Tag: ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

  • چھتیسویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    چھتیسویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں

    فیونا، جبران اور دانیال اینگس کے گھر سے نکل کر اپنے اپنے گھروں کی طرف چل پڑے۔

    ’’پتا نہیں اس وقت میری ممی کہاں ہوں گی؟ شاید بیکری میں کام کر رہی ہوں گی۔ میں اس طرح کرتی ہوں کہ پہلے بیکری جا کر دیکھتی ہوں، کیا تم دونوں میرے ساتھ جاؤ گے؟‘‘ فیونا نے دونوں سے پوچھا۔

    ’’بہتر ہوگا کہ ہم اپنے گھر کو جائیں۔ ٹھیک ہے کہ یہاں اسکاٹ لینڈ میں صرف چند ہی منٹ کا وقت گزرا ہے لیکن میرا بدن تھکن سے چور ہے۔ میں آرام کرنا چاہتا ہوں۔‘‘ جبران نے تھکے تھکے لہجے میں کہا۔ ’’اس کے بعد میں ڈائری بھی لکھوں گا۔‘‘

    ’’میں ڈرائینگ میں ماہر ہوں۔ میں تو ان چیزوں کی تصاویر بناؤں گا جو آج ہم نے دیکھی ہیں۔‘‘ دانیال نے کہا۔

    ’’پاپا کو شاید مسٹر تھامسن کے سلسلے میں میری مدد کی ضرورت پڑے۔‘‘ جبران بتانے لگا: ’’پتا ہے فیونا، تھامسن عجیب قسم کا آدمی ہے۔ انھیں یہ تک نہیں پتا کہ ٹیبلٹ کیا ہوتی ہے۔ اور تو اور، انھیں یارکشائر پڈنگ کے متعلق بھی کچھ پتا نہیں۔ بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک انگریز کو یارکشائر پڈنگ کا پتا نہ ہو!‘‘

    ’’یہ تو بڑی احمقانہ سی بات ہے جبران۔‘‘ فیونا حیران ہو گئی۔

    ’’اچھا پھر ملیں گے۔‘‘ جبران نے کہا اور دانیال کے ہمراہ اپنے گھر کے راستے پر مڑ گیا۔ فیونا سیدھی بیکری جا پہنچی جہاں اس کی ممی پارٹ ٹائم ملازمت کرتی تھیں۔ وہ بیکری کا دروازہ کھول کر اندر داخل ہو گئی۔ اندر ایک ہی شخص تھا۔ فیونا نے پوچھا: ’’ہیلو جناب میکنزی، کیا آج ممی کام کر ہی ہیں؟‘‘

    ’’ہاں، امید ہے کہ وہ جلد ہی آ جائیں گی۔ آج ایک یا دو گھنٹوں کے لیے مجھے ان کی ضرورت پڑے گی۔‘‘ انھوں نے جواب دیا اور شیشے کے کیس سے ایک تھال نکال کر اس کی طرف بڑھایا۔ ’’کیا تم اس کا ذائقہ چکھ کر بتاؤ گی؟‘‘

    فیونا نے تھال میں پڑی پیسٹری کو حیرت سے دیکھ کر پوچھا: ’’یہ کیا ہے؟ میں نے اسے پہلے کبھی نہیں دیکھا۔‘‘

    ’’یہ میں نے پہلی مرتبہ بنائی ہے، اسے بکلاوا کہتے ہیں اور یہ یونانی پیسٹری ہے۔‘‘ میکنزی نے جواب دیا۔ ’’دراصل یہ جدید ترکی کے حوالے سے بھی جانی جاتی ہے، اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ قدیم فارس میں اس کا آغاز ہوا تھا، لیکن یونان میں بکلاوا کی بے تحاشا اقسام پائی جاتی ہیں۔‘‘

    یونان کا ذکر سن کر فیونا چونک اٹھی۔ دل میں کہا کہ یونان کی ہے تو پھر تو ضرور کھاؤں گی، کیوں کہ وہ ابھی ابھی تو یونان سے لوٹی تھی۔ اس نے ایک پیسٹری اٹھا کر کھائی اور بے اختیار بولی: ’’واہ مزے دار ہے، یہ دودھ کے سموسے سے کہیں زیادہ اچھی ہے۔‘‘

    ’’یہ دودھ کا سموسہ کیا چیز ہے بھلا؟‘‘ میکنزی کے ماتھے پر بل پڑ گئے۔ فیونا ہنس پڑی۔ ’’اسے مِلک پائی کہتے ہیں اور یہ بھی یونانی ہے۔‘‘

    ’’اوہ … تم تو یونانی ڈشز کے بارے میں بھی جانتی ہو۔ ویسے یہ پیسٹری شہد، فائلو پیسٹری شیٹ، مکھن اور خشک میوؤں سے تیار ہوتی ہے۔ احتیاط کرنا اگر تم اسے زیادہ کھاؤ گی تو تمھارا وزن بڑھ جائے گا۔‘‘ اس نے فیونا کو دوسری پیسٹری کی طرف ہاتھ بڑھاتے دیکھ کر خبردار کیا۔

    ’’اوہ شکریہ میکنزی صاحب، تو میں چلتی ہوں اور گھر ہی پر ممی کا انتظار کرتی ہوں، اور مجھے ابھی ابھی یاد آیا ہے کہ انھیں بلال صاحب کے ہاں جانا تھا۔‘‘

    فیونا گھر آ کر ٹی وی دیکھنے لگی۔ وہ ٹی وی دیکھنے میں اتنی منہمک تھی کہ اسے ممی کے اندر آنے کا بھی پتا نہ چلا۔ وہ اس کے پاس ہی صوفے پر بیٹھ گئیں۔ ’’انکل اینگس کے گھر کا دورہ کیسا رہا؟ تم تو بہت جلد آ گئی ہو۔‘‘

    فیونا ممی کی آواز سن کر چونک اٹھی، پھر مسکرا کر بتانے لگی کہ انکل کے گھر کا دورہ دل چسپ رہا۔ ممی نے صوفے سے اٹھ کر چغہ اتارا اور ایک کرسی کی پشت پر ڈال دیا۔ ’’کیا تمھیں معلوم ہے کہ اینگس کو آج صبح ایک یا دو دنوں کے لیے کریان لارک جانا تھا، کیا انھوں نے اس کا ذکر کیا؟‘‘

    ’’نہیں تو … کب واپس آئیں گے وہ؟‘‘ فیونا نے کندھے اچکائے۔

    ’’غالباً پیر کی صبح، لیکن مجھے اس بات پر حیرت ہے کہ انھوں نے اس کا ذکر کیوں نہیں کیا۔ دراصل وہ اپنے بنائے ہوئے مجسموں کی نمائش کرائیں گے وہاں۔ یہ بات ضرور ان کے ذہن سے نکل گئی ہوگی۔‘‘

    ’’ان کے دماغ سے بہت ساری باتیں نکل جاتی ہیں۔ خیر آپ جبران کے گھر گئی تھیں تو اس کی ممی کو سبزیاں پسند آئیں، اور تھامسن سے ملاقات ہوئی؟‘‘

    ’’شاہانہ کو میری ساری چیزیں بہت پسند آئیں۔ پتا ہے انھوں نے مجھے اور تمھیں آج رات کھانے پر بلایا ہے۔‘‘

    ’’کیا واقعی؟‘‘ فیونا پُر جوش ہو گئی۔

    ’’ہاں بالکل۔ اور تمھارے لیے ایک خبر یہ بھی ہے کہ وہاں تھامسن اور ان کا ایک بھائی جیمز بھی ہوں گے، وہ بھی یہاں پہنچ گئے ہیں۔‘‘

    فیونا نے کہا: ’’جبران کہہ رہا تھا کہ تھامسن ایک عجیب آدمی ہے، انھوں نے یارکشائر پڈنگ تک نہیں سنا۔‘‘

