Tag: ہیٹ ویو

  • موسم گرما شرع ہونے سے قبل ہی کراچی کے درجہ حرارت میں اضافہ

    موسم گرما شرع ہونے سے قبل ہی کراچی کے درجہ حرارت میں اضافہ

    کراچی: صوبہ سندھ کا دارالحکومت کراچی گزشتہ 2 سال سے ہیٹ ویو کا شکار ہونے کے بعد ایک بار پھر اسی موسم کی طرف جارہا ہے۔ ماہرین کے مطابق موسم گرما کے آغاز سے قبل ہی کراچی کا درجہ حرارت بڑھنے کا امکان ہے۔

    تفصیلات کے مطابق موسم گرما کے آغاز سے قبل ہی کراچی میں درجہ حرارت میں اضافہ شروع ہوگیا ہے۔ 21 فروری بروز بدھ دن 11 بجے تک درجہ حرارت 27 ڈگری سینٹی گریڈ ریکارڈ کیا گیا۔

    محکمہ موسمیات کا کہنا ہے کہ کم سے کم درجہ حرارت 17.5 ڈگری ریکارڈ کیا گیا جبکہ ہوا میں نمی کا تناسب 47 فیصد ہے۔

    ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ چند دنوں میں کراچی کے درجہ حرارت میں مزید اضافہ متوقع ہے اور پارہ 34 ڈگری سینٹی گریڈ تک جاسکتا ہے۔

    دوسری جانب ملک کے دیگر علاقوں میں موسم سرما اپنے آخری مراحل میں ہے۔ شمالی علاقوں میں درجہ حرارت 1 ڈگری سینٹی گریڈ سے 10 ڈگری سینٹی گریڈ تک ریکارڈ کیا جارہا ہے۔

    سب سے کم درجہ حرارت گلگت بلتستان کے ضلع استور میں منفی 3 سنیٹی گریڈ ریکارڈ کیا گیا۔

    یاد رہے کہ 3 سال قبل سنہ 2015 میں پہلی بار خطرناک ہیٹ ویو نے کراچی کو اپنا نشانہ بنایا تھا جس میں 2 ہزار کے قریب افراد لقمہ اجل بن گئے تھے۔

    ہیٹ اسٹروک کی وجوہات، علامات اور بچاؤ کے لیے احتیاطی تدابیر

    اس کے اگلے سال سے سرکاری اور نجی سطح پر انتظامات کیے گئے جس کے بعد سے عوام کی جانب سے ہیٹ ویو کے دنوں میں احتیاطی تدابیر اپنائی جارہی ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ ہیٹ ویو اب کراچی کے موسم کا حصہ بن چکی ہے اور ہر سال کئی بار رونما ہوسکتی ہے۔ ان کے مطابق موسم کی اس شدت کو مدنظر رکھتے ہوئے طویل المدتی منصوبہ کرنی ضروری ہے جس میں سرفہرست بڑے پیمانے پر شجر کاری کرنا ہے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • جلد کو دھوپ کی خطرناک شعاعوں سے بچانے والی غذائیں

    جلد کو دھوپ کی خطرناک شعاعوں سے بچانے والی غذائیں

    ملک کے بالائی اور سرد علاقوں میں ایک طرف تو موسم سرما اور بے موسم کی برف باری کا آغاز ہوچکا ہے، تاہم صوبہ سندھ کے دارالحکومت کراچی میں تاحال شدید گرمی نے شہریوں کو پریشان کر رکھا ہے۔

    ویسے تو دھوپ سے بچنے کے لیے بہترین سن بلاک، دھوپ کے چشمے اور ہیٹس یا پی کیپس کا استعمال ضروری ہے تاہم کچھ غذائیں ایسی بھی ہیں جو اندرونی طور پر جسم کو دھوپ کی مضر شعاعوں سے محفوظ رکھتی ہیں اور جسم میں نمی کی مقدار کو بھی معمول کی سطح پر رکھتی ہیں۔

    مزید پڑھیں: شدید گرمی کے موسم میں احتیاطی تدابیر

    آئیں دیکھیں وہ کون سی غذائیں ہیں۔


    ٹماٹر

    ٹماٹر میں موجود اینٹی آکسیڈنٹس جلد کی مدافعتی قوت کو مضبوط کرتے ہیں جس سے یہ سورج کی شعاعوں سے لڑنے کے قابل ہوتی ہے۔

    مزید پڑھیں: ٹماٹر معدے کے کینسر سے بچاؤ میں معاون


    گاجر

    گاجر میں موجود کیروٹینائیڈز جلد کو دھوپ کی براہ راست شعاعوں سے محفوظ رکھتے ہیں۔ خاص طور پر وہ لوگ جو دن بھر کھلی فضا اور دھوپ میں کام کرتے ہوں انہیں گاجر کو لازمی اپنی خوراک کا حصہ بنانا چاہیئے۔

    مزید پڑھیں: گاجر کا رنگ سرخ کیوں ہے؟


    پھول گوبھی

    پھول گوبھی میں شامل پولی فینولز تیز دھوپ سے ہوجانے والی سوزش سے بچاتے ہیں۔ یہ جسم میں جا کر نہ صرف کینسر کے خلیات کی تشکیل کو روکتی ہے بلکہ جلد کو دھوپ سے خراب ہونے سے بھی بچاتی ہے۔

    گوبھی کو سلاد کے ساتھ بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔


    ترش پھل

    ترش پھل جیسے نارنگی، لیموں اور گریپ فروٹ وغیرہ وٹامن سی بھرپور ہوتے ہیں جو جلد کے لیے بہترین ہیں۔

    یہ دھوپ سے جھلسنے والی جلد کو معمول کی حالت پر واپس لے آتے ہیں جبکہ یہ تابکار شعاعوں سے فعال ہونے والے جسم میں کینسر کا سبب بننے والے خلیات کی بھی روک تھام کرتے ہیں۔


    زیتون کا تیل

    وٹامن ای، صحت کے لیے مفید چکنائی اور پولی فینولز سے بھرپور زیتون کا تیل آپ کی جلد کو دھوپ سے جھلسنے اور خراب ہونے سے بچاتا ہے۔

    زیتون کے تیل کا ایک چمچہ اپنے کھانوں یا سلاد میں شامل کرلیں جبکہ تیار شدہ کھانے پر بھی زیتون کے تیل کا چھڑکاؤ کیا جاسکتا ہے۔

    مزید پڑھیں: زیتون کے تیل کے حیرت انگیز فوائد


    سبز چائے

    سبز چائے یا گرین ٹی میں موجود اینٹی آکسیڈینٹس جنہیں ای جی سی جی کہا جاتا ہے دھوپ کی تابکار شعاعوں سے بچانے میں مدد فراہم کرتے ہیں۔

    مزید پڑھیں: سبز چائے ۔ صحت کا پوشیدہ خزانہ


    اخروٹ

    اخروٹ کی تاثیر یوں تو گرم ہوتی ہے تاہم یہ جلد کو دھوپ کی تابکار شعاعوں سے لڑنے میں مدد دیتی ہے اور جلد کو اس قابل بناتی ہے کہ وہ دھوپ سے متاثر ہونے والے خلیات کی مرمت کرسکے۔

