کرونا وائرس کی وبا کے دوران سینی ٹائزر کا استعمال لازمی بن چکا ہے تاہم ماہرین نے سینی ٹائزر کو بچوں کے لیے خطرناک قرار دیا ہے۔
حال ہی میں ہونے والی ایک تحقیق میں پتہ چلا کہ سینی ٹائزر کا غلط استعمال بچوں کی آنکھوں کے لیے خطرناک ہوتا ہے اور بعض سینی ٹائزرز بے حد خطرناک ہوتے ہیں۔
طبی جریدے جاما نیٹ ورک میں شائع ایک تحقیق کے مطابق سینی ٹائزر کے ڈراپس براہ راست آنکھوں میں جانے یا سینی ٹائزر کے استعمال کے بعد ہاتھوں کو آنکھوں سے لگانے سے بچوں کے لیے مشکلات پیش آسکتی ہیں۔
فرانسیسی ماہرین کی جانب سے کی جانے والی تحقیق میں بتایا گیا کہ اپریل سے لے کر اگست 2020 تک سینی ٹائزر استعمال کرنے والے زیادہ تر بچوں کی آنکھوں کے پردے (کورنیا) پھٹ گئے اور ہنگامی بنیادوں پر ان کی سرجری کرنی پڑی۔
تحقیق میں بتایا گیا کہ جن بچوں کی آنکھوں کے کورنیا پھٹے ان میں سے زیادہ تر بچوں کی آنکھوں میں سینی ٹائزرز کے ڈراپس چلے گئے تھے، تاہم بعض بچوں نے سینی ٹائزر کے استعمال کے بعد آنکھوں پر ہاتھ بھی لگائے تھے۔
مذکورہ تحقیق میں بھارتی ماہرین نے بھی فرانسیسی ماہرین کی معاونت کی اور انہوں نے بھی ایسے واقعات بتائے، جن سے ثابت ہوا کہ سینی ٹائزر بچوں کی آنکھوں کے لیے خطرناک ہوتے ہیں۔
ماہرین کے مطابق زیادہ تر سینی ٹائزرز میں الکوحل کی ہلکی قسم ایتھنول یا ایتھنائل ہوتی ہے، جسے عام طور پر مشروبات میں بھی آمیزش کے لیے استعمال کیا جاتا ہے اور اس مادے میں شامل بعض ذرات اتنے شدید ہوتے ہیں کہ وہ آنکھوں کے پردوں کو بھی نقصان پہنچا سکتے ہیں۔
ماہرین نے تجویز دی کہ بچوں کو سینی ٹائزر کے بجائے صابن استعمال کرنے کی ترغیب دی جائے یا پھر سینی ٹائزر کے بعد سادہ پانی سے بچوں کے ہاتھ دھو دیے جائیں۔
آئیووا: امریکا کی ایک ریاست میں ایک شخص بینک کا شیشہ توڑ کر اندر گیا تو اس نے ایک ایسی چیز چرائی جس کے بارے میں جان کر پولیس بھی حیران ہو گئی۔
غیر ملکی میڈیا کے مطابق امریکی ریاست آئیووا کی پولیس کو سیکورٹی نیشنل بینک کی جانب سے ایمرجنسی کال موصول ہوئی، بتایا گیا کہ کوئی بینک کا شیشہ توڑ کر اندر آیا ہے اور ڈکیتی کی گئی ہے۔
پولیس کا کہنا تھا کہ جب اہل کار بینک پہنچے تو وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ چور نے بینک سے ہینڈ سینی ٹائزر کے علاوہ کچھ نہیں چرایا تھا، ہینڈ سینی ٹائزر لے کر وہ دوبارہ بھاگ گیا تھا۔
معلوم ہوا کہ 39 سالہ شخص مارک گرے نے آدھی رات کے بعد بینک کا شیشہ توڑا اور اندر داخل ہو کر اس نے صرف ہینڈ سینی ٹائزر کی بوتل چرائی، اور بھاگ گیا، تاہم پولیس نے بعد ازاں اسے گرفتار کر لیا۔
