Tag: ہیرو شیما

  • ہیرو شیما: دنیا کے پہلے ایٹمی حملے کے 75 سال

    ہیرو شیما: دنیا کے پہلے ایٹمی حملے کے 75 سال

    جاپان کے شہر ہیرو شیما پر امریکی ایٹمی حملے کو 75 برس بیت گئے، رواں برس کرونا وائرس کی وجہ سے تقریب میں بہت کم افراد نے شرکت کی۔

    آج سے 75 برس قبل 6 اگست 1945 کی صبح امریکا نے ہیرو شیما پر ایٹم بم گرایا تھا جس کے نتیجے میں 1 لاکھ 40 ہزار افراد لقمہ اجل بنے تھے اور ہزاروں افراد معذور و زخمی ہوگئے تھے۔

    6 اگست کی صبح جاپان اور اس زندگی سے بھرپور شہر کے کسی باسی کو اس تباہی کا ادراک نہ تھا جو امریکی ہوائی جہاز کے ذریعے ایٹم بم کی صورت اس شہر پر منڈلا رہی تھی۔

    جاپان کے مقامی وقت کے مطابق صبح کے 8 بج کر 16 منٹ پر امریکی بی 29 بمبار طیارے نے لٹل بوائے ہیرو شیما پر گرا دیا۔ لٹل بوائے اس پہلے ایٹم بم کا کوڈ نام تھا۔

    ہیرو شیما پر قیامت ڈھانے والا ایٹم بم

    بم گرائے جاتے ہی لمحے بھر میں 80 ہزار افراد موت کی نیند سوگئے، 35 ہزار زخمی ہوئے اور سال کے اختتام تک مزید 80 ہزار لوگ تابکاری کا شکار ہو کر موت کی آغوش میں چلے گئے۔

    اس واقعے کے ٹھیک 6 دن بعد یعنی 15 اگست 1945 کو جاپانی افواج نے ہتھیار ڈال دیے اور دنیا کی تاریخ کی ہولناک ترین جنگ یعنی جنگ عظیم دوئم اپنے منطقی انجام کو پہنچی۔

    ہیرو شیما کے واقعے کے 3 دن بعد امریکہ نے ناگا ساکی پر بھی حملہ کیا، 9 اگست 1945 کو بی 29 طیارے کے ذریعے ناگا ساکی پر ایٹم بم گرایا گیا جس کا کوڈ نام ’فیٹ مین‘ رکھا گیا تھا۔

    جاپانی اعداد و شمار کے مطابق اس حملے میں لگ بھگ 70 ہزار افراد ہلاک ہوئے جن میں 23 سے 28 ہزار افراد جاپانی امدادی کارکن تھے جبکہ ایک بڑی تعداد جبری مشقت کرنے والے کورین نژاد افراد کی بھی تھی۔

    جاپان میں وہ افراد جن کے پاس ایٹمی حملوں میں بچ جانے کا سرٹیفیکٹ تھا انہیں ہباکشا کہا جاتا ہے، صرف ناگا ساکی میں ان کی تعداد 1 لاکھ 74 ہزار 80 بتائی جاتی ہے اور ان کی اوسط عمر 80 برس ہے۔

    ہیرو شیما میں 3 لاکھ 3 ہزار 195 افراد کو ہباکشا کا درجہ حاصل تھا اور ان کی تعداد بھی انتہائی تیزی سے کم ہو رہی ہے، یعنی اب اس واقعے کے عینی شاہد انتہائی قلیل تعداد میں رہ گئے ہیں۔

    ہیرو شیما کی تباہی کی یاد عالمی طور پر منائی جاتی ہے۔ اس روز خصوصی ریلی کے شرکا پیس میموریل تک جاتے ہیں اور مرحومین کی یاد میں پھول رکھے جاتے ہیں۔ آج کے دن کو ایٹمی عدم پھیلاؤ کے عالمی دن کے طور پر بھی منایا جاتا ہے۔

  • ہارا کیرے: سرسبز جزیرے پر باعزت موت!

    ہارا کیرے: سرسبز جزیرے پر باعزت موت!

    دوسری جنگِ عظیم کے دوران جب امریکی فوج نے جاپان کی سَرزمین پر اترنے کا فیصلہ کیا تو اوکیناوا ان کا انتخاب تھا۔

    یہ ایک جزیرہ ہے جس پر قبضہ کرکے اتحادی افواج منصوبہ بندی کے تحت جاپان کو بھرپور نقصان پہنچانا چاہتی تھیں۔ اس جزیرے پر قدم رکھنے سے پہلے امریکی فوج کی جانب سے وہاں‌ بے دریغ بم باری کی گئی۔

     

     

    ایک خوف ناک اور انتہائی ہلاکت خیز معرکہ سَر پر تھا۔ امریکا نے اس مشن کو ‘‘آئس برگ’’ کا نام دیا تھا۔ ایک لاکھ 83 ہزار امریکی فوجیوں کا مقابلہ کرنے کے لیے جاپان کے 77 ہزار جوان مورچہ بند تھے۔

     

     