    مزید پڑھیں: اخروٹ دل کے امراض سے بچانے میں معاون


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • پاکستان اور بھارت میں ناقابل برداشت جان لیوا ہیٹ ویوز کا خدشہ

    پاکستان اور بھارت میں ناقابل برداشت جان لیوا ہیٹ ویوز کا خدشہ

    نیویارک: پاکستان اور بھارت میں غیر معمولی موسم گرما اب عام بات بن گیا ہے تاہم ماہرین نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ رواں صدی کے خاتمے تک اس خطے میں ایسی ہیٹ ویوز آئیں گی جو نہایت خطرناک، جان لیوا اور ناقابل برادشت ہوں گی۔

    امریکا کے میساچوسٹس انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی (ایم آئی ٹی) کی جانب سے کی جانے والے تحقیق میں بتایا گیا کہ سنہ 2100 تک جنوبی ایشیا قیامت خیز گرمیوں کی زد میں آجائے گا۔

    تحقیق کے مطابق پاکستان کا جنوبی علاقہ، شمالی بھارت اور بنگلہ دیش اس سے سب سے زیادہ متاثر ہوں گے۔

    ماہرین کے مطابق گرمی کی یہ شدت اس قدر ہوگی کہ گھر سے باہر دھوپ میں نکلنا ایک نا ممکن عمل بن جائے گا۔

    تحقیق میں بتایا گیا کہ اس جان لیوا گرمی سے دریائے سندھ کا زرخیز علاقہ اور بھارت میں دریائے گنگا بھی متاثر ہوں گے جو دونوں ممالک میں غذائی پیداوار کا سب سے اہم اور بڑا ذریعہ ہیں۔

    مزید پڑھیں: ہیٹ ویو کو ہوّا مت بنائیں

    ایم آئی ٹی کے ایک پروفیسر کے مطابق یہ صرف ہیٹ ویو نہیں ہوگی جو لوگوں کی ہلاکت کا باعث بنے گی، بلکہ اس کے باعث ہونے والی قلت آب، خشک سالی اور غذائی پیداوار میں کمی لوگوں کی زندگیوں کے لیے خطرناک ثابت ہوں گی۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ گرمی کی شدت میں اضافے کا عمل شروع ہوچکا ہے اور یہ اگلی آنے والی دہائیوں میں مزید شدت اختیار کرجائے گا اور رواں صدی کے اختتام تک یہ گرمیاں ناقابل برداشت صورت اختیار کرلیں گی۔

    یاد رہے کہ قیامت خیز ہیٹ ویوز پاکستان کے لیے نئی نہیں، اور سنہ 2015 میں صوبہ سندھ کا دارالحکومت کراچی خطرناک ہیٹ ویو کا سامنا کر چکا ہے جس میں 1 ہزار سے زائد افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔

    اس ہیٹ ویو نے بھارت کو بھی متاثر کیا تھا اور دونوں ممالک میں تقریباً ساڑھے 3 ہزار افراد شدید گرمی کے باعث لقمہ اجل بن گئے تھے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • ماہ رمضان میں ہیٹ ویو کا امکان

    ماہ رمضان میں ہیٹ ویو کا امکان

    ایک روز بعد ماہ رمضان کا آغاز ہونے جارہا ہے اور ماہرین نے خبردار کردیا ہے کہ تقریباً پورے ماہ رمضان میں ہیٹ ویو یعنی گرمی کی شدید لہر جاری رہے گی۔

    ماہرین موسمیات و ماحولیات کا کہنا ہے کہ اس وقت ملک کے میدانی علاقوں میں درجہ حرارت عام طور پر رہنے والے موسم گرما کے درجہ حرارت سے 1 سے 2 ڈگری سینٹی گریڈ زیادہ ہے اور یہ صورتحال اگلے کئی دن تک برقرار رہے گی۔

    ان کے مطابق رمضان کے ابتدائی 2 عشروں میں شدید گرمی ہوگی اور روزے داروں کو سخت احتیاط کرنی ہوگی۔

    مزید پڑھیں: ہیٹ ویو سے بچاؤ کے طریقے

    تاہم انہوں نے رمضان کے آخری عشرے میں موسم خوشگوار ہونے کی نوید بھی سنادی ہے اور امکان ظاہر کیا ہے کہ آخری 10 روزوں میں پری مون سون کی بارشوں کا امکان ہے۔

    ماہر موسمیات شوکت علی اعوان کا کہنا ہے کہ جون کا مہینہ ویسے بھی موسم گرما کا سب سے زیادہ درجہ حرارت کا مہینہ ہوتا ہے اور اس مہینے میں بارشوں کا امکان بہت کم ہوتا ہے۔

    ان کے مطابق ماہ رمضان کے پیش نظر یہ موسم اور بھی سخت معلوم ہوگا تاہم رمضان کے آخری عشرے میں کچھ ریلیف مل سکے گا۔

    ہیٹ ویو میں روزے سے متعلق علمائے کرام کی رائے

    سنہ 2015 میں جب ہیٹ ویو نے کراچی کو اپنا نشانہ بنایا تب علما کی جانب سے روزے میں آسانی کا فتویٰ جاری کیا گیا تھا۔

    مختلف مکتبہ فکر کے علما کا متفقہ فیصلہ ہے کہ ایسے افراد جن کی حالت (شدید گرمی کے باعث) اتنی خراب ہو کہ جان جانے کا خطرہ ہو، وہ روزہ چھوڑ سکتے ہیں۔

    پاکستان علما کونسل کے سربراہ مولانا طاہر اشرفی کا اس بارے میں کہنا ہے، ’ڈاکٹرز کے مطابق اگر شدید گرمی سے آپ کی جان جانے کا خدشہ ہو، یا جسمانی طور پر آپ بدتر حالت میں ہوں اور روزہ رکھنے سے اس میں مزید خرابی کا اندیشہ ہو، تو ایسی صورت میں روزہ چھوڑا جا سکتا ہے‘۔

    علامہ لیاقت حسین نے اس کی وضاحت کرتے ہوئے بتایا، ’قرآن میں لکھا ہے، ’اپنے آپ کو جان بوجھ کر ہلاکت میں نہ ڈالو۔‘ اگر جان جانے کا خطرہ ہو تو ایسی صورت میں روزہ چھوڑا جا سکتا ہے‘۔

    مزید پڑھیں: ہیٹ اسٹروک سے بچاؤ کے لیے احتیاطی تدابیر

    ان کے مطابق، ’جہاں تک ہیٹ ویو کا تعلق ہے تو اس کے لیے تمام احتیاطی تدابیر اختیار کریں۔ مثلاً دھوپ میں گھر سے نہ نکلیں، زیادہ مشقت والا کام نہ کریں۔ پھر بھی اگر جسمانی حالت اس قابل نہ ہو کہ سارا دن بھوکے پیاسے رہ کر نہ گزارا جا سکے تو روزہ چھوڑ دیں، اور بعد میں اس کا کفارہ دے دیں‘۔

    البتہ انہوں نے صرف ’گمان‘ کو ناپسندیدہ قرار دیا۔ ’یہ سوچنا کہ تمام احتیاطی تدابیروں کے باوجود میں روزہ رکھنے کے قابل نہیں، غلط ہے اور یہ جان بوجھ کر روزہ چھوڑنے کے مترادف ہے‘۔

