Tag: ہندو مت

  • راجہ رام موہن رائے: عربی اور فارسی کے عالم کا تذکرہ

    راجہ رام موہن رائے: عربی اور فارسی کے عالم کا تذکرہ

    راجہ رام موہن رائے کو ہندوستان میں ایک مصلح اور روشن خیال شخصیت کے طور پر یاد کیا جاتا ہے جو برہمو سماج نامی تحریک کے بانی تھے۔

    وہ ایک مدبّر اور ایسے دور اندیش تھے جس نے بالخصوص ہندوؤں میں عام توہّم پرستی اور تعصّبات کے علاوہ غلط رسم و رواج کو مٹانے کے لیے علمی مجالس بپا کیں اور قلم کا سہارا بھی لیا۔ موہن رام رائے نے اپنے افکار اور اصلاحِ سماج کے لیے اپنی کوششوں کے سبب سرسیّد جیسے مسلم اکابرین کو بھی بے حد متاثر کیا تھا۔

    1833ء میں‌ راجہ رام موہن آج کے دن یہ دنیا ہمیشہ کے لیے چھوڑ گئے تھے۔ اس سے چند سال قبل ایک موقع پر راجہ صاحب نے اپنا وحدانی نظریہ اس طرح قلم بند کیا تھا، ”پرستش اسی ذات کی ہونی چاہیے جو غیر فانی ہے، جس کا پتا تلاش سے نہیں ملتا، جو تغیر سے محفوظ ہے اور جو تمام کائنات کو پیدا کرتی اور قائم رکھتی ہے۔“ توحید کے اسی پرچار کی وجہ سے رام موہن رائے کو اپنا گھر چھوڑنا پڑا۔

    1774ء میں راجہ رام موہن رائے ایک برہمن خاندان میں پیدا ہوئے تھے۔ انھوں نے گاؤں‌ کے ایک مدرسہ میں ابتدائی تعلیم مکمل کی اور اسی دوران فارسی کے ساتھ عربی بھی سیکھی۔ پٹنہ اس زمانے میں اسلامی فنون و تعلیمات کا بڑا مرکز تھا۔ انھیں والد نے تحصیلِ علم کی غرض سے وہاں بھیج دیا۔ پٹنہ میں‌ رام موہن رائے کو اسلامی تعلیمات، قرآن اور دیگر مذہبی کتب کے مطالعے کے ساتھ علومِ شرقیہ سیکھنے کا موقع ملا۔ غالباً اسی کے زیرِ اثر وہ بُت پرستی اور بعض عقائد کے سخت نکتہ چیں بن گئے اور گھر لوٹے تو والد نے انھیں قبول نہ کیا۔

    راجہ صاحب کا تعلق بنگال کے گاؤں رائے رادھا نگر سے تھا جہاں ان کا خاندان کئی پشتوں سے صوبے کے مغل امرا کے دربار وابستہ رہا تھا۔ ان کے والد کٹّر مذہبی تھے اور والدہ بھی اپنے مذہب پر کاربند ایک نیک سیرت عورت تھیں۔ پٹنہ سے لوٹنے پر جب والد نے اپنے بیٹے کو بُت پرستی کا مخالف پایا تو گھر سے نکال دیا۔

    تب وہ شہروں شہروں‌ پھرے اور اسی زمانے میں‌ انگریزی، فرانسیسی، لاطینی، یونانی اور عبرانی زبانیں سیکھیں۔ ہندو مذہب، عیسائیت اور بدھ مت کی مقدس کتب کا مطالعہ آزادی سے کیا اورغور و فکر میں‌ منہمک رہے۔ وہ سرکاری ملازم تھے، لیکن 39 سال کی عمر میں اپنے فرائض سے سبک دوش ہو گئے اور کلکتہ میں سکونت اختیار کر لی۔ اس عرصے میں رام موہن نے تقابلِ ادیان کا سلسلہ جاری رکھا اور اب وہ عربی، فارسی کے عالم کی حیثیت سے بھی پہچانے جا رہے تھے جب کہ مذہب سے متعلق اپنے نظریات اور فلسفے کا پرچار بھی شروع کر دیا تھا۔ انھوں نے قلم کا سہارا لیا تو متعدد مذہبی کتب کا سنسکرت، انگریزی اور بنگالی میں ترجمہ کیا۔

