Tag: یمن کی خبریں

  • یمن میں امن کامعاہدہ، قیامِ امن بے حد ضروری ہے

    یمن میں امن کامعاہدہ، قیامِ امن بے حد ضروری ہے

    یمن مشرقِ وسطیٰ کا وہ رستا ہوا زخم ہے جو اب اس حالت میں آگیا ہے کہ اگر بروقت علاج نہ کیا گیا تو یہ لاعلاج بھی ہوسکتا ہے، اس منظرنامے میں سویڈن سے اچھی خبر یہ آئی ہے کہ آئینی حکومت اور برسرِ پیکارِ حوثیوں کے درمیان مذاکرات کامیاب ہوگئےہیں۔

    بتایا جارہا ہے کہ یہ مذاکرات پانچ نکاتی ایجنڈے پر کیے جارہے تھے ، جن میں سے تین پر اتفاق ہوگیا ہے جبکہ دو پر حتمی فیصلہ ابھی نہیں ہوسکا ہے۔ یمن کی آئینی حکومت اور فی الحال ملک کے اکثریتی علاقوں کا کنٹرول سنبھالے ان حوثی قبائل کے درمیان کن نکات پر اتفاقِ رائے ہوسکا ہے اور کون سے موضوعات ابھی بھی سرد خانے کی نظر ہوئے؟ اس پر ہم بعد میں نظر ڈالتے ہیں ، پہلے یہ دیکھ لیں کہ یمن تنازعہ آخر ہے کیا اور اس کی عالمی منظر نامے پر کیا اہمیت ہے۔

    یمن جنگ کا پس منظر


    یمن مشرق وسطیٰ کا دوسرا بڑا مسلم ملک ہے جس کی آبادی دو کروڑ سے زائد ہے جن میں سے بیش تر عربی بولنے والے ہیں۔ یمن کو ماضی میں عربوں کا اصل وطن تصور کیا جاتا تھا اور قدیم دور میں یہ اپنی مصالحوں کی تجارت کے سبب اہم تجارتی مرکزکیاہمیت رکھتا تھا۔ قدیم دور میں یمن کو یہ حیثیت اس کے جغرافیائی محل وقوع نے عطا کی تھی اور آج بھی سمندری تجارت میں اس کی وہی اہمیت برقرار ہے۔ یمن کےشمال اور مشرق میں سعودی عرب اور اومان، جنوب میں بحیرہ عرب اور بالخصوص خلیجِ عدن ہے اور مغرب میں بحیرہ احمر واقع ہے۔

    یمن میں سنی مسلمانوں کی تعداد ایک اندازے کے مطابق 56 فی صد ہے جبکہ زیدی شیعوں کی تعد اد لگ بھگ 42 فی صد ہے ، باقی دو فی صد آبادی اسماعیلیوں ، یہودیوں اور دیگر اقوام پر مشتمل ہے۔ تعداد میں بڑے دونوں گروہوں کے تصادم کے سبب ہی یہ ملک آج کئی سال سے جنگ کی عبرت ناک آگ میں جھلس رہا ہے جس کی روک تھام کے لیے عالمی طاقتیں رواں سال سامنے آئیں اور مملکت میں متحارب دونوں گروہوں کو مذاکرات کی میز پر آنے کے لیے کہا گیا۔

    القاعدہ کے حملوں سے بے حال اس ملک میں عرب بہار کے نتیجے میں انتقالِ اقتدار ہوا اور عبد اللہ صالح کے بعد یمن کی قیادت ہادی کی صورت میں ایک ایسے شخص کے ہاتھ میں آئی جس کی گرفت اقتدار پر مضبوط نہیں تھی، فوج تاحال سابقہ صدر کی حامی تھی۔ اسی صورتحال نے حوثی قبائل کو موقع فراہم کیا کہ وہ سادا نامی صوبے پر قبضہ کرلیں۔ اس موقع پر عام یمنیوں نے اور سنیوں نے بھی حوثی قبائل کا ساتھ دیا اوران سب نے مل کر دارالحکومت صنعا پر قبضہ کرلیا۔ اس صورتحال سے القاعدہ نے بھی فائدہ اٹھایا اور ساتھ ہی ساتھ داعش نے بھی اپنے پنجے گاڑنے کی کوشش کی لیکن مجموعی طور پر میدان حوثی قبائل کے ہاتھ رہا۔

