Tag: یمن جنگ

  • سعودی عرب یمن جنگ کا سیاسی حل مذاکرات سے چاہتا ہے، خالد بن سلمان

    سعودی عرب یمن جنگ کا سیاسی حل مذاکرات سے چاہتا ہے، خالد بن سلمان

    ریاض/واشنگٹن : سعودی سفیر خالد بن سلمان نے یمن جنگ سے متعلق کہا ہے کہ سعودی اتحادی افواج حوثی جنگجوؤں کی ٹال مٹول کے باوجود بحران کا حل مذاکرات کے ذریعے چاہتی ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق امریکا میں تعینات سعودی عرب کے سفیر خالد بن سلمان نے حوثیوں اور یمن کی آئینی حکومت کے در میان ہونے والے مذاکرات سے متعلق پیغام میں کہا ہے کہ سعودی عرب یمن میں جاری سیاسی بحران کا پُر امن حل چاہتا ہے۔

    خالد بن سلمان نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر ٹویٹ میں کہا کہ سعودی حکومت حوثیوں کے مسلسل ٹال مٹول کے باوجود یمن کے سیاسی بحران کو مذاکرات کےذریعے حل پر پُرامید ہے۔

    سعودی سفر کا کہنا تھا کہ عرب اتحاد حوثیوں کے خلاف مسلح کاررروائیوں کے ذریعے کئی مقاصد حاصل کرچکی ہے۔

    امریکا میں تعینات سعودی سفیر کا کہنا تھا کہ سعودی عرب و عرب اتحادنے ہمیشہ حوثی جنگجوؤں سے مذاکرات اور اقوام متحدہ کی قرار داد 2216 کے نفاذ پر زور دیا ہے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ یمنی حکومت کا ایک وفد اقوام متحدہ کے تحت ہونے والے امن مذاکرات کے لیے سویڈن روانہ ہوگیا ہے جبکہ حوثیوں کا وفد اقوام متحدہ کے سفیر برائے یمن مارٹن گریفتھس خصوصی طیارے کے ذریعے سویڈن پہنچ چکے ہیں۔

    خیال رہے کہ یمنی حکومت اور حوثیوں کے درمیان سنہ 2016 کے بعد سے یہ پہلے امن مذاکرات ہیں جس کے آغاز کی تاریخوں کا اعلان تاحال نہیں کیا گیا تاہم بااثر ذرائع کے مطابق جمعرات کے روز امن مذاکرات کا آغاز ہوسکتا ہے۔

    واضح رہے کہ یمن پر حکومت کی جنگ کے دونوں فریقین کے مابین ہونے والے امن مذاکرات آسان نہیں ہوں گے۔

  • یمن جنگ میں سعودی حمایت ختم کرنے کےلیے امریکی سینیٹ میں قرار داد پیش

    یمن جنگ میں سعودی حمایت ختم کرنے کےلیے امریکی سینیٹ میں قرار داد پیش

    واشنگٹن : سعودی قیادت میں کام کرنے والے عرب اتحاد کی یمن جنگ میں امریکی حمایت ختم کرنے کے لیے سینیٹرز نے سینیٹ میں قرار داد پیش کرنے کی حمایت کردی۔

    تفصیلات کے مطابق کئی برسوں سے یمن میں جاری سعودی عرب کی قیادت کام کرنے والے عرب اتحاد کی حمایت ختم کرنے کے لیے قرارداد لانے اور اس پر گفتگو کرنے کے لیے ووٹنگ ہوئی جس میں 63 سینیٹرز حق میں جبکہ صرف 37 مخالفت میں ووٹ دئیے۔

    برطانوی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ امریکی سینیٹرز کا جنگ میں حمایت کرنے کی تحریک چلانا امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے لیے ایک دھچکا ہے۔

    امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دھمکی دیتے ہوئے کہا ہے کہ اگر کانگریس نے یمن جنگ میں سعودی عرب کی حمایت کرنے کے لیے قرار داد منظور کی تو میں بحیثیت صدر اسے ویٹو کردوں گا۔

    امریکی وزیر داخلہ مائیک پومپیو اور وزیر دفاع جم میتھس نے زور دیا کہ سینیٹرز اس تحریک کے پیچھے نہیں ہیں، مائیک پومپیو کا کہنا ہے کہ یمن میں امن کی صورتحال خراب ہے ان حالات میں قرار داد لانے سے امن کی کوششیں متاثر ہوں گی جو حوثی جنگجوؤں کے لیے حوصلے کا باعث بنے گی۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ معروف صحافی و کالم نویس جمال خاشقجی کے ترکی میں بہیمانہ قتل کے بعد امریکا پر سعودی حمایت دے دست بردار ہونے اور محمد بن سلمان کو قتل کا ذمہ دار ٹھہرانے کے لیے شدید دباؤ ہے لیکن امریکا نے سعودی ولی عہد کو ذمہ دار ٹھہرانے سے انکار کردیا۔

    امریکی صدر اور ان کی موجودہ انتظامیہ نے واضح طور پر یمن جنگ میں سعودی عرب کی حمایت ختم کرنے سے انکار کردیا ہے۔

