Tag: یادداشتیں

  • جب والد کی مار پیٹ سے خوف زدہ اے حمید کو جھوٹ بولنا پڑا!

    جب والد کی مار پیٹ سے خوف زدہ اے حمید کو جھوٹ بولنا پڑا!

    یہ اردو کے مقبول ناول نگار اور ڈرامہ نویس اے حمید کی زندگی کا ایک دل چسپ باب ہے جس میں وہ بتاتے ہیں‌ کہ والد ان کے مستقبل کے لیے فکر مند تھے اور اکثر ڈانٹ ڈپٹ بلکہ مار پیٹ تک نوبت آجاتی تھی۔ اے حمید نے جھوٹ بول کر کس طرح ایک معمولی نوکری حاصل کی اور قیامِ پاکستان کے بعد اپنا ادبی سفر کیسے شروع کیا۔ اے حمید کی زبانی جانیے۔

    "یہ قیامِ پاکستان سے چند برس پہلے کا زمانہ تھا۔ میٹرک پاس کرنے کے بعد میں حسبِ عادت خانہ بدوشوں والی زندگی بسر کر رہا تھا۔ صبح امرتسر تو شام لاہور میں ہوتی تھی۔”

    "والد صاحب مجھے کسی جگہ مستقل ملازمت دلوانے کی فکر میں رہتے تھے۔ میں ان سے خوف زدہ بھی تھا۔ وہ پہلوان ٹائپ آدمی تھے اور ان کو میرے مستقبل کی فکر بھی تھی جو بڑی جائز بات تھی۔ میری حالت یہ تھی کہ کسی جگہ ٹک کر کام کرنا میرے مزاج کے بالکل خلاف بات تھی۔”

    "ان کی ڈانٹ ڈپٹ بلکہ مار پیٹ سے تنگ آکر میں کلکتہ اور بمبئی کی طرف بھی بھاگ جایا کرتا تھا، کبھی ان کے قابو آ جاتا تو کسی جگہ مہینہ ڈیڑھ مہینے کے لیے نوکری بھی کر لیتا تھا۔ چنانچہ جب میں نے پہلی بار عرب ہوٹل کو دیکھا تو اس زمانے میں اسلامیہ کالج کی لائبریری میں بطور کیئرٹیکر ملازم تھا۔ یہ ملازمت بھی میں نے جھوٹ بول کر حاصل کی تھی۔”

    "لائبریری کا لائبریرین ایک دُبلا پتلا، گورے رنگ کا کم سخن، بڑی ذہین آنکھوں والا دانشور قسم کا نوجوان جہانگیر تھا۔ پورا نام مجھے یاد نہیں رہا۔ یہ نوکری میں نے اس لیے بھی کر لی کہ چاروں طرف کتابوں کی الماریاں لگی تھیں۔ لائبریری میں بڑی خاموشی رہتی اور بڑا ادبی قسم کا ماحول تھا۔ مجھے یاد ہے کہ میں نیا نیا رنگون کی آوارہ گردیوں سے واپس آیا تھا۔ جہانگیر صاحب نے مجھ سے پوچھا کہ کیا مجھے لائبریری میں کام کرنے کا پہلے کوئی تجربہ ہے؟ میں نے جھوٹ بولتے ہوئے بڑے اعتماد سے کہا… ’’جی ہاں! میں رنگون ریڈیو اسٹیشن کی لائبریری میں اسسٹنٹ لائبریرین تھا۔ حالانکہ مجھے لائبریری کے ٹیکنیکل کام کی بالکل سمجھ نہیں تھی۔ جہانگیر صاحب نے کچھ کتابیں میرے سامنے رکھ دیں اور کہا…
    ’’ان کی کیٹے لاگنگ کر دو۔‘‘”

