Tag: ہندی سنیما

  • شیام بینیگل: انڈین آرٹ سنیما کا سنہری باب

    شیام بینیگل: انڈین آرٹ سنیما کا سنہری باب

    دنیا میں دو مرکزی طرز کا سنیما تخلیق ہوتا ہے، جس کو کمرشل اور آرٹ سنیما کہا جاتا ہے۔ حال ہی میں وفات پانے والے بھارتی فلم ساز شیام بینیگل کا تعلق دوسری طرز کے سنیما سے ہے۔ وہ ایک بہت عمدہ اسکرپٹ نویس بھی تھے۔انہوں نے اپنی فلموں میں ہندوستانی سیاست، مسلم سماج، خواتین کی حالت زار اور معاشرتی بدصورتی کو بیان کیا۔ وہ ایک عمدہ فلم ساز ہونے کے ساتھ ساتھ، ادب شناس، سنیما کی دنیا کے فلسفی اور سب سے بڑھ کر ایک انسان دوست ہنرمند تھے۔

    شیام بینگل نے سماج میں بہتری کے لیے اپنے حّصے کی شمع سنیما سازی کے ذریعے روشن کی۔ شیام بینگل ہم سے رخصت ہوچکے ہیں، مگر ان کی فلمیں اور کہانیاں، برصغیر پاک و ہند کے منظر نامے پر، انہیں ایک محسن فلم ساز کے طور پر پیش کرتی رہیں گی۔ پاکستان اور اردو زبان کی طرف سے شیام بینگل کو خراج تحسین کرنے کے لیے یہ تحریر پیشِ خدمت ہے۔

    زرخیز ذہن اور متوازی سنیما

    پوری دنیا میں آرٹ سینما جس کو پیررل سینما (متوازی فلمی صنعت) بھی کہا جاتا ہے۔ اس سینما میں کام کرنے والے فلم سازوں کو سب سے بڑی جس چیز سے واسطہ پڑتا ہے، وہ فکری طور پر مضبوط ہونا ہے، جس طرح کوئی ادیب یا مصور ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے دنیا بھر میں ان فلم سازوں کو متوازی سنیما میں بہت شہرت اور مقبولیت ملی، جنہوں نے اپنے کام کو فکری بنیادوں پر استوار کیا۔ ہم اگر طائرانہ نظر ڈالیں تو بین الاقوامی سینما میں ایسے کئی مقبول نام دکھائی دیتے ہیں، جنہوں نے اس روش کو اختیار کیا اور شان دار فلمیں دنیا کو دیں۔ ان فلم سازوں نے انسانی سوچ اور افکار پر گہرے اثرات مرتب کیے، ان بین الاقوامی متوازی سینما کے فلم سازوں میں الفریڈ ہچکاک (اٹلی) فرانسز فورڈ کوپولا (امریکا)، آکیراکورو ساوا (جاپان)، مارٹن سیکورسیزی (امریکا)، فیڈریکو فیلینی (اٹلی) جیسے مہان فلم ساز شامل ہیں، جب کہ انڈیا سے بنگالی فلم ساز ستیا جیت رے، مرینال سین، ریتوک گھاتک جیسے ہیرے بھی متوازی سینما میں عالمی شہرت یافتہ فلم ساز ہیں۔ پاکستان سے اے جے کاردار اور جمیل دہلوی بھی اسی قبیلے کے فلم ساز ہیں، جس سے شیام بینیگل کا تعلق تھا۔ یہ تمام فلم ساز فکری اساس رکھنے والے، حساس طبیعت کے مالک فلم ساز تھے، جنہوں نے انسانی کیفیات اور احساسات کو بڑے پردے پر ایسے پیش کیا، جس طرح کوئی ادیب کہانی لکھ کر اظہار خیال کرتا ہے۔

    فلمی کہانیوں اور تخلیقی ادب کے مابین تعلق

    شیام بینیگل کی فلموں کی کہانیوں اور ادب کے درمیان گہرا تعلق ہے، کیونکہ وہ ادب کے بھی رسیا تھے، اسی لیے انہوں نے اپنی فلموں کے اسکرپٹس کی بنیاد مختلف زبانوں میں تخلیق کیے گئے ادب پر رکھی اور ساتھ ساتھ ادبی تحریکوں کے اثرات بھی فلمی دنیا میں منتقل کیے۔

    ان کی چند مقبول فلموں میں اس تعلق کو دیکھا جا سکتا ہے اور مختلف ادبی تحاریک کے اثرات بھی محسوس کیے جاسکتے ہیں۔ ان کی فلم انکور جو 1974 میں ریلیز ہوئی، اس فلم کی کہانی تھامس ہارڈی جارج ایلیٹ کے کئی کہانیوں سے مماثلت رکھتی ہے، خاص طورپر جس طرح اس میں انگریزی ادب میں وارد ہونے والی ادبی تحریک realism یعنی حقیقت پسندی کو برتا گیا ہے۔ اس فلم کی کہانی دیہی ہندوستان کے پس منظر میں جاگیردارانہ نظام کے جبر اور انسانی رشتوں کی زبوں حالی کی عکاسی کرتی ہے۔

    ایک اور مشہور فلم بھومیکا 1977 میں ریلیز ہوئی، جس کی کہانی ہنسا واڈکر کے سوانحی ناول سنگتی ایکا سے ماخوذ تھی، جس میں ایک عورت کی ذاتی اور پیشہ ورانہ زندگی کے مابین رکاوٹوں کی عکاسی کی گئی۔ یہ فلم ادبی تحریک حقوق نسواں کی ترجمانی کرتی ہے۔ اسی طرح ان کی ایک اور فلم جنون جو 1978 میں ریلیز ہوئی، اس کے اسکرپٹ کی بنیاد رسکن بانڈ کا ناول اے فلائٹ آف پیجنز تھا۔ اس ناول میں اٹھارہ سو ستاون کے تناظر میں ہندوؤں اور مسلمانوں کی کہانی کو بیان کیا گیا۔

    اسی طرز پر مزید چند فلموں کا احاطہ کیا جائے تو ہم دیکھتے ہیں کہ ان کہانیوں پر بھی کافی ادبی چھاپ ہے، جیسا کہ 1981 میں ریلیز ہونے والی فلم کلیوگ ہے، جس کی کہانی مہا بھارت سے ماخوذ ہے اور عہدِ جدید میں کارپوریٹ ثقافت کی اثر اندازی کو مخاطب کرتی ہے، جس میں سرمایہ دارانہ نظام، جدیدیت کے نظریات ہیں، جن کو ادب میں موضوع بنایا گیا۔ 1983 میں ریلیز ہونے والی مشہور فلم منڈی جس کو غلام عباس کی مختصر کہانی سے اخذ کرکے فلم کے لیے اسکرپٹ لکھا گیا۔ اس کہانی میں بھارتی نوکر شاہی اور دیہاتی ہندوستان میں ہونے والی کرپشن کو دکھانے کی کوشش کی گئی ہے، جب کہ عورت بطور طوائف اور دیگر رشتوں میں اس کی اہمیت کے تانے بانے کو بھی کہانی میں بیان کیا گیا ہے۔ 1985 میں ریلیز ہونے والی فلم تریکال گوا میں رہنے والے ایک خاندان کی کہانی ہے، جس کو نوآبادیاتی اور ثقافتی تبدیلیوں سے نبرد آزما دکھایا گیا ہے۔ اس کہانی میں جیمز جوائس کی کہانیوں کا نقش دکھائی دیتا ہے۔

    شیام بینیگل کی فلموں کا مزید جائزہ لیا جائے تو 2001 میں ریلیز ہونے والی فلم زبیدہ کی کہانی، تخلیق کار اور ادیب خالد محمد کی ہے، جس میں دکھایا گیا ہے کہ شاہی زندگی میں قید ایک عورت جو بغاوت پر آمادہ ہے، کس طرح جدوجہد کرتی ہے۔

    ایک رومانوی المیے پر مبنی یہ فلم اپنے وقت کی خوبصورت اور یادگار فلموں میں سے ایک ہے اور شیام بینیگل کے تخلیقی ذہن کی انتہا بھی ، جس کو دیکھتے ہوئے فلم بین اَش اَش کر اٹھتے ہیں۔ اس کہانی کے پس منظر میں کہیں ہمیں برطانوی ادب کی برونٹے سسٹرز کے اثرات بھی مرتب ہوتے محسوس ہوتے ہیں۔

    2009 میں ریلیز شدہ فلم شاباش ابّا اردو کی معروف ہندوستانی ادیبہ جیلانی بانو کی تین کہانیوں سے ماخوذ ہے، جو ہندوستان میں نوکر شاہی طبقے پر لطیف پیرائے میں طنز ہے۔ انہوں نے مختلف سیاسی شخصیات پر بھی فلمیں بنائیں، جن میں بالخصوص مہاتما گاندھی، سبھاش چندر بوس اور شیخ مجیب الرحمان سرفہرست ہیں جب کہ دستاویزی فلموں کے تناظر میں جواہر لعل نہرو اور ستیا جیت رے جیسی شخصیات پر بھی کام کیا۔ یہ تمام طرز بیان ہمیں شیام بینیگل کے سنیما اور ان کی فکر اور دانش کی مکمل تفہیم دیتا ہے۔

