Tag: ہوائی سفر

  • ہوائی سفر کے بعد  گرم پانی سے نہانا کتنا نقصاندہ ہے؟

    ہوائی سفر کے بعد گرم پانی سے نہانا کتنا نقصاندہ ہے؟

    اکثر مسافر حضرات طویل ہوائی سفر کے بعد تھکن اتارنے کے لیے گرم پانی سے نہاتے ہیں جو کہ ماہرین کے نزدیک نقصاندہ ہے۔

    مسافر چاہے جہاز میں ہوں، ویٹنگ لاؤنج میں یا پھر ہوٹل میں یہ سارے پبلک مقامات میں شمار ہوتے، جہاں ان کے علاوہ بھی کئی لوگ آتے جاتے ہیں۔ اس لیے کچھ لوگ جراثیم سے نجات حاصل کرنے کے لیے بھی ہوائی سفر کے بعد کافی دیر تک گرم پانی سے نہاتے ہیں۔

    ماہرین صحت ایسا کرنے سے سے منع کرتے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ گرم پانی کے شاور سے جراثیم تو دور ہوجاتے ہیں مگر یہ جلد کو انتہائی ضروری تحفظ سے بھی محروم کر دیتا ہے۔ جیسے اس سے جلد کی قدرتی چکنائی کم ہونے لگتی ہے۔

    طیارے پر خدمات انجام دینے والے خواتین و حضرات ملازمت کے دوران ایک ماہ میں تقریباً 60,000 میل کا سفر طے کرتے ہیں، لیکن یہ لوگ ٹھنڈے شاور کو ترجیح دیتے ہیں حالانکہ وہ ان تمام جراثیموں سے سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔

    اس حوالے سے سفری ماہر کا کہنا ہے کہ گرم پانی آپ کی جلد سے قدرتی تیل اور صحت مند بیکٹیریا کو صاف کردیتا ہے، اس طرح ایگزیما اور جلد کے مہاسوں جیسے مسائل بڑھنے لگتے ہیں۔

    اگر گرم پانے سے نہاتے ہوئے صابن کا استعمال کیا جائے تو یہ جلد کی حفاظت میں معاون کردار ادا کرنے والے مائیکرو بایوم کو صاف کردیتا ہے جبکہ مائیکرو بایوم جسم کی مجموعی صحت کے لیے بھی انتہائی اہم ہے۔

    بھاپ سے بھرے گرم شاور کے بجائے، ماہرین صحت لوگوں کو 60 ڈگری فارن ہائیٹ سے کم درجہ حرارت کے ٹھنڈے پانی سے شاور لینے کا مشورہ دیتے ہیں۔

    اگر کوئی مسافر یا شخص ٹھنڈے پانی سے نہاتا ہے تو یہ مدافعتی صحت کو مضبوط بنانے، خون کی گردش کو بہتر بنانے، ڈپریشن کی علامات سے لڑنے، دردکو کم کرنے اور صحت مند وزن کو برقرار رکھنے میں مددگار ثابت ہوسکتا ہے۔

  • دنیا کی انوکھی پرواز جس کا دورانیہ صرف 2 منٹ ہے

    دنیا کی انوکھی پرواز جس کا دورانیہ صرف 2 منٹ ہے

    ہوائی سفر یوں تو طویل فاصلے کے لیے کیا جاتا ہے لیکن دنیا میں ایک پرواز ایسی بھی ہے جس کا دورانیہ صرف 2 منٹ ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق اسکاٹ لینڈ کے 2 جزائر کے درمیان پرواز کا دورانیہ اتنا کم ہے کہ اکثر افراد کو طیارے پر سوار ہونے میں اس سے زیادہ وقت لگ جاتا ہے۔

    لوگن ایئر کی پرواز کوئی پرسکون تجربہ نہیں کیونکہ یہ ایک چھوٹا طیارہ ہے جس کے کیبن میں 8 مسافر ہی سفر کرسکتے ہیں۔

    اس پرواز کی خاص بات سفر کا دورانیہ ہے۔

    اسکاٹ لینڈ کے شمالی حصے میں واقع جزیرے ویسٹرے اور پاپا ویسٹرے درمیان چلنے والی پرواز کو گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈز نے دنیا کی مختصر ترین شیڈول پرواز قرار دے رکھا ہے۔

    اس کا سفر محض 1.7 میل کا ہوتا ہے اور ہوا کا رخ موزوں ہو اور سامان کم ہو تو یہ فاصلہ محض 53 سیکنڈز میں طے ہوسکتا ہے، مگر زیادہ تر 2 منٹ کا وقت درکار ہوتا ہے۔

    یہ پرواز دن میں 2 بار اڑان بھرتی ہے اور موسم گرما میں سیاح کافی تعداد میں اس میں سفر کرتے ہیں تاکہ دنیا کی مختصر ترین پرواز کے ساتھ پاپا ویسٹرے کی سیر بھی کرسکیں۔

    یہ پرواز بریٹین نورمین بی این 2 آئی لینڈر طیارے پر ہوتی ہے جس میں مسافروں کے لیے 2، 2 نشستوں کی 4 قطاریں ہیں۔

    مگر مسافر کو اپنی مرضی سے نشست پر بیٹھنے کی اجازت نہیں ہوتی بلکہ عام طور پر طیارے کے ارگرد وزن کے مطابق ان کو بٹھایا جاتا ہے۔

    اس سفر کا اصل آغاز کریکوال سے ہوتا ہے جہاں سے وہ 15 منٹ میں ویسٹرے پہنچتی ہے اور پھر وہاں سے پاپا ویسٹرے تک جاتی ہے۔

  • کیا دنیا کے کسی بھی کونے تک صرف ایک گھنٹے میں پہنچنا ممکن ہے؟

    کیا دنیا کے کسی بھی کونے تک صرف ایک گھنٹے میں پہنچنا ممکن ہے؟

    زمین کے کسی بھی دور دراز کے مقام پر ایک گھنٹے میں پہنچنا ناممکن سی بات لگتی ہے، تاہم اب ایک اسپیس کمپنی اسے ممکن بنانے کی کوششوں میں ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق ایک کمپنی اپنے طیاروں میں لوگوں کو زمین پر کسی بھی مقام پر ایک گھنٹے میں پہنچانے کی خواہشمند ہے۔

    اس طیارے کو خلائی طیارے کی طرز پر بنانے پر غور کیا جارہا ہے، ایک خلائی طیارہ (اسپیس پلین) کسی عام طیارے جیسا ہی ہوتا ہے بس اس کا درمیانی حصہ مختلف ہوتا ہے۔

    ایک مخصوص بلندی یعنی زمین کے ماحول اور بالائی خلا کی سرحد پر پائلٹ راکٹ بوسٹرز کو ہٹ کر کے طیارے کو 9 ہزار میل فی گھنٹہ کی رفتار یا آواز کی رفتار سے 12 گنا تیزی سے اڑاتا ہے۔

    یہ طیارہ اس رفتار سے 15 منٹ تک سفر کرتا ہے اور پھر زمین کے ماحول میں تیر کر خود کو سست کرتا ہے اور کسی ایئرپورٹ پر لینڈ کرجاتا ہے۔ وینس ایرو اسپیس کارپوریشن اسی تکنیک کو استعمال کرتے ہوئے ایسے ہائپر سونک اسپیس طیارے کو تیار کرنا چاہتی ہے جو لوگوں کو ایک گھنٹے میں ایک سے دوسری جگہ تک پہنچا سکے۔

    اس کمپنی کی بنیاد ورجین آربٹ ایل ایل سی کے 2 سابق ملازمین نے رکھی تھی جن میں سے ایک سارہ ڈگلبی اور ان کے شوہر اینڈریو شامل ہیں۔

    اس جوڑے کو اس تیز ترین سفر کا خیال اس وقت آیا جب سارہ کو اپنی دادی کی 95 ویں سالگرہ میں شرکت کا موقع نہ مل سکا کیونکہ جاپان سے لاس اینجلس کی پرواز بہت طویل ہے، تو انہوں نے جون 2020 میں ورجین سے اپنی ملازمتوں کو چھوڑا اور اپنا خلائی طیارہ تیار کرنے کا فیصلہ کیا۔

    اب اس کمپنی میں 15 افراد کام کررہے ہیں جن میں سے بیشتر خلائی صنعت سے ہی تعلق رکھتے ہیں جبکہ انہیں مختلف کمپنیوں سے سرمایہ بھی ملا ہے۔ اینڈریو ڈگلبی نے اعتراف کیا کہ ہر چند دہائیوں میں انسانوں کی جانب سے اس طرح کی کوشش کی جاتی ہے، مگر اس میں کتنی کامیابی ملے گی، اس کا علم نہیں۔

    اس جوڑے کے مطابق ان کا اسپیس پلین ماضی کی کوششوں سے مختلف ہے کیونکہ اس میں زیادہ مؤثر انجن موجود ہے جس سے اسے وہ اضافی بوجھ سنبھالنے میں مدد ملے گی جو ونگز، لینڈنگ گیئر اور جیٹ انجنوں سے کسی طیارے پر لینڈنگ اور ٹیک آف کے دوران پڑتا ہے۔

    ناسا کے ایک سابق خلاباز جیک فشر نے اس کمپنی کے منصوبے پر نظر ثانی کے بعد بتایا کہ ابتدائی تیز رفتار آپ کو نشست پر پیچھے دھکیل دے گی مگر جلد ہی یہ ختم ہوجائے گا کیونکہ آپ اتنی تیزی سے سفر کریں گے کہ کچھ محسوس ہی نہیں ہوگا۔

    مگر یہ منصوبہ جلد حقیقی شکل اختیار نہیں کرسکتا کیونکہ طیارے کی ساخت پر ابھی کام جاری ہے اور کمپنی کی جانب سے 3 اسکیل ماڈلز کی آزمائش آئندہ چند ماہ میں کی جائے گی۔

    اس کمپنی کے خیال میں پراجیکٹ کو مکمل ہونے میں ایک دہائی کا عرصہ لگ سکتا ہے۔

  • عالمی ہوائی ٹریفک کب تک معمول پر آ سکے گا؟ انٹرنیشنل ادارے کا انکشاف

    عالمی ہوائی ٹریفک کب تک معمول پر آ سکے گا؟ انٹرنیشنل ادارے کا انکشاف

    کینیڈا: انٹرنیشنل ایئر ٹرانسپورٹ ایسوسی ایشن (IATA) نے انکشاف کیا ہے کہ عالمی ہوائی ٹریفک کی بحالی توقع سے کم رہی ہے، کرونا بحران کے باعث عالمی ہوائی سفر کی بحالی میں توقع کے برعکس زیادہ وقت لگ سکتا ہے۔

    غیر ملکی میڈیا کے مطابق بین الاقوامی ادارے ایاٹا نے کہا ہے کہ عالمی ہوائی ٹریفک 2024 سے قبل کرونا وائرس کی وبا سے پہلی والی سطح پر نہیں آ پائے گا، خیال رہے کہ اس سے قبل ایاٹا کی جانب سے اس سلسلے میں 2023 کی پیش گوئی کی تھی۔

    ایاٹا نے کہا ہے کہ 2019 کے مقابلے میں رواں سال مسافروں کی تعداد میں 55 فی صد کی کمی متوقع ہے، تنظیم نے اس بات پر بھی زور دیا کہ اگرچہ 2021 میں مسافروں کی تعداد 62 فی صد تک بڑھ جائے گی تاہم پھر بھی یہ 2019 کے مقابلے میں تقریباً ایک تہائی کم ہوگی۔

    انٹرنیشنل ایئر ٹرانسپورٹ ایسوسی ایشن نے یہ ‘مایوس کن’ پیش گوئی اس تناظر میں کی ہے کہ امریکا اور ترقی پذیر ممالک میں کرونا وائرس کی روک تھام کی رفتار بہت سست ہے۔

    یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ اگرچہ امریکا سے باہر ترقی یافتہ ممالک نے کرونا وائرس کی وبا پر قابو پالیا ہے لیکن اس کی دوبارہ آمد اور پھیلاؤ کا خطرہ موجود ہے، دوسرا امر یہ ہے کہ اہم ابھرتی معیشتوں کا امریکا کے ساتھ مل کر جو عالمی ایئر ٹریول مارکیٹ ہے وہ 40 فی صد ہے، دیگر عوامل میں یہ بھی شامل ہے کہ کرونا وائرس لاحق ہونے کے خطرے کے پیش نظر کاپوریٹ ٹریول کم ہو چکا ہے، صارفین کا اعتماد بھی کم زور ہو چکا ہے کہ اگر کرونا سے متاثر ہوئے تو نوکریاں جا سکتی ہیں۔

    خیال رہے کہ جون میں انٹرنیشنل ٹریفک 96.8 فی صد تک سکڑ گیا تھا، ایاٹا کا کہنا ہے کہ کرونا وائرس کے خلاف کام یاب ویکسین کی تیاری ہی عالمی ایئر ٹریفک کی جلد بحالی میں اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