Tag: ہوائی جہاز

  • ہوائی جہازوں کے قبرستان کی سیر کرنا چاہیں گے؟

    ہوائی جہازوں کے قبرستان کی سیر کرنا چاہیں گے؟

    کیا آپ نے جہازوں کے قبرستان کے بارے میں سنا ہے؟ یہ وہ جگہ ہوتی ہے جہاں اپنی مدت پوری کرنے والے یا ناکارہ ہوجانے والے ہوائی جہاز پارک کردیے جاتے ہیں۔

    ہوائی جہاز کی جسامت ایسی نہیں ہوتی کہ ناکارہ ہونے پر اسے ایئرپورٹ کے کسی عقبی کونے میں کھڑا کردیا جائے، اس کے لیے اسے باقاعدہ ایک وسیع جگہ کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایسی جگہوں کو، جہاں ناکارہ جہاز کھڑے کردیے جائیں بون یارڈ یا جہازوں کا قبرستان کہا جاتا ہے۔

    بون یارڈ میں رکھے جانے والے جہاز عسکری اور تجارتی بنیادوں پر استعمال شدہ جہاز ہوتے ہیں۔

    امریکی ریاست ایریزونا میں واقع ڈیوس مونتھن فورس بیس سب سے بڑا بون یارڈ ہے۔ جنگ عظیم دوئم کے بعد قائم کیے جانے والے اس قبرستان میں 4 ہزار 400 ناکارہ جہاز کھڑے ہیں۔

    ان میں امریکی خلائی ادارے ناسا کے استعمال شدہ جہاز بھی شامل ہیں۔

    زیادہ تر بون یارڈز عوام کے لیے بند ہوتے ہیں تاہم ایریزونا کا یہ بون یارڈ عام لوگوں کے لیے کھلا ہے اور جہازوں میں دلچسپی رکھنے والے افراد اور سیاح بس میں بیٹھ کر اس پورے میدان کا چکر لگا سکتے ہیں۔

    کیا آپ اس قبرستان کی سیر کرنا چاہیں گے؟

  • یوکرین، ایران اور امریکی کمپنی کے درمیان جھولتے بلیک باکس میں‌ ہے کیا؟

    یوکرین، ایران اور امریکی کمپنی کے درمیان جھولتے بلیک باکس میں‌ ہے کیا؟

    تہران کے ہوائی اڈے سے پرواز کرنے والا یوکرین کا مسافر طیارہ اڑان بھرنے کے آٹھ منٹ بعد ہی گر کر تباہ ہو گیا تھا اور اس میں سوار 176 افراد میں سے کوئی بھی زندہ نہیں بچا۔

    ایران نے اس طیارے کا بلیک باکس بوئنگ کمپنی یا امریکا کو دینے سے انکار کر دیا ہے۔

    یہی بلیک باکس اس فضائی حادثے کی وجوہ جاننے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔

    بین الاقوامی قوانین ایران کو تحقیقات کی سربراہی کا حق تو دیتے ہیں، لیکن اس میں طیارہ بنانے والی کمپنی بھی شامل ہوتی ہے۔ امریکی بوئنگ کے تیار کردہ طیاروں سے متعلق تحقیقات میں اس ملک کی نیشنل ٹرانسپورٹ سیفٹی بورڈ کا بھی کردار ہوتا ہے۔ یہ ایک عام بات ہے، مگر یہ حادثہ ایسے وقت میں پیش آیا ہے جب ایران اور امریکا کے مابین حالات شدید کشیدہ ہیں۔

    بلیک باکس کیا ہے؟

    تین تہوں پر مشتمل اس باکس کی تیاری میں خیال رکھا جاتا ہے کہ بلندی سے گرنے کے بعد اس میں موجود حساس آلات کو کوئی نقصان نہ پہنچے۔

    بلیک باکس کی بیرونی تہ مضبوط اسٹیل یا ٹائی ٹینیٹم دھات سے تیار کی جاتی ہے۔ یہ اس باکس کو شدید دھچکے اور دباؤ سے بچاتی ہے۔

    باکس کی دوسری تہ کو ایک انسولیشن خانہ کہا جاسکتا ہے۔

    تیسری تہ باکس کو آگ اور تپش سے محفوظ رکھتی ہے۔

    یہ تینوں تہیں فلائٹ ڈیٹا ریکارڈ کو ضایع ہونے سے بچا لیتی ہیں۔

    بلیک باکس کو متعدد طریقوں سے جانچنے کے ساتھ آزمائشی مراحل سے گزارا جاتا ہے۔ ان میں آگ اور حرارت پہنچانا، زیرِ آب رکھنا اور باکس پر مختلف معائعات آزمانا شامل ہے۔

    بلیک باکس کیا بتا سکتا ہے؟

    حادثہ سطحِ زمین پر ہو یا فضا میں، طیارہ کسی سمندر میں گرا ہو تب بھی بلیک باکس کے ریکارڈ شدہ ڈیٹا اور آوازوں سے معلوم کیا جاسکتا ہے کہ طیارہ حادثے کے وقت کتنی بلندی پر پرواز کر رہا تھا۔

    اسی طرح پرواز کی سمت اور رفتار کیا تھی۔ ماہرین اس باکس کی مدد سے جان سکتے ہیں کہ اس کے انجن کس حالت میں تھے۔

    ان بنیادی باتوں کے علاوہ کاک پٹ میں ہونے والی گفتگو سنی جاتی ہے۔ ریکارڈ شدہ آوازوں سے معلوم ہو جاتا ہے کہ حادثہ کے وقت طیارے کے عملے نے آپس میں یا کنٹرول ٹاور سے کیا بات کی تھی۔ اس سے حادثے کی وجوہ کا تعین کرنے میں مدد ملتی ہے۔

    محققین کو اہم ترین معلومات فراہم کرنے والا یہ آلہ طیارے کے پچھلے حصّے میں نصب کیا جاتا ہے تاکہ وہ محفوظ رہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ عموماً کریش یا کسی دوسری افتاد کا سامنا کرنے کی صورت میں طیارے کا اگلا حصہ ہی کسی پہاڑ، زمین، عمارات وغیرہ سے ٹکراتا ہے۔

    ڈیوڈ وارن نے 1956 میں بلیک باکس کا پہلا نمونہ تیار کیا جو چار گھنٹے کی ریکارڈنگ کر سکتا تھا۔ اسے کئی سال بعد طیاروں کے لیے لازمی قرار دے دیا گیا۔

  • نئے سال کے آغاز پر اندرون ملک فضائی مسافروں کے لیے بری خبر آ گئی

    نئے سال کے آغاز پر اندرون ملک فضائی مسافروں کے لیے بری خبر آ گئی

    کراچی: نئے سال کے آغاز پر اندرون ملک سفر کرنے والے فضائی مسافروں پر مالی بوجھ میں اضافہ کر دیا گیا۔

    تفصیلات کے مطابق نیا سال شروع ہوتے ہی اندرون ملک سفر کرنے والے فضائی مسافروں پر مالی بوجھ میں اضافہ کر دیا گیا، پی آئی اے سمیت نجی ائیر لائینز نے اندرون ملک جانے والی پروازوں کے کرایوں میں اچانک اضافہ کر دیا ہے۔

    اے آر وائی نیوز کے نمایندے کا کہنا ہے کہ لاہور سے کراچی، پشاور، کوئٹہ، اسلام آباد، رحیم یار خان اور فیصل آباد سیکٹر کے کرایے میں 10 سے 15 ہزار کا اضافہ کر دیا گیا ہے، ہنگا می صورت حال ہو یا کسی عزیز و اقارب کے انتقال پر جانا پڑ جائے، اندرون ملک سفر کر نے والے مسا فروں کو یک طر فہ 35 ہزار رو پے سے زائد کا ٹکٹ خریدنا پڑے گا جب کہ دو طرفہ کرایہ 70 ہزار سے زا ئد ہو جاتا ہے۔

    ایک نئی ایئر لائن آپریشن شروع کرنے کے لئے تیار

    نیا سال آتے ہی پی آئی اے سمیت نجی ائیر لائنز مسافروں سے زائد کرائے وصول کرنے میں مصروف نظر آتی ہیں، ایئر بلیو اور سرین ایئر بھی اضافی کرائے وصول کر رہی ہیں، اندرون ملک جانے والی پروازوں کے کرائے کا موازانہ خلیجی ممالک سے کیا جائے تو مذکورہ کرایہ اس کے برابر نظر آتا ہے۔

    فضائی مسافروں نے حکومت سے اپیل کی ہے کہ کرائے میں اضافے کا نوٹس لیتے ہوئے اس فیصلے پر نظر ثانی کی جائے۔

  • ہوائی جہاز کے موجد رائٹ برادران سائنس دشمن پادری کے بیٹے تھے!

    ہوائی جہاز کے موجد رائٹ برادران سائنس دشمن پادری کے بیٹے تھے!

    امریکا میں ایک پادری نے اپنے خطبے کے دوران کہا تھا کہ ‘‘لوگو! آج کا انسان سائنس میں ترقی کی آخری حدیں چُھو چکا ہے۔ لہٰذا اب کسی نئی ایجاد کا امکان باقی نہیں رہا۔ اب اگر سائنسی ترقی کے نام پر کچھ خرچ کیا گیا تو وہ سراسر اسراف ہوگا۔’’

    کہتے ہیں کہ یہ پادری اکثر درس دیتے ہوئے یہ بات دہراتا کہ خدا نے اڑنے کی صلاحیت پرندوں کے علاوہ محض فرشتوں کو ودیعت فرمائی ہے جو کہ بالکل درست بات ہے۔

    پادری کا نام رائٹ تھا۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ اسی پادری کے دو بیٹوں نے سائنسی ایجادات میں نام اور مقام حاصل کیا اور حیرت انگیز بات یہ کہ وہ ہوائی جہاز کے موجد شمار کیے جاتے ہیں۔ یہ دونوں رائٹ برادران کے نام سے مشہور ہیں۔

    ان دونوں بھائیوں نے ہوائی جہاز کے تجربے کیے تھے۔ بڑا ولبر رائٹ اور چھوٹا آرویل رائٹ کے نام سے جانا جاتا تھا۔ دونوں نے زندگی بھر شادی نہیں کی۔ وہ سائیکلوں کا کاروبار کرتے تھے اور اسی دوران ایجاد و اختراع میں دل چسپی پیدا ہوئی اور انھوں نے ہوا کے دباؤ وغیرہ کے متعلق معلومات حاصل کر کے ایک ہوائی جہاز بنایا جس کی طاقت چار سلنڈر، بارہ ہارس پاور کا انجن تھا۔

    17 دسمبر 1903 کو انھوں نے اپنے ہوائی جہاز کے تجربے کے دوران چار پروازیں کیں جن میں سب سے اونچی اڑان 852 فٹ تھی۔ امریکی حکومت نے ان کی حوصلہ افزائی کی فوج میں ہوا بازی کا اسکول کھول کر اس میں آرویل کو استاد مقرر کیا۔

  • ہوا بازی کا عالمی دن: جیٹ لیگ سے کیسے نجات پائی جائے؟

    ہوا بازی کا عالمی دن: جیٹ لیگ سے کیسے نجات پائی جائے؟

    آج پاکستان سمیت دنیا بھر میں ہوا بازی یعنی سول ایوی ایشن کا عالمی دن منایا جارہا ہے۔ فضائی سفر اس وقت ذرائع آمد و رفت کا بڑا ذریعہ بن چکا ہے تاہم یہ ماحول کے لیے سخت نقصان دہ ہے۔

    پاکستان میں آج ہی کے روز 3 سال قبل ایک المناک فضائی حادثہ پیش آیا تھا جب چترال سے اسلام آباد آنے والا پی آئی اے کا طیارہ حویلیاں کے قریب حادثے کا شکار ہوگیا تھا، حادثے میں معروف نعت خواں جنید جمشید سمیت 47 افراد شہید ہوگئے تھے۔

    فضائی سفر یوں تو دیگر ذرائع آمد و رفت کے مقابلے میں نہایت مہنگا ہے تاہم یہ کم وقت میں آپ کو اپنی منزل تک پہنچا سکتا ہے۔ دنیا بھر میں روزانہ 44 ہزار فلائٹس آپریٹ کی جاتی ہیں جن میں لگ بھگ پونے 3 کروڑ افراد روزانہ سفر کرتے ہیں۔

    کم وقت میں منزل پر پہنچنے کے ساتھ فضائی سفر کے دوران ہماری جسمانی کیفیات بھی کچھ تبدیل ہوجاتی ہیں۔ زمینی سفر کے مقابلے میں فضائی سفر کے دوران پیش آنے والی جسمانی تبدیلیاں کچھ مختلف ہوتی ہیں۔

    آئیں آج ہم آپ کو ان کیفیات اور ان کے پیچھے چھپی وجوہات کے بارے میں بتاتے ہیں۔

    جسم میں پانی کی کمی

    فضائی سفر کے دوران ہمارا جسم ڈی ہائیڈریشن کا شکار ہوجاتا ہے۔ ماہرین کے مطابق 3 گھنٹے کی فلائٹ کے دوران ہمارے جسم سے ڈیڑھ لیٹر پانی خارج ہوجاتا ہے۔

    جسم کی سوجن

    فضائی سفر کے دوران ہمارا جسم سوج جاتا ہے۔ ہوا کے دباؤ کی وجہ سے ہمارے جسم کی گیس میں اضافہ ہوجاتا ہے جس سے جسم سوجن اور معدے کے درد میں مبتلا ہوجاتا ہے۔

    آکسیجن کی کمی

    ہوائی جہاز کے کیبن میں ہوا کا دباؤ عام دباؤ سے 75 فیصد بڑھ جاتا ہے جس کی وجہ سے آپ کو سر درد اور آکسیجن کی کمی کا سامنا ہوسکتا ہے۔

    جراثیموں کا حملہ

    ہوائی جہاز میں کھلی فضا کا کوئی گزر نہیں ہوتا اور کئی گھنٹے تک ایک ہی آکسیجن طیارے میں گردش کرتی رہتی ہے یوں یہ جراثیموں کی افزائش کے لیے نہایت موزوں بن جاتی ہے۔

    فضائی سفر کے دوران جراثیموں کی وجہ سے آپ کے نزلہ زکام میں مبتلا ہونے کا امکان 100 فیصد بڑھ جاتا ہے۔

    حس ذائقہ اور سماعت متاثر

    ہوائی جہاز کے سفر کے دوران آپ کے ذائقہ محسوس کرنے والے خلیات یعنی ٹیسٹ بڈز سن ہوجاتے ہیں جس سے آپ کسی بھی کھانے کا ذائقہ درست طور پر محسوس نہیں کرپاتے۔

    علاوہ ازیں کئی گھنٹے طیارے اور ہوا کا شور سننے سے جزوی طور پر آپ کی سماعت بھی متاثر ہوتی ہے۔

    تابکار شعاعیں

    فضائی سفر کے دوران آپ تابکار شعاعوں کی زد میں بھی ہوتے ہیں۔ 7 گھنٹے کی ایک فلائٹ میں ایکس رے جتنی تابکار شعاعیں آپ کے جسم کو چھوتی ہیں۔

    ٹانگیں سن ہوجانا

    فضائی سفر کے دوران مستقل بیٹھے رہنے سے خون کی گردش متاثر ہوتی ہے جس سے ٹانگیں سن اور تکلیف کا شکار ہوجاتی ہیں۔ اس سے نجات کا حل یہ ہے کہ موقع ملنے پر ایک جگہ سے دوسری جگہ حرکت کریں اور مائع اشیا کا زیادہ استعمال کریں۔

    جیٹ لیگ

    جب آپ ایک طویل فضائی سفر کرتے ہیں اور ایک ٹائم زون سے دوسرے ٹائم زون میں پہنچتے ہیں تو آپ کا جسم شدید تھکاوٹ، بوجھل پن، اکڑاؤ اور درد کا شکار ہوجاتا ہے جسے جیٹ لیگ کہا جاتا ہے۔

    یہ عموماً ایک سے دو دن تک رہ سکتا ہے تاہم طویل سفر کے بعد اگر آپ آرام کیے بغیر ہی اپنے تھکا دینے معمولات زندگی میں مصروف ہوجائیں تو یہ زیادہ دن بھی چل سکتا ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ جیٹ لیگ سے بچنے کے لیے دوران پرواز متحرک رہا جائے تو جیٹ لیگ سے جلدی چھٹکارا پایا جاسکتا ہے۔

    اس کے لیے اپنے پاؤں گول گول کھمائیں، سیٹ پر بیٹھے بیٹھے اپنی ایڑیوں کو زمین پر لگائیں اور پاﺅں کو اوپر اٹھائیں۔

    سیٹ پر بیٹھے ہوئے اپنی ٹانگوں کو اوپر اٹھا کر گھٹنوں کو اپنے سینے سے لگائیں۔

    اپنی گردان کو دائیں بائیں اور آگے پیچھے حرکت دیں کہ اس طرح آپ کی گردن پرسکون رہے گی۔

    اسی طرح سیٹ پر بیٹھے ہوئے آگے کو جھکیں اور اپنے سینے کو گھٹنوں کے ساتھ لگائیں۔

    جہاز میں چہل قدمی کریں تاکہ آپ کے خون کا دورانیہ ٹھیک رہے اور آپ کے جسم میں حرکت رہے۔

    طویل فضائی سفر میں ٹھوس اشیا کے بجائے مائع اشیا کا زیادہ استعمال مفید ہے۔


    ہوا بازی سے متعلق مزید دلچسپ مضامین

    ہوائی جہاز کے بارے میں 8 حیرت انگیز حقائق

    فضائی سفر کے دوران یہ احتیاطی تدابیر اپنائیں

    طیارے سے آسمانی بجلی ٹکرا جانے کی صورت میں کیا ہوتا ہے؟

    لینڈنگ کے وقت کھڑکی کا شیڈ کھلا رکھنے کی ہدایت کیوں کی جاتی ہے؟

    اکثر سفر کرنے والوں کے لیے ایک کارآمد ٹپ

  • ہوائی جہاز میں سفر کرتے ہوئے آپ کو شرم آنی چاہیئے!

    ہوائی جہاز میں سفر کرتے ہوئے آپ کو شرم آنی چاہیئے!

    کیا آپ اکثر و بیشتر فضائی سفر کرنے کے عادی ہیں؟ تو پھر آپ کو شرم آنی چاہیئے کیونکہ شہر کے اس قیامت خیز بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کا ایک ذمہ دار آپ کا فضائی سفر بھی ہے۔

    ایوی ایشن انڈسٹری یعنی ہوا بازی کی صنعت اس وقت گلوبل وارمنگ یعنی عالمی حدت میں اضافے کا ایک بڑا سبب ہے۔ ہوائی جہازوں کی آمد و رفت سے جتنا کاربن اور دیگر زہریلی گیسوں کا اخراج ہوتا ہے، اتنا کسی اور ذریعہ سفر میں نہیں ہوتا۔

    ایک ہوائی جہاز اوسطاً ایک میل کے سفر میں 53 پاؤنڈز کاربن ڈائی آکسائیڈ کا اخراج کرتا ہے اور اس وقت جن انسانی سرگرمیوں نے عالمی حدت (گلوبل وارمنگ) میں اضافہ کیا ہے، ہوا بازی کی صنعت کا اس میں 2 فیصد حصہ ہے۔

    تو پھر جب ہم تحفظ ماحولیات کی بات کرتے ہیں تو یقیناً ہمیں اپنے فضائی سفر پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

    فلائٹ شیم کی تحریک

    فضائی سفر کرنے پر شرمندہ کرنے یعنی فلائٹ شیم کی تحریک کا آغاز سنہ 2017 میں سوئیڈن سے ہوا جب سوئیڈش گلوکار اسٹافن لنڈبرگ نے فضائی سفر کے ماحول پر بدترین اثرات دیکھتے ہوئے، آئندہ کبھی فضائی سفر نہ کرنے کا اعلان کیا۔

    ملک کی دیگر کئی معروف شخصیات نے بھی اسٹافن کا ساتھ دینے کا اعلان کیا، جن میں ایک کلائمٹ چینج کی 16 سالہ سرگرم کارکن گریٹا تھنبرگ کی والدہ اور معروف اوپرا سنگر میلینا ارنمن بھی شامل تھیں۔

    جی ہاں وہی گریٹا تھنبرگ جس نے ایک سال تک ہر جمعے کو سوئیڈش پارلیمنٹ کے باہر کھڑے ہو کر احتجاج کیا اور جس کی یورپی یونین اور اقوام متحدہ میں اشکبار تقریروں نے دنیا بھر کے بااثر افراد کو مجبور کیا کہ وہ اب کلائمٹ چینج کے بارے میں سنجیدہ ہوجائیں۔

    گریٹا کی انہی کوششوں کی وجہ سے اب ہر جمعے کو دنیا بھر میں کلائمٹ اسٹرائیک کی جاتی ہے۔ خود گریٹا جب اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کے لیے روانہ ہوئی تو اس نے فضائی سفر کے بجائے 14 روز کے بحری سفر کو ترجیح دی۔

    متبادل کیا ہے؟

    اس تحریک سے وابستہ افراد کا کہنا ہے کہ فضائی سفر نہ کرنے کا مطلب یہ نہیں کہ آپ دنیا نہ گھومیں یا سفر نہ کریں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ دوسرا ذریعہ سفر اپنائیں جیسے ٹرین کا سفر۔

    ٹرین سے جتنا کاربن اخراج ہوتا ہے وہ فضائی سفر کے کاربن اخراج کا صرف دسواں حصہ ہے۔ علاوہ ازیں مختلف ممالک میں جدید ٹیکنالوجی سے مزین نئی ماحول دوست ٹرینیں بھی متعارف کروائی جارہی ہیں جو عام ٹرین کے کاربن اخراج سے 80 فیصد کم کاربن کا اخراج کرتی ہیں۔

    علاوہ ازیں ٹرین سے سفر کرنا نہایت پرلطف تجربہ ہے، اس سفر میں وہ مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں جو فضائی سفر کے دوران ہرگز نظر نہیں آسکتے۔

    ذاتی کاربن بجٹ

    اقوام متحدہ کی جانب سے ہر شخص کا ایک ذاتی کاربن بجٹ مختص کیا گیا ہے، یعنی کسی شخص کے لیے جب مختلف ذرائع سے کاربن اخراج ہوتا ہے، یعنی رہائش، سفر، غذا اور دیگر سہولیات تو اس کاربن کی مقدار 2 سے ڈیڑھ ٹن سالانہ ہونی چاہیئے۔

    لیکن جب آپ فضائی سفر کرتے ہیں تو آپ کا یہ کاربن بجٹ ایک جھٹکے میں بہت سا استعمال ہوجاتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر لندن سے ماسکو کی فلائٹ لی جائے جس کا فاصلہ 2 ہزار 540 کلومیٹر اور دورانیہ ساڑھے 3 گھنٹے ہے، تو آپ اس فلائٹ میں اپنے کاربن بجٹ کا پانچواں حصہ استعمال کرلیتے ہیں۔

    ماہرین کے مطابق اس تحریک میں شیم کا لفظ تو منفی ہے تاہم اس کا مقصد اس سے مثبت نتائج حاصل کرنا ہے۔ آپ جتنا زیادہ ماحولیاتی نقصانات کے بارے میں سوچیں گے، فضائی سفر کرتے ہوئے اتنی ہی زیادہ شرمندگی محسوس کریں گے۔

    سوئیڈن کے تحفظ ماحولیات کے ادارے ڈبلیو ڈبلیو ایف سوئیڈن کے مطابق یہ تحریک اتنی پراثر ثابت ہورہی ہے کہ سنہ 2018 میں سوئیڈن میں فضائی سفر کرنے والوں کی تعداد میں 23 فیصد کمی آئی۔ یہ تحریک اب کینیڈا، بیلجیئم، فرانس اور برطانیہ میں بھی زور پکڑ رہی ہے۔

    کیا آپ اس تحریک کا حصہ بننا چاہیں گے؟

  • طیارے سے آسمانی بجلی ٹکرا جانے کی صورت میں کیا ہوتا ہے؟

    طیارے سے آسمانی بجلی ٹکرا جانے کی صورت میں کیا ہوتا ہے؟

    فضائی سفر کرنے والے افراد اکثر اوقات دوران سفر جھٹکوں کا سامنا تو کرتے رہتے ہیں، تاہم بہت کم افراد جانتے ہیں کہ ان میں کچھ طیارے کے آسمانی بجلی سے ٹکرانے کے باعث بھی ہوتے ہیں۔

    کیا آپ جانتے ہیں کہ اگر آسمانی بجلی طیارے سے ٹکرا جائے تو در حقیقت ہوتا کیا ہے؟

    آسمانی بجلی کے طیارے سے ٹکرانے کے دوران آپ ایک زور دار آواز سنتے ہیں، کھڑکی کے باہر سے ایک بجلی کا جھماکہ بھی دکھائی دیتا ہے اور بعض اوقات طیارے کی لائٹس بھی جلتی بجھتی دکھائی دیں گی، تاہم یہ ایک معمول کی بات ہے۔

    امریکا کے کمرشل فلیٹ میں موجود ہر طیارہ سال میں کم از کم ایک بار ضرور اس صورتحال کا شکار ہوتا ہے، یعنی صرف امریکا میں ہر سال آسمانی بجلی کے طیارے سے ٹکرانے کے 7 ہزار واقعات ہوتے ہیں۔

    جب آسمانی بجلی طیارے سے ٹکراتی ہے تو بجلی جہاز کی نوک سے ٹکرا کر اندر جاتی ہے اور طیارے کی دم سے باہر نکلتی ہے، یعنی یہ پورے جہاز سے گزرتی ہے۔ بجلی کی ایک برق سورج کی سطح سے 5 گنا زیادہ گرم ہوتی ہے اور اس کی گرماہٹ طیارے کو خاصا نقصان پہنچا سکتی ہے۔

    تاہم اس وجہ سے طیاروں کو کم ہی حادثات پیش آتے ہیں اور آسمانی بجلی ٹکرانے سے طیارہ گرنے کا آخری واقعہ سنہ 1963 میں پیش آیا تھا۔

    آج کل بنائے جانے والے طیاروں میں آسمانی بجلی سے ٹکراؤ کے خدشے کو خاص طور پر مدنظر رکھا جاتا ہے اور ہر طیارے کو ہر ٹیک آف سے قبل اچھی طرح ٹیسٹ کیا جاتا ہے۔

    مزید پڑھیں: ہوائی جہاز کے بارے میں حیرت انگیز حقائق

    آج کل بنائے گئے طیاروں کی تعمیر کے وقت طیارے کی بیرونی سطح کو ایلومینیئم کی تہہ سے ڈھانپا جاتا ہے۔ یہ تہہ آسمانی بجلی کو گزرنے کا راستہ دے دیتی ہے اور طیارے کے اندر موجود حساس آلات محفوظ رہتے ہیں۔ البتہ طیارے کی نوک کو اس تہہ سے نہیں ڈھانپا جاتا۔

    اس حصے میں دراصل طیارے کی ریڈار ٹیکنالوجی موجود ہوتی ہے جو کسی تہہ سے ڈھانپنے کی صورت میں کام نہیں کرتی۔ چنانچہ نوک کے گرد دھاتی پٹیاں لگا دی جاتی ہیں جو آسمانی بجلی کا رخ موڑ کر اسے ریڈار سے دور رکھتی ہیں۔

    آسمانی بجلی سے ایک اور خطرہ فیول ٹینک کو ہوسکتا ہے جو بجلی کی ایک ہی لہر سے بھڑک کر پھٹ سکتے ہیں چنانچہ ان کے گرد ایلومینیئم کی اضافی موٹی تہہ بنائی جاتی ہے تاکہ یہ جلنے سے محفوظ رہیں۔

    ماہرین کے مطابق طیارے کو آسمانی بجلی سے خطرہ نہیں ہوتا، ایسے وقت میں طیارے کو خطرہ آسمانی بجلی سے پیدا ہونے والے جھٹکوں، تیز ہوا اور طوفان سے ہوتا ہے۔

  • سابقہ دور حکومت میں ناقص پلاننگ سے پی آئی اے کے کروڑوں کے جہاز ناکارہ

    سابقہ دور حکومت میں ناقص پلاننگ سے پی آئی اے کے کروڑوں کے جہاز ناکارہ

    کراچی: سابقہ دورِ حکومت میں ناقص پلاننگ کی وجہ سے پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائن کے کروڑوں روپے کے جہاز نا کارہ ہو گئے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق پی آئی اے کے 8 طیارے 2 سال سے ایئر پورٹ کے مخصوص ایریا میں نا کارہ حالت میں کھڑے ہیں، ان نا کارہ طیاروں میں پی آئی اے کے ایئر بس 310 کے 4 طیارے بھی شامل ہیں۔

    اے آر وائی نیوز کے نمائندے کے مطابق ناکارہ طیاروں میں جمبو 747 ایک، اے ٹی آر کے 2 اور ایک 777 طیارہ بھی شامل ہے۔

    ناکارہ کھڑے طیاروں میں سے کسی کا انجن غائب تو کسی کے پر کٹے ہوئے ہیں، کراچی ایئر پورٹ کے مخصوص حصوں میں کھڑے طیارے پرندوں کی آماج گاہ بن گئے ہیں، گھونسلے بھی بنا ڈالے۔ پی آئی اے کے کروڑوں روپے مالیت کے ناکارہ جہاز اب کوئی اسکریپ میں بھی خریدنے کو تیار نہیں۔

    یہ بھی پڑھیں:  سیاحت میں سرمایہ کاری سے بہت منافع حاصل ہوسکتا ہے: وزیر اعظم

    پرندوں کی آمد کی وجہ سے دوسرے طیاروں کے لیے بھی خطرات لا حق ہو گئے ہیں، سول ایوی ایشن اتھارٹی نے پی آئی اے کو نا کارہ جہاز ہٹانے کے لیے خط لکھ دیا۔

    خیال رہے کہ ان طیاروں کی بڑی تعداد سابق مشیر ہوا بازی کی سفارش پر بھرتی کیے گئے جرمن سی ای او کے دوران ملازمت میں نا کارہ ہوئی، ترجمان پی آئی اے نے بتایا کہ ایئر بس 310 طیاروں کی 2 بار نیلامی بھی کی گئی لیکن صحیح بولی نہ لگ سکی۔

    پی آئی اے کے ترجمان کے مطابق بوئنگ 777 طیارے پر مرمت کا کام شروع کر دیا گیا ہے، آئندہ 2 ہفتوں میں اسے اڑان کے قابل بنا دیا جائے گا۔

  • ہوا بازی کا عالمی دن: فضائی سفر کے دوران یہ احتیاطی تدابیر ضرور اپنائیں

    ہوا بازی کا عالمی دن: فضائی سفر کے دوران یہ احتیاطی تدابیر ضرور اپنائیں

    آج پاکستان سمیت دنیا بھر میں ہوا بازی یعنی سول ایوی ایشن کا عالمی دن منایا جارہا ہے۔ آج سے 2 سال قبل چترال سے اسلام آباد آنے والا پی آئی اے کا طیارہ حویلیاں کے قریب حادثے کا شکار ہوگیا تھا جس میں معروف نعت خواں جنید جمشید سمیت 47 افراد شہید ہوگئے تھے۔

    پاکستان سمیت دنیا بھر میں ہر سال کئی جہازوں کو حادثے پیش آتے ہیں۔ ان میں زیادہ تر حادثے معمولی نوعیت کے ہوتے ہیں اور ان میں مسافر اپنی جانیں بچانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں جبکہ کچھ حادثوں میں طیارے زمین پر گر کر مکمل تباہ ہوجاتے ہیں۔

    فضا میں ہونے اور زمین پر گرنے کے سبب طیارہ حادثہ کسی ٹریفک حادثے سے بالکل مختلف ہوتا ہے اور اس میں بچنے کے امکانات بھی بے حد کم ہوتے ہیں۔

    مزید پڑھیں: ہوائی جہاز کے بارے میں 8 حیرت انگیز حقائق

    البتہ ہوا بازی کے ماہرین کا کہنا ہے کہ جہاز میں کوئی ہنگامی صورتحال پیش آنے کی صورت میں کچھ حفاظتی اقدامات اپنا کر اپنی زندگی بچانے کا امکان پیدا کیا جاسکتا ہے۔

    آئیں آپ بھی جانیں کہ وہ حفاظتی اقدامات کیا ہیں۔


    کیا طیارے میں کوئی محفوظ سیٹ ہے؟

    لندن کی گرین وچ یونیورسٹی نے سنہ 2011 میں ایک ’پانچ قطاروں کے اصول‘ کا نظریہ پیش کیا۔

    اس نظریے کے مطابق اگر آپ ایمرجنسی ایگزٹ کے نزدیک 5 قطاروں میں موجود کسی سیٹ پر بیٹھے ہیں تو کسی حادثے کی صورت میں آپ کے بچنے کا امکان زیادہ ہو سکتا ہے۔

    تاہم امریکی ایوی ایشن کے ماہرین نے اس کو یکسر مسترد کردیا۔

    امریکا کے وفاقی ہوا بازی کے ادارے سے تعلق رکھنے والے ان ماہرین کا کہنا ہے کہ جہاز میں کوئی بھی سیٹ محفوظ نہیں کہی جاسکتی۔ ’کسی حادثے کی صورت میں تمام مسافروں اور عملے کو یکساں خطرات لاحق ہوتے ہیں‘۔

    ان کا کہنا ہے کہ بچنے کا انحصار اس بات پر ہے کہ جہاز کو کس قسم کا حادثہ پیش آیا ہے۔ مثال کے طور پر اگر ایمرجنسی ایگزٹ کے قریب آگ بھڑک اٹھی ہے تو ظاہر ہے اس سے سب سے زیادہ خطرے میں وہی افراد ہوں گے جو اس ایگزٹ کے نزدیک بیٹھے ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ حادثے کی صورت میں جہاز کا ہر حصہ مختلف انداز سے متاثر ہوتا ہے لہٰذا یہ کہنا بالکل ناممکن ہے کہ جہاز کی کوئی سیٹ بالکل محفوظ ہے۔


    حفاظتی اقدامات غور سے سنیں

    جہاز کے اڑان بھرنے سے قبل کیبن کریو یا ویڈیو کے ذریعہ بتائی جانے والی حفاظتی اقدامات اور تراکیب یقیناً بوریت کا باعث بنتی ہیں، لیکن اگر آپ نے انہیں غور سے سنا ہو اور یاد رکھا ہو تو کسی ہنگامی صورتحال میں یہی آپ کے لیے کار آمد ثابت ہوتی ہیں۔


    سیفٹی کارڈ کو پڑھیں

    فضائی سفر کے دوران آپ کی آگے کی سیٹ کی پشت میں جیب میں ایک کارڈ رکھا ہے۔ اسے کھول کر پڑھیں۔

    یہ آپ کو بتاتا ہے کہ ہنگامی صورتحال میں کیا کرنا ہے، اور جہاز میں موجود آلات و سہولیات کیسے آپ کی جان بچا سکتے ہیں۔


    مضبوطی سے بیٹھیں

    بعض اوقات جہاز کو لگنے والا معمولی سا جھٹکا بھی آپ کے لیے خطرناک ثابت ہوسکتا ہے اگر آپ آرام دہ حالت میں بیٹھے ہوں۔

    آپ آگے کی سیٹ سے ٹکرا کر زخمی ہوسکتے ہیں یا آپ کے سامنے رکھا سامان آپ کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔

    آپ کو علم ہونا چاہیئے کہ ہنگامی صورتحال میں آپ کے پاس صرف چند سیکنڈز ہوتے ہیں جن میں آپ کو خود کو ہر ممکن حد تک محفوظ پوزیشن پر لانا ہوتا ہے۔ اس کا علم آپ کو دیے گئے حفاظتی کارڈ میں درج ہوتا ہے۔ بہتر ہے کہ اسے پہلے سے پڑھ اور سمجھ لیں۔


    ایمرجنسی ایگزٹ دیکھیں

    جہاز میں داخل ہو کر سب سے پہلے ایمرجنسی راستوں کو دیکھیں اور انہیں ذہن نشین کرلیں۔

    ہنگامی صورتحال میں ہاتھ پاؤں پھول جاتے ہیں اور دماغ کام کرنا چھوڑ دیتا ہے جس کی وجہ سے بعض اوقات آپ ایمرجنسی گیٹ کے قریب ہونے کے باوجود اسے نہیں دیکھ سکتے۔


    انتظار مت کریں

    کیا آپ جانتے ہیں جہاز کے کسی حادثے کا شکار ہونے کی صورت میں آپ کے پاس جہاز سے نکلنے کے لیے صرف 90 سیکنڈز ہوتے ہیں؟ اگر آپ کی زندگی لکھی ہوگی تو آپ انہی 90 سیکنڈز میں اپنی جان بچا سکتے ہیں وگرنہ نہیں۔

    ایسے موقع پر اگلے اٹھائے جانے والے قدم یا دیگر افراد کا انتظار کرنا جان لیوا ثابت ہوسکتا ہے۔


    لینڈنگ اور ٹیک آف کے دوران الرٹ رہیں

    ایک تحقیق کے مطابق جہاز کے اکثر حادثات لینڈنگ (زمین پر اترنے) اور ٹیک آف (زمین سے آسمان کی طرف بلند ہونے) کے دوران پیش آتے ہیں۔ ان دونوں مواقعوں پر سخت الرٹ رہیں۔ ذہن بھٹکانے والی چیزوں جیسے موبائل، کتاب وغیرہ کو بیگ میں رکھ دیں۔

    اگر آپ نے سارا سفر سوتے ہوئے گزارا ہے تب بھی ضروری ہے کہ لینڈنگ سے پہلے جاگ جائیں اور دماغ کو حاضر رکھیں۔

    اسی طرح جہاز کے سفر سے پہلے الکوحل کے استعمال سے بھی گریز کیا جائے۔ یہ آپ کی صورتحال کو سمجھنے اور فوری فیصلہ کرنے کی صلاحیت کو متاثر کرے گی۔

    مزید پڑھیں: لینڈنگ کے وقت کھڑکی کا شیڈ کھلا رکھنے کی ہدایت کیوں کی جاتی ہے؟


    موزوں لباس پہنیں

    جہاز میں سفر کے لیے آرام دہ اور آسان کپڑے منتخب کریں۔ ہائی ہیلز سے بالکل اجتناب کریں۔ گھیر دار اور اٹکنے والے کپڑے بھی نہ پہنے جائیں۔

    ایسے آرام دہ کپڑے پہنیں جو ہنگامی حالات میں بھاگنے کے دوران آپ کے لیے رکاوٹ نہ پیدا کریں۔


    جسمانی حالت

    ہوا بازی کے ماہرین کا کہنا ہے کہ ایسے افراد جو فربہ ہیں، یا سستی سے حرکت کرتے ہیں وہ ہنگامی صورتحال میں نہ صرف اپنے لیے بلکہ دوسروں کے لیے بھی مشکل کا باعث بن سکتے ہیں۔


    خراب ریکارڈ والی ایئر لائنز سے گریز

    بعض ایئر لائنز کا سیفٹی ریکارڈ بہت اچھا ہوتا ہے۔ گو کہ ناگہانی حادثہ تو کبھی بھی کسی کو بھی پیش آسکتا ہے، تاہم کچھ ایئر لائنز اپنی جانب سے مسافروں کو محفوظ سفر فراہم کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتیں۔

    فضائی سفر کے لیے ہمیشہ ایسی ہی ایئر لائن کا انتخاب کیا جائے جن کا سیفٹی ریکارڈ اچھا ہو۔

    اس کے برعکس ایسی ایئر لائنز جن کے طیاروں میں اکثر خرابی کی اطلاعات سامنے آتی ہوں، کوشش کی جائے کہ ان میں سفر سے گریز کریں۔


     

  • فضائی سفر کے دوران جسم میں کیا تبدیلیاں ہوتی ہیں؟

    فضائی سفر کے دوران جسم میں کیا تبدیلیاں ہوتی ہیں؟

    فضائی سفر ہماری زندگیوں میں ایک معمول بن چکا ہے تاہم فضائی سفر کے دوران ہماری جسمانی کیفیات کچھ تبدیل ہوجاتی ہیں جو عام یا معمولی ہرگز نہیں ہوتیں۔

    زمینی سفر کے مقابلے میں فضائی سفر کے دوران پیش آنے والی جسمانی تبدیلیاں کچھ مختلف ہوتی ہیں۔ آئیں ان کیفیات اور ان کے پیچھے چھپی وجوہات کے بارے میں جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔

    مزید پڑھیں: ہوائی جہاز کے بارے میں حیرت انگیز حقائق


    جسم میں پانی کی کمی

    فضائی سفر کے دوران ہمارا جسم ڈی ہائیڈریشن کا شکار ہوجاتا ہے۔ ماہرین کے مطابق 3 گھنٹے کی فلائٹ کے دوران ہمارے جسم سے ڈیڑھ لیٹر پانی خارج ہوجاتا ہے۔


    جسم کی سوجن

    فضائی سفر کے دوران ہمارا جسم سوج جاتا ہے۔ ہوا کے دباؤ کی وجہ سے ہمارے جسم کی گیس میں اضافہ ہوجاتا ہے جس سے جسم سوجن اور معدے کے درد میں مبتلا ہوجاتا ہے۔


    آکسیجن کی کمی

    ہوائی جہاز کے کیبن میں ہوا کا دباؤ عام دباؤ سے 75 فیصد بڑھ جاتا ہے جس کی وجہ سے آپ کو سر درد اور آکسیجن کی کمی کا سامنا ہوسکتا ہے۔


    جراثیموں کا حملہ

    ہوائی جہاز میں کھلی فضا کا کوئی گزر نہیں ہوتا اور کئی گھنٹے تک ایک ہی آکسیجن طیارے میں گردش کرتی رہتی ہے یوں یہ جراثیموں کی افزائش کے لیے نہایت موزوں بن جاتی ہے۔

    فضائی سفر کے دوران جراثیموں کی وجہ سے آپ کے نزلہ زکام میں مبتلا ہونے کا امکان 100 فیصد بڑھ جاتا ہے۔


    حس ذائقہ اور سماعت متاثر

    ہوائی جہاز کے سفر کے دوران آپ کے ذائقہ محسوس کرنے والے خلیات یعنی ٹیسٹ بڈز سن ہوجاتے ہیں جس سے آپ کسی بھی کھانے کا ذائقہ درست طور پر محسوس نہیں کرپاتے۔

    علاوہ ازیں کئی گھنٹے طیارے اور ہوا کا شور سننے سے جزوی طور پر آپ کی سماعت بھی متاثر ہوتی ہے۔


    تابکار شعاعیں

    فضائی سفر کے دوران آپ تابکار شعاعوں کی زد میں بھی ہوتے ہیں۔ 7 گھنٹے کی ایک فلائٹ میں ایکس رے جتنی تابکار شعاعیں آپ کے جسم کو چھوتی ہیں۔


    ٹانگیں سن ہوجانا

    فضائی سفر کے دوران مستقل بیٹھے رہنے سے خون کی گردش متاثر ہوتی ہے جس سے ٹانگیں سن اور تکلیف کا شکار ہوجاتی ہیں۔

    اس سے نجات کا حل یہ ہے کہ موقع ملنے پر ایک جگہ سے دوسری جگہ حرکت کریں اور مائع اشیا کا زیادہ استعمال کریں۔


    فضائی سفر کے دوران جسم میں پیدا ہونے والی تمام تبدیلیاں اور تکالیف عارضی اور کچھ وقت کے لیے ہوتی ہیں لہٰذا تشویش میں مبتلا ہونے کی ضرورت نہیں۔

    سفر کے بعد آرام کرنے اور کچھ وقت گزرنے کے بعد جسم خودبخود معمول کی حالت پر آجاتا ہے۔

    مزید پڑھیں: فضائی سفر کے دوران یہ احتیاطی تدابیر اپنائیں


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