Tag: یادگار واقعات

  • یاد جھروکے: رسالہ السٹریٹڈ ویکلی اور استاد قمر جلالوی کے دستخط!

    یاد جھروکے: رسالہ السٹریٹڈ ویکلی اور استاد قمر جلالوی کے دستخط!

    استاد قمر جلالوی سے کئی مشاعروں اور محفلوں میں‌ کلام سننے کا موقع ملا تھا۔ میرے دوست مظہر علی سہروردی ریڈیو پاکستان کراچی کے ایڈمنسٹریشن آفس میں ہوتے تھے۔ جب بھی کوئی محفلِ مشاعرہ ریڈیو پاکستان میں‌ منعقد ہوتی تو کارڈ بھجوا دیتے تھے۔ ان کارڈز کی بدولت گزشتہ صدی کے پانچویں اور چھٹے عشرے کے شاعروں ماہر القادری، ارم لکھنوی، شاعر لکھنوی، اقبال صفی پوری، ادیب سہارن پوری، آل رضا، بہزاد لکھنوی، تابش دہلوی، ذوالفقار علی بخاری، محشر بدایونی، سراج الدّین ظفر، رئیس امروہوی، اسد ملتانی اور خدا جانے کتنے شاعروں کو سنا اور ان سے شرفِ ملاقات حاصل کیا۔

    میرے دوست کے علاوہ ریڈیو پاکستان میں رضی اختر شوق بھی تھے لیکن ان سے پاکستان آنے کے بعد ملاقات نہیں‌ ہوئی تھی۔ ورنہ ہندوستان میں شہر گلبرگہ ( حیدرآباد دکن) میں وہ ہماری بڑی سی دکان میں‌ صبح سے شام کر دیتے تھے۔ ان کے دوست غلام حسین ساحل( جن کا ذکر ان کے مجموعے ‘جست’ میں‌ ہے) کے ساتھ گھنٹوں گفتگو میں گزار دیتے تھے مگر مجھ سے سروکار نہ رکھتے تھے۔ مجھے بھی اندازہ نہ تھا کہ وہ آگے چل کر اتنے اہم اور معروف شاعر اور ریڈیو کے نام وَر پروگرام پروڈیوسر ہوں گے۔

    مشفق خواجہ مرحوم نے میرزا ادیب سے رضی اختر شوق کے تعارف میں‌ کہا تھا، ان کو شاعری کا شوق تھا، اس لیے شوق تخلّص کیا۔ میری عدم توجہی نے اس طرح کے معقول فقرے کہنے کا موقع گنوا دیا۔

    استاد قمر جلالوی کا ذکر کررہا تھا۔ 1965ء کی بھارت پاکستان جنگ کے بعد، ریڈیو پاکستان نے جنگ کے حوالے سے ایک مشاعرہ کیا۔ یہ مشاعرہ ریڈیو پاکستان کے بالمقابل جمشید ہال میں‌ ہوا تھا۔ میں وہاں مشاعرہ سے قبل ہی پہنچ گیا تھا۔ شعراء کے آنے کا سلسلہ جاری تھا۔ میں نے دیکھا استاد قمر جلالوی بھی آئے اور ایک کرسی پر بیٹھ گئے۔ میرے پاس السٹریٹڈ ویکلی آف پاکستان کا رسالہ تھا جس کے سرورق پر استاد کی تصویر تھی۔ اچکن اور دو پلی میں مائک کے سامنے بیٹھے کلام سنا رہے ہیں۔ میں نے یہ رسالہ استاد قمر جلالوی کو پیش کیا اور بڑے احترام سے اس پر ان سے دستخط کی درخواست کی۔ استاد نے تصویر کو دیکھا اور دستخط کرنے کے بجائے فکرِ سخن کرنے لگے۔ ایک آدھ منٹ بعد استاد قمر جلالوی نے دستخط کرنے سے پہلے فی البدیہہ یہ شعر کہا اور لکھا:

    بہت تھی آرزو تم کو کلام سننے کی
    قمر کو پڑھتے ہوئے آج تم نے دیکھ لیا

    یہ شعر لکھ کر انھوں نے دستخط بھی کردیے۔

    (علم و ادب کے شائق عبدالرزّاق گلبرگوی کی زندگی کا ایک یادگار واقعہ)

  • یکم فروری:’آکسفورڈ ڈکشنری‘ کا پہلا نسخہ زیورِ طبع سے آراستہ ہوا

    یکم فروری:’آکسفورڈ ڈکشنری‘ کا پہلا نسخہ زیورِ طبع سے آراستہ ہوا

    انگریزی زبان کی مشہور و معروف اور معیاری لغت ’آکسفورڈ ڈکشنری‘ (Oxfird Dictionary) ذخیرۂ الفاظ بڑھانے کے ساتھ ساتھ معلوماتِ عامّہ کا بھی مستند ذریعہ ہے جس سے دنیا بھر میں استفادہ کیا جاتا ہے۔

    یہ لغت جہاں انگریزی زبان کی تاریخ، تدریج و ترّقی سے آگاہ کرتی ہے، وہیں‌ زبان و بیان اور علم و ادب میں‌ دل چسپی رکھنے والوں کے لیے خزینۂ معلومات ہے۔ یہ ہر شعبۂ حیات اور تمام علوم کا احاطہ کرنے کے ساتھ عام بول چال، بامحاورہ اور روزمرّہ کا وسیع ذخیرہ رکھتی ہے اور علم و ادب کے موضوعات میں ادنیٰ طالبِ علم سے لے کر استاد اور محققین تک کی مددگار ہے۔ عام لوگ بھی حسبِ موقع اس سے استفادہ کرتے ہیں۔

    کیا آپ جانتے ہیں‌ کہ اس معروف معیاری لغت کا پہلا نسخہ 1884ء میں آج ہی کے دن، یکم فروری کو زیورِ طبع سے آراستہ ہوا تھا؟

    اسے اوکسفورڈ یونیورسٹی پریس شایع کرتا ہے، اس لغت پر 1857ء میں کام شروع ہوا تھا، اور پہلا نسخہ مذکورہ تاریخ کو شایع ہوا۔ 1895ء میں اس لغت کے سرورق پر پہلی بار غیر رسمی طور پر ’’دی آکسفورڈ ڈکشنری‘‘ بھی لکھا گیا۔

    1928ء میں ادارے نے 10 جلدوں میں مکمل لغت شایع کی اور 1933ء میں باضابطہ طور پر اسے ’’دی آکسفورڈ انگلش ڈکشنری‘‘ کا نام دیا گیا۔ اس ایڈیشن میں کُل بارہ جلدیں اور ایک ضمیمہ بھی تھا۔ بعد میں ضمیموں کی اشاعت اور اس کے نئے ایڈیشنوں پر کام ہوتا رہا، جب کہ 1988ء میں لغت کا پہلا برقی نسخہ بھی شایع کیا گیا۔ 2000ء میں یہ آن لائن دست یاب ہوئی۔

    اس لغت کے ورقی اور برقی نسخوں سے دنیا بھر میں‌ لاکھوں لوگ استفادہ کرتے ہیں۔