    پسندیدہ کردار اور محبوب عورتیں

    شیام بینیگل کے ہاں صرف دلچسپی کردار اور کہانی تک محدود نہیں تھی، وہ اپنی فلموں میں کرداروں کے ساتھ ساتھ یہ بھی دیکھا کرتے تھے کہ ان کو ادا کرنے والے اداکار یا اداکارائیں کون ہوں گی، اگر ان کو محسوس ہوا کہ کوئی فن کار ان کے کرداروں کی نفسیات کو سمجھ رہا ہے اور ان کی ذہنی ہم آہنگی ان سے اچھی ہورہی ہے تو پھر وہ اس کے ساتھ باربار کام کرتے تھے، یہ معاملہ خاص طورپر اداکاراؤں کے لیے کئی بار ہوا، جیسا کہ سمیتا پاٹیل ، شبانہ اعظمی اور نینا گپت اکی مثالیں سامنے ہیں۔ خاص طور پر اپنے کیریئر کی ابتدائی فلمیں صرف سمیتا پاٹیل کے ساتھ کیں اور سب ایک کے بعد ایک مقبول بھی ہوئیں۔ ان کی فلموں میں دیگر جو اداکارائیں شامل ہوئیں، ان میں ریکھا، نینا گپتا، ایلا ارون، لیلیٰ نائیڈو، فریدہ جلال، کیرن کھیر، سریکا سکری، راجیشوری سچدیو، نندیتا داس، کرشمہ کپور، لیلیتے ڈوبے، دیویادتا، امرتا راؤ، منیشا لامبا اور نصرت امروز تیشا اور نصرت فاریہ شامل ہیں۔

    بالی ووڈ پر عنایات 

    شیام بینیگل نے سماجی قیود کی تاریکی میں جہاں اپنے حصے کی شمع روشن کی، وہاں کچھ ایسے چراغ بھی جلائے، جن کی روشنی سے ابھی تک معاشرہ منور ہے۔ جی ہاں، انہوں نے اننت ناگ جیسے اداکار اور شبانہ اعظمی جیسی اداکارہ فلمی دنیا میں متعارف کروائی۔ دیگر فن کاروں میں سمیتا پاٹیل اور نینا گپتا جیسی اداکارہ کو مقبول اداکارائیں بنانے میں بھی کلیدی کردار ادا کیا۔ نصیرالدین شاہ، اوم پوری، رجت کپور جیسے اداکاروں کے کیریئر کو استحکام دیا۔ ان کی فلموں میں کام کرنے والے اداکار آگے چل کر بڑے فن کار بنے اور انہوں نے بالی ووڈ کو اپنے قدموں پر کھڑے ہونے میں معاونت کی۔ انہی کی وجہ سے کمرشل سنیما میں بھی ادبی اور تخلیقی رنگ بھرے گئے اور بہت ساری اچھی کمرشل فلمیں، آرٹ سنیما میں کام کرنے والے ان اداکاروں کی وجہ سے بہترین ثابت ہوئیں۔

    انہوں نے فیچر فلموں کے علاوہ، دستاویزی فلمیں، مختصر دورانیے کی فلمیں، ٹیلی وژن ڈراما سیریز بنائیں۔ وہ مستقبل میں معروف برطانوی شخصیت نور عنایت خان جس نے دوسری عالمی جنگ میں برطانوی جاسوس کے طور پر شہرت حاصل کی، ان کی زندگی پر فلم بنانے کا بھی ارادہ رکھتے تھے۔ انہوں نے 80 کی دہائی کے بعد جب آرٹ سنیما زوال پذیر ہونا شروع ہوا، تو فلمی دنیا سے کنارہ کشی کر کے خود کو چھوٹی اسکرین (ٹیلی وژن) تک محدود کر لیا مگر خود کو کمرشل سنیما کے حوالے نہیں کیا۔ بعد میں چند ایک فلمیں بنائیں، مگر وہ کامیاب نہ ہوئیں، جس کی وجہ سے وہ مکمل طور پر مرکزی سنیما سے دور ہو گئے۔وہ کہتے تھے کہ فلم ڈائریکٹر کا میڈیم ہے، لیکن بالی ووڈ میں اب ہیرو ازم کو طاری کر لیا گیا ہے، جو فلمی دنیا کے لیے نقصان دہ ہے۔ موجودہ سنیما کی بے توقیری اور عمدہ موضوعات سے عاری فلمیں اس بات پر تصدیق کی مہر ثبت کرتی ہیں۔

    خراجِ تحسین 

    ہرچند کہ شیام بینیگل بھارت سے تعلق رکھنے والے فلم ساز تھے، لیکن انہوں نے جو بامعنی سنیما تخلیق کیا، اس سے پاکستان اور بنگلہ دیش سمیت جہاں جہاں اردو اور ہندی بولنے سمجھنے والے موجود تھے، وہ فیض یاب ہوئے۔ ایسے بے مثل فن کار، عمدہ فلم ساز اور حساس دل رکھنے والے اس ہنرمند کو ہم خراج تحسین پیش کرتے ہیں، جنہوں نے دنیا کو سنیما کے ذریعے باشعور کیا اور دکھی دلوں کی آواز بنے۔

     

  • باسو چٹرجی:‌ وہ فلم ساز جس نے زندگی کو بڑے پردے پر پیش کیا!

    باسو چٹرجی:‌ وہ فلم ساز جس نے زندگی کو بڑے پردے پر پیش کیا!

    بڑے پردے پر حقیقی زندگی کی عکاسی کرتے ہوئے باسو دا کو یہ خوف محسوس نہیں‌ ہوا کہ اگر ان کی فلم ناکام ہوگئی تو کیا ہوگا۔

    ہندی سنیما کے لیے موضوعات کبھی اساطیر سے لیے گئے، کسی نے جنگ و جدل کو موضوع بنایا، کسی نے ناول کو پردے کے مطابق ڈھالا اور کسی فلم ساز نے سیاسی یا سماجی تحریک کے زیرِ اثر فلمیں اس امید پر بنائیں کہ شائقین کی جانب سے زبردست پذیرائی ملے گی، لیکن بھاری سرمائے یا کم بجٹ کی فلمیں ہوں، بہ طور ہدایت کار باسو چٹر جی ان کی ناکامی سے خوف زدہ نہیں ہوئے اور حقیقی زندگی کی عکاسی کرتے رہے اور ان کی فلمیں شاہکار ثابت ہوئیں۔

    پچاس اور ساٹھ کی دہائی میں ناقدین کے مطابق ہندوستانی سنیما کو جتنے بڑے فن کار اور آرٹسٹ ملے، اتنی ہی زور دار فلمیں بھی سامنے آئیں۔ یہ بہترین فلمیں، ان کے یادگار نغمات اور لازوال موسیقی آج بھی اُس دور کے ایسے فلم سازوں اور ہدایت کاروں کی یاد تازہ کر دیتی ہیں، جن کے تخلیقی وفور اور صلاحیتوں نے شاہ کار فلمیں بنائیں۔ ہدایت کار اور اسکرین پلے رائٹر باسو چٹر جی انہی میں سے ایک تھے۔ اُن کے کام کی بات کی جائے تو سارا آکاش، رجنی گندھا، چھوٹی سی بات، اس پار، کھٹا میٹھا، باتوں باتوں میں، ایک رکا ہوا فیصلہ اور چنبیلی کی شادی جیسی فلمیں ان کا تعارف اور مضبوط حوالہ بنیں۔

    رجنی گندھا (1974) اور چھوٹی سی بات (1975) کی وہ فلمیں تھیں جن کی بدولت ان کا نام ایک فلم ساز اور اسکرین پلے رائٹر کے طور پر مشہور ہوا۔ باسو چٹر جی 93 سال کی عمر میں 4 جون 2020ء کو ممبئی میں چل بسے تھے۔ ان کی اکثر فلمیں متوسط طبقے کے گھرانوں کی عکاس ہیں اور ان فلموں میں شادی شدہ جوڑوں کی زندگی، اتار چڑھاؤ اور پیار محبت دیکھا جاسکتا ہے۔

    بہ طور ہدایت کار باسو چٹر جی کی پہلی فلم 1969 میں ریلیز ہوئی تھی جس کا نام سارا آکاش تھا۔ اس فلم کو بعد میں بہترین اسکرین پلے کا فلم فیئر ایوارڈ دیا گیا تھا۔ شائقین نے بھی اس فلم کو بہت پسند کیا تھا۔ باسو چٹرجی وہ فلم ساز تھے جنھوں نے اس دور کے کئی آرٹسٹوں کو ایسے رول دیے، جن سے انھیں شہرت ملی اور ان کے فنی سفر میں وہ کردار ایک اچھا اضافہ تھے۔ انھوں نے متھن چکرورتی کے ساتھ فلم بنام شوقین بنائی۔ ونود مہرا کے ساتھ اُس پار، جیتندر اور نیتو سنگھ کے ساتھ پریتما، دیو آنند کے ساتھ من پسند، دھرمیندر اور ہیما مالنی کو دل لگی میں کردار دیا اور امیتابھ بچن کے ساتھ فلم منزل بنائی تھی۔ باسو چٹر جی کی فلموں نے سماجی موضوعات پر بہترین فلموں کے متعدد ایوارڈز اپنے نام کیے۔

