Tag: یادداشت

  • یادداشت کی خرابی سے بچنے کا آسان طریقہ

    یادداشت کی خرابی سے بچنے کا آسان طریقہ

    یادداشت کی خرابی غیر صحت مند طرز زندگی اور بڑھتی عمر کے ساتھ مسئلہ بنتی جاتی ہے، تاہم حال ہی میں ماہرین نے اس سے محفوظ رہنے کا آسان طریقہ بتایا ہے۔

    حال ہی میں ایک برطانوی یونیورسٹی نے مہینے میں صرف ایک بار ورزش کو یادداشت محفوظ کرنے کا ذریعہ بتایا ہے۔

    اس حوالے سے یونیورسٹی کالج لندن کے سائنسدانوں نے 30 سال سے زائد عمر کے 1400 افراد کی عادات پر جانچ کی۔

    جامعہ نے 36 سے لے کر 69 سال کی عمر تک افراد کے لیے ایک سوال نامہ تیار کیا جس میں مختلف عمروں کے افراد سے ان کی روزمرہ کی زندگی سے متعلق سوالات پوچھے گئے۔

    جن افراد پر ریسرچ کی گئی جب وہ 69 برس کے ہوئے تو رضا کاروں نے ان کی یادداشت، توجہ، زبان اور بات چیت کی صلاحیت کا ٹیسٹ لیا۔

    ان افراد کے جوابات اور صلاحیتوں کے ٹیسٹ کے تناظر میں نتائج اخذ کرتے ہوئے یونیورسٹی کے سائنسدانوں کا کہنا تھا کہ ان میں جن افراد کی یادداشت بہتر پائی گئی اور جو نسبتاً زیادہ متحرک نظر آئے وہ ماہانہ ایک سے چار مرتبہ ورزش کیا کرتے تھے۔

    سائنسدانوں نے ورزش سے متعلق بتایا کہ وہ بیڈ منٹن، تیراکی، فٹنس ایکسر سائز، یوگا، ڈانسنگ، فٹبال، جاگنگ اور حتیٰ کہ تیزی کے ساتھ چہل قدمی بھی ہوسکتی ہے۔

    واضح رہے کہ ان ہی سائنسدانوں کی گزشتہ تحقیق میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ ورزش کرنے سے انسان میں یادداشت کے مسائل کا خطرہ 33 فیصد کم ہوجاتا ہے۔

  • بڑھتی عمر میں خراب یادداشت کے مسئلے سے کیسے بچا جاسکتا ہے؟

    بڑھتی عمر میں خراب یادداشت کے مسئلے سے کیسے بچا جاسکتا ہے؟

    عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ ذہنی کارکردگی کم ہوتی جاتی ہے اور یادداشت میں بھی فرق پڑتا ہے، تاہم اب ماہرین نے اس سے بچنے کے لیے ایک عادت اپنانے پر زور دیا ہے۔

    ایک حالیہ امریکی تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ زائد العمر افراد کی جانب سے یومیہ بنیادوں پر ملٹی وٹامنز اور منزلز کے استعمال سے ان کی یادداشت بہتر ہو سکتی ہے۔

    یادداشت کا زائد العمری سے گہرا تعلق ہے، تاہم سائنس دان یہ ثابت کرنے میں ناکام رہے ہیں کہ ضعیف العمری میں یادداشت کم کیوں ہوجاتی ہے یا پھر ذہن اتنا فعال کیوں نہیں رہتا؟

    اگرچہ زائد العمری اور یادداشت کا تعلق گہرا ہے، تاہم دنیا بھر کے لاکھوں لوگ ادھیڑ عمری میں ہی الزائمر اور ڈیمنشیا جیسی بیماریوں کا شکار بن جاتے ہیں، جسے عام زبان میں بھول جانے کی بیماری کہا جاتا ہے۔

    یادداشت کو بہتر بنانے کے لیے اگرچہ دوائیاں اور علاج موجود ہے، تاہم اب ایک تازہ تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ یومیہ ملٹی وٹامنز کھانے سے اس مسئلے سے بچا جا سکتا ہے۔

