Tag: یمن جنگ

  • یمن جنگ کے خاتمے کے لیے جرمنی اور متحدہ عرب امارات سرگرم

    یمن جنگ کے خاتمے کے لیے جرمنی اور متحدہ عرب امارات سرگرم

    ابوظہبی: یمن میں سالوں سے جاری جنگ کے خاتمے کے لیے جرمنی اور متحدہ عرب امارات کا مشترکہ کوششوں اور حکمت عملی پر اتفاق ہوگیا۔

    تفصیلات کے مطابق جرمنی اور متحدہ عرب امارات حکام نے فیصلہ کیا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف اور یمن میں جاری جنگ کے خاتمے کے لیے مل کر کام کریں گے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق گذشتہ روز جرمن چانسلر انجیلا مرکل اور یو اے ای کے ولی عہد شیخ محمد بن زید النہیان نے جرمنی کے دارالحکومت برلن میں ملاقات کی اس دوران یہ فیصلہ کیا گیا۔

    دوسری جانب امارات نے 10 کروڑ ڈالر سے یمن میں پاور اسٹیشن بنانے کا اعلان کیا ہے، یہ اسٹیشن 2019 کے اواخر میں کام شروع کر دے گا اور اس سے 25 لاکھ کے قریب یمنی شہری مستفید ہوں گے۔

    متحدہ عرب امارات میں خلیفہ بن زاید آل نہیان فاؤنڈیشن نے یمن کی بجلی کی وزارت کے ساتھ ایک سمجھوتے پر دستخط کیے ہیں۔ اس کے تحت یمن کے جنوبی شہر عدن میں 10 کروڑ ڈالر لاگت سے بجلی کا پاور اسٹیشن بنایا جائے گا۔

    الحدیدہ میں حوثیوں کی عسکری سرگرمیاں بدستور جاری ہیں: اقوام متحدہ

    خلیفہ بن زاید آل نہیان فاؤنڈیشن کے نائب سربراہ حمد جمعہ الزعابی کے مطابق اس پاور اسٹیشن کی پیداواری طاقت 120 میگا واٹ ہو گی۔ یہ اسٹیشن 2019 کے اواخر میں کام شروع کر دے گا اور اس سے 25 لاکھ کے قریب یمنی شہری مستفید ہوں گے۔

    ان کا مزید کہنا تھا کہ یمن میں تعمیر نو کے عمل میں اقتصادی اور انسانی بحرانات کے حوالے سے بڑے چیلنجوں کا سامنا ہے۔

  • حوثیوں کی جنگ کے خطرات خطے اور ساری دنیا تک پھیل رہے ہیں، یمنی صدر

    حوثیوں کی جنگ کے خطرات خطے اور ساری دنیا تک پھیل رہے ہیں، یمنی صدر

    صنعا: یمنی صدر عبدربہ منصور ہادی کا کہنا ہے کہ حوثیوں کی جنگ کے خطرات خطے اور ساری دنیا تک پھیل رہے ہیں، جنگ ایک مجرمانہ منصوبہ اور مقصد فرقہ وارانہ ٹولے کی جانب سے نسل پرستی کے ایسے نظریات کا غلبہ ہے۔

    تفصیلات کے مطابق یمن کے صدر عبدربہ منصور ہادی نے کہا ہے کہ ستمبر 2014 میں صنعاء پر قبضے کے بعد سے ایران نواز حوثی ملیشیا کی جانب سے یمنی عوام پر مسلط جنگ کے خطرات اب علاقائی ممالک اور پوری دنیا تک پھیل رہے ہیں۔

    میڈیا رپورٹس کے مطابق انہوں نے یہ بات یمنی یک جہتی کے 29 برس پورے ہونے پر اپنے خطاب میں کہی۔ یاد رہے کہ شمالی اور جنوبی یمن 22 مئی 1990 کو دوبارہ ایک ہو گئے تھے۔ یمنی صدر نے کہا کہ یہ جنگ ایک مجرمانہ منصوبہ ہے جس کا مقصد فرقہ وارانہ ٹولے کی جانب سے نسل پرستی کے ایسے نظریات کا غلبہ ہے جس کے بارے میں دنیا کا یہ خیال تھا کہ وہ دوسری جنگ عظیم میں نازی اور فاشسٹ عناصر کی شکست کے ساتھ ختم ہو چکے ہیں۔