    خیال رہے کہ یمن جنگ سنہ 2014 سے جاری ہے جب حوثی جنگجوؤں نے ملک کے شمالی حصّے کا کنٹرول حاصل کرکے دارالحکومت صنعا کی جانب بڑھے اور صدر کو زبردستی عہدے سے ہٹا دیا تھا۔

    سنہ 2015 میں سعودی عرب کی قیادت میں امریکا، فرانس اور برطانوی حمایت یافتہ آٹھ ممالک نے حوثیوں کے خلاف فضائی حملوں کا آغاز کیا تھا تاکہ اپنے حامی یمنی صدر کی حکومت کو دوبارہ بحال کرسکے۔

  • یمن کی گہرائیوں سے برآمد ہونے والی آگ

    یمن کی گہرائیوں سے برآمد ہونے والی آگ

    یمن میں جنگ کے بھڑکتے شعلوں کو اب تین سال بیت چکے ہیں، یہ جنگ اس عرب بہار کے نتیجے میں رونما ہوئی جو کہ مشرقِ وسطیٰ کے لیے خون آلود بہار ثابت ہوئی ہے۔ یمن میں تنازعے کی ابتدا ہوئی 2011 میں جب طویل عرصے سے مسند حکومت پر فائزعلی عبداللہ الصالح کو عوامی دباؤ کے نتیجے میں اقتدار اپنے نائب منصور ہادی کو سونپنا پڑا۔

    نئے صدر ہادی کو درپیش مسائل میں سب سے اہم مسئلہ القائدہ کے حملے، جنوبی یمن میں جاری علیحدگی پسند تحریک، فوجی حکام کی سابق صدر سے وفاداریاں اور ان کے ساتھ ساتھ کرپشن ، بیروزگاری اور امن و امان کے مسائل شامل تھے ۔

    [bs-quote quote=”عرب بہار کے نتیجے میں انتقالِ اقتدار ہوا تو یمن کی قیادت ہادی کی صورت میں ایک ایسے شخص کے ہاتھ میں آئی جس کی گرفت اقتدار پر مضبوط نہیں تھی۔” style=”style-7″ align=”left” color=”#dd3333″][/bs-quote]

    آگے بڑھنے سے قبل ہم ایک نظر ڈالتے ہیں یمن کے جغرافیے اور وہاں کے سماجی ڈھانچے پر جس کا اس جنگ میں انتہائی اہم کردار ہے۔یمن مشرق وسطیٰ کا دوسرا بڑا مسلم ملک ہے جس کی آبادی دو کروڑ سے زائد ہے جن میں سے بیش تر عربی بولنے والے ہیں۔ یمن کو ماضی میں عربوں کا اصل وطن تصور کیا جاتا تھا اور قدیم دور میں یہ اپنی مصالحوں کی تجارت کے سبب اہم تجارتی مرکز کی اہمیت رکھتا تھا۔ قدیم دور میں یمن کو یہ حیثیت اس کے جغرافیائی محل وقوع نے عطا کی تھی اور آج بھی سمندری تجارت میں اس کی وہی اہمیت برقرار ہے۔ یمن کےشمال اور مشرق میں سعودی عرب اور اومان، جنوب میں بحیرہ عرب اور بالخصوص خلیجِ عدن ہے اور مغرب میں بحیرہ احمر واقع ہے۔

    یمن میں سنی مسلمانوں کی تعداد ایک اندازے کے مطابق 56 فی صد ہے جبکہ زیدی شیعوں کی تعد اد لگ بھگ 42 فی صد ہے ، باقی دو فی صد آبادی اسماعیلیوں ، یہودیوں اور دیگر اقوام پر مشتمل ہے۔ تعداد میں بڑے دونوں گروہوں کے تصادم کے سبب ہی یہ ملک آج ایک ایسی آگ میں جھلس رہا ہے جس کے سدباب کا مستقبل قریب میں دو ر دور تک کوئی امکان نہیں ہے۔

    [bs-quote quote=”یمن میں سنی مسلمانوں کی تعداد 56 فی صد جب کہ زیدی شیعوں کی 42 فی صد ہے۔” style=”style-7″ align=”right” color=”#dd3333″][/bs-quote]

    چلیں اب واپس چلتے ہیں ماضی کے منظر نامے کی طرف جس سے ہمیں واپس حال میں آنے میں مدد ملے گی۔ عبد اللہ صالح کے دور اقتدار میں حوثی قبائل جو کہ زیدی شیعوں پر مشتمل ہیں ، انہوں نے مرکزی حکومت کے ساتھ پہلے سے جنگ چھیڑ رکھی تھی ، جیسے ہی عرب بہار کے نتیجے میں انتقالِ اقتدار ہوا تو یمن کی قیادت ہادی کی صورت میں ایک ایسے شخص کے ہاتھ میں آئی جس کی گرفت اقتدار پر مضبوط نہیں تھی ، فوج تاحال سابقہ صدر کی حامی تھی۔ اسی صورتحال نے حوثی قبائل کو موقع فراہم کیا کہ وہ سادا نامی صوبے پر قبضہ کرلیں۔ اس موقع پر عام یمنیوں نے اور سنیوں نے بھی حوثی قبائل کا ساتھ دیا اوران سب نے مل کر دارالحکومت صنعا پر قبضہ کرلیا۔

