Tag: ہٹلر

  • جوزف گوئبلز: ہٹلر کا وہ ساتھی جو جھوٹ اور افواہیں پھیلانے کا ماہر تھا

    جوزف گوئبلز: ہٹلر کا وہ ساتھی جو جھوٹ اور افواہیں پھیلانے کا ماہر تھا

    جھوٹ کو سچ اور سچ کو جھوٹ میں بدل دینے میں گوئبلز کو گویا ملکہ حاصل تھا وہ جرمنی میں نازی دور میں ہٹلر کا ‘وزیر برائے پروپیگنڈا’ مشہور ہوا۔ گوئبلز نے بھی ہٹلر کی موت کے اگلے روز اپنی زندگی ختم کر لی تھی۔

    یہ یکم مئی 1945ء کی ایک شام تھی۔ ایک ڈاکٹر نے گوئبلز کے چھے بچّوں، ہیلگا، ہلڈا، ہیلمٹ، ہولڈے، ہیڈا اور ہیڈے کو مارفین دی تاکہ انھیں نیند آجائے۔ ان بچوں کی عمریں چار سے 12 سال کے درمیان تھیں۔ بعد میں گوئبلز کی بیوی نے ہائیڈروجن سائینائڈ کے قطرے ان بچّوں کے حلق میں اتار دیے اور وہ سب ابدی نیند سو گئے۔ گوئبلز ایک بنکر میں‌ اپنی بیوی میگڈا کا منتظر تھا۔ یہ کام انجام دے کر وہ بنکر پہنچی اور رات کو ساڑھے آٹھ بجے اس جوڑے سائینائڈ کا کیپسول چبا لیا اور اپنے انجام کو پہنچ گئے۔

    ہٹلر کی کام یابیوں میں گوئبلز کے پروپیگنڈے کا بڑا دخل تھا۔ 30 اپریل کو ہٹلر کی موت کے بعد اس کے وزیر گوئبلز کی بیوی میگڈا گوئبلز نے اپنے پہلے شوہر سے پیدا ہونے والے اپنے بیٹے کو ایک خط ارسال کیا جس میں بتایا گیا تھا کہ وہ اپنے موجودہ شوہر یعنی گوئبلز کے ساتھ اپنی زندگی کا خاتمہ کرنے جارہی ہے جس سے قبل وہ اپنے بچّوں کو بھی زہر دے گی۔

    سیاست اور جمہوریت کی تاریخ‌ میں جوزف گوئبلز بہت بدنام ہے۔ وہ ایک ایسا بااثر جرمن وزیر تھا جس نے نازی دور میں‌ جرمنی کے عوام کو ہٹلر کی حکومت اور اس کی پالیسیوں کی حمایت کرنے پر قائل کیا۔ گوئبلز نے کئی جھوٹ گھڑے اور مخصوص فضا بنانے کے لیے بے بنیاد باتیں‌ مشہور کیں۔ وہ باتیں جن کی کوئی حقیقت نہ تھی۔ وہ ہٹلر کو جرمن قوم کا نجات دہندہ ثابت کرنے کے لیے فرضی واقعات اور ایسی باتیں مشہور کرتا تھا جو لوگوں کے ذہن پر ہٹلر اور نازی حکومت کا اچھا اثر چھوڑیں اور حکومت کے من چاہے، ظالمانہ اقدامات پر اندرونِ ملک بے چینی اور اضطراب جنم نہ لے۔ جوزف گوئبلز نے عوام میں یہودیوں کے خلاف نفرت کو بڑھایا جب کہ جرمنوں میں ہٹلر کی قیادت پر فخر اور بحیثیت قوم ان میں دوسری اقوام پر برتری کا احساس اجاگر کیا۔

    جوزف گوئبلز 29 اکتوبر 1897 کو فریڈرک گوئبلز کے گھر پیدا ہوا۔ اس کا باپ کیتھولک عقیدے کا حامل تھا اور ایک فیکٹری میں بطور کلرک کام کرتا تھا۔ گوئبلز کی ماں کا نام کیتھرینا ماریا اوڈن تھا۔ گوئبلز اس جوڑے کی پانچ اولادوں میں‌ سے ایک تھا۔ بچپن میں پولیو وائرس سے متأثر ہونے کے بعد گوئبلز لنگڑا کر چلنے پر مجبور تھا۔ ابتدائی تعلیمی مراحل طے کرنے کے بعد گوئبلز نے 1920 میں ہائیڈلبرگ یونیورسٹی سے جرمن ادب کی تعلیم مکمل کی۔ وہ قوم پرست نوجوان تھا۔ زمانۂ طالب علمی میں سوشلسٹ اور کمیونسٹ فکر نے گوئبلز کو جکڑا تو جوانی میں وہ اینٹی بورژوا ہوگیا، لیکن نازی پارٹی میں شمولیت اختیار کرنے کے بعد اس کے اندر قومی تفاخر اور جرمن ہونے کے ناتے احساسِ برتری پیدا ہوگیا۔ کہا جاتا ہے کہ اس سے قبل وہ اپنے یہودی اساتذہ کی بڑی قدر کرتا تھا اور اس کے دل میں‌ کسی کے لیے نفرت نہیں‌ تھی۔ پہلی عالمی جنگ چھڑی تو گوئبلز کو فوج میں بھرتی ہونے سے بچ گیا کیوں کہ وہ پولیو کا شکار تھا۔ 1931ء میں اس کی شادی میگڈا رِٹشل نامی ایک امیر گھرانے کی لڑکی سے ہوگئی اور وہ چھے بچّوں کا باپ بنا۔