    ہادی نے باور کرایا کہ اب وقت آ چکا ہے کہ دنیا حوثیوں کی جانب سے نسل پرستی کے اس منصوبے سے متاثر یمنی عوام کے دکھوں کا حقیقی مداوا کرے۔

    انہوں نے کہا کہ اس منصوبے کو تہران میں بدی اور دہشت گردی کے منبع کی سپورٹ حاصل ہے۔ انہوں نے کہا کہ حوثی ملیشیا نے داعشی دہشت گرد قوتوں کی روش پر قومی آئینی حکومت کے خلاف بغاوت کی اور ہتھیاروں کو اپنی واحد زبان بنا لیا۔

    عالمی برادری کو جان لینا چاہیے کہ ہم صنعاء میں حکمرانی کرنے والے ٹولے اور مافیا کے ساتھ نمٹ رہے ہیں جو آئین اور قانون کو قبول نہیں کرتی اور اپنے اور دوسروں کے بیچ فیصلے کے لیے صرف ہتھیار پر یقین رکھتی ہے۔

    یمنی صدر نے واضح کیا کہ باغیوں کے زیر قبضہ علاقوں کی صورت حال اس بات کی تصدیق کرتی ہے کہ یہ صرف قتل، لوٹ مار، کریک ڈاؤن اور یمن کی قومی یک جہتی کو تباہ کرنے کا ٹولہ ہے۔ ہادی نے باور کرایا کہ امن کا واحد راستہ آئین کی چھتری تلے جمع ہونے اور قومی مکالمہ کانفرنس کے اعلامیے کو اپنانے میں ہے۔

  • صدر ٹرمپ نے یمن جنگ میں امریکی حمایت کے خاتمے کی قرارداد ویٹو کردی

    صدر ٹرمپ نے یمن جنگ میں امریکی حمایت کے خاتمے کی قرارداد ویٹو کردی

    واشنگٹن: امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے یمن جنگ میں امریکی حمایت کے خاتمے کی قرارداد ویٹو کردی۔

    تفصیلات کے مطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے ویٹو کی گئی قرارداد میں یمن جنگ میں سعودی عرب کی مدد ختم کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔

    امریکی میڈیا کہنا ہے کہ صدر ٹرمپ نے کانگریس کی جانب سے پاس کردہ قرارداد کو مسترد کیا، اور قرارداد کو غیر ضروری قرار دیا۔

    ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ امریکا یمن کو متاثر کرنے میں شریک نہیں، یمن میں حوثیوں کے خلاف قائم اتحاد میں کوئی امریکی اہلکار شامل نہیں ہے۔

    انہوں نے کہا کہ امریکی فوج جزیرہ نما عرب میں صرف انسداد دہشت گردی آپریشن کرتی ہے، امریکا یمن میں اتحادیوں کو محدود تعاون فراہم کرتا ہے۔

    ان کا مزید کہنا تھا کہ قرارداد میرے آئینی اختیارات کو کمزور کرنے کی خطرناک کوشش ہے، قرارداد امریکی شہریوں اور بہادر فوجیوں کی زندگی کو خطرے میں ڈالتی ہے۔

    یاد رہے کہ گذشتہ سال دسمبر میں امریکی سینیٹ نے یمن میں جاری سعودی عرب کی جنگ سے اپنی فوجیں واپس بلانے اور صحافی جمال خاشقجی کے قتل کے لیے سعودی ولی عہد کو ذمہ دار ٹھہرانے کے حق میں ووٹ دیا تھا۔

    یمن جنگ: اقوام متحدہ امن معاہدے پر عمل درآمد کو یقینی بنائے، خالد بن سلمان

    خیال رہے کہ اقوام متحدہ کے تحت ہونے والے مذاکرات کے نتیجے میں یمن کی حکومت اور حوثی مخالفین کے درمیان حدیدہ میں جنگ بند کرنے کا معاہدہ طے پایا جاچکا ہے، لیکن فریقین کی جانب سے معاہدے کی خلاف ورزی جاری ہے۔

  • یمن میں قیام امن کے لیے سعودی عرب اور امریکا کی مشترکہ کوششیں

    یمن میں قیام امن کے لیے سعودی عرب اور امریکا کی مشترکہ کوششیں

    واشنگٹن: یمن میں قیام امن کے لیے سعودی عرب اور امریکا نے مشترکہ کوششوں کو جاری رکھنے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق سعودی عرب کے نائب وزیردفاع شہزادہ خالد بن سلمان کی واشنگٹن میں امریکی وزیرخارجہ مائیک پومپیو سے ملاقات ہوئی اس دوران دونوں ممالک نے یمن سے متعلق تبادلہ خیال کیا۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا ہے امریکی وزیرخارجہ نے سعودی عرب کی یمن میں قیام امن کے لیے کوششوں کو سراہا، اور ساتھ دینے کا شکریہ بھی ادا کیا۔