    "میری بلا جانے کہ کیٹے لاگنگ کیسے کی جاتی ہے۔ میں کتابیں سامنے رکھ کر یونہی ان کے اوراق الٹ پلٹ کر دیکھنے لگا۔ جہانگیر صاحب میرے پاس ہی بیٹھے تھے۔ سمجھ گئے کہ میں اس میدان میں بالکل اناڑی ہوں۔ میں نے انہیں صاف صاف کہہ دیا کہ مجھے یہ کام بالکل نہیں آتا لیکن اگر آپ نے مجھے نوکری نہ دی تو والد صاحب مجھے بہت ماریں گے۔ مسٹر جہانگیر بڑے شریف النفس اور درد مند انسان تھے۔ انہوں نے مجھے کیئرٹیکر کی نوکری دے دی۔ میرا کام کتابوں کو اٹھا کر الماری میں رکھنا اور نکالنا تھا۔ مجھے لائبریری کا ماحول اور اسلامیہ کالج کے لمبے خاموش ٹھنڈے برآمدوں میں چلنا پھرنا بڑا اچھا لگتا تھا لیکن یہ نوکری بھی میں نے دو مہینے کے بعد چھوڑ دی۔”

    "پاکستان بنا تو ہم بھی امرتسر کے مسلمانوں کے ساتھ ہجرت کر کے لاہور آ گئے۔ میں نے افسانے لکھنے شروع کردیے تھے اور لاہور کے ادبی حلقوں میں میرا ایک مقام بن گیا تھا۔ اپنے دوستوں احمد راہی اور عارف عبدالمتین کے ساتھ میں بھی کبھی کبھی عبدالمجید بھٹی صاحب سے ملنے عرب ہوٹل یا ان کی رہائش گاہ پر جاتا۔ بھٹی صاحب کی وضع داری اور مہمان نوازی میں ذرہ برابر فرق نہیں پڑا تھا۔ کبھی وہ ہمیں ساتھ لے کر نیچے عرب ہوٹل میں آ جاتے اور پرانے دنوں کو یاد کرتے جب عرب ہوٹل کی ادبی محفلیں اپنے عروج پر تھیں۔”

    "پاکستان بن جانے کے بعد لاہور میں کافی ہاؤس اور پاک ٹی ہاؤس وجود میں آ چکے تھے اور یہ دو ریستوران ادیبوں، صحافیوں اور دانشوروں کے نئے ٹھکانے بن گئے تھے۔ لاہور کو شروع ہی سے ادبی اور ثقافتی اعتبار سے تاریخی حیثیت حاصل رہی تھی۔ چنانچہ قیام پاکستان کے بعد دیکھتے دیکھتے پرانے ریستورانوں کے علاوہ کئی نئے ریستوران کھل گئے جہاں روز و شب ادیبوں، شاعروں اور صحافیوں کی مجلسیں گرم رہنے لگیں۔ میں اس حقیقت کا عینی شاہد ہوں کہ اس زمانے میں لاہور کا کوئی چائے خانہ کوئی ریستوران ایسا نہ تھا جہاں کوئی نہ کوئی ادیب شاعر یا نامور صحافی نہ بیٹھتا ہو۔ مولانا چراغ حسن حسرت، عبداللہ بٹ، ریاض قادر اور دوسرے لوگ کافی ہاؤس میں بھی بیٹھے تھے اور میٹرو ہوٹل میں بھی اپنی محفلیں جماتے تھے۔ میٹرو ہوٹل اس جگہ واقع تھا جہاں آج کل واپڈا ہاؤس ہے۔ چیئرنگ کراس سے لے کر ٹولنٹن مارکیٹ تک مال روڈ پر آمنے سامنے کتنے ہی چھوٹے بڑے ریستوران تھے ان میں سے کسی کی چائے، کسی کے سینڈوچ اور کسی کی پیسٹری مشہور تھی۔ مال روڈ پر بھٹی فوٹو گرافر کے ساتھ والے شیزان ریسٹوران کی بیکری خاص طور پر لیمن ٹاٹ، چکن سینڈوچز اور فروٹ کیک کی بڑی شہرت تھی۔ جب کہ شاہ دین بلڈنگ والے اور ینگز ریستوران کی چائے کے فلیور کا جواب نہیں تھا۔ یہ بھی ایک عجیب پراسرار، پرسکون، خاموش کلاسیکل ریستوران تھا جس کے فرش پر قالین بچھے تھے۔ گول میزوں پر تانبے کا پترا چڑھا تھا۔ تانبے کے بڑے گلدانوں میں یوکلپٹس کی ٹہنیاں بھی ہوتی تھیں۔ بہت کم لوگ وہاں بیٹھے دکھائی دیتے تھے۔ فضا میں چائے کے فلیور کے ساتھ یوکلپٹس کے پتوں کی دھیمی دھیمی مہک پھیلی ہوتی تھی۔ بڑی رومانٹک خاموشی ہر وقت ماحول پر طاری رہتی تھی۔”

