Tag: یمن

  • یمن، سابق صدر و فیلڈ مارشل علی عبداللہ، استعفیٰ سے قتل تک

    یمن، سابق صدر و فیلڈ مارشل علی عبداللہ، استعفیٰ سے قتل تک

    سابق یمنی صدر علی عبداللہ صالح 75 سال کی عمر میں ایک ہفتے سے جاری حوثی باغیوں سے ہونے والی جھڑپ کے دوران قتل کردیئے گئے انہیں اُن کے مضبوط ترین علاقے صنعاء میں اُس وقت قتل کیا گیا جب وہ حوثی باغیوں کی پیش قدمی روکنے کے لیے جھڑپ میں مشغول تھے۔

    علی عبداللہ صالح کے قتل سے 35 سالہ طاقت ور ترین دور حکومت بلآخر تمام ہوا جس میں طاقت ، مہارت اور سیاسی بصیرت کے مظاہر ے دیکھنے کو ملیں گے جن کے بل بوتے پر علی عبداللہ صالح نے مسائل اور خانہ جنگی کے شکار یمن میں اپنی حاکمیت قائم کی اور یہی نہیں بلکہ سویت یونین کے خاتمے کے بعد پیچیدہ صورت حال میں جنوبی اور شمالی یمن کو متحد کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا اور وہ متحدہ یمن کے پہلے صدر بھی منتخب ہوئے۔

    علی عبداللہ 21 مارچ 1942 کو صنعاء سے 20 کلومیٹر دور ایک غیر معروف گاؤں میں پیدا ہوئے ان کا تعلق یمن کے سب سے بڑے قبیلے حاشد سے تھا انہوں نے 1953 میں شمالی یمن کی آرمی میں بہ طور انفنٹری سپاہی کے شمولیت اختیار کی اور پانچ سال بعد کمیشنڈ حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے اور سیکنڈ لیفٹیننٹ کے عہدے پر فائض ہوئے۔

    انہوں نے شمالی یمن میں جاری خانی جنگی کے دوران اُس آرمی کور میں خدمات انجام دیں جس نے بعد میں یمن کے بادشاہ محمد البدر کے تخت کو الٹنے اور یمن عرب ری پبلک کے قیام میں کلیدی کردار ادا کیا اس دوران انہوں نے ٹینک کور میں اپنے جنگی جوہر دکھائے جس کے بعد علی عبداللہ کو میجر کے عہدے پر ترقی دے دی گئی۔

    بعد ازاں علی عبداللہ نے عراق میں جنگی مہارت سے متعلق تربیتی پروگرام میں شرکت کی جس کے بعد انہیں کرنل کے عہدے پر ترقی دے دی گئی اور ان کی ذہانت اور صلاحیت دیکھتے ہوئے شمالی یمن کے صدر احمد بن حسین نے انہیں 1977 میں تعز کے علاقے میں ملٹری گورنر مقرر کردیا جو ان کا پہلا غیر عسکری عہدہ تھا جس نے سیاست کی سمجھ بوجھ دی۔

    تاہم شمالی یمن کے صدر الغاشمی کے قتل کے بعد 1978 میں کرنل علی عبداللہ صالح کو چار رکنی عبوری صدارتی کونسل کا رکن مقرر کردیا گیا جس نے ہنگامی بنیاد پر حکومتی امور نبھائے علاوہ ازیں اس دوران علی عبداللہ کو ڈپٹی آف جنرل اسٹاف کمانڈر کی اضافی ذمہ داری بھی سونپی گئی تھی جو انہوں نے احسن طریقے سے نبھائی۔

    چند ماہ بعد ہی 17 جولائی 1978 میں شمالی یمن کی پارلیمنٹ نے علی عبداللہ صالح کو صدرِ مملکت منتخب کرلیا جب کہ آرمڈ فورسز کے کمانڈر انچیف اور چیف آف آرمی اسٹاف کا عہدہ بھی انہوں نے اپنے پاس ہی رکھا ہوا تھا اپنے دور حکومت میں انہوں نے اپنے 7 بھائیوں کو اعلیٰ عہدوں پر فائز کیا اور اپنے بیٹوں، بیٹیوں اور سسرالی رشتہ داروں کو اعلیٰ عہدیں بانٹ کر ریاست میں اپنی گرفت مضبوط تر کرلی۔

    شمالی یمن کی صدارت سنبھالتے ہی علی عبداللہ نے اپنی حکومت کے خلاف سازش کرنے پر 30 فوجی افسران کو پھانسی پر لٹکا دیا اور خود 1980میں میجر جنرل کے عہدے پر فائز ہو گئے اور اسی دوران  جنرل پیپلز جانگریس کے سیکرٹری جنرل بننے کے بعد سیاسی میدان میں بھی قدم جما نے میں کامیاب ہو گئے جس کے بعد 1983 میں وہ دوسری بار یمن عرب ری پبلک کے صدر منتخب ہو گئے۔

