Tag: ہیموں کالانی

  • ہیموں کالانی: تحریکِ آزادی میں وادیٔ مہران کے لازوال کردار کا تذکرہ

    ہیموں کالانی: تحریکِ آزادی میں وادیٔ مہران کے لازوال کردار کا تذکرہ

    برصغیر میں آزادی کی خاطر انگریزوں فوج سے ٹکرانے والے ہیموں کالانی کا شمار تحریکِ آزادی کے سب سے کم عمر کارکنوں میں ہوتا ہے۔ ہمیوں کالانی کو انگریز سرکار نے پھانسی کی سزا دی تھی۔

    ہیموں کا پورا نام ہیمن داس کالانی تھا۔ پیسو مل کالانی کے گھر پیدا ہونے والے اس بچے کو پیار سے ’ہیموں‘ پکارا جاتا تھا۔ ان کے والد ٹھیکیدار تھے۔ ہیموں 11 مارچ 1923ء کو پیدا ہوئے اور سکھر میں ان کا جیون گزرا۔ ہیموں بچپن میں کھیلوں کے شوقین تھے اور باقاعدگی سے اکھاڑے میں جاتے تھے۔ تیراکی کا شوق بھی تھا۔ ساتھ ہی ہیموں مقامی سکول میں پڑھ رہے تھے۔ ان کے چچا اس وقت سیاسی سرگرمیوں میں بھرپور حصہ لیتے تھے۔ اور ان کا مقصد فرنگیوں کی حکومت کا خاتمہ تھا۔ ہیموں بھی آزادی کا خواب دیکھتے اور کارکنوں کا جوش و جذبہ دیکھتے بڑا ہورہا تھا۔ سکھر یوں بھی سیاسی طور پر ایک بیدار شہر تھا۔ جنگ عظیم، ہندوستان چھوڑ دو تحریک، کرپس مشن اور اس جیسے کئی واقعات اور تحریکوں نے ہیموں کو بھی ایک جذبے سے سرشار کردیا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ انھیں اطلاع ملی کہ اسلحے سے بھری فرنگیوں کی ایک ٹرین سکھر آرہی ہے۔ طے پایا کہ پٹڑی اکھاڑ دی جائے۔ اس کام کے لیے جب آزادی کے متوالوں کی طرف دیکھا گیا تو جوانی کی دہلیز پر قدم رکھنے والے ہیموں اور ان کے چند ساتھیوں نے یہ کام اپنے ذمے لے لیا۔ لیکن کارروائی کرنے کے بعد باقی ساتھ فرار ہونے میں کام یاب ہوگئے جب کہ ہیموں کو پکڑ لیا گیا۔

    ہیموں کو تاجِ برطانیہ کا باغی قرار دے کر شدید تشدد کا نشانہ بنایا گیا، لیکن اس نے اپنے ساتھیوں کے نام نہیں‌ بتائے۔ اس کا مقدمہ اسپیشل ٹریبیونل میں چلایا گیا جہاں وکیلوں نے اپنی خدمات رضاکارانہ پیش کیں۔ مگر اسپیشل ٹریبیونل نے اسے بارہ سال کی سزا سنا دی اور بعد میں اسے سزائے موت میں بدل دیا گیا۔ ہیموں نے جان کی قربانی دے کر آزادی کے متوالوں کا جوش و ولولہ بڑھا دیا اور اس کی موت کے چار سال کے اندر اندر انگریزوں کو ہندوستان چھوڑنا پڑا۔

    21 جنوری کی صبح ہیموں کو پھانسی دے دی گئی۔ اس نوجوان نے ابھی صرف میٹرک کا امتحان پاس کیا تھا۔ مؤرخین لکھتے ہیں کہ ہیموں کی موت کے بعد سندھ کے شہروں میں احتجاجی اجتماعات ہوئے۔ کراچی میں سوامی نارائن مندر میں سیاہ جھنڈے لہرائے گئے اور سادھو بیلو میں ہیموں کالانی کی تصویر لگائی گئی۔ تقسیم کے بعد ہیموں کالانی کا خاندان بھارت چلا گیا تھا۔

  • جب سندھ کے 20 سالہ میٹرک پاس نوجوان کو پھانسی دی گئی!