    طبی جریدے الزائمر ایسوسی ایشن میں شائع تحقیق کے مطابق اگر 65 سال یا اس سے زائد عمر کے افراد منرلز اور ملٹی وٹامنز کا یومیہ استعمال کریں تو ان کی یادداشت میں خاطر خواہ بہتری ہوسکتی ہے۔

    ماہرین نے تین سال 2 ہزار ضعیف افراد پر تحقیق کی اور انہوں نے رضا کاروں کو ملٹی وٹامنز سمیت کوکو کا استعمال بھی کروایا جبکہ ایک گروپ کو ماہرین نے فرضی دوا دی اور ہر سال ان کی یادداشت کا ٹیسٹ لیا۔

    ماہرین نے تمام افراد کا واقعات کو یاد رکھنے، سوچنے، مسائل کو حل کرنے سمیت اسی طرح کے یادداشت کو چیک کرنے کے دوسرے ٹیسٹ کیے۔

    3 سال تک جاری رہنے والی تحقیق سے معلوم ہوا کہ جن 65 سال یا اس سے زائد عمر کے افراد نے یومیہ بنیادوں پر ملٹی وٹامنز کا استعمال کیا، ان کی یادداشت واضح طور پر بہتر ہوئی۔

    نتائج سے معلوم ہوا کہ کوکو یعنی کافی اور چاکلیٹ کے اجزا کے استعمال سے زائد العمر افراد کی یادداشت میں کوئی بہتری نہیں ہوئی، ماہرین نے تجویز دی کہ زائد العمر افراد کو یادداشت بہتر بنانے کے لیے مستقل بنیادوں پر ملٹی وٹامنز اور منرلز استعمال کرنے چاہیئے۔

  • یادداشت بہتر بنانے والا پھول

    یادداشت بہتر بنانے والا پھول

    یادداشت کی خرابی عمر سے مبرا ہر کسی کا مسئلہ بنتی جارہی ہے، اس کی مختلف وجوہات ہوتی ہیں جن میں سرفہرست ذہنی تناؤ ہے۔

    یادداشت کو بہتر بنانے کے لیے کئی طرح کی ادویات کا استعمال اور دماغی مشقیں بھی کروائی جاتی ہیں لیکن ان سب کے لیے کافی وقت درکار ہوتا ہے تاہم اب سائنسدانوں نے اسے بہتر بنانے میں روزمیری تیل کی خوشبو کو کافی امید افزا پایا ہے۔

    تھرا پیوٹک ایڈوانسز ان سائیکو فارما کولوجی میں شائع ہونے والی تحقیق ایک ایسے مطالعے پر مشتمل تھی جس میں 20 افراد شامل تھے جس کے نتائج کو دیکھتے ہوئے یہ تجویز کیا گیا کہ روز میری تیل کی خوشبو مختلف دماغی مشقوں کی درستگی اور رفتار کو بڑھانے میں مدد فراہم کرسکتی ہے۔

    اسی طرح ایک اور تحقیق کی گئی جس میں بتایا گیا کہ ہوا میں موجود اس تیل کی خوشبو نے یاداشت کے امتحان میں کس طرح شرکا کی مدد کی۔

    اس تحقیق کے لیے 66 شرکا کو شامل کیا گیا اور انہیں تجربہ گاہ میں آنے سے قبل کمرے کو روز میری تیل کی خوشبوسے مہکا دیا گیا جبکہ دوسرے کمرے میں خوشبو کو شامل نہیں کیا گیا۔

    اب ان شرکا کے دو گروپ بنا کر انہیں الگ الگ کمروں میں بھیج دیا گیا جہاں دونوں میں یادداشت کو جانچنے کے لیے کچھ ٹیسٹ دیے گئے، اس ٹیسٹ میں ایسی اشیا کو تلاش کرنا تھا جو پہلے انہوں نے چھپی ہوئی دیکھی تھی۔

