Tag: ہندی کہانی

  • پھولوں کی سیج

    پھولوں کی سیج

    کسی نگر میں ایک راجہ راج کرتا تھا۔ اس کی ایک رانی تھی۔ اس رانی کو کپڑے اور گہنے کا بہت زیادہ شوق تھا۔

    اسے کبھی سونے کا کرن پھول چاہیے، کبھی ہیرے کا ہار تو کبھی موتیوں کی مالا۔ کپڑوں کی تو بات ہی نہ پوچھیے۔ بھاگل پوری ٹسراور ڈھاکے کی ململ اور رات کو سونے کے لیے پھولوں کی سیج۔ پھول بھی کھلے ہوئے نہیں بلکہ ادھ کلیاں جو رات بھر میں آہستہ آہستہ کھلیں۔

    ہر روز نوکر ادھ کھلی کلیاں چُن چُن کر لاتے اور باندی سیج لگاتی۔ اسی طرح اتفاق سے ایک دن ادھ کھلی کلیوں کے ساتھ کچھ کھلی ہوئی کلیاں بھی سیج پر آ گئیں۔ اب تو رانی کو بہت ہی بے چینی ہوئی۔

    رانی کو نیند کہاں؟ کھلی کلیاں چبھ رہی تھیں۔ دیپک دیو (دیا) جو اپنی روشنی پھیلا رہے تھے۔ ان سے نہ رہا گیا۔ وہ بولے، ’’رانی! اگر تمہیں مکان بناتے وقت راج گیروں کو تسلے ڈھو ڈھو کر گارا اور چونا دینا پڑے تو کیا ہو؟ کیا تسلوں کا ڈھونا ان کلیوں سے بھی زیادہ برا لگےگا؟‘‘ رانی نے سوال کا کوئی جواب نہ دیا۔ وہ لاجواب ہو گئی۔ راجہ بھی جاگ رہے تھے۔ انہوں نے ساری باتیں سن لیں۔

    راجہ نے رانی سے سوال کیا۔ ’’دیپک دیو کے سوال کی آزماش کر کے دیکھو نا؟ ان کا حکم نہ ماننا اچھا نہیں۔‘‘ رانی راضی ہو گئی۔

    راجہ نے کاٹھ کا ایک کٹہرا بنوایا۔ اس میں رانی کو بند کروا دیا اور پاس بہنے والی ندی میں بہا دیا۔

    وہ کٹہرا بہتے بہتے ایک دوسرے رجواڑے کے کنارے جا لگا۔ وہ راجہ کے بہنوئی کے راج میں تھا۔ گھاٹ والوں نے کٹہرے کو پکڑ کر کنارے لگایا۔ کھولا تو اس میں ایک خوب صورت عورت نکلی۔ رانی کے زیور اور قیمتی کپڑے پہلے ہی اتار لیے گئے تھے۔ وہ معمولی پھٹے چیتھڑے پہنے ہوئے تھی مگر خوب صورت تھی۔ راجہ اسے نہ پہچان سکا اور نہ رانی نے ہی اپنا صحیح پتہ بتایا۔ کیوں کہ دیپک دیو کی بات کا امتحان بھی تو لینا تھا۔

    راجہ کا ایک نیا محل بن رہا تھا۔ اس لیے راجہ کو مزدوروں کی ضرورت تھی۔ اس نے پوچھا۔ ’’تم کیا چاہتی ہو؟‘‘

    رانی نے اپنی خواہش ظاہر کرتے ہوئے کہا۔ ’’مکان بنانے میں تسلا ڈھونے کا کام۔‘‘

    راجہ نے اس رانی کو تسلا ڈھونے کے کام پر لگا دیا۔ رانی دن بھر تسلا ڈھوتی اور مزدوری کے تھوڑے پیسوں سے اپنی گزر کرتی۔ دن بھر کی سخت محنت کے بعد جو روکھا سوکھا کھانا ملتا وہ اسے بہت ہی میٹھا اور لذیذ معلوم ہوتا اور رات بھر کھردری چٹائی پر خراٹے لے لے کر خوب سوتی۔ منہ اندھیرے اٹھتی اور نہانے دھونے سے فارغ ہوکر دل میں امنگ اور حوصلے کے ساتھ اپنے کام میں لگ جاتی۔

    اسی طرح رانی کو کام کرتے کرتے بہت دن گزر گئے۔ ایک دفعہ رانی کا خاوند اپنے بہنوئی کے ہاں کسی کام سے آیا۔ خاص کر دل بہلانے کے خیال سے۔ کیوں کہ بغیر رانی کے راجہ کیا؟ اکیلے راج کام میں اس کا جی نہیں لگتا تھا۔ اس طرح راجہ نے رانی کو وہاں اچانک دیکھ لیا۔ دیکھتے ہی راجہ رانی کو پہچان گئے۔ ہاں محنت مزدوری کرنے سے رانی کچھ سانوی سلونی سی ہو گئی تھی اور کچھ موٹی تازی بھی۔ رانی بھی راجہ کو پہچان گئی۔

    پھر راجہ نے پوچھ ہی لیا۔ ’’کہو تسلوں کا ڈھونا تمہیں پسند آیا؟‘‘

    رانی مسکراتی ہوئی بولی۔ ’’کلیاں چبھتی تھیں مگر تسلے نہیں چبھتے۔‘‘

    راجہ کے بہنوئی دونوں کی بات چیت سن کر حیران ہوئے۔ انہوں نے بھید جاننا چاہا۔ راجہ نے سارا ماجرا کہہ سنایا۔ بہنوئی راجہ کی بات سن کر مست ہو گئے۔ انہوں نے رانی کو کام سے سبک دوش کر کے اس کے آرام سے رہنے اور کھانے پینے کا انتظام کر دیا۔

    کچھ دنوں کے بعد رانی سے راجہ نے پوچھا۔’’کہو اب کیا حال ہے۔‘‘

    رانی نے کہا۔ ’’وہ لطف کہاں؟ کاہلی اپنی حکومت قائم کرنی چاہے ہے۔ ڈر لگتا ہے کہ کہیں کلیاں پھر سے چبھنے نہ لگیں۔‘‘راجہ نے اپنی رائے ظاہر کی۔’’تو ایک کام کرو، ہم دونوں مل کر دن بھر مزدوری کیا کریں اور رات کو کلیوں کی سیج پر سوئیں۔‘‘

    رانی نے اپنا تجربہ بتا کر کہا۔’’تو پھر کلیوں کی ضرورت ہی نہ رہے گی۔ ویسے ہی گہری نیند آجایا کرے گی۔‘‘

    (متھلا، ہندوستان کی ایک لوک کہانی جس میں محنت مشقّت کی اہمیت اور اس کے نتیجے میں‌ ملنے والی حقیقی راحت اور آرام و سکون کو اجاگر کرتی ہے)

  • دو بھائی (قدیم داستان)

    دو بھائی (قدیم داستان)

    سُند اور اُپ سُند دونوں سگے بھائی تھے۔ دونوں ایک دوسرے پر جان چھڑکتے اور ایک پل کے لیے بھی جدا نہ ہوتے تھے۔

    دونوں کے دل میں سمائی کہ ایسی زندگی حاصل کریں کہ موت کا ڈر نہ رہے۔ دونوں ایک چوٹی پر جاکر ریاضت میں مشغول ہوگئے۔ برسوں تک بھی جب کوئی دیوتا متوجہ نہ ہوا تو مسلسل ایک ٹانگ پر کھڑے رہ کر ریاضت کرنے لگے۔

    برہما جی سے اُن کی یہ حالت نہ دیکھی گئی۔ انھوں نے خود دونوں کو وردان مانگنے کو کہا۔ دونوں یک زبان ہوکر بولے:

    مہاراج! ہماری مانگ بہت چھوٹی سی ہے۔ بس اتنی کہ کوئی ہتھیار ہم پر اثر نہ کرسکے اور ہم کسی دشمن کے ہاتھوں نہ مریں۔

    برہما نے کہا، ”یہ ناممکن ہے، موت اٹل ہے۔“

    اس پر دونوں نے سوچ کر کہا۔ ”ہمیں کوئی اور نہ مار سکے، اگر مرنا ہی ہے تو ہم بس ایک دوسرے کے ہاتھوں ہی مرسکیں۔“

    برہما نے ان کی بات مان لی اور غائب ہو گئے۔ دونوں چوں کہ ایک دوسرے سے بے حد محبت کرتے تھے، اس لیے انہیں یقین ہوگیا کہ اب وہ امر ہیں اور دنیا میں کوئی ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ انھوں نے عہد کیا کہ خواہ کچھ ہو وہ آپس میں کبھی نہیں لڑیں گے۔

    اب دونوں نے دنیا میں آفت برپا کردی۔ جس کو چاہتے مار ڈالتے، جس کو چاہتے بادشاہ بنا ڈالتے اور جس کو چاہتے ملک بدر کردیتے۔ ان کے غرور اور تکبر کا یہ عالم تھاکہ کسی کو خاطر میں نہ لاتے اور لوگوں کو طرح طرح سے ستاتے، تھوڑے ہی دنوں میں انھوں نے جور و جفا اور ظلم و تعدی کا ایسا بازار گرم کیا کہ لوگ ان کا نام سن کر کانوں پر ہاتھ رکھنے لگے۔

    بالآخر سب برہما سے فریادی ہوئے۔ لوگوں کا حال سن کر برہما کو بہت دکھ ہوا، مگر وہ زبان دے چکے تھے۔ اب کیا ہوسکتا تھا۔

    کافی سوچ بچار کے بعد برہما نے ایک حسین عورت کا روپ دے کر تلوتما کو دونوں بھائیوں کے پاس جانے اور ان کو رجھانے کا حکم دیا۔

    تلوتما ان بھائیوں کے پاس پہنچی اور انھیں اپنے رقص کا کمال دکھانے لگی۔ تلوتما نظر اٹھاتی تو معلوم ہوتا بجلی گررہی ہے اور اٹھلا کے چلتی تو محسوس ہوتا بہار مسکرا رہی ہے۔

    نوبت یہاں تک پہنچی کہ دونوں بھائی اس کی اداؤں پر فریفتہ ہوگئے۔ وہ ان دونوں کے بیچ آکر کھڑی ہوجاتی تو ایک طرف سُند اور دوسری طرف اُپ سُند اس کا ہاتھ تھام لیتے۔

    سُند کا اصرار تھا کہ وہ بڑا ہے اس لیے خوب صورت عورت پر اس کا حق ہے۔ اُپ سُند کا کہنا تھا کہ بڑوں کا فرض ہے کہ چھوٹوں کی خوشی کا خیال رکھیں، اس لیے حسینہ اس کو ملنی چاہیے۔

    تلوتما کا جادو چل چکا تھا۔ تکرار بڑھنے لگی اور دونوں ایک دوسرے کو مرنے مارنے پر تل گئے۔ جھگڑا بڑھ گیا اور دونوں نے ایک دوسرے پر وار کیا اور زمین خون سے سرخ ہوگئی۔ ان دونوں کی لاشیں زمین پر تڑپنے لگیں۔

    برہما نے کہا، ”دیکھ لو، باہمی عداوت بڑے بڑے سورماؤں کو موت کے گھاٹ اتار دیتی ہے۔“

    (اس قدیم ہندی داستان میں نفسانی خواہشات، دنیاوی اور ظاہری حسن کے دھوکے میں آجانے کا انجام بتایا گیا ہے)