پولیس کا کہنا تھا کہ سیوکس سٹی میں پے در پے تین ڈکیتیاں کی گئی تھیں، جس کے پیش نظر گرفتار شخص مارک گرے کو پولیس حراست میں رکھنے کا فیصلہ کیا گیا اور اس کے خلاف سینٹی ٹائزر چرانے کا مقدمہ درج کیا گیا۔
پولیس ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے جاری پریس ریلیز میں کہا گیا تھا کہ منگل کی صبح سب سے پہلے وہ ایک کونسلنگ سینٹر میں ڈکیتی کی شکایت پر تحقیقات کے لیے گئے لیکن پتا چلا کہ کچھ بھی نہیں چرایا گیا ہے، بعد ازاں پولیس کو ایک مقامی ریسٹورنٹ کے ٹوٹے شیشے کی شکایت پر جانا پڑا، پولیس کو اس تفتیش کے دوران معلوم ہوا کہ ان تینوں واقعات میں مارک گرے نامی شخص ملوث ہے۔
گرے کو تھرڈ ڈگری چوری کے تین الزامات کے تحت وُڈبری کاؤنٹی جیل بھیجا گیا۔
واضح رہے کہ کرونا وائرس کی عالم گیر وبا کے ابتدائی مہینوں میں ہینڈ سینٹی ٹائزر کی طلب بہت زیادہ بڑھ گئی تھی اور کئی ممالک میں اس کی قلت ہو گئی تھی، جب کہ سینٹی ٹائزر چوری کرنے کی وارداتیں بھی عروج پر پہنچ گئی تھیں، حتیٰ کہ اسپتالوں سے بھی ہینڈ سینی ٹائزرز چرائے گئے۔
آتش گیر مادوں کے ماہرین نے اس اہم ترین سوال کا جواب فراہم کیا ہے کہ کیا بند اور گرم گاڑی کے اندر ہینڈ سینی ٹائزر کے آگ پکڑنے کا امکان ہے؟
اس سلسلے میں غیر ملکی میڈیا میں ایک اہم رپورٹ شایع ہوئی ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ کسی بند اور گرم گاڑی کے اندر ہینڈ سینی ٹائزر سے خود بہ خود آگ لگنے کا بالکل بھی کوئی امکان نہیں ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ شیئر ہوئی، جس میں ایک گاڑی کی تصویر دی گئی، اور دعویٰ کیا گیا کہ اندر کی طرف گاڑی کے دروازے کا پینل ہینڈ سینی ٹائزر کی وجہ سے جل کر پگھل گیا ہے، یہ پوسٹ سوشل میڈیا پر تیزی کے ساتھ وائرل ہوئی اور لوگ اس پر یقین کرنے لگے کہ ہینڈ سینی ٹائزر میں خود بہ خود بھی اچانک آگ لگ سکتی ہے۔
14 مئی 2020 کو شیئر ہونے والی مذکورہ تصویر کو اب تک 15 ہزار مرتبہ شیئر کیا جا چکا ہے، اس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ سینی ٹائزر نے گاڑی میں 35 ڈگری سینٹی گریڈ پر آگ پکڑی۔ یہ تصوری پرتگیزی، برازیلی اور فرانسیسی شہریوں نے بھی شیئر کی، تاہم یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ اسے پہلی بار کس نے شیئر کیا۔