    وہ ہندی فلموں کے ایک بنگالی نژاد ہدایت کار تھے جنھوں نے ہلکے پھلکے اور عام فہم انداز میں اہم موضوعات پر فلمیں بنا کر شہرت حاصل کی۔ باسو چٹر جی 1930ء میں اجمیر (راجستھان) میں پیدا ہوئے تھے۔ وہ 50ء کی دہائی میں قسمت آزمانے بمبئی منتقل ہوگئے۔ ان کا ایک حوالہ وہ کارٹون بھی ہیں، جو انھوں نے نوجوانی میں بنانا شروع کیے تھے اور ان کی اشاعت ہفت روزہ "بلٹز” میں باقاعدگی سے ہوتی تھی۔ انھوں نے دس بارہ سال تک کارٹونسٹ کے طور پر بھی کام کیا۔

    بمبئی آنے کے بعد باسو چٹرجی کو جلد ہی بہ طور ہدایت کار فلم مل گئی۔ 1969ء میں ان کی فیچر فلم "سارا آکاش” ریلیز ہوئی جو نہ صرف کام یاب ہوئی بلکہ اسے لاجواب فوٹوگرافی کا ایوارڈ بھی ملا۔ اس کے بعد ان کی دو جذباتی اور حساس موضوعات پر فلمیں سامنے آئیں اور پھر وہ دل چسپ اور مزاحیہ انداز میں "رجنی گندھا” اور "چھوٹی سی بات” جیسی عام لوگوں کے مسائل پر فلمیں تخلیق کرنے لگے اور کام یاب رہے۔

    چٹرجی ایک باکمال کے ہدایت کار تھے جنھوں نے فارمولہ فلموں میں بھی جذبات و احساسات کی نمائش بہت سلیقے سے کی۔ وہ ایک منجھے ہوئے ہدایت کار اور تجربہ کار فلم ساز تھے جس نے 1993ء تک جتنی بھی فلمیں اور ٹی وی سیریل بنائے، وہ کام یاب اور بے حد مقبول بھی رہے۔ ان کے کام نے نہ صرف عام آدمی کو متاثر کیا بلکہ اعلیٰ طبقے میں بھی ان کی فلمیں بہت پسند کی گئیں۔ باسو چٹر جی نے کُل 42 فلمیں بنائیں اور یہ سب کسی نہ کسی حوالے سے یادگار ثابت ہوئیں۔

    باسو کے والد اُتر پردیش کے شہر متھرا میں بسلسلہ ملازمت اقامت پذیر تھے۔ باسو نے وہیں اپنی زندگی کو محسوس کیا اور نوجوانی میں فلمیں دیکھتے ہوئے وقت گزارا۔ اسی فلم بینی نے ان کے اندر چھپے فن کار اور باصلاحیت نوجوان کو بمبئی جانے پر اکسایا اور وہ بیس اکیس برس کے تھے جب بمبئی میں ایک ملٹری اسکول میں لائبریرین مقرر ہوگئے۔ اسی دور میں کارٹونسٹ ہوئے اور وہ وقت بھی آیا جب باسو چٹر جی نے اطالوی، فرانسیسی اور دوسرے ممالک کی فلمیں دیکھ کر یہ جانا کہ اس میڈیم کا دائرہ بہت وسیع ہے اور تفریح تفریح میں فلم کی طاقت سے کوئی کام لیا جاسکتا ہے۔

    باسو چٹر جی خود کو ایک عام آدمی کہتے تھے اور ان کے مطابق وہ عام لوگوں میں رہتے تھے، بس میں سفر کیا کرتے تھے۔ اس دوران وہ اپنے ارد گر لوگوں کی خوشیوں کو دیکھتے، اور ان کا دکھ درد اور غم بھی سنتے رہے۔ یہی ان کے نزدیک زندگی تھی اور پھر وہ اس سے باہر نہیں نکل سکے۔ ان سے وہ فلمیں نہیں بنیں جن میں ایک آدمی جسے فلم میں ہیرو کے طور پر پیش کیا جاتا ہے، اپنے سے بھاری بھرکم اور طاقت ور دکھائی دینے والے دس، پندرہ لوگوں سے بھڑ جاتا ہے، اور جیت اُسی کی ہوتی ہے۔ انھوں نے زندگی کو جیسا دیکھا، کوشش کی کہ اُسی طرح فلم کے پردے پر بھی پیش کردیں۔

  • مادھوری ڈکشٹ کے ‘ہیرو’

    مادھوری ڈکشٹ کے ‘ہیرو’

    مادھوری ڈکشٹ نے شہرت اور مقبولیت کے کئی برسوں پر محیط اپنے سفر میں بلاشبہ کروڑوں دلوں‌ پر راج کیا۔ بہترین اداکاری اور شان دار رقص کے بل بوتے پر مادھوری ایک عرصہ تک اسکرین پر چھائی رہی ہیں۔

    آج بھی بولی وڈ فلم اسٹار کا جادو برقرار ہے۔ اداکارہ کی شہرت کا سفر 1990ء کی دہائی میں شروع ہوا تھا، جس میں مادھوری نے اپنے وقت کے لیجنڈ اداکاروں دلیپ کمار، جتیندر، امیتابھ بچن، ونود کھنہ کے ساتھ کام کیا اور بیسویں صدی کی آخری دو دہائیوں کے مقبول ترین ہیرو عامر خان، سلمان خاں، شاہ رخ خاں، انیل کپور، سنجے دت، متھن چکرورتی اور دیگر کے ساتھ ان کی جوڑی بہت پسند کی گئی۔

    یہاں ہم اپنے وقت کے معروف و مقبول فلمی رسالے "شمع” کے 1990ء کے ایک شمارے میں مادھوری ڈکشٹ کے اپنے ساتھی مرد اداکاروں سے متعلق تاثرات شایع ہوئے تھے جس میں سے فلم اسٹار سنجے دت اور گوندا کے بارے میں ہم مادھوری ڈکشٹ کے خیالات یہاں‌ نقل کررہے ہیں۔

    سنجے دت
    سنجے بابا کو میں شرارتوں کی پوٹ کہتی ہوں۔ ہنسنے ہنسانے سے وہ کسی وقت بھی باز نہیں رہ سکتا۔ اس کی موجودگی میں ساتھی ستارے اپنی ہنسی پر قابو پا ہی نہیں سکتے۔ وہ خود خوشی کے پَروں پر اڑ رہا ہو یا کسی غم کے دور سے گزر رہا ہو۔ اس کی بشاشت کسی بھی حال میں اس کا ساتھ نہیں چھوڑتی۔ سنجو کے ساتھ بمبئی، مدراس، حیدرآباد، کہیں بھی سیٹ پر یا لوکیشن پر میری شوٹنگ ہوتی ہے تو وہ مجھے دل کھول کر قہقہے لگانے کے مواقع فراہم کر دیتا ہے۔ شکار اس کا پسندیدہ مشغلہ ہے اور اپنے شکار کے واقعات وہ اس انداز سے سناتا ہے کہ مزہ آ جاتا ہے۔ حوصلے کا یہ عالم ہے کہ جب اس کا کیریئر اسے ڈانوا ڈول ہوتا دکھائی دے رہا تھا تو بھی مسکراہٹ ہر آن اس کے ہونٹوں پر کھیلتی رہتی تھی۔

    گووندا
    سنجو کی طرح گووندا بھی ہمیشہ ہسنتا، مسکراتا دکھائی دیتا ہے۔ اس کے اندر برتری کا احساس نام کو بھی نہیں۔ انا اسے کبھی پریشان نہیں کرتی۔ زندگی کی حرارت اس کی رگ رگ میں رچی ہوئی ہے۔ اتنا چلبلا ہے کہ سیٹ پر ہر پل ایک سرے سے دوسرے سرے تک لپکتا نظر آئے گا۔ خوب قہقہے لگاتا ہے، خوب زندگی کا لطف اٹھاتا ہے۔ بہت اچھا ڈانسر ہے اس سے بھی بڑھ کر ایک اچھا انسان ، ایک چاہنے والا شوہر، ایک جان چھڑکنے والا باپ۔ پہلے دن جب میں ، ‘پاپ کا انت’ کے لئے اس کے ساتھ شوٹنگ کرنے کی غرض سے پہنچی تو دل ہی دل میں کافی ڈر رہی تھی۔ وجہ یہ تھی کہ میں نے فلم ‘سدا سہاگن’ میں اس کے ساتھ کام کرنے کی ٹی راما راؤ کی آفر نامنظور کر دی تھی اور اس واقعہ کے بعد پہلی مرتبہ اس کا اور میرا آمنا سامنا ہو رہا تھا۔ رسالوں، اخباروں نے اس واقعہ کو اس طرح اچھالا تھا کہ رائی کا پربت بنا دیا تھا، اور مجھے ویمپ کا درجہ دے ڈالا تھا۔ لیکن پاپ کا انت کے سیٹ پر گووندا کے رویہ میں رنجش کی کوئی جھلک نہ تھی۔ وہ بہت تپاک سے ملا اور اس طرح میری ساری بوکھلاہٹ دور ہو گئی۔ اس نے مجھ سے یہ کہا کہ اگر میری جگہ وہ ہوتا تو کسی آفر کے پرکشش نہ ہونے کی صورت میں وہ بھی صاف انکار کر دیتا۔ میں نے بھی اسے بتا دیا کہ اگر میں نے اس فلم میں کام کرنا قبول نہیں کیا تھا تو اس کا سبب رول کا غیر اہم ہونا تھا۔ گووندا کے خلاف میرے دل میں کوئی جذبہ نہ تھا۔ بعد میں یہ رول انورادھا پٹیل نے کیا اور دیکھنے والوں نے دیکھ ہی لیا ہوگا کہ یہ رول نہ ہونے کے برابر تھا۔

