Tag: ہندو مسلم اتحاد

  • جدوجہدِ آزادی:‌ شدھی اور سَنگَھٹن تحریکوں نے ہندو ذہنیت کو آشکار کیا!

    جدوجہدِ آزادی:‌ شدھی اور سَنگَھٹن تحریکوں نے ہندو ذہنیت کو آشکار کیا!

    ہندوستان میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے مکروفریب، اقتدار پر قبضے کے لیے سازشوں اور حکم رانی کی کوششوں کے خلاف جب ہندوستانی قوم کی بغاوت ناکام ہوگئی تو برطانیہ نے اسے جواز بنا کر یہاں اپنا راج قائم کرلیا۔ لیکن آزادی کے لیے جدوجہد کو نہ روک سکے اور وہ وقت آیا جب انگریزوں کو بٹوارے کا اعلان کرنا پڑا۔

    یہ وہ دور تھا جب دو بڑی قومیتیں یا عقائد کے پیروکار یعنی مسلمان اور ہندو انگریزوں کے خلاف اکٹھے ہوگئے تھے۔ ان کے علاوہ سکھ، پارسی، بودھ اور دوسرے مذہبی اور لسانی بنیاد پر اقلیت کہلانے والے سماجی گروہ بھی متحدہ ہندوستان کی قیادت کے ساتھ تھے اور انگریزوں کے اقتدار سے نجات چاہتے تھے۔ انہی اکثریتی اور اقلیتی اقوام اور گروہوں سے منسلک سیاسی و سماجی راہ نماؤں نے متحد ہو کر انگریزوں کو اپنے وطن سے نکالنے کی تحریک شروع کی تاکہ وہ یہاں اپنی حکومت قائم کرسکیں۔ وطن پرستی زور پکڑ رہی تھی اور اس وقت ہندو مسلم اتحاد کا نعرہ لگایا جارہا تھا، لیکن ماقبل کئی ایسے واقعات اور سانحے رونما ہو چکے تھے جو یہ ثابت کرتے تھے کہ دراصل ہندوستان میں دو بڑی قومیں آباد ہیں جو اپنے مذہب، رہن سہن، روایات اور ثقافت کے اعتبار سے ہر طرح جداگانہ شناخت رکھتی ہیں اور اکٹھے نہیں‌ رہ سکتیں۔ یہ مسلمان اور ہندو ہیں جن کا اتحاد غیرفطری اور یہ نعرے محض ایک قابض قوم کو دکھانے کے لیے ہیں اور آزادی کے بعد ان کا بہم رہنا مشکل ہوگا۔

    تاریخ بتاتی ہے کہ ہندو مسلم اتحاد کا سنہری خواب تحریکِ خلافت کے دوران ہی ادھورا نظر آنے لگا تھا اور جونہی یہ تحریکِ کم زور پڑی ہندو مسلم فسادات کا ایک طویل اور خوف ناک سلسلہ چل نکلا۔ 1920ء کے بعد ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان ہر قسم کے تعلقات بڑھتی ہوئی کشیدگی کی نذر ہونے لگے۔ اس کشیدگی کی انتہا کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ 1923ء میں 11، اگلے سال 18، 1925ء میں 16 اور اس کے ایک سال بعد یعنی 1926ء میں 35 اور اگلے ہی برس 37 افسوس ناک واقعات رونما ہوئے جو ہندو مسلم فسادات کا نتیجہ تھے۔ ہر سال ایسے واقعات بڑھتے رہے جب کہ چھوٹے اور معمولی نوعیت کی تکرار اور جھگڑے عام ہوتے جارہے تھے۔

    ہندوستان کی تاریخ بتاتی ہے کہ ہندو شروع ہی سے مسلمانوں کو اپنا مطیع و حاشیہ نشیں بنا کر رکھنے کا خواب دیکھتے آئے تھے جس کا ایک سبب یہ بھی تھا کہ وہ جس ہندوستان میں‌ رہتے تھے، اس پر صدیوں تک مسلمانوں نے حکومت کی تھی اور دہلی مغل بادشاہوں کا پایۂ تخت رہا تھا۔ اس نے ہندوؤں میں شدید احساسِ‌ محرومی پیدا کردیا تھا۔ مغل سلطنت کے کم زور پڑ جانے کے بعد اور انگریزوں کی آمد سے قبل بھی یہاں مختلف چھوٹے بڑے علاقے مسلمان حکم رانوں کے زیرِ‌نگیں تھے اور وہ ریاستوں کے راجہ تھے۔ اگرچہ ان ادوار میں ہندو مسلم اتحاد برقرار رکھنے کے لیے ہر سطح پر دیگر مذہبی اقلیتوں کے حقوق کا خیال رکھا گیا، لیکن ہندو خود کو محکوم سمجھتے تھے۔ مغل دور میں ہندوؤں کو مذہبی، سماجی اور ثقافتی ہر قسم کی آزادی حاصل تھی۔ وہ اپنے رسم و رواج اور طور طریقوں کے مطابق زندگی بسر کررہے تھے مگر ان کا محرومی کا احساس مٹ نہ سکا۔

    انگریزوں کی آمد کے بعد مخصوص ذہنیت کے حامل ہندوؤں نے مسلمانوں کے خلاف زہر اگلنا شروع کردیا۔ وہ انگریزوں سے ساز باز اور مسلمانوں کے خلاف سازشیں کرکے اقتدار حاصل کرنے کا خواب دیکھنے لگے۔