فائر ایکسپرٹس کا کہنا ہے کہ الکحل سے بنا سینی ٹائزر بلاشبہ آتش گیر کیٹیگری میں آتا ہے، تاہم اس کا بالکل بھی امکان نہیں ہے کہ اس میں اچانک آگ بھڑک اٹھے۔ ٹورنٹو فائر سروس نے ٹویٹر پر کہا کہ ہینڈ سینی ٹائزر میں کسی گرم گاڑی کے اندر اچانک آگ نہیں بھڑکے گی۔ امریکی نیشنل فائر پروٹیکشن ایسوسی ایشن نے بھی ٹویٹر پر اس کی تردید کی، اور یہ ہدایت کی کہ سینی ٹائزر کو سورج کی براہ راست شعاعوں سے دور رکھا جائے۔
آگ پکڑنے کی خصوصیت
ماہرین کے مطابق ہینڈ سینی ٹائزرز فلیمیبل یعنی آتش گیری خصوصیت کے حامل ہیں۔ کینیڈا کے محکمہ صحت کی ہدایت ہے کہ الکحل والے ہینڈ سینی ٹائزرز پر آگ پکڑنے کی یہ تنبیہہ ضرور لکھی جائے گی کہ ‘آگ کے شعلے اور حرارت کے ذرایع سے دور رکھیں’۔
نقطہ اشتعال
ماہرین کے مطابق ہینڈ سینی ٹائزر کا فلیش پوائنٹ یعنی نقطہ اشتعال کم ہے، فلیش پوائنٹ وہ نقطہ ہے جس پر پہنچ کر کوئی مایع بخارات پیدا کرتا ہے، جو آگ پکڑ سکتے ہیں۔ ٹورنٹو فائر سروس کے ڈپٹی چیف لیری کوکو کا کہنا ہے کہ ہینڈ سینی ٹائزر عموماً 60 سے 70 فی صد ایتھانول یا ایسوپروپائل الکحل کا مرکب ہوتا ہے۔ امریکی نیشنل سینٹر فار بائیوٹیکنالوجی انفارمیشن کے مطابق ایتھانول کا نقطہ اشتعال 55 فارن ہائٹ (12.8 C) اور ایسوپروپائل الکحل کا 53 فارن ہائٹ ہوتا ہے۔
ماہرین کا کہنا تھا کہ مذکورہ پوسٹ میں ہینڈ سینی ٹائزر کے اچانک آگ پکڑنے سے متعلق جو دعویٰ کیا گیا ہے وہ گمراہ کن ہے، سینی ٹائزرز عموماً ایسی بوتل میں ہوتے ہیں جس پر ڈھکن یا پمپ ہوتا ہے، لہٰذا اس کے بخارات اندر بند رہتے ہیں اور ان میں آگ نہیں بھڑک سکتی۔ اگر مایع گاڑی کے اندر کسی کھلے برتن میں رکھا گیا ہے تو سائنسی نظریہ یہی ہے کہ اس میں بخارات پیدا ہو سکتے ہیں، تاہم ایسی صورت میں آگ بھڑکنے کے لیے کوئی ذریع ہونا چاہیے، کھڑی گاڑی میں ایسے ذرایع نہیں ہوتے۔
کوکو کا کہنا تھا کہ ایک صورت ممکن ہے کہ اگر بوتل کے اندر بخارات بوتل کو توڑ دے، لیکن اس کے لیے 80 ڈگری سیلسئس کا نقطہ ابال یعنی بوائلنگ پوائنٹ درکار ہے۔ کسی ہینڈ سینی ٹائزر کو خود بہ خود بھڑک اٹھنے کے لیے 400 سیلسئس تک پہنچنا ہوگا۔
غیر ضروری خطرے سے بچیں
امریکی سینٹر فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریونشن نے مشورہ دیا ہے کہ اگر پانی اور صابن دستیاب نہ ہوں تو صرف اسی صورت میں 60 فی صد الکحل والے ہینڈ سینی ٹائزر استعمال کیے جائیں۔ ٹورنٹو فائر سروسز نے اس میں اضافہ کیا کہ ہینڈ سینی ٹائزر کے استعمال کے وقت ہاتھ اس وقت تک رگڑنے چاہیئں کہ وہ مکمل طور خشک ہو جائیں۔
ہینڈ سینی ٹائزر استعمال کے فوراً بعد سگریٹ، موم بتی یا گیس بتی جلاتے وقت بہت احتیاط سے کام لیا جائے۔