    مارچ 2015 کا جب حوثی قبائل اور سیکورٹی فورسز مل کر پورے ملک کا کنٹرول سنبھال لیتے ہیں۔ صورتِ حال سے گھبرا کر صدر ہادی سعودی عرب کی جانب راہِ فرار اختیار کرتے ہیں۔ یہی وہ حالات ہیں جن میں سعودی عرب کی قیادت میں ایک اتحاد حوثی قبائل کو شکست دینے اور ہادی کی حکومت کو بحال کرانے کے لیے حملے شروع کرتا ہے جس کے نتیجے میں آئینی حکومت عدن نامی علاقہ چھیننے میں کامیاب ہوجاتی ہے لیکن ملک کا مرکزی علاقہ صنعا تاحال حوثی قبائل کے قبضے میں ہے جن کے لیے کہا جاتا ہے کہ ایران ان کی درپردہ مدد کررہا ہے۔

    بد ترین انسانی المیہ


    اس ساری خانہ جنگی کے سبب یمن ایک ایسے انسانی المیے میں تبدیل ہوگیا جس کی جنگوں جدید تاریخ میں دور دور تک کوئی مثال نہیں ملتی ۔اس جنگ میں مارچ 2015 سے لے کر اب تک کم ازکم 7 ہزار افراد مارے جاچکے ہیں جبکہ 11 ہزار کے لگ بھگ زخمی ہوئے ہیں۔ مرنے والے اور زخمی ہونے والوں میں سے آدھے سعودی اتحاد کی فضائی بمباری کا نتیجہ ہیں اور ان میں اکثریت عام شہریوں کی ہے جن کا اس جنگ سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔

    جنگ کے سبب ملک کی 75 فیصد آبادی مشکلات کا شکا ر ہے اور انہیں مدد کی ضرورت ہے ۔ یہ تعداد دو کروڑ 20 لاکھ بنتی ہے اور ان میں سے ایک کروڑ تیرہ لاکھ افرا د وہ ہیں جنہیں زندہ رہنے کے لیے فوری انسانی مدد کی ضرورت ہے۔ اس وقت ملک میں1 کروڑ 71 لاکھ سے زائد افراد ایسے ہیں جنہیں یہ بھی معلوم نہیں کہ اگر آج انہوں نے کھانا کھایا ہے تو اگلا کھانا انہیں کب اور کس ذریعے سے نصیب ہوگا۔ المیہ یہ ہے کہ ان میں سے چار لاکھ پانچ سال سے کم عمر بچے بھی شامل ہیں۔

    جنگ سے پہلےملک میں 3500 ہیلتھ کیئر سینٹر تھے جن میں سے محض نصف ہی فنکشنل ہیں اور ملک کی آدھی آبادی اس وقت صحت کی بنیادی ضروریات سے محروم ہے۔اپریل 2017 میں یہاں ہیضے کی وبا پھیلی جو کہ اب تک دنیا کی سب سے بڑی وبائی آفت بن چکی ہے جس میں 12 لاکھ افراد متاثر ہوئے۔

    جنگ کے نتیجے میں تیس لاکھ افراد اپنے گھروں سے بے گھر ہونے پر مجبور ہوئے جن میں 20 لاکھ ابھی بھی اپنے گھروں کو نہیں جاسکتے اور نہ ہی مستقبل قریب میں ان کے گھر جانے کے امکانات ہیں۔

    آئینی حکومت اور حوثی قبائل کے درمیان امن معاہدہ


    سنہ 2016 میں ایک بار حوثی قبائل اور آئینی حکومت نے مذاکرات کی کوشش کی تھی تاہم وہ مذاکرات بری طرح ناکام ہوئے اور فریقین ایک دوسرے کو مذاکرات کی ناکامی کا سبب گردانتے رہے ۔ دونوں کا کہنا تھا کہ مذاکرات کے باوجود جنگ نہیں روکی گئی جس کے سبب مذاکرات ممکن نہیں ہیں۔ رواں سال سب سے پہلے امریکا نے معاملے کے دونوں فریقوں کو جنگ بند کرکے مذاکرات کی میز پر آنے کا کہا گیا جس کی برطانیہ اور اقوام متحدہ دونوں کی جانب سے حمایت کی گئی۔ امریکا میں یمن کےمعاملے پر سعودی عرب کی حمایت ختم کرنا آپشن بھی موضوع ِ گفتگو رہا جس کے بعد بالاخر دسمبر 2018 میں دونوں فریق اقوام متحدہ کے زیر نگرانی مذاکرات کے لیے سویڈن میں اکھٹے ہوئے۔