    دونوں رہنماؤں نے یمن میں دہشت گردی کو فروغ دینے والے ملک کے خلاف کارروائی کرنے سمیت خطے سے عسکریت پسندی کے خاتمے پر زور دیا۔

    مائیک پامپیو نے شہزادہ خالد بن سلمان کو نیا منصب سنبھالنے پر مبارک باد بھی پیش کی اور دوطرفہ تعلقات پر تبادلہ خیال کرتے ہوئے کہا کہ سعودی عرب اور امریکا دوستی کی بہترین مثال قائم کرچکے ہیں۔

    خیال رہے کہ رواں سال جنوری میں خالد بن سلمان نے کہا تھا کہ حوثی جنگجوؤ مسلسل جنگی بندی معاہدے کی خلاف ورزی کررہے ہیں، عالمی برادری یمن میں قیام امن کےلیے اپنا کردار ادا کرے۔

    یمن جنگ: اقوام متحدہ امن معاہدے پر عمل درآمد کو یقینی بنائے، خالد بن سلمان

    یاد رہے کہ گزشتہ برس دسمبر میں یورپی ملک سویڈن میں اقوام متحدہ کے تحت ہونے والے امن مذاکرات میں دونوں فریقن کے درمیان حدیدہ شہر میں جنگ بندی سمیت کئی نکات پر اتفاق ہوا تھا جس کے بعد یمن میں گذشتہ کئی برسوں سے جاری جنگ کے ختم ہونے کی امید پیدا ہوئی تھی۔

    یمنی حکومت اور حوثیوں کے درمیان سنہ 2016 کے بعد سے یہ پہلے امن مذاکرات ہیں جس کے بعد تین نکات پر اتفاق رائے کیا گیا ہے اگر کسی بھی فریق کی جانب سے کوتاہی یا لاپرواہی کا مظاہرہ کیا گیا تو امن مذاکرات تعطلی کا شکار ہوسکتے ہیں۔

  • امریکی وزیرخارجہ اور سعودی ولی عہد کا رابطہ، یمنی صورت حال پر گفتگو

    امریکی وزیرخارجہ اور سعودی ولی عہد کا رابطہ، یمنی صورت حال پر گفتگو

    ریاض: سعودی ولی عہد محمد بن سلمان اور امریکی وزیرخارجہ مائیک پومپیو کے درمیان ٹیلی فونک رابطہ ہوا، اس دوران یمن کی تازہ صورت حال پر تبادلہ خیال کیا گیا۔

    تفصیلات کے مطابق امریکی وزیرخارجہ مائیک پومپیو نے یمن میں قیام امن کی خاطر سعودی عرب اور اقوام متحدہ کے کردار کو سراہا اور تعریف کی۔

    عرب میڈیا کا کہنا ہے کہ اقوام متحدہ کے خصوصی مندوب برائے یمن مارٹن گریفتھس کی حمایت پر مائیک پومپیو نے سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کا شکریہ ادا کیا۔

    دونوں رہنماؤں نے یمن میں جنگ کے خاتمے کے لیے حالیہ پیش رفت کا جائزہ لیا اور حوثی باغیوں اور سرکاری فورسز کے درمیان جنگ بندی کے معاہدے پر مکمل پاسداری پر زور دیا۔

    یمن میں مقامی حکومت اور حوثی باغیوں کے درمیان جنگ بندی کا معاہدہ طے ہے تاہم اس کے باوجود دوطرفہ حملوں کو سلسلہ جاری ہے۔

    یاد رہے کہ گذشتہ دنوں یمن کے موضوع پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا خصوصی اجلاس ہوا تھا، اجلاس میں خصوصی مندوب برائے يمن مارٹن گرفتھس بھی شریک تھے، جو یمن میں فریقین کے درمیان طے پانے والے معاہدے کی خلاف ورزی پر مسلسل آواز بلند کررہے ہیں۔

    یمن کی موجودہ صورت حال سے کیسے نمٹیں؟ اقوام متحدہ کا اہم اجلاس

    اقوام متحدہ کی جانب سے شدید تشویش کے باوجود حملوں کا سلسلہ جاری ہے، رواں ہفتے حوثی باغیوں نے سعودی شہر پر ڈرون سے حملہ کرنے کی کوشش کی جسے سعودی دفاعی نظام نے ناکام بنا دیا تھا۔