لندن: برطانیہ میں چور اسپتال کی دیوار پر نصب ہینڈسینی ٹائزر لے کر فرار ہوگیا۔
غیرملکی خبررساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق برطانیہ کے علاقے ’’نارتھ امتھن‘‘ میں چور نے مقامی اسپتال کی دیوار پر نصب سینی ٹائزر کو اکھاڑا اور لے کر رفو چکر ہوگیا۔
چور کی سی سی ٹی وی فوٹیج بھی سامنے آگئی۔ ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ چور نے بڑی مہارت سے ہاتھ صاف کیا۔ پولیس نے شہریوں سے اپیل کی ہے کہ وہ ملزم کی گرفتاری میں اپنا کردار ادا کریں۔
Shocking footage of a man stealing hand-sanitiser off the wall at Northampton General Hospital. 😡😡😡 pic.twitter.com/YPkxsyTPdZ
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یہ واقعہ 9 مارچ کو پیش آیا البتہ سی سی ٹی وی آج منظر عام پر آئی۔ واردات کے دوران سینی ٹائزر جس دیوار میں نصب تھی وہ بھی متاثر ہوئی۔ خیال رہے کہ کروناوائرس کے پیش نظر برطانیہ میں ہیڈسینی ٹائزر کی قلت کا سامنا ہے۔ پولیس نے ملزم کی گرفتاری کے لیے تحقیقات کا آغاز کردیا۔
یاد رہےکروناوائرس سے برطانیہ میں اب تک کی سب سے زیادہ اموات آج ریکارڈ کی گئی۔ نیشنل ہیلتھ سروس کا کہنا ہے کہ ملک میں ایک دن میں تقریباً 400افراد ہلاک ہوئے۔ جبکہ برطانیہ میں کرونا سے ہلاکتوں کی تعداد 1808 ہوگئی۔
سوشل میڈیا پر کرونا وائرس سے بچاؤ کے لیے لگائے جانے والے سینی ٹائزر کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ یہ آگ پکڑ سکتے ہیں لہٰذا انہیں لگا کر چولہے کے پاس نہ جایا جائے۔
کچھ جھلسے ہوئے ہاتھوں کی ایسی تصاویر بھی شیئر کی گئیں جن میں کہا گیا کہ مذکورہ شخص سینی ٹائزر لگانے کے بعد چولہے کے پاس گیا جس سے اس کے ہاتھوں میں آگ لگ گئی۔
سعودی ویب سائٹ پر شائع شدہ ایک رپورٹ کے مطابق سینی ٹائزر میں الکوحل کی تعداد اگر 50 سے 70 فیصد ہو تو بھی ایک فیصد ہی اس بات کا امکان ہوتا ہے کہ یہ آگ پکڑ سکے۔
اسلام آباد میں ہیلتھ سروسس اکیڈمی کے ایسوسی ایٹڈ پروفیسر ڈاکٹر اعجاز احمد خان کے مطابق ہاتھ میں سینی ٹائزر لگانے کے بعد اس میں موجود الکوحل 20 سے 30 سیکنڈ بعد ہوا میں اڑ جاتا ہے جس کے بعد اس بات کا امکان بہت کم رہ جاتا ہے کہ کسی کو آگ لگے۔
تاہم ان کا کہنا تھا کہ اگر کوئی سینی ٹائزر ہی چولہے کے پاس لگائے تو ممکن ہے کہ آگ لگ جائے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ ہر طرح کے سینی ٹائزر میں آئیسو پرو پائل الکوحل موجود ہوتا ہے جس کی مقدار کم یا زیادہ ہو سکتی ہے۔
