔

    حملے کے دوران موٹر سائیکلوں اور مسلمانوں کی دیگر املاک کو آگ لگا دی گئی، کشیدگی اس وقت شروع ہوئی جب ہندو انتہا پسندوں نے مسلمانوں کو جھنڈے اور بینر لگانے سے روکا۔

    پولیس نے بھی ہندو انتہا پسندوں کی بجائے 27 مسلمانوں کو گرفتار کر لیا ہے۔ بھارتی میڈیا رپورٹس کے مطابق پرتشدد جھڑپوں کا آغاز اس وقت ہوا جب انتہا پسند ہندو گروپوں نے مسلم آبادی والے علاقوں میں عید میلاد النبی منانے والے جھنڈے اور بینرز لگانے پر اعتراض کیا۔

    لاٹھیوں اور سلاخوں سے لیس حملہ آوروں نے جے شری رام کے نعرے لگا کر عید میلاد النبی کے جھنڈے زبردستی اتار پھینکے، اور مسلمانوں کی موٹر سائیکلوں اور املاک کو آگ لگا دی، جس سے مسلم آبادی میں غم و غصہ پھیل گیا، جلد ہی پُر تشدد ہنگامے سورت شہر سمیت دیگر علاقوں میں پھیل گئے۔

    مقامی پولیس کو مبینہ طور پر حملہ آوروں کا ساتھ دینے اور مجرموں کے بجائے مسلمانوں کو گرفتار کرنے پر تنقید کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

    واضح رہے کہ سورت میں پہلی بار عید میلاد کا جلوس معمول کے مطابق 2.30 بجے کی بجائے صبح 11 بجے شروع ہوگا، اور 9.30 بجے کی بجائے شام 6 بجے ختم ہوگا۔ یہ فیصلہ سورت عید میلاد النبی کمیٹی اور سیرت النبی کمیٹی کے اراکین نے 16 ستمبر کی شام کو ہونے والی گنیش چترتھی آرتی کو مدنظر رکھتے ہوئے کیا ہے۔

  • ویڈیو: ہندو انتہا پسندوں کا مسجد پر پٹرول بم سے حملہ

    ویڈیو: ہندو انتہا پسندوں کا مسجد پر پٹرول بم سے حملہ

    بھارتی ریاست مدھیا پردیش میں ایک افسوسناک واقعہ پیش آیا ہے، ہندو انتہا پسندوں کے ایک گروہ نے اندور میں واقع ایک مسجد پر پٹرول بم پھینک دیا اور فرار ہوگئے۔

    غیرملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق اندور کے علاقے ملہار گنج میں اتوار کی صبح یہ واقعہ رونما ہوا جب کچھ شرپسند عناصر نے اوچھی حرکت کرتے ہوئے مسجد میں پٹرول بم پھینکا، ان کے ساتھ ایک خاتون بھی موجود تھی۔

    سوشل میڈیا پر ویڈیو وائرل ہونے کے بعد پولیس نے ملزمان کے خلاف کیس رجسٹرڈ کرلیا ہے، یہ مذموم حرکت وہاں موجود کیمرے میں محفوظ ہوگئی، جس میں دیکھا جاسکتا ہے کہ انتہا پسندوں نے مسجد میں اور سڑک پر پیٹرول بم پھینکا جس سے وہاں آگ لگ گئی۔

    پولیس نے وہاں کے رہائشی محمد صابر کی مدعیت میں مقدمہ درج کر لیا ہے، محمد صابر نے پولیس کو بتایا کہ جب وہ لوگ صبح کی نماز ادا کرنے کے لیے مسجد آئے تو انھوں نے وہاں ٹوٹے ہوئے شیشے دیکھے جب کہ دیوار پر جلنے کے نشانات موجود تھے۔

    صابر نے بتایا کہ جب سی سی ٹی وی کیمرے چیک کیے گئے تو انھیں اس غنڈہ گردی کا پتا چلا، پولیس نے مذکورہ واقعے کی تحقیقات شروع کردی ہے۔

  • ویڈیو: ہندو پنڈت نے شاہ رخ خان کو زندہ جلانے کی دھمکی دیدی

    ویڈیو: ہندو پنڈت نے شاہ رخ خان کو زندہ جلانے کی دھمکی دیدی

    شاہ رخ خان کی نئی آنے والی فلم پٹھان گانے کے ریلیز ہونے کے بعد سے وہ تنازعات کا شکار ہیں، جس کے باعث انہیں بھارت میں ہندو انتہا پسندوں کئ جانب سے شدید غم و غصہ کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔

    بالی وڈ کے کنگ خان کی فلم پٹھان کے گانے بے شرم میں اداکارہ دیپیکا پڈکون کے زعفرانی رنگ کے نامناسب لباس پر بھارتی ہندو انتہا پسندوں نے ہنگامہ برپا کیا ہوا ہے، اور اس لباس کو ہندو مذہب کی بےحرمتی قرار دیکر فلم پر پابندی کا مطالبہ کیا ہے۔

    تاہم ان سب کے بعد اب ہندو انتہا پسند شاہ رخ خان کو جان سے مارنے کی دھمکی دی جارہی ہے، ہندو انتہا پسند پنڈت پرمہنس آچاریہ کی ویک ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہورہی ہے جس میں وہ بالی وڈ کے اسٹار کو زندہ جلانے کی دھمکی دے رہے ہیں۔

    https://twitter.com/Indian10000000/status/1605240719723343872?s=20&t=5WtKo3aFtM55Py5dvBzlpA

    سوشل میڈیا پر وائرل ویڈیو میں ہندو انتہا پسند پنڈت نے بھارتی میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ  آج ہم نے شاہ رخ خان کا پوسٹر جلایا ہے اور  وہ تلاش میں ہیں کہ اگر مجھے کہیں  شاہ رخ خان مل جائے تو میں  اسے زندہ جلا دوں گا۔

    پنڈت پرمہنس آچاریہ نے کہا کہ اگر کسی اور نے بھی شاہ رخ خان کو زندہ جلانے کا قدم اٹھایا تو اس کا مقدمہ بھی میں خود لڑوں گا، انٹرویو کے آخر میں پنڈت نے پٹھان جیسی بننے والی فلم کے بائیکاوٹ کی اپیل بھی کی۔

    بھارتی میڈیا کے مطابق پنڈت پرمہنس آچاریہ نے اس سے قبل بھی ہندوستان کو ہندو راشٹر قرار نہ دینے پر جل سمادھی( پانی میں ڈوب کر خود کشی) کرنے کا اعلان کیا تھا۔

  • معروف مسلمان کامیڈین کو ایک بار پھر ہندو انتہا پسندوں کی کھلے عام دھمکیاں

    معروف مسلمان کامیڈین کو ایک بار پھر ہندو انتہا پسندوں کی کھلے عام دھمکیاں

    معروف بھارتی کامیڈین منور فاروقی کے خلاف ہندو انتہا پسند ایک بار پھر کھل کر سامنے آگئے، حکومتی پارٹی بی جے پی کے ایک رکن نے اعلان کیا ہے کہ منور فاروقی کا شو منعقد کرنے کی کوشش کی گئی تو وہ اس جگہ کو نذر آتش کردیں گے اور کامیڈین کو تشدد کا نشانہ بھی بنائیں گے۔

    منور فاروقی نے گزشتہ برس سے اپنے متنازعہ لطیفوں سے ہندو انتہا پسندوں کا جینا حرام کر رکھا ہے، انتہا پسندوں کا دعویٰ ہے کہ منور ہندو دیوی دیوتاؤں کا مذاق اڑاتے ہیں جبکہ وہ حکومت پر بھی تنقید کرتے ہیں اور حساس معاملات کو اپنے لطیفوں کو موضوع بناتے ہیں۔

    گزشتہ برس سے اب تک منور کے 12 شوز منسوخ کیے جاچکے ہیں جن کا سبب ہندو انتہا پسندوں کی دھمکیاں تھیں۔

    اب حال ہی میں ان کا ایک شو حیدر آباد میں منعقد کرنے کا اعلان کیا گیا ہے جس پر ایک بار پھر انتہا پسند متحرک ہوگئے۔

    بھارتیہ جنتا پارٹی کے ایک رکن اسمبلی راجہ سنگھ نے اعلان کیا ہے کہ اگر منور فاروقی کا شو ہوا تو وہ پروگرام کے مقام کو نذر آتش کر دیں گے اور منور کو تشدد کا نشانہ بھی بنایا جائے گا۔

    راجہ سنگھ کا کہنا ہے کہ کامیڈین منور فاروقی نے ہندو دیوی دیوتاؤں کا مذاق اڑایا تھا اور اب انہوں نے دوبارہ ایسی کوشش کی تو ہم انہیں سبق سکھائیں گے۔