    اس جزیرے پر جاپانی فوج کی قیادت لیفٹیننٹ جنرل میتسورو اوشی جیما کر رہے تھے۔ یکم اپریل 1945 کو امریکی فوجی جزیرے پر اُترے تو کسی کو مزاحم نہ پایا۔ دراصل جاپانی فوج نے دفاعی حکمتِ عملی اختیار کی تھی اور خندق میں‌ امریکیوں‌ کی پیش قدمی کا انتظار کررہے تھے۔ اطلاع تھی کہ ساحل پر موجود امریکی بحریہ پر حملہ کرنے کے بعد خشکی پر موجود فوج کے مقابلے کا حکم دیا جائے گا۔

     

     

    ان دنوں موسم خراب تھا، ہر طرف بادل اور کہرا تھا جس کی وجہ سے دور تک کچھ نظر نہیں آرہا تھا۔ جاپانی فوج نے ساحل پر حملہ کیا تو اتحادی فضائیہ نے انھیں شدید نقصان پہنچایا اور چاروں سمت سے جزیرے کی طرف بڑھتے ہوئے شمالی اوکیناوا کے کئى حصوں پر قبضہ کرلیا۔ جاپانی افواج کی جانب سے سخت مزاحمت اور بھرپور دفاع کیا جارہا تھا۔

     

     

    ہفتے مہینوں میں ڈھل رہے تھے۔ ہر طرف لاشیں، فوجی ساز و سامان، تباہ شدہ جہازوں کا ملبا بکھرا ہوا تھا۔ جاپانی فوج نے حکمتِ عملی کے تحت پیچھے ہٹنے کا فیصلہ کیا اور یہ کام اس منظم انداز سے کیا کہ کئی دن تک امریکی اسے سمجھنے میں ناکام رہے۔ تاہم اتحادی افواج اور امریکی حملوں نے جاپانی جنرل کو ایک اہم فیصلہ کرنے پر مجبور کر دیا تھا۔

    اٹھارہ جون کی شام جنرل اوشی جیما نے جاپانی فوج کے نائب چیف کو الوداعی پیغام بھیجا جس کے اختتام پر چند اشعار بھی رقم کیے۔ ان کا مفہوم کچھ اس طرح ہے کہ جزیر ے کی سرسبز و شاداب گھاس جو خزاں کے انتظار میں سو کھی ہے، وہ بہار میں دوبارہ معززینِ وطن کے لیے ہری ہوگی۔

     

     

    اس کمانڈر نے ہتھیار نہ ڈالتے ہوئے آخری دَم تک لڑنے کا حکم دیا جس کا مطلب تھا کہ یا تو جوان لڑیں یا پھر خودکُشی کرلیں۔ یہ حکم 19 جون کو دیا گیا تھا، اور چند روز بعد یعنی جون کی بائیس تاریخ کو لیفٹیننٹ جنرل اوشی جیما نے خود کُشی کرلی۔

    یہ ہارا کیرے تھا، یعنی وہ موت جسے باعزت تصور کیا جاتا ہے۔

  • جاپان کے شہر ہیرو شیما پر ایٹمی حملے کو 73 برس بیت گئے

    جاپان کے شہر ہیرو شیما پر ایٹمی حملے کو 73 برس بیت گئے

    ٹوکیو: جاپان کے شہرہیرو شیما پر امریکی ایٹمی حملے کو 73 برس بیت گئے۔ آج جوہری تجربات کی روک تھام کا عالمی دن بھی منایا جارہا ہے۔

    آج سے 73 برس قبل 6 اگست 1945 کی صبح امریکا نے ہیرو شیما پر ایٹم بم گرایا تھا جس کے نتیجے میں 1 لاکھ 40 ہزار افراد لقمہ اجل بنے تھے اور ہزاروں افراد معذور و زخمی ہوگئے تھے۔

    6 اگست کی صبح جاپان اور اس زندگی سے بھرپور شہر کے کسی باسی کو اس تباہی کا ادراک نہ تھا جو امریکی ہوائی جہاز کے ذریعے ایٹم بم کی صورت اس شہر پر منڈلا رہی تھی۔

    جاپان کے مقامی وقت کے مطابق صبح کے 8 بج کر 16 منٹ پر امریکی بی 29 بمبار طیارے نے ’لٹل بوائے‘ کو ہیرو شیما پر گرا دیا۔ لٹل بوائے اس پہلے ایٹم بم کا کوڈ نام تھا۔

    بم گرائے جانے کے بعد لمحے بھر میں 80 ہزار انسان موت کی نیند سوگئے، 35 ہزار زخمی ہوئے اور سال کے اختتام تک مزید 80 ہزار لوگ تابکاری کا شکار ہو کر موت کی آغوش میں چلے گئے۔

    ہیرو شیما کی تباہی کی یاد عالمی طور پر منائی جاتی ہے۔ اس روز خصوصی ریلی کے شرکا پیس میموریل تک جاتے ہیں اور مرحومین کی یاد میں پھول رکھے جاتے ہیں۔

    سنہ 1945 میں امریکا کی جانب سے ایٹمی حملوں کے 3 دن بعد جاپان نے ہار تسلیم کرلی اور 15 اگست کو باضابطہ طور پر سرنڈر معاہدے پر دستخط کردیے تھے۔