    گرمی کے باعث اگر طبیعت خراب ہونے لگے تو اس صورت میں روزہ توڑنے کے بارے میں کیا حکم ہے؟ اس بارے میں رویت ہلال کمیٹی کے چیئرمین مفتی منیب الرحمٰن کہتے ہیں، ’جہاں تک برداشت ہوسکے روزہ کو نہ توڑا جائے، لیکن اگر برداشت سے باہر ہوجائے، انسان بے ہوش ہونے لگے تو اس صورت میں روزہ توڑا جا سکتا ہے۔ اس روزہ کی قضا ہوگی، کفارہ نہیں ہوگا‘۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • اگلا ہفتہ سال کا گرم ترین ہفتہ ہونے کا امکان

    اگلا ہفتہ سال کا گرم ترین ہفتہ ہونے کا امکان

    اسلام آباد: صوبہ سندھ میں گزشتہ 3 روز سے گرمی کی شدید لہر جاری ہے تاہم محکمہ موسمیات نے خبردار کیا ہے کہ آئندہ آنے والا ہفتہ نہ صرف مزید گرم ہوگا بلکہ یہ پورے سال کا گرم ترین ہفتہ ہوگا۔

    محکمہ موسمیات پاکستان کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر غلام رسول کا کہنا ہے کہ اگلا ہفتہ سال کا گرم ترین ہفتہ رہنے کا امکان ہے اور اس دوران پورے ملک میں شدید گرمی ہو جائے گی۔

    تفصیلات بتاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ملک کے وسطی علاقوں میں درجہ حرات 45 سے 46 ڈگری سینٹی گریڈ رہنے کا امکان ہے، جبکہ اندرون سندھ یہ 48 سے 49 ڈگری سینٹی گریڈ تک جا پہنچے گا۔

    مزید پڑھیں: ہیٹ اسٹروک کی وجوہات، علامات اور بچاؤ

    ان کے مطابق بلوچستان کے میدانی علاقوں میں درجہ حرارت 42 سے 44 سینٹی گریڈ اور جنوبی پنجاب میں 45 سے 47 سینٹی گریڈ کے درمیان رہے گا۔ علاوہ ازیں گلگت بلتستان، چترال اور دیگر شمالی علاقہ جات میں بھی درجہ حرارت 30 ڈگری سینٹی گریڈ سے تجاوز کر جائے گا۔

    ڈاکٹر غلام رسول کے مطابق وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں بھی درجہ حرارت 40 ڈگری سینٹی گریڈ سے زائد رہے گا۔

    انہوں نے بتایا کہ اسلام آباد میں اس سے قبل سنہ 2006 میں درجہ حرات 40 ڈگری سینٹی گریڈ سے تجاوز کر گیا تھا اور یہ 29 اپریل کو ہوا تھا۔

    ان کے مطابق اپریل کے اواخر یا مئی میں ملک کے مختلف حصوں کا درجہ حرارت 40 ڈگری سینٹی گریڈ سے بڑھ جانا معمول کی بات ہے، تاہم اس بار موسم کی شدت اپریل کے وسط سے ہی ظاہر ہونا شروع ہوگئی ہے۔

    مزید پڑھیں: سال 2016 تاریخ کا متواتر تیسرا گرم ترین سال

    ڈاکٹر غلام رسول کا کہنا تھا کہ ملک میں فی الحال بارش کا کوئی امکان نہیں، موسم گرم اور خشک رہے گا، البتہ کراچی سمیت دیگر ساحلی علاقوں میں سمندر کی ہوائیں چلتی رہیں گی۔

    سنہ 2015 جیسی ہیٹ ویو

    ڈاکٹر غلام رسول نے کہا کہ رواں برس کراچی میں سنہ 2015 جیسی ہیٹ ویو کا امکان ہے جس میں 1 ہزار سے زائد افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔

    ان کے مطابق محکمہ نے اس بارے میں پہلے ہی باقاعدہ الرٹ جاری کردیا ہے اور تمام متعلقہ اداروں اور اسپتالوں بشمول جناح اسپتال کراچی کو بھی آگاہ کردیا گیا ہے۔

    یاد رہے کہ ڈاکٹر غلام رسول موسم سرما کے اختتام پر ہی آگاہ کر چکے تھے کہ رواں برس پورے ملک میں موسم گرما اپنے مقررہ وقت سے قبل آجائے گا جس کے بعد درجہ حرارت میں غیر معمولی اضافے کا امکان ہے۔

    ماہرین اس کی وجہ موسمی تغیرات یعنی کلائمٹ چینج اور اس کی وجہ سے عالمی درجہ حرارت میں ہونے والے اضافے یعنی گلوبل وارمنگ کو قرار دے رہے ہیں۔

    مزید پڑھیں: کلائمٹ چینج سے مطابقت کیسے کی جائے؟

    مزید پڑھیں: گلوبل وارمنگ کم کرنے کے طریقے

    یاد رہے کہ کلائمٹ چینج کے نقصانات کا سامنا کرنے کے حوالے سے پاکستان پہلے 10 ممالک میں شامل ہے اور اس کا سب سے بدترین نقصان پورے ملک کے درجہ حرارت میں اضافہ ہے جو پانی کے ذخائر اور زراعت کو نقصان پہنچا رہا ہے۔

  • کراچی میں شدید گرمی کا امکان

    کراچی میں شدید گرمی کا امکان

    محکمہ موسمیات پاکستان نے خبردار کردیا ہے کہ صوبہ سندھ کے دارالحکومت کراچی میں رواں ہفتے کے اختتام تک گرمی کی شدت میں مزید اضافہ ہوجائے گا۔

    تفصیلات کے مطابق کراچی کا درجہ حرات فی الحال 36 ڈگری سینٹی گریڈ ہے، تاہم محکمہ موسمیات کا کہنا ہے کہ اگلے ایک سے دو روز میں درجہ حرارت 38 ڈگری سینٹی گریڈ تک جا پہنچے گا۔

    یہ پہلا موقع نہیں ہے جب شہر کراچی شدید گرمی کی لپیٹ میں ہے۔ 2 سال قبل سنہ 2015 میں کراچی میں گرمی کی شدید لہر نے 1 ہزار سے زائد جانیں لے لی تھیں۔

    ماہرین نے اسی وقت خبردار کردیا تھا کہ اب یہ ہیٹ ویوز کراچی کے موسم کا حصہ بن جائیں گی اور کراچی والوں کو اس کے لیے تیار رہنا ہوگا۔

    چند روز قبل محکمہ موسمیات کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر غلام رسول بھی آگاہ کرچکے ہیں کہ رواں برس پورے ملک میں موسم گرما اپنے مقررہ وقت سے قبل آجائے گا جس کے بعد درجہ حرارت میں غیر معمولی اضافے کا امکان ہے۔

    ماہرین نے اس کی وجہ موسمی تغیرات یعنی کلائمٹ چینج اور اس کی وجہ سے عالمی درجہ حرارت میں ہونے والے اضافے یعنی گلوبل وارمنگ کو قرار دیا ہے۔