    اس کا اندازہ اس بنیاد پر کیا گیا کہ شرکا اس کام کو کتنے وقت میں ختم کرتے ہیں، جس کمرے میں روز میری تیل کی خوشبو تھی وہاں کے شرکا نے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا اور ساتھ ہی ان کی یادداشت کو جاننے کے لیے سوالنامہ بھی دیا گیا۔

    روزمیری یاداشت کو بہتر بنانے میں کس طرح کارآمد ثابت ہوتا ہے؟ تحقیق کے مطابق روز میری میں کارنوسک ایسڈ پایا جاتا ہے جو دماغ کو فری ریڈیکل سے ہونے والے نقصان سے تحفظ دیتا ہے، ساتھ ہی یہ ڈی این اے اور خلیات کو بھی فری ریڈیکل سے بچاتا ہے۔

    روز میری کی خوشبو میں موجود مرکبات ایسی ٹیلکولین کی خرابی کو روکتے ہیں، یہ ایک ایسا کیمیکل ہے جو دماغی خلیوں میں تحریک پیدا کر کے مواصلات اور یاداشت کا کام انجام دیتا ہے۔

  • بڑھاپے میں یادداشت کی خرابی سے بچانے والی حیران کن وجہ

    بڑھاپے میں یادداشت کی خرابی سے بچانے والی حیران کن وجہ

    یادداشت کا مرض ڈیمنشیا بڑی عمر میں ہونے والا ایک عام مرض ہے، تاہم حال ہی میں ماہرین نے اس سے بچاؤ کی ایک حیران کن وجہ دریافت کی ہے۔

    حال ہی میں ہونے والی ایک تحقیق میں بتایا گیا کہ ایک بہتر معاشرتی زنگی ڈیمنشیا کی ابتدائی علامات رکھنے والوں میں یادداشت کے مسائل کو ختم کردیتی ہے۔

    تحقیق کے مطابق وہ لوگ جو دوستوں اور گھر والوں کے ساتھ وقت گزارتے ہیں، کلاسز لیتے ہیں، مذہبی معاملات میں رضا کار بنتے ہیں یا شرکت کرتے ہیں ان کے دماغ واپس نارمل انداز میں کام کرنے لگ جاتے ہیں۔

    ایسا ان لوگوں کے ساتھ بھی ہو سکتا ہے جن میں یہ خرابی سالوں پہلے شروع ہوئی ہو، یہ ان لوگوں کے لیے اچھی خبر ہے جن کی یادداشت اور سوچنے کی صلاحیت میں لاک ڈاؤن کے دوران مسائل واقع ہوئے تھے۔

    ماہرین نے 22 سو کے قریب 62 سے 90 سال کے درمیان امریکیوں کے دماغ کی فعالی، طرزِ زندگی اور معاشرتی زندگی کا تجزیہ کیا، ان میں 972 لوگ وہ تھے جن میں جزوی کاگنیٹو مسائل تھے، جو عموماً ڈیمینشیا کی ایک علامت ہوتی ہے۔

    پانچ سال بعد ماہرین کو معلوم ہوا کہ 22 فیصد شرکا جن میں جزوی کاگنیٹو مسائل تھے، وہ اس حد تک بہتر ہوگئے کہ ان کا دماغ نارمل انداز میں کام کرنے لگا، 12 فیصد افراد میں ڈیمینشیا میں بتدریج کمی ہوئی اور 66 فیصد میں معاملات ویسے ہی رہے۔

    وہ لوگ جن کی معاشرتی سرگرمیاں زیادہ تھیں ان لوگوں میں بہتری کے امکانات زیادہ تھے۔

    امریکا کی یونیورسٹی آف یوٹاہ کی سربراہ پروفیسر منگ وین کا کہنا تھا کہ وہ سامنے آنے والی ان معلومات سے خوشگوار حیرانی میں مبتلا ہیں۔