  • باسو چٹر جی:‌ وہ ہدایت کار جس نے سنیما پر ‘حقیقت نگاری’  کو اہمیت دی

    باسو چٹر جی:‌ وہ ہدایت کار جس نے سنیما پر ‘حقیقت نگاری’ کو اہمیت دی

    ہندی سنیما کے لیے موضوعات کبھی اساطیر سے لیے گئے، کسی نے جنگ و جدل کو موضوع بنایا، کسی نے ناول کو پردے کے مطابق ڈھالا اور کسی فلم ساز نے سیاسی یا سماجی تحریک کے زیرِ اثر فلمیں بنا کر شائقین کو متوجہ کرنا چاہا، لیکن بھاری سرمائے یا کم بجٹ میں بنائی گئی فلمیں ہوں، بہ طور ہدایت کار باسو چٹر جی ان کی کام یابی یا ناکامی سے خوف زدہ نہیں ہوئے اور حقیقی زندگی کو بڑے پردے پر پیش کیا۔

    پچاس اور ساٹھ کی دہائی میں ناقدین کے مطابق ہندوستانی سنیما کو جتنے بڑے فن کار اور آرٹسٹ ملے، اتنی ہی زور دار فلمیں بھی سامنے آئیں۔ یہ بہترین فلمیں، ان کے یادگار نغمات اور لازوال موسیقی آج بھی اُس دور کے ایسے فلم سازوں اور ہدایت کاروں کی یاد تازہ کر دیتی ہیں، جن کے تخلیقی وفور اور صلاحیتوں نے شاہ کار فلمیں بنائیں۔ ہدایت کار اور اسکرین پلے رائٹر باسو چٹر جی انہی میں سے ایک تھے۔

    اُن کے کام کی بات کی جائے تو سارا آکاش، رجنی گندھا، چھوٹی سی بات، اس پار، کھٹا میٹھا، باتوں باتوں میں، ایک رکا ہوا فیصلہ اور چنبیلی کی شادی جیسی فلمیں ان کا تعارف و روشن حوالہ بنیں۔

    رجنی گندھا (1974) اور چھوٹی سی بات (1975) کی وہ فلمیں تھیں جن کی بدولت ان کا نام ایک فلم ساز اور اسکرین پلے رائٹر کے طور پر مشہور ہوا۔ باسو چٹر جی 93 سال تک زندہ رہے اور 2020ء میں ممبئی میں دَم توڑا۔ ان کی اکثر فلمیں متوسط طبقے کے گھرانوں کی عکاس ہیں اور ان فلموں میں شادی شدہ جوڑوں کی زندگی، اتار چڑھاؤ اور پیار محبت دیکھا جاسکتا ہے۔

    بہ طور ہدایت کار باسو چٹر جی کی پہلی فلم 1969 میں ریلیز ہوئی تھی جس کا نام سارا آکاش تھا۔ اس فلم کو بعد میں بہترین اسکرین پلے کا فلم فیئر ایوارڈ دیا گیا تھا۔ شائقین نے بھی اس فلم کو بہت پسند کیا تھا۔ باسو چٹرجی وہ فلم ساز تھے جنھوں نے اس دور کے کئی آرٹسٹوں کو ایسے رول دیے، جن سے انھیں شہرت ملی اور ان کے فنی سفر میں وہ کردار ایک اچھا اضافہ تھے۔ انھوں نے متھن چکرورتی کے ساتھ فلم بنام شوقین بنائی۔ ونود مہرا کے ساتھ اُس پار، جیتندر اور نیتو سنگھ کے ساتھ پریتما، دیو آنند کے ساتھ من پسند، دھرمیندر اور ہیما مالنی کو دل لگی میں کردار دیا اور امیتابھ بچن کے ساتھ فلم منزل بنائی تھی۔ باسو چٹر جی کی فلموں نے سماجی موضوعات پر بہترین فلموں کے متعدد ایوارڈز اپنے نام کیے۔

    وہ ہندی فلموں کے ایک بنگالی نژاد ہدایت کار تھے جنھوں نے ہلکے پھلکے اور عام فہم انداز میں اہم موضوعات پر فلمیں بنا کر شہرت حاصل کی۔ باسو چٹر جی 1930ء میں اجمیر (راجستھان) میں پیدا ہوئے تھے۔ وہ 50ء کی دہائی میں قسمت آزمانے بمبئی منتقل ہوگئے۔ ان کا ایک حوالہ وہ کارٹون بھی ہیں، جو انھوں نے نوجوانی میں بنانا شروع کیے تھے اور ان کی اشاعت ہفت روزہ "بلٹز” میں باقاعدگی سے ہوتی تھی۔ انھوں نے دس بارہ سال تک کارٹونسٹ کے طور پر بھی کام کیا۔

    بمبئی آنے کے بعد باسو چٹرجی کو جلد ہی بہ طور ہدایت کار فلم مل گئی۔ 1969ء میں ان کی فیچر فلم "سارا آکاش” ریلیز ہوئی جو نہ صرف کام یاب ہوئی بلکہ اسے لاجواب فوٹوگرافی کا ایوارڈ بھی ملا۔ اس کے بعد ان کی دو جذباتی اور حساس موضوعات پر فلمیں سامنے آئیں اور پھر وہ دل چسپ اور مزاحیہ انداز میں "رجنی گندھا” اور "چھوٹی سی بات” جیسی عام لوگوں کے مسائل پر فلمیں تخلیق کرنے لگے اور کام یاب رہے۔

    چٹرجی ایک باکمال کے ہدایت کار تھے جنھوں نے فارمولہ فلموں میں بھی جذبات و احساسات کی نمائش بہت سلیقے سے کی۔ وہ ایک منجھے ہوئے ہدایت کار اور تجربہ کار فلم ساز تھے جس نے 1993ء تک جتنی بھی فلمیں اور ٹی وی سیریل بنائے، وہ کام یاب اور بے حد مقبول بھی رہے۔ ان کے کام نے نہ صرف عام آدمی کو متاثر کیا بلکہ اعلیٰ طبقے میں بھی ان کی فلمیں بہت پسند کی گئیں۔ باسو چٹر جی نے کُل 42 فلمیں بنائیں اور یہ سب کسی نہ کسی حوالے سے یادگار ثابت ہوئیں۔

    باسو کے والد اُتر پردیش کے شہر متھرا میں بسلسلہ ملازمت اقامت پذیر تھے۔ باسو نے وہیں اپنی زندگی کو محسوس کیا اور نوجوانی میں فلمیں دیکھتے ہوئے وقت گزارا۔ اسی فلم بینی نے ان کے اندر چھپے فن کار اور باصلاحیت نوجوان کو بمبئی جانے پر اکسایا اور وہ بیس اکیس برس کے تھے جب بمبئی میں ایک ملٹری اسکول میں لائبریرین مقرر ہوگئے۔ اسی دور میں کارٹونسٹ ہوئے اور وہ وقت بھی آیا جب باسو چٹر جی نے اطالوی، فرانسیسی اور دوسرے ممالک کی فلمیں دیکھ کر یہ جانا کہ اس میڈیم کا دائرہ بہت وسیع ہے اور تفریح تفریح میں فلم کی طاقت سے کوئی کام لیا جاسکتا ہے۔

    باسو چٹر جی خود کو ایک عام آدمی کہتے تھے اور ان کے مطابق وہ عام لوگوں میں رہتے تھے، بس میں سفر کیا کرتے تھے۔ اس دوران وہ اپنے ارد گر لوگوں کی خوشیوں کو دیکھتے، اور ان کا دکھ درد اور غم بھی سنتے رہے۔ یہی ان کے نزدیک زندگی تھی اور پھر وہ اس سے باہر نہیں نکل سکے۔ ان سے وہ فلمیں نہیں بنیں جن میں ایک آدمی جسے فلم میں ہیرو کے طور پر پیش کیا جاتا ہے، اپنے سے بھاری بھرکم اور طاقت ور دکھائی دینے والے دس، پندرہ لوگوں سے بھڑ جاتا ہے، اور جیت اُسی کی ہوتی ہے۔ انھوں نے زندگی کو جیسا دیکھا، کوشش کی کہ اُسی طرح فلم کے پردے پر بھی پیش کردیں۔