    انہوں نے اعلان کیا ہے کہ جس جگہ بھی منور کو شو کے لیے مدعو کیا جائے گا وہ اس جگہ کو آگ لگا دیں گے۔

    راجہ سنگھ نے تلنگانہ کے پولیس ڈائریکٹر جنرل کو خط بھی لکھا ہے جس میں مطالبہ کیا ہے کہ منور کو شو کرنے کی اجازت نہ دی جائے کیونکہ اس سے لوگوں کے مذہبی جذبات مجروح ہوں گے اور امن و امان کو خطرہ لاحق ہوسکتا ہے۔

  • مقبوضہ کشمیر پر پروپیگنڈا فلم: بی جے پی کو مسلمانوں پر تشدد کا بہانہ مل گیا

    مقبوضہ کشمیر پر پروپیگنڈا فلم: بی جے پی کو مسلمانوں پر تشدد کا بہانہ مل گیا

    نئی دہلی: مقبوضہ کشمیر میں جھوٹے پروپیگنڈے پر مبنی فلم کشمیر فائلز نے بھارتی ہندو شدت پسندوں کو مزید شہ دے دی اور انہوں نے اس کا غصہ مسلمانوں پر تشدد کر کے اتارنا شروع کردیا۔

    بھارتی ریاست گجرات کے شہر احمد آباد میں ہندو شدت پسندوں نے ایک مسلمان نوجوان کو شدید تشدد کا نشانہ بنایا، اس دوران وہ حال ہی میں ریلیز کی جانے والی فلم کشمیر فائلز کا نام لیتے رہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ فلم میں دکھائے گئے پروپیگنڈے پر وہ آگ بگولہ ہیں۔

    تشدد کا نشانہ بننے والے نوجوان عدنان رنگریز کا کہنا ہے کہ وہ اپنے دوست کے ساتھ ایک جگہ بیٹھا تھا کہ اچانک 10 سے 15 افراد ان کے قریب آئے اور ان کا نام پوچھا، عدنان کے نام بتانے پر انہوں نے آؤ دیکھا نہ تاؤ اور اسے مارنے لگے۔

    عدنان کا کہنا تھا کہ اس نے بھاگ کر جان بچانے کی کوشش کی لیکن شدت پسند اس کے پیچھے آئے اور گھسیٹ کر تشدد کا نشانہ بنایا۔

    اس دوران وہ فلم کشمیر فائلز کا نام لیتے رہے اور کہتے رہے کہ اب ہم تمہیں بتائیں گے۔

    عدنان کا کہنا ہے کہ بڑی مشکل سے لوگوں نے اسے بچایا جس کے بعد اس نے اپنے چچا کو کال کی جنہوں نے وہاں پہنچ کر اسے احمد آباد ایل جی اسپتال منتقل کیا، تاہم وہاں بھی ڈھائی گھنٹے تک اسے کسی ڈاکٹر نے نہیں دیکھا۔

    مجبوراً عدنان کے اہل خانہ نے انہیں وہاں سے ایس وی پی اسپتال منتقل کیا جہاں ان کا علاج شروع کیا گیا۔

    یاد رہے کہ حال ہی میں ریلیز کی جانے والی فلم کشمیر فائلز  نے بھارت میں تناؤ کا ماحول پیدا کردیا ہے- اس پروپیگنڈہ اور مسلم مخالف فلم کو بھارتی حکمراں جماعت کی جانب سے پروموٹ بھی کیا جارہا ہے-

  • بھارت: حکومت کتنی "ذمہ دار” اور معاشرہ کتنا "مہذب”؟؟؟

    بھارت: حکومت کتنی "ذمہ دار” اور معاشرہ کتنا "مہذب”؟؟؟

    تحریر: شازیہ ابرار

    مسلمانوں کا قاتل، اقلیتوں کا دشمن مودی اور اس کی جنونی سرکار ملک بھر میں انتہا پسندی اور مذہبی تفریق کو ہوا دے رہی ہے اور اقوامِ عالم سمیت تمام ادارے خاموش ہیں۔

    کشمیر میں ہزاروں معصوم اور نہتے انسانوں پر بدترین تشدد کر کے ان کی جان لینے والی بھارتی فوج اور دیگر سیکیورٹی اداروں نے آج بھی غیرانسانی سلوک اور بربریت کا بازار گرم کر رکھا ہے۔ کرونا کی وبا کے باوجود کشمیر میں عوام کو بنیادی ضروریات اور خاص طور پر طبی سہولیات سے محروم رکھا جارہا ہے۔