    دوسری جانب سعودی اتحادی افواج نے گذشتہ ہفتے یمن میں فضائی بمباری کی جس کے نتیجے میں بچوں اور عورتوں سمیت 22 عام شہری مارے گئے تھے۔

  • یمن کی موجودہ صورت حال سے کیسے نمٹیں؟ اقوام متحدہ کا اہم اجلاس

    یمن کی موجودہ صورت حال سے کیسے نمٹیں؟ اقوام متحدہ کا اہم اجلاس

    نیویارک: یمن میں خانہ جنگی کا حل نکالنے اور موجودہ صورت حال سے نمٹنے کے لیے اقوام متحدہ کا اہم اجلاس ہوا۔

    تفصیلات کے مطابق یمن میں مقامی حکومت اور حوثی باغیوں کے درمیان جنگ بندی کا معاہدہ طے ہے تاہم اس کے باوجود دوطرفہ حملوں کو سلسلہ جاری ہے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ یمن میں مذکورہ جنگ بندی معاہدے کو بچانے کے لیے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا اجلاس ہوا جس میں مختلف پہلوؤں پر غور کیا گیا۔

    اجلاس بند کمرے میں ہوا جبکہ اجلاس سے متعلق تفصیلات بھی فراہم نہیں کی گئیں، غیرملکی میڈیا کے مطابق سلامتی کونسل کے اراکین نے معاہدے کو بچانے کے لیے ہرممکن اقدامات پر زور دیا ہے۔

    اجلاس میں خصوصی مندوب برائے يمن مارٹن گرفتھس بھی شریک تھے، جو یمن میں فریقین کے درمیان طے پانے والے معاہدے کی خلاف ورزی پر مسلسل آواز بلند کررہے ہیں۔

    اقوام متحدہ کی جانب سے شدید تشویش کے باوجود حملوں کا سلسلہ جاری ہے، رواں ہفتے حوثی باغیوں نے سعودی شہر پر ڈرون سے حملہ کرنے کی کوشش کی جسے سعودی دفاعی نظام نے ناکام بنا دیا تھا۔

    یمن میں جنگ بندی امن کی جانب پہلا قدم ہے: مندوب اقوام متحدہ

    دوسری جانب سعودی اتحادی افواج نے گذشتہ روز یمن میں فضائی بمباری کی جس کے نتیجے میں بچوں اور عورتوں سمیت 22 عام شہری مارے گئے تھے۔

    یاد رہے کہ گزشتہ برس دسمبر میں یورپی ملک سویڈن میں اقوام متحدہ کے تحت ہونے والے امن مذاکرات میں دونوں فریقن کے درمیان حدیدہ شہر میں جنگ بندی سمیت کئی نکات پر اتفاق ہوا تھا جس کے بعد یمن میں گذشتہ کئی برسوں سے جاری جنگ کے ختم ہونے کی امید پیدا ہوئی تھی۔

  • جرمنی کا سعودی عرب کو ہتھیاروں کی فراہمی پر پابندی برقرار رکھنے کا فیصلہ

    جرمنی کا سعودی عرب کو ہتھیاروں کی فراہمی پر پابندی برقرار رکھنے کا فیصلہ

    برلن: جرمن حکام نے سعودی عرب کو ہتھیاروں کی فراہمی پر پابندی برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق جرمن حکام نے یمن جنگ اور جمال خاشقجی کے قتل کے تناظر میں سعودی عرب کو ہتھیاروں کی فراہمی پر پابندی میں توثیق کردی ہے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ سعودی عرب پر مذکورہ پابندی رواں ماہ 9 مارچ کو ختم ہونا تھی تاہم جرمنی نے ہتھیاروں کی فراہمی پر جاری پابندی کی مدت اختتام مارچ تک بڑھا دیا۔

    جرمنی نے یمنی جنگ میں سعودی عرب کے کردار اور صحافی جمال خاشقجی کے قتل کے تناظر میں گزشتہ برس نومبر میں سعودی عرب کو ہتھیار برآمد کرنے پر پابندی عائد کر دی تھی۔

    جرمن چانسلر انجیلا مرکل سے ملاقات کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے جرمن وزیرخارجہ ہائیکو ماس کا کہنا تھا کہ یمن کی صورت حال کا جائزہ لے رہے ہیں، چاہتے ہیں جنگ ختم ہو۔