    مزید پڑھیں: کلائمٹ چینج سے مطابقت کیسے کی جائے؟

    یاد رہے کہ کلائمٹ چینج کے نقصانات کا سامنا کرنے کے حوالے سے پاکستان پہلے 10 ممالک میں شامل ہے اور اس کا سب سے بدترین نقصان پورے ملک کے درجہ حرارت میں اضافہ ہے جو پانی کے ذخائر اور زراعت کو نقصان پہنچا رہا ہے۔

    درجہ حرات میں اس اضافے کو مدنظر رکھتے ہوئے محکمہ موسمیات کا یہ بھی کہنا ہے کہ درجہ حرارت میں اضافے کا یہ سلسلہ جاری رہے گا اور بہت جلد پاکستان سے بہار کا موسم ختم ہوجائے گا۔

    محکمہ موسمیات نے واضح کیا ہے کہ عالمی درجہ حرارت میں اضافے (گلوبل وارمنگ) کی وجہ سے اب موسم سرما کے بعد فوراً بعد موسم گرما زور پکڑ جائے گا، یوں دونوں موسموں کے درمیان کا وقفہ جسے بہار کا موسم کہا جاتا ہے بہت مختصر سا ہوگا جو نہ ہونے کے برابر ہوگا۔

    مزید پڑھیں: دنیا بھر میں موسم بہار کے تہوار

    ماہرین کے مطابق موسم بہار میں پھولوں کے کھلنے اور ان کے افزائش پانے کی مخصوص مدت مختصر ہوجائے گی یوں ہم آہستہ آہستہ کھلتے ہوئے پھولوں اور موسم بہار کا جوبن دیکھنے سے محروم ہوجائیں گے۔

    دوسری جانب ماہرین کا کہنا ہے کہ گرم موسم سے مطابقت کرنے اور شدید گرمی سے بچنے کے لیے مندرجہ ذیل تدابیر پر عمل کریں۔

    زیادہ سے زیادہ پانی پئیں

    hw-1

    پانی آپ کے جسم کے درجہ حرارت کو معمول پر رکھتا ہے چنانچہ گرمی کے دنوں میں زیادہ سے زیادہ پانی پئیں۔

    اپنا شیڈول ترتیب دیں

    hw-3

    شدید گرمی کے دنوں میں باہر نکلنے سے زیادہ سے زیادہ پرہیز کریں۔ کوشش کریں کہ باہر نکلنے والے کام صبح سورج نکلنے سے پہلے یا شام کے وقت نمٹالیں۔

    باہر نکلتے ہوئے احتیاطی تدابیر اختیار کریں

    hw-4

    گھر سے باہر نکلتے ہوئے سن اسکرین، دھوپ کے چشمے اور کیپ کا استعمال کیجیئے۔ سورج کی براہ راست تپش سے جتنا زیادہ محفوظ رہیں اتنا ہی بہتر ہے۔

    بچوں کو بند کار میں نہ چھوڑیں

    hw-2

    دن کے اوقات میں اگر باہر جانا ہو تو بند گاڑی میں کبھی بھی بچوں یا جانوروں کو نہ چھوڑیں۔ یہ عمل ان کے لیے جان لیوا ثابت ہوسکتا ہے۔

  • ملک میں قبل از وقت موسم گرما آنے کا امکان

    ملک میں قبل از وقت موسم گرما آنے کا امکان

    اسلام آباد: محکمہ موسمیات پاکستان کا کہنا ہے کہ رواں برس ملک میں موسم گرما اپنے مقررہ وقت سے قبل آجائے گا اور اگلے 10 سے 15 روز میں درجہ حرارت میں غیر معمولی اضافے کا امکان ہے۔

    محکمہ موسمیات کے چیف میٹرولوجسٹ ڈاکٹر غلام رسول کا کہنا ہے کہ مارچ کے وسط تک درجہ حرارت 30 ڈگری سینٹی گریڈ تک جا پہنچے گا۔ مارچ کے اختتام تک اسلام آباد سمیت ملک کے بیشتر حصوں میں درجہ حرارت میں مزید اضافہ ہوجائے گا۔

    انہوں نے بتایا کہ اگلے ماہ یعنی اپریل میں مختصر دورانیے کی ہلکی بارشوں کا بھی امکان ہے، تاہم اسی ماہ سندھ کے جنوبی حصوں میں درجہ حرارت 40 ڈگری سینٹی گریڈ تک چلا جائے گا۔

    مزید پڑھیں: ہیٹ ویو سے بچاؤ کے طریقے

    ڈاکٹر غلام رسول کا کہنا تھا کہ پاکستان میں موسمیاتی تغیرات یعنی کلائمٹ چینج کے اثرات گزشتہ برس اگست کے بعد سے واضح طور پر سامنے آنا شروع ہوئے۔ کلائمٹ چینج ہی کی وجہ سے اس بار موسم سرما کے معمول میں تبدیلی ہوئی اور جنوری کے آخر میں شدید سردیوں کا آغاز ہوا۔

    فراہمی آب کی صورتحال کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ فی الحال دریاؤں میں آبادی کی ضرورت کے لحاظ سے وافر مقدار میں پانی موجود ہے۔

    ان کا کہنا تھا کہ حالیہ منظر نامے میں یہ ایک خوش آئند بات ہے کہ رواں برس ملک میں شدید برفباری ہوئی ہے۔ اپریل میں شمالی علاقوں میں جمی برف تیزی سے پگھلنا شروع ہوجائے گی جس کے باعث دریاؤں میں پانی کی سطح میں اضافہ ہوجائے گا۔

    انہوں نے کہا کہ امید ہے کہ رواں برس ملک میں پانی کی کمی واقع نہیں ہوگی۔

    واضح رہے کہ دنیا بھر کے درجہ حرارت میں تشویش ناک حد تک اضافہ ہوچکا ہے اور سال 2016 تاریخ کا گرم ترین سال تھا۔

    یہی نہیں یہ متواتر تیسرا سال ہے جس میں درجہ حرارت میں غیر معمولی اضافہ دیکھا گیا۔ سال 2014 اور 2015 میں بھی معمول سے ہٹ کر درجہ حرارت ریکارڈ کیا گیا تھا۔

    امریکا کے نیشنل اوشینک اینڈ ایٹموسفیریک ایڈمنسٹریشن کی جاری کردہ رپورٹ کے مطابق اکیسویں صدی کے آغاز کے بعد سے سب سے زیادہ درجہ حرارت کا ریکارڈ 5 بار ٹوٹ چکا ہے۔ سنہ 2005، سنہ 2010، اور اس کے بعد سے متواتر گزشتہ تینوں سال سنہ 2014، سنہ 2015 اور سنہ 2016۔

    رپورٹ کے مطابق درجہ حرارت میں اس اضافے کی وجہ تیل اور گیس کا استعمال ہے جن کے باعث کاربن ڈائی آکسائیڈ، میتھین اور دیگر زہریلی (گرین ہاؤس گیسیں) پیدا ہوتی ہیں۔

    ایک اور وجہ ایل نینو بھی ہے جو سال 2015 سے شروع ہو کر 2016 کے وسط تک رہا۔ ایل نینو بحر الکاہل کے درجہ حرارت میں اضافہ کو کہتے ہیں جس کے باعث پوری دنیا کے موسم پر منفی اثر پڑتا ہے۔