  • جب ایک اپاہج نے بلراج کو پُرشباب پارٹی چھوڑ کر اپنے ساتھ چلنے پر مجبور کردیا

    جب ایک اپاہج نے بلراج کو پُرشباب پارٹی چھوڑ کر اپنے ساتھ چلنے پر مجبور کردیا

    زمانۂ طالبِ علمی میں پہلی مرتبہ فلم دیکھنے والے بلراج ساہنی کے بارے میں اُس وقت کون کہہ سکتا تھا کہ آگے چل کر یہی لڑکا پہلے اسٹیج اور پھر ہندی سنیما کا باکمال اداکار اور بہترین مصنّف بنے گا۔

    بلراج ساہنی ایک دردمند انسان اور باشعور شخص تھے جس نے فن کی دنیا میں‌ اپنی صلاحیتوں کی بدولت استاد کا درجہ پایا اور اپنی نیک نیّتی اور ہر ایک کے دکھ سکھ میں شریک ہونے کے سبب لوگوں کے دل بھی جیتے۔

    بھارتی فلم انڈسٹری کے اس اداکار نے لگ بھگ 130 فلموں میں اداکاری کے جوہر دکھائے۔ 1940 سے لے کر 1970 تک تین دہائیوں پر محیط فلمی سفر میں‌ بلراج ساہنی کو سدا بہار اداکار کے طور پہچانا گیا۔ انیس امروہوی نے بلراج ساہنی سے متعلق اپنے ایک مضمون میں چند دل چسپ اور مثالی واقعات رقم کیے ہیں جو سب کے خیرخواہ اور سب سے مخلص بلراج ساہنی کو ہمارے سامنے لاتا ہے۔ ملاحظہ کیجیے۔

    "بلراج ساہنی ایک نیک دل، سلجھے ہوئے اور دانش ور قسم کے سادگی پسند انسان تھے۔ سب سے بڑی بات یہ تھی کہ وہ انسان کو انسان ہی سمجھتے تھے اور چھوٹے، بڑے یا امیر غریب کی تفریق کرنا اُن کے مزاج کے خلاف تھا۔”

    ایک واقعہ بلراج ساہنی نے اپنی کتاب ’یادیں‘ میں تحریر کیا ہے۔ "بلراج ساہنی کسی فلم کی شوٹنگ کے لیے چنڈی گڑھ آئے ہوئے تھے۔ آؤٹ ڈور کا کام تھا اور فلم کا سارا یونٹ ایک رات کسی امیر دوست کے گھر پارٹی میں مصروف تھا۔ بڑے زوروں کی محفل جمی ہوئی تھی۔ پنجابی مہمان نوازی، پنجابی حسن، پنجابی ہنسی مذاق اپنے شباب پر تھا۔ مارچ کے مہینے کا بے حد سہانا موسم تھا۔ دن بھر تمام یونٹ نے شوالک کی پہاڑیوں کے آنچل میں شوٹنگ کی تھی اور بڑے حسین شاٹ لیے تھے۔ اسکاچ کے گھونٹ بھرتے ہوئے دن بھر کی تھکاوٹ میں بھی بڑا سرور محسوس ہو رہا تھا۔ ڈرائنگ روم بھی دوشیزاؤں سے دہک رہا تھا۔ ایسے ماحول میں بلراج ساہنی کے ایک دوست نے آکر کان میں کہا۔ ’’بَلّی! باہر ایک آدمی کھڑا ہے تم سے ملنے کے لیے۔ ذرا ایک منٹ باہر جاکر اُسے درشن دے آؤ۔‘‘

    ’’یہ نہیں ہوگا۔‘‘ بلراج نے کہا۔ ’’آج کے دن میں ساری ڈیوٹیاں ادا کر چکا ہوں۔ اب اپنے نجی وقت پر مجھے مکمل اختیار حاصل ہے اور اس کا پورا پورا مزہ لینا چاہتا ہوں۔ تم اس سے کہہ دو کہ کل صبح مجھے ہوٹل میں آکر ملے۔‘‘

    ’’میری درخواست ہے بلی۔ وہ شام پانچ بجے کے پہلے سے ہی میری کوٹھی پر تھا اور اب اس کوٹھی کے باہر کھڑا ہے۔‘‘ دوستوں میں سب ان کو بَلی کہتے تھے۔

    دوست کی اس درخواست پر بلراج ساہنی بڑی بے دلی کے ساتھ باہر آئے۔ دودھیا چاندنی میں چمک رہے سیمنٹ کے فرش پر کھڑے کچھ لوگوں کی ٹولی کے پاس بگھی پر پلاسٹک کے پُتلے کی طرح اوم پرکاش نام کا ایک شخص بیٹھا ہوا تھا۔ بلراج کو دیکھ کر اس نے فوجی ڈھنگ سے سلام کیا، جس کا مطلب بلراج ساہنی سمجھ نہ پائے۔ ان کو یہ بھی معلوم نہ تھا کہ اتنے لوگوں میں ان کو کس سے ملنا ہے۔ قریب جاکر وہ ان سب لوگوں سے ہاتھ ملانے لگے، اور اوم پرکاش بگھی پر بیٹھے ہوئے ہی بولا۔ ’’کیا ہم بھی میجر رَنوِیرسنگھ صاحب کے ساتھ ہاتھ ملا سکتے ہیں؟‘‘ اتنا کہہ کر وہ کھلکھلاکر ہنس پڑا۔

    بلراج ساہنی کو حیرت ہوئی اور اس کو بغیر ٹانگوں کے دیکھ کر ہمدردی بھی۔ ایک خیال ان کے دماغ میں یہ بھی آیا کہ یہ لوگ کہیں ان کے ساتھ مذاق تو نہیں کر رہے۔

    ’’کون میجر رنویر سنگھ؟‘‘ بلراج ساہنی نے حیرت سے پوچھا۔

    ’’حقیقت‘‘ کے رنویر سنگھ، اور کون؟‘‘ وہ پھر اسی طرح ہنسا۔

    اب بلراج جی کو یاد آیا کہ فلم ’حقیقت‘ میں انھوں نے ایک فوجی میجر رنویر سنگھ کا کردار ادا کیا تھا۔ حالانکہ بات کافی پُرانی ہو گئی تھی مگر اس وقت اوم پرکاش کے ان الفاظ سے بلراج جی کو خوشی ضرور ہوئی تھی۔
    ’’میں نے تین بار دیکھی تھی صاحب وہ پکچر۔ چوتھی بار اپنی ماں کو ساتھ لے کر دیکھنا چاہتا تھا، مگر میرے پاس پیسے نہیں تھے۔‘‘ اوم پرکاش نے پھر کہا۔

    ’’اتنی زیادہ پسند آئی تمھیں۔‘‘ بلراج جی نے رسمی طور پر پوچھا۔ ’’کیسے نہ آتی صاحب، ہم بھی تو لڑے ہیں چینیوں کے ساتھ۔ آپ میجر ٹھہرے، ہم ایک معمولی سپاہی سہی۔‘‘

    اس کی طنزیہ ہنسی اور لکڑی کی ٹانگوں کی اصلیت جان کر بلراج جی حیرت زدہ رہ گئے۔ ایک فوجی جوان جس نے جنگ میں دونوں ٹانگیں کھوئی تھیں، اُن سے ملنے کے لیے چار گھنٹے سے انتظار کر رہا تھا۔ ان کو بڑی شرمندگی محسوس ہوئی۔

    ’’تم نے مجھے اطلاع کیوں نہیں دی کہ تم فوجی جوان ہو؟‘‘ بلراج ساہنی نے پوچھا۔

    ’’بتا کر ملنے میں نہیں، بلکہ مل کر بتانے میں مزہ ہے میجر صاحب۔‘‘ اس نے کہا۔ ’’مجھے بار بار میجر کہہ کر شرمندہ نہ کرو، خدا کا واسطہ ہے۔‘‘ بلراج ساہنی نے عاجزی سے کہا۔

    ’’آپ اپنی قیمت ہمارے دل سے پوچھیے۔‘‘ اوم پرکاش نے کہا۔ اس کی باتوں میں کتنی حقیقت تھی، کتنی ایکٹنگ تھی، بلراج ساہنی کو اندازہ نہیں ہو رہا تھا۔ ایکٹنگ میں بھی مجبوری کا جزو ہوتا ہے۔ عورت ہمارے سماج میں مجبور ہے، اس لیے اپنی خواہشوں کو تہوں میں لپیٹ کر رکھتی ہے۔ وہ اپنی ہار میں بھی جیت کا مزہ لینے کی کوشش کرتی ہے۔ بلراج بھی اگر اس وقت مجبور نہ ہوتے تو بغیر ہچکچاہٹ اس بہادر نوجوان کو پوری عزت کے ساتھ پارٹی میں اندر لے جاتے اور اس سے ہاتھ ملانا ہر کسی کے لیے فخر کی بات ہوتی۔ اس کی بدولت پارٹی کو چار چاند لگ جاتے۔ مگر وہ صرف ایسا سوچ سکتے تھے کیونکہ اپنی سوچ پر عمل نہ کرنے کے لیے وہ مجبور تھے۔ اپنے جذبات کو قابو میں کرتے ہوئے انہوں نے جوان سے اتنا ہی کہا۔ ’’میرے لائق کوئی خدمت ہو تو ضرور بتانا۔‘‘