چیف فائر آفیسر ظفر اقبال کے مطابق انہوں نے آج تک ایسے کسی کیس کے بارے میں نہیں سنا نہ اس طرح کے کسی کیس کو ڈیل کیا ہے۔
کرونا وائرس کے پھیلاؤ کے بعد سنگاپور میں ہر گھر کو مفت ہینڈ سینی ٹائزر دینے کا اعلان کردیا گیا۔
سنگاپور کے ایک فلاحی ادارے نے اعلان کیا ہے کہ ان کا ادارہ ہر گھر کو 500 ملی لیٹر ہینڈ سینی ٹائزر مفت فراہم کرے گا۔
ادارے کا کہنا ہے کہ ان کا فراہم کردہ سینی ٹائزر الکوحل فری ہوگا جو بچوں کے استعمال کے لیے بھی محفوظ ہوگا جبکہ کچن میں کام کرتے ہوئے کسی حادثے کا سبب نہیں بنے گا۔
اس سلسلے میں ادارے نے اپنے متعین کردہ پوائنٹس کا اعلان کردیا ہے جہاں سے جا کر مفت سینی ٹائزر وصول کیا جاسکتا ہے۔
خیال رہے کہ سنگاپور میں اب تک 509 افراد میں کرونا وائرس کی تصدیق ہوچکی ہے جبکہ 2 افراد موت کے گھاٹ اتر چکے ہیں۔
سنگاپور میں فی الحال تعلیمی ادارے بند کیے گئے ہیں اور ان کی بندش میں توسیع پر غور کیا جارہا ہے جبکہ وزیر اعظم نے عوام سے اپیل کی ہے کہ وہ احتیاطی تدابیر پر عمل کریں ورنہ ملک کو لاک ڈاؤن کرنا پڑے گا۔
سنگاپور سمیت دنیا بھر میں کرونا وائرس کے مریضوں کی تعداد 3 لاکھ 66 ہزار 948 ہوگئی ہے جب کہ کرونا سے صحتیاب ہونے والے افراد کی تعداد 1 لاکھ 1 ہزار 65 ہے۔
کرونا وائرس کے پیش نظر دنیا بھر میں لوگوں نے اشیائے ضروریہ کی ذخیرہ اندوزی شروع کردی ہے اور اس میں ہینڈ سینی ٹائزر سرفہرست ہے، ڈنمارک کی ایک سپر مارکیٹ نے اپنے گاہکوں کو اس سے روکنے کے لیے انوکھی تجویز اپنائی۔
دنیا بھر میں اس وقت ہینڈ سینی ٹائزر، ماسک، ٹوائلٹ پیپر اور دیگر صفائی کی اشیا کی طلب میں اضافہ ہوگیا ہے اور لوگ دیوانوں کی طرح ان اشیا کی خریداری کر رہے ہیںِ، اور نہ صرف خریداری کر رہے ہیں بلکہ ان اشیا کو زیادہ سے زیادہ خریدنے کے چکر میں ہاتھا پائی کے واقعات بھی رونما ہورہے ہیں۔
ڈنمارک کی ایک سپر مارکیٹ نے ان ناخوشگوار واقعات سے بچنے کے لیے انوکھی ترکیب اپنائی جسے سوشل میڈیا پر بے حد سراہا جارہا ہے۔
مذکورہ سپر مارکیٹ میں سینی ٹائزر ریک پر نوٹس لگایا گیا ہے کہ ہینڈ سینی ٹائزر کی ایک بوتل 40 ڈینش کرون (914 پاکستانی روپے) کی ہے لیکن اگر کوئی شخص 2 بوتلیں لینا چاہے گا تو اسے 1 ہزار ڈینش کرون (22 ہزار 854 پاکستانی روپے) ادا کرنے ہوں گے۔
A supermarket in Denmark got tired of people hoarding hand sanitizer, so came up with their own way of stopping it.
1 bottle kr40 (€5.50)
2 bottles kr1000 (€134.00) each bottle.