  • گھٹنے کے آپریشن کے بعد نوجوان مادری زبان بھول گیا

    گھٹنے کے آپریشن کے بعد نوجوان مادری زبان بھول گیا

    ایمسٹرڈیم: اردو میں ایک مشہور ضرب المثل ہے ماروں گھٹنا پھوٹے آنکھ، اس کی مصداق نیدرلینڈز میں ایک نوجوان گھٹنے کے آپریشن اپنی یادداشت ہی بھول گیا۔

    نیدرلینڈز کے شہر ماسٹرچٹ کے ایک اسپتال میں 17 سالہ نوجوان فٹ بالر کو جب گھٹنے کے آپریشن کے بعد ہوش آیا تو انکشاف ہوا کہ وہ اپنی مادری زبان ہی مکمل طور پر بھول گیا ہے، اور صرف انگریزی ہی بول سکتا ہے۔

    لڑکا، جس کا نام نہیں بتایا گیا ہے، ایک فٹ بال میچ کے دوران انجری کے بعد گھٹنے کے آپریشن کے لیے اسپتال میں داخل کیا گیا تھا، اینِستھیزیا سے ہوش میں آنے کے بعد وہ ڈاکٹروں کی زبان سمجھ یا ان سے ڈچ زبان میں بات نہیں کر پا رہا تھا۔

    دل چسپ بات یہ ہے کہ وہ صرف انگریزی بول سکتا تھا، جو اس نے صرف اسکول میں سیکھی تھی اور کلاس کے باہر کبھی استعمال نہیں کی تھی۔

    لڑکے نے آپریشن کے بعد اپنے والدین کو بھی پہچاننے سے انکار کر دیا، اور اس کا ماننا تھا کہ وہ امریکا میں رہتا ہے، حالاں کہ وہ کبھی بھی امریکا نہیں گیا تھا۔

    تاہم، 24 گھنٹے بعد، جب اس کے دوست عیادت کے لیے آئے، اور اس کے ساتھ باتیں کیں، تو رفتہ رفتہ اس کی دونوں صلاحیتیں یعنی ڈچ زبان بولنا اور سمجھنا ایک دم واپس آگئیں۔

    ایک میڈیکل جرنل میں اس کیس کی تفصیلات بتاتے ہوئے سائنس دانوں کا کہنا تھا کہ نوجوان میں فارن لینگویج سِنڈروم کا انتہائی نایاب کیس پیدا ہوا، ایسی حالت تب ہوتی ہے جب لوگ اچانک اپنی آبائی زبان بولنا بھول جاتے ہیں اور اس کی بجائے اپنی ثانوی زبان پر انحصار کرتے ہیں، اور بھلے وہ زبان انھوں نے برسوں نہ بولی ہو۔

    ڈاکٹر ابھی اس کی صحیح وجہ بتانے سے قاصر ہیں، لیکن اس طرح کے کیسز سرجری کے بعد ہی رپورٹ کیے گئے ہیں جس میں اینستھیزیا شامل ہے، یا سر میں تکلیف دہ چوٹ کے بعد۔

  • کیا یادداشت کی خرابی کا علاج ممکن ہوسکے گا؟

    کیا یادداشت کی خرابی کا علاج ممکن ہوسکے گا؟

    بڑھاپے میں لاحق ہونے والی خرابی یادداشت کی بیماری الزائمر کو لاعلاج سمجھا جاتا ہے تاہم ماہرین نے اب اس حوالے سے ایک اہم پیش رفت کی ہے۔

    برطانوی اور جرمن محققین کی جانب سے مشترکہ طور پر کی جانے والی ایک تحقیق کے بعد الزائمر کے علاج میں ایک بڑی کامیابی حاصل ہوئی ہے جس میں دوا کے 15 پاؤنڈز فی ڈوز سے بیماری کو روکا یا ختم کیا جا سکے گا۔

    چوہوں پر کیے جانے والے ان تجربوں سے معلوم ہوا کہ دوا کے ڈوز نے دماغ میں سرخ پروٹینز کو ختم کیا اور یادداشت بحال کی۔ ماہرین کے مطابق اس تھراپی سے علاج میں انقلاب برپا کرنے کی صلاحیت ہے۔