    ’’وہ تو ابھی بتائے دیتا ہوں۔ آپ منظور کریں گے؟ میرا گھر یہاں سے صرف پانچ منٹ کے فاصلے پر ہے۔ ذرا چل کر میری ماں سے مل لیجیے، آپ کی بڑی مہربانی ہوگی۔‘‘ اوم پرکاش نے بلا تکلف کہہ دیا۔

    بلراج جی اسی وقت اپنی رنگین اور پُرشباب پارٹی چھوڑ کر دوستوں کے منع کرنے کے باوجود اس جوان کے ساتھ اس کی خوشی کے لیے اس کے گھر روانہ ہو گئے۔

  • شانتا رام: ایک باکمال فلم ساز، بہترین پروڈیوسر کی کتھا

    ہندوستان میں‌ مراٹھی اور ہندی سنیما کی تاریخ میں شانتا رام کا نام ایک باکمال فلم ساز اور پروڈیوسر کے طور پر محفوظ ہے۔ وہ تھیٹر کی دنیا سے سنیما کی طرف آئے تھے۔ شانتا رام نے بڑے پردے پر اپنی فنی مہارت اور تخلیقی صلاحیتوں کی بدولت بڑا نام اور مقام پایا۔

    اس فلم ساز اور پروڈیوسر نے بابو راؤ پینٹر کی مہاراشٹر فلم کمپنی میں بحیثیت اسسٹنٹ کام شروع کیا تھا۔ بعد کے برسوں میں‌ وہ ایسے فلم ساز کے طور پر پہچان بنانے میں کام یاب ہوئے جس کی فلمیں اکثر ایک خاص انداز سے اور مراٹھی تھیٹر کے زیرِ اثر بنائی گئیں۔ 1929ء میں شانتا رام نے اپنے تین ساتھیوں کے ساتھ مل کر اپنے آبائی شہر کولھا پور میں پربھات فلم کمپنی کی بنیاد رکھی۔ اس بینر تلے ان کی فلم ایودھیا کا راجا 1931ء میں نمائش کے لیے پیش کی گئی۔ یہ پربھات کمپنی کی پہلی ناطق فلم ہی نہیں ہندوستان کی وہ پہلی فلم بھی تھی جسے دو زبانوں یعنی ہندی اور مراٹھی میں بنایا گیا تھا۔ یہاں قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ شانتا رام کی اس فلم سے چند روز قبل ہی مراٹھی زبان میں پہلی فلم ریلیز ہوچکی تھی، ورنہ ایودھیا کا راجا ہی مراٹھی زبان کی پہلی فلم کہلاتی۔

    شانتا رام کی پربھات فلم کمپنی نے ایودھیا کا راجا کے بعد اگنی کنگن اور مایا مچھندرا جیسی قابلِ ذکر فلمیں بنائیں۔ 1933ء میں اس فلم ساز پہلی رنگین فلم بھی ریلیز ہوئی جس کا نام نام سائراندھری (Sairandhri) تھا، مگر باکس آفس پر یہ کام یاب فلم ثابت نہ ہوئی۔ پربھات فلم کمپنی کو مالکان نے کولھا پور سے پونے شفٹ کردیا جہاں اس بینر تلے 1936ء‌ میں‌ امرت منتھن اور 1939ء میں‌ امر جیوتی جیسی فلمیں ریلیز کی گئیں اور یہ بہت کام یاب رہیں۔ فلم امرت منتھن نے سلور جوبلی بھی مکمل کی۔ یہ بودھ دور کی کہانی تھی۔ اس کے بعد شانتا رام نے ایک مراٹھی ناول پر مبنی سنجیدہ فلم دنیا نہ مانے کے نام سے بنائی تھی۔ اس فلم کے بعد وہ سماجی موضوعات کی طرف متوجہ ہوگئے تھے۔ کہتے ہیں دیو داس جیسی فلم کو انھوں نے اس کی کہانی کے سبب ناپسند کیا تھا اور اسے نوجوانوں میں مایوس کُن جذبات پروان چڑھانے کا موجب کہا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ وہ خود ترقی پسند فلمیں بناتے رہے۔

    1937ء میں انھوں نے دنیا نہ مانے کے نام سے فلم بنائی اور 1941ء میں پڑوسی ریلیز کی جس میں انھوں نے مذہبی کشاکش دکھائی تھی۔ اس کے مرکزی کردار دو ایسے ہمسایہ تھے جن میں ایک ہندو اور ایک مسلمان تھا۔ یہ دونوں دوست بھی تھے لیکن وقت گزرنے کے ساتھ یہ تعلق نفرت اور پھر دشمنی میں بدل جاتا ہے۔ اس فلم کو لوگوں نے بہت پسند کیا۔ وی شانتا رام نے فلم میں ہندو کا کردار ایک مسلمان اداکار کو سونپا تھا جب کہ مسلمان کا کردار نبھانے کے لیے ایک ہندو اداکار کا انتخاب کیا تھا۔ یہ پربھات فلم کمپنی کے ساتھ ان کی آخری فلم تھی کیوں کہ وی شانتا رام اِسی فلم کی ایک اداکارہ جے شری کی محبّت میں گرفتار ہوگئے تھے اور ان کے کاروباری ساتھیوں کو اس پر سخت اعتراض تھا۔

    وی شانتا رام نے جے شری سے تیسری شادی کی ممبئی منتقل ہوگئے جہاں راج کمل کلامندر (Rajkamal Kalamandir) نامی اسٹوڈیو شروع کیا اور شکنتلا کے نام سے فلم بنائی جو ایک ہٹ فلم تھی۔ اِس کے بعد ڈاکٹر کوٹنس کی امر کہانی (Dr. Kotnis Ki Amar Kahani) سنیما کو دی اور یہ بھی ہِٹ ثابت ہوئی۔ یہ دونوں اس زمانے میں امریکہ میں بھی مقبول ہوئیں۔ شکنتلا شانتا رام کی وہ فلم تھی جس پر لائف میگزین میں آرٹیکل بھی شایع ہوا۔ ان کی بنائی ہوئی متعدد فلمیں‌ ناکام بھی رہیں، لیکن پچاس کی دہائی میں وی شانتا رام نے ضرور فلم نگری میں اپنے کمالِ فن اور مہارت کو منوایا لیا تھا۔

    اس دور کی کام یاب ترین فلم دھیج(جہیز) تھی۔ اس وقت راج کمل اسٹوڈیو کو ایک نئی ہیروئن سندھیا مل گئی تھی جس کے ساتھ 1953ء میں‌ شانتا رام نے فلم تین بتی چار راستہ بنائی تھی جو ہٹ ثابت ہوئی اور پھر اسی اداکارہ کو انھوں‌ نے اپنی رنگین فلم جھنک جھنک پائل باجے میں کام دیا۔ شانتا رام نے 1958ء میں‌ فلم دو آنکھیں بارہ ہاتھ بنائی تھی جو ان کی سب سے یادگار فلم ہے۔ یہ ایک سچّی کہانی پہ مبنی فلم تھی اور اسے سینما کی تاریخ‌ کا ماسٹر پیس قرار دیا جاتا ہے۔

    اس فلم کی کہانی کا خلاصہ یہ ہے کہ آزادی سے قبل ایک ریاست میں ایک جیلر کو اپنے قید خانے چلانے کی اجازت دی جاتی ہے اور یہ جیلر کئی سنگین جرائم میں‌ ملوث اور پیشہ ور مجرموں کو قید خانے میں‌ رکھ کر ایک ذمہ دار اور مفید شہری بناتا ہے۔ جیلر کا کردار فلم ساز اور پروڈیوسر شانتا رام نے خود ادا کیا تھا۔ ان کو اس فلم پر کئی ایوارڈ دیے گئے جن میں برلن کے فلمی میلے کا گولڈن بیر اور ہالی وڈ پریس ایسوسی ایشن کا ایوارڈ بھی شامل ہے۔

    وی شانتا رام کا دورِ عروج 1950 کی دہائی کے بعد ختم ہوتا چلا گیا جس کی ایک وجہ ان کا بدلتے ہوئے رجحانات کا ساتھ نہ دینا اور جدید تقاضوں‌ کو پورا نہ کرنا بھی تھا۔ انھوں نے نئے ماحول میں خود کو ڈھالنا پسند نہ کیا اور اپنے اصولوں پر سمجھوتا کرنے کو تیّار نہ ہوئے۔ دراصل وی شانتا رام فلم کو سماجی خدمت کا ایک میڈیم سمجھتے تھے اور بامقصد تفریح‌ کے قائل تھے۔