    نازی پارٹی کا رکن بن کر جوزف گوئبلز نے اپنی صلاحیتوں اور نازی کٹّر پن کی وجہ سے اعلیٰ‌ قیادت کی توجہ حاصل کر لی۔ وہ ایک اعلیٰ پائے کا مقرر تھا جس نے پارٹی میں اس کی ترقی کا راستہ بنایا۔ گوئبلز کو کئی اہم ذمہ داریاں سونپی گئیں اور وہ ان سے بخوبی نمٹتا رہا۔ اس کی مستقل مزاجی، لگن اور صلاحیتوں نے اسے ہٹلر کے قریب کر دیا۔ نازی حکم راں گوئبلز کی تحریر کردہ تقاریر عوام کے سامنے پڑھنے لگا اور اس کی مقبولیت بڑھتی چلی گئی۔ سچ جھوٹ، صحیح اور غلط سے ہٹلر کو کچھ غرض نہ تھی بلکہ وہ پراپیگنڈا پر گوئبلز کی گرفت اور فن تقریر نویسی میں اس کی مہارت سے بہت متاثر تھا۔ یہی وجہ تھی کہ 1926 میں ہٹلر نے گوئبلز کو برلن میں نازی پارٹی کا ضلعی راہ نما مقرر کر دیا۔ جب نازی برسرِ اقتدار آئے تو ہٹلر نے ایک وزارت قائم کی جسے ’چیمبر آف کلچر‘ کی شکل میں عامل بناتے ہوئے گوئبلز کو اس کا سربراہ بنا دیا۔ یہ وزارت پریس اور ادب و فنون کے شعبہ جات کو مکمل طرح‌ سے کنٹرول کرتی رہی اور اسی کے سہارے عوام کی ذہن سازی کی جانے لگی۔ گوئبلز کی کوششوں سے ملک میں نازی ازم کو فروغ اور پذیرائی نصیب ہوئی جب کہ یہودیوں‌ سے نفرت زور پکڑ گئی۔ گوئبلز نے ریڈیو اور فلم کے ذریعے ہٹلر کو نجات دہندہ بنا کر پیش کیا اور اپنی مخالف جماعتوں اور گروہوں کے خلاف اور ہٹلر کے حق میں رائے عامّہ ہموار کی۔

    یہ گوئبلز ہی تھا جس نے 1932ء میں ہٹلر کی صدارتی انتخابی مہم جدید انداز سے چلائی۔ لیکن ہٹلر انتخابات ہار گیا۔ اس کے باوجود جرمن پارلیمان میں نازی پارٹی کی نمائندگی میں اضافہ ہوا اور وہ سب سے بڑی جماعت بن گئی۔ جرمنی میں مخلوط حکومت کے قیام کے بعد ہٹلر کو چانسلر مقرر کیا گیا اور 35 سال کی عمر میں گوئبلز کابینہ میں سب سے کم عمر وزیر کے طور پر شامل تھا۔

    1937ء اور 1938ء میں گوئبلز کا اثر و رسوخ مختلف وجوہات کی بنا پر کچھ کم ہو گیا تھا۔ لیکن وہ آخری وقت تک ہٹلر کے ساتھ رہا۔ ہٹلر اور اس کا دستِ راست سمجھا جانے والا گوئبلز اپنی زندگی کا خاتمہ کرکے اس دنیا کے کئی راز ہمیشہ کے لیے منوں‌ مٹی تلے اپنے ساتھ لے گئے۔

  • نیتن یاہو کا انجام بھی ہٹلر جیسا ہوگا: ترکی

    نیتن یاہو کا انجام بھی ہٹلر جیسا ہوگا: ترکی

    انقرہ: اسرائیل اور ترکی کے درمیان لفظی جنگ مزید تیز ہو گئی ہے، کشیدگی بڑھنے پر ترکی نے نیتن یاہو کا ہٹلر سے موازنہ کر دیا ہے۔

    غیر ملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق ترک وزارت خارجہ نے اسرائیل کے تبصرے کے بعد کہا ہے کہ ’’نسل کشی نیتن یاہو‘‘ کا انجام ایڈولف ہٹلر کی طرح ہی ہوگا۔

    سرکاری انادولو ایجنسی کے مطابق ترک وزارت خارجہ نے ایک بیان جاری کیا جس میں کہا گیا ہے کہ ’’جس طرح نسل کشی کرنے والے ہٹلر کا خاتمہ ہوا تھا، اسی طرح نسل کشی کرنے والے نیتن یاہو کا بھی خاتمہ ہوگا۔‘‘

    تازہ ترین کشیدگی اس وقت پیدا ہوئی ہے، جب رجب طیب اردوان نے کہا کہ ترکیہ فلسطینیوں کی مدد کے لیے اسرائیل میں داخل ہو سکتا ہے۔ اس پر اسرائیلی وزیر خارجہ کاٹز نے بیان جاری کیا کہ ’’اردوان صدام حسین کے نقش قدم پر چل رہے ہیں، بس یہ یاد کریں کہ وہاں کیا ہوا اور کیسے ختم ہوا۔‘‘