    تحقیق کے شریک مصنف پروفیسر تھامس بائیر کا کہنا تھا کہ کلینکل ٹرائلز میں کسی بھی علاج نے الزائمر کی علامات کم کرنے اتنی کامیابی حاصل نہیں کی، کچھ نے منفی سائیڈ افیکٹ بھی دکھائے۔

    انہوں نے کہا کہ ہم نے چوہوں میں ایسی اینٹی باڈی کی شناخت کی جو ایمیلائڈ بیٹا کے ذرات کو غیر فعال کردیتے لیکن عام قسم کے پروٹینز سے نہیں جڑتے۔

    پروفیسر کا کہنا تھا کہ ٹیسٹ میں اینٹی باڈی اور انجینیئرڈ ویکسین دونوں نے دماغ کے نیورون فنکشن کی مرمت کی اور دماغ میں گلوکوز میٹابولزم بڑھایا، جس سے چوہوں کی یادداشت واپس آئی۔

    ماہرین کے مطابق اگر انسانوں پر ٹرائلز میں بھی نتائج ایسے ہی آئے تو پھر یہ انقلاب پذیر ہوسکتا ہے۔

  • کیا ڈرائیونگ کے انداز سے الزائمر کا پتا لگایا جانا ممکن ہے؟ محققین کی حیران کن ریسرچ

    کیا ڈرائیونگ کے انداز سے الزائمر کا پتا لگایا جانا ممکن ہے؟ محققین کی حیران کن ریسرچ

    ٹورنٹو: کینیڈا میں یونیورسٹی آف ٹورنٹو کے محققین نے ایک ریسرچ کے بعد کہا ہے کہ ڈرائیونگ کے انداز سے لوگوں میں الزائمر کی بیماری کا پتا چلایا جا سکتا ہے۔

    ریسرچ کے مطابق عمر کے ساتھ ساتھ لوگوں کا ڈرائیونگ کا انداز بھی بدل جاتا ہے، جو کہ الزائمر کی بیماری کے ابتدائی مراحل کا پتا لگانے میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے، اس تحقیق سے یہ بھی ثابت ہوا ہے کہ الزائمر کی علامات ظاہر ہونے سے 20 سال قبل ہی بیماری شروع ہو جاتی ہے۔

    اس سلسلے میں واشنگٹن میں 65 سال سے زیادہ عمر کے لوگوں کو تحقیق میں شامل کیا گیا، یہ افراد اس بات کے لیے راضی ہوئے کہ تحقیق کے لیے ان کی ڈرائیونگ کی نگرانی کی جائے، محققین نے یہ جاننا چاہا کہ کیا صرف اس گروپ کی ڈرائیونگ عادات کا مطالعہ کر کے اس بیماری کو ابتدائی مراحل میں پتہ لگایا جا سکتا ہے یا نہیں۔

    سائنس دانوں نے تحقیق میں شامل افراد کی گاڑیوں میں جی پی ایس لوکیشن ٹریکر نصب کیا، اور ایک سال تک معلومات جمع کرنے کے بعد انھیں معلوم ہوا کہ مہنگے طبی طریقہ کار کے بغیر بیماری کا پتا لگانا ممکن ہے۔

    اس مطالعے میں شامل 139 افراد کے طبی ٹیسٹ پہلے ہی ظاہر کر چکے تھے کہ ان میں سے نصف کو پری کلینیکل الزائمر کی بیماری ہے، باقی آدھے لوگوں میں الزائمر شناخت نہیں ہوئی تھی، محققین نے ان کو دو گروپس میں تقسیم کر کے ان کی عادات کا مطالعہ کیا۔

    محققین نے دیکھا کہ تحقیق میں شامل افراد کے گاڑی چلانے کے انداز میں واضح فرق ہے، الزائمر کی بیماری سے متاثرہ لوگ آہستہ گاڑی چلاتے ہیں اور رات کو کم سفر کرتے ہیں، جی پی ایس ٹریکرز نے ان کی نقل و حرکت کے بارے میں انکشاف کیا کہ وہ ایک تو زیادہ ڈرائیونگ نہیں کرتے اور دوم یہ کہ شارٹ کٹس کا استعمال کرتے ہیں۔