  • مسلم لیگ والے کانگریسی وزارت کے خلاف کیوں ہوئے؟

    مسلم لیگ والے کانگریسی وزارت کے خلاف کیوں ہوئے؟

    "سیاسی یادوں میں میری سب سے پہلی یاد لکھنؤ کا الیکشن ہے جو شاید 1935ء میں ہوا تھا۔

    مسلم لیگ، کانگریس اور جمعیتُ العلما کے متفقہ نمائندے مولانا شوکت علی تھے جن کا مقابلہ سر شفاعت احمد خاں سے تھا۔ مولانا شوکت علی جیت گئے اور سب نے کہا کہ یہ برٹش گورنمنٹ کی بہت بڑی شکست ہوئی۔ تھوڑے دنوں کے بعد یو پی میں کانگریسی حکومت بن گئی۔ لیکن کچھ باتیں ایسی ہوئیں جن سے مسلمانوں کا ایک بڑا طبقہ کانگریس سے ناراض ہو گیا۔ اب تو یہ باتیں سب کو معلوم ہو گئیں لیکن اس وقت بہت سے لوگوں کی سمجھ میں یہ نہیں آتا تھا کہ اب تک تو سب مسلمان کانگریس کے ساتھ تھے، اب ایسی کیا بات ہوئی کہ دونوں میں اختلاف ہو گیا۔

    اس اختلاف کا مظاہرہ علی گڑھ میں بھی ہونے لگا۔ اس وقت تک زیادہ تر پڑھے لکھے لڑکے (علی گڑھ والوں کی زبان میں) کانگریسی تھے، مثلاً خواجہ احمد عباس، حیات اللہ انصاری، اسرار الحق مجاز، علی سردار جعفری، چچا صدیق (صدیق احمد صدیقی) وغیرہ۔ ہم نے اور آپ نے تو ان میں سے صرف چند کو علی گڑھ میں دیکھا تھا اور وہ اس گروہ کے آخری لوگ تھے، یعنی مجاز، جاں نثار اختر اور سلطان نیازی۔ اس کے بعد جب مسلمان کانگریس سے خفا ہوئے تو علی گڑھ میں ایک نئی ہوا چلنے لگی۔

    جناح صاحب کا علی گڑھ آنا تو یاد ہو گا۔ کیسی بھیڑ تھی اسٹیشن پر اور کیسے ریل کی پٹری پر پٹاخے رکھے گئے تھے کہ جب ان پر سے کالکا میل کا انجن گزرا تو معلوم ہوتا تھا کہ جناح صاحب کے استقبال میں توپوں کی سلامی دی جا رہی ہو۔
    جناح صاحب کی یہ آمد تو شاید 40ء کے بعد کی تھی۔ اس سے پہلے علی گڑھ میں فضا کا بدلنا مجھے ایک پوسٹر کی وجہ سے یاد ہے جو یومِ نجات کے سلسلے میں نکالا گیا تھا۔

    جب 39ء میں کانگریسی حکومت نے استعفیٰ دیا تو مسلم لیگ کی طرف سے سارے صوبے میں یومِ نجات منایا گیا۔ حالاں کہ اس وقت میری عمر دس برس کے قریب تھی، لیکن گھر کے سیاسی ماحول کی وجہ سے کچھ کچھ سیاست میری سمجھ میں آتی تھی۔ مجھے اس کا بڑا دکھ ہوا کہ ایک ہندوستانی حکومت کے ختم ہونے پر کوئی جشن منایا جائے۔