    دوسری طرف شہریت کے متنازع قانون کے بعد بھارت کے مختلف شہروں خاص طور پر دلی میں مسلم کُش حملوں میں متعدد جانیں ضایع ہوچکی ہیں جب کہ مسلمانوں کے گھروں اور دکانوں کو نذرِ آتش کیا جارہا ہے جس میں پولیس اور انتظامیہ کا بلوائیوں کو بھرپور تعاون اور مدد حاصل ہے۔

    بعض علاقوں میں‌ جنونی اور انتہا پسند ہندوؤں کی جانب سے مسلمان خاندانوں کو خوف زدہ کرنے کے لیے طرح طرح کے ہتھکنڈے استعمال کرنے کی اطلاعات ہیں۔ ان میں ہندو دھرم کی پیروکار سیاسی اور مذہبی شخصیات کے علاقائی سطح پر جلسے اور مختلف علاقوں کے دورے شامل ہیں‌ جن میں ہندوؤں کو مسلمانوں کے خلاف اکسایا جارہا ہے۔

    بھارتی سماج میں مذہبی جنون، انسان دشمنی اور وحشی پن ہر روز بڑھتا نظر آرہا ہے۔ دلی اور دیگر شہروں میں مسلمانوں کو بات بات پر مارنے پیٹنے اور کسی طرح کا نقصان پہنچانے کے علاوہ بہانے سے اور طرح طرح کے الزامات لگا کر بدترین تشدید کے دوران ہلاک کرنے کے واقعات رپورٹ ہوئے ہیں۔ ان واقعات کی تصاویر اور ویڈیوز بھی سوشل میڈیا پر وائرل ہورہی ہیں۔

    بھارتی دارالحکومت کے ایک علاقے میں‌ محبوب نامی نوجوان کو کرونا وائرس پھیلانے کا الزام لگا کر تشدد کا نشانہ بنایا گیا یہاں تک کہ مسلمان نوجوان شہید ہوگیا، یہ قتل بی جے پی کے انتہا پسندوں نے کیا جس کے بعد یہ کہا جائے تو کیا غلط ہو گا کہ بھارتی معاشرہ اس وقت بھی جب کہ دنیا کو ایک بدترین اور کٹھن وقت کا سامنا ہے، درندگی اور جہالت کا مظاہرہ کر رہا ہے۔

    کیا اتنا کچھ ہوجانے کے بعد بھی بھارتی سماج کو مہذب اور باشعور کہا جانا چاہیے؟ اسی طرح بھارتی حکم راں اس لائق ہیں کہ اقوام متحدہ اور اس کے رکن ممالک انھیں ذمہ دار اور عوام دوست تصور کریں؟

  • جب داڑھی، ٹوپی اور کرتا شلوار بھارتی شہری کا جرم بن گیا

    جب داڑھی، ٹوپی اور کرتا شلوار بھارتی شہری کا جرم بن گیا

    نئی دہلی: بھارتی دارالحکومت نئی دہلی میں فسادات کے دوران ہندو انتہا پسندوں کے مشتعل ہجوم کے تشدد کا شکار ہونے والے زبیر کا کہنا ہے کہ انہیں ان کی داڑھی اور ٹوپی کی وجہ سے نشانہ بنایا گیا۔

    زبیر کی ایک تصویر سوشل میڈیا پر بے حد وائرل ہوئی تھی جس میں وہ مشتعل ہجوم کے نرغے میں گھرے زمین پر جھکے ہوئے ہیں، ان کا سفید لباس خون کے چھینٹوں سے تر ہے اور وہ اپنے آپ کو بچانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

    بھارتی ویب سائٹ دا وائر کو انٹرویو دیتے ہوئے زبیر نے اس ہولناک دن کی یادیں تازہ کیں، چاند باغ کے علاقے کے رہائشی زبیر اس دن سالانہ اجتماع کی دعا میں شرکت کے لیے نکلے تھے۔

    وہاں سے واپسی میں راستے میـں انہیں علم ہوا کہ دہلی کے علاقے کھجوری گلی میں حملہ ہوا ہے، وہ اپنا راستہ بدل کر اپنے گھر کی طرف جانے لگے۔ وہ بتاتے ہیں کہ راستے میں پڑنے والے ایک سب وے میں ایک شخص نے ان سے کہا کہ آپ نیچے مت جاؤ، وہاں خطرہ ہوسکتا ہے، دوسری طرف سے جاؤ۔