    جنگ کے شعلے عروج پر


    اسی عرصے میں سعودی عرب کی قیادت میں تشکیل پانے والا کثیر القومی اتحاد یمن کے تنازعے میں مداخلت کرتا ہے ، یہ وقت ہے مارچ 2015 کا جب حوثی قبائل اور سیکورٹی فورسز مل کر پورے ملک کا کنٹرول سنبھال لیتے ہیں۔ صورتِ حال سے گھبرا کر صدر ہادی سعودی عرب کی جانب راہِ فرار اختیار کرتے ہیں۔

    حوثی قبائل کے لیے کہا جاتا ہے کہ انہیں ایران کی حمایت اور مدد حاصل ہے جس کے سبب خطے کے سنی ممالک میں تشویش پیدا ہونا یقیناً ایک قابلِ فہم بات تھی اور اسی سلسلے میں سعودی اتحاد نے یمن پر فضائی حملے شروع کیے کہ کسی طرح یمن کا کنٹرول واپس صدر ہادی کے حوالے کردیا جائے ۔ اس اتحاد کو امریکا، برطانیہ اور فرانس کی جانب سے ہتھیار اور خفیہ اطلاعات فراہم کی جاتی رہیں، جن کی بنا پر سعودی عرب نے چن چن کر یمن پر حملے کیے۔

    [bs-quote quote=”سعودی اتحاد نے امریکا، برطانیہ اور فرانس کی جانب سے ہتھیار اور خفیہ اطلاعات کی مدد سے یمن پر مہلک فضائی حملے کیے۔ دوسری طرف حوثی قبائل کو ایران کی پشت پناہی حاصل ہے۔ سعودی عرب چاہتا ہے کہ یمن کا کنٹرول واپس صدر ہادی کے حوالے کر دیا جائے۔” style=”style-7″ align=”center” color=”#dd3333″][/bs-quote]

    سعودی اتحاد اگست 2015 میں جنوبی یمن کے ساحلی شہر عدن میں داخل ہوتے ہوئے حوثی قبائل اور ان کے حواریوں سے شہر کا تسلط لے کر اٹھے اور ہادی عدن نامی شہر میں اپنی عارضی حکومت بنانے میں کام یاب ہوگیا، حالاں کہ وہ تاحال یمن واپس نہیں آ ئے ہیں۔

    عدن کو چھڑائے جانے کے باوجود ابھی تک صنعا پر حوثیوں کا تسلط برقرار ہے اور جنوبی شہر تیز بھی ان کے تسلط میں ہے جہاں سے وہ سعودی عرب کی سرحدوں میں میزائل فائر کرتے ہیں۔ حوثیوں کی جانب سے کیے جانے والے ان میزائل حملوں نے سعودی مملکت اور افواج کو بے پناہ نقصان پہنچایا ہے۔

    بات صرف یہیں ختم نہیں ہوتی بلکہ اس سارے خونی منظر نامے میں دو فریق اوربھی ہیں اور ان میں سے ایک ہے القائدہ ( عرب ) اور اسی کے متوازی دولتِ اسلامیہ کے حمایت یافتہ جہادی گروپ، یہ وہ عناصر ہیں جنہوں نے سابق صدرصالح کی حکومت کو عدم استحکام سے دوچار کیا اور بعد میں بھی ہادی کی حکومت کے لیے وبالِ جان بنے رہے ۔ انہوں نے جنوبی یمن میں علاقوں پر قبضے کیے اور بالخصوص عدن میں ایسے خون آشام حملے کیے ہیں کہ آسمان لرز اٹھا۔

    [bs-quote quote=”حوثی قبائل کے میزائل حملوں نے سعودی مملکت اور افواج کو بے پناہ نقصان پہنچایا، دوسری طرف القائدہ اور دولتِ اسلامیہ نے سعودی اتحاد کے زیرِ قبضہ علاقے عدن میں بے پناہ تباہ کن حملے کیے۔” style=”style-7″ align=”left” color=”#dd3333″][/bs-quote]

    جہاں ایک جانب یہ سارے عناصر ایک دوسرے کے خلاف نبرد آزما ہوکر یمن کو دنیا کی برباد ترین ریاست میں تبدیل کررہے ہیں وہی نومبر 2017 میں یمنی دار الحکومت صنعا پر ہونے والے بیلسٹک میزائل حملے نے سعودی عرب میں تشویش کی لہر دوڑادی جس کے بعد یمن کا محاصرہ شدید ترین کردیا گیا جس سے وہاں دنیا کی تاریخ کا بد ترین انسانی المیہ جنم لے رہا ہے۔ سعودی اتحاد کا مؤقف ہے کہ وہ اس محاصرے سے یمن کے باغیوں کو ایران کی جانب سے اسلحے کی سپلائی کی روک تھام کر رہا ہے جب کہ تہران اس الزام کی ہمیشہ سے تردید کرتا آیا ہے۔