    مزید پڑھیں: کلائمٹ چینج سے مطابقت کیسے کی جائے؟

    یہ عمل ہر 4 سے 5 سال بعد رونما ہوتا ہے جو گرم ممالک میں قحط اور خشک سالیوں کا سبب بنتا ہے جبکہ یہ کاربن کو جذب کرنے والے قدرتی ’سنک‘ جیسے جنگلات، سمندر اور دیگر نباتات کی صلاحیت پر بھی منفی اثر ڈالتا ہے جس کے باعث وہ پہلے کی طرح کاربن کو جذب نہیں کرسکتے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ بے تحاشہ تیز رفتار صنعتی ترقی بھی زمین کے قدرتی توازن کو بگاڑ رہی ہے۔

    رپورٹ میں بتایا گیا کہ رواں سال پچھلے سال کے مقابلے میں سرد ہونے کا امکان ہے تاہم ’لا نینا‘ کا کوئی خدشہ موجود نہیں۔ لا نینا ایل نینو کے برعکس زمین کو سرد کرنے والا عمل ہے۔

  • کلائمٹ چینج کے باعث دنیا بھر میں غیر معمولی واقعات

    کلائمٹ چینج کے باعث دنیا بھر میں غیر معمولی واقعات

    واشنگٹن: امریکی سائنسی ماہرین نے حال ہی میں ایک چونکا دینے والی رپورٹ جاری کی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ موسمیاتی تغیرات یعنی کلائمٹ چینج نے سال 2015 میں دو درجن سے زائد ایسے موسمیاتی مظاہر پیدا کیے جن کا اس سے پہلے تصور بھی ناممکن تھا۔

    ماہرین نے ان واقعات میں سنہ 2015 میں کراچی کو اپنا نشانہ بنانے والی خوفناک اور جان لیوا ہیٹ ویو کو بھی شامل کیا ہے۔

    report-1

    امریکا کے نیشنل اوشینک اینڈ ایٹموسفیریک ایڈمنسٹریشن کی جانب سے جاری کی گئی اس تحقیقاتی رپورٹ میں دنیا بھر میں ہونے والے 24 سے 30 ایسے غیر معمولی واقعات کی فہرست بنائی ہے جو اس سے پہلے کبھی ان علاقوں میں نہیں دیکھے گئے۔

    ان واقعات میں دنیا کے 11 علاقوں بشمول پاکستان اور بھارت کی ہیٹ ویو، برطانیہ میں سردیوں کے موسم میں سورج کا نکلنا، اور امریکی شہر میامی کے ایسے سیلاب کو شامل کیا گیا ہے جو اس وقت آیا جب سورج سوا نیزے پر تھا۔

    report-2
    امریکی شہر میامی میں آنے والا سیلاب

    رپورٹ میں مزید واقعات میں جنوب مشرقی چین کی شدید بارشیں، جبکہ شمال مغربی چین کی سخت گرمی، برفانی خطے الاسکا کے درجہ حرارت میں اضافہ اور اس کی وجہ سے وہاں کے جنگلات میں آتشزدگی، اور مغربی کینیڈا میں ہونے والی سخت خشک سالی شامل ہے۔

    ادارے کے پروفیسر اور رپورٹ کے نگران اسٹیفنی ہیئرنگ کے مطابق ان عوامل کی وجوہات کا تعین ہونا ضروری ہے۔

    report-3
    الاسکا کے جنگلات میں آگ

    انہوں نے کہا کہ دنیا کو تیزی سے اپنا نشانہ بناتا کلائمٹ چینج دراصل قدرتی عمل سے زیادہ انسانوں کا تخلیق کردہ ہے اور ہم اپنی ترقی کی قیمت اپنے ماحول اور فطرت کی تباہی کی صورت میں ادا کر رہے ہیں۔

    مزید پڑھیں: کلائمٹ چینج سے مطابقت کیسے کی جائے؟

    پروفیسر اسٹیفنی کا کہنا ہے کہ یہ سب کچھ غیر معمولی تو ضرور ہے تاہم غیر متوقع ہرگز نہیں اور اب ہمیں ہر سال اسی قسم کے واقعات کا سامنا کرنے کے لیے تیار رہنا ہوگا۔

    اس سے قبل گزشتہ ماہ مراکش میں ہونے والی ماحولیاتی تبدیلیوں سے متعلق عالمی کانفرنس کوپ 22 میں بھی ماہرین متنبہ کر چکے تھے کہ موسمیاتی تغیرات میں مزید شدت آتی جائے گی اور یہ دنیا کے تمام حصوں کو متاثر کرے گی۔

  • کلائمٹ چینج سے مطابقت کیسے کی جائے؟

    کلائمٹ چینج سے مطابقت کیسے کی جائے؟

    کراچی: 2015 کا سال کراچی کے لیے ایک ’انوکھا‘ سال تھا۔ اس سال جب رمضان شروع ہوا تو اس کے ساتھ ہی قیامت خیز گرمی شروع ہوگئی جس نے دیکھتے ہی دیکھتے 1 ہزار سے زائد جانیں لے لیں۔ اس قدر شدید گرمی کراچی کے شہریوں کے لیے ایک بالکل نئی بات تھی چنانچہ اسے سمجھنے اور اس سے بچاؤ کے اقدامات اٹھانے میں وقت لگا اور اس دوران ہلاکتوں کی تعداد بڑھتی چلی گئی۔

    شہر میں ہنگامی بنیادوں پر سرکاری و نجی اسپتالوں میں ہیٹ ریلیف سینٹرز قائم کردیے گئے اور 3 دن بعد جب ہیٹ ویو ختم ہوئی تو یہ اپنے ساتھ 1700 جانیں لے چکی تھیں۔

    گرمی کی اس شدید لہر نے تمام متعلقہ سرکاری اداروں اور ماہرین کو سر جوڑ کر بیٹھنے پر مجبور کردیا۔ ماہرین نے خبردار کردیا کہ یہ ہیٹ ویو اب ہر سال کراچی کے موسم کا حصہ ہوں گی اور یہ لہر ایک بار نہیں بلکہ بار بار آئیں گی۔ اس وارننگ نے سب کو اور پریشان کردیا۔

    بہرحال 2016 کے آغاز سے ہی ہیٹ ویو کے خلاف مؤثر اقدامات شروع کردیے گئے اور بڑے پیمانے پر آگہی مہمات چلائی گئیں جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ رواں برس اب تک آنے والی ہیٹ ویو میں صرف 3 افراد ہلاک ہوئے۔

    ہیٹ ویو کیا ہے؟

    کراچی جیسے شہر میں رہتے ہوئے، جو ایک صنعتی حب بن چکا ہے اور درختوں کی کٹائی روز بروز جاری ہے، اس بات کو سمجھنا از حد ضروری ہے کہ ہیٹ ویو کیا ہے؟

    ہیٹ ویو موسمیاتی تغیرات یا کلائمٹ چینج کے باعث پیدا ہونے والا ایک عمل ہے۔ کسی مقام کے ایک اوسط درجہ حرارت میں 5 سے 6 ڈگری اضافہ ہوجائے، ساتھ ہی ہوا بند ہوجائے، اور یہ عمل مستقل 3 سے 5 دن جاری رہے تو اسے ہیٹ ویو کہا جاتا ہے۔ اس کا پیمانہ ہر مقام کے لیے مختلف ہے۔