  • کرونا وائرس سے یادداشت متاثر ہوتی ہے؟

    کرونا وائرس سے یادداشت متاثر ہوتی ہے؟

    کرونا وائرس کی ایک اہم علامت سونگھنے اور چکھنے کی حس سے محروم ہوجانا ہے، کچھ کیسز میں کرونا وائرس مریضوں کو غیر حقیقی ناخوشگوار بو کا بھی سامنا کرنا پڑا ہے، ایسی کیفیت کو پیروسمیا یا اولفیکٹری ہیلوسینیشنز کہا جاتا ہے۔

    ان میں سے کسی ایک کا بھی شکار ہونے والا شخص افسردگی یا ڈپریشن کا شکار ہو سکتا ہے۔

    سعودی ویب سائٹ کے مطابق یادداشت کے کھو جانے سے جذبات اور یادیں بھی متاثر ہوتی ہیں، خاص طور پر طویل مدتی یادیں متاثر ہوتی ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ دماغ کے سامنے والے حصے میں موجود اولفیکٹری بلب کے ذریعے کسی بھی قسم کی بو کو پہچاننے میں مدد ملتی ہے۔ یہاں پر موجود اعصابی ریسیپٹرز کے ذریعے بو دماغ کے ان حصوں کو پہنچتی ہے جن کا تعلق جذبات اور یادداشت سے ہے۔

    یہی وجہ ہے کہ کسی نہ کسی چیز کی بو سے لوگوں کی یادیں بھی وابستہ ہو سکتی ہیں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ کوئی مخصوص بو کسی ایسی یاد کو جنم دے جو کچھ لوگوں کے لیے خوشگوار نہیں ہوتیں۔ اس سب سے یہ نتیجہ نکلا کہ سونگھنے کی حس ہمارے جذباتی تجربات سے وابستہ ہوتی ہے۔

    ایک تحقیق سے یہ معلوم ہوا ہے کہ سونگھنے کی حس اور افسردگی کے مابین ایک باہمی رشتہ ہے کیونکہ سونگھنے کے احساس سے محروم ہونا افسردگی کے جذبات کو تیز کرتا ہے اور یہ افسردگی سونگھنے کی حس کے احساس کے کھو جانے کا باعث بن سکتی ہے۔

    اس تحقیق میں 322 کرونا متاثرین شامل تھے جن کی سونگھنے کی حس مکمل یا جزوی طور پر غائب تھی، ان میں سے 56 فیصد نے بتایا کہ سونگھنے کی حس متاثر ہونے سے انہوں نے زندگی میں خوشی کھو دی ہے جبکہ 43 فیصد کا کہنا تھا کہ وہ ڈپریشن کا شکار ہو گئے ہیں۔

    کرونا وائرس کا نہ صرف ہمارے جذبات پر اثر ہوتا ہے بلکہ یہ ہماری یادوں کو بھی ابھارتا ہے۔ تصور کریں کہ جذبات اور یادوں سے بھر پور زندگی سے اچانک یہ سب ختم ہو جائے۔

    کرونا وائرس سے صحت یاب ہونے کے دو ماہ بھی اگر سونگھنے کی حس بحال نہیں ہوئی تو وہ چند ترکیبیں اپنائے جس سے اپنی حس کو واپس لانے کی کوشش کر سکتے ہیں۔ اس کا ایک طریقہ یہ ہے کہ تیز خوشبو جیسے لیموں اور لونگ کو بیس سیکنڈ کے لیے مسلسل سونگھیں۔ ویسے تو عمر کے ساتھ ساتھ بھی سونگھنے کی حس متاثر ہوتی ہے لیکن اس ترکیب سے یہ حس بحال رہ سکتی ہے۔

