Tag: ہیرے جواہرات

  • 1 ارب روپے مالیت کے اس پرس کی خاص بات کیا ہے؟

    1 ارب روپے مالیت کے اس پرس کی خاص بات کیا ہے؟

    اٹلی کے ایک برینڈ نے دنیا کے مہنگے ترین ہینڈ بیگ کی رونمائی کردی، اس ہینڈ بیگ کی قیمت 60 لاکھ یوروز یعنی 1 ارب پاکستانی روپے سے زائد ہے۔

    اطالوی برینڈ بورینی میلانیز نے دنیا کے مہنگے ترین پرس کی رونمائی کی ہے، قیمتی ہیرے جواہرات جڑے یہ ہینڈ بیگز صرف 3 بنائے گئے ہیں اور ہر بیگ کی تیاری میں 1 ہزار گھنٹے صرف ہوئے ہیں۔

    اس بیش قیمت ہینڈ بیگ کو بنانے کا ایک مقصد ہے، سماجی رابطے کی ویب سائٹ انسٹاگرام پر اس بیگ کی ویڈیو جاری کرتے ہوئے بورینی میلانیز نے لکھا کہ یہ دنیا کا مہنگا ترین بیگ ہے اور اسے بنانے کا مقصد سمندروں کی حفاظت کی طرف توجہ دلانا ہے جو پلاسٹک کے کچرے کی وجہ سے سخت خطرات کا شکار ہیں۔

     

    View this post on Instagram

     

    A post shared by BOARINI MILANESI (@boarinimilanesi)

    میلانیز کی جانب سے لکھا گیا کہ ان بیگز کی آمدنی کا ایک حصہ سمندروں کی صفائی کے لیے عطیہ کیا جائے گا۔

    یہ بیش قیمت پرس مگر مچھ کی کھال سے بنایا گیا ہے اور اس کا رنگ سمندر سے ملتا جلتا چمکدار نیلگوں ہے، اس پر موجود تتلیاں وائٹ گولڈ سے بنائی گئی ہیں جبکہ اس کا کلپ ہیرے سے بنایا گیا ہے۔

    تتلیوں کے اندر بھی ہیرے اور قیمتی نیلم جڑے ہیں۔

    بیگ کی ڈیزائنر کیرولینا بورینی کہتی ہیں کہ اس کا سبز، نیلا اور سفید رنگ ان سمندروں کی طرف اشارہ ہے جو آلودگی سے قبل صاف شفاف تھے۔

    اس مہنگے ترین پرس کی قیمت 60 لاکھ یوروز یعنی پاکستانی 1 ارب 14 کروڑ 45 لاکھ 71 ہزار 962 روپے ہے۔

    یاد رہے کہ ہمارے سمندر اس وقت پلاسٹک کے کچرے کا گڑھ بنتے جارہے ہیں، نیدر لینڈز کے ماحولیاتی ادارے گرین پیس کے مطابق دنیا بھر میں 26 کروڑ ٹن پلاسٹک پیدا کیا جاتا ہے جس میں سے 10 فیصد ہمارے سمندروں میں چلا جاتا ہے۔

    اقوام متحدہ کے مطابق سنہ 2050 تک ہمارے سمندروں میں مچھلیوں اور دیگر آبی حیات سے زیادہ پلاسٹک موجود ہوگی۔

  • جواہرات

    جواہرات

    نیلگوں آسمان پر سفید سفید بادل تیر رہے تھے۔ آمدِ سحر کی خبر پاکر چاند کا رنگ فق ہوگیا اور اس نے بادل کے ایک چھوٹے سے ٹکڑے کے پیچھے اپنا منہ چھپا لیا۔