    مثال کے طور پر نیدرلینڈز میں واقع ڈی بلٹ علاقہ کا اوسط درجہ حرارت 25 ڈگری سینٹی گریڈ ہے۔ اگر اس کا درجہ حرارت بڑھ کر 30 ہوجائے تو اسے ہیٹ ویو کہا جاسکتا ہے۔

    کراچی کا جون (گرمی) کے مہینے میں اوسط درجہ حرارت 31 ڈگری سینٹی گریڈ ریکارڈ کیا گیا ہے۔ لیکن گذشتہ برس یہ 49 ڈگری سینٹی گریڈ تک چلا گیا جس نے شہر کو تپتے دوزخ میں تبدیل کردیا۔

    عالمی درجہ حرارت میں 2 ڈگری سینٹی گریڈ کا اضافہ؟

    اکیسویں صدی کا آغاز ہوتے ہی صنعتی ترقی میں بے پناہ اضافہ ہوگیا۔ اس کے ساتھ ساتھ کئی دیگر مسائل کا بھی آغاز ہوگیا جس میں سے ایک آبادی کا دیہاتوں اور ترقی پذیر علاقوں سے شہروں کی طرف ہجرت کرنا تھا۔ اس سے شہروں کی آبادی میں بے پناہ اضافہ ہوا، رہائش و دیگر سہولیات کے لیے تعمیرات شروع ہوئیں جس کے لیے درختوں، جنگلوں کو کاٹا گیا اور پارکس کی جگہ ختم کی گئی، شہر کے انفراسٹرکچر پر منفی اثر پڑا اور شور، فضا کی آلودگی میں بے پناہ اضافہ ہوگیا۔

    ان صنعتوں سے جن گیسوں کا اخراج شروع ہوا اس نے شہر کی فضا کو آلودہ کیا، انسانوں کی صحت پر منفی اثر ڈالا، جنگلی حیات کو نقصان پہنچایا، اور مجموعی طور پر شہروں کے درجہ حرارت میں اضافہ ہوگیا۔

    ان گیسوں نے اوزون کی تہہ کو بھی نقصان پہنچایا۔ اوزون آسمان کے نیچے وہ تہہ ہے جو سورج کی روشنی کو براہ راست زمین پر آنے سے روکتی ہے۔ اس تہہ کی خرابی سے بھی سورج کی روشنی زمین پر زیادہ آنے لگی اور یوں گرمی میں اضافہ ہوگیا۔

    کراچی اس حوالے سے دہرے خطرات کا شکار ہے۔ ایک جانب میٹرو پولیٹن شہر ہونے کے باعث عمارتوں کا جنگل ویسے ہی اس شہر کی سانس بند کیے ہوئے ہے، دوسری جانب چونکہ یہ ساحلی شہر ہے، اور گلوبل وارمنگ کے باعث گلیشیئرز پگھل رہے ہیں اور سطح سمندر میں اضافہ ہورہا ہے، تو کراچی کو ایک بڑے سونامی کا بھی خطرہ ہے۔ سطح سمندر میں اضافے کے باعث کراچی کے کئی ساحلی گاؤں اپنی زمین کھو چکے ہیں جبکہ کچھ دیہاتوں کا اگلے چند سالوں میں صفحہ ہستی سے مٹ جانے کا امکان ہے۔

    گذشتہ برس موسمیاتی تغیر یا کلائمٹ چینج کی عالمی کانفرنس میں ایک تاریخی معاہدے پر دستخط کیے گئے جس میں پاکستان سمیت 195 ممالک نے اس بات کا عزم کیا کہ وہ اپنی صنعتی ترقی کو محدود کریں گے اور اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ ان کی صنعتی ترقی عالمی درجہ حرارت میں 2 ڈگری سینٹی گریڈ سے زائد اضافہ نہ کرے۔

    کراچی ہیٹ ویو سے کیسے نمٹا گیا؟

    تاہم یہ 2 ڈگری سینٹی گریڈ بھی شہروں کی نفسیات تبدیل کردے گا اور انہیں اپنے ترقیاتی منصوبے اس اضافے کو مدنظر رکھتے ہوئے بنانے ہوں گے۔

    یہاں ہم جائزہ لیں گے کہ 2015 میں کراچی میں آنے والی ہیٹ ویو پر کس طرح قابو پایا گیا۔

    سال 2015 میں آنے والی ہیٹ ویو کے بعد ماہرین نے خبردار کردیا کہ یہ لہر اگلے سال، اور ہر سال آئے گی اور کراچی کے شہریوں کو اس کے لیے تیار رہنا ہوگا۔ چنانچہ 2016 کے آغاز سے ہی تمام متعلقہ ادارے الرٹ تھے اور شروع سال سے ہی اس پر کام ہو رہا تھا۔

    گرمیوں کے آغاز سے ہی اخبارات اور الیکٹرونک میڈیا کے ذریعہ بڑے پیمانے پر آگاہی مہم شروع کردی گئی جس میں لوگوں کو ہیٹ ویو سے بچاؤ کی احتیاطی تدابیر، اس کا شکار ہونے کی صورت میں اس کی علامات اور اس کے بعد جان بچانے کے اقدامات اٹھانے کے بارے میں بتایا گیا۔

    ان آگاہی پیغامات میں لوگوں کو دن کے اوقات میں گھر سے باہر نکلنے، دھوپ کے چشمے اور ہیٹ استعمال کرنے، پانی زیادہ پینے، زیادہ مشقت کا کام نہ کرنے کا کہا گیا جبکہ ہیٹ ویو کا شکار ہونے کی صورت میں انہیں قریبی ہیٹ ریلیف سینٹرز کے بارے میں بتایا گیا۔

    محکمہ موسمیات کو الرٹ رکھا گیا جس کے باعث ہیٹ ویو شروع ہونے سے ایک ہفتہ قبل ہی عوام کو آگاہ کردیا گیا۔

    حکومت کی جانب سے ڈیزاسٹر ریلیف مینجمنٹ کے تحت سرکاری اسپتالوں میں خصوصی ہیٹ ریلیف سینٹرز قائم کیے گئے۔ گرمیوں کی تعطیلات کی وجہ سے اسکول بند ہونے کے باعث اسکول اور کالجوں میں بھی یہ سینٹرز قائم کیے گئے۔

    مختلف تنظیموں کی جنب سے شہر بھر میں واٹر اسپاٹس قائم کردیے گئے جہاں سے ہیٹ ویو کے دنوں میں شہروں کو مفت پانی کی بوتلیں فراہم کی گئیں۔

    مختلف سرکاری و غیر سرکاری ایمبولینس سروسز بھی الرٹ رہیں جس کے تحت تمام علاقوں کے مرکزی مقامات پر تیار ایمبولینس کھڑی رہیں تاکہ کسی ہنگامی صورتحال میں فوری مدد کو پہنچا جاسکے۔