    ابھی چند برس پہلے مولانا آزاد اور چودھری خلیق الزّماں کی کتابیں پڑھ کر سمجھ میں آیا کہ آخر مسلم لیگ والے کانگریسی وزارت کے اتنا خلاف کیوں تھے۔ کانگریس کے ساتھ مل کر الیکشن جیتنے کے بعد وزارت کے متعلق ان کی امیدیں پوری نہیں ہوئیں اور وہ سمجھے کہ اس معاملے میں کانگریس نے ان کے ساتھ دھوکا کیا ہے۔ بس اس کے بعد تو دلوں میں ایک کے بعد دوسری گرہیں پڑتی گئیں۔‘‘

    (معروف شاعر اور ادیب نسیم انصاری کی یادداشتوں پر مبنی کتاب جوابِ دوستاں سے ایک پارہ)

  • اودے پور کا فرضی طلسم

    اودے پور کا فرضی طلسم

    نواب رضا علی خان کے مسند نشین ہونے کے موقع پر جب خواجہ حسن نظامی رام پور تشریف لے گئے تو 2 ربیعُ الاوّل 1349 ہجری، 29 جولائی 1930 بروز سہ شنبہ مولوی حکیم نجم الغنی خاں سے بھی ملنے گئے۔ اس روداد کو خواجہ صاحب ہی کی زبان قلم سے سنیے۔

    اس (ناشتہ) کے بعد مولانا نجم الغنی صاحب مؤرخ سے ملنے گیا جو موجودہ زمانے کے سب سے عمدہ اور بہت زیادہ اور نہایت محققانہ اور آزادانہ اور بے باکانہ لکھنے والے مؤرخ ہیں۔

    شمس العلماء مولانا ذکا اللہ صاحب مرحوم دہلوی نے آخر زمانے میں تاریخ کی بہت بڑی بڑی جلدیں لکھی ہیں۔ مگر حکیم نجم الغنی خاں صاحب کی کتابیں تعداد میں بھی بہت زیادہ ہیں اور ضخامت میں بھی زیادہ ہیں۔ تاریخ کے علاوہ طب وغیرہ علوم و فنون کی بھی انہوں نے بہت اچھی اچھی کتابیں لکھی ہیں۔ شہرۂ آفاق فلاسفروں اور مصنفوں کی طرح ایک نہایت مختصر اور سادہ مکان میں بیٹھے تھے۔ چاروں طرف کتابوں اور نئے مسودات کا ڈھیر لگا ہوا تھا۔ ساٹھ ستر کے قریب عمر ہے۔ بال سب سفید ہوگئے ہیں مگر کام کرنے کی انرجی اور مستعدی نوجوانوں سے زیادہ معلوم ہوتی ہے۔ بہت عمدہ پھل کھلائے، پان کھلائے اور اپنی تازہ تصانیف بھی دکھائیں۔ ایک کتاب اودے پور کی نسبت لکھی ہے۔ مولانا شبلی مرحوم نے اورنگ زیب پر ایک نظر کے نام سے بہت اچھی کتاب شائع کی تھی مگر وہ راجپوتانے کے واقعات سے بے خبر تھے۔