  • بھول جانے کی عادت سے پریشان ہیں؟

    بھول جانے کی عادت سے پریشان ہیں؟

    بڑھاپے میں یادداشت کی خرابی عام بیماری ہے، یہ بیماری پڑھاپے سے قبل بھی لاحق ہونے لگتی ہے اور عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ چیزیں یاد رکھنے میں مسئلہ پیش آتا ہے، اگر آپ بھی اسی صورتحال کا شکار ہیں تو یہ عادت اپنا لیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر آپ بڑھاپے میں اپنے دماغ کو جوان رکھنا چاہتے ہیں تو گری دار خشک میوہ جات جیسے مونگ پھلی، اخروٹ، پستہ، بادام، چلغوزے اور کاجو وغیرہ کھانا اپنی عادت بنالیں۔

    ایک تحقیق کے مطابق روزانہ خشک میوہ جات کھانا طویل عرصے تک فوائد پہنچا سکتا ہے۔ خشک میوہ جات نہ صرف بڑھاپے میں یادداشت کو بحال رکھتے ہیں بلکہ طویل عرصے تک انہیں کھاتے رہنا سوچنے کی صلاحیت، دماغی کارکردگی اور یادداشت میں بہتری پیدا کرتا ہے۔

    ماہرین کے مطابق خشک میوہ جات میں اینٹی آکسائیڈز، ریشہ، میگنیشیئم اور جسم کے لیے فائدہ مند چکنائی شامل ہوتی ہے جو بڑھاپے میں الزائمر کے خطرے میں 60 فیصد تک کمی کرتے ہیں۔

    اس سے قبل ایک اور تحقیق میں بتایا گیا تھا کہ یہ میوہ جات امراض قلب میں 30 فیصد، کینسر میں 15 فیصد اور قبل از وقت موت کے خطرے میں 21 فیصد کمی کرتے ہیں۔

    ان میں سے کچھ ذیابیطس کے خلاف بھی مددگار ثابت ہوتے ہیں اور اس کے خطرے میں 40 فیصد کمی کرتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق یہ دل کو توانا بناتے ہیں اور جسم میں کولیسٹرول کی سطح کو بھی معمول پر رکھتے ہیں۔

    ماہرین کی تجویز ہے کہ روزانہ 2 چائے کے چمچ میوہ جات کا استعمال دماغی و جسمانی صحت کو فوائد پہنچانے کے لیے کافی ہے۔

  • یادداشت کو بہتر بنانے کے لیے شرلاک ہومز کا طریقہ

    یادداشت کو بہتر بنانے کے لیے شرلاک ہومز کا طریقہ

    چیزوں کو یاد رکھنا آج کل ہر شخص کے لیے مسئلہ بن چکا ہے اور لوگ اپنی خراب یادداشت سے پریشان ہیں، یادداشت کو بہتر بنانے کے بہت سے طریقے ہیں اور ایسا ہی ایک طریقہ شرلاک ہومز کا بھی ہے۔

    اگر آپ نے معروف فکشن کردار سراغرساں شرلاک ہومز کی کہانیاں اور فلمیں پڑھ اور دیکھ رکھی ہیں تو آپ کو علم ہوگا کہ وہ ہر قسم کی تفصیلات ایک مائنڈ (دماغ) پیلس میں محفوظ کرتا ہے۔

    یہ ایک ایسی تیکنیک ہے جو قدیم یونان میں سامنے آئی تھی اور اب محققین نے دریافت کیا ہے کہ یہ طریقہ کار واقعی طویل المعیاد یادوں کو تشکیل دینے میں کارآمد ثابت ہوتا ہے۔

    میتھڈ آف لوسائی نامی اس تکنیک میں کوئی شخص ذہنی طور پر کسی جانے پہچانے مقام پر گھومتے پھرتا ہے۔