    ہندو مسلم تعلقات خراب کرنے کی ابتدا ہندوؤں کی جانب سے ہوئی جنھوں نے پنڈت مدن موہن مالویہ، لالہ لاجپت رائے اور شردھا نند کی قیادت میں سَنگَھٹن اور شدھی تحریکیں شروع کیں۔ سَنگَھٹن کے معنی ایک ساتھ جوڑ کر مضبوطی سے باندھنا تھا۔ اس تحریک کا مقصد ہندوؤں کی تعلیم و تربیت کرنا، انھیں نظم و نسق اور مختلف امور کا ماہر بنانا، اور مخالفین سے اپنا دفاع سکھانا تھا جس کے لیے ایسے اسلحہ کا استعمال بھی سکھایا جاتا جس سے فسادات کی صورت میں مسلمانوں کے خلاف کام لینا مقصود تھا۔ ہندو نوجوانوں کو لاٹھیوں، اینٹوں کے ٹکڑوں اور بنوٹ کا دشمن پر استعمال سکھایا جارہا تھا۔

    دوسری طرف شدھی تحریک کا شور ہونے لگا جس کا مطلب تھا پاک کرنا۔ یعنی وہ لوگ جو اسلام کے ہمہ گیر اور آفاقی نظریات اور اس کی تعلیمات سے متاثر ہوکر ہندو مت ترک کر کے مسلمان ہو گئے تھے انھیں مجبور کرکے دوبارہ ہندو مت میں داخل کر لیا جائے۔ ان حالات میں ہندو مسلم اتحاد کا نعرہ محض فریب ہی تھا۔ ان دونوں تحریکوں کا مقصد ہندوستان سے مسلمانوں کے وجود کو مٹانا تھا اور اسے بڑے بڑے ہندو راہ نماؤں کی حمایت حاصل ہوگئی تھی۔ ایسی تحریکوں کے انتہا پسند ہندو لیڈروں نے مسلمانوں کے خلاف اپنے خبثِ باطن کا اظہار شروع کر دیا اور ڈاکٹر مونجے نے اودھ ہندو سبھا کی صدارت کرتے ہوئے کہا کہ ’’جس طرح انگلستان انگریزوں کا، فرانس فرانسیسیوں اور جرمن جرمنوں کا ملک ہے اسی طرح ہندوستان ہندوؤں کا ملک ہے۔‘‘ ہندو چاہتے تھے کہ یا تو مسلمانوں کو ہندوستان سے نکال دیا جائے یا انھیں ہندو مت قبول کرنے پر مجبور کردیا جائے۔

    جیسا کہ پہلے بیان کیا گیا کہ ہندوستان میں فرقہ وارانہ فسادات وسیع پیمانے پر ہونے لگے اور ان کا دائرہ پھیلتا جارہا تھا اور ہندو مسلمانوں کے خون کے پیاسے ہو رہے تھے، لیکن مسلم زعما بالخصوص قائدِاعظم ان مایوس کن حالات میں بھی ہندو مسلم اتحاد کے لیے کوشاں تھے۔ تاہم جلد ہی انھیں بھی احساس ہو گیا کہ علیحدہ وطن کا حصول ناگزیر ہے۔

    مصوّرِ پاکستان ڈاکٹر علّامہ اقبال کی بات کی جائے تو وہ برطانوی راج میں ہندوستانی آئین کے مطابق مسلمانوں کے لیے جداگانہ طرزِ‌ انتخاب سمیت علیحدہ ریاست کو اُس وقت بھی اہمیت دے رہے تھے جب قائداعظم سمیت دیگر مسلمان راہ نما ہندو مسلم اتحاد کے نعروں کے پیچھے چھپی ہندوؤں کی ذہنیت کا صحیح اندازہ نہیں لگا پائے تھے۔ علّامہ اقبال نے ایک موقع پر واضح طور پر کہا کہ مسلمانوں کو ہندوستان میں بحثیت مسلمان زندہ رہنا ہے تو ان کو جلد از جلد اپنی اصلاح و ترقی کے لیے سعی و کوشش کرنی چاہیے اور ایک علیحدہ سیاسی پروگرام بنانا چاہیے۔

    بیسویں صدی كے آغاز پر جو حالات پیدا ہوئے اور فسادات کے علاوہ سیاسی میدان میں مسلمان قیادت پر جب ہندوؤں کا مکروفریب کھل گیا تو اکابرین نے علیحدہ مسلم تشخص کی بات کی اور الگ سیاسی پلیٹ فارم تشکیل دے کر آزادی کی تحریک شروع کردی۔ اس راستے میں بے شمار قربانیاں دے کر مسلمانوں نے 14 اگست 1947ء کو پاکستان حاصل کیا۔

  • تیوہار: سماج کو مشترک انسانی رشتے میں پرونے میں مددگار

    تیوہار: سماج کو مشترک انسانی رشتے میں پرونے میں مددگار

    تیوہار کو عربی میں عید، ہندی میں تیوہار (یا تہوار) اور انگریزی میں فیسٹول (Festival) کہتے ہیں۔ تیوہار کا بنیادی مقصد اجتماعی روایات کو زندہ رکھنا اور فرد کو فرد سے جوڑنا ہے۔

    انسانی تہذیب کی پوری تاریخ میں تیوہار کا رواج رہا ہے۔ سال کی خاص تاریخوں میں مشترک طور پر قومی تقریب منعقد کرنا، یا مشترک تصور کے تحت کسی یادگار دن کو اجتماعی خوشی منانا، اسی کا نام تیوہار ہے۔