    مولانا نجم الغنی خاں صاحب نے راجپوتانہ کی مستند تاریخوں سے اورنگ زیب کی تاریخی حمایت کا حق ادا کیا ہے اور اودے پور کے مہا رانا کے اس غرور اور گھمنڈ کو توڑ پھوڑ کر مسمار کردیا ہے جس میں وہ آج تک مبتلا ہے۔ موجود مہارانا کے والد 1911 کے شاہی دربار میں دہلی آئے تو شہر کے باہر ٹھہرے کیونکہ ان کے ہاں‌ یہ عہد ہے کہ دہلی میں فاتح کی حیثیت سے داخل ہوں گے۔ انگریزوں نے بھی اودے پور کے خیالی پلاؤ کی مخالفت نہیں کی اور مہارانا کو دہلی کے اندر آنے کے لیے مجبور نہیں کیا تاکہ ان کی آن بان باقی رہے مگر مولانا نجم الغنی صاحب کی اس تاریخ کو پڑھ کر اودے پور کے سب نشے ہرن ہو جائیں گے اور وہ طلسم ٹوٹ جائے گا جو اودے پور کی فرضی روایتوں نے ہندو قوم کے دل و دماغ میں بنا رکھا ہے کہ اودے پور کا مہارانا کبھی مسلمان سلطنت کے سامنے نہیں جھکا اور کبھی مسلمانوں سے مغلوب نہیں ہوا۔

    میں نے مولانا سے یہ کتاب لے لی ہے اور میں اس کو اپنے اہتمام سے اور اپنے خرچ سے شائع کروں گا۔ مولانا نے اس کا نام تاریخِ اودے پور رکھا ہے مگر میں نے اس کے نئے نام تجویز کیے ہیں جن میں سے ایک غرور شکن ہے اور دوسرا اودے پور کا فرضی طلسم ہے۔ یہ کتاب خدا نے چاہا بہت جلدی شائع ہو جائے گی۔

    مولانا نجم الغنی‌ صاحب بہت زیادہ کام کرتے ہیں۔ ان کی عمر اور ان کی محنت دیکھ کر مجھے بہت غیرت آئی کہ مجھے اپنے زیادہ کام کا فخر رہتا ہے حالانکہ مولانا نجم الغنی صاحب مجھ سے زیادہ بوڑھے ہیں مگر کئی حصے زیادہ کام کرتے ہیں۔

    رخصت ہوا تو مولانا سواری تک پہنچانے آئے۔ قدیمی بزرگوں کی تہذیب و شایستگی کا وہ ایک مکمل نمونہ ہیں۔

    مولانا نجم الغنی خاں رام پوری شعر و شاعری کا بھی ذوق رکھتے تھے، نجمی تخلص تھا۔ وہ اپنی ضخیم اور وقیع تصنیفات کی بدولت زندہ و جاوید ہیں۔

  • کیا آپ پنڈت برج موہن دتاتریہ کو جانتے ہیں؟

    کیا آپ پنڈت برج موہن دتاتریہ کو جانتے ہیں؟

    پنڈت برج موہن دتاتریہ کیفی دہلوی اردو کے عاشقوں میں سے تھے۔

    انجمن ترقی اردو (ہند) کا مرکزی دفتر حیدر آباد دکن سے دہلی منتقل ہوا تو وہ انجمن کے ہمہ وقتی رکن بن گئے اور اردو کی ترقی اور فروغ کی کوششوں میں بابائے اردو کا ہاتھ بٹانے لگے۔

    بڑے عالم فاضل شخص تھے۔ اردو، فارسی، عربی اور انگریزی پر تو عبور رکھتے ہی تھے، سنسکرت اور ہندی میں بھی خاصی استعداد تھی۔ اعلیٰ پائے کے ادیب اور شاعر تھے۔

    ابتدا میں اپنے کلام پر انھوں نے مولانا حالی سے اصلاح لی تھی۔ تنقید میں بھی حالی کی پیروی کرتے تھے۔ معاش کے لیے پنڈت کیفی نے درس و تدریس کا پیشہ اختیار کیا۔ عرصہ دراز تک کشمیر میں قیام پذیر رہے۔ کچھ عرصہ لائل پور (موجودہ فیصل آباد) میں بھی گزارا۔ ان کی شخصیت میں ایسی کشش تھی کہ جہاں بھی رہے وہاں کے شاعر اور ادیب ان کے پاس آئے اور ان کی صحبت سے فیض اٹھایا۔