    ’’مجھے نہیں پتا، میں ابھی ان کے متعلق اتنا نہیں جانتی۔ ویسے میں اپنے ساتھ فروٹ چاٹ لے کر جاؤں گی۔ اب میں چلتی ہوں، ایک یا دو گھنٹے کام کروں گی۔ کچھ چیزیں خریدوں گی اور پھر تقریباً شام چھ بجے تک پہنچ جاؤں گی، اس لیے تم تیار رہنا۔‘‘

    ’’ٹھیک ہے ممی، لیکن بکلاوا بھی ضرور لے لینا۔ جبران اسے پسند کرے گا۔ یہ یونانی پیسٹری ہے۔ مجھے یقین ہے اس کا ذائقہ آپ کو بھی پسند آئے گا۔‘‘

    (جاری ہے)

  • چھبیسویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    چھبیسویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے کلک کریں

    "یہاں اس جزیرے پر ہم جڑی بوٹیوں کی دکان کہاں ڈھونڈیں گے، یہ تو سیاحوں کا جزیرہ ہے۔ یہاں جڑی بوٹیوں کا کیا کام؟” دانیال بولا۔ "یہاں تو نقشے، پینسل اور شیشے کے گلوب ہی ملیں گے۔ وہ اس وقت ایک پہاڑی کی چوٹی پر کھڑے نیچے قصبے کی طرف دیکھ رہے تھے: "اور تب کیا ہوگا جب نکولس سے ہمارا سامنا ہوگا؟”

    "دانی پلیز، اتنی مایوسی کی باتیں نہ کرو۔” فیونا جلدی سے بولی: "پہلے ہم دیکھ تو لیں۔ یہاں ضرور کوئی ایسی دکان ہوگی جہاں جڑی بوٹیاں فروخت ہوں گی۔ یونانی اپنے کھانوں میں جڑی بوٹیوں کا بہت استعمال کرتے ہیں اور یہاں صرف سیاح ہی نہیں مقامی لوگ بھی ہیں جو یہیں پر رہتے ہیں۔”

    وہ ساحل پر دکانوں کی پھیلی ہوئی لمبی قطار کو دیکھنے لگے۔ وہ جہاں کھڑے تھے، وہاں پتھریلی سیڑھیاں نیچے کو جا رہی تھیں۔ یہ اتنی ڈھلواں تھیں کہ ان پر نیچے اترنا کوئی آسان کام نہ تھا۔ انھیں بہت مشکل پیش آ رہی تھی۔

    "یہاں کئی جگہ اس قسم کی سیڑھیاں بنی ہوئی ہیں، پتا نہیں یہ کس نے اور کب بنائی ہیں؟” دانیال نے تبصرہ کیا۔

    ‘کیا یہاں پتھر لا کر سیڑھیاں بنائی گئیں یا پہاڑ ہی میں تراشی گئی ہیں!” جبران حیرت سے سیڑھیوں کو دیکھنے لگا۔ اس نے بیٹھ کر سیڑھیوں پر انگلیاں پھیریں اور پھر بولا: "کچھ پتا نہیں، تاہم ان پر سخت محنت ہوئی ہے۔”

    نیچے اترنے کے بعد ان کی جان میں جان آ گئی۔ "اف میری ٹانگیں تو جیلی کی طرح کانپنے لگی ہیں۔ میں تو دوبارہ یہ مشق کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتی۔” فیونا اپنی ٹانگوں کو جھٹکے دیتے ہوئے کہنے لگی۔

    "ہمیں نکولس کے حوالے سے محتاط رہنا چاہیے۔” جبران بولا۔ "چلو ان بغلی گلیوں میں چلتے ہیں۔ اگر چہ دیر لگے گی لیکن ہم بے خطر وہاں پہنچ جائیں گے۔”

    چند منٹ بعد وہ دکانوں کی ایک قطار تک پہنچ گئے۔ فیونا نے دونوں کو کچھ رقم نکال کر دی اور کہا: "ہم الگ الگ دکانوں میں تلاش کرتے ہیں۔ جس کو بھی جڑی بوٹی ملی، وہ خرید کر واپس اسی جگہ آئے۔” وہ تینوں الگ الگ دکانوں کی طرف چل پڑے۔

    ایک گھنٹے بعد وہ سیڑھیوں کے پاس جمع ہو گئے۔ "میں نے وہاں نکولس کو دیکھا لیکن اچھا ہوا کہ مجھ پر اس کی نظر نہیں پڑ سکی۔ وہ اب بھی بہت غصے میں نظر آ رہا تھا۔ میں سر پیر رکھ کر وہاں سے بھاگا۔” دانیال نے انھیں بتایا۔

    "کیا تمھیں جڑی بوٹیوں کی کوئی دکان بھی ملی یا نہیں؟” فیونا نے پوچھا۔ دانیال نے جواب دیا: "نہیں، میں جن دکانوں میں گیا وہاں صرف شرٹس اور برساتیاں ہی فروخت ہو رہی تھیں۔”

    "میں جن دکانوں میں گیا وہاں مجسمے، جھنڈے اور اسی قسم کی چیزیں تھیں۔” جبران نے کہا۔ فیونا نے بھی مایوسی سے سَر ہلاتے ہوئے کہا: "مجھے بھی جڑی بوٹیوں کی کوئی دکان نہیں ملی۔ اب مجبوراً ہمیں یہاں کے لوگوں سے پوچھنا پڑے گا، شاید کوئی ایسا شخص ملے جس نے اپنے باغیچے میں وہ بوٹی اگائی ہو۔ لیکن پہلے تو یہ معلوم کرنا ضروری ہے کہ یونانی زبان میں لیڈی مینٹل کو کیا کہتے ہیں؟” اس نے جبران کی طرف دیکھا: "کیا تم جانتے ہو؟”

    "کیوں، میں کیوں جانوں گا بھلا؟” جبران نے ماتھے پر بل ڈا ل دیے۔ فیونا مسکرائی: "اس لیے کہ تمھیں یونان کے متعلق بہت ساری معلومات ہیں۔”

    جبران نے کہا : "صرف اسے دیکھ کر پہچان سکتا ہوں۔”

    "تو ٹھیک ہے، ہم ایک بار پھر مختلف سمتوں میں جا کر یہاں ادھر ادھر اُگے پودوں سے پتے توڑ کر ایک گھنٹے بعد پھر یہاں ملیں گے۔ اور یہاں جبران انھیں دیکھ کر پہچاننے کی کوشش کرے گا۔” فیونا نے کہا اور ایک طرف چل پڑی۔ باقی دونوں بھی مختلف اطراف میں روانہ ہو گئے۔ ایک گھنٹے بعد جب وہ تینوں سیڑھیوں کے پاس پھر اکھٹے ہوئے تو ان کے ہاتھوں میں مختلف قسم کے پودوں کے پتے تھے۔ جبران کے ہاتھ خالی تھے۔ اس نے فیونا اور دانیال کے لائے ہوئے پتے دیکھ اور سونگھ کر کہا: ” ان میں سے کوئی بھی لیڈی مینٹل نہیں ہے۔”

    ان کے چہرے پھر اتر گئے۔ فیونا حتمی لہجے میں بولی: "تب پھر ہمیں بچھوؤں سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے کوئی اور طریقہ سوچنا ہوگا۔ چلو واپس خانقاہ چلتے ہیں اور پھر سے اس پر سوچتے ہیں۔”

    تینوں سیڑھیوں کی طرف منھ کر کے اوپر دیکھنے لگے۔ "میں تو ان سیڑھیوں پر نہیں چڑھنا چاہتی، بس یہ آخری مرتبہ ہے۔” فیونا منھ بنا کر بولی۔