    تیوہار عام طور پر سال کی مقرر تاریخوں میں ہوتے ہیں۔ اس روز سب لوگ جمع ہو کر مخصوص انداز میں خوشی کا اظہار کرتے ہیں۔ ایک دوسرے کو مبارک باد دیتے ہیں۔ اس طرح تیوہار لوگوں کے اندر اجتماعیت اور یک جہتی پیدا کرنے میں مددگار ہوتا ہے۔ وہ سماج کے ایک حصہ کو اس کے دوسرے حصہ سے قریب لے آتا ہے۔ تیوہار ملاقات اور تعلق کی مضبوط اور پائیدار زمین فراہم کر نے کا ایک ذریعہ ہے۔

    تبوہار کا ایک حصہ عام طور پر کسی مخصوص سماجی گروہ کے اپنے عقیدہ اور اپنی تاریخ سے تعلق رکھتا ہے۔ اور ایک حصہ عمومی ہوتا ہے جو صرف ایک سماجی گروہ کی دل چسپی کی چیز نہیں ہوتا بلکہ پورے سماج اور وسیع تر معنوں میں تمام انسانوں سے تعلق رکھتا ہے۔

    مثلاً عید میں دو گانہ نماز کا تعلق مسلم عقیدہ سے ہے۔ وہ مسلمانوں کے مذہب کا حصہ ہے۔ مگر عید میں شیرینی کھانا اور کھلانا ایک ایسی چیز ہے جس کا تعلق تمام انسانوں سے ہے۔ یہ عمل انسانی سطح پر میل جول کو بڑھانے والا ہے۔ وہ ایک عالمی چیز ہے نہ کہ کوئی گروہی چیز۔

    اسی طرح دیوالی میں لکشمی کی پوجا کرنا ہندو عقیدہ سے تعلق رکھتا ہے۔ وہ ہندو مذہب کا جزو ہے لیکن گھر کی صفائی ایک ایسی چیز ہے جس میں ہر آدمی کے لیے دل چسپی کا سامان موجود ہے۔ اس کو ہر آدمی خوشی سے اختیار کر سکتا ہے۔

    میں آزادی (1947ء) سے پہلے والے ہندوستان میں پیدا ہوا۔ مجھے اپنے بچپن کی یہ بات اچھی طرح یاد ہے کہ جب دیوالی کا نیوہار آنا تو مسلمان ہندوؤں کے یہاں تحفے بھیجتے۔ ہم لوگ بھی اپنے گھروں کی صفائی اسی طرح کیا کرتے تھے جس طرح ہندو لوگ اس تیوہار میں اپنے گھروں کی صفائی کرتے ہیں۔ اسی طرح جب عید کا تیوہار آتا تو ہندو بچے بھی مسلم بچوں کی طرح نئے کپڑے پہنتے۔ ہندو گھروں میں شیرینی کا اہتمام کیا جاتا اور وہ اپنے مسلم پڑوسیوں کی تواضع کر کے خوش ہوتے۔

    اس طرح مسلمانوں نے ہندو تیوہاروں میں اپنے لیے دل چسپی کا سامان پا لیا تھا اور ہندو، مسلمانوں کے تیوہاروں میں اپنی دل چسپی کا سامان پا رہے تھے۔ دونوں فرقوں کے تیوہار ایک اعتبار سے ان کے اپنے فرقے کے تیوہار ہوتے تھے اور دوسرے اعتبار سے ان کی حیثیت مشترک تیوہار کی ہوتی تھی۔ اس دوسرے اعتبار سے دونوں گویا ایک دوسرے کے تیوہاروں کو مل جل کر مناتے تھے۔ اس طرح دونوں فرقوں میں رواداری کو فروغ ملتا تھا۔ دونوں بار بار ایک دوسرے سے قریب ہوتے رہتے تھے۔

    اس چیز نے اس زمانہ میں ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان کامل ہم آہنگی اور یک جہتی پیدا کر رکھی تھی۔ دونوں میں کسی قسم کی اجنبیت حائل نہ تھی۔ دونوں اپنے آپ کو مسلم اور ہندو سمجھتے ہوئے وسیع تر ہندوستانی قوم کا جزو بنے ہوئے تھے۔ دونوں اس عظیم ملک سے یکساں محبت کرتے تھے جس کا نام اب تاریخ میں برصغیر ہند (Indian sub-continent) لکھا جاتا ہے۔

    یہی وہ دور ہے جس کی بابت سرسید نے اپنی ایک تقریر (27 جنوری 1883) میں کہا تھا:
    "ہندو ہونا یا مسلمان ہونا انسان کا اندرونی خیال یا عقیدہ ہے، جس کا بیرونی معاملات اور آپس کے برتاؤ سے کچھ تعلق نہیں۔ ہندوستان ہی ہم دونوں کا وطن ہے۔ ہندوستان ہی کی ہوا سے ہم دونوں جیتے ہیں۔ مقدس گنگا اور جمنا کا پانی ہم دونوں پیتے ہیں۔ ہندوستان ہی کی زمین کی پیداوار ہم دونوں کھاتے ہیں۔ مرنے میں، جینے میں دونوں کا ساتھ ہے۔ درحقیقت ہندوستان میں ہم دونوں باعتبار اہلِ وطن ہونے کے ایک قوم ہیں۔ اور ہم دونوں کے اتفاق اور باہمی ہمدردی اور آپس کی محبت سے ملک کی اور ہم دونوں کی ترقی اور بہبودی ممکن ہے۔ اور آپس کے نفاق اور ضد و عداوت اور ایک دوسرے کی بدخواہی سے ہم دونوں برباد ہونے والے ہیں۔”

    اس طرح کے مشترک ماحول اور یک جہتی کی فضا پیدا کرنے میں تیوہار نہایت اہم رول ادا کرتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ نفرت اور باہمی دوری کے قاتل ہیں۔ اگر تیوہاروں کو صحیح جذبہ کے ساتھ اور مشترک انداز میں منایا جائے تو ہمارے سماج سے ہر قسم کے جس کو ہے اور فساد کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ ہو جائے۔