    جب سندھ کے 20 سالہ میٹرک پاس نوجوان کو پھانسی دی گئی!

    ’ہیمو کو صبح سویرے پھانسی دے دی گئی۔ شام کو ورثا نے اس کی لاش وصول کی۔ آزادی کے اس متوالے کی عمر 20 برس تھی۔ اسے یونین جیک سے نفرت تھی۔ وہ انگریز راج کا مخالف اور سرکار کا باغی تھا۔

    21 جنوری 1943ء کو ہیمو کالانی کو پھانسی دی گئی تھی جس کے خلاف تعلیمی اداروں میں طلبا اور سندھ کے شہروں میں عوام نے احتجاج کیا۔ آخری رسومات کی ادائیگی پرانے سکھر میں انجام پائی اور اسے اگنی سنسار کیا گیا۔

    ہیمو کالانی تحریکِ آزادی کے کم عمر کارکنوں میں شامل تھا۔ اس نے میٹرک کا امتحان پاس کیا تھا جس کے بعد وہ پھانسی گھاٹ پہنچ گیا۔

    ہیمو کا پورا نام ہیمن داس کالانی تھا جس کے والد تعمیراتی ضروریات کا سامان یعنی ریتی بجری کی دکان چلاتے تھے۔ سکھر کے اس نوجوان کو پیار سے ’ہیمو‘ پکارا جاتا تھا۔ ہمیو کا سنِ پیدائش 1922ء یا 1923ء ہے۔ اس نے دورانِ تعلیم کشتی لڑنے کا شوق بھی پورا کیا۔ اس کے چچا ڈاکٹر منگھا رام کالانی طلبہ تنظیم سوراج سنہا سے وابستہ تھے۔ ہمیو پر ان کا بڑا اثر تھا۔ جدوجہدِ آزادی اور تحاریک کا سلسلہ زوروں پر تھا اور ہمیو اپنے چچا کی باتوں اور ان کی انقلابی فکر سے متاثر ہو کر انگریزوں سے نفرت اور انقلاب میں کشش محسوس کرنے لگا تھا۔

    وہ وقت بھی آگیا جب ہیمو کالانی ایک تخریبی منصوبے اور بغاوت کے الزام میں گرفتار ہوا۔ وہ سکھر کے قریب ریلوے لائن اکھاڑنے کے جرم میں گرفتار ہوا۔ اس پٹڑی سے اسلحے سے بھری ٹرین کو گزرنا تھا۔ ہیمو کا مقدمہ مارشل لا ٹریبونل حیدرآباد ہیڈ کوارٹر منتقل کیا گیا۔ جہاں مارشل لا ایڈمنسٹریٹر میجر جنرل رچرڈسن نے ہیمو کالانی کی عمر قید کی سزا کو سزائے موت میں تبدیل کردیا۔

    ہیمو کالانی کے ساتھ اس واردات میں اس کے دیگر باغی ساتھی بھی شریک تھے، جن کے نام اس انقلابی نے ظاہر نہیں کیے اور بیان دیا کہ اس نے اکیلے ہی یہ کام کیا تھا۔ انگریز دور میں سندھ سے تعلق رکھنے والے اس نوجوان کا نام اور اس کا تذکرہ آج شاذ ہی ہوتا ہے، اور یہ اس لیے بھی کہ تقسیم کے بعد آزادی کے ہیروز اور انقلابیوں کا بھی بٹوارا ہوگیا، لیکن تاریخ کے صفحات میں ہیمو کالانی کا نام اور آزادی کے لیے اس کی قربانی کا ذکر ضرور موجود ہے۔