    یمن کی آئینی حکومت کا وفد پانچ دسمبر کو سویڈن آیا جبکہ حوثی قبائل کا وفد پہلے ہی سے وہاں موجود تھا۔ مذاکرات اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندہ برائے یمن مارٹن گریتھس کی سربراہی میں منعقد ہوئے ، یہ مذاکرات پانچ نکاتی ایجنڈے پر ہورہے تھے جن میں ایئرپورٹ کا کنٹرول، قیدیوں کا تبادلہ ، معیشت کی بہتری، حدیدہ میں قیام امن اور بحیرہ احمر کنارے واقع القصیر کی بندرگاہ کا کنٹرول شامل ہیں۔

    ایک ہفتہ جاری رہنے والے ان مذاکرات کے نتیجے میں بالاخر طے پایا ہے کہ صنعاء ایئر پورٹ سے ملکی پروازیں چلانے کا سلسلہ شروع کیا جائے گا۔ دوسرے نکتے پر طے پایا ہے کہ دونوں فریق قیدیوں کا تبادلہ کریں گے اور یہ تعداد ہزاروں میں ہے۔ آئل اینڈ گیس سیکٹر کو دوبارہ بحال کیا جائے گا تاکہ معیشت کا پہیہ چلے ۔ یہ تین نکات ایسے ہیں جن پردونوں فریق مکمل طور پرراضی ہیں لیکن اصل مسئلہ حدیدہ شہر اور اس سے جڑے پورٹ کا ہے جو کہ یمن کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ آئینی حکومت چاہتی ہے کہ شہر کا اختیار ان کے پاس ہو جبکہ پورٹ کے معاملے پر فریقین اقوام متحدہ کی نگرانی پر رضامند ی کا اظہا رکررہے ہیں تاہم اس کا فارمولا طے ہونا باقی ہے۔ حوثی باغی چاہتے ہیں کہ حدیدہ شہرکوایک نیوٹرل حیثیت دی جائے ۔

    سنہ 2016 کے بعد سے اب تک یمن کے معاملے پر ہونے والی یہ سب سے بڑی پیش رفت ہے اور یمن کے عوام کے لیے اس وقت کی سب سے زیادہ مطلوبہ شے ، یعنی امن کیونکہ امن ہی وہ چابی ہے جس سے سارے راستے کھل جاتے ہیں ۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ فریقین اس معاہدے پر عمل درآمد میں کس حد تک سنجیدہ ہیں، یہاں یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ یمن صرف داخلی شورش کا شکار نہیں بلکہ سعوودی عرب اور ایران بھی اس ملک میں اپنی قوت کا بھرپور اظہار کررہے ہیں اور اگر اس معاہدے سے ان دونوں طاقتوں کے مفادات پر ضر ب آتی ہے تو پھر اس پر عمل درآمد انتہائی مشکل ہوجائے گا۔ حالانکہ یہ دونوں ممالک بھی ایسے معاشی دور سے گزر رہے ہیں کہ جنگ کا خاتمہ ہی سب کے لیے بہتر ہے۔

  • یمن جنگ کی روک تھام کے لیے امن مذاکرات کا آغاز

    یمن جنگ کی روک تھام کے لیے امن مذاکرات کا آغاز

    اسٹاک ہوم: سویڈن میں یمن کی جنگ کے خاتمے کے لیے اہم مذاکرات کا آغاز ہوگیا ہے ،  یمن میں تین سال سے جاری جنگ انسانی المیے کی شکل اختیار کرچکی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق اقوام متحدہ کے خصوصی مندوب کا کہنا ہے کہ یمن جنگ کی روک تھام کے لیے منعقد ہونے والے یہ مذاکرات مشرقِ وسطیٰ کے امن کے لیے  سنگِ میل کی حیثیت رکھتے ہیں۔

    اقوام متحدہ کے مندوب مارٹن گرفتھز نے اس موقع پر اعلان کیا کہ ان مذاکرات میں دونوں فریقین کے درمیان قیدیوں کے تبادلے کا معاہدہ ہوگیا ہے  جس سے ہزاروں خاندان اپنے پیاروں سے مل سکیں گے۔

    یمن کی گہرائیوں سے برآمد ہونے والی آگ

    اقوام متحدہ کی ٹیم یمنی حکومت اور حوثی باغیوں کے ساتھ مل کر کام کررہی ہے کہ یمن میں کسی طرح قیامِ امن کو یقینی بنایا جاسکے، یاد رہے کہ اس جنگ سے دنیا کا سب سے بڑاقحط  انسانی المیے کی شکل میں جنم لے رہا ہے، ہزاروں افراد مارے جاچکے ہیں جبکہ لاکھوں بھوک کے ہاتوں دم توڑ رہے ہیں۔