    تیوہار کو اگر صحیح طریقہ سے منایا جائے تو بلاشبہ وہ رواداری، اتحاد اور یک جہتی پیدا کرنے کا ذریعہ ہے۔ وہ پورے سماج کو مشترک انسانی رشتہ میں جوڑ کر صالح معاشرہ کی تشکیل کرتا ہے۔ اور صالح معاشرہ سے پیدا ہونے والے نتیجہ ہی کا دوسرا نام یک جہتی ہے۔

    (ہندوستان کے نام ور اسکالر مولانا وحید الدّین خان کی یہ تحریر مخصوص جغرافیے اور معاشرتی حالات میں‌ مصنّف کے نقطۂ نظر اور خیالات پر مبنی ہے)

  • جدوجہدِ آزادی: ہندوستان میں جداگانہ مسلم تشخّص اور تحریکِ پاکستان

    جدوجہدِ آزادی: ہندوستان میں جداگانہ مسلم تشخّص اور تحریکِ پاکستان

    مسلمانوں کے ساتھ ساتھ صدیوں تک ہندوستان میں‌ ہر مذہب کے ماننے والے اسلامی احکامات، علما اور بزرگانِ دین کی تعلیمات اور صوفیائے کرام کے پیار و محبّت کے درس کی بدولت امن و سکون سے زندگی بسر کرتے رہے، لیکن انگریزوں کی آمد کے بعد جب اس اتحاد و اتفاق اور یگانگت نے دم توڑا تو ہندوستان بھی تقسیم ہوگیا۔

    برصغیر اور مسلم ہند کی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو سب سے نمایاں اور اہم بات یہ سامنے آتی ہے کہ یہاں مسلم قومیت کا تصوّر پہلے سے موجود تھا۔ جب ہندوؤں نے انگریزوں سے گٹھ جوڑ کرکے مسلمانوں کو سیاست و سماج، تعلیم و معیشت غرض ہر شعبے میں پیچھے رکھنے کی کوششیں شروع کیں اور مسلمانوں میں‌ احساس محرومی پیدا کرنے کے ساتھ مذہبی تفریق اور نفرت پھیلا کر ہندوستان پر حکومت کرنے کا خواب دیکھنے لگے جس نے جداگانہ تشخّص کو برقرار رکھنے کے تصّور کو تقویت دی اور تحریکِ پاکستان کا سفر شروع ہوا۔

    تحریکِ پاکستان کے یوں کئی عوامل ہیں، لیکن یہاں ہم اس حوالے سے چند بنیادی اور نمایاں پہلوؤں کا جائزہ لیتے ہیں۔

    جداگانہ تشخص اور تحریکِ پاکستان
    تحریکِ پاکستان کا ایک وسیع پس منظر ہے جسے جاننے کے بعد یہ کہنا مشکل نہیں کہ مسلمانوں میں جداگانہ تشخص اور علیحدہ وطن کی خواہش نے متعصب اور انتہا پسند ہندوؤں کی وجہ سے جنم لیا اور حالات کو بگاڑتے ہوئے مسلمان قیادت کو اس مقام پر پہنچا دیا جہاں انھوں نے اسلامیانِ ہند کے لیے الگ ریاست کی تشکیل کا مطالبہ کیا اور اس کے لیے ہر محاذ پر انگریزوں اور متعصب ہندوؤں کا مقابلہ کیا۔ 1920ء کے بعد جو حالات پیدا کردیے گئے تھے، ان کا بغور جائزہ لیا جائے تو عیاں ہوتا ہے کہ مسلمان انگریزوں اور ہندوؤں کی سازشوں کے سبب اکٹھے نہیں رہ سکتے تھے۔

    حالات میں بگاڑ اور ہندوؤں کا انگریزوں سے گٹھ جوڑ
    جنگِ بلقان کے دوران 1913ء میں کانپور میں مچھلی بازار کی مسجد کا بیرونی حصہ شہید کر دیا گیا جس سے مذہبی جذبات بُری طرح مجروح ہوئے ، اور مسلمانوں کو یہ احساس ہوگیا کہ برطانوی حکومت نے مسلمانوں کو مذہبی اور سماجی اعتبار سے پامال کرنے کا تہیہ کر لیا ہے، چناں چہ سانحہ کانپور سے اسلامیانِ ہند کی سیاست نے ایک نیا رخ اختیار کیا۔

    اس واقعے سے پورے ہندوستان کے مسلمانوں میں انگریزوں کے خلاف
    غم و غصہ پیدا ہوا اور ہر طرف ہلچل مچ گئی۔ مولانا ظفر علی خان، مولانا محمد علی جوہر، مولانا ابوالکلام آزاد جیسے راہ نماؤں اور اکابرین نے بالترتیب لاہور سے ’’زمیندار‘‘، دہلی سے ’’کامریڈ‘‘ اور کلکتہ سے ’’الہلا ل‘‘ نامی اخبارات جاری اور مسلمانوں کا مؤقف سامنے رکھتے ہوئے انگریز سرکار کی پالیسیوں پر تنقید کی۔ دیگر مسلم زعماء مثلا ًمولانا عبدالباری فرنگی ، محلی، مولانا آزاد سبحانی ، مولانا شوکت علی وغیرہ نے ایسے واقعات کو انگریزوں کی مسلم دشمن پالیسی قرار دے کر کڑی نکتہ چینی کی۔