    رفتہ رفتہ ان کا نام ہندو عقائد کے مخالف کے طور پر مشہور ہونے لگا اور ان کے افکار و نظریات کا چرچا بھی۔ انھوں نے ہندوستان میں سائنسی علوم کی ترویج اور اداروں‌ کے قیام کا پُرزور مطالبہ کیا تھا اور انگریز سرکار بھی راجہ صاحب کو ایک مصلحِ قوم اور علم دوست انسان کے طور پر شناخت کرتی تھی۔ واقعہ یہ ہے کہ انگریزوں نے جب سنسکرت کالج قائم کرنے کا اعلان کیا، تو راجہ رام موہن رائے نے دسمبر 1823ء میں انگریز گورنر جنرل کو لکھ کر متوجہ کیا کہ ہندوستان میں سنسکرت کی تعلیم سے زیادہ سائنسی علوم کو رواج دینے کی ضرورت ہے۔ انھوں نے ریاضی، نیچرل فلاسفی، کیمسٹری، اناٹومی اور دوسرے جدید علوم کے لیے انتظامات کو وقت کی ضرورت قرار دیا۔

    اس دور کی تاریخ اٹھا کر دیکھی جائے تو معلوم ہو گا کہ ہندوؤں کے ساتھ مسلمان بھی انگریزی تہذیب و ثقافت اور ان کے رہن سے سہن سے خائف تھے اور انگریزی زبان اور جدید تعلیم سے بیزار نظر آتے تھے۔ ہر سطح پر انگریزی تعلیم کی مخالفت کی جارہی تھی، لیکن جس طرح سرسّید نے مسلمانوں کو جدید تعلیم کے حصول کے لیے متوجہ کیا تھا، اسی طرح راجہ رام موہن نے ہندوؤں کو قائل کرنے کے لیے کوششیں‌ کیں کہ وہ جدید علوم اور سائنس کو اہمیت دیں جس نے انھیں قدامت پسندوں‌ میں‌ متنازع بنا دیا تھا۔

    رام موہن رائے کو انگریز اقتدار سے سخت نفرت تھی، لیکن کلکتہ میں قیام کے دوران انھوں نے یہ جان لیا کہ انگریزوں کی غلامی کا طوق ان کی زبان اور جدید علوم سیکھے بغیر نہیں‌ اتارا جاسکتا جس کے بعد انھوں‌ نے ہندوؤں کو انگریزی زبان سیکھنے پر زور دیا۔

    وہ ہندو سماج میں ذات پات کی تفریق اور ستی کی رسم سے بیزار تھے اور اسی لیے 1828ء میں برہمو سماج تنظیم قائم کی تھی جس کا مقصد ہندوؤں میں جو برائیاں اور کم زوریاں تھیں، ان کو مٹانا تھا۔ انھوں نے ہندو بیواؤں کو دوبارہ شادی کرنے کا حق دینے کی حمایت میں تحریک چلائی۔

    مذہب اور رسم و رواج پر نکتہ چینی اور اپنے نظریات کے سبب قدامت پسند ان کے شدید مخالف اور کٹّر ہندو ان کے خون کے پیاسے ہوگئے، لیکن راجہ صاحب کا اصرار تھا کہ میں نے کبھی ہندو مذہب پر حملہ نہیں کیا، صرف توہّم پرستی اور تعصّب کی نشان دہی کی ہے۔ ان کا ایک وصف دیانت داری، منکسر المزاجی بھی تھی۔ راجہ صاحب باقاعدہ مجالس منعقد کر کے اصلاحِ‌ معاشرہ کی کوشش کرنے لگے تھے۔ لیکن مباحث کے دوران انھوں نے ہمیشہ اپنے عالمانہ وقار کو ملحوظ رکھا اور اپنے مخالفین کا احترام کیا۔ وہ تحمل سے ان کی بات سنتے اور دلیل اور منطق سے قائل کرنے کی کوشش کرتے تھے۔