    سعودی اتحاد کا کچھ بھی مؤقف ہو لیکن اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ پابندیوں سے ایک ایسا انسانی قحط جنم لے رہا ہے جو کہ دنیا نے کئی دہائیوں سے نہیں دیکھا ہے۔ تین سال کے عرصے میں اقوام متحدہ کی جانب سے قیام امن کے لیے کئی بار مذاکرات کی کوشش کی گئی لیکن ہر بار ایسی تمام کوششیں ناکامی کا شکار ہوئیں۔

    طویل عرصے بعد اس سارے منظر نامے میں جو پیش رفت ہوئی ہے وہ یہ ہے کہ کچھ دن قبل امریکا نے جنگ کے دونوں مرکزی فریقوں سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ جنگ بند کرکے تیس دن کے اندرمذاکرات کی میز پر آئیں ۔ امریکی وزیردفاع جم میٹس کی جانب سے سامنے آنے والے اس مطالبے کی برطانیہ نے بھی حمایت کی ہے اور کہا ہے کہ مذاکرات ہی اس تنازعے کا واحد حل ہیں۔

    [bs-quote quote=”ایک طرف امریکا نے یمن میں فریقین سے جنگ بندی کا مطالبہ کر دیا ہے، دوسری طرف سعودی اتحاد نے تباہ کن حملوں میں مزید شدت پیدا کر دی ہے، تیسری طرف شمالی یمن کے علیحدگی پسندوں نے جنوبی یمن سے علیحدگی کا پھر مطالبہ شروع کر دیا ہے۔” style=”style-7″ align=”right” color=”#dd3333″][/bs-quote]

    اس مطالبے کے ساتھ ہی حکومتی افواج اور سعودی اتحاد کی جانب سے حوثی قبائل کے خلاف کارروائیوں میں انتہائی شدت آگئی ہے اور لگتا یہ ہے کہ وہ قیام امن کے مذاکرات سے پہلے حوثیوں کو فیصلہ کن ضرب دینا چاہتے ہیں۔ یمن کی حکومت کے لیے ایک پریشانی یہ بھی ہے کہ 1990 میں جنوبی یمن سے الحاق کرنے والے شمالی یمن کے علیحدگی پسندوں نے جو کہ اب تک حوثیوں کے خلاف حکومت کے ہمراہ صف آرا تھے ، اب انہوں نے ایک بار پھر جنوبی یمن سے علیحدگی کا مطالبہ شروع کردیا ہے۔ اب مذاکرات کے ساتھ ساتھ علیحدگی پسندوں کا معاملہ بھی سامنے رہے گا۔ اس تمام تر منظرنامے میں لگتا تو یہ ہے کہ یمن کےعوام کی مشکلات ابھی ختم نہیں ہوئی ہیں اور قیام امن کے لیے ابھی ایک طویل سفر ہے جو یمن کے شہریوں نے طے کرنا ہے۔

    یمن جنگ کے انسانی زندگی پراثرات


    اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ جدید تاریخ کا شدید ترین قحط یمن میں پڑنے جارہا ہے جس کے اثرات آئندہ کئی نسلوں پرمرتب ہوں گے۔ اس جنگ میں مارچ 2015 سے لے کر اب تک کم ازکم 7 ہزار افراد مارے جاچکے ہیں جبکہ 11 ہزار کے لگ بھگ زخمی ہوئے ہیں۔ مرنے والے اور زخمی ہونے والوں میں سے آدھے سعودی اتحاد کی فضائی بمباری کا نتیجہ ہیں اور ان میں اکثریت عام شہریوں کی ہے جن کا اس جنگ سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔

    جنگ کے سبب ملک کی 75 فیصد آبادی مشکلات کا شکا ر ہے اور انہیں مدد کی ضرورت ہے ۔ یہ تعداد دو کروڑ 20 لاکھ بنتی ہے اور ان میں سے ایک کروڑ تیرہ لاکھ افرا د وہ ہیں جنہیں زندہ رہنے کے لیے فوری انسانی مدد کی ضرورت ہے۔ اس وقت ملک میں1 کروڑ 71 لاکھ سے زائد افراد ایسے ہیں جنہیں یہ بھی معلوم نہیں کہ اگر آج انہوں نے کھانا کھایا ہے تو اگلا کھانا انہیں کب اور کس ذریعے سے نصیب ہوگا۔ المیہ یہ ہے کہ ان میں سے چار لاکھ پانچ سال سے کم عمر بچے بھی شامل ہیں۔

    [bs-quote quote=”اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ جدید تاریخ کا شدید ترین قحط یمن میں پڑنے جارہا ہے جس کے اثرات آئندہ کئی نسلوں پرمرتب ہوں گے۔” style=”style-7″ align=”left” color=”#dd3333″][/bs-quote]

    جنگ سے پہلےملک میں 3500 ہیلتھ کیئر سینٹر تھے جن میں سے محض نصف ہی فنکشنل ہیں اور ملک کی آدھی آبادی اس وقت صحت کی بنیادی ضروریات سے محروم ہے۔اپریل 2017 میں یہاں ہیضے کی وبا پھیلی جو کہ اب تک دنیا کی سب سے بڑی وبائی آفت بن چکی ہے جس میں 12 لاکھ افراد متاثر ہوئے۔