    اسی واقعے کے بعد جب مسلمانوں پر فائرنگ اور مسلم راہ نماؤں کی گرفتاریاں شروع ہوئیں تو ان راہ نماؤں نے شدید احتجاج کیا جس سے مسلمانوں میں ملّی بیداری اور عملی سیاست میں حصّہ لینے کی سوچ کو تقویت پہنچی۔

    ہندو مسلم فسادات
    1920ء کے بعد ہندوستان میں انگریز سرکار کی مسلم دشمن پالیسیوں اور ہندوؤں سے گٹھ جوڑ کر کے نقصان پہنچانے کا جو سلسلہ شروع ہوا وہ نہ صرف برطانوی دور کی بدترین یاد ہے بلکہ مسلسل فسادات نے ایک خونیں تاریخ رقم کی۔ اس عشرے میں ہندو مسلم فسادات کی تاریخ میں ایک نئے اور سنگین باب کا اضافہ ہوا اور ہندو مسلم اتحاد کے لیے ماضی میں کی جانے والی تمام کوششیں برباد ہوگئیں۔ مسلمانوں پر عیاں ہوگیا کہ انگریز اور ہندو ان کے بدترین دشمن ہیں اور وقت گزرنے کے ساتھ ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان ایک ایسی خلیج حائل ہوگئی جسے پاٹنا ممکن نہ تھا۔

    محمد علی جناح اور ہندو مسلم اتحاد کی کوششیں
    محمد علی جناح جو اس وقت ہندو مسلم اتحاد کے ایک سفیر اور اہم راہ نما تھے، وہ بھی حالات سے دل گرفتہ نظر آئے۔ اسی عشرہ میں اتحاد و اتفاق بڑھانے اور انگریزوں سے ہندوستان کو آزاد کرانے کے حوالے سے کانفرنسیں بھی ہوئیں اور ہندو مسلم مفاہمت کے لیے کئی تجاویز سامنے آئیں جن میں قائد اعظم کے ایما پر دہلی تجاویز اہم ترین تھیں۔ یہ تجاویز 1937 میں مسلم زعما کے ایک اجلاس میں مرتب کی گئی تھیں، مگر آل انڈیا نیشنل کانگریس نے گاندھی اور نہرو کی سرکردگی میں ان مطالبات پر غور کیا اور اپنے ابتدائی اجلاس میں تسلیم بھی کرلیا لیکن بعد میں چند متعصب ہندوؤں کے زیرِ اثر ان میں سے چند مطالبات کو رد کر دیا گیا۔

    کانگریس کی چالیں اور مسلمانوں کو کم زور کرنے کی سازشیں
    اس کے بعد جب نہرو رپورٹ سامنے آئی جو کانگریس نے ہندوستان کے آئین کی حیثیت سے تیار کی تھی، ان میں بھی مسلم حقوق کو پامال کیا گیا تھا۔ یہی نہیں بلکہ دسمبر 1928ء اور جنوری 1929ء میں جب نہرو رپورٹ کو حتمی شکل دینے کے لیے کلکتہ میں نیشنل کنونشن منعقد ہوا تواس میں بھی محمد علی جناح کے تین بنیادی مطالبات کو مسترد کر دیا گیا۔

    ہندو انڈیا اور مسلم انڈیا
    محمد علی جناح اور ان ساتھیوں کے لیے یہ ایک انتہائی مایوس کن اور چونکا دینے والی صورت حال تھی۔ محمد علی جناح نے اپنے پارسی دوست جمشید نسروانجی سے کہا کہ’’آج ہندو انڈیا اور مسلم انڈیا اس طرح جدا ہو گئے ہیں کہ اب کبھی متحد نہیں ہو سکیں گے۔‘‘

    اس رپورٹ کے بعد اس وقت مختلف معاملات پر گروہ بندی اور اختلافات کی وجہ سے دور ہو جانے والے مسلمان راہ نماؤں کو بھی جب کانگریس کی مسلم دشمنی کا یقین ہوگیا تو وہ سب متحد ہوگئے۔

    مسلمان قیادت کا اتحاد اور آل پارٹیز مسلم کانفرنس
    جنوری 1929ء میں آل پارٹیز مسلم کانفرنس اسی اتحاد کا مظہر ہے۔ اس کانفرنس کا اجلاس دہلی میں ہوا جس کی صدارت سر سلطان محمد آغا خان نے کی۔ اس کانفرنس میں نہ صرف میاں محمد شفیع اور سر شفاعت احمد خان پیش پیش تھے بلکہ ترک موالات اور تحریک خلافت کے راہ نما مولانا محمد علی جوہر، مولانا شوکت علی اور حسرت موہانی جیسے جید علما اور سیاست دانوں نے بھی اس میں اہم کردار اداکیا۔

    قائدِ اعظم کے 14 نکات
    ان واقعات کی روشنی میں محمد علی جناح نے 1929ء میں اپنے مشہور چودہ نکات پیش کیے اور اسے برصغیر کی تاریخ میں اسلامیانِ ہند کے منشور کی حیثیت حاصل ہوئی۔ بعد کے برسوں میں مسلم لیگ اور محمد علی جناح کی قیادت میں مختلف مسلم جماعتوں کے اتحاد کی کوششیں جاری رہیں اور لندن میں تین گول میز کانفرنسیں منعقد ہوئیں جس کے بعد ایک مشترکہ پارلیمانی کمیٹی کی سفارشات کی روشنی میں گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1935ء مرتب کیا گیا۔

