Tag: یادگار غالب

  • مرزا غالب کا دستر خوان

    مرزا غالب کا دستر خوان

    اگر اردو نثر و ںظم میں خواجہ الطاف حسین حالی کو ایک مجدّد اور تنقید کے بانی کی حیثیت سے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا تو ‘یادگارِ غالب’ بھی وہ سوانح ہے جو حالی کی شناخت اور پہچان کبھی ماند نہیں پڑنے دے گی۔ الطاف حسین حالی، مرزا غالب کے ایک ایسے معتقد تھے جن کی غالب سے دوستی بھی تھی، اور ان کے وہ شاگرد بھی تھے۔

    یہاں ہم اردو کے عظیم شاعر مرزا غالب کی زندگی کے آخری ایّام، اُن کی خوراک اور انھیں‌ مرغوب غذا کے بارے میں حالی کی تحریر سے یہ پارے نقل کررہے ہیں‌ جو آپ کی دل چسپی کا باعث بنے گا۔ ملاحظہ کیجیے۔

    "مرزا کی نہایت مرغوب غذا گوشت کے سوا اور کوئی چیز نہ تھی۔ ایک وقت بھی بغیر گوشت کے نہیں رہ سکتے تھے۔ یہاں تک کہ مسہل کے دن بھی انہوں نے کھچڑی یا شوربہ نہیں کھایا۔ اخیر میں ان کی خوراک بہت کم ہوگئی تھی۔ صبح کو وہ اکثر شیرہ بادام پیتے تھے۔ دن کو جو کھانا ان کے لئے گھر میں سے آتا تھا اس میں صرف پاؤ سیر گوشت کا قورمہ ہوتا تھا۔ ایک پیالہ میں بوٹیاں اور دوسرے میں لعاب یا شوربہ، ایک پیالی میں ایک پھلکے کا چھلکا شوربے میں ڈوبا ہوا۔ ایک پیالی میں کبھی کبھی ایک انڈے کی زردی، ایک اور پیالی میں دو تین پیسہ بھر دہی اور شام کو کسی قدر شامی کباب یا سیخ کے کباب۔ بس اس سے زیادہ ان کی خوراک اور کچھ نہ تھی۔

    ایک روز دوپہر کا کھانا آیا اور دسترخوان بچھا۔ برتن تو بہت سے تھے مگر کھانا نہایت قلیل تھا۔ مرزا نے مسکرا کر کہا، ’’اگر برتنوں کی کثرت پر خیال کیجے تو میرا دسترخوان یزید کا دسترخوان معلوم ہوتا ہے اور جو کھانے کی مقدار کو دیکھیے تو بایزید کا۔‘‘

    ایک دن قبل غروب آفتاب کے مرزا صاحب شام کو کھانا کھا رہے تھے اور کھانے میں صرف شامی کباب تھے۔ میں بھی وہاں موجود تھا اور ان کے سامنے بیٹھا رومال سے مکھیاں جھل رہا تھا، مرزا نے کہا آپ ناحق تکلیف فرماتے ہیں، میں ان کبابوں میں سے آپ کو کچھ نہ دوں گا۔ پھر آپ ہی یہ حکایت بیان کی۔ نواب عبدالاحد خاں کے دسترخوان پر ان کے مصاحبوں اور عزیزوں اور دوستوں کے لئے ہر قسم کے کھانے چنے جاتے تھے، مگر خاص ان کے لئے ہمیشہ ایک چیز تیار ہوتی تھی۔ وہ اس کے سوا کچھ نہ کھاتے تھے۔ ایک روز ان کے لئے مز عفر پکا تھا وہی ان کے سامنے لگایا گیا۔ مصاحبوں میں ایک ڈوم بہت منہ لگا ہوا تھا جو اس وقت دسترخوان پر موجود تھا۔ نواب نے اس کو کھانا دینے کے لئے خالی رکابی طلب کی۔ اس کے آنے میں دیر ہوئی۔ نواب کھانا کھاتے جاتے تھے اور خالی رکابی بار بار مانگتے تھے۔ وہ مصاحب نواب کے آگے رومال ہلانے لگا اور کہا، ’’حضور رکابی کیا کیجیے گا اب یہی خالی ہوئی جاتی ہے۔‘‘ نواب یہ فقرہ سن کر پھڑک گئے اور وہی رکابی اس کی طرف سرکا دی۔ "

