Tag: ہیروشیما

  • جاپانی شہرہیروشیما پرایٹمی حملے کو 74 برس بیت گئے

    جاپانی شہرہیروشیما پرایٹمی حملے کو 74 برس بیت گئے

    ٹوکیو: جاپان کے شہرہیرو شیما پر امریکی ایٹمی حملے کو 74 برس بیت گئے، آج کے دن کو ایٹمی عدم پھیلاؤ کے عالمی دن کے طور پر بھی منایا جاتا ہے، جاپان نے آج تک اقوام متحدہ کی ایٹمی ہتھیاروں کے خاتمے کی قرار داد پر دستخط نہیں کیے ہیں۔

    آج سے4 برس قبل 6 اگست 1945 کی صبح امریکا نے ہیرو شیما پر ایٹم بم گرایا تھا جس کے نتیجے میں 1 لاکھ 40 ہزار افراد لقمہ اجل بنے تھے اور ہزاروں افراد معذور و زخمی ہوگئے تھے۔

    6 اگست کی صبح جاپان اور اس زندگی سے بھرپور شہر کے کسی باسی کو اس تباہی کا ادراک نہ تھا جو امریکی ہوائی جہاز کے ذریعے ایٹم بم کی صورت اس شہر پر منڈلا رہی تھی۔

    ہیروشیما پر قیامت ڈھانے والا لٹل بوائے

    جاپان کے مقامی وقت کے مطابق صبح کے 8 بج کر 16 منٹ پر امریکی بی 29 بمبار طیارے نے ’لٹل بوائے‘ کو ہیرو شیما پر گرا دیا۔ لٹل بوائے اس پہلے ایٹم بم کا کوڈ نام تھا۔

    بم گرائے جانے کے بعد لمحے بھر میں 80 ہزار انسان موت کی نیند سوگئے، 35 ہزار زخمی ہوئے اور سال کے اختتام تک مزید 80 ہزار لوگ تابکاری کا شکار ہو کر موت کی آغوش میں چلے گئے۔

    اس واقعے کے ٹھیک چھ دن بعد یعنی پندرہ اگست1945 کو جاپانی افواج نے ہتھیار ڈال دیے اور دنیا کی تاریخ کی ہولناک ترین جنگ یعنی جنگِ عظیم دوئم اپنے منطقی انجام کو پہنچی۔

    ہیروشیما کے واقعے کے تین دن بعد امریکہ نے ناگا ساکی پر حملہ 9 اگست 1945 کو بی 29 طیارے کے ذریعے ایٹمی بم گرایا جس کا کوڈ نام ’فیٹ مین‘ رکھا گیا تھا، اس بم نے ناگاساکی میں قیامت برپا کردی اور جاپانی اعداد وشمار کے مطابق لگ بھگ 70 ہزار افراد اس حملے میں ہلاک ہوئے جن میں سے 23سے 28 ہزار افراد جاپانی امدادی کارکن تھے جبکہ ایک بڑی تعداد جبری مشقت کرنے والے کورین نژاد افراد کی بھی تھی۔


    جاپان میں وہ افراد جن کے پاس ایٹمی حملوں میں بچ جانے کا سرٹیفیکٹ تھا انہیں’ ہباکشا‘ کہا جاتا ہے ،صرف ناگا ساکی میں ان کی تعداد 174،080بتائی جاتی ہے اور ان کی اوسط عمر 80 برس ہے۔

    ہیروشیما میں 303,195افراد کو ہباکشا کا درجہ حاصل تھا اور ان کی تعداد بھی انتہائی تیزی سے کم ہورہی ہے‘ یعنی اب اس دنیا میں اس واقعے کے عینی شاہد انتہائی قلیل تعداد میں بچے ہیں۔

    ہیرو شیما کی تباہی کی یاد عالمی طور پر منائی جاتی ہے۔ اس روز خصوصی ریلی کے شرکا پیس میموریل تک جاتے ہیں اور مرحومین کی یاد میں پھول رکھے جاتے ہیں۔