    انتخابات اور کانگریس کی غیر متوقع کام یابی
    1906ء سے 1938ء تک ہندو مسلم مفاہمت کی کوششیں اور اس ضمن میں تجاویز مسلمانوں کی ہی جانب سے پیش کی جاتی رہی تھیں لیکن کانگریس اور ہندوؤں کی جانب سے منفی رویہ اور غیر ذمہ داری کا مظاہرہ دیکھا گیا جس نے 1937ء کے انتخابات کے بعد شدت اختیار کرلی۔ انتخابات سے قبل قوی امید تھی کہ کانگریس اور مسلم لیگ میں مفاہمت ہو جائے گی اور دونوں جماعتیں مل کر مخلوط وزارتیں قائم کریں گی، لیکن انتخابات میں کانگریس کی غیر متوقع کام یابی کے بعد طاقت کے نشے میں بدمست کانگریس نے کچھ اور ہی منصوبہ بنا لیا۔

    کانگریس کے متعصب اور مفاد پرست ہندو راہ نماؤں نے دوسری تمام پارٹیوں کو اپنے اندر ضم کرکے ہندوستان کی واحد سیاسی جماعت بن جانے کا سوچا اور مخلوط وزارتوں کے بارے میں مسلم لیگ کی پیش کش کو ٹھکرا دیا، یہی نہیں جن ہندو اکثریتی صوبوں میں کانگریسی وزارتیں قائم ہوئیں وہاں مسلمانوں کو ان کے حقوق سے محروم کردیا۔

    کانگریس کی پالیسیاں اور مسلم کش اقدامات
    سیاسی طاقت کے حصول کے بعد کانگریس کی جانب سے ایک سوچی سمجھی پالیسی کے تحت یکے بعد دیگرے مسلم کش اقدامات کیے جن میں بندے ماترم کو قومی ترانہ کی حیثیت دینا، تمام سرکاری عمارتوں پر کانگریس کے پرچم کو قومی پرچم کی حیثیت سے لہرانا، اردو کی جگہ ہندی زبان، گائے کو ذبح کرنے پر پابندی، ملازمتوں میں مسلمانوں کو ان کے مخصوص اور مقررہ حقوق سے محروم کرنا۔

    آل انڈیا مسلم لیگ کی مقبولیت
    مسلم قیادت اور اکابرین نے یہ سب دیکھتے ہوئے مسلمانوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنے کی غرض سے قائدِ اعظم کے ساتھ 1934ء میں‌ کوششوں کا آغاز کیا اور جب مسلم لیگ کا اجلاس لکھنؤ میں 1937ء میں ہوا تو اس نے ہندوستان بھر میں مسلمانوں کو ایک ایسے جوش وجذبہ سے سرشارکردیا جس کی اس سے پہلے کوئی نظیر نہیں ملتی۔ اس اجلاس کے صرف تین ماہ بعد ہی مسلم لیگ کی نئی شاخیں قائم ہونے لگیں اور رکنیت سازی زوروں پر تھی۔

    محمد علی جناح کی حکمت عملی، صبر و تحمل اور سیاسی بصیرت کے باوصف تحریک کام یاب ہوتی چلی گئی اور ہندوستان بھر میں ترقی کی اور بڑے صوبوں میں اسلامیانِ ہند کے کام یاب ترین اجلاس منعقد ہوئے۔ مسلم لیگ کی روز افزوں قوّت اور مقبولیت بڑھنے کا اندازہ ضمنی انتخابات کے نتائج سے بھی ہوتا ہے جس نے سیاسی طور پر مسلمانوں کو بہت فائدہ پہنچایا۔ مسلم لیگ کی مقبولیت کا ایک ثبوت 1939ء میں یومَِ نجات منانے کی جناح صاحب کی اپیل تھی جس پر برصغیر کے مسلمانوں نے والہانہ انداز اور جوش و جذبے سے لبیک کہا۔

    مسلم قومیت کا فروغ اور علیحدہ ریاست کا قیام
    وہ وقت بھی آیا جب قائداعظم نے الگ مسلم قومی تشخص کی اس طرح توضیح اور تشریح کی کہ مسلم اکثریتی صوبوں میں ایک علیحدہ مملکت کے قیام پر سب رضامند ہوگئے۔ چنانچہ قائداعظم کی زیرِ قیادت مسلم لیگ نے لاہور میں 1940ء میں منعقدہ اجلاس میں ایک علیحدہ مسلم ریاست کے قیام کو اپنا نصب العین قرار دے دیا جو بعد میں پاکستان کے نام سے مشہور ہوا۔

    یہ پہلا موقع تھا جب اسلامیانِ ہند نے اتنے واضح اور مدلل انداز میں اپنی منفرد اور علیحدہ قومیت کا نہ صرف اعلان اور دعویٰ کیا بلکہ برصغیر میں ایک علیحدہ وطن کی تشکیل پر بھی زور دیا اور 14 اگست 1947ء میں لاکھوں جانوں کی قربانیاں دے کر مسلمانوں نے پاکستان حاصل کیا۔

  • جدوجہدِ آزادی: شدھی اور سَنگَھٹن تحریکوں نے ہندو انتہا پسند ذہنیت کو بے نقاب کیا

    جدوجہدِ آزادی: شدھی اور سَنگَھٹن تحریکوں نے ہندو انتہا پسند ذہنیت کو بے نقاب کیا

    ناکام غدر کے بعد جب ایسٹ انڈیا کمپنی کے گھناؤنے اور پُر فریب کردار کو سمیٹ کر برطانیہ نے ہندوستان کو اپنی کالونی بنایا اور یہاں انگریز راج قائم ہوا تو مسلمان اور ہندو سیاسی و سماجی راہ نما اور اکابرین نے متحد ہوکر انگریزوں کو اپنے وطن سے نکالنے اور اپنی حکومت قائم کرنے کا خواب دیکھنا شروع کیا۔