    جنگ کے نتیجے میں تیس لاکھ افراد اپنے گھروں سے بے گھر ہونے پر مجبور ہوئے جن میں 20 لاکھ ابھی بھی اپنے گھروں کو نہیں جاسکتے اور نہ ہی مستقبل قریب میں ان کے گھر جانے کے امکانات ہیں۔

    حرف ِآخر


    ان سارے عوامل کے پیشِ نظر ہم سمجھتے ہیں کہ سعودی اتحاد، حوثی قبائل اور ایران کو اب اس ملک کے مجبور اور بے کس عوام پر رحم کرتے ہوئے جنگ بندی کی امریکی اپیل پر عمل کرتے ہوئے مذاکرات کی میز پر آنا چاہیے ، بصورت دیگر مشرقِ وسطیٰ کا یہ دوسرا بڑا عرب ملک ، مسلم حکمرانوں کی ان بین الاقوامی سطح کی بے وقوفیوں کا شکار بن کربالکل ہی برباد ہوجائے گا۔ مسلم حکمرانوں کو سمجھنا ہوگا کہ عرب بہار کے نام پر اس خطے کے انسانوں کے ساتھ جو کھیل کھیلا گیا ہے وہ عالمی طاقتوں کی سجائی ہوئی بساط ہے اور اس کے سوا اور کچھ بھی نہیں ۔ خطے کے عوام اسلحے کی فیکٹریوں میں کام کرنے والے مزدوروں کی تنخواہ اور ان فیکٹریوں کے مالکان کی عیاشیوں کی قیمت اپنے لہو سے ادا کررہے ہیں۔

    [bs-quote quote=”سعودی اتحاد، حوثی قبائل اور ایران کو اب اس ملک کے مجبور اور بے کس عوام پر رحم کرتے ہوئے جنگ بندی کی امریکی اپیل پر عمل کرتے ہوئے مذاکرات کی میز پر آنا چاہیے۔” style=”style-7″ align=”center” color=”#dd3333″][/bs-quote]

    وزیراعظم پاکستان اپنے دورۂ سعودی عرب کے بعد اس امر کا اظہار کرچکے ہیں کہ سعودی عرب اگرچاہے تو پاکستان یمن کے تنازعے میں مصالحت کار کا کردار ادا کرسکتا ہے ۔ امریکی مطالبہ بھی یہی ہے کہ فریقین مذاکرات کی میز پر آئیں تو سعودی عرب کے لیے یہ سب سے اچھا موقع ہے کہ یمن کی اس بے مقصد جنگ سے وہ خود کو باہر نکال لے،بہ صورتِ دیگر وہ یہاں گردن تک دھنس چکا ہے اور فی الحال اس کے باہر نکلنے کا کوئی امکان بھی نظر نہیں آرہا۔

    جاتے جاتے یہ بھی بتاتا چلوں کہ کئی سال پہلے ایک کتاب پڑھی تھی جس کا عنوان ’قیامتِ صغرا ‘تھا۔ مؤلف کا نام ابھی یاد نہیں آرہا ہے لیکن کتاب میں احادیث کے حوالے سے وہ علامات جمع کی گئیں تھیں جن کا قیامت سےپہلے ظہور ہونا ہے۔ انہی میں سے ایک یہ بھی تھی کہ عدن( یمن ) کی گہرائیوں میں سے ایک ایسی ہولناک آگ برآمد ہوگی جو سارے خطے کو اپنی لپیٹ میں لے لے گی۔ محض چند سال کے بعد ہی قیامت کی وہ علامت مجسم ہوکر سامنے آچکی ہے اور اب یہ حکمرانوں کے ہاتھ میں ہے کہ وہ اس آگ کو ٹھنڈا کرتے ہیں یا مزید تیل ڈال کراسے پورے خطے میں پھیلادیتے ہیں۔

  • یمن جنگ: اسپین نے سعودی عرب کو بموں کی ترسیل روک دی

    یمن جنگ: اسپین نے سعودی عرب کو بموں کی ترسیل روک دی

    میڈرڈ: سعودی عسکری اتحاد کی جانب سے یمن میں حملوں کے پیش نظر اسپین نے سعودی عرب کو بموں کی فروخت روک دی۔

    تفصیلات کے مطابق ہسپانوی حکام کی جانب سے اعلان کیا گیا ہے کہ وہ سعودی عرب کو بموں کی ترسیل نہیں کرے گا، اسپین نے یہ اقدام یمن میں جنگی صورت حال کے تناظر میں اٹھایا ہے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق اسپین نے بموں کی فراہمی اس خدشے کے تحت روکی ہے کہ ریاض حکومت انہیں یمن جنگ میں استعمال کرے گی۔

    خیال رہے کہ سابق ہسپانوی حکومت نے سن 2015 میں سعودی عرب کو 400 لیزر گائیڈڈ بموں کی فروخت کا معاہدہ کیا تھا جس کے تحت سعودی عرب کو بموں کی ترسیل کی جاتی تھی۔