    ہر سال کی طرح اس تقریب میں ہزاروں افراد نے شریک ہو کر خاص طور پر جوہری ہتھیار سازی کو مسترد کرنے کے حوالے سے نعرہ بازی کی ۔ہیروشیما شہر پر ایٹم بم سے بچ جانے والے بزرگ شہری خاص طور پر تقریب میں توجہ کا مرکز رہے۔

    ہیروشیما کے میئر کازومی متسوئی نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ دنیا میں خود غرضی کی سیاست بڑھ رہی ہے ، انہوں نے عالمی سربراہوں سے اپیل کی کہ ایٹمی بمباری کے ان یادگار دنوں میں وہ ہیروشیما اور ناگاساکی کا دورہ کریں، اس سانحے سے سبق سیکھ کر دنیا کو ایٹمی ہتھیاروں سے پاک کرنے کی کوشش کریں۔

    انہوں نے جاپان کی مرکزی حکومت سے بھی مطالبہ کیا کہ وہ ایٹمی حملوں میں بچ جانے والے جاپانی شہریوں کی دیرینہ خواہش کی نمائندگی کرتے ہوئے اقوام متحدہ کے ایٹمی ہتھیاروں پر پابندی کے معاہدے پر دستخط کرے۔

  • پانچ معمولی غلطیاں، جنھوں نے تاریخ کا رخ بدل دیا

    پانچ معمولی غلطیاں، جنھوں نے تاریخ کا رخ بدل دیا

    کیا آپ کو لگتا ہے کہ ایک معمولی غلطی، جیسے کوئی چابی کھو جانا، کسی لفظ کا غلط ترجمہ یا ڈرائیونگ کے دوران ایک غلط موڑ تاریخ کا دھارا بدل سکتا ہے؟

    شاید آپ کا جواب نفی میں ہو۔ اس نوع کی غلطیاں تو ہم روز ہی کرتے ہیں۔ بھلا یہ اتنی خطرناک اور اثر انگیز کیسے ہوسکتی ہیں؟ مگر سچ یہی ہے جناب۔ انسانی تاریخ پر چند معمولی غلطیوں نے ان مٹ نقوش چھوڑے۔ یہاں ایسی ہی پانچ غلطیوں کا جائزہ لیا جارہا ہے۔

    ٭ کیوں ہوا ہیروشیما پر ایٹمی حملہ؟

    ہیروشیما پر گرایا جانے والا ایٹم بم انسانی تاریخ کا سب سے بڑا المیہ ہے، جس نے نہ صرف ہزاروں زندگیاں نگل لیں، بلکہ کئی نسلوں کو متاثر کیا۔ حیرت انگیز امر یہ ہے کہ یہ حملہ فقط غلط فہمی کی وجہ سے رونما ہوا۔

    قصہ کچھ یوں ہے کہ دوسری جنگ عظیم میں اتحادی فوج کی جانب سے محوری قوتوں (جرمنی، جاپان، اٹلی) سے ہتھیار ڈالنے کا مطالبہ کیا۔

    اس کے جواب میں جاپانی وزیر اعظم کانتروسوزوکی نے جاپانی زبان کا لفظ Mokusatsu استعمال کیا، جس کے معنی تھے :” میں اس پر غور کروں گا۔

      المیہ یہ رہا کہ اس لفظ کا ایک معنی خاموشی سے قتل کرنا یا رعونت سے نظرانداز کرنا بھی تھا۔ اتحادی فوج میں تعینات مترجم کی غلطی کے باعث امریکا اسے دھمکی سمجھا ، جس کے نتیجے میں امریکا نے جاپان پر ایٹم بم داغ دیا۔

    ٭ جب روس نے خزانہ کوڑیوں کے مول بیچ دیا


    گو سرد جنگ کی وجہ سے روس اور امریکا کو ایک دوسرے کا دشمن تصور کیا جاتا ہے، مگر ان کے درمیان کاروباری معاہدوں کی تاریخ بھی موجود ہے۔ اور ایک معاہدہ تو ایسا ہے، جس پر روس کو بعد میں بہت پچھتانا پڑا۔ الاسکا کی فروخت ایسا ہی معاملہ تھا۔ کینیڈا کے شمال مغرب میں موجود یہ ریاست 19 ویں صدی میں روس کا حصہ ہوا کرتی تھی۔