    ہیٹ ویو سے ہونے والی اموات کی وجہ چونکہ درختوں اور سایہ دار جگہوں کی عدم فراہمی تھی لہٰذا کمشنر کراچی کی جانب سے کسی بھی مقام پر درخت کٹنے کی صورت میں ذمہ داران کے خلاف فوری کارروائی کا حکم دیا گیا اور اس ضمن میں ایک ہیلپ لائن 1299 قائم کی گئی جس پر درخت کٹنے کی شکایات درج کروائی جاسکتی ہیں۔

    چونکہ عوام خود بھی ہیٹ ویو کی تباہ کاری سے خوف زدہ تھی چنانچہ رواں برس تمام احتیاطی تدابیر اٹھائی گئیں اور یوں 2015 کی 1700 اموات کے مقابلے اس سال ہیٹ ویو سے صرف 3 اموات ہوئیں۔

    یہاں کراچی کے جناح اسپتال کی ڈائریکٹر ڈاکٹر سیمی جمالی کا ذکر ضروری ہے جن کے مطابق ’کراچی میں آنے والی ہیٹ ویو کلائمٹ چینج کے باعث اب ایک معمول کی بات ہوگی۔ اسے ہوا بنانے کی ضرورت نہیں۔ خوف مت پھیلائیں، آگہی پھیلائیں کہ لوگوں کو کیسے بچنا ہے‘۔

    مطابقت کیسے کی جائے؟

    ماحولیاتی شعبہ میں دو اصلاحات استعمال کی جاتی ہیں، مٹی گیشن یعنی کمی کرنا اور ایڈاپٹیشن یعنی مطابقت پیدا کرنا۔

    کلائمٹ چینج ایک نیم قدرتی عمل ہے چنانچہ اسے روکنا یا اس میں کمی کرنا ممکن نہیں۔ لیکن اس سے مطابقت پیدا کرنی ازحد ضروی ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ گذشتہ برس کی ہیٹ ویو پر اٹھائے جانے والے تمام اقدامات عارضی ہیں اور کسی خاص موقع پر انہیں اپنا کر زندگیاں تو بچائی جا سکتی ہیں تاہم مستقل بنیادوں پر گلوبل وارمنگ سے مطابقت کرنا ضروری ہے۔ اس کے لیے شہر کو ایک طویل المعیاد اور پائیدار منصوبہ بندی کی ضرورت ہے جس میں ماحولیاتی خطرات کو سرفہرست رکھا جائے۔

    مزید پڑھیں: پاکستان میں شعبہ ماحولیات ۔ 1947 سے اب تک کا تاریخی جائزہ

    موسم کی شدت سے مطابقت پیدا کرنے کے لیے ماہرین کچھ تجاویز اپنانے پر زور دیتے ہیں۔

    شہر بھر میں بڑے پیمانے پر شجر کاری کی ضرورت ہے۔ کراچی میں شجر کاری تو کی جارہی ہے مگر بدقسمتی سے لگائے جانے والے درخت کونو کارپس کے ہیں۔ کونو کارپس ہماری مقامی آب و ہوا کے لیے بالکل بھی مناسب نہیں۔ یہ کراچی میں پولن الرجی کا باعث بن رہے ہیں۔ کونو کارپس دوسرے درختوں کی افزائش پر بھی منفی اثر ڈالتے ہیں جبکہ پرندے بھی ان درختوں کو اپنی رہائش اور افزائش نسل کے لیے استعمال نہیں کرتے۔

    بعض ماہرین کے مطابق کونو کارپس بادلوں اور بارش کے سسٹم پر بھی اثر انداز ہو رہے ہیں جس کے باعث کراچی میں مون سون کے موسم پر منفی اثر پڑ رہا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس کی جگہ نیم کے درخت لگائے جائیں جو شہر کے درجہ حرارت کو معتدل رکھیں گے۔

    پرانی نہروں اور ندیوں کا احیا کیا جائے۔ یہاں کراچی کی ایک مشہور نہر ’نہر خیام‘ کا تذکرہ ضروری ہے جو حکومت اور عوام کی غفلت کے باعث گندے نالے میں تبدیل ہوچکی ہے۔ یہی حال لیاری ندی کا ہے جبکہ کراچی کی ایک بڑی ملیر ندی میں فیکٹریوں کا زہریلا پانی خارج کیا جاتا ہے۔

    ہیٹ ریلیف سینٹرز کو سال بھر فعال رکھا جائے اور بڑے پیمانے پر ڈاکٹرز کو اس حوالے سے تربیت دی جائے۔

    محکمہ موسمیات کو تمام جدید ٹیکنالوجیز سے آراستہ کیا جائے تاکہ وہ بر وقت موسم کی شدت سے خبرادر کر سکیں۔

    حکومتی اداروں جیسے کے الیکٹرک اور مقامی واٹر بورڈ کے سیاسی استعمال سے گریز کیا جائے اور ان کی استعداد بڑھائی جائے تاکہ گرمی کے دنوں میں یہ عوام کو بجلی اور پانی فراہم کر سکیں۔

    سایہ دار جگہیں قائم کی جائیں۔ اس کی ایک مثال بھارت کے شہر ناگپور میں دیکھی گئی جہاں سگنلز پر سبز ترپال تان دیے گئے۔ یوں یہ سنگلز سایہ فراہم کرنے والے مقامت بن گئے۔ اس تدبیر سے ٹریفک قوانین کی عملداری میں بھی بہتری دیکھنے میں آئی۔

    ماہرین گرمی سے بچاؤ کی ایک تجویز گرین روف ٹاپ بھی دیتے ہیں۔ یہ طریقہ اب دنیا بھر میں مقبول ہورہا ہے۔ اس کے ذریعہ گھروں کی چھتوں پر سبز گھاس، درخت اور پھول پودے لگائے جاسکتے ہیں جس سے گھر قدرتی طور پر ٹھنڈے رہیں گے اور پنکھوں اور اے سی کا استعمال بھی کم ہوگا۔

    ایک اور طریقہ ورٹیکل یا عمودی گارڈننگ کا بھی ہے۔ اس کے ذریعہ جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے دیواروں میں بیلیں اور سبزہ اگایا جاسکتا ہے۔ یہ بھی گھروں اور دفتروں کو ٹھنڈا رکھنے میں مدد گار ثابت ہوں گے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ کلائمٹ چینج اور گلوبل وارمنگ اگلے چند سال میں دنیا کے لیے امن و امان اور دہشت گردی سے بھی بڑا خطرہ ثابت ہوسکتے ہیں۔ یہی نہیں فطرت میں تبدیلی دنیا میں غربت، بے روزگاری، شدت پسندی اور جنگوں کو فروغ دے سکتی ہے جس کے لیے ضروری ہے کہ اس سے مطابقت پیدا کی جائے اور ہنگامی بنیادوں پر اقدامات اٹھائے جائیں۔

  • ہیٹ ویو اور روزہ ۔ علما کیا کہتے ہیں؟

    ہیٹ ویو اور روزہ ۔ علما کیا کہتے ہیں؟

    کراچی: گزشتہ برس کراچی میں ماہ رمضان میں پڑنے والی شدید گرمی سے 1 ہزار سے زائد افراد جاں بحق ہوگئے۔ گرمی کی یہ شدید لہر جسے ہیٹ ویو کہا جاتا ہے، موسمیاتی تغیر یا کلائمٹ چینج کا ایک نتیجہ تھا۔