    ان کا مزید کہنا تھا کہ سعودی عرب سے متعلق بھی لائحہ عمل طے کرلیا ہے، امید یمن جنگ کا جلد خاتمہ ہوجائے گا۔

    یاد رہے کہ جنوری 2015 میں بھی جرمنی نے مشرقِ وسطیٰ میں بڑھتے ہوئے عدم استحکام کے باعث سعودی عرب کو مزید اسلحہ فروخت نہ کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔

  • یمن میں جنگ بندی امن کی جانب پہلا قدم ہے: مندوب اقوام متحدہ

    یمن میں جنگ بندی امن کی جانب پہلا قدم ہے: مندوب اقوام متحدہ

    صنعا: اقوام متحدہ کے مندوب برائے یمن مارٹن گریفتھ کا کہنا ہے کہ یمن میں جنگ بندی امن کی جانب پہلا قدم ہے۔

    تفصیلات کے مطابق یمنی بندرگاہ حدیدہ میں حوثی باغیوں اور یمنی فورسز کے درمیان جنگ بندی ہے جسے اقوام متحدہ کے مندوب مارٹن گریفتھ نے امن کی جانب مثبت قدم قرار دیا ہے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق گریفتھ کا کہنا تھا کہ یمنی جنگ کے خاتمے اور امن کی جانب اب ایک امید کی نئی کرن نظر آرہی ہے۔

    اقوام متحدہ کی سلامتی کو انہوں نے بتایا کہ اب عملی اقدامات ہوتے نظر آرہے ہیں، حدیدہ سے آئندہ ہفتے حوثی باغی اپنے جنگجو اور حکومت اپنی فورسز واپس بلا لیں گے، جبکہ دیگر دو چھوٹی بندرگاہوں سے بھی جزوی طور پر فورسز کا انخلا دیکھا گیا ہے۔

    ان کا کہنا تھا کہ حدیدہ میں فائربندی کے ذریعے حکومتی فورسز اور حوثی باغیوں نے یہ ثابت کیا ہے کہ وہ معاہدے کی پاس داری کر سکتے ہیں۔

    اقوام متحدہ کے مندوب نے یمنی تنازعے کے فریقين پر زور دیا کہ وہ ڈیل کے پہلے مرحلے پر مکمل عمل درآمد کریں اور دوسرے مرحلے کی تفصیلات بھی طے کریں۔

    یمن: سلامتی کونسل میں جنگ بندی کی نگرانی کیلئے عالمی مبصرین کی تعیناتی منظور

    خیال رہے کہ گزشتہ برس دسمبر میں یورپی ملک سویڈن میں اقوام متحدہ کے تحت ہونے والے امن مذاکرات میں دونوں فریقن کے درمیان حدیدہ شہر میں جنگ بندی سمیت کئی نکات پر اتفاق ہوا تھا جس کے بعد یمن میں گذشتہ کئی برسوں سے جاری جنگ کے ختم ہونے کی امید پیدا ہوئی تھی۔

    یاد رہے کہ یمنی حکومت اور حوثیوں کے درمیان سنہ 2016 کے بعد سے یہ پہلے امن مذاکرات ہیں جس کے بعد تین نکات پر اتفاق رائے کیا گیا ہے اگر کسی بھی فریق کی جانب سے کوتاہی یا لاپرواہی کا مظاہرہ کیا گیا تو امن مذاکرات تعطلی کا شکار ہوسکتے ہیں۔

  • یمن: حوثی باغیوں کی مالی سپورٹ سے متعلق اہم انکشاف

    یمن: حوثی باغیوں کی مالی سپورٹ سے متعلق اہم انکشاف

    صنعا: یمن میں حوثی باغیوں اور حکومتی فورسز کے درمیان جنگ بندی ہے البتہ باغیوں کی مالی سپورٹ سے متعلق اہم انکشاف سامنے آگیا۔

    تفصیلات کے مطابق اقوام متحدہ کے ماہرین کی جانب سے ایک رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ ایرانی ایندھن کی آمدنی کا ایک بڑا حصہ یمن جنگ میں استعمال ہورہا ہے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ یمن جنگ میں حوثی باغیوں کی مالی مدد کرنا عالمی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔

    85 صفحات پر مشتمل رپورٹ میں سعودی اتحادی افواج اور یمنی سرکاری فورسز کی 2018 میں حوثی باغیوں کے خلاف حاصل ہونے والی کامیابی کو سراہا گیا۔