    اس وقت ہندو مسلم اتحاد کے نعرے نے زور پکڑا، لیکن اس سے قبل کئی واقعات اور سانحات رونما ہو چکے تھے جن سے ثابت ہوتا تھا کہ ہندوستان میں دو بڑی قومیں آباد ہیں جو اپنے مذہب، رہن سہن، روایات اور ثقافت کے اعتبار سے ہر طرح جداگانہ شناخت رکھتی ہیں اور اکٹھے نہیں‌ رہ سکتیں۔

    ہندو مسلم اتحاد کا سنہری خواب تحریکِ خلافت کے دوران ہی ادھورا نظر آنے لگا تھا اور جونہی یہ تحریکِ کم زور پڑی ہندو مسلم فسادات کا ایک طویل اور خوف ناک سلسلہ چل نکلا۔

    1920ء کے بعد ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان ہر قسم کے تعلقات بڑھتی ہوئی کشیدگی کی نذر ہونے لگے۔ اس کشیدگی کی انتہا کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ 1923ء میں 11، اگلے سال 18، 1925ء میں 16 اور اس کے ایک سال بعد یعنی 1926ء میں 35 اور اگلے ہی برس 37 افسوس ناک واقعات رونما ہوئے جو ہندو مسلم فسادات کا نتیجہ تھے۔ ہر سال ایسے واقعات بڑھتے رہے جب کہ چھوٹے اور معمولی نوعیت کی تکرار اور جھگڑے عام ہوتے جارہے تھے۔

    تاریخ سے ثابت ہے کہ ہندو شروع ہی سے مسلمانوں کو اپنا مطیع و حاشیہ نشیں بنا کر رکھنے کا خواب دیکھتے آئے تھے جس کا ایک سبب یہ بھی تھا کہ وہ جس ہندوستان میں‌ رہتے تھے، اس پر صدیوں سے مسلمان حکم رانی کررہے تھے اور دہلی میں ان کا تخت سجا رہا تھا۔

    مغل سلطنت کے کم زور پڑ جانے کے بعد اور انگریزوں کی آمد سے قبل بھی یہاں مختلف چھوٹے بڑے علاقے مسلمان حکم رانوں کے زیرِ‌نگیں تھے اور ریاستوں پر انہی کی حکم رانی تھی۔

    ہندو احساسِ محرومی کا شکار بھی تھے اور خود کو مسلمانوں کا محکوم خیال کرتے تھے جب کہ انھیں مغل دور میں مذہبی اور ہر قسم کی آزادی حاصل تھی۔ ان کی عبادت گاہیں محفوظ تھیں اور وہ اپنے رسم و رواج اور طور طریقوں کے مطابق زندگی بسر کررہے تھے۔

    انگریزوں کی آمد کے بعد مخصوص ذہنیت اور انتہا پسندوں نے ہندو مسلم تعلقات کو خراب کرنے کی کوششیں شروع کیں اور خیال کیا کہ انگریزوں سے ساز باز اور سازشیں کرکے اقتدار حاصل کرسکیں گے۔

    ہندو مسلم تعلقات خراب کرنے کی ابتدا ہندوؤں کی جانب سے ہوئی جنھوں نے پنڈت مدن موہن مالویہ، لالہ لاجپت رائے اور شردھا نند کی قیادت میں سَنگَھٹن اور شدھی تحریکیں شروع کیں۔ سَنگَھٹن کے معنی ایک ساتھ جوڑ کر مضبوطی سے باندھنا تھا۔ اس تحریک کا مقصد ہندوؤں کی تعلیم و تربیت کرنا، انھیں نظم و نسق اور مختلف امور کا ماہر بنانا، اور مخالفین سے اپنا دفاع سکھانا تھا جس کے لیے ایسے اسلحہ کا استعمال بھی سکھایا جاتا جس سے فسادات کی صورت میں مسلمانوں کے خلاف کام لینا مقصود تھا۔ ہندو نوجوانوں کو لاٹھیوں، اینٹوں کے ٹکڑوں اور بنوٹ کا دشمن پر استعمال سکھایا جارہا تھا۔

    دوسری طرف شدھی تحریک کا شور ہونے لگا جس کا مطلب تھا پاک کرنا۔ یعنی وہ لوگ جو اسلام کے ہمہ گیر اور آفاقی نظریات اور اس کی تعلیمات سے متاثر ہوکر ہندو مت ترک کر کے مسلمان ہو گئے تھے انھیں مجبور کرکے دوبارہ ہندو مت میں داخل کر لیا جائے۔

    ان حالات میں ہندو مسلم اتحاد کا نعرہ محض فریب ہی تھا۔ ان دونوں تحریکوں کا مقصد ہندوستان سے مسلمانوں کے وجود کو مٹانا تھا اور اسے بڑے بڑے ہندو راہ نماؤں کی حمایت حاصل تھی۔

    ایسی تحریکوں کے انتہا پسند ہندو لیڈروں نے مسلمانوں کے بارے میں اپنی ذہنیت کا کھلم کھلا اظہار شروع کردیا تھا اور ڈاکٹر مونجے نے اودھ ہندو سبھا کی صدارت کرتے ہوئے کہا کہ ’’جس طرح انگلستان انگریزوں کا، فرانس فرانسیسیوں اور جرمن جرمنوں کا ملک ہے اسی طرح ہندوستان ہندوؤں کا ملک ہے۔‘‘ ہندو چاہتے تھے کہ یا تو مسلمانوں کو ہندوستان سے نکال دیا جائے یا انھیں ہندو مت قبول کرنے پر مجبور کردیا جائے۔