    زبیر راستہ بدل کر جانے لگے، آگے جا کر انہوں نے دیکھا کہ ایک جگہ بہت ہجوم تھا اور شدید پتھراؤ ہورہا تھا، ’میں وہاں سے جانے لگا تو ہجوم نے مجھے دیکھ لیا، ایک شخص میری طرف سلاخیں لے کر بڑھا تو میں نے اس سے کہا کہ میں نے آپ کا کیا بگاڑا ہے‘۔

    مزید پڑھیں: مشتعل ہجوم نے فوجی اہلکار کو بھی نہ بخشا، گھر کو آگ لگا دی

    زبیر کے مطابق ان لوگوں نے ان کی بات کو نظر انداز کیا اور سلاخ پکڑے ہوئے ایک شخص نے، وہ ان کے سر پر دے ماری، اس کے بعد 20، 25 افراد نے ان پر  تشدد شروع کردیا۔ ’ان کے ہاتھ میں تلوار، سلاخیں اور ڈنڈے تھے اور وہ مجھے مارتے رہے، انہوں نے تلوار بھی میرے سر پر ماری لیکن خوش قسمتی سے وہ صحیح طریقے سے نہیں لگی‘۔

    زبیر کا کہنا ہے کہ وہ لوگ جے شری رام اور مارو ملا کو نعرے لگا رہے ہیں۔ ’جب وہ مار مار کر تھک گئے اور دور ہٹ گئے تو میں نے کچھ آوازیں سنیں جو مجھے اسپتال لے جانے کا کہہ رہی تھیں‘۔

    ’انہوں نے آپس میں طے کیا کہ ان میں سے کچھ مجھے پتھراؤ سے بچائیں گے اور باقی افراد وہاں سے مجھے دور لے کر جائیں گے ، اس کے بعد مجھے ایمبولینس میں ڈالا گیا، بعد میں میری آنکھ اسپتال میں کھلی‘۔

    زبیر کا کہنا ہے کہ انہوں نے کرتا شلوار اور ٹوپی پہنی تھی اور ان کی داڑھی ان کے مسلمان ہونے کی شناخت تھی اور اسی وجہ سے ہجوم نے ان پر تشدد کیا۔

    وہ کہتے ہیں کہ ان کی عمر 37 سال ہے اور زندگی میں کبھی ان کی مذہبی شناخت کی وجہ سے اس طرح انہیں نشانہ نہیں بنایا گیا۔ ان کا جسم زخموں سے چور ہے اور سر پر 20 سے 25 ٹانکے لگے ہیں۔ 6 دن بعد بھی وہ بغیر سہارے کے چل پھر نہیں پاتے۔

    زبیر کا کہنا ہے کہ میں ڈر کر بھاگنے والا نہیں ہوں، میں وہیں رہوں گا جہاں ہمیشہ سے رہتا آیا ہوں۔ ’ڈر اس کے دل میں ہوتا ہے جو غلط راستے پر ہو، میں نے کچھ غلط نہیں کیا اور میں بالکل درست راستے پر ہوں‘۔

    یاد رہے کہ نئی دہلی میں گزشتہ اتوار سے شروع ہونے والے مسلم کش فسادات میں مرنے والوں کی تعداد 42 ہوگئی ہے جبکہ 48 گھنٹے کے دوران 3 مساجد، ایک مزار، اور مسلمانوں کے بے شمار گھر اور گاڑیاں جلا دی گئی ہیں۔

    مودی سرکار نے متاثرہ علاقوں میں کرفیو لگا دیا ہے جبکہ نماز جمعہ کے اجتماعات پر بھی پابندی عائد رہی۔ متاثرہ علاقوں میں تجارتی مراکز بند ہیں، مسلمانوں کے خاکستر گھر اور تباہ کاروبار ان پر گزری قیامت کا پتہ دے رہے ہیں۔

  • تاریخی بابری مسجد کی شہادت کو 27 برس بیت گئے

    تاریخی بابری مسجد کی شہادت کو 27 برس بیت گئے

    ایودھیا: مغل بادشاہ ظہیر الدین بابر کے نام سے منسوب تاریخی بابری مسجد کی شہادت کو ستائیس برس بیت گئے۔ ایودھیا اور فیض آباد میں اس موقع پر سیکیورٹی ہائی الرٹ ہے۔ تفصیلات کے مطابق بابری مسجد کی شہادت کو 27 سال مکمل ہونے پر آج ایودھیا اور فیض آباد سمیت دیگر علاقوں میں‌ سیکیورٹی سخت کر دی گئی ہے اور کسی بھی متوقع خراب صورتِ حال سے نمٹنے کے لیے پولیس کا گشت بڑھا دیا گیا ہے.