    ہسپانوی حکومت نے اس معاہدے کی تنسیخ کے لیے اقدامات بھی شروع کر دیے ہیں۔

    دوسری جانب یمن میں سعودی حملوں کے تناظر میں انسانی حقوق کی تنظیموں کی جانب سے ریاض حکومت پر شدید تنقید بھی کی جاتی رہی ہے۔

    یمن میں بچوں سے بھری بس پر فضائی حملہ، 29 بچے جاں‌ بحق

    علاوہ ازیں ایمنسٹی انٹرنیشنل سمیت انسانی حقوق کے لیے سرگرم کئی عالمی ادارے سعودی عرب کو اسلحہ فراہم کرنے پر مغربی حکومتوں کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے رہے ہیں۔

    خیال رہے کہ گذشتہ ماہ شمالی یمن میں بچوں سے بھری بس پر فضائی حملے کے نتیجے میں 29 بچے جاں‌ بحق جبکہ متعدد زخمی ہوگئے تھے۔بعد ازاں اس حملوں کا الزام سعودی عرب پر عائد کیا گیا تھا۔

    یاد رہے کہ گذشتہ روز یمن میں برسرپیکار حوثی باغیوں نے سعودی شہر جازان میں بیلسٹک میزائل داغا تھا جسے عسکری اتحاد نے جوابی کارروائی کرتے ہوئے ناکام بنا دیا تھا۔

  • ایران یمن جنگ میں براہ راست ملوث ہے، شہزادہ خالد بن سلمان

    ایران یمن جنگ میں براہ راست ملوث ہے، شہزادہ خالد بن سلمان

    ریاض : شہزادہ خالد بن سلمان نے کہا ہے کہ یمن میں حزب اللہ کی موجودگی اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ ایران یمن جنگ کی آگ کو ہوا دینے میں براہ راست کردار ادا کررہا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق امریکا میں تعینات سعودی عرب کے سفیر شہزادہ خالد بن سلمان نے دعویٰ کیا ہے کہ ایرانی حکومت یمن میں برسر پیکار حوثی جنگجوؤں کو غیر قانونی طور پر اسلحہ و گولہ بارود فراہم کررہا ہے۔

    امریکا میں تعینات سعودی عرب کے سفیر کا کہنا تھا کہ خطے کے امن کو سبوتاژ کرنے والی ایرانی حکومت حوثی جنگجوؤں کو جنگی سامان کی فراہمی کے ساتھ ساتھ لبنان کی مسلح سیاسی جماعت حزب اللہ کے جنگوؤں سے تربیت بھی دلوا رہے ہیں۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ شہزادہ خالد بن سلمان کا مؤقف ہے کہ ایران حوثیوں کو حزب کے تربیت کاروں کے ذریعے تیار کرواکر یمن کی مظلوم عوام کے خلاف گذشتہ کئی برسوں سے جاری جنگ کو پایہ تکمیل تک پہنچانا ہے۔

    عرب میڈیا کے مطابق خالد بن سلمان کا کہنا تھا کہ جنگ سے دوچار ملک یمن میں لبنانی مسلح گروہ حزب اللہ کے جنگجوؤں کی موجودگی اس بات کا ثبوت ہے کہ ایران حوثی ملیشیا کی جنگی تربیت حزب اللہ کے ذریعے کررہا ہے۔

    سعودی عرب کے سفیر نے کہا کہ یمن میں حزب اللہ کی موجودگی ثبوت ہے کہ ایران کے عزائم مشرق وسطیٰ میں واقع ممالک کے امن و استحکام کر سبوتاژ کرکے نفرت کی آگ پھیلانا ہے۔

    عرب میڈیا کا کہنا تھا کہ سعودی سفیر نے مؤقف اختیار کیا ہے کہ سعودی عرب کی سربراہی میں کام کرنے والے عرب اتحاد نے حالیہ دنوں یمن پر کی جانے والی کارروائی میں حزب اللہ کی موجودگی کے واضح ثبوت ملے ہیں۔

    شہزادہ خالد بن سلمان کا مزید کہنا تھا کہ ان ثبوتوں سے معلوم ہوتا ہے یمن جنگ کی آگ کو ایرانی حکومت بھڑکا رہی ہے۔

  • یمن جنگ میں شامل فوجیوں کی غلطیوں پر عام معافی کا شاہی فرمان جاری

    یمن جنگ میں شامل فوجیوں کی غلطیوں پر عام معافی کا شاہی فرمان جاری

    ریاض : شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے یمن میں برسرپیکار حوثی ملیشیاء سے لڑنے والے فوجیوں کی قربانیوں کا اعتراف کرتے ہوئے معمولی غلطیوں پر سزا نہ دینے کا اعلان کردیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق سعودی عرب کے حاکم وقت شامہ سلمان بن عبدالعزیز نے گذشتہ روز ایک حکم صادر کیا ہے کہ جس کے تحت حوثی جنگجوؤں کے خلاف جنگی کارروائیوں میں حصّہ لینے والے فوجیوں سے سرزد ہونے والی غلطیوں کو بخش دیا جائے گا۔