    یمن کی تاریخ میں تاریخی موڑ اس وقت آیا جب سویت یونین کے خاتمے کے بعد جنوبی یمن مشکلات میں گھر گئی جس پر شمالی یمن اور جنوبی یمن نے 1990 میں متحدہ ریاست بننے کا فیصلہ کیا اور طویل بحث و مباحثے کے بعد علی عبداللہ صالح کو متحدہ یمن کا صدر اور سالم البیدھ کو نائب صدر منتخب کرلیا گیا۔

    کویت جنگ کے دوران علی عبداللہ صالح نے عراق کے صدر صدام حسین کی حمایت کی تاہم عراق کے جنگ ہارنے کے بعد اس فیصلے کا خمیازہ یمن کی عوام کو اس صورت میں بھگتنا پڑا کہ جب کویت نے تمام یمنی ملازمین کو ملک بدر کردیا بعد ازاں عالمی طاقتوں کی جانب سے یمن میں یہودیوں کے داخلے کے لیے پاسپورٹ کے اجراء کے لیے عبداللہ صالح کو بھی دباؤ کا سامنا رہا۔

    شمالی یمن اور جنوبی یمن کے ضم ہونے کے بعد پہلے باقاعدہ صدارتی انتخابات 1993 میں منعقد ہوئے جس میں علی عباللہ صالح کی جماعت جنرل پیپلز کانگریس نے بڑے پیمانے پر کامیابی حاصل کی اور یوں وہ تیسری بار صدر بننے میں کامیاب ہو گئے اور 1997 میں پہلے فیلڈ مارشل کے عہدے پر براجمان ہوئے۔

    علی عبداللہ صالح نے 2006 میں ہونے والے صدارتی انتخابات میں بھی کامیابی حاصل کی اور یوں چوتھی بار صدر بن گئے تاہم 2011 میں تیونس میں آنے والے انقلاب کے بعد صورت حال یمن کے مستقل صدر کے حق میں سازگار نہیں رہی جس کی وجہ سے انہوں نے اعلان کیا وہ 2013 میں ہونے والے صدارتی انتخابات میں حصہ نہیں لیں گے تاہم حکومت کی جانب سے غیر مسلح شہریوں کے خلاف کارروائیوں پر ان کی اپنی پارٹی کے لوگوں کے استعفوں نے معامالات کو مزید گھمبیر کردیا۔

    صورت حال کو دیکھتے ہوئے صدر علی عبداللہ نے ریفرنڈم کا اعلان کردیا جس کے دوران 52 افراد تشدد کے واقعات میں قتل ہو گئے جب کہ 200 سے زائد زخمی ہو گئے جس کی ذمہ داری لینے کے بجائے انہوں نے مقامی آبادی کو ہی قصور وار ٹہرایا۔

    اس دوران اصلاھ پارٹی کے حامد الاحمر نے عوام میں مقبولیت حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے جب کہ انہیں امریکا کی آشیرباد حاصل تھی اور پے در پے عوامی مظاہروں اور حکومت مخالف جلسوں نے علی عبداللہ کو حکومت چھوڑنے پر مجبور کردیا جس کا باقاعدہ اعلان انہوں نے اپریل 2011 میں کیا تاہم وہ 30 دن کے ٹرانزیشن پیریڈ کے خواہاں تھے جس کے دوران انہیں جنگی جرائم کے مقدمات میں عدالتی استثنیٰ بھی حاصل ہو۔

    تاہم ایک ماہ انہوں نے اپنے وعدہ کے برخلاف مستعفیٰ ہونے سے انکار کردیا جس کے باعث ایک بار پھر یمن میں ہنگامے پھوٹ پڑے اور اس دوران اُن پر چھ بار قاتلانہ حملے کیے گئے تاہم وہ معجزانہ طور پر محفوظ رہے جس کے بعد وہ 2011 میں سعودیہ عرب چلے گئے اور خلیجی ممالک کے درمیان تعلق کی تنظیم کے ساتھ طاقت اور اقتدار کی منتقلی سے متعلق دستاویزات پر دستخط کیے جس کے تحت وہ نائب صدر منصور ہادی کو اختیارات سونپ دیں گے جو جنرل پیپلز کانگریس اور جے پی ایم کے نمائندوں پر مشتمل حکومت تشکیل دیں گے۔

    فروری 2012 میں صدر کے عہدے سے مستعفی ہونے والے علی عبداللہ صالح نے 2014 سے 2016 کے درمیان حوثی باغیوں کی معاونت کی اور اپنے حمایتی قبائل و فوجی اہلکاروں کو ملا کر حوثی باغیوں کے ساتھ الائنس بنالیا جو سعودی عرب کے فوجی اتحاد کے خلاف مشترکہ کارروائیاں کیا کرتے تھے تاہم 2017 میں حوثی باغیوں اور علی صالح کی فورسز کے درمیان علیحدگی ہو گئی جس کے بعد آج یہ خبر سامنے آئی ہے کہ حوثی باغیوں نے صنعاء پر قبضے کے دوران سابق صدر علی عبداللہ صالح کے گھر پر بمباری کرکے انہیں قتل کردیا ہے۔

  • حوثی باغیوں نے یمن کے سابق صدرعلی صالح کو قتل کردیا

    حوثی باغیوں نے یمن کے سابق صدرعلی صالح کو قتل کردیا

    یمن : حوثی باغیوں نے یمن کے سابق صدر علی عبداللہ صالح کو ایک جھڑپ کے دوران قتل کردیا ہے اور سوشل میڈیا پر اس کی ویڈیو بھی جاری کردی گئی ہے.