    البتہ رپورٹ میں یہ بھی کہنا تھا کہ یمن میں حکومتی رٹ قائم کرنے سے متعلق ابھی جو خیال ہے وہ حقیقت سے کوسوں دور ہے۔

    خیال رہے کہ ایران ہمیشہ سے حوثی باغیوں کی سپورٹ سے انکاری رہا ہے، متعدد بار حکومتی بیان میں ایرانی فنڈنگ کی تردید کی جاچکی ہے۔

    یمن: سلامتی کونسل میں جنگ بندی کی نگرانی کیلئے عالمی مبصرین کی تعیناتی منظور

    واضح رہے کہ عرب میڈیا کے مطابق حوثی جنگجوؤں کو ایرانی حمایت حاصل ہے جبکہ یمنی فوج سعودی اتحادی افواج کی قیادت میں لڑرہی ہے، جس کے باعث حدیدہ بندر گاہ سے امدادی سامان کی ترسیل مشکل کا شکار ہے۔

    علاوہ ازیں یمن میں فریقن کے درمیان جنگ بندی ہے، اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے خانہ جنگی سے دوچار ملک یمن میں جنگ بندی معاہدے کی نگرانی کے لیے چھ ماہ تک عالمی مبصرین کو تعینات کرنے کی منظوری دی ہے۔

  • یمن میں امن کامعاہدہ، قیامِ امن بے حد ضروری ہے

    یمن میں امن کامعاہدہ، قیامِ امن بے حد ضروری ہے

    یمن مشرقِ وسطیٰ کا وہ رستا ہوا زخم ہے جو اب اس حالت میں آگیا ہے کہ اگر بروقت علاج نہ کیا گیا تو یہ لاعلاج بھی ہوسکتا ہے، اس منظرنامے میں سویڈن سے اچھی خبر یہ آئی ہے کہ آئینی حکومت اور برسرِ پیکارِ حوثیوں کے درمیان مذاکرات کامیاب ہوگئےہیں۔

    بتایا جارہا ہے کہ یہ مذاکرات پانچ نکاتی ایجنڈے پر کیے جارہے تھے ، جن میں سے تین پر اتفاق ہوگیا ہے جبکہ دو پر حتمی فیصلہ ابھی نہیں ہوسکا ہے۔ یمن کی آئینی حکومت اور فی الحال ملک کے اکثریتی علاقوں کا کنٹرول سنبھالے ان حوثی قبائل کے درمیان کن نکات پر اتفاقِ رائے ہوسکا ہے اور کون سے موضوعات ابھی بھی سرد خانے کی نظر ہوئے؟ اس پر ہم بعد میں نظر ڈالتے ہیں ، پہلے یہ دیکھ لیں کہ یمن تنازعہ آخر ہے کیا اور اس کی عالمی منظر نامے پر کیا اہمیت ہے۔

    یمن جنگ کا پس منظر


    یمن مشرق وسطیٰ کا دوسرا بڑا مسلم ملک ہے جس کی آبادی دو کروڑ سے زائد ہے جن میں سے بیش تر عربی بولنے والے ہیں۔ یمن کو ماضی میں عربوں کا اصل وطن تصور کیا جاتا تھا اور قدیم دور میں یہ اپنی مصالحوں کی تجارت کے سبب اہم تجارتی مرکزکیاہمیت رکھتا تھا۔ قدیم دور میں یمن کو یہ حیثیت اس کے جغرافیائی محل وقوع نے عطا کی تھی اور آج بھی سمندری تجارت میں اس کی وہی اہمیت برقرار ہے۔ یمن کےشمال اور مشرق میں سعودی عرب اور اومان، جنوب میں بحیرہ عرب اور بالخصوص خلیجِ عدن ہے اور مغرب میں بحیرہ احمر واقع ہے۔

    یمن میں سنی مسلمانوں کی تعداد ایک اندازے کے مطابق 56 فی صد ہے جبکہ زیدی شیعوں کی تعد اد لگ بھگ 42 فی صد ہے ، باقی دو فی صد آبادی اسماعیلیوں ، یہودیوں اور دیگر اقوام پر مشتمل ہے۔ تعداد میں بڑے دونوں گروہوں کے تصادم کے سبب ہی یہ ملک آج کئی سال سے جنگ کی عبرت ناک آگ میں جھلس رہا ہے جس کی روک تھام کے لیے عالمی طاقتیں رواں سال سامنے آئیں اور مملکت میں متحارب دونوں گروہوں کو مذاکرات کی میز پر آنے کے لیے کہا گیا۔