اس نوٹس کے علاوہ بھی مذکورہ مارکیٹ نے اپنے گاہکوں کو مختلف احتیاطی تدابیر اپنانے پر زور دیا ہے۔
مثال کے طور پر مارکیٹ میں داخل ہونے کے بعد لوگ فاصلہ رکھیں، اندر داخل ہونے سے قبل سینی ٹائزر استعمال کریں، اگر گھر کے کئی افراد خریداری کرنے کے لیے اٹھ آئے ہیں تو صرف ایک ہی شخص اندر جا کر خریداری کرے۔
یاد رہے کہ اب تک ڈنمارک میں 15 سو 77 افراد میں کرونا وائرس کی تصدیق ہوچکی ہے جبکہ جان لیوا وائرس نے اب تک 25 افراد کی جانیں لے لی ہیں۔
امریکا میں 2 بھائیوں کو ہینڈ سینی ٹائزر ذخیرہ کرنے اور مہنگے داموں فروخت کرنے پر سخت تنقید اور دھمکیوں کا سامنا کرنا پڑگیا جس کے بعد مجبوراً ان بھائیوں نے اپنا مال عطیہ کرنے کا اعلان کیا۔
امریکی ریاست ٹینیسی کے 2 بھائیوں میٹ اور نوح نے کرونا وائرس کے بدترین پھیلاؤ کو اپنے لیے موقع جانا اور 17 ہزار سے زائد سینی ٹائزر کی بوتلیں سستے داموں خرید کر اپنے پاس ذخیرہ کرلیں۔
انہوں نے یہ قدم اس وقت اٹھایا جب امریکا میں اس جان لیوا وائرس سے پہلی موت ریکارڈ ہوئی، تب تک لوگوں نے سپر اسٹورز سے دیوانوں کی طرح ٹوائلٹ پیپرز، ماسک اور سینی ٹائزر خریدنے شروع کردیے تھے اور اسٹورز ان سے خالی ہوگئے تھے۔
کئی اسٹورز میں ان اشیا پر گاہک آپس میں الجھ بھی پڑے اور ہاتھا پائی کی نوبت آگئی۔
ایسے میں دونوں بھائی اپنے گھر سے 13 سو میل دور ڈرائیو کر کے پڑوسی ریاست کینٹکی میں گئے اور وال مارٹ، ڈالر ٹری اور دیگر اسٹورز سے ٹرک بھر کر ہینڈ سینی ٹائزر اور اینٹی بیکٹیریل وائپس اٹھا لیے۔
بعد ازاں اپنے گھر آ کر انہوں نے ہر بوتل 70 ڈالر کی بیچی، انہوں نے آن لائن آرڈرز لے کر مختلف افراد اور ایمازون سمیت مختلف اسٹورز کو انہی مہنگے داموں سینی ٹائزر کی فروخت کی۔
دونوں بھائیوں نے ان اشیا پر 10 سے 15 ہزار ڈالر کی سرمایہ کاری کی۔ اسی دوران امریکی اخبار نیویارک ٹائمز ایک بھائی کا انٹرویو کرنے پہنچ گیا اور اس نے اس کا نام اور گھر کا پتہ شائع کردیا۔
بس پھر کیا تھا، سوشل میڈیا پر تنقید کا طوفان اٹھ کھڑا ہوا۔ لوگوں نے ان بھائیوں کو سخت برا بھلا کہا کہ سپر اسٹورز ان ضرورت کی اشیا سے خالی ہو چکے ہیں اور یہ بھائی انہیں اپنے پاس ذخیرہ کیے بیٹھے ہیں۔
ان بھائیوں نے پہلے پہل اپنے اس عمل کی وضاحت دیتے ہوئے کہا کہ وہ عوامی خدمت انجام دے رہے ہیں، وہ لوگوں کو سپر اسٹورز میں ناخوشگوار صورتحال سے بچانے کے لیے ان کے گھروں پر سینی ٹائزر فراہم کر رہے ہیں اور اس مقصد کے لیے اگر وہ کچھ زیادہ پیسے لے رہے ہیں تو اس میں کوئی برائی نہیں۔