    یمن کے سابق صدر کے قتل کی اطلاع حوثی باغیوں کے زیر انتظام چلنے والے ریڈیو اسٹیشن کے ذریعے نشر کی گئی تاہم آزاد ذارائع سے اس خبر کی تصدیق نہیں ہو سکی تھی جس کے بعد سوشل میڈیا پر سابق صدر کی لاش کی منتقلی کی ویڈیو بھی وائرل کی گئی جس میں انہیں مردہ حالت میں دیکھا جاسکتا ہے.

    قبل ازیں سابق صدر کی جماعت پیپلز کانگریس کی قیادت نے ایک بیان میں کہا تھا کہ علی عبد اللہ صالح خیریت سے ہیں اور ایک محفوظ مقام سے حوثیوں کے خلاف لڑائی کی قیادت بھی کر رہے ہیں چنانچہ ان کے قتل کی افواہ میں کوئی صداقت نہیں ہے.

    دوسری جانب صنعاء کے مکینوں نے عرب میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ سابق صدر کے مکان کے کو دھماکے سے تباہ ہوتے دیکھا گیا ہے تاہم اُس وقت سابق صدر علی صالح کہاں تھے اس کا کوئی اندازہ نہیں ہے.

    خیال رہے کہ صنعاء میں ایک ہفتے سے حوثی باغیوں اور سابق صدر کی فوجیوں کے درمیان جھڑپ جاری ہیں اور حوثی باغیوں نے دارالخلافہ کے بڑے حصے پر قبضہ کرنے کا دعوی کیا ہے۔

    انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے اداروں نے عرب میڈیا سے بات کرتے ہوئے بتایا ہے کہ یمن کے دارالحکومت میں حوثیوں اور سابق صدر صالح کی فورسز کے درمیان جاری لڑائی میں 125 افراد ہلاک اور 238 زخمی ہوچکے ہیں۔

  • یمن، امریکی ڈرون حملے میں 7 القاعدہ رہنما ہلاک

    یمن، امریکی ڈرون حملے میں 7 القاعدہ رہنما ہلاک

    عدن : جنوبی یمن میں القاعدہ کے 7 خطرناک کمانڈرز ڈرون حملے میں ہلاک ہو گئے ہیں، لاشیں جل کر خاکستر ہو جانے کے باعث ہلاک شدگان کی تاحال شناخت نہیں ہو سکی ہے.

    تفصیلات کے مطابق ڈرون حملہ مبینہ طور پر امریکا کی جانب سے یمن کے جنوبی علاقے عدن میں واقع صوبے شبوا پر گاڑیوں کے ایک قافلے پر کیا گیا جس میں متعدد افراد کے ہلاک ہونے کی اطلاع ہیں.

    غیر ملکی خبر رساں ایجنسی کے مطابق امریکی فورسز کی جانب سے ڈرون حملہ انٹیلی جنس بنیادوں پر حاصل کی گئی معلومات کی روشنی میں کیا گیا جس میں صوبے بانڈا کو جانے والی سڑک پر 3 گاڑیوں کو نشانہ بنایا گیا.

    ڈرون حملے کے باعث تینوں گاڑیاں مکمل طور پر تباہ ہو گئیں جب کہ ان میں سوار 7 القاعدہ کمانڈرز موقع پر ہلاک ہوگئے جن کی تاحال شناخت نہیں ہو سکی ہے تاہم خیال کیا جا رہا ہے کہ ہلاک ہونے والے شدت پسند تنظیم القاعدہ کے اہم رہنما تھے.

    یاد رہے کہ امریکا شدت پسند تنظیموں میں القاعدہ کو سرفہرست شمار کرتا ہے جب کہ یمن میں موجود القاعدہ کی برانچ کو سب سے خطرناک گروہ قرار دیتا ہے چنانچہ اس علاقے میں ڈرون حملے معمول کا حصہ بنتے جا رہے ہیں.

  • چین نے یمن کے 100 کروڑ کے قرضے معاف کردیئے

    چین نے یمن کے 100 کروڑ کے قرضے معاف کردیئے

    بیجنگ : چین نے خطے میں تجارتی سرگرمیوں کے دوام کے لیے یمن کے 100 کروڑ ڈالر کے قرضے معاف کرنے کا اعلان کردیا ہے.

    تفصیلات کے مطابق چین کی جانب سے اس فیصلے کا اعلان چینی سفیر اور یمنی ڈپٹی وزیراعظم کے درمیان ہونے والی ملاقات کیا گیا جسے معاہدے کو حتمی شکل دینے کے بعد دونوں حکومتوں کی جانب سے دستخط کیئے جائیں گے.

    غیر ملکی خبر رساں دونوں