    القاعدہ کے حملوں سے بے حال اس ملک میں عرب بہار کے نتیجے میں انتقالِ اقتدار ہوا اور عبد اللہ صالح کے بعد یمن کی قیادت ہادی کی صورت میں ایک ایسے شخص کے ہاتھ میں آئی جس کی گرفت اقتدار پر مضبوط نہیں تھی، فوج تاحال سابقہ صدر کی حامی تھی۔ اسی صورتحال نے حوثی قبائل کو موقع فراہم کیا کہ وہ سادا نامی صوبے پر قبضہ کرلیں۔ اس موقع پر عام یمنیوں نے اور سنیوں نے بھی حوثی قبائل کا ساتھ دیا اوران سب نے مل کر دارالحکومت صنعا پر قبضہ کرلیا۔ اس صورتحال سے القاعدہ نے بھی فائدہ اٹھایا اور ساتھ ہی ساتھ داعش نے بھی اپنے پنجے گاڑنے کی کوشش کی لیکن مجموعی طور پر میدان حوثی قبائل کے ہاتھ رہا۔

    مارچ 2015 کا جب حوثی قبائل اور سیکورٹی فورسز مل کر پورے ملک کا کنٹرول سنبھال لیتے ہیں۔ صورتِ حال سے گھبرا کر صدر ہادی سعودی عرب کی جانب راہِ فرار اختیار کرتے ہیں۔ یہی وہ حالات ہیں جن میں سعودی عرب کی قیادت میں ایک اتحاد حوثی قبائل کو شکست دینے اور ہادی کی حکومت کو بحال کرانے کے لیے حملے شروع کرتا ہے جس کے نتیجے میں آئینی حکومت عدن نامی علاقہ چھیننے میں کامیاب ہوجاتی ہے لیکن ملک کا مرکزی علاقہ صنعا تاحال حوثی قبائل کے قبضے میں ہے جن کے لیے کہا جاتا ہے کہ ایران ان کی درپردہ مدد کررہا ہے۔

    بد ترین انسانی المیہ


    اس ساری خانہ جنگی کے سبب یمن ایک ایسے انسانی المیے میں تبدیل ہوگیا جس کی جنگوں جدید تاریخ میں دور دور تک کوئی مثال نہیں ملتی ۔اس جنگ میں مارچ 2015 سے لے کر اب تک کم ازکم 7 ہزار افراد مارے جاچکے ہیں جبکہ 11 ہزار کے لگ بھگ زخمی ہوئے ہیں۔ مرنے والے اور زخمی ہونے والوں میں سے آدھے سعودی اتحاد کی فضائی بمباری کا نتیجہ ہیں اور ان میں اکثریت عام شہریوں کی ہے جن کا اس جنگ سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔

    جنگ کے سبب ملک کی 75 فیصد آبادی مشکلات کا شکا ر ہے اور انہیں مدد کی ضرورت ہے ۔ یہ تعداد دو کروڑ 20 لاکھ بنتی ہے اور ان میں سے ایک کروڑ تیرہ لاکھ افرا د وہ ہیں جنہیں زندہ رہنے کے لیے فوری انسانی مدد کی ضرورت ہے۔ اس وقت ملک میں1 کروڑ 71 لاکھ سے زائد افراد ایسے ہیں جنہیں یہ بھی معلوم نہیں کہ اگر آج انہوں نے کھانا کھایا ہے تو اگلا کھانا انہیں کب اور کس ذریعے سے نصیب ہوگا۔ المیہ یہ ہے کہ ان میں سے چار لاکھ پانچ سال سے کم عمر بچے بھی شامل ہیں۔

    جنگ سے پہلےملک میں 3500 ہیلتھ کیئر سینٹر تھے جن میں سے محض نصف ہی فنکشنل ہیں اور ملک کی آدھی آبادی اس وقت صحت کی بنیادی ضروریات سے محروم ہے۔اپریل 2017 میں یہاں ہیضے کی وبا پھیلی جو کہ اب تک دنیا کی سب سے بڑی وبائی آفت بن چکی ہے جس میں 12 لاکھ افراد متاثر ہوئے۔