    بھارتی ریاست اتر پردیش میں مغل بادشاہ ظہیر الدین محمد بابر کے نام سے منسوب بابری مسجد کی شہادت کے بعد اس قطعۂ زمین کی ملکیت کے حوالے سے مقدمہ درج کرایا گیا تھا۔

    ہندو تنظیموں کا دعویٰ ہے کہ اس جگہ پر مندر کو گرا کر مسجد تعمیر کی گئی جب کہ اس کیس کے حوالے سے تحقیقاتی کمیشن کی رپورٹوں میں کہا گیا کہ مسجد کا انہدام ایک منصوبہ بندی کے تحت کیا گیا تھا۔ تاہم تمام ٹھوس حقائق اور کمیشن کی رپورٹوں کو نظرانداز کرتے ہوئے بھارتی سپریم کورٹ نے نومبر میں بابری مسجد کی متنازع زمین کا فیصلہ ہندوؤں کے حق میں دے دیا جس کے مطابق بابری مسجد کی متنازع جگہ پر مندر تعمیر کیا جائے گا جب کہ مسلمانوں کو ایودھیا میں متبادل جگہ دینے کا حکم دیا گیا ہے۔

    واضح‌ رہے کہ ہندو انتہا پسندوں 6 دسمبر 1992 کو بابری مسجد کو شہید کردیا تھا جس کے بعد فسادات میں مسلمانوں کے گھر جلائے گئے اور ہزاروں مسلمان جان سے گئے.

  • بھارت میں رہنا ہے تو ’جے شری رام‘ کہو، ہندو انتہا پسندوؤں کا عالم دین پر تشدد

    بھارت میں رہنا ہے تو ’جے شری رام‘ کہو، ہندو انتہا پسندوؤں کا عالم دین پر تشدد

    نئی دہلی : بھارت میں ہندو انتہا پسندوں کی شدت پسندانہ کارروئیاں جاری ہیں، مسلمان عالم دین کی ہندوآنہ نعرہ نہ لگانے پر بہیمانہ انداز میں پٹائی ،رپورٹ درج کروانے کے باوجود پولیس نے ملزمان کو گرفتار نہیں کیا۔

    تفصیلات کے مطابق انتہا پسند جنونی ہندووں نے مسلمان استاد اورعالم دین کو دھمکی دی ہے کہ اگر انہیں بھارت میں رہنا ہے تو ہندوآنہ نعرہ جے شری رام لگانا ہوگا۔ متعصب شرپسندوں نے مسلمان عالم دین کی ہندوآنہ نعرہ نہ لگانے پر بہیمانہ انداز میں پٹائی کی اور انہیں دھمکی دی کہ وہ اپنے چہرہ مبارک سے سنت رسول کو بھی صاف کردیں۔

    بھارتی ذرائع ابلاغ کے مطابق میرٹھ کے علاقے مظفر نگر ہائی وے سے گزرنے والے مولانا املاق الرحمان کو دس لڑکوں کے ایک گروپ نے پکڑ کرپہلے بدتمیزی کی اور پھر انہیں حکم دیا کہ وہ ہندوآنہ نعرہ جے شری رام لگائیں۔

    مقامی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ مولانا املاق الرحمان جو اپنے گھر جارہے تھے، نے جب ہندوآنہ نعرہ لگانے سے انکار کیا تو جنونی انتہا پسند ہندوؤں نے پہلے انہیں مارا پیٹا، پہنی ہوئی ٹوپی اتار کر پھینک دی اور سنت مبارک کی توہین کرتے ہوئے دھمکی دی کہ آئندہ جب وہ یہاں ہائی سے گزریں تو اس وقت تک سنت مبارک صاف کراچکے ہوں۔

    بھارتی میڈیا کا کہنا تھا کہ جب دو گھٹ کے علاقے میں یہ بہیمانہ واقع رونما ہورہا تھا تو اس وقت مولانا نے شور مچایا جسے سن کر وہاں سے گزرنے والے کچھ افراد ان کی مدد کو آئے تو ان کی جان بخشی ہوئی لیکن جنونی ہندوؤں کا ٹولہ جاتے جاتے واضح طور پر کہہ گیا کہ اگر ہندوستان میں رہنا ہے تو ہندوآنہ نعرہ لگانا ہوگا۔