    عربی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ شاہ سلمان بن عبدالعزیز کی جانب سے جاری ہونے والے شاہی فرمان میں کہا گیا ہے کہ جو فوجی افسران و جوان یمن میں ’بحالی امید آپریشن‘ میں شرکت میں کررہے ہیں ان کی پیشہ وارانہ عسکری یا پھر مسلکی بنیادوں پر سرِزد ہونے والی معمولی کوتاہیوں میں انہیں عام معافی ہے۔

    یاد رہے کہ یمن کی سرکاری فوج نے سعودی اتحادی افواج کے تعاون سے چند روز قبل یمن کی حبل بندرگاہ پر اہم کارروائی کی تھی، جس کے باعث ایران نواز باغی بندرگاہ چھوڑ کر فرار ہوگئے تھے جبکہ متعدد کو گرفتار بھی کیا گیا تھا۔

    خیال رہے کہ یمن جنگ میں گذشتہ تین برسوں کے دوران 10 ہزار سے زائد بے گناہ شہری لقمہ اجل بن چکے ہیں، جس کے بعد اقوام متحدہ نے یمن کی موجودہ صورتحال کو ’بدترین انسانی تباہی‘ کہا تھا۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں‘ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کےلیے سوشل میڈیا پرشیئر کریں

  • سعودی عرب نے یمنی شہریوں کے لیے امدادی سامان روانہ کردیا

    سعودی عرب نے یمنی شہریوں کے لیے امدادی سامان روانہ کردیا

    ریاض : سعودی عرب کے بادشاہ شاہ سلمان بن عبد العزیز ریلیف مرکز نے یمن جنگ سے متاثرہ افراد کے لیے 70 ٹن وزنی سامان سے لدے 3 طیارے یمنی شہر عدن روانہ کردیئے گئے۔

    تفصیلات کے مطابق سعودی عرب کے بادشاہ شاہ سلمان بن عبد العزیز کے امدادی مرکز کی جانب سے یمن کی جنگ سے متاثرہ افراد کے لیے امدادی سامان سے لدے 3 طیارے یمنی شہر عدن روانہ کیے گئے ہیں۔

    سعودی حکام نے یمن بھیجے گئے امدادی سامان کے حوالے سے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ عدن پہچنے والے امدادی سامان کو جنگ زدہ شہر الحدیدہ منتقل کیا جائے گا۔

    سعودی عرب شاہی خاندان کے مشیر اور سلمان بن عبد العزیز ریلیف مرکز کے سربراہ ڈاکٹر عبد اللہ کا کہنا تھا کہ یمن بھیجا گیا امدادی سامان سعودی فرمانروا شاہ سلمان بن عبد العزیز کے حکم پر یمنی شہریوں کے لیے بھیجا گیا ہے۔ جسے یمن کے جنگ زدہ علاقوں میں موجود شہریوں کی حالت زار کا جائزہ لینے کے بعد روانہ کیا گیا ہے۔

    ریلیف مرکز کے سربراہ ڈاکٹر عبداللہ کا کہنا تھا کہ امدادی سامان سے بھرے ہوئے سعودے طیاروں میں خیمے، کمبل، خوراک اور دیگر اشیاء شامل ہیں، 70 ٹن وزنی سامان جنگ سے متاثر ہونے والے افراد میں تقسیم کیا جائے گا۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ شاہ سلمان ریلیف مرکز کی جانب سے یمن بھیجے جانے والے سامان کی صحیح تقسیم کے لیے سعودی عرب سے خصوصی ٹیم بھی یمن روانہ ہوئی ہے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ سعودی عرب کی اتحادی افواج کی میڈیکل ٹیم نے یمن میں برسرپیکار حوثی جنگوؤں سے آزاد کروائے گئے علاقوں میں مقیم افراد کو طبی خدمات فراہم کی ہیں، عرب اتحاد کی میڈیکل ٹیم نے جنگ زدہ علاقوں میں گھر گھر جاکر خواتین، بچوں اور بوڑھوں کو طبی امداد فراہم کی تھی۔


    سعودی حکام کی جانب سے یمنی بچوں کے لیے نصابی کتب کا تحفہ


    یاد رہے کہ دو روز قبل سعودی عرب کے فرمانروا سلمان بن عبد العزیز کی جانب سے یمنی اسکولوں میں زیر تعلیم بچوں کے لیے نصابی کتب اور دیگر تعلیمی اشیاء کا تحفہ پیش کیا گیا۔


    مزید پڑھیں : یمنی بچوں کے لیے بنائے سلمان بن عبدالعزیز ریلیف سینٹر کے پانچویں مرحلے کا آغاز


    خیال رہے کہ ایرانی حمایت یافتہ حوثی جنگجوؤں کی جانب سے یمن جنگ میں استعمال کیے جانے والے بچوں کو سعودی عرب بادشاہ شاہ سلمان بن عبدالعزیز کے نام سے منسوب ریلیف سینٹر میں بحالی پروگرام کا پانچواں دور شروع ہوچکا ہے۔