  • منفرد طرزِ نگارش اور دل نشیں پیرایۂ اظہار کے حامل مرزا ظفرُالحسن کا تذکرہ

    منفرد طرزِ نگارش اور دل نشیں پیرایۂ اظہار کے حامل مرزا ظفرُالحسن کا تذکرہ

    مرزا ظفر الحسن اردو زبان کے نام ور مصنّف، افسانہ نگار، براڈ کاسٹر، ادبی نقّاد اور ادارۂ یادگار غالب کراچی کے بانی سیکریٹری جنرل تھے جنھیں 4 ستمبر 1984 کو دستِ اجل نے ہم سے چھین لیا تھا۔ انھوں نے اپنی یادداشتوں اور ادبی شخصیات کے تذکروں پر مبنی متعدد کتب یادگار چھوڑی ہیں۔

    سنگا ریڈی، ضلع میدک، حیدرآباد دکن کے ظفر الحسن کو ان کا علمی و ادبی ذوق دکن ریڈیو تک لے گیا تھا جہاں انھوں‌ نے ملازمت کے دوران اپنی فنی اور تخلیقی صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا۔ تقسیمِ ہند کے بعد وہ پاکستان چلے آئے اور یہاں اردو زبان و ادب کی خدمت اور فن سے متعلق سرگرمیوں‌ میں‌ مشغول ہوگئے۔

    3 جون 1916ء کو پیدا ہونے والے مرزا ظفر الحسن نے معاشیات میں ایم اے کیا۔ وہ دکن کی عالمی سطح پر پہچان رکھنے والی جامعہ عثمانیہ کے طالبِ علم تھے۔ زمانۂ طالب علمی میں وہ انجمنِ طلبۂ جامعہ عثمانیہ کے سیکریٹری بھی رہے۔ تعلیم سے فراغت کے بعد نشر گاہ حیدرآباد سے وابستہ ہوئے اور وہاں بھی نام اور مقام بنایا۔

    پاکستان آنے کے بعد انھوں‌ نے ریڈیو پاکستان اور پھر الیکشن کمیشن آف پاکستان میں ملازمت اختیار کی۔ 1968ء میں کراچی میں ادارہ یادگارِ غالب کی بنیاد رکھی اور ایک مثالی کتب خانہ غالب لائبریری قائم کیا، جو اپنے قیمتی علمی ذخیرے کے ساتھ شہر میں‌ ایک ادبی و تہذیبی مرکز کے طور پر مشہور ہوا اور وہ اس ادارے کے بانی سیکریٹری جنرل رہے۔

    مرزا صاحب نے افسانہ نگاری سے اپنے تخلیقی سفر کا آغاز کیا تھا، لیکن پھر یہ مشغلہ ترک کر دیا اور کئی برس بعد لکھنے کا سلسلہ شروع کیا تو قارئین کو ان کے دلنشیں اسلوب اور طرزِ نگارش نے اپنی جانب متوجہ کرلیا۔ ان کی مشہور کتابوں میں ذکرِ یار چلے، پھر نظر میں پھول مہکے اور دکن اداس ہے یارو…ان کی یادداشتوں پر مبنی مجموعے ہیں۔ اس کے علاوہ عمرِ گذشتہ کی کتاب (مخدوم محی الدین اور فیض احمد فیض کے کلام کا تقابلی مطالعہ)، خون دل کی کشید (فیض کی شخصیت و فن)، یادِ یار مہرباں (زیڈ اے بخاری کی یادوں پر مشتمل)، وہ قربتیں وہ فاصلے (دکن کا سفرنامہ) اور محبت کی چھاؤں (افسانوں کا مجموعہ) بھی منظرِ عام پر آیا۔

    انھیں کراچی میں سخی حسن کے قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔

  • اسلام اور مزاح….