    فلم کے بعد اب وی شانتا رام کی زندگی کے حالات پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔ 1901ء میں وی شانتا رام نے کولہا پور کے ایک مراٹھی خاندان میں‌ آنکھ کھولی۔ ان کا انتقال 30 اکتوبر 1990ء کو ہوا۔ شانتا رام نے تین شادیاں کی تھیں۔ وہ بیس برس کے تھے جب رشتۂ ازدواج میں منسلک ہوئے۔ ان کی پہلی شریکِ حیات کا نام ویملا بائی تھا جس کی عمر شادی کے وقت 12 سال تھی۔ پہلی بیوی کے بطن سے چار بچّے پیدا ہوئے۔ وی شانتا رام نے 1941ء میں اداکارہ جے شری سے دوسری شادی کی اور تین بچّوں کے باپ بنے۔ 1956ء میں انھوں نے سندھیا نامی اپنے وقت کی کام یاب اداکارہ سے تیسری شادی کی تھی، لیکن ان سے اولاد نہ تھی۔

    پچاس کی دہائی میں وی شانتا رام کی جو فلمیں مقبول ہوئی تھیں، آج بھی دیکھنے والوں کی توجہ حاصل کرلیتی ہیں۔ ان کی فلموں کے کئی گیت بھی کلاسیکی دور کی یادگار ہیں۔

  • ”آوارہ“ جس نے رومانیہ کی گلوکارہ کو نرگیتا بنا دیا

    ”آوارہ“ جس نے رومانیہ کی گلوکارہ کو نرگیتا بنا دیا

    ”آوارہ“ راج کپور اور نرگس دت کی وہ فلم ہے جس نے بالی وڈ کی تاریخ میں مقبولیت کا ریکارڈ بنایا۔ صرف 1954ء میں‌ اس فلم کے 6 کروڑ سے زائد ٹکٹ خریدے گئے تھے۔ آوارہ کا اسکرپٹ خواجہ احمد عباس نے لکھا تھا جو اردو کے مشہور و معروف افسانہ نگار، فلمی ہدایت کار اور نام ور صحافی تھے۔

    اس فلم کا اپنی اوّلین نمائش کے بعد اس قدر شہرہ ہوا کہ دوسرے ممالک میں بھی پردے پر سجائی گئی۔ اس کے گانے ہندوستان میں تو مقبول ہوئے ہی جب یہ فلم رومانیہ پہنچی تو وہاں بھی فلم بہت پسند کی گئی اور اس کے گانوں کی دھوم مچ گئی۔ اگرچہ فلم راج کپور کے گرد گھومتی ہے لیکن فلم کا ستون نرگس کی اداکاری ہے۔

    1951ء اور دہائیوں تک اس فلم کے گانے نوجوانوں کی زبان پر تھے جب کہ رومانیہ میں اس فلم کی مقبولیت کا عالم یہ تھا کہ تیس برس بعد بھی اس کا ایک گیت وہاں کی پاپ سِنگر نے نئے انداز سے گایا۔ اس نے اپنا نام بھی فلم کی اداکارہ نرگس دت سے متاثر ہوکر نرگیتا رکھا تھا۔ اس مغنیہ کو بھارتی وزیرِاعظم اندرا گاندھی نے مدعو کیا اور اس سے یہ گیت سنا۔ انھوں نے نرگیتا کو ایک ساڑھی بھی تحفے میں دی تھی۔ بعد میں 1981 میں اندرا گاندھی نے رومانیہ کا دورہ کیا تو وہاں نرگیتا نے وہی ساڑھی پہن کر حاضرین کے سامنے آوارہ کے گیت پیش کیے تھے۔

    فلم آوارہ کی کہانی میں ایک جج کا بیٹا دکھایا گیا ہے جو اپنی بیوی کو ایک بات پر گھر سے نکال دیتا ہے۔ وہ اس جج کے بیٹے کو لے کر کسی غریب لوگوں کی بستی میں قیام کرتی ہے، بچّہ وہاں بدمعاش قسم لوگوں اور غنڈوں کے درمیان بڑا ہوتا ہے۔ ان کے ساتھ رہتے ہوئے جج کا بیٹا بھی آوارہ بن جاتا ہے اور ایک روز اپنے باپ کے سامنے آجاتا ہے۔

    یہ فلم پاکستان ہی نہیں ایشیا اور افریقی ممالک میں بھی دیکھی گئی۔ آوارہ کی کہانی نے سوویت یونین کے علاوہ عرب ممالک میں بھی ناظرین کو متاثر کیا۔

    اس فلم کے مقبول ترین گیت کے بول تھے؛

    آوارہ ہوں…..آوارہ ہوں

    یا گردش میں ہوں
    آسمان کا تارہ ہوں

    آوارہ ہوں…..آوارہ ہوں

    گھر بار نہیں سنسار نہیں

    مجھ سے کسی کو پیار نہیں…

  • ٹریجڈی کوئین مینا کماری اور ’شیطان بیچارہ‘

    ٹریجڈی کوئین مینا کماری اور ’شیطان بیچارہ‘

    بالی وڈ میں مینا کماری نے 32 سال تک بطور اداکارہ کام کیا اور ہندی سنیما کو متعدد کلاسیکی فلمیں‌ دیں۔ وہ چار سال کی تھیں جب فلم انڈسٹری سے وابستہ ہوئیں۔

    بالی وڈ کی اس اداکارہ کو علم دوست کہا جاتا ہے۔ انھیں مطالعہ کا شوق تھا اور شاعری بھی کرتی تھیں۔ مینا کماری نے فلمی رسائل میں مضامین بھی لکھے جب کہ شاعری میں ان کا تخلص ناز تھا۔

    مینا کماری کو’ٹریجڈی کوئین‘ کے نام سے پہچانا جاتا ہے اور اس کی وجہ اُن کے وہ کردار تھے جو فلمی پردے پر عام ہندوستانی عورت کا دکھ اور اس کی زندگی کے المیوں کو پیش کرتے تھے، جب کہ خود اداکارہ کی زندگی رنج و الم اور محرومیوں‌ کا شکار رہی۔

    "فلمی صحافت” کے عنوان سے وشو ناتھ طاؤس نے اپنی کتاب "ہندوستانی فلموں کے سو سال، کچھ جھلکیاں” میں‌ اس مشہور اداکارہ کو ایک قلم کار کی حیثیت سے پیش کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:

    مشہور اداکارہ مینا کماری نے اپنے ایک مضمون میں اردو کے فلمی اخبار نویسوں کے بارے میں اپنے خیالات اور تجربات بڑے دل چسپ انداز میں بیان کیے تھے۔

    "ویکلی ’فلم آرٹ‘ دلّی اور ماہ نامہ ’شمع‘ کے بمبئی میں مقیم خصوصی نمائندے مسٹر راز داں ایم اے کے بارے میں اس نے لکھا کہ وہ ایک گھریلو قسم کے شریف انسان ہیں جو دورانِ گفتگو اِس طرح گھل مل جاتے ہیں کہ بیگانگی کا احساس تک نہیں رہتا، عام فلم جرنلسٹ جن کم زوریوں کا شکار ہیں وہ اُن سے بہت دور ہیں۔”

    راز داں صاحب نے مینا کماری سے ہفت روزہ ’فلم آرٹ‘ کے لیے ایک مضمون لکھنے کی فرمائش کی تو مینا کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وہ کس عنوان سے، کس نوعیت کا مضمون تحریر کرے۔ بہرحال اس نے ایک مضمون ’’اور سپنا پورا ہو گیا‘‘ سپردِ قلم کیا اور راز داں کے حوالے کر دیا۔ مضمون شائع ہوا تو قارئین نے اُسے بہت پسند کیا اور بڑی تعداد میں تعریفی خطوط مینا کماری کے پاس پہنچے جن سے حوصلہ پا کر اُس نے بعد میں اردو میں کئی مضامین مختلف اخبارات و رسائل میں اشاعت کی غرض سے بھیجے۔

    بمبئی کے روزنامہ ’انقلاب‘ کے تحت چھپنے والے ممتاز ہفتہ وار فلمی رسالے ’کہکشاں‘ کے مدیر مسٹر دُکھی پریم نگری کے بارے میں اظہارِ خیال کرتے ہوئے لکھا کہ وہ سوالات معمول کے مطابق اچھے ڈھنگ سے کرتے ہیں لیکن ایک بار انھوں نے غیر ارادی طور پر کچھ ایسی باتیں چھاپ دیں جن سے ڈائریکٹروں میں موصوفہ کی پوزیشن خراب ہو گئی مگر بعد میں اداکارہ نے اپنی صفائی میں جو بیان جاری کیا اُس سے فضا بالکل صاف ہو گئی۔ کچھ عرصہ بعد دُکھی پریم نگری پاکستان ہجرت کر گئے تھے اور وہاں انھوں نے کراچی کے مشہور ہفت روزہ فلمی اخبار ’نگار‘ کی ادارت کے فرائض بڑی خوش اسلوبی سے انجام دیے اور اُسے ملک کا سب سے مقبول فلمی پرچہ بنا دیا۔