    سنہ 2016 کے بعد یہ پہلا موقع ہے کہ یمنی حکومت اور حوثی قبائل ایک بار پھر مذاکرات کی میز پر آرہے ہیں۔ اس سے قبل حوثی قبائل کی عدم دلچسپی کے سبب مذاکرات ناکام ہوچکے ہیں۔

    یاد رہے کہ کچھ عرصہ قبل امریکا نے جنگ کے دونوں مرکزی فریقوں سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ جنگ بند کرکے تیس دن کے اندرمذاکرات کی میز پر آئیں ۔ امریکی وزیردفاع جم میٹس کی جانب سے سامنے آنے والے اس مطالبے کی برطانیہ نے بھی حمایت کی ہے اور کہا ہے کہ مذاکرات ہی اس تنازعے کا واحد حل ہیں۔

  • یمن: ممکنہ جنگی جرائم میں تمام پارٹیاں ملوث ہیں، اقوام متحدہ

    یمن: ممکنہ جنگی جرائم میں تمام پارٹیاں ملوث ہیں، اقوام متحدہ

    جنیوا: اقوامِ متحدہ کے تفتیش کاروں کا کہنا ہے کہ یمن میں ہونے والے ممکنہ جنگی جرائم میں صرف ایک پارٹی نہیں بلکہ سبھی پارٹیاں ملوث ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق اقوامِ متحدہ نے اس تاثر کو رد کیا ہے کہ مشرق وسطیٰ کے ایک اہم ملک یمن میں کسی ایک پارٹی کی جانب سے جنگی جرائم ہو رہے ہیں۔

    اقوامِ متحدہ کے تفتیش کاروں نے کہا ہے کہ خونی جنگ میں تمام پارٹیاں ملوث ہیں جس کی وجہ سے وہ سبھی یمن میں انسانی حقوق کی پامالیوں کے لیے ذمہ دار ہیں۔ تاہم سعودی عرب کی جانب سے اقوام متحدہ کی رپورٹ کو غیر شفاف قرار دیا گیا ہے۔

    یو این کا کہنا ہے ’یمن کے خونی تنازعے میں ہونے والے جنگی جرائم میں تباہ کن فضائی حملے، بے پناہ جنسی تشدد اور بچوں کی بہ طور فوجی بھرتی شامل ہیں۔‘

    [bs-quote quote=”اس بات پر یقین کی معقول وجوہ ہیں کہ یمن میں مسلح تصادم میں ملوث پارٹیوں نے بین الاقوامی انسانی قوانین کی کافی تعداد میں خلاف ورزی کی: اقوام متحدہ” style=”style-7″ align=”left” color=”#dd3333″][/bs-quote]

    اقوامِ متحدہ کے تفتیش کاروں کی ٹیم نے رپورٹ دی ہے کہ اس بات پر یقین کی معقول وجوہ ہیں کہ یمن میں مسلح تصادم میں ملوث پارٹیوں نے بین الاقوامی انسانی قوانین کی کافی تعداد میں خلاف ورزی کی ہے۔

    رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ان خلاف ورزیوں میں سے اکثر ’جنگی جرائم‘ کے زمرے میں آتے ہیں، جن میں لوگوں کو انفرادی سطح پر قید کرنے کے بہت زیادہ واقعات، جنسی زیادتی، تشدد اور آٹھ سال کے بچوں کو فوج میں بھرتی کرنا شامل ہیں۔

    یو این ٹیم کے سربراہ کامل جندوبی نے کہا کہ تفتیش کاروں نے جرائم میں ملوث چند لوگوں کو بھی نشان زد کیا ہے، جن کی فہرست آج اقوامِ متحدہ کے ہائی کمشنر کے حوالے کی جائے گی۔


    یہ بھی پڑھیں:  سعودی اتحادی افواج نے یمن سے متعلق اقوام متحدہ کی رپورٹ کو غیر شفاف قرار دے دیا


    ’سیو دی چلڈرن‘ نامی ادارے کا کہنا ہے کہ یمن میں بھوک اور بیماریوں کی وجہ سے روزانہ 130 بچے جان سے ہاتھ دھوتے ہیں، یہ بھوک اور بیماریاں جنگ کے ساتھ آئی ہیں۔

    اقوامِ متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق یمن میں خانہ جنگی کے بعد سے اب تک 10,000 لوگ مر چکے ہیں، تاہم تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اصل تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