    سعودی عرب کے فرمانروا سلمان بن عبد العزیز ریلیف سینٹر میں جاری بچوں کے بحالی پروگرام کے پانچویں مرحلے میں جنگ کی آگ سے متاثرہ 80 بچوں کو شامل کیا گیا ہے، بحالی پروگرام مکمل ہونے کے بعد مذکورہ بچوں کو ان کے اہل خانہ کے حوالے کیا جائے گا۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں‘ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کےلیے سوشل میڈیا پرشیئر کریں

  • یمن جنگ کوفرقہ ورانہ رنگ نہ دیاجائے، فضل الرحمٰن

    یمن جنگ کوفرقہ ورانہ رنگ نہ دیاجائے، فضل الرحمٰن

    اسلام آباد : مولانافضل الرحمان نے کہا ہے کہ یمن میں جاری جنگ کوفرقہ ورانہ رنگ نہ دیاجائے۔ ایران باغیوں کی پشت پناہی کررہا ہے توکھل کربتائے۔

    کانفرنس میں سعودی وزیرنےبھی شرکت کی، پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں یمن تنازع میں پاکستان کے غیرجانبدار رہنے کی قرارداد منظور ہوئی تو مذہنی جماعتوں نے اسلام آباد میں دفاع حرمین شریفین کانفرنس کرکے قرارداد کو ہدف تنقید بنا ڈالا۔

    فضل الرحمان نے کہا کہ یمن کی صورتحال فرقہ وارانہ نہیں ہے۔ مولانا فضل الرحمن کانفرنس سے سعودی عرب کے وزیر برائے اسلامی امور و اوقاف نے بھی خطاب کرتے ہوئے اپنی حکومت کےموقف سےآگاہ کیا۔

    وفاقی وزیر مذہبی امور سردار یوسف کاکہنا تھا حکومت اپنی قراردا لاچکی مذہبی جماعتیں اپنا موقف سامنے لائیں۔ سردار یوسف حافظ سعیدکا کہنا تھا پارلیمنٹ کی قرارداد پاکستان کے عوام کی دل کی آواز نہیں۔

    سعودی عرب کبھی پاکستان کے مسئلے پرغیرجانبدار نہیں رہا۔جماعت اسلامی کے رہنما لیاقت بلوچ، مفتی محمد نعیم، سینیٹر پروفیسر ساجد میراور دیگر نے بھی خطاب کیا۔

  • مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ کے تحفظ کیلئے سب کچھ نچھاور کرسکتے ہیں، علامہ مقصود

    مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ کے تحفظ کیلئے سب کچھ نچھاور کرسکتے ہیں، علامہ مقصود

    کوئٹہ: مجلس وحدت مسلمین بلوچستان کے صوبائی سربراہ علامہ مقصود علی ڈومکی نے کہا ہے کہ مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ کے تحفظ کیلئے سب کچھ نچھاور کرسکتے ہیں تاہم یمن کے معاملے پر پاکستان کو فریق نہیں ثالث کا کردار ادا کرنا چاہئے۔

    کوئٹہ پریس کلب میں پریس کانفرنس کے دوران علامہ مقصود علی ڈومکی کا کہنا تھا کہ جنگ کسی مسئلے کا حل نہیں یمن کی قسمت کا فیصلہ وہاں کے عوام کو کرنے دیا جائے ، یمنی مسلمان حرمین شریفین سے بے پناہ محبت کرتے ہیں۔

    ایم ڈبلیو ایم کے صوبائی سربراہ کا مزید کہنا تھا کہ مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ ہمارے عشق و مودت کا مرکز ہیں، جن سے محبت ہمارے ایمان کا حصہ ہے۔

    پاکستان مسئلے کے پُر امن حل کیلئے مثبت کردار ادا کرے، موجودہ حکومت ماضی کی غلطیوں کو نہ دہرائے، یمن جنگ کا نقصان امت مسلمہ اور فائدہ امریکہ اور اسرائیل کو ہوگا۔

  • یمن جنگ کا فائدہ اسرائیل کو ہوگا، سراج الحق

    یمن جنگ کا فائدہ اسرائیل کو ہوگا، سراج الحق

    اسلام آباد : یمن جنگ کا فائدہ اسرائیل کو ہوگا، ان خیالات کا اظہار امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے یمن کی صورتحال پر پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔

    سراج الحق کا کہنا تھا کہ  حکومت یمن کے معاملے پر ثالثی کا کردار ادا کرے۔ امیر جماعت اسلامی سراج الحق کا کہنا تھا کہ سعودی عرب سے دوستی نبھانی ہے تو اسے جنگ سے روکنا ہوگا۔

    اےاین پی کےرہنما غلام بلور اور میر حاصل بزنجو نے پاک فوج کو یمن  بھیجنے کی مخالفت کردی، یمن جنگ میں شرکت کے حوالے سے ایوان میں دوسرے روز بھی بحث جاری رہی ۔

    بلوچستان نیشنل پارٹی کےسربراہ میرحاصل بزنجو نےیمن لڑائی کوخانہ جنگی قراردےدیا، اراکین اسمبلی نےحکومت پرزوردیاکہ پاکستان جنگ میں شرکت نہیں ثالثی کاکرداراداکرے۔