    اسلام اور مزاح….

    خواجہ الطاف حسین حالی اردو زبان و ادب اور برصغیر کے مسلمانوں کے ایک عظیم محسن ہیں۔

    اس نادرِ روزگار شخصیت کو شاعر، نثر نگار، نقّاد اور مصلح قوم بھی مانا جاتا ہے جنھوں نے ادبی اور معاشرتی سطح پر زندگی کے بدلتے ہوئے تقاضوں کو محسوس کیا اور ادب و معاشرت کو ان تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے میں تاریخی کردار ادا کیا۔

    یہاں ہم مزاح کے عنوان سے حالی کے ایک نہایت معلوماتی، مفید اور اصلاحی مضمون سے چند اقتباسات پیش کررہے ہیں جسے پڑھ کر اس پر غور و فکر کرنا آج ہمارے لیے پہلے سے کہیں‌ زیادہ ضروری ہوگیا ہے اور اس کی روشنی میں‌ ہمیں‌ معاشرے میں اپنا انفرادی اور اجتماعی کردار، شخصیت اور رویّوں کا جائزہ لینا چاہیے۔ یہی نہیں بلکہ اس مضمون میں غور کیا جائے تو ہم یہ جان سکیں گے کہ آج ہماری ذہنی پستی، گراوٹ اور اخلاقی حالت کے زوال کے اسباب کیا ہیں۔ اقتباسات ملاحظہ کیجیے۔

    خواجہ الطاف حسین حالی لکھتے ہیں:
    ” مزاح جب تک مجلس کا دل خوش کرنے کے لیے (نہ کہ کسی کا دل دکھانے کے لیے) کیا جائے، ایک ٹھنڈی ہوا کا جھونکا یا ایک سہانی خوشبو کی لپٹ ہے جس سے تمام پژ مردہ دل باغ باغ ہو جاتے ہیں۔

    ایسا مزاح فلاسفہ و حکما بلکہ اولیا و انبیا نے بھی کیا ہے۔ اس سے مرے ہوئے دل زندہ ہوتے ہیں اور تھوڑی دیر کے لیے تمام پژ مردہ کرنے والے غم غلط ہو جاتے ہیں۔ اس سے جودت اور ذہن کو تیزی ہوتی ہے اور مزاح کرنے والا سب کی نظروں میں محبوب اور مقبول ہوتا ہے۔ بَرخلاف اس کے جب وہ اس حد سے بڑھنے لگتا ہے تو دم بہ دم ہول ناک ہوتا ہے اور آخر کو اس سے بجائے محبّت کے دشمنی اور بجائے خوشی کے غم پیدا ہوتا ہے۔ وہ اخلاق کو اس طرح کھا جاتا ہے جیسے لوہے کو زنگ یا لکڑی کو گھن۔

    اسلام نے انسان کی تہذیب اور اصلاح میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا، اس نے مزاح کو صرف وہیں تک جائز رکھا ہے جس سے خوشی حاصل ہوتی ہو اور اخلاق پر برااثر نہ پڑتا ہو۔ آں حضرتﷺ فرماتے ہیں کہ ’’میں بھی مزاح کرتا ہوں، مگر کوئی بات بے جا نہیں کہتا۔‘‘ آپﷺ خود بھی کبھی کبھی مزاح فرماتے تھے اور اگر کوئی دوسرا شخص کوئی لطیف مزاح کرتا تھا تو مسکرا کر خاموش ہو جاتے تھے لیکن ہر وقت یا بہت مزاح کرنے کو ناپسند کرتے تھے اور سخریت و استہزا کی سخت ممانعت کرتے تھے۔