    مرمریں محل کی ایک کھڑکی کے پاس جس کے نیچے روپہلی ندی گنگناتی بہتی چلی جارہی تھی۔ ایک نوعروس، صبح کی پُرتبسم فضا میں بُت بنی کھڑی تھی۔ بلبلیں قفس کے گوشے میں آرام کررہی تھیں۔ محل کے دروازے کے سامنے کشتیاں نسیمِ سحر کی پیدا کی ہوئی ہلکی ہلکی موجوں کے بہاﺅ میں لڑکھڑاتے ہوئے جارہی تھیں۔

    دلہن کے پیچھے ایک پلنگ پر لباسِ عروسی پڑا تھا۔ ایک زمرد کی ترشی ہوئی صندوقچی پر زیورات پریشان تھے۔

    دلہن اپنے ہاتھوں میں جواہرات کا ایک ہار لیے ہوئے تھی۔ کمرے کی تاریک فضا میں اس ہار کے دانے اس طرح دمک رہے تھے جیسے کسی مقدس بزرگ کے پُرنور چہرے کے گرد روشن حلقہ بنایا ہوا ہو۔

    اس نے اپنی نازک گردن میں اس ہار کو پہنا اور پھر اتار دیا اور ندی میں طلوعِ آفتاب کا نظارہ کرنے کے لیے دریچے سے جھانکنے لگی۔ ندی میں سے سورج کا لرزتا ہوا عکس اس کے سنہری بالوں کو الگ الگ کرکے منور کررہا تھا۔

    دلہن اس قدر مسرور تھی کہ اس کے ذہن میں کسی ایک خیال کی گنجائش نہ تھی اور دھندلی فضا میں ندی کے آس پاس جھلملاتی ہوئی بستی کا خوب صورت نظارہ اس کی مستور مسرتوں کا ایک پرتو تھا۔ جب سورج نے دور اُفق پر درختوں کے جھنڈ سے سَر نکالا۔ سپید ہار کے دانے اور بھی جگمگانے لگے۔

    ایک سبک رفتار کشتی بادل کے سائے کے مانند محل کے اس طرف نمودار ہوئی۔ دلہن کی نگاہ اس پر پڑی، کشتی کے اندر کافوری کفن میں لپٹا ہوا ایک جنازہ رکھا تھا اور اس کے سرہانے ایک عورت بنفشی لباس پہنے رو رہی تھی۔ کفن پر کچھ زرد رنگ کے پھول پڑے تھے۔

    اس درد ناک منظر نے دلہن کے نازک دل پر اس قدر اثر کیا کہ اس کا تمام جسم کانپ اٹھا اور اس کے ہاتھوں سے زمرد کی مالا گر کر کشتی میں بیٹھی ہوئی غمگین عورت کی گود میں جا پڑی۔ کشتی تھوڑی دیر میں سورج کی شعاعوں میں غائب ہوگئی۔

    دلہن کو ہار کے کھو جانے کی کوئی خبر نہ تھی۔ غم زدہ ماں اور جنازے نے اس کے مضطر خوابوں کو آوارہ کر دیا تھا۔ اس نے محسوس کیا کہ مہیب ہاتھ اس کی راحتوں اور امیدوں کو چھیننے کے لیے رات کی سیاہی کی طرح آہستہ آہستہ اس طرف بڑھتا چلا آرہا ہے۔

    وہ معمورۂ عالم میں تنِ تنہا، رنج اور دہشت سے کانپ رہی تھی اور سورج کی کرنیں جو تھوڑی دیر پہلے جواہرات کو منور کررہی تھیں اس کے آنسوﺅں میں چمکنے لگیں۔

    دوسری طرف وہ عورت تھی جو کشتی میں اپنے مردہ بیٹے کے غم میں نڈھال بیٹھی تھی۔ اس نے ہار کو اپنی گود میں گرتے ہی دبوچا اور جب اس نے ایسے انمول جواہرات کو اپنے قبضے میں پایا جن کا ثانی اسے تمام عمر نصیب نہ ہوا تھا، اس کے پُر درد آنسوﺅں میں ایک مسکراہٹ نمودار ہوگئی۔