    سلطنت سے دور اور بے آباد ہونے کی وجہ سے یہ خطہ روسی خزانے پر بوجھ تھا، مگر اس زمانے میں پے در پے جنگوں کی وجہ سے روس شدید مالی مسائل سے دوچار تھا۔ سو اس نے فقط 7 ملین کے عوض اسے امریکا کو فروخت کر دیا۔

    یہ فیصلہ بعد میں غلط ثابت ہوا، کیوں کہ امریکی ماہرین اور سائنس دانوں کو جلد احساس ہوگیا کہ الاسکا معدنی ذخائر سے مالامال ہے۔ آج ان ذخائر کی مالیت کئی بلین ڈالرز میں ہے۔

    ٭مریخ کے پراسرار باشندے


    خلائی مخلوق کا تصور صدیوں پرانا ہے، مگر یہ تصور کہ ہمارے قریبی سیارے مریخ پر بھی خلائی مخلوق کا بسیرا ہے، دراصل اطالوی ہیئت داں کے الفاظ کی غلط تفہیم سے پیدا ہوا۔ 1877 میں مریخ پر تحقیق کرنے والے ایک اطالوی ہیئت داں نے سیارے کی سطح پر نظر آنے والی لکیروں کے لیے جو لفظ استعمال کیا تھا، وہ کینال یعنی انگریزی لفظ نہروں کے قریب تر تھا۔ امریکی ماہرفلکیات نے برسوں بعد جب اس کی تحریر پڑھی، تو وہ سمجھا، محقق اس طرز کی نہروں کا تذکرہ کر رہا ہے، جیسی نہریں انسان زمین پر کھودتے ہیں۔ اسی سے اس خیال نے جنم لیا کہ ضرور مریخ پر بھی کوئی مخلوق آباد ہوگی اور پھر یہ تصور پوری دنیا میں پھیل گیا۔

    یہ بھی پڑھیں: اسکول میں دوبارہ پراسرار مخلوق کی موجودگی؟ ویڈیو وائرل

    ٭چابی، جو ٹائی ٹینک کو بچا سکتی تھی


    عشرے گزر جانے کے باوجود ٹائی ٹینک کی غرقابی آج بھی موضوع بحث ہے۔ یوں تو اس کے کئی اسباب ہیں، مگر اس کا بڑا سبب ایک اعلیٰ عہدے دار کی معمولی غلطی تھی۔ وہ افسر، جس کے پاس کیبنٹ کی چابیاں تھیں، جہاں دوربین رکھی جاتی تھیں، اُسے آخری وقت میں، نامعلوم وجوہات کے باعث عملے سے الگ کر دیا گیا۔ شومئی قسمت وہ شخص اپنی جگہ آنے والے افسر کو اس الماری کی چابی فراہم کرنا بھول گیا اور ٹائی ٹینک اپنے سفر پر روانہ ہوگیا۔ دوربین نہ ہونے کے باعث عرشے پر تعینات افسر وہ برفانی تودا نہیں دیکھ سکا۔ اس کا نتیجہ ایک ہولناک حادثہ کی صورت نکلا۔

    ٭ جنگ کے دنوں میں بیوی کی سال گرہ


    دوسری جنگ عظیم کے دوران 6 جون 1944 کو(جسے ڈی ڈے کہا جاتا ہے) اتحادی فوج نے شمال مغربی یورپ کو نازی فوج سے آزاد کروانے کے لیے نارمنڈی کے ساحل پر اپنی فوج اتاری۔ بہ ظاہر جرمن فوج پوری طرح تیار تھی۔ بس، ان کا کمانڈر غائب تھا۔ وہ اپنی بیوی کی سال گرہ کی وجہ سے چھٹی پر تھا۔ اس کی عدم موجودگی اتحادی فوج کے حق میں گئی، جس نے فرنچ ساحل پر قبضہ کر لیا اور اسی سے ان واقعات کا سلسلہ شروع ہوا، جو جرمنی کی شکست پر منتج ہوا۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