    "رک جاؤ چورو! ” اچانک ان کی سماعتوں سے چیخنے کی آواز ٹکرائی۔ "وہ رہے آفیسرز، انھوں نے میرا گدھا چوری کیا تھا۔”

    یہ آواز ان کی سماعتوں پر بم کی طرح لگی تھی۔ وہ سناٹے میں آ گئے تھے۔ انھوں نے مڑ کر دیکھا۔ نکولس نیلی وردی میں ملبوس تین سپاہیوں کے ساتھ ان کی طرف بھاگتا آ رہا تھا۔

    "بھاگو…!” فیونا چلائی۔

    وہ سیڑھیوں سے چھلانگیں مار کر اترے۔ "اگر ہم الگ ہوئے تو خانقاہ میں ملیں گے۔” فیونا بولی اور تیر کی طرح پہاڑ کے دامن میں بنے گھروں کی طرف دوڑی۔ دانیال بھاگ کر کچھ فاصلے پر گھنی جھاڑیوں میں چھپ گیا۔ جب اسے یقین ہو گیا کہ وہ اچھی طرح چھپ گیا ہے تو اس کی نظریں عین سامنے اُگے پودے پر پڑیں۔ وہ چونک اٹھا۔ اس کے پتے خاکی مائل سبز تھے۔ اس میں چھوٹے زرد رنگ کے پھول بھی کھلے تھے۔ "ارے یہی پہچان ہی تو بتائی تھی جبران نے۔” مسرت سے اس کی باچھیں کھل گئیں۔ اس نے جلدی سے کئی شاخیں توڑیں اور پینٹ کی جیب میں ٹھونس لیں۔ پھر وہ احتیاط سے جھاڑیوں سے سر باہر نکال کر ادھر ادھر دیکھنے لگا۔ وہاں کوئی نہیں تھا۔ وہ دبے قدموں چلنے لگا۔ یکایک اسے نکولس کی آواز سنائی دی۔

    (جاری ہے)

  • بائیسویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    بائیسویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    جب دانیال اور جبران دوبارہ ساحل پر پہنچے تو گدھے کا مالک نکولس واقعی کھانے کے بعد آرام کر رہا تھا، اور اس کے قریب ہی اس کا گدھا بندھا ہوا تھا۔

    گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے یہاں‌ کلک کریں

    "چلو، پہلے رسی اور کھانا خریدتے ہیں، پھر گدھے کا کچھ کرتے ہیں۔” جبران بولا۔

    دونوں رسی کی تلاش میں وہاں موجود دکانوں میں پھرنے لگے، آخر کار ایک دکان سے انھیں رسی مل ہی گئی۔ کھانا خریدنے کے لیے دونوں واپس اسی ریستوراں پر جانے کے لیے ہرگز تیار نہیں تھے، اس لیے وہ ایک چھوٹی سی غلیظ قسم کی عمارت کے سامنے کھڑے ہو گئے۔ یہ ایک ہوٹل تھا۔ دیوار پر مینیو لٹکا ہوا تھا۔ دونوں اسے پڑھنے لگے۔ اسی وقت ایپرن پہنے ایک ادھیڑ عمر کا میلا کچیلا شخص ان کے قریب آیا، اس کا چہرہ تیل میں لتھڑا ہوا تھا۔ اس نے دونوں سے آرڈر پوچھا تو جبران نے اسے تین عدد پیٹا برگر کا آرڈر دے دیا۔

    "یہاں اتنی گندگی ہے، کہیں یہ کھاتے ہی ہمارے پیٹ خراب نہ ہو جائیں۔” دانیال کو تشویش ہونے لگی۔

    ہوٹل کے مالک نے تین بیضوی ڈبل روٹیاں چکنے گرل پر ڈال دیں، پھر کوئی سفید چیز گوشت پر ڈال کر اسے پیٹا میں رکھ دیا۔ اس کے بعد کاہو، ٹماٹر اور کھیرے کے ٹکڑے بھی بھر کر انھیں کاغذوں میں لپیٹ دیا۔ تیل اب بھی ان سے ٹپک رہا تھا۔ جبران نے پارسل سنبھال لیا اور دانیال نے قیمت ادا کر دی۔ ہوٹل سے پلٹنے کے بعد جبران کے کہنے پر وہ سیڑھیوں پر بیٹھ کر اپنا اپنا پیٹا کھانے لگے۔

    "یار یہ تو بڑے مزے کا ہے۔” جبران کو اس کا ذائقہ بھا گیا۔

    دانیال نے سر ہلانے پر اکتفا کیا کیوں کہ اس وقت اس کا منھ بھرا ہوا تھا۔ پیٹا کھانے کے بعد دانیال بولا: "اب گدھا لینے کی باری ہے، ویسے ہم نے بہت دیر کر دی ہے اور فیونا ہمارے لیے پریشان ہوگی۔”

    دونوں تیزی سے اس طرف چل پڑے جہاں نکولس اب بھی چارپائی پر لیٹا خواب خرگوش کے مزے لوٹ رہا تھا۔ جبران نے دانیال کی طرف معنی خیز نظروں سے دیکھا۔ "ہم خاموشی سے رسی کھول کر گدھے کو لے چلیں گے۔ پہاڑ پر چڑھانے کے بعد ہم خانقاہ تک اس پر اطمینان سے سواری بھی کر سکتے ہیں۔”

    دانیال نے اثبات میں سر ہلاکر کہا: "تم نکولس پر نظر رکھنا، میں گدھے کی رسی کھول لوں گا، یہ بوڑھا ہو چکا ہے اس لیے ہمارا تعاقب نہیں کر سکے گا۔”

    اگلے لمحے دانیال نے بڑے مزے کے ساتھ گدھے کی پیٹھ سہلائی اور پھر اس کی رسی کھول لی۔ گدھا بغیر کسی مزاحمت اس کے پیچھے چل پڑا۔ "ارے یہ تو بہت آسانی کے ساتھ ہمارے ساتھ چل پڑا ہے۔” جبران خوش ہو گیا۔ وہ گدھے کو پہاڑ کے پاس تو آسانی سے لے گئے لیکن جیسے سیڑھیوں کے پاس پہنچے، گدھے نے قدم روک لیے۔ دونوں پریشان ہو گئے۔ انھوں نے بہت کوشش کی لیکن گدھا ٹس سے مس نہ ہوا۔

    "اُف یہ گدھے تو واقعی ضدی اور سرکش ہوتے ہیں، آج پہلی مرتبہ معلوم ہوا ہے۔” جبران جھلا کر بول اٹھا۔

    "اے لڑکو! یہ تم میرے گدھے کے ساتھ کیا کر رہے ہو؟” اچانک ان کے کانوں میں نکولس کی تیز آواز پڑی، جسے سن کر وہ سناٹے میں آ گئے۔ چند لمحوں کے لیے وہ زمین پر کھڑے کھڑے بت بن گئے تھے۔ ایسا لگتا تھا جیسے کاٹو تو بدن میں لہو نہیں۔ دونوں نے ڈرتے ڈرتے مڑ کر دیکھا۔ نکولس کا چہرہ غصے کے مارے لال بھبھوکا ہو رہا تھا۔ اس کی ناک کے نتھنے پھڑک رہے تھے۔

    "بھاگو….!” جبران چلایا۔

    اس کے بعد وہ آگے اور دانیال اس کے پیچھے سر پٹ دوڑا۔ نکولس ان کے پیچھے چلایا: "تم دونوں میرا گدھا چوری کر کے لے جا رہے ہو، میں تمھیں نہیں چھوڑوں گا۔”

    لیکن وہ دونوں سر پر پیر رکھ کر بھاگ رہے تھے۔ آن کی آن میں وہ پہاڑ کی چوٹی پر پہنچ گئے۔ تب جا کر انھوں نے مڑ کر دیکھا۔ نکولس نیچے کھڑا اپنے پیارے گدھے کی پیٹھ سہلا رہا تھا اور ان کی طرف کھا جانے والی نظروں سے دیکھ رہا تھا۔ کچھ دیر بعد نکولس نے واپس جانے کا فیصلہ کیا اور گدھے کو لے کر روانہ ہو گیا۔ جبران نے طویل سانس لے کر کہا: "اب کیا ہوگا؟ گدھا تو ہاتھ سے نکل گیا۔ ا ب اینٹ کس طرح اکھاڑیں گے ہم؟”

    "چلو، فیونا کے پاس واپس چلتے ہیں، یہ پیٹا کھا کر اسے ہم پر زیادہ غصہ نہیں آئے گا۔” دانیال نے مسکرا کر جواب دیا۔

    (جاری ہے…..)

  • پندرھویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    پندرھویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    اینگس کچھ لمحوں کے لیے ٹھہرے، پھر گہری سانس لے کر بولے۔ "میں اس ساری کہانی کو ٹکڑوں ٹکڑوں میں سمجھا ہوں۔ تاریخ نویس کے نوٹس سےجو تصویر بن کر سامنے آئی ہے وہ کچھ اس طرح سے ہے۔ شہنشاہ رالفن کا پایۂ تخت یعنی بورل آج کے مشرق وسطیٰ میں کہیں جزیرہ نمائے عرب کے آس پاس تھا۔ شاید یہ جگہ یمن ہو لیکن میں کچھ یقین سے نہیں کہ سکتا۔ اتنا ضرور ہے کہ وہ اس علاقے کا نہیں تھا کیوں کہ رالفن مشرق وسطیٰ کا نام نہیں ہے۔ یہ نام روسی زیادہ لگتا ہے یا مشرقی یورپی یا پھر فونیزی۔ بادشاہ کیگان نے بھی اپنی ابتدائی زندگی سرزمین عرب میں گزاری اور اسکاٹ لینڈ کبھی نہیں آیا۔ حتیٰ کہ اس نے اپنے خاندان سمیت ہجرت کر لی۔ یہ 1070 بعد مسیح کا دور تھا۔ یہ برطانیہ پر ولیئم فاتح کے حملے سے کچھ زیادہ بعد کی بات نہیں ہے۔ مجھے اس بات کا کچھ اندازہ نہیں کہ یمن میں کیگان کے پرانے محل کے ساتھ کیا ہوا، کیوں کہ اس کا ذکر ابھی تک نہیں آیا ہے،ممکن ہے جب میں کتاب کو مزید پڑھوں گا تو مجھے اس سوال کا بھی جواب مل جائے گا۔”

    گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں

    "جادوئی ہیرے کہاں چھپائے گئے ہیں انکل؟” فیونا نے بے قراری سے پوچھا۔

    "گزشتہ رات میں نے اسے بہت مشکل سے سمجھا ہے، گیلک کوئی آسان زبان نہیں ہے۔ جب کوئی وارث منتر پڑھتا ہے تو یہ اسے ہیرے کے گرد و نواح میں پہنچا دیتا ہے۔ اس کے بعد وارث خواہ وہ مرد ہو یا عورت، اسے اپنی اندرونی قوتوں اور عقل کو استعمال میں لا کر درست جگہ ڈھونڈنی ہوتی ہے۔ وارث کو یہ بھی پتا نہیں ہوتا کہ منتر اسے کس ہیرے کے پاس پہنچاتا ہے۔ جب وہ ایک مقام سے ہیرا حاصل کر لیتا ہے تو منتر اسے اس جگہ دوبارہ نہیں لے جاتا۔ ہر مقام ایسا ہے کہ قیمتی پتھر کا وہاں سے خاص تعلق ہے۔ جادوگر نے انھیں جمع کرنے کے لیے دنیا چھان ماری تھی، وہ ایسی جگہوں پر گیا تھا جنھیں اس وقت لوگ جانتے بھی نہیں تھے۔ ہر پتھر انمول اور نایاب ہے۔ بارہ آدمیوں نے یہ قیمتی پتھر وہاں نہیں چھپائے جہاں سے جادوگر نے انھیں لیا تھا۔ یہ عجیب بات ہے لیکن کیا کیا جائے کہ یہ کتاب اسی طرح کی عجیب چیزوں سے بھری ہوئی ہے۔”

    "انکل، یہ سب کتنا عجیب ہے، مجھے یقین نہیں آ رہا کہ آپ نے ان سب باتوں کو سمجھ لیا ہے۔ مجھے اس بات پر بے حد خوشی ہو رہی ہے کہ آپ کو گیلک زبان آتی ہے۔” فیونا نے جذباتی ہو کر کہا۔

    اینگس نے سر ہلا کر کہا۔ "فیونا تمھارے پاپا مجھ سے بھی زیادہ بہتر گیلک سمجھتا تھا۔ خیر اب تو یہ فہرست سنو، جہاں قیمتی پتھر چھپائے گئے ہیں۔ اچھا تم لوگ اس طرح کرو کہ یہاں میری کرسی کے قریب آ کر بیٹھو۔ میں انھیں ایک علیحدہ کاغذ پر انگریزی میں نقل کر لیا ہے۔”

    اینگس نے زمین پر ایک تہ شدہ کاغذ پھیلا دیا۔ وہ تینوں بے قراری سے آ کر بیٹھ گئے۔ کاغذ پر تفصیل کچھ اس طرح سے درج تھی:

    ہائیڈرا، یونان… سیاہ آبسیڈین، ایک سیاہ شیشے جیسا پتھر۔ لومنا جادوگر نے کہا تھا کہ یہ آتش فشانی پتھر ہے جو ایک ایسے آتش فشاں پھٹنے سے بنا تھا جو اس زمین کا پہلا آتش فشاں تھا۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب سمندر اور خشکی ایک دوسرے سے جدا ہو گئے تھے۔ تاہم یہ نہیں لکھا گیا کہ یہ آتش فشاں واقعتاً کہاں پھٹا تھا۔

    آئس لینڈ … مرجان، گلابی مائل سرخ قیمتی تاریخی معدنی پتھر۔ لومنا نے یہ پتھر افغانستان میں پایا تھا۔

    جرائز سیچلز … موتی۔ اسے جزیرہ تاہیٹی سے حاصل کیا گیا تھا۔ یہ موتی وہاں کی ایک جھیل میں پڑا تھا۔

    یوکون، کینیڈا … زمرد۔ اسے کولمبیا کے بارانی جنگلات سے حاصل کیا گیا تھا۔

    تسمانیہ … پکھراج۔ یہ پتھر روس میں یورال کی پہاڑیوں سے ملا تھا۔

    اردن… یاقوت۔ جادوگر لومنا نے یہ پتھر برما سے چرایا تھا۔

    میکسیکو … امبر۔ یہ پتھر بحر بالٹک کی لہروں میں بہ کر ساحل پر آ گیا تھا۔

    نیپال… اوپل۔ یہ پتھر رنگ تبدیل کرتارہتا ہے۔ یہ آسٹریلیا میں ملا تھا۔

    اسپین… نیلم۔ یہ مڈغاسکر سے لومنا کو ملا تھا۔

    ارجنٹینا… تنزانائٹ۔ نیلے رنگ کا یہ قیمتی پتھر تنزانیہ سے ملا تھا۔

    ملاوی… الماس۔ یہ جنوبی افریقا کے علاقے لیسوتھو سے ملاتھا۔

    منگولیا… الیگزنڈرائٹ۔ اگرچہ یہ پہلی مرتبہ روس سے ملا تھا تاہم لومنا کو یہ انڈیا سے ملا تھا۔

    "تو بچو، تم سمجھ گئے ہو کہ کون سا پتھر کہاں چھپایا گیا ہے اور یہ اصلاً کہاں سے حاصل کیا گیا تھا۔” اینگس نے انھیں مخاطب کیا۔

    "یہ سب بہت دل چسپ ہے، میں نے ان میں سے چند نام پہلی مرتبہ سنے ہیں۔” جبران بولا۔ فیونا نے کہا میں نے بھی۔

    (جاری ہے….)

  • چودھویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    چودھویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    سورج کی نرم گرم شعاعیں نیزوں کی طرح کھڑکی سے اندر داخل ہو کر فیونا کو جگانے لگیں۔ وہ کسمسا کر اٹھی اور کھڑکی کے پار لہلہاتے پھول دیکھنے لگی۔ یکایک وہ چونک اٹھی۔ "ارے آج تو ہفتہ ہے۔” اچھل کر بستر سے اتری۔ منھ ہاتھ دھو کر مستعدی سے الماری سے کپڑے نکالے اور بدل کر باورچی خانے میں گھس گئی۔ اس کی ممی مائری گاجر دھو رہی تھیں۔ فیونا میز کے سامنے بیٹھ گئی۔

    گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں

    "بس ایک منٹ، میں کچھ نہ کچھ دے دوں گی ابھی۔ دراصل آج میں نے باغیچے سے یہ تازہ گاجر نکالے ہیں۔ میں نے تمھارے لیے آج رات کے کھانے میں شلجم اور بروسل کی کونپلیں بنانے کا ارادہ کیا ہے۔ تمھیں یہ ننھے ننھے گوبھی تو پسند ہی ہیں۔ قیمہ اور آلو کا بھرتہ شلجم اور بروسل کے کونپلوں کے ساتھ کیسا رہے گا؟”

    "آپ جانتی ہیں ممی، مجھے قیمہ اور آلو کا بھرتہ پسند ہیں۔” فیونا بولی۔ "لیکن اس وقت تو میں صرف سیریل ہی کھاؤں گی۔ میں اپنے نئے دوستوں سے ملنے جاؤں گی۔ ہم سارا دن ساتھ کھیلیں گے اس لیے ممی مجھ سے کچھ زیادہ توقع نہ رکھیں آج۔”

    "ہاں، آج ہفتہ ہے، کھیلنے کا دن ہے، چلو یہ اچھا ہے۔ میں بھی بیکری میں آج دیر تک کام کروں گی۔ جانے سے پہلے میں ‘پرفیکٹ بی’ سے شہد بھی لوں گی۔” مائری نے دھلے گاجر ایک طرف پڑے شلجموں کے پاس ہی رکھ دیے اور گیلے ہاتھ ایک کپڑے سے خشک کرنے لگیں، پھر بولیں۔ "میرے خیال میں سیریل پڑ ا ہوا ہے، بس ابھی دیتی ہوں۔”

    "اوہ ممی، آپ کتنی اچھی ہیں، سچ بتاؤں آج آپ بہت پیاری لگ رہی ہیں۔ میں آپ کو مشورہ دوں گی کہ جبران کے والدین کی طرف جائیں، وہ آپ کو کھلے دل سے خوش آمدید کہیں گے۔ مسٹر تھامسن، جنھیں آپ نے بھیجا تھا، وہ بھی جبران کے پاپا کے گیسٹ ہاؤس میں ٹھہرے ہوئے ہیں۔ اپنے ساتھ یہ ننھے ننھے گوبھی بروسل بھی لے جائیں۔ یہ کتنا خوب صورت اتفاق ہے ممی کہ مجھے بھی نئے دوست مل گئے ہیں اور آپ کا تعلق بھی دفتر سے نکل کر گھر تک پھیل گیا ہے، ہماری دوستی کی وجہ سے آپ کو بھی دوست مل گئے ہیں۔ ”

    "اوہ میری پیاری بیٹی، خدا تمھیں اپنی حفاظت میں رکھے۔” مائری نے جذباتی ہو کر فیونا کا ماتھا چوم لیا۔ فیونا مسکرانے لگی۔ ناشتہ کر کے وہ جلدی سے اٹھی اور برتن بیسن میں رکھ دیے۔ "ممی، میں واپس آ کر انھیں دھو لوں گی، مجھے ابھی دیر ہو رہی ہے۔”

    اس نے ممی کے گال پر بوسہ دیا اور دوڑتی ہوئی گھر سے نکل گئی۔ جبران اور دانیال اس کا انتظار کر رہے تھے۔ وہ اس وقت اینگس کے گھر سے کچھ ہی فاصلے پر بنے پارک میں بیٹھے ہوئے تھے۔

    "بڑی دیر کر دی تم نے، دس منٹ لیٹ ہو۔” جبران نے کہا۔

    "دراصل آنکھ ہی دیر سے کھلی، میں بہت گہری نیند سوئی رہی۔”

    تینوں تیز تیز قدموں سے اینگس کے گھر کے دروازے پر پہنچ گئے۔ دستک پر وہ باہر نکلے، انھوں نے دیکھا اینگس کے بال بکھرے ہوئے ہیں، آنکھوں کے گرد حلقے پڑے ہیں اور چہرہ بھی دھلا نہیں ہے۔ فیونا نے صبح بخیر کہتے ہی کہا "انکل کیا آپ سوئے نہیں؟”

    "دراصل میں ساری رات جاگ کر یہ کتاب پڑھتا رہا، تم لوگ اندر آ جاؤ، میں تمھیں بتانا چاہتا ہوں کہ میں نے کتاب میں کیا پایا، سب کچھ حیرت انگیز اور جوش میں ڈال دینے والا ہے، چلو آؤ اندر۔”

    وہ اندر داخل ہوئے تو اینگس نے پوچھا کیا تم لوگوں نے ناشتہ کر لیا؟ تینوں نے اثبات میں سر ہلایا۔ اینگس بولے کہ میں نے تو نہیں کیا لیکن میں چند بسکٹ ہی کھاؤں گا۔ جبران نے کہا صرف بسکٹ تو کوئی بہتر ناشتہ نہیں ہے، کیا آپ کے پاس سیریل یا انڈے نہیں ہیں۔ جبران نے گھر میں چاروں طرف نظر دوڑا کر دیکھا۔ "کیا دودھ والا روزانہ دودھ نہیں لاتا، اور ریفریجریٹر بھی نہیں ہے کیا؟”

    اینگس نے چشمہ اپنے ہاتھ سے میز پر رکھتے ہوئے کہا۔ "آتا ہے، دودھ والا بھی آتا ہے، اور انڈے بھی آتے ہیں، مگر میں اسے پچھلے کمرے میں رکھ دیتا ہوں۔ وہ کافی ٹھنڈا رہتا ہے اس لیے مجھے ریفریجریٹر کی ضرورت نہیں رہتی۔ جب میرے گھر میں پنیر بھی آتا ہے تو وہ بھی وہیں اس کے پاس رکھ دیتا ہوں۔ مجھے کبھی اس سے کوئی مسئلہ پیش نہیں آیا۔ چلو تم لوگ کرسیوں پر بیٹھ جاؤ۔ میں نے تمھیں بہت کچھ بتانا ہے۔” یہ کہ کر اینگس خود بھی ان کے سامنے اپنی مخصوص آرام کرسی پر بیٹھ گئے۔

    "سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ کتاب کے درمیان سے کسی نے چند اوراق پھاڑ دیے ہیں، لیکن اچھی بات یہ ہے کہ زیادہ تر کتاب محفوظ ہے۔ میں نے اس میں بہت ساری دل چسپ باتیں پڑھی ہیں، اس کتاب میں ایک قسم کا منتر بھی ہے۔ یہ ایسا منتر ہے جو بادشاہ کیگان کے کسی وارث کو ان جگہوں پر پہنچا سکتا ہے جہاں جادوئی ہیرے چھپائے گئے ہیں۔”