    ملاح سے نظر بچا کر اس نے بچے کے کفن کی طرح سپید ہار کو اپنے بنفشی لباس میں چھپا لیا اور نعمتِ غیر مترقبہ نے اس کے دل سے سب رنج و غم مٹا دیا۔

    اس کہانی کی برطانوی مصنف مارجوری بوون (Marjorie Bowen) تاریخی واقعات اور مہم جوئی پر مبنی قصوں‌ کے علاوہ پُراسرار، ڈراؤنی اور مافوق الفطرت کہانیاں تخلیق کرنے کے لیے مشہور ہیں۔ ان کی پیشِ نظر کہانی کو بدرالدین نے اردو کے قالب میں‌ ڈھالا ہے۔

  • ہیرے جواہرات سے مزین جہاز کی حقیقت سامنے آگئی

    ہیرے جواہرات سے مزین جہاز کی حقیقت سامنے آگئی

    دبئی: پاکستان کی نوجوان آرٹسٹ نے ایمرٹس ائیر لائن کے طیارے کو ہیروں سے مزین کر کے سب کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا۔

    تفصیلات کے مطابق سوشل میڈیا پر متحدہ عرب امارات کی فضائی کمپنی کے جہاز کی ایک تصویر وائرل ہوئی جو رن وے پر کھڑا ہوا تھا، حیران کن بات یہ تھی کہ یہ طیارہ عام نہیں بلکہ قیمتی ہیرے جواہرات سے مزین تھا۔

    ایمرٹس ائیرلائن نے بھی سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر تصویر شیئر کرتے ہوئے لکھا کہ ’یہ بوئنگ 777 طیارہ ہے‘۔

    ائیرلائن کی طرف سے ایک اور ایسا ٹویٹ کیا گیا جس میں تصدیق کا عنصر شامل تھا۔

    گلف نیوز کی رپورٹ کے مطابق یہ تصویر سب سے پہلے انسٹاگرام اکاؤنٹ پر سارا شکیل نامی خاتون نے کی جو پاکستان سے تعلق رکھتی ہیں، سوشل میڈیا صارفین نے تصویر کو بہت پسند کیا اور یہ وائرل ہوگئی۔

    ایمرٹس ایئر لائن کے علم میں جب یہ بات آئی تو انہوں نے بھی تصویر اپنے سوشل میڈیا فارم پر شیئر کردی تاکہ لوگ متاثر ہوں۔

    سارا نے ایک اور تصویر اپنے انسٹاگرام پر شیئر کی جس میں انہوں نے دکھایا کہ چائے کے کپ سے ہیرے باہر نکل رہے ہیں، انہوں نے تاثر دیا کہ یہ جہاز کے اندر کی تصویر ہے۔

    گلف نیوز کی رپورٹ کے مطابق ایمرٹس ایئر لائن نے اس بات کی تصدیق کی کہ اُن کے پاس اس طرح کا کوئی قیمتی جہاز موجود نہیں البتہ یہ تصویر پاکستانی آرٹسٹ کا کاررنامہ ہے۔

    رپورٹ کے مطاپق سارا شکیل دانتوں کی ڈاکٹر ہیں اور وہ بہت اچھی آرٹسٹ بھی ہیں، سارا اپنے آرٹ کی تصاویر انسٹاگرام پر شیئر کرتی رہتی ہیں جسے صارفین بہت پسند کرتے ہیں یہی وجہ ہے کہ اُن کے فالوورز کی تعداد پانچ لاکھ تک پہنچ گئی۔

    خاتون کا کہنا تھاکہ میں نے گلیٹر اور چمک استعمال کر کے جہاز کو ایسا بنایا، لوگ سمجھ رہے ہیں کہ شاید یہ ہیروں سےمزین طیارہ ہے مگر ایسا ہرگرز نہیں ہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ اپنے آرٹ میں ہیروں اور جواہرات کا تاثر دینے کی کوشش کرتی رہتی ہوں۔