    جنگ کے نتیجے میں تیس لاکھ افراد اپنے گھروں سے بے گھر ہونے پر مجبور ہوئے جن میں 20 لاکھ ابھی بھی اپنے گھروں کو نہیں جاسکتے اور نہ ہی مستقبل قریب میں ان کے گھر جانے کے امکانات ہیں۔

    آئینی حکومت اور حوثی قبائل کے درمیان امن معاہدہ


    سنہ 2016 میں ایک بار حوثی قبائل اور آئینی حکومت نے مذاکرات کی کوشش کی تھی تاہم وہ مذاکرات بری طرح ناکام ہوئے اور فریقین ایک دوسرے کو مذاکرات کی ناکامی کا سبب گردانتے رہے ۔ دونوں کا کہنا تھا کہ مذاکرات کے باوجود جنگ نہیں روکی گئی جس کے سبب مذاکرات ممکن نہیں ہیں۔ رواں سال سب سے پہلے امریکا نے معاملے کے دونوں فریقوں کو جنگ بند کرکے مذاکرات کی میز پر آنے کا کہا گیا جس کی برطانیہ اور اقوام متحدہ دونوں کی جانب سے حمایت کی گئی۔ امریکا میں یمن کےمعاملے پر سعودی عرب کی حمایت ختم کرنا آپشن بھی موضوع ِ گفتگو رہا جس کے بعد بالاخر دسمبر 2018 میں دونوں فریق اقوام متحدہ کے زیر نگرانی مذاکرات کے لیے سویڈن میں اکھٹے ہوئے۔

    یمن کی آئینی حکومت کا وفد پانچ دسمبر کو سویڈن آیا جبکہ حوثی قبائل کا وفد پہلے ہی سے وہاں موجود تھا۔ مذاکرات اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندہ برائے یمن مارٹن گریتھس کی سربراہی میں منعقد ہوئے ، یہ مذاکرات پانچ نکاتی ایجنڈے پر ہورہے تھے جن میں ایئرپورٹ کا کنٹرول، قیدیوں کا تبادلہ ، معیشت کی بہتری، حدیدہ میں قیام امن اور بحیرہ احمر کنارے واقع القصیر کی بندرگاہ کا کنٹرول شامل ہیں۔

    ایک ہفتہ جاری رہنے والے ان مذاکرات کے نتیجے میں بالاخر طے پایا ہے کہ صنعاء ایئر پورٹ سے ملکی پروازیں چلانے کا سلسلہ شروع کیا جائے گا۔ دوسرے نکتے پر طے پایا ہے کہ دونوں فریق قیدیوں کا تبادلہ کریں گے اور یہ تعداد ہزاروں میں ہے۔ آئل اینڈ گیس سیکٹر کو دوبارہ بحال کیا جائے گا تاکہ معیشت کا پہیہ چلے ۔ یہ تین نکات ایسے ہیں جن پردونوں فریق مکمل طور پرراضی ہیں لیکن اصل مسئلہ حدیدہ شہر اور اس سے جڑے پورٹ کا ہے جو کہ یمن کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ آئینی حکومت چاہتی ہے کہ شہر کا اختیار ان کے پاس ہو جبکہ پورٹ کے معاملے پر فریقین اقوام متحدہ کی نگرانی پر رضامند ی کا اظہا رکررہے ہیں تاہم اس کا فارمولا طے ہونا باقی ہے۔ حوثی باغی چاہتے ہیں کہ حدیدہ شہرکوایک نیوٹرل حیثیت دی جائے ۔

    سنہ 2016 کے بعد سے اب تک یمن کے معاملے پر ہونے والی یہ سب سے بڑی پیش رفت ہے اور یمن کے عوام کے لیے اس وقت کی سب سے زیادہ مطلوبہ شے ، یعنی امن کیونکہ امن ہی وہ چابی ہے جس سے سارے راستے کھل جاتے ہیں ۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ فریقین اس معاہدے پر عمل درآمد میں کس حد تک سنجیدہ ہیں، یہاں یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ یمن صرف داخلی شورش کا شکار نہیں بلکہ سعوودی عرب اور ایران بھی اس ملک میں اپنی قوت کا بھرپور اظہار کررہے ہیں اور اگر اس معاہدے سے ان دونوں طاقتوں کے مفادات پر ضر ب آتی ہے تو پھر اس پر عمل درآمد انتہائی مشکل ہوجائے گا۔ حالانکہ یہ دونوں ممالک بھی ایسے معاشی دور سے گزر رہے ہیں کہ جنگ کا خاتمہ ہی سب کے لیے بہتر ہے۔