    تینوں ہمہ تن گوش ہو گئے۔ اینگس نے کتاب کھول لی اور پڑھنے لگے۔ "کتاب میں لکھا ہے کہ بادشاہ کیگان ابھی فلسطین جانے کا منصوبہ ہی بنا رہا تھا کہ اس کے بارہ آدمی ہیرے چھپا کر کہیں چلے گئے اور بادشاہ کی ہدایت کے مطابق کبھی واپس نہیں آئے۔ یہ راز انھی کے ساتھ ہی رہا کہ ہیرے کہاں کہاں چھپائے گئے ہیں۔ بہ قول آل رائے کیتھ مور جب بادشاہ کو قتل کر دیا گیا اور قلعے کو نذر آتش کیا گیا، تو وہ کئی برسوں تک غائب رہا۔ دراصل وہ دنیا بھر میں گھوم پھر کر ان بارہ آدمیوں کو تلاش کرتا رہا۔ آخر کار اس نے انھیں ڈھونڈ نکالا اور ان سے جہاں تک ممکن ہو سکا واقعات کی تفصیل جمع کر لی۔ ذرا سوچو، یہ کوئی آسان کام نہ تھا۔ وہ کئی برس بعد لوٹا اور یہ ساری تفصیل کتاب میں درج کر دی۔ اس میں ایک ہار کا بھی ذکر ہے جس کے بارہ کونے ہیں اور وہ کسی ستارے کی شکل میں ہے۔ اس کا ہر کونا ایک ایک آدمی اور ہیرے کا نمائندہ ہے، دیکھو اس کی تصویر۔”

    اینگس آگے کی طرف جھک کر اس کی تصویر دکھانے لگے۔ "یہ تو بالکل ویسی ہی تصویر ہے جیسی کہ ہم نے منقش شیشے پر دیکھی تھی۔” جبران حیران ہو کر بولا۔ "فیونا نے اس کی تصویر بھی اتاری ہے۔”

    "یہ کوئی معمولی ہار نہیں۔” اینگس بتانے لگے۔ "رالفن کے جادوگر لومنا نے یہ ہار اسی وقت ہی بنوایا تھا جب وہ جادوئی گولا بنوا رہا تھا اور یہ بھی ایک ہی سونے سے بنایا گیا تھا۔ اس نے بارہ اصلی ہیروں سے چاندی لے کر اسے ہار میں استعمال کیا۔ جب دوگان کے آدمیوں نے بادشاہ کیگان کو جان سے مار دیا تو انھوں نے اس کے گلے سے یہ ہار بھی کھینچ کر نکالا تھا۔ اس کے بعد بادشاہ دوگان نے اسے پہنا اور پھر اس کے بعد اس کی آنے والی نسلوں نے اسے اپنے گلے کی زینت بنایا۔”

    (جاری ہے….)

  • بارہویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    بارہویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    "ضروری نہیں ہے۔” اینگس نے سر ہلایا۔ "گہری زیتونی جلد اور بال ہسپانویوں سے بھی ملائے جا سکتے تھے۔ بہرحال یہ بڑی عجیب بات ہے۔ ان دنوں اسکاٹ لینڈ میں لوگ کسی کے آبا و اجداد سے اتنی دل چسپی نہیں رکھتے تھے، جتنی کہ چند صدیوں بعد ان میں اس کا رواج پڑا۔ بہرحال، اسکاٹس نے ان کے آبا و اجداد کو صدیوں سے اکیلا چھوڑ دیا تھا۔ بادشاہ دوگان کا تعلق بھی اسی شیطان قبیلے سے تھا جس سے بادشاہ بارتولف وابستہ تھا۔ وہ بھی انتہائی ظالم اور مکار تھا۔ اس کے پاس بھی ایک جادوگر تھا، نام تھا اس کا پہلان۔ یہ سلطنت کے لوگوں کو ڈرانے کے لیے اپنا جادو استعمال کرتا تھا۔ یہ پہلان ہی تھا جس نے آخر کار بادشاہ کیگان کو شکست دے دی۔ اس نے کیگان پر بھی جان لیوا حملہ کیا لیکن وہ بچ کر نکل گیا۔ دوگان وہی گولا حاصل کرنا چاہتا تھا جس میں جادو کے کئی اسرار پوشیدہ تھے۔ تب تک پوری دنیا میں جادوئی گولے کی شہرت پھیل چکی تھی۔ گرمیوں کی ایک صبح کو دوگان کے آدمیوں نے کیگان کی سرزمین پر حملہ کر دیا۔ وہ کیگان خاندان میں سے تو کسی کو نہ مار سکے البتہ اس کی دو بیٹیوں ازابیلا اور آنا کو اٹھا کر لے گئے۔”

    گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے کلک کریں
    "کتنی عجیب کہانی ہے۔” فیونا آنکھیں سکیڑ کر بولی۔ "کیا واقعی اس کتاب میں ایسا ہی لکھا ہے؟”

    "ہاں، میں اسے لفظ بہ لفظ پڑھ رہا ہوں۔ کئی برسوں تک اس کے اور اس کے خاندان کے سر پر خطرہ منڈلاتا رہا۔ پھر یہ بہت برا ہوا کہ ایک رات وہ اپنا تمام خزانہ، با اعتماد افراد، خاندان اور تاریخ نویس کو لے کر کہیں غائب ہو گیا۔ لوگ کہنے لگے کہ کیگان نے سب کو نظروں سے غائب کر دیا تھا۔ انھیں پھر کسی نے نہیں دیکھا۔ چوں کہ وہ ایک نیک دل بادشاہ تھا اس لیے اس نے اپنی رعایا کے لیے کافی خزانہ چھوڑا، تاکہ وہ آرام سے گزر بسر کر سکیں۔ اگرچہ وہ پھر اپنی رعایا کو نہ دیکھ سکا لیکن ہمیشہ ان کا دردمندی سے ذکر کرتا رہا۔ پھر جب وہ عرب کے جنوبی ساحل کے نخلستان میں پہنچ کر خود کو محفوظ سمجھنے لگا تو اس نے تمام ہیرے نکال کر اپنے بارہ انتہائی قابل اعتماد خدمت گزاروں کو دیے۔ وہ جانتا تھا کہ یہ بارہ جاں نثار اپنی جانیں قربان کر دیں گے لیکن بادشاہ یا قوم پر کسی قسم کی مصیبت نہیں آنے دیں گے۔ پھر بادشاہ کیگان نے انھیں دنیا کے بارہ مختلف مقامات کی طرف بھیجا اور کہا کہ ان ہیروں کو وہاں چھپا دو۔ کیگان نے انھیں ان دور دراز، اور سنسان علاقوں کے نام بھی بتا دیے، جہاں انھیں ہیرے چھپانے تھے۔ یہ جگہیں بادشاہ کو اس کے جادوگر زرومنا نے بتائے تھے۔ بادشاہ نے ان سے کہا کہ وہ دس سال کے عرصے میں ان سے فلسطین میں ملیں۔ ہیرے خود سے دور کرنے کا مطلب یہ تھا کہ اب اس کے پاس جادوئی قوتیں نہیں رہی تھیں، لیکن وہ یہ ہرگز برداشت نہیں کر سکتا تھا کہ جادوئی گولا اور ہیرے دوگان کے قبضے میں چلے جائیں۔”