    جیسے گھر یا کوئی پسندیدہ پارک، ذہنی طور پر گھومتے ہوئے جو چیزیں یاد رکھنا چاہتے ہیں وہ وہاں مختلف حصوں میں رکھ دی جاتی ہیں اور بعد ازاں حقیقت میں اپنے قدموں پر دوبارہ چلتے ہوئے ان تفصیلات کو اٹھا لیا جاتا ہے۔

    مثال کے طور پر اگر آپ مینار پاکستان سے واقف ہیں تو تصور کریں کہ وہاں آپ چہل قدمی کر رہے ہیں اور کسی لفظ جیسے کتاب کو جھیل میں گرا دیا، پھر ایک اور لفظ کسی اور جگہ گرا دیا۔

    اب جب آپ حقیقت میں مینار پاکستان جائیں گے تو اسی نقشے کو ذہن میں اجاگر کرتے ہوئے ان مقامات پر چلتے ہوئے ان چیزوں کو اٹھا لیں۔

    ایک تحقیق کے مطابق کہ اس طریقہ کار سے لوگ الفاظ کی فہرستیں، ہندسوں کی سیریز اور دیگر اشیا کو طویل عرصے یاد رکھ سکتے ہیں۔

    ویانا یونیورسٹی کی اس تحقیق میں 17 میموری ایتھلیٹس یا چیمپیئنز کی خدمات حاصل کی گئیں جو یادداشت کے مقابلوں میں دنیا کے سرفہرست 50 افراد میں شامل تھے۔

    اسی طرح 16 ایسے افراد کو بھی تحقیق کا حصہ بنایا گیا جو عمر اور ذہانت کے حوالے سے ان میموری ایتھلیٹس کا مقابلہ کرسکتے تھے۔

    ان رضا کاروں کے دماغوں کے ایف ایم آر آئی اسکینز اس وقت کیے گئے جب وہ ایک فہرست سے مختلف الفاظ پڑھ رہے تھے۔ اس کے بعد ان رضا کاروں سے کہا گیا کہ وہ ان الفاظ کو اسی ترتیب سے یاد کریں جس طرح فہرست میں دی گئی تھی۔

    تحقیق کے دوسرے حصے میں 50 ایسے افراد کو شامل کیا گیا جن کا یادداشت کی تربیت کا کوئی تجربہ نہیں تھا اور ان میں سے 17 کو 6 ہفتوں تک میتھڈ آف لوسائی استعمال کرنے کی تربیت فراہم کی گئی۔

    ان میں سے 16 افراد کو ایک اور مختلف طریقہ کار کی تربیت فراہم کی گئی جبکہ باقی افراد کو کسی قسم کی تربیت نہیں دی گئی۔

    تمام افراد کے دماغوں کو ایف ایم آر آئی اسکینز تربیت سے پہلے اور بعد میں کیے گئے اور وہی ٹاسکس کرائے گئے جو پہلے حصے میں دوسرے گروپ سے کروائے گئے تھے۔

    نتائج سے معلوم ہوا کہ جن افراد کو میتھڈ آف لوسائی کی تربیت دی گئی تی انہوں نے طویل المعیاد یادوں کے حوالے سے دیگر کے مقابلے میں بہترین کارکردگی کا مظاہر کیا۔

    محققین نے دریافت کیا کہ اس طریقہ کار کی تربیت سے ان افراد کی پائیدار یادوں میں نمایاں اضافہ ہوا مگر مختصر المدت یادوں میں کوئی خاص تبدیلی دیکھنے میں نہیں آئی۔

    ماہرین نے دیکھا کہ میموری ایتھلیٹس اور لوسائی کی تربیت حاصل کرنے والے افراد کی الفاظ کی فہرستوں اور ترتیب کو یاد رکھنے کی دماغی سرگرمی ملتی جلتی تھی۔

    انہوں نے کہا کہ اس طریقہ کار کو سیکھنا ہر ایک کے لیے ممکن ہے، بس کچھ وقت اور مشق کو معمول بنانے کی ضرورت ہوگی، چاہے ہر ایک کے لیے یہ موزوں نہ ہو مگر اس سے یادداشت بہتر ہوسکتی ہے۔