    شہر کراچی میں درختوں کی کٹائی، بلند و بالا عمارتوں کی تعمیر، دن بدن فیکٹریوں اور صنعتوں میں اضافہ اور ان سے نکلنے والے دھویں نے اس شہر کو ساحلی شہر ہونے کے باوجود گرم ترین شہر میں تبدیل کردیا ہے۔

    یہ تبدیلی بہ مشکل 2 عشروں میں وجود میں آئی۔ کراچی والوں کو اب بھی وہ دن یاد ہیں جب شہر میں ہر وقت سمندر کی ٹھنڈی ٹھنڈی ہوائیں چلتی تھیں اور موسم معتدل رہتا تھا۔

    مزید پڑھیں: ہیٹ ویو سے بچاؤ کے طریقے

    گزشتہ برس آنے والی ہیٹ ویو کراچی والوں کے لیے ایک نئی بات تھی۔ لوگوں کو اندازہ ہی نہیں تھا کہ ایسی صورتحال بھی پیش آسکتی ہے اور ایسی صورت میں کیا کرنا چاہیئے۔ ہوش و حواس بحال ہونے تک 1 ہزار سے زائد افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے جبکہ 36 ہزار سے زائد افراد اسپتالوں میں داخل ہوگئے۔

    رواں برس کا آغاز ہوتے ہی محکمہ موسمیات اور موسمیاتی ماہرین نے خبردار کردیا کہ یہ ہیٹ ویو دوبارہ آئے گی۔ نہ صرف کراچی میں بلکہ پورے ملک میں ایسی ہی شدید گرمی کی لہریں آئیں گی اور ایک نہیں کئی لہریں آئیں گی جو پورے موسم گرما میں جاری رہیں گی۔

    خوش آئند بات یہ ہوئی کہ موسم گرما کے آغاز سے قبل ہی صوبائی و شہری حکومت متحرک ہوگئی۔ بڑے پیمانے پر ہیٹ ویو کے نقصانات سے بچنے کے انتظامات کر لیے گئے۔ پورے شہر میں ہیٹ ریلیف سینٹرز قائم کردیے گئے۔ کئی غیر حکومتی تنطیموں نے بھی اپنا کردار ادا کیا اور جگہ جگہ پانی کے اسٹالز اور سایہ دار جگہیں قائم کردیں۔ مارچ اور اپریل میں 400 سے زائد رضا کاروں کو ہیٹ ویو کا شکار افراد کو ہنگامی طبی امداد دینے کی تربیت دی گئی۔

    مزید پڑھیں: کراچی ہیٹ ویو: اسے ہوّا مت بنائیں

    ہیٹ ویو سے قبل آگہی مہم بھی بھرپور انداز میں چلائی گئی۔ صوبائی ڈیزاسٹر مینجمنٹ نے اندرون سندھ بڑی تعداد میں پمفلٹس تقسیم کیے۔ الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے بھی بھرپور آگہی دی گئی یوں گزشتہ برس کی 1000 ہلاکتوں کے مقابلے میں رواں برس اب تک صرف 2 افراد کی ہلاکت دیکھنے میں آئی۔

    رواں برس ماہ رمضان کے آغاز سے ہی محکمہ موسمیات نے ہیٹ ویو سے بھی خبردار کردیا اور یوں شدید گرمی میں روزے رکھ سکنے یا نہ رکھنے کا مسئلہ سامنے آگیا۔ گزشتہ برس بھی علما کی جانب سے روزے میں آسانی کا فتویٰ جاری کیا گیا تھا۔ شدید گرمی میں روزوں کے بارے میں کیا حکم ہے، اس بارے میں ہم نے مختلف علما سے رائے لی۔

    مزید پڑھیں: ناگپور میں ہیٹ ویو سے بچاؤ کی انوکھی تدبیر

    مختلف مکتبہ فکر کے علما کا متفقہ فیصلہ ہے کہ ایسے افراد جن کی حالت اتنی خراب ہو کہ جان جانے کا خطرہ ہو، روزہ چھوڑ سکتے ہیں۔

    پاکستان علما کونسل کے سربراہ مولانا طاہر اشرفی کا اس بارے میں کہنا ہے، ’ڈاکٹرز کے مطابق اگر شدید گرمی سے آپ کی جان جانے کا خدشہ ہو، یا جسمانی طور پر آپ بدتر حالت میں ہوں اور روزہ رکھنے سے اس میں مزید خرابی کا اندیشہ ہو، تو ایسی صورت میں روزہ چھوڑا جا سکتا ہے‘۔

    انہوں نے بتایا کہ رمضان میں شدید گرمی کی لہر آنے کی صورت میں کونسل کی جانب سے روزے میں لچک کی ہدایت بھی جاری کردی جائے گی۔

    کیو ٹی وی کے پروگرام ’آسک مفتی‘ میں علامہ لیاقت حسین نے اس کی وضاحت کرتے ہوئے بتایا، ’قرآن میں لکھا ہے، ’اپنے آپ کو جان بوجھ کر ہلاکت میں نہ ڈالو۔‘ اگر جان جانے کا خطرہ ہو تو ایسی صورت میں روزہ چھوڑا جا سکتا ہے‘۔

    انہوں نے بتایا، ’جہاں تک ہیٹ ویو کا تعلق ہے تو اس کے لیے تمام احتیاطی تدابیر اختیار کریں۔ مثلاً دھوپ میں گھر سے نہ نکلیں، زیادہ مشقت والا کام نہ کریں۔ پھر بھی اگر جسمانی حالت اس قابل نہ ہو کہ سارا دن بھوکے پیاسے رہ کر نہ گزارا جا سکے تو روزہ چھوڑ دیں، اور بعد میں اس کا کفارہ دے دیں‘۔

    البتہ انہوں نے صرف ’گمان‘ کو ناپسندیدہ قرار دیا۔ ’یہ سوچنا کہ تمام احتیاطی تدابیروں کے باوجود میں روزہ رکھنے کے قابل نہیں، غلط ہے اور یہ جان بوجھ کر روزہ چھوڑنے کے مترادف ہے‘۔

    گرمی کے باعث اگر طبیعت خراب ہونے لگے تو اس صورت میں روزہ توڑنے کے بارے میں کیا حکم ہے؟ اس بارے میں رویت ہلال کمیٹی کے چیئرمین مفتی منیب الرحمٰن نے بتایا، ’جہاں تک برداشت ہوسکے روزہ کو نہ توڑا جائے، لیکن اگر برداشت سے باہر ہوجائے، انسان بے ہوش ہونے لگے تو اس صورت میں روزہ توڑا جا سکتا ہے۔ اس روزہ کی قضا ہوگی، کفارہ نہیں ہوگا‘۔

    واضح رہے کہ کراچی میں پچھلے 2 دن سے درجہ حرارت 40 کے قریب ہے۔ موسم گرما کے آغاز سے ہی سندھ کے جنوبی حصوں جیکب آباد، لاڑکانہ اور موہن جو دڑو میں درجہ حرارت 52 ڈگری سینٹی گریڈ ہے۔

    ماہرین کے مطابق روزہ دار اس موسم میں مشروبات اور پھلوں کا زیادہ سے زیادہ استعمال کریں اور مرغن اور چکنائی والی غذاؤں سے پرہیز کریں۔