    "دس سال…. یہ تو بہت زیادہ ہوتے ہیں۔” فیونا بولی۔

    "ہاں، لیکن بادشاہ نے انھیں دور دراز علاقوں میں بھیجا تھا اور پھر سواری بھی نہیں تھی۔ وہ زیادہ سے زیادہ گھوڑوں پر سفر کر سکتے تھے۔ بہرحال اپنے آدمی بھیجنے کے بعد اس نے شمالی اسکاٹ لینڈ کی طرف سفر شروع کیا اور یہاں قلعہ آذر تعمیر کرکے رہنے لگا۔ قلعے میں آنے کے بعد اس کے اور ملکہ سرمنتا کے کئی بچے پیدا ہوئے۔ بدقسمتی یہ ہوئی کہ کئی سال بعد جادوگر پہلان نے آخر کار اپنے جادو کے ذریعے یہ معلوم کر لیا کہ بادشاہ کیگان کہاں چھپا ہوا ہے، چناں چہ دوگان نے اپنے آدمیوں کو ان کے قتل کا حکم دے دیا۔ کیگان نے اپنی سلطنت سے نکلتے وقت تاریخ نویس کو بھی ساتھ لیا تھا، چناں چہ اس نے بادشاہ کے حکم پر یہ سارے واقعات اس کتاب میں قلم بند کر دیے۔ حتیٰ کہ ہیرے جہاں جہاں چھپائے گئے تھے، ان جگہوں کے نام بھی لکھوا دیے۔ بادشاہ کی طرف سے تاریخ نویس آل رائے کیتھمورکو یہ حکم دیا گیا تھا کہ وہ اس کتاب کے بغیر کہیں بھی نہیں جائے گا۔ یعنی وہ جہاں بھی جائے گا کتاب اپنے ساتھ لے کر جائے گا۔ چناں چہ ایک دن وہ مچھلی کا شکار کرنے جھیل کنارے گیا، وہاں بیٹھے بیٹھے اسے نیند آ گئی اور وہ سو گیا۔ جب اس کی آنکھ کھلی تو اس نے دیکھا کہ قلعے سے دھواں نکل رہا ہے۔ وہ گھبرا کر قلعے کی طرف دوڑا، لیکن وہاں اسے دہشت ناک مناظر دیکھنے کو ملے۔ بادشاہ کیگان اپنے خاندان سمیت خون میں لت پت پڑا تھا۔ حتیٰ کہ دوگان کے آدمیوں نے معصوم بچے کو بھی نہیں چھوڑا۔ تمام قلعے کو تباہ و برباد کر کے دوگان کے آدمیوں نے جادوئی گولا بھی ڈھونڈ لیا لیکن ہیروں کے بغیر۔ دوگان نے جادوئی گیند غصے کے عالم میں فرش پر دے مارا، کیوں کہ وہ کسی کام کا نہیں تھا۔ تاریخ نویس یہ دیکھ کر سخت گھبرا گیااور کتاب لے کر کہیں دور چلا گیا۔ کچھ عرصے بعد وہ پھر لوٹا اور یہ کتاب ایک صندوق میں بند کر کے اسے قلعے کے خفیہ کمرے میں رکھ دیا، اور پھر اسے لومنا جادوگر کی میز کے ساتھ آتش دان کے پیچھے دھکیل دیا۔ لو، یہاں تو میز کا مسئلہ بھی حل ہو گیا، کیا تم لوگوں نے وہاں جادوئی گیند بھی دیکھی تھی یا نہیں؟”

    کہتے کہتے اینگس نے ان کی طرف دیکھا۔ فیونا کو اب یقین آنے لگا تھا کہ اس کے انکل جو بتا رہے تھے وہ غلط نہیں تھا۔ اس نے جواب دیا۔ "ہم نے کوئی گیند وہاں نہیں دیکھی لیکن ہم وہاں دوبارہ جا کر اسے تلاش کرسکتے ہیں۔ وہ شاید خفیہ کمرے میں دیگر چیزوں کے ساتھ پڑی ہوگی۔ وہاں اندھیرا تھا اس لیے ہم نہیں دیکھ سکے، اس مرتبہ ہم فلیش لائٹ ساتھ لے کر جائیں گے۔”

    "تو کہانی ختم ہو گئی، انکل اینگس؟” جبران نے بے چینی سے پہلو بدل کر پوچھا۔ "چند باتیں اور۔” اینگس نے طویل سانس کھینچا۔ "آل رائے کیتھمور یہ کتاب اپنے ساتھ لیے پھرنے سے بہت خوف زدہ تھا، اسے دوگان اور پہلان جادوگر کا ڈر تھا، لیکن اسے سارے واقعات اس میں لکھنے بھی تھے، اس لیے وہ اسے ساتھ لیے پھرتا رہا۔ اب تم لوگوں کو یہ کتاب ملی ہے۔ اس میں یہ نہیں لکھا گیا ہے کہ کیگان کی بیٹیوں ازابیلا اور آنا کے ساتھ کیا ہوا؟ ہاں اس میں یہ ضرور لکھا ہے کہ جادوئی گولے کو صرف کیگان ہی کی اولاد استعمال کر سکتی ہے۔ جادوگر نے اسے بنایا ہی کچھ اس طرح تھا کہ اگر یہ دوگان جیسے دشمنوں کے ہاتھ لگ بھی جائے تو کسی کام کا نہ ہو۔ چناں چہ یہ عین ممکن ہے کہ ازابیلا اور آنا کو زندہ رکھا گیا ہو، اور ان کی اولاد بھی رہی ہو۔”

    "اگر ہم اسی وقت روانہ ہوں، تو ہم قلعۂ آذر پہنچ کر شام سے پہلے پہلے واپس آ سکتے ہیں۔” فیونا نے اچانک جبران اور دانیال کی طرف دیکھ کر کہا۔ وہ دونوں چونک اٹھے۔ اینگس نے کتاب بند کر کے آرام کرسی سے اٹھتے ہوئے کہا۔ "یہ پوری کہانی ایک عجوبہ ہے۔ جہاں تک میں سمجھا ہوں تم لوگوں کو بہت محتاط رہنا چاہیے۔ حالاں کہ ابھی مجھے اس سارے معاملے کے بارے میں مکمل علم حاصل نہیں ہوا ہے تاہم مجھے یہ معاملہ کچھ شیطانی لگ رہا ہے۔ بہرحال یہ ایک اچھا خیال ہے کہ تم لوگ قلعہ جا کر گولا ڈھونڈو۔ میرا خیال ہے کہ اگر یہ گولا کسی درست شخص کے ہاتھوں میں ہو تو یہ شیطانی قوتوں کے خلاف ایک مؤثر ہتھیار ثابت ہو سکتی ہے۔”

    اینگس نے الماری سے بسکٹ نکال کر انھیں دیے اور کہا "اچھا، اب تم لوگ جاؤ اور محتاط رہو۔”

    "ٹھیک ہے انکل، شکریہ۔” تینوں اینگس کے گھر سے نکلے تو اینگس نے ان کے پیچھے دروازہ بند کر دیا۔

    (جاری ہے….)

  • گیارہویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    گیارہویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    وہ تینوں حیرت سے یہ تفصیل سن رہے تھے۔ اینگس مزید بتانے لگے۔ "اس کی ساتویں بیوی امبر تھی، بیس برس کی، جب کہ شادی کے وقت رالفن اڑتیس کا ہو چکا تھا۔ وہ اسکیتھین نسل سے تھی اور ویسیگوتھز اور ونڈالز کے ساتھ جنگ کے دوران پکڑی گئی تھی۔ اس کی آٹھویں بیوی ایٹروسکن تھی۔”

    "انکل میں جانتی ہوں کہ وہ کہاں سے تھی، ایٹروسکن شمالی اٹلی میں رہتے ہیں، میں نے ان کے متعلق اسکول میں پڑھا۔” فیونا نے جلدی سے اپنی معلومات سے کام لیا۔

    "بالکل درست، اس کا نام کارینا تھا، اس کی عمر بھی بیس سال ہی تھی، جب کہ بادشاہ کی عمر چالیس تھی۔ نویں بیوی سیلٹک تھی، اس کے بال آتشیں سرخ تھے، وہ بے حد خوب صورت تھی، اور وہ غالباً آئرلینڈ سے تھی۔ وہ رالفن سے بہت چھوٹی تھی، اس وقت اس کی عمر صرف اٹھارہ سال تھی جب کہ رالفن تیتالیس سال کا ہو چکا تھا۔”

    "عمر کا یہ فرق تو واقعی بہت زیادہ ہے۔” فیونا جلدی سے بول اٹھی۔

    "ہاں، لیکن اس زمانے میں ایسا ہونا کوئی خاص بات نہیں تھی۔ دسویں بیوی کا نام ٹائنا تھا، جس کا تعلق قبرص سے تھا۔ وہ اور بھی چھوٹی تھی، کیوں کہ اس کی عمر شادی کے وقت صرف سترہ برس تھی، اور رالفن چھیالیس کا ہو گیا تھا۔ بادشاہ کی گیارہویں بیوی آنات تھی، جو مصری تھی۔ کتاب میں لکھا ہے کہ آنات کو الیگزینڈریا میں رالفن شاہی خاندان سے بھگا کر لایا تھا۔ شروع میں اس واقعے سے ہر طرف ہنگامہ مچ گیا تھا لیکن پھر دونوں میں محبت ہو گئی اور انھوں نے شادی بھی کر لی۔ اس کی عمر بہ مشکل پندرہ سال تھی، جب کہ بادشاہ پچاس کا ہو چکا تھا۔ اس کے بعد وہ آنات کے خاندان کے ساتھ مصالحت کرنے میں کامیاب ہو گیا اور وہ مصر کے ساتھ تجارت کرنے لگا۔ اس کی آخری بیوی چھوٹی سی ہیلینا اسپارٹا سے تھی، جسے اب تم یونان کے نام سے جانتے ہو۔ ہیلینا بہت ہی خوب صورت تھی۔ اس کی عمر شادی کے وقت صرف دس سال تھی۔”

    "کیا…. صرف دس سال!” فیونا کی آنکھیں نکل آئیں۔ "یعنی مجھ سے بھی ایک سال چھوٹی۔”

    "دراصل ہیلینا نے اپنی پسند سے اس کے ساتھ شادی کی تھی۔ وہ بادشاہ سے بے حد محبت کرتی تھی، ان کے دس بچے ہوئے۔”

    "دس بچے۔” فیونا اور جبران نے ایک دوسرے کو دیکھا اور پھر کھی کھی کرنے لگے۔ "اچھا سنو، شہنشاہ رالفن کے ڈیڑھ سو بچے جوانی ہی میں مر گئے تھے۔” اینگس نے کتاب کا صفحہ غور سے پڑھتے ہوئے کہا۔ "بلاشبہ یہ ایک بہت ہی شان دار خزانہ ہے جو تمھیں ملا ہے۔ یہ آج کے لیے تمھارا تاریخ کا سبق ہوا۔ اچھا، پھر ہوا یہ کہ جادوگر نے بادشاہ کو جادوئی گولا پیش کر دیا جس کے ساتھ ایک ہار بھی تھا۔ لومنا نے جب اس تحفے کی طاقتوں کی وضاحت کی تو بادشاہ نے اسے شکریے کے ساتھ قبول کر لیا اور اس کی بہت تعریف کی۔ لیکن یہ بات چھپی نہ رہ سکی، کیوں کہ گولا جس سنار نے تیار کیا تھا اس نے لوگوں سے یہ راز کہہ دیا۔

    رفتہ رفتہ پوری دنیا میں اس کے بارے میں مشہور ہو گیا۔ دور دراز سے لوگ حملہ آور ہو کر اس جادوئی گولے کو حاصل کرنے کی کوشش کرنے لگے۔ ایک شخص تو تقریباً کامیاب بھی ہو گیا تھا لیکن پھر بھی جادوئی گولا اس کے ہاتھ نہ آ سکا، ہاں جادوگر لومنا اس کے ہاتھوں مارا گیا۔ حملہ آور اسے بادشاہ سمجھا تھا۔ لومنا اس وقت میز کے سامنے بیٹھا پڑھ رہا تھا کہ حملہ آور نے اس کے دل میں تلوار گھونپ دی۔ اس واقعے سے شہنشاہ رالفن نہایت رنجیدہ ہو گیا۔ اس نے اس میز کو قومی نشان کا اعزاز بخشا، اور اس کے بعد پھر کوئی بھی اس میز پر نہیں بیٹھا۔”
    یکایک جبران اپنی جگہ سے اٹھا اور یوں بولنے لگا جیسے خواب میں بول رہا ہو۔ "کیا یہ وہی میز ہو سکتی ہے جو ہم نے کل قلعۂ آذر میں دیکھی تھی، ہو سکتا ہے اس پر خون کے دھبے اب بھی موجود ہوں؟”

    "عین ممکن ہے۔ کتاب میں لکھا ہے کہ لومنا نے سونے کی ایک تختی پر اپنا نام کھدوا کر اس میز پر اندر کی جانب لگا دی تھی۔” اینگس پھر کتاب کے مندرجات سنانے لگا۔

    دانیال نے پوچھا "جادوگر کو کس نے قتل کیا؟”

    "بارتولف نامی ایک شیطان بادشاہ نے، جو زناد نامی سرزمین سے آیا تھا، وہ ایک بزدل بادشاہ تھا۔ اور وہ رالفن ہی کا بھائی تھا لیکن اس کی طرح بہادر نہیں تھا۔ بارتولف کی چار بیویاں تھیں، جن کے نام صورت، جدائل، شہرت اور مزدل تھے۔ یہ بیویاں وہ اپنے ساتھ ہیڈرومیٹم ہی سے لایا تھا، وہ فونیزی نژاد تھیں، یعنی آج کے لبنان کے علاقے میں واقع قدیم تہذیب سے، بدقسمتی سے بارتولف اپنی بیویوں کے حق میں بہت ہی برا ثابت ہوا۔ کتاب میں لکھا ہے کہ وہ ان پر ظلم کرتا تھا۔ اس نے اپنے بھائی رالفن کو قتل کرنے کے لیے اپنے انتہائی ماہر قاتل بھیجے لیکن غلطی سے انھوں نے جادوگر لومنا کو قتل کر دیا۔ واقعے کے بعد محافظوں نے قاتلوں کو پکڑا اور پھانسی پر چڑھا دیا۔ کافی عرصے بعد جب بادشاہ رالفن کا انتقال ہو گیا تو جادوئی گولا اور بارہ قیمتی ہیروں والا ہار نسل در نسل منتقل ہوتے رہے۔ یہاں تک کہ بادشاہ کیگان پیدا ہوا۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ پینتالیسویں نسل تک ان میں بیٹے ہی پیدا ہوتے رہے۔ وہ میز بھی ان کے پاس رہی۔ کوئی بھی لومنا کی اچھائی کو بھلانا نہیں چاہتا تھا لیکن مجھے اس بات پر حیرت ہو رہی ہے کہ بادشاہ کیگان اور اس کا قلعہ ہائی لینڈ کے قبائل اور اسکاٹ لینڈ کے بادشاہ مالکولم کینمور سے کیسے اوجھل رہا؟ وہ لازمی طور پر اسکاٹ لینڈ بھیس بدل کر آتا ہوگا۔ اس نے یہاں کچھ وقت بھی گزارا ہوگا اور ظاہر ہے کہ وہ ایک بہت ہی معزز شخص کے روپ ہی میں ٹھہرا ہوگا۔” اینگس کے ماتھے پر لکیریں ابھر آئیں۔

    "وہ لازماً عربی لباس میں آیا ہوگا ،اسی طرح اس کے خدمت گار اور محافظ بھی عربی وضع قطع میں رہے ہوں گے۔” جبران نے اپنا خیال پیش کیا۔

    (جاری ہے….)