    یعنی کسی کی حقارت یا پردہ دری کرنی جس پر لوگ ہنسیں یا کسی کی نقل اتارنی یا کوئی اور ایسی بات کرنی جس سے دوسرا شخص ذلیل ہو اور فحش اور سب و لعن کو نہایت مبغوض سمجھتے تھے۔ یہاں تک کہ بتوں کو بھی سَب کرنے سے منع فرماتے تھے۔

    ایک بار چند آدمی کفّار کے ان مقتولوں کو جو بدر میں مارے گئے تھے برائی سے یاد کر رہے تھے، آپ سُن کر ناراض ہوئے اور ان کو سخت ممانعت کی۔ آپ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ طعن کرنے والا، لعنت کرنے والا، فحش بکنے والا اور بے ہودہ گو مومن نہیں ہے۔

    آپﷺ کی ممانعت کا طریقہ ایسا مؤثر تھا کہ جس کو ایک مرتبہ نصیحت کی وہ ساری عمر کے لیے اس برائی سے باز آگیا۔ کتبِ احادیث میں اکثر مثالیں ایسے لوگوں کی موجود ہیں جنھوں نے صرف آپ کی ایک بار کی ممانعت پر تمام عمر فحش وغیرہ زبان سے نہیں نکالا۔

    مثلاً ایک مرتبہ آپﷺ نے فرمایا کہ ’’اپنے ماں باپ کو گالی دینا گناہِ عظیم ہے۔‘‘ لوگوں نے عرض کیا کہ ’’حضرت ایسا کون ہوگا جو اپنے ماں باپ کو گالیاں دیتا ہوگا؟‘‘

    فرمایا، ’’جو شخص کسی کو ماں باپ کی گالی دے کر اس سے اپنے ماں باپ کو گالیاں دلواتا ہے حقیقت میں وہی ان کا گالیاں دینے والا ہے۔‘‘

    اسلام کی یہ تعلیم عرب میں اس قدر پھیلی کہ فحش اور بے شرمی کی باتیں وہاں سے گویا بالکل مفقود ہو گئیں۔”

  • وہ لمحہ مرزا غالبؔ کا دل بھر آیا!

    وہ لمحہ مرزا غالبؔ کا دل بھر آیا!

    غالبؔ کے ایک امیر دوست جن کی حالت غدر میں بہت سقیم ہوگئی تھی، چھینٹ کا فرغل پہنے ہوئے ملنے آئے۔

    غالبؔ نے انھیں کبھی مالیدے یا جامہ دار کے چغوں کے سوا نہیں دیکھا تھا۔

    چھینٹ کا فرغل دیکھ کر غالبؔ کا دل بھر آیا، امداد کا خیال پیدا ہوا، لیکن دوست کی دل داری کا تقاضا یہ تھا کہ اس کے ساتھ ایسے طریق پر سلوک کیا جائے کہ اسے اپنی بے چارگی اور بے بسی کا احساس نہ ہو اور پیش کردہ ہدیہ قبول کرتے ہوئے عار نہ آئے۔

    غالبؔ نے یہ عرض مدِنظر رکھ کر چھینٹ کے فرغل کی بے حد تعریف کی۔

    پوچھا کہ یہ چھینٹ کہاں سے لی ہے اور (دوست سے) درخواست کی کہ مجھے بھی اس کا فرغل بنوا دیا جائے۔

    دوست نے بلا تکلف کہا کہ ”اگر آپ کو یہ بہت پسند ہے تو یہی لے لیجیے۔“

    غالب نے کہا، ”جی تو یہی چاہتا ہے کہ آپ سے ابھی چھین لوں، لیکن جاڑا شدت سے پڑ رہا ہے، آپ یہاں سے مکان(اپنے گھر تک) کیا پہن کر جائیں گے۔“

    اسی کے ساتھ اپنا مالیدے کا نیا چغہ (اپنے دوست کو) پہنا دیا۔


    (حالی کی مشہور تصنیف "یادگارِ غالبؔ” سے انتخاب)