    جیسا کہ پہلے بیان کیا گیا کہ ہندوستان میں فرقہ وارانہ فسادات وسیع پیمانے پر ہونے لگے اور ان کا دائرہ پھیلتا جارہا تھا اور ہندو مسلمانوں کے خون کے پیاسے ہو رہے تھے، لیکن مسلم زعما بالخصوص قائدِاعظم ان مایوس کن حالات میں بھی ہندو مسلم اتحاد کے لیے کوشاں تھے۔ تاہم جلد ہی انھیں بھی احساس ہو گیا کہ علیحدہ وطن کا حصول ناگزیر ہے۔

    مصوّرِ پاکستان ڈاکٹر علّامہ اقبال کی بات کی جائے تو وہ برطانوی راج میں ہندوستانی آئین کے مطابق مسلمانوں کے لیے جداگانہ طرزِ‌ انتخاب سمیت علیحدہ ریاست کو اُس وقت بھی اہمیت دے رہے تھے جب قائداعظم سمیت دیگر مسلمان راہ نما ہندو مسلم اتحاد کے نعروں کے پیچھے چھپی ہندوؤں کی ذہنیت کا صحیح اندازہ نہیں لگا پائے تھے۔

    علّامہ اقبال نے ایک موقع پر واضح طور پر کہا کہ مسلمانوں کو ہندوستان میں بحثیت مسلمان زندہ رہنا ہے تو ان کو جلد از جلد اپنی اصلاح و ترقی کے لیے سعی و کوشش کرنی چاہیے اور ایک علیحدہ سیاسی پروگرام بنانا چاہیے۔

    بیسویں صدی كے آغاز پر جو حالات اور فسادات سمیت دیگر واقعات رونما ہوئے تو مسلمان قائدین اور اکابرین نے علیحدہ تشخص کی بات کرتے ہوئے الگ سیاسی پلیٹ فارم بنانے كی کوششیں تیز کردیں اور بے شمار قربانیوں کے بعد پاکستان حاصل کیا۔

  • رائے جانکی پرشاد: ہندو مسلم تہذیب کا نمائندہ، اردو کا دیوانہ

    رائے جانکی پرشاد: ہندو مسلم تہذیب کا نمائندہ، اردو کا دیوانہ

    متحدہ ہندوستان میں اور تقسیم کے بعد سرحدی پٹی کے دونوں اطراف شہروں میں بس جانے والے عالم و فاضل، نہایت قابل اور باصلاحیت لوگوں نے اپنے اپنے شعبوں میں‌ کام جاری رکھا اور بٹوارے سے قبل بلاتفریقِ رنگ و نسل اور مذہب علمی و ادبی میدان میں اپنے ہم عصروں کے کردار اور ان کے کارناموں کا کشادہ دلی سے اعتراف کیا۔

    حیدر آباد دکن میں جہاں علم و ادب کے میدان میں مسلمانوں نے گراں قدر خدمات انجام دیں اور نسلِ نو کے لیے بیش قیمت سرمایہ چھوڑا ہے، وہیں کئی غیر مسلم شخصیات بھی تاریخِ ادب میں ہمیشہ زندہ رہیں گی۔ رشید الدین نے ایسی ہی چند نابغہ روزگار ہستیوں کا تذکرہ کیا ہے جن میں سے ایک رائے جانکی پرشاد ہیں۔ وہ لکھتے ہیں:

    اردو میں اعلٰی قابلیت کی وجہ وہ دارالترجمہ سے وابستہ ہوگئے تھے۔ قیامِ جامعہ عثمانیہ کے بعد اردو کو علمی درجہ تک پہنچانے کے لیے دارالترجمہ قائم کیا گیا تھا جہاں اردو کے بلند قامت ادبا اور شعرا کی خدمات حاصل کی گئی تھیں جن میں جوش ملیح آبادی، علامہ عبداللہ عمادی اور بابائے اردو جیسی عظیم المرتبت شخصیتیں شامل تھیں۔

    رائے جانکی پرشاد نے ایسی بلند قامت شخصیتوں کے ساتھ مل کر اس مقصد کو پورا کیا اور علمی اصطلاحات کی تدوین فرمائی۔

    رائے جانکی پرشاد ہندو مسلم تہذیب کی نمائندہ شخصیت تھے۔ ان کا لباس ٹوپی، شیروانی اور پاجامہ ہوا کرتا تھا۔ وہ وظیفہ حسنِ خدمت پر علیحدگی کے بعد مختلف سماجی اداروں سے وابستہ ہوئے اور ان کی راہ نمائی کی۔

    وہ بڑے صاحب الرائے شخصیت کے حامل تھے۔ حامد نواز جنگ نے جو لا ولد تھے انہی کے مشورے پر اپنے گراں قدر سرمائے سے ایک ٹرسٹ قائم کیا جس سے فنی تعلیم حاصل کرنے والے مسلم طلبا کو وظائف جاری کیے جاتے تھے۔ رائے جانکی پرشاد اس ٹرسٹ کے واحد غیر مسلم ٹرسٹی
    تھے۔

    نواب مہدی نواز جنگ جو اس وقت وزیر طبابت تھے، انہوں نے رائے جانکی پرشاد کے مشورے پر ہی کینسر اسپتال قائم کیا۔ اردو ہال کا قیام بھی موصوف کے گراں قدر مشوروں کا حاصل ہے۔

    ان ساری گوناگوں مصروفیات کے باوجود انہوں نے تصنیف و تالیف کا کام بھی جاری رکھا۔ ان کی تصانیف ’’عصر جدید‘‘ ’’ترجمہ کا فن‘‘ اور’’انگریزی اردو ڈکشنری‘‘ اردو ادب میں ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