تاہم جب انہیں باقاعدہ جان سے مارنے اور سبق سکھانے کی دھمکیاں ملنی شروع ہوئیں تو انہوں نے اپنا یہ کاروبار روک دیا اور اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹس ڈیلیٹ کردیے۔
عوام کے اس ردعمل پر اٹارنی جنرل نے بھی انہیں دھمکی آمیز نوٹس بھجوا دیا کہ اگر وہ مزید ایسی اشیا لے کر آئے تو ان کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے گی۔
اس سخت ردعمل کے بعد ان بھائیوں نے اپنے پاس موجود 18 ہزار سینی ٹائزر کی بوتلوں کا ذخیرہ اسپتالوں اور چرچ میں عطیہ کرنے کا عندیہ دیا ہے تاہم لوگ اب بھی انہیں معاف کرنے کو تیار نہیں، سوشل میڈیا پر کہا گیا کہ جب یہ فروخت نہ کرسکے تو مجبوراً عطیہ کر رہے ہیں۔
خیال رہے کہ امریکا میں کرونا وائرس کے باعث ہلاکتوں کی تعداد 69 ہوچکی جبکہ 3 ہزار 782 افراد میں اب تک ہلاکت خیز وائرس کی تصدیق ہوچکی ہے۔
کیلی فورنیا، واشنگٹن اور فلوریڈا سمیت امریکا کی 15 سے زائد ریاستوں میں کرونا وائرس کے کیسز رپورٹ ہو چکے ہیں۔
انگلینڈ کے علاقے نارتھ ہمپٹن کے ایک اسپتال نے لوگوں سے اپیل کی ہے کہ وہ کرونا وائرس کے پیش نظر اسپتال میں داخل مریضوں کے پاس اور استقبالیہ ڈیسک پر رکھے ہینڈ سینی ٹائزر چرانا بند کردیں۔
انگلینڈ کے اسپتال کو یہ اپیل اس وقت کرنی پڑی جب مذکورہ مقامات پر انتظامہ کی جانب سے رکھی گئی سینی ٹائزر کی بوتلیں تیزی سے غائب ہونا شروع ہوگئیں۔
اسپتال نے سوشل میڈیا پر جاری اپنے بیان میں کہا کہ برائے مہربانی ہماری مدد کریں کہ ہم اپنے مریضوں کو اس جان لیوا وائرس سے بچا سکیں، اور صفائی کے لیے رکھی چیزیں اٹھانا بند کردیں۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ وارڈ مینیجرز کو بھی ہدایت کردی گئی ہے کہ وہ اسپتال میں رکھی مذکورہ اشیا کی نگرانی کریں۔
اسپتال انتظامیہ نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ جس طرح برطانیہ میں کرونا وائرس کا خوف بڑھ رہا ہے اس سے امکان ہے کہ سینی ٹائزر کی قلت نہ پیدا ہوجائے۔
خیال رہے کہ برطانیہ میں اب تک کرونا وائرس کے 206 مریضوں کی تصدیق ہوچکی ہے جبکہ 2 افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔
برطانیہ سمیت کرونا وائرس 103 ممالک کو اپنی لپیٹ میں لے چکا ہے، وائرس سے متاثر افراد کی تعداد 1 لاکھ 6 ہزار 211 ہو گئی ہے۔
چین کے بعد سب سے زیادہ اموات اٹلی میں ہوئی ہیں جہاں وائرس سے ہلاک افراد کی تعداد 233 ہو گئی، دنیا بھر میں وائرس سے اموات کی تعداد 3 ہزار 600 ہوگئی ہے، جبکہ 60 ہزار 190 افراد صحتیاب ہو چکے ہیں۔