    ویکلی ’کہکشاں ‘ سے وابستہ ایک اور فلمی صحافی حسن صحرائی کے بارے میں مینا نے بتایا کہ وہ ایسے انداز سے سوال کرتے ہیں جیسے راشن انسپکٹر راشن کارڈ بناتے وقت عام طور پر پوچھا کرتے ہیں ’’آپ کا نام؟ آپ کے باپ کا نام؟ آپ کا ایڈریس؟‘‘ وغیرہ وغیرہ۔ اس کے باوجود مینا کماری کو حسن صحرائی صاحب سے اور کوئی جھجھک نہیں ہوتی تھی اور وہ اُن کا بڑا احترام کرتی تھی۔

    ساٹھ برس قبل راقم دلّی کے مشہور علمی و ادبی رسالے ’رہنمائے تعلیم‘ کا فلم ایڈیٹر تھا۔ 1954ء میں اس کا خصوصی فلم ایڈیشن شائع کرنے کا اعلان ہوا تو میں نے مینا کماری سے مضمون بھیجنے کی فرمائش کی۔ اُس نے ’شیطان بیچارہ‘ کے عنوان سے ایک آرٹیکل لکھ کر بھیجا جو شاملِ اشاعت کیا گیا۔ اس میں ابلیس اور جبرئیل کے مابین مذاکرات کے علاوہ کچھ شعر بھی درج تھے۔ اُن دنوں مینا کماری کمال امروہوی کی شریکِ حیات تھی اور ان دونوں کے تعلقات خوش گوار تھے۔

    مینا بنگلور سے شائع ہونے والے ماہانہ اردو فلمی جریدے ’عبرت‘ کی سرپرست تھی جسے جناب کامدار اُلدنی ایڈٹ کیا کرتے تھے۔ دونوں نے مجھے اپنے پرچے کا خصوصی نمائندہ مقرر کیا تھا اور میں نے مسوری میں منعقد ہونے والے انٹرنیشنل فلم فیسٹول میں ’عبرت‘ کی نمائندگی کی تھی۔

  • بالی وڈ کے مشہور اداکار پران کو ’’ولن آف دی ملینیئم‘‘ بھی کہا جاتا ہے

    بالی وڈ کے مشہور اداکار پران کو ’’ولن آف دی ملینیئم‘‘ بھی کہا جاتا ہے

    ہندی سنیما کے اداکار پران کو ’’ولن آف دی ملینیئم‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔

    ان کا شمار بالی وڈ کے منجھے ہوئے اداکاروں میں ہوتا ہے۔ پران فلموں میں اپنے منفی کرداروں کو اس خوبی سے نبھاتے کہ سنیما بین اُن سے نفرت کرنے پر مجبور ہو جاتے۔

    بالی وڈ کے اس مشہور ولن اور معاون اداکار نے 12 جولائی 2013ء کو یہ دنیا ہمیشہ کے لیے چھوڑ دی تھی۔ وفات کے وقت ان کی عمر 93 برس تھی۔

    پران کرشن سِکند پرانی دہلی کے محلّہ بلی ماراں میں پیدا ہوئے تھے۔ پران نے تقسیمِ ہند سے قبل لاہور میں فلمیں کیں اور بعد میں ممبٔی چلے گئے تھے۔

    پران نے اپنے فلمی کیريئر کی شروعات ایک ہیرو کے طور پر کی۔ ان کی پہلی فلم ’جٹ یملا‘ سن 1940 میں ریلیز ہوئی، لیکن بعد کے برسوں میں وہ اپنی شکل و صورت، چال ڈھال اور دیکھنے کے انداز کی وجہ سے فلم سازوں اور ہدایت کاروں کو ولن کے لیے زیادہ بہتر لگے اور یوں ان کے کیریئر کا آغاز مختلف انداز سے ہوا۔

    نصف صدی پر مشتمل اپنے کیریئر کے دوران پران نے لگ بھگ چار سو فلموں میں اداکاری کی اور ہندی سنیما میں صفِ اوّل کے ولن کہلائے۔

    پران نے منفی مزاحیہ کردار بھی نبھائے اور ولن کے کیریکٹر کو ایک الگ پہچان دی۔

    ضدی، بڑی بہن، میرے محبوب، زنجیر، اپكار کے علاوہ وہ کئی سپر ہٹ فلموں میں منفی کردار نبھاتے نظر آئے اور اپنے وقت کے سپراسٹارز کے ساتھ کام کیا۔ پران نے اپنے زمانۂ عروج میں مشہور ترین فلم ڈان، امر اکبر انتھونی اور شرابی میں کردار ادا کیے تھے۔

    پران کی آواز سب سے مختلف تھی اور ان کے ڈائیلاگ بولنے کا انداز بھی جداگانہ۔ انھوں نے ایک مار دھاڑ کرنے والے، بدمعاش، چور اچکے اور قاتل سے لے کر نیک یا رحم دل انسان کے کردار بھی نبھائے جنھیں شائقین نے بہت پسند کیا۔

  • بالی وڈ کی وہ فلمیں‌ جن سے شائقینِ سنیما کو ‘دلی صدمہ’ ہوا

    بالی وڈ کی وہ فلمیں‌ جن سے شائقینِ سنیما کو ‘دلی صدمہ’ ہوا

    آج سے چند دہائیوں قبل تک پاک و ہند میں سنیما کے شائقین کا مزاج کچھ الگ ہی رہا ہے۔ فلمی پردے پر ہیرو اور ہیروئن کی محبّت کا الم ناک انجام ان کے لیے قابلِ قبول نہیں‌ ہوتا تھا۔

    کسی بھی فلم میں محبّت کرنے والوں کے درمیان دائمی جدائی یا ان میں سے کسی ایک کی دنیا سے رخصتی کا منظر پیش کرنا فلم ساز یا کہانی کار کے لیے آسان نہ تھا۔ اس لیے رومانوی فلموں کا اختتام خوش گوار ہی ہوتا تھا، لیکن اس وقت بھی بالی وڈ میں ایسی فلمیں‌ بنائی گئیں جو "ہیپی اینڈنگ فارمولے” کے برخلاف تھیں اور یہ کام یاب بھی ہوئیں۔

    یہاں‌ ہم تین ایسی فلموں کا تذکرہ کررہے ہیں جن کا ناخوش گوار انجام فلم بینوں کے لیے بڑا دھچکا تو ثابت ہوا، لیکن ان فلموں نے زبردست بزنس بھی کیا۔

    مغلِ اعظم 1960ء کی وہ فلم تھی جس کا ذکر ہندی سنیما کی تاریخ میں‌ آج بھی کیا جاتا ہے۔ مدھو بالا اور دلیپ کمار کی فلمی جوڑی بہت مقبول ہوئی تھی۔ فلم ساز آصف نے تاریخی کرداروں اور اُس مشہور واقعے پر فلم بنائی جسے سنیما بین سنتے اور پڑھتے آئے تھے۔ یعنی وہ اس جوڑی کا انجام پہلے سے جانتے تھے۔

    ایک طرف انار کلی اور دوسری طرف شہزادہ سلیم تھا اور ان کی محبّت بادشاہ کے حکم پر بدترین انجام سے دوچار ہوئی۔ فلم کے آخر میں انار کلی کو دیوار میں چنوا دیا جاتا ہے، لیکن یہ بھی تاثر دیا جاتا ہےکہ اکبر نے اس لڑکی کو سلیم سے کبھی نہ ملنے کا وعدہ لے کر ہمیشہ کے لیے غائب ہوجانے دیا۔ تاریخ میں محفوظ اس محبّت کے انجام سے واقف ہونے کے باوجود فلم بینوں کو پردے پر یہ سب دیکھ کر شدید رنج اور دکھ پہنچا تھا۔

    شرت چندر کے مشہور ناول دیو داس پر یوں تو ہندوستان میں متعدد فلمیں بنائی جاچکی ہیں، لیکن 2002ء میں شاہ رخ خان نے اس فلم کا مرکزی کردار ادا کیا اور کہانی کے مطابق پارو کے گھر کے سامنے دم توڑا تو جیسے ہر دل ٹوٹ ہی گیا۔ آنکھوں سے آنسو رواں ہوگئے اور فلم بین اداس و مغموم نظر آئے۔ تاہم فلم سپر ہٹ ثابت ہوئی۔

    فلم ایک دوجے کے لیے 1981ء میں بڑے پردے پر نمائش کے لیے پیش کی گئی تھی۔ یہ وہ فلم تھی جس میں کمل ہاسن اور رتی اگنی ہوتری دونوں ہی نے شان دار اداکاری کی اور خوب داد پائی، لیکن فلمی پردے کی اس جوڑی کا انجام بہت درد ناک تھا۔ فلم کے آخر میں ہیرو ہیروئین اپنی زندگی ختم کرلیتے ہیں اور فلم کے اس اختتام سے شائقین کو بڑا دھچکا لگا تھا۔