    ترک صدر نے اسرائیل پر حملے کی دھمکی دے دی

    اسرائیلی ٹینکوں کی جنوبی خان یونس میں بھی پیش قدمی، 36 فلسطینی شہید، 120 زخمی

    اس پر وزارت خارجہ ترکیہ نے بیان میں کہا کہ جس طرح نسل کشی کرنے والے نازیوں کو جواب دہ ٹھہرایا گیا تھا، اسی طرح فلسطینیوں کو تباہ کرنے کی کوشش کرنے والوں کا بھی احتساب کیا جائے گا۔ انسانیت فلسطینیوں کے ساتھ کھڑی رہے گی،تم فلسطینیوں کو تباہ نہیں کر سکو گے۔

  • اسرائیل غزہ میں ہٹلر کا کردار ادا کر رہا ہے، برازیلین صدر

    اسرائیل غزہ میں ہٹلر کا کردار ادا کر رہا ہے، برازیلین صدر

    برازیلین صدر کا کہنا ہے کہ اسرائیل غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی کرکے ہٹلر کا کردار ادا کر رہا ہے، غزہ میں نسل کشی کو برازیل کے صدر نے ہولوکاسٹ سے تشبیہ دے دی۔

    بین الاقوامی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق برازیل کے صدر لولا ڈی سلوا کی جانب سے یہ بیان ایتھوپیا میں افریقی یونین کانفرنس سے خطاب کے دوران دیا گیا۔

    برازیل کے صدر لولا ڈی سلوا کا کہنا تھا کہ تاریخ غزہ کی اس وحشیانہ جنگ کی مثال نہیں پیش کر سکتی، جو کچھ غزہ میں ہو رہا ہے وہ ماضی میں کبھی بھی نہیں ہوا۔

    انہوں نے کہا کہ اس وقت غزہ میں جو کچھ ہو رہاہے یہ نسل کشی ہے۔ اسرائیل غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی کر کے ہٹلر کا کردار ادا کر رہا ہے۔ غزہ جنگ ویسی ہی ہے جیسا ہٹلر نے یہودیوں کے ساتھ کیا تھا۔

    برازیلین صدر کا مزید کہنا تھا کہ یہ انتہائی جدید اسلحے سے لیس فوج کی غزہ میں عورتوں اور بچوں کے خلاف جنگ ہے۔جو کچھ اسرائیلی فوج کی جانب سے کیا جارہا ہے یہ سپاہیوں کی سپاہیوں کے خلاف جنگ نہیں۔

    واضح رہے کہ غزہ میں اسرائیلی فوج کی جانب سے بربریت کا سلسلہ جاری ہے، تازہ ترین حملوں میں مزید 127 فلسطینی شہید ہوگئے۔

    رپورٹ کے مطابق فلسطینی وزارت صحت کا کہنا ہے کہ اسرائیلی بمباری سے گزشتہ 24 گھنٹوں میں 127 فلسطینی جام شہادت نوش کرگئے۔

    ایران: فائرنگ سے ایک ہی خاندان کے 12 افراد قتل

    فلسطینی وزارت صحت کے مطابق اسرائیلی فوج کے وحشیانہ حملوں میں 7 اکتوبر سے اب تک شہید ہونے والے فلسطینیوں کی تعداد 28 ہزار 985 ہوگئی۔ اسرائیلی حملوں سے اب تک 68 ہزار 883 فلسطینی زخمی ہوئے ہیں۔

  • خودکشی کرنے والے گوئبلز کا تذکرہ جو پروپیگنڈے کا ماہر تھا

    خودکشی کرنے والے گوئبلز کا تذکرہ جو پروپیگنڈے کا ماہر تھا

    سیاست اور جمہوریت کی تاریخ‌ میں جوزف گوئبلز بہت بدنام ہیں‌۔ وہ ایک ایسے بااثر جرمن وزیر تھے جن کا کام پروپیگنڈہ کرنا تھا۔

    گوئبلز نے نازی دور میں‌ جرمنی کے عوام کو ہٹلر کی حکومت اور اس پالیسیوں کی حمایت پر قائل کرنے کے لیے کئی جھوٹ گھڑے اور وہ باتیں‌ مشہور کیں جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہ تھا، لیکن وہ سب ہٹلر کی حکومت کو درست اور جرمن قوم کا نجات دہندہ بتاتے تھے۔ گوئبلز نے 1945ء میں‌ آج ہی کے دن اپنی زندگی کا خاتمہ کر لیا تھا۔

    وزیر برائے پروپیگنڈہ جوزف گوئبلز کے بہت سے جھوٹ جرمن عوام کے دلوں میں یہودیوں کے خلاف نفرت کو بڑھانے کا سبب بنے اور ان کے پروپیگنڈے نے لوگوں‌ پر ہٹلر کی عظمت کی دھاک بٹھائی اور وہ اس کے عقیدت مند بن گئے۔