    پنڈت کیفی ان بوڑھوں میں سے تھے جن کی صحبت میں بوڑھوں، جوانوں، بچوں سبھی کا دل لگتا۔ میری ان سے خاصی دوستی ہوگئی تھی۔ دلی تو ان کا گھر ہی تھا۔ اس کے چپے چپے کی تاریخ سے وہ واقف تھے۔ اپنے بچپن اور جوانی کی دلی کے قصے مزے لے لے کے سنایا کرتے تھے۔ کشمیر اور لائل پور کے بھی قصے سناتے اور لائل پور کے اپنے بعض دوستوں اور شاگردوں کا ذکر بہت محبت سے کرتے تھے۔

    کیفی دہلوی نے ادب و شعر کی مختلف اضاف میں متعدد کتابیں لکھیں جن میں سے بعض نصاب میں بھی شامل رہیں۔ وہ 13 دسمبر 1866 کو دہلی میں پیدا ہوئے اور یکم نومبر 1955 کو نواسی سال کی عمر میں دہلی کی ایک نواحی بستی غازی آباد میں وفات پائی۔

    (معروف شاعر، افسانہ نگار اور فلم ساز خلیق ابراہیم خلیق کی یادداشتوں سے ایک ورق)

  • مجذوب کا کہا سچ ہوا!

    مجذوب کا کہا سچ ہوا!

    میں مدرسۂ دینیات کے وظیفے کی تگ و دو میں تھا اور نواب صدر یار جنگ، صدر الصدور امورِ مذہبی کے بنگلے پر چکر لگاتا تھا۔ ان کا بنگہ خیریت آباد (حیدر آباد دکن) میں تھا۔

    ایک دن علی الصباح میں نواب صد یار جنگ سے ملنے خیریت آباد اپنی سائیکل پر جا رہا تھا کہ اسٹیشن کے قریب مجھے ایک شخص ملا جو ننگ دھڑنگ تھا۔

    اس نے میری سائیکل کے سامنے کھڑے ہو کر سائیکل روک لی۔ پھر نہایت درشت لہجے میں مجھ سے پوچھا کہاں جارہا ہے؟ میں نے جواب دیا نواب صدر یار جنگ سے ملنے۔ اس نے کہا کہ ان کا نام تو ہمارے یہاں سے کٹ گیا ہے۔ میں نے کہا۔ تمھارے یہاں سے کٹا ہو گا، مگر ہمارے یہاں سے نہیں۔ اس نے کہا تمھارے یہاں سے بھی چھے ماہ میں کٹ جائے گا۔

    یہ کہہ کر وہ سڑک کے ایک کنارے ہو گیا اور میں نے اپنا راستہ لیا۔ میں راستے میں اسے دیوانے کی بڑ سمجھتا رہا اور مجذوب کی اس بات کو بھول گیا۔ اس بات کو چھے ماہ گزرے ہوں گے کہ نواب لطفُ الدّولہ، صدر المہام امورِ مذہبی ہوئے۔ پہلے تمام کاغذات اعلیٰ حضرت کی پیشی میں صدر الصدور پیش کرتا تھا، اب یہ کاغذات بتوسط صدر المہام پیش ہونے لگے۔

    نواب صدر یار جنگ کے اختیار میں زوال آنا شروع ہوا۔ کہتے ہیں کہ نواب لطفُ الدولہ اور نواب صدر یار جنگ میں چلی ہوئی تھی۔ یہ اختلافات وسیع ہوتے چلے گئے۔ اگر نواب صدر یار جنگ دن کو دن کہتے تو وہ رات۔ اس صورتِ حال نے نواب صدر یار جنگ کو دل شکستہ کر دیا۔

    یہ واقعہ اعجاز الحق قدوسی نے اپنی یادداشتوں پر مبنی کتاب میں رقم کیا ہے۔ مجذوب سے ملاقات کے بعد انھوں نے وہی کچھ دیکھا جو اس نے بیان کیا تھا۔ یعنی لگ بھگ چھے ماہ بعد صدر یار جنگ عہدے پر نہ رہے۔ دونوں کے مابین اختلافات کا نتیجہ یہ نکلا کہ صدر یار جنگ مستعفی ہو کر اپنے وطن حبیب گنج چلے گئے۔