    ہندوؤں کے علاوہ انھیں عیسائی مذہب میں تثلیث جیسے بنیادی نظریے اور عقیدے پر تنقید کے بعد سخت مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔ انھیں مغربی کلچر کا دلدادہ اور ہندوستان کا دشمن کہا جانے لگا۔

    راجہ رام موہن رائے کا ایک کارنامہ “تحفتہ الموحّدین” نامی رسالہ ہے جو فارسی میں لکھا گیا تھا جب کہ اس کا دیباچہ عربی میں تھا۔ اس رسالے نے انھیں‌ گھر بدر کروا دیا، کیوں کہ اس میں انھوں نے مذہبی بت پرستی پر سخت اعتراضات کیے تھے۔

    آپ نے جدید تعلیم کے فروغ کے لیے جدوجہد کے علاوہ اخبار و رسائل بھی شایع کیے جن میں فارسی زبان میں 1822ء میں مراۃ الاخبار بھی شامل ہے جس کے مالک و ایڈیٹر راجہ رام موہن رائے تھے۔

    سر سّید احمد خان نے بھی راجہ صاحب کی تعریف کی ہے، وہ لکھتے ہیں، “راجہ رام موہن رائے نہایت لائق اور ذی علم اور متین، مہذب و با اخلاق شخص تھے۔ راقم (یعنی سرسید احمد خان ) نے آپ کو متعدد بار دربارِ شاہی میں دیکھا ہے اور دلّی کے لوگ یقین کرتے تھے کہ ان کو مذہبِ اسلام کی نسبت زیادہ رجحان خاطر ہے۔ ”

    راجہ رام موہن رائے فلاح و بہبود کے کاموں‌ کے لیے بھی مشہور تھے۔ انھوں نے ہندوستان کے شہروں میں متعدد یتیم خانے، مکتب اور شفا خانے بھی تعمیر کرائے اور لڑکیوں کی تعلیم کے لیے اسکول قائم کیے تھے۔

    انھیں مغل بادشاہ شاہ عالم نے اپنی پنشن کا مقدمہ لڑنے کے لیے اپنا وکیل بنا کر لندن بھیجا تھا، لیکن زندگی نے وفا نہ کی اور وہیں وفات پائی۔

  • دو بھائی (قدیم داستان)

    دو بھائی (قدیم داستان)

    سُند اور اُپ سُند دونوں سگے بھائی تھے۔ دونوں ایک دوسرے پر جان چھڑکتے اور ایک پل کے لیے بھی جدا نہ ہوتے تھے۔

    دونوں کے دل میں سمائی کہ ایسی زندگی حاصل کریں کہ موت کا ڈر نہ رہے۔ دونوں ایک چوٹی پر جاکر ریاضت میں مشغول ہوگئے۔ برسوں تک بھی جب کوئی دیوتا متوجہ نہ ہوا تو مسلسل ایک ٹانگ پر کھڑے رہ کر ریاضت کرنے لگے۔

    برہما جی سے اُن کی یہ حالت نہ دیکھی گئی۔ انھوں نے خود دونوں کو وردان مانگنے کو کہا۔ دونوں یک زبان ہوکر بولے:

    مہاراج! ہماری مانگ بہت چھوٹی سی ہے۔ بس اتنی کہ کوئی ہتھیار ہم پر اثر نہ کرسکے اور ہم کسی دشمن کے ہاتھوں نہ مریں۔

    برہما نے کہا، ”یہ ناممکن ہے، موت اٹل ہے۔“

    اس پر دونوں نے سوچ کر کہا۔ ”ہمیں کوئی اور نہ مار سکے، اگر مرنا ہی ہے تو ہم بس ایک دوسرے کے ہاتھوں ہی مرسکیں۔“

    برہما نے ان کی بات مان لی اور غائب ہو گئے۔ دونوں چوں کہ ایک دوسرے سے بے حد محبت کرتے تھے، اس لیے انہیں یقین ہوگیا کہ اب وہ امر ہیں اور دنیا میں کوئی ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ انھوں نے عہد کیا کہ خواہ کچھ ہو وہ آپس میں کبھی نہیں لڑیں گے۔

    اب دونوں نے دنیا میں آفت برپا کردی۔ جس کو چاہتے مار ڈالتے، جس کو چاہتے بادشاہ بنا ڈالتے اور جس کو چاہتے ملک بدر کردیتے۔ ان کے غرور اور تکبر کا یہ عالم تھاکہ کسی کو خاطر میں نہ لاتے اور لوگوں کو طرح طرح سے ستاتے، تھوڑے ہی دنوں میں انھوں نے جور و جفا اور ظلم و تعدی کا ایسا بازار گرم کیا کہ لوگ ان کا نام سن کر کانوں پر ہاتھ رکھنے لگے۔

    بالآخر سب برہما سے فریادی ہوئے۔ لوگوں کا حال سن کر برہما کو بہت دکھ ہوا، مگر وہ زبان دے چکے تھے۔ اب کیا ہوسکتا تھا۔

    کافی سوچ بچار کے بعد برہما نے ایک حسین عورت کا روپ دے کر تلوتما کو دونوں بھائیوں کے پاس جانے اور ان کو رجھانے کا حکم دیا۔

    تلوتما ان بھائیوں کے پاس پہنچی اور انھیں اپنے رقص کا کمال دکھانے لگی۔ تلوتما نظر اٹھاتی تو معلوم ہوتا بجلی گررہی ہے اور اٹھلا کے چلتی تو محسوس ہوتا بہار مسکرا رہی ہے۔

    نوبت یہاں تک پہنچی کہ دونوں بھائی اس کی اداؤں پر فریفتہ ہوگئے۔ وہ ان دونوں کے بیچ آکر کھڑی ہوجاتی تو ایک طرف سُند اور دوسری طرف اُپ سُند اس کا ہاتھ تھام لیتے۔

    سُند کا اصرار تھا کہ وہ بڑا ہے اس لیے خوب صورت عورت پر اس کا حق ہے۔ اُپ سُند کا کہنا تھا کہ بڑوں کا فرض ہے کہ چھوٹوں کی خوشی کا خیال رکھیں، اس لیے حسینہ اس کو ملنی چاہیے۔

    تلوتما کا جادو چل چکا تھا۔ تکرار بڑھنے لگی اور دونوں ایک دوسرے کو مرنے مارنے پر تل گئے۔ جھگڑا بڑھ گیا اور دونوں نے ایک دوسرے پر وار کیا اور زمین خون سے سرخ ہوگئی۔ ان دونوں کی لاشیں زمین پر تڑپنے لگیں۔

    برہما نے کہا، ”دیکھ لو، باہمی عداوت بڑے بڑے سورماؤں کو موت کے گھاٹ اتار دیتی ہے۔“

    (اس قدیم ہندی داستان میں نفسانی خواہشات، دنیاوی اور ظاہری حسن کے دھوکے میں آجانے کا انجام بتایا گیا ہے)

  • بھارت: حکومت کتنی "ذمہ دار” اور معاشرہ کتنا "مہذب”؟؟؟

    بھارت: حکومت کتنی "ذمہ دار” اور معاشرہ کتنا "مہذب”؟؟؟

    تحریر: شازیہ ابرار

    مسلمانوں کا قاتل، اقلیتوں کا دشمن مودی اور اس کی جنونی سرکار ملک بھر میں انتہا پسندی اور مذہبی تفریق کو ہوا دے رہی ہے اور اقوامِ عالم سمیت تمام ادارے خاموش ہیں۔

    کشمیر میں ہزاروں معصوم اور نہتے انسانوں پر بدترین تشدد کر کے ان کی جان لینے والی بھارتی فوج اور دیگر سیکیورٹی اداروں نے آج بھی غیرانسانی سلوک اور بربریت کا بازار گرم کر رکھا ہے۔ کرونا کی وبا کے باوجود کشمیر میں عوام کو بنیادی ضروریات اور خاص طور پر طبی سہولیات سے محروم رکھا جارہا ہے۔

    دوسری طرف شہریت کے متنازع قانون کے بعد بھارت کے مختلف شہروں خاص طور پر دلی میں مسلم کُش حملوں میں متعدد جانیں ضایع ہوچکی ہیں جب کہ مسلمانوں کے گھروں اور دکانوں کو نذرِ آتش کیا جارہا ہے جس میں پولیس اور انتظامیہ کا بلوائیوں کو بھرپور تعاون اور مدد حاصل ہے۔

    بعض علاقوں میں‌ جنونی اور انتہا پسند ہندوؤں کی جانب سے مسلمان خاندانوں کو خوف زدہ کرنے کے لیے طرح طرح کے ہتھکنڈے استعمال کرنے کی اطلاعات ہیں۔ ان میں ہندو دھرم کی پیروکار سیاسی اور مذہبی شخصیات کے علاقائی سطح پر جلسے اور مختلف علاقوں کے دورے شامل ہیں‌ جن میں ہندوؤں کو مسلمانوں کے خلاف اکسایا جارہا ہے۔

    بھارتی سماج میں مذہبی جنون، انسان دشمنی اور وحشی پن ہر روز بڑھتا نظر آرہا ہے۔ دلی اور دیگر شہروں میں مسلمانوں کو بات بات پر مارنے پیٹنے اور کسی طرح کا نقصان پہنچانے کے علاوہ بہانے سے اور طرح طرح کے الزامات لگا کر بدترین تشدید کے دوران ہلاک کرنے کے واقعات رپورٹ ہوئے ہیں۔ ان واقعات کی تصاویر اور ویڈیوز بھی سوشل میڈیا پر وائرل ہورہی ہیں۔

    بھارتی دارالحکومت کے ایک علاقے میں‌ محبوب نامی نوجوان کو کرونا وائرس پھیلانے کا الزام لگا کر تشدد کا نشانہ بنایا گیا یہاں تک کہ مسلمان نوجوان شہید ہوگیا، یہ قتل بی جے پی کے انتہا پسندوں نے کیا جس کے بعد یہ کہا جائے تو کیا غلط ہو گا کہ بھارتی معاشرہ اس وقت بھی جب کہ دنیا کو ایک بدترین اور کٹھن وقت کا سامنا ہے، درندگی اور جہالت کا مظاہرہ کر رہا ہے۔

    کیا اتنا کچھ ہوجانے کے بعد بھی بھارتی سماج کو مہذب اور باشعور کہا جانا چاہیے؟ اسی طرح بھارتی حکم راں اس لائق ہیں کہ اقوام متحدہ اور اس کے رکن ممالک انھیں ذمہ دار اور عوام دوست تصور کریں؟

  • دنیا بھر میں دیوالی کے رنگ

    دنیا بھر میں دیوالی کے رنگ

    دنیا بھر میں ہندو مذہب کا تہوار دیوالی منایا جارہا ہے۔ یہ روشنیوں کا تہوار ہے اور اس موقع پر ہندو برادری انتہائی عقیدت و احترام سے تقریبات کا اہتمام کرتی ہے۔

    دیوالی کی تاریخ بے حد قدیم ہے اور ہندو مت کے قدیم پرانوں میں اس کا ذکر’روشنی کی اندھیرے پرفتح کے دن‘ کے طور پر کیا جاتا ہے۔

    post-1

    دیوالی 5 روزہ تہوار ہے جس میں اصل دن ہندو کلینڈر کے مطابق ’کارتیک‘ نامی مہینے کا پہلا دن ہے۔

    post-2

    دیوالی کی تقریبات کا آغاز دو روز پہلے کردیا جاتا ہے۔

    %d8%af%db%8c%d9%88%d8%a7%d9%84%db%8c

    جس کے بعد یہ نئے چاند کے طلوع ہونے کے دو دن بعد تک جاری رہتی ہیں۔

    post-3

    ہندو برادری اس موقع پر خصوصی اہتمام کرتی ہے۔ نئے لباس زیب تن کیے جاتے ہیں اور گھروں اور بازاروں کی صفائی ستھرائی کی جاتی ہے۔

    post-4

    دیا اور رنگولی دیوالی کے تہوار کے اہم جزو ہیں اور بچے اس موقع پر آتش بازی کرتے ہیں۔

    post-6

    اس موقع پر مندروں میں لکشمی پوجا کا اہتمام کیا جاتا ہے اور پرساد تقسیم ہوتا ہے۔

    post-5