    جوزف گوئبلز 29 اکتوبر 1897 کو جرمنی کے شہر راہٹ میں ایک کیتھولک عقیدے کے حامل فریڈرک گوئبلز کے گھر پیدا ہوئے۔ ان کے والد فیکٹری میں کلرک کے طور پر خدمات انجام دیتے تھے۔ گوئبلز کی والدہ کا نام کیتھرینا ماریا اوڈن تھا اور وہ اس جوڑے کی پانچ اولادوں میں‌ سے ایک تھے۔ بچپن میں پولیو وائرس سے متأثر ہونے کی وجہ سے گوئبلز لنگڑا کر چلتے تھے۔ اس نوجوان نے 1920 میں ہائیڈلبرگ یونیورسٹی سے جرمن ادب میں‌ تعلیمی سند حاصل کی۔ وہ ایک ایسے قوم پرست تھے جو اس معاملے میں‌ نہایت سفاک بھی تھا۔ پہلی عالمی جنگ چھڑی تو گوئبلز پولیو سے متأثر ہونے کی وجہ سے فوج میں بھرتی نہ کیا گیا۔ زمانۂ طالب علمی میں وہ سوشلسٹ اور کمیونسٹ خیالات کے بھی حامل رہے اور جوانی میں اینٹی بورژوا رہے جب کہ نازی پارٹی میں شمولیت کے بعد گوئبلز بھی قومی امتیاز اور جرمنوں کے احساسِ برتری کا شکار ہوگئے۔ کہا جاتا ہے کہ اس سے قبل وہ اپنے یہودی اساتذہ کی بڑی قدر کرتے تھے اور ان کے دل میں‌ کسی کے لیے نفرت نہیں‌ تھی۔ 1931ء میں میگڈا رِٹشل نامی ایک امیر گھرانے کی خاتون سے شادی کرنے کے بعد وہ چھے بچّوں کے باپ بنے۔

    نازی پارٹی میں شمولیت کے بعد جوزف گوئبلز کی زندگی بدل گئی اور وقت کے ساتھ وہ ترقی کرتے ہوئے پارٹی اور اقتدار میں‌ بارسوخ‌ بنے۔ جوزف گوئبلز ایک اعلیٰ پائے کے خطیب تھے اور ان کی یہی صلاحیت پارٹی میں انھیں سب کے درمیان نمایاں کرتی چلی گئی اور گوئبلز کو کئی اہم ذمہ داریاں سونپی گئیں۔ وہ ہٹلر کے قریب ہوتے چلے گئے اور گوئبلز کی لکھی ہوئی تقاریر عوام میں بہت مقبول ہوئیں‌ جو ہٹلر کے سامنے ان کی بڑی خوبی تھی، جھوٹ کو کسی خاص پیرائے میں بیان کرنا اور پراپیگنڈہ میں گوئبلز کی مہارتوں‌ سے ہٹلر بہت متاثر تھا۔ 1926 میں ہٹلر نے گوئبلز کو برلن میں نازی پارٹی کا ضلعی راہ نما مقرر کر دیا۔ نازیوں کے اقتدار پر قبضے کے بعد گوئبلز نے قومی سطح پر پراپیگنڈہ کا آغاز کیا اور اس کام کے مؤثر اور بھرپور نتائج کے حصول کی غرض سے عوامی روشن خیالی کے نام پر وزارت قائم کی گئی جسے ’چیمبر آف کلچر‘ کی شکل میں عامل بنایا گیا اور گوئبلز کو اس کا صدر بنا دیا گیا۔ ایک آمر اور مطلق العنان حکم راں‌ کے دور میں‌ گوئبلز کی یہ وزارت پریس اور فنونِ‌ لطیفہ کو کنٹرول کرتی رہی اور ان میڈیموں‌ کے ذریعے عوام کی ذہن سازی اور پراپیگنڈہ کیا جاتا تھا۔ گوئبلز نے ہٹلر کو جرمن عوام میں مسیحا اور نازیوں کو قوم اور ملک کا اصل محافظ ثابت کرنے کی کوشش کی۔ گوئبلز کی انہی کوششوں‌ کے نتیجے میں نازی ازم کو جرمنی میں پذیرائی حاصل ہوئی اور وہاں‌ یہودیوں‌ سے نفرت بڑھی۔ گوئبلز نے ہٹلر کے مقاصد کی تکمیل کے لیے ریڈیو اور فلم کے اہم میڈیم کو استعمال کیا۔ ریلیوں، نازیوں کی تقاریر اور دیگر تقریبات کی فلمیں میٹنگوں میں دکھائی جانے لگیں اور مخالف جماعتوں اور گروہوں کے خلاف عوام کے دل میں‌ نفرت کے جذبات کو ہوا دی جاتی رہی۔

    یہ گوئبلز ہی تھا جس نے 1932ء میں ہٹلر کی صدارتی انتخابی مہم جدید انداز سے چلائی۔ لیکن ہٹلر انتخابات ہار گئے۔ اس کے باوجود جرمن پارلیمان میں نازی پارٹی کی نمائندگی میں اضافہ ہوا اور وہ سب سے بڑی جماعت بنی۔ جرمنی میں مخلوط حکومت کے قیام کے بعد ہٹلر کو چانسلر مقرر کیا گیا اور 35 سال کی عمر میں گوئبلز کابینہ میں سب سے کم عمر وزیر کے طور پر شامل تھے۔

    1937ء اور 1938ء میں گوئبلز کا اثر و رسوخ مختلف وجوہات کی بنا پر کچھ کم ہو گیا تھا۔ یکم مئی کو گوئبلز نے اپنے تمام بچّوں کو زہر دینے کے بعد اہلیہ سمیت خود کو بھی موت کے سپرد کر دیا اور یوں اس کے ساتھ ہی کئی راز اور بہت سے جھوٹ ہمیشہ کے لیے منوں‌ مٹی تلے دب گئے۔

  • 40 سال جیل میں‌ گزارنے والا رُڈولف ہیس جس کی قبر کا نام و نشان بھی مٹا دیا گیا

    40 سال جیل میں‌ گزارنے والا رُڈولف ہیس جس کی قبر کا نام و نشان بھی مٹا دیا گیا

    2011ء میں رُڈولف ہیس کی موت کے کئی سال بعد قبر کشائی کر کے اس کی باقیات کو نذرِ آتش کردیا گیا تھا۔ حکومت اور وُنسیدل کی انتظامیہ کو یہ فیصلہ دائیں بازو کے انتہا پسندوں‌ کی وجہ سے کرنا پڑا، جو اس قبر پر اکٹھا ہونے لگے تھے۔

    رُڈولف ہیس کو دنیا ایڈولف ہٹلر کے قریبی ساتھی اور نائب کی حیثیت سے جانتی ہے جس کی قبر کو صفحۂ ہستی سے مٹانا اس لیے ضروری سمجھا گیا کہ ہر سال وہاں ہیس کی برسی پر دائیں‌ بازو اور نیو نازی گروہ کے اراکین جمع ہونے لگے تھے۔ خدشہ تھا کہ رُڈولف ہیس کی قبر انتہا پسندوں کو تقویت دے گی اور یہ مقام انتہا پسندوں کا گڑھ بن جائے گا۔

    جرمنی کی مختلف ریاستوں میں دائیں بازو کی سوچ کے حامل نئے نازیوں کے کئی گروہوں کی سرگرمیوں کو روکنے اور ان کا توڑ کرنے کی حکومتی کوششیں‌ بھی جاری رہتی ہیں

    ہٹلر کے قریبی ساتھی رڈولف ہیس نے آج ہی کے دن 1987ء میں‌ قید کے دوران اپنی زندگی کا خاتمہ کر لیا تھا۔ موت کے وقت اس کی عمر 93 سال تھی۔

    جرمنی میں ہیس کی باقیات کو نذرِ آتش کرنے کے بعد اس کی راکھ کو سمندر برد کردیا گیا تھا جس کے بعد قبرستان کے منتظم نے میڈیا کو بتایا، ‘قبر اب خالی ہے، ہڈیاں لے جائی جا چکی ہیں۔’

    جنوبی جرمنی میں واقع علاقے وُنسیدل میں 1894ء میں‌ آنکھ کھولنے والے ہیس نے زندگی کا خاتمہ کرنے سے پہلے وصیتی تحریر بھی چھوڑی تھی۔ اپنی آخری تحریر میں رہائی کے لیے کوششوں‌ پر اپنے اہلِ خانہ کا شکریہ ادا کرتے ہوئے اس نے لکھا تھا کہ وہ ونسیدل کے قصبے باواریا میں دفن ہونا چاہتا ہے جہاں اس کا آبائی مکان موجود ہے اور جس جگہ اس کے والدین دفن ہیں۔

    اس وصیت پر چرچ اور انتظامیہ کی جانب سے عمل درآمد کی اجازت مل گئی تھی، تاہم جب اس قبر پر دائیں بازو کے نیو نازی گروہوں نے آنا جانا شروع کیا تو چرچ اور مقامی لوگوں‌ نے تشویش کا اظہار کیا۔ دائیں بازو کی تنظیموں کے اراکین ہر سال رڈولف ہیس کی برسی منانے کی غرض سے اکٹھے ہونے لگے اور سلامی پیش کرنے کے ساتھ قبر پر پھولوں کی چادریں چڑھانے کا سلسلہ شروع کردیا جس پر قبرستان کی انتظامیہ اور چرچ نے کہا کہ اس اجتماع اور حالات سے جس میں شہر کے راستے بند ہوں اور سب گھروں میں رہیں، مستقبل میں‌ دشواری ہوسکتی ہے۔

    2005ء میں ایسے اجتماع پر عدالتی پابندی لگا دی گئی تھی، لیکن رڈولف ہیس کی قبر پر جمع ہونے والوں میں کوئی خاص کمی نہیں دیکھی گئی۔ تب باقیات کو نذرِ‌ آتش کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔

    جرمنی کے نازی لیڈر کے نائب رڈولف ہیس نے 1941ء میں اسکاٹ لینڈ جانے کی کوشش کی تھی جہاں ان کے جہاز نے ہنگامی لینڈنگ کی اور ہیس کو برطانیہ میں قید کر دیا گیا۔ اس پر جنگی جرائم اور غیر انسانی سلوک کے کئی مقدمات قائم کیے گئے تھے جس میں عدالت نے اسے بری تو کردیا لیکن دنیا کے امن کو سنگین خطرے سے دوچار کرنے پر عمر قید کی سزا سنائی گئی۔ رڈولف ہیس نے برلن کی جیل میں زندگی کے 40 سال گزارے۔

  • ہٹلر کا مگر مچھ ہمیشہ کے لیے محفوظ کردیا گیا

    ہٹلر کا مگر مچھ ہمیشہ کے لیے محفوظ کردیا گیا

    روس میں ایک طویل العمر مگر مچھ کو اس کی موت کے بعد، جسے جرمن نازی لیڈر ایڈولف ہٹلر کا پالتو مگر مچھ قرار دیا جاتا ہے، ہمیشہ کے لیے محفوظ کردیا جائے گا۔

    روسی میڈیا کے مطابق دارالحکومت ماسکو کے چڑیا گھر میں موجود یہ مگر مچھ سیٹرن رواں برس 84 سال کی عمر میں دم توڑ گیا تھا۔ اب اس کے جسم کو محفوظ کردیا جائے گا اور نئے سال کے موقع پر اسے میوزیم میں عوامی نمائش کے لیے پیش کیا جائے گا۔

    نئے سال کے آغاز کے موقع پر کرونا وائرس اور لاک ڈاؤن کی پابندیاں نرم کی جانے کی توقع ہے۔

    یہ مگر مچھ امریکی ریاست مسی سپی میں سنہ 1936 میں پیدا ہوا تھا جہاں سے اسے کسی طرح جرمن دارالحکومت برلن منتقل کیا گیا۔

    دوسری عالمی جنگ کے دوران 23 نومبر سنہ 1943 کے روز برلن شہر پر کی جانے والی بمباری سے اس شہر کے چڑیا گھر کے جانوروں کی ہلاکتیں بھی ہوئی تھیں اور کہا جاتا ہے کہ اسی دوران یہ مگر مچھ اپنے جنگلے سے فرار ہونے میں کامیاب ہو گیا تھا، تاہم اس کے کوئی حتمی ثبوت موجود نہیں۔

    کہا جاتا ہے کہ ممکن ہو کہ اس دوران یہ سیوریج پائپس اور تاریک کونوں میں چھپتا پھرتا رہا ہو۔ اسی دوران اسے برطانوی فوجیوں نے دیکھا اور اسے پکڑنے کے لیے روسی فوج سے تعاون کیا۔

    بعد ازاں اسے روسی دارالحکومت ماسکو منتقل کردیا گیا جہاں کے چڑیا گھر میں اس نے اپنی بقیہ زندگی گزاری۔ رواں برس مئی میں یہ مگر مچھ 84 سالی کی عمر میں دم توڑ گیا۔

    ماہرین حیوانات کے مطابق مگر مچھوں کی زیادہ سے زیادہ اوسط عمر 50 برس تک ہوسکتی ہے، چنانچہ یہ حیرت انگیز ہے کہ اس مگر مچھ نے اتنی طویل عمر پائی۔ ماسکو کے چڑیا گھر میں ہونے کے دوران اسے چڑیا گھر کا اسٹار کہا جاتا تھا، یہ بچوں کا پسندیدہ تھا اور بچے اس کی خاطر مدارات میں کوئی کمی نہیں اٹھا رکھتے تھے۔

    اس مگر مچھ کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ یہ ایڈولف ہٹلر کے پالتو جانوروں میں سے ایک تھا تاہم مؤرخین کا ماننا ہے کہ ہٹلر کو جانوروں سے کوئی رغبت نہیں تھی۔

    میوزیم انتظامیہ کا کہنا ہے کہ میوزیم میں موجود کسی جانور کا تاریخی پس منظر اس قدر بھرپور نہیں جیسے اس مگر مچھ کا ہے، اسے یہاں رکھنا مقامی و غیر ملکی سیاحوں کی آمد میں اضافے کا سبب بنے گا۔

  • 97 سالہ خاتون کتب فروش ہیلگا وائیے سے ملیے

    97 سالہ خاتون کتب فروش ہیلگا وائیے سے ملیے

    ’’میری زندگی کتابوں کے ساتھ ہے۔ میری زندگی کا آخری باب بھی کتابوں کے ساتھ اور ان کی محبت میں ہی اپنی تکمیل کو پہنچے گا۔‘‘

    یہ الفاظ ہیں‌ جرمنی کی معمر ترین کتب فروش کے جن کا نام ہیلگا وائیے ہے۔ وہ 97 سال کی ہیں۔ وہ 1922 کو برلن سے لگ بھگ دو سو کلو میٹر کے فاصلے پر زالس ویڈل نامی قصبے میں‌ پیدا ہوئیں۔ انھوں‌ نے جرمنی اور دنیا بھر میں‌ آنے والی کئی اہم سیاسی اور سماجی تبدیلیاں‌ اور انقلاب دیکھے۔ ہیلگا وائیے جرمنی کی معمر ترین کتب فروش ہیں۔

    وہ اپنی آخری سانس بھی اپنی بک شاپ پر کتابوں‌ کے درمیان لینا چاہتی ہیں۔ انھوں‌ نے اس بک اسٹور پر اس وقت کام کرنا شروع کیا تھا جب دوسری عالمی جنگ کے دوران ہٹلر اقتدار میں تھا۔

    جرمنی کی یہ خاتون گزشتہ سات دہائیوں سے زائد عرصے سے کتابوں‌ کی خریدوفروخت کا کام کررہی ہیں اور خود بھی علم و ادب کی شیدا اور وسیع مطالعہ رکھتی ہیں۔ وہ اپنے بک اسٹور پر آنے والوں کو دہائیوں‌ پہلے کی مشہور کتب اور یادگار تصانیف کے بارے میں ہر سوال کا جواب دیتی ہیں اور انھیں‌ مصنف اور کتاب کے موضوع پر تمام ضروری معلومات آسانی سے دے سکتی ہیں۔

    ہیلگا وایئے دو سال قبل تک ہفتے بھر اپنے بک اسٹور پر دیکھی جاتی تھیں۔ ان کی دکان پر آنے والے کتابوں کے چند رسیا ایسے بھی ہیں، جو بچپن میں اپنے والدین کے ساتھ اس دکان پر آتے تھے اور آج وہ خود صاحبِ‌ اولاد ہوچکے ہیں‌ اور بعض‌ تو پوتے پوتیوں، نواسے نواسیوں‌ والے ہیں۔

    ہیلگا وائیے نے دوسری عالمی جنگ کے دوران بک شاپ سے ناتا جوڑا تھا۔ اس وقت نازی اقتدار کا عروج تھا۔

    دل چسپ اور قابلِ تحسین بات یہ بھی ہے کہ ہیلگا وائیے اپنے خاندان کی تیسری نسل سے تعلق رکھتی ہیں‌ جو یہ بک شاپ چلاتی آرہی ہے۔ دراصل یہ دکان 1840 سے ان کے خاندان کے لوگ چلا رہے ہیں اور ہیلگا وائیے اس عمر کو پہنچنے کے باوجود کاروباری سرگرمیاں‌ انجام دے رہی ہیں۔

  • بھارت میں پرتشدد مظاہرے، اترپردیش میں 9 افراد ہلاک

    بھارت میں پرتشدد مظاہرے، اترپردیش میں 9 افراد ہلاک

    نئی دہلی: بھارت میں مسلم مخالف متنازع قانون کے خلاف مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے، اترپردیش میں پولیس گردی کے نتیجے میں 9 افراد ہلاک ہوگئے۔

    تفصیلات کے مطابق بھارتی دارالحکومت نئی دہلی سمیت مختلف ریاستوں اور شہروں میں متنازع بل کے خلاف شہری سراپا احتجاج ہیں، ریاست اترپردیش میں پولیس کی فائرنگ اور تشدد سے 9 افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہوگئے۔

    بھارتی میڈیا کا کہنا ہے کہ اب تک اترپردیش میں ہلاک مظاہرین کی تعداد 11 ہوگئی ہے۔ جبکہ دہلی میں نماز جمعہ کے بعد بڑی احتجاجی ریلی نکالی گئی، پولیس نے خواتین سمیت سیکڑوں افراد کو گرفتار کرلیا، مظاہرین پر آنسوگیس کی شیلنگ اور واٹرکینن کا بھی استعمال کیا گیا۔

    مظاہرین نے متعدد گاڑیاں اور موٹرسائیکلیں نذرآتش کردیں، پولیس تشدد سے جامعہ ملیہ اور علی گڑھ یونیورسٹی کے متعدد طلبا زخمی ہوئے۔ لکھنو، منگلورو اور دہلی سمیت مختلف شہروں میں انٹرنیٹ اور موبائل سروس تاحال بند ہے۔

    غیر ملکی میڈیا کے مطابق اترپردیش میں اسکول اور کالج آج بند رہیں گے۔

    متنازع ایکٹ، بھارت میں احتجاج، مودی ہٹاؤ مہم شروع، 14 افراد ہلاک

    خیال رہے کہ گزشتہ روز جھڑپوں کے دوران لکھنو میں پولیس کی گولی لگنے سے احتجاج کرنے والا ایک شخص ہلاک متعدد افراد زخمی ہوئے تھے۔ دوسری جانب کولکتہ میں مغربی بنگال کی وزیراعلیٰ ممتا بینر جی نے پھر احتجاجی ریلی نکالی اور متنازع شہریت بل پر مودی حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔

  • برطانوی عدالت نے ’ہٹلر‘ کے والدین کو قید کی سزا سنا دی

    برطانوی عدالت نے ’ہٹلر‘ کے والدین کو قید کی سزا سنا دی

    لندن : برطانوی عدالت نے نومولود بچے کا نام ’ہٹلر‘ رکھنے اور ’سواستیکا‘ کے ساتھ تصویر بنوانے والے والدین کو 6 برس قید کی سزا سنا دی۔

    تفصیلات کے مطابق برطانیہ کے ایک جوڑے کو اپنے بیٹے کا نام جرمن آمر ’ہٹلر‘ کے نام پر رکھنا مہنگا پڑگیا، برمنگھم کی ایک عدالت نے 22 سالہ ایڈم تھامس اور 38 سالہ کلاڈیو پر نازی گروہ نیشنل ایکشن کا رکن ہونے کا الزام ثابت پر نومولود بچے کے والدین کو سزا سنا دی۔

    پولیس نے جوڑے کو نئی طرز کی دہشت گردی کا مرتکب ٹھہرایا ہے، جس پر عدالت نے نومولود بچے کے والد کو 6 سال چھ ماہ اور ماں کو 5 برس قید کی سزا سنائی ہے۔

    برطانوی میڈیا کا کہنا ہے کہ جوڑے کو سزا صرف بیٹے کا نام ہٹلر رکھنے پر نہیں دی گئی بلکہ ان کا تعلق ایک نیشنل ایکشن نامی پارٹی کالعدم جماعت ہے جو ہٹلر کو اپنا لیڈر کہتی ہے، برطانیہ میں 2016 میں اس جماعت پر پابندی عائد کردی گئی تھی۔

    پولیس کے مطابق بچے کی پیدائش کے بعد جوڑے نے ایک تصویر بھی بنوائی، جس میں انھوں نے نازی پارٹی کا پرچم تھام رکھا تھا، جوڑے نے نازی فوج کے انداز میں‌ سلوٹ‌ بھی کیا۔

    عدالتی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ بچے کا نام ہٹلر رکھنے والے والدین کی تشدد اور نسل پرستی کے عقائد کی تاریخ طویل ہے، ایڈم نے بتایا کہ انہیں بچپن میں اپنے والد کی وجہ سے نسل پرستی کی تعلیم ملی۔

    مزید پڑھیں : ہٹلر کے والدین مجرم قرار، برمنگھم کی عدالت جمعے کو سزا سنائے گی

    عدالت میں پولیس کی طرف سے پیش کئے گئے شواہد میں ایڈم کے گھر سے ملنے والا مواد بھی شامل تھا، جس میں بم بنانے کا طریقہ درج تھا، اس کے علاوہ اس جوڑے کے گھر سے نازی لٹریچر اور کلہاڑا بھی برآمد ہوا۔

    عدالت نے جوڑے کے قریبی دوست ڈیرن فیلچر کو بھی شدت پسندانہ خیالات رکھے کی پاداش میں 5 برس قید کی سزا سنائی ہے جسے ایک سفید انتہاپسند کے طور پر شناخت کیا جاتا ہے۔

    مزید پڑھیں: ہٹلر کا لباس زیب تن کرنے پر امریکی شہری کو دھمکیاں

    رپورٹ کے مطابق بچے کانام ہٹلر رکھنے اور شدت پسند تنظیم سے تعلق رکھنے پر اس کے والدین سمیت چھ افراد کو سزائیں دی گئیں۔

    یاد رہے کہ 1939 میں ہٹلر کی جانب سے پولینڈ پر جارحیت دوسری جنگ عظیم کے آغاز کا باعث بنی، جس میں‌ لاکھوں افراد لقمہ اجل بنے۔

  • ہٹلر کے والدین مجرم قرار، برمنگھم کی عدالت جمعے کو سزا سنائے گی

    ہٹلر کے والدین مجرم قرار، برمنگھم کی عدالت جمعے کو سزا سنائے گی

    برمنگھم: بیٹے کا نام ہٹلر  رکھنے پر تنازع کھڑا ہو گیا، انتہا پسند برطانوی جوڑے کو مجرم قرار دے دیا گیا.

    تفصیلات کے مطابق برمنگھم کی ایک عدالت میں 22 سالہ ایڈم اور 38 سالہ کلاڈیو  پر نازی گروہ نیشنل ایکشن کا رکن ہونے کے الزام  کے تحت مقدمہ دائر کیا گیا، پولیس نے جوڑے کو نئی طرز کی دہشت گردی کا مرتکب ٹھہرایا ہے.

    واضح رہے کہ  نیشنل ایکشن نامی پارٹی ہٹلر کو اپنا لیڈر کہتی ہے، برطانیہ میں  2016 میں اس جماعت پر پابندی عائد کردی گئی تھی۔ 

    بچے کی پیدائش کے بعد جوڑے نے ایک تصویر بھی بنوائی، جس میں انھوں نے نازی پارٹی کا پرچم تھام رکھا تھا، جوڑے نے  نازی فوج کے انداز میں‌ سلوٹ‌ بھی کیا.

    مزید پڑھیں: ہٹلر کا لباس زیب تن کرنے پر امریکی شہری کو دھمکیاں

    ایک تصویر  میں  ایڈم خفیہ نسل پرست اور امیگریشن مخالف گروہ کا مخصوص نقاب اور  لباس پہنے اپنے بیٹے کو اٹھائے کھڑا ہے۔

    ان ہی تصاویر میں جوڑے کے قریبی دوست ڈیرن فیلچر کو بھی دیکھا جاسکتا ہے،  جسے ایک سفید انتہاپسند کے طور پر شناخت کیا جاتا ہے.

    عدالت میں جوڑے کا ٹرائل سات ہفتے جاری رہا، پولیس کی طرف سے  پیش کئے گئے شواہد میں ایڈم کے گھر سے ملنے والا مواد بھی شامل تھا، جس میں بم بنانے کا طریقہ درج تھا، اس کے علاوہ اس جوڑے کے گھر سے نازی لٹریچر  اور کلہاڑا بھی برآمد ہوا۔

    گروہ کے ارکان نے چیٹ گروپ میں ہٹلر کی تعریف کی اور یہودیوں کے قتل عام کو "حتمی حل” قرار دیا۔ ٹرائل کے دوران ایڈم نے بتایا کہ انہیں بچپن میں اپنے والد کی وجہ سے نسل پرستی کی تعلیم ملی۔ جوڑے اور اس کے ساتھیوں کو جمعے کے روز سنا سنائی جائے گی۔

    کاونٹر ٹیررازام افسران کا کہنا ہے کہ برطانیہ میں نسل پرست دہشت گرد گروہوں کے حملوں کا خطرہ بڑھ رہا ہے،  یہ گروہ منظم ہو کر خفیہ اور جدید طریقے استعمال کر رہے ہیں۔

    یاد رہے کہ 1939 میں ہٹلر کی جانب سے پولینڈ پر جارحیت دوسری جنگ عظیم کے آغاز کا باعث بنی، جس میں‌ لاکھوں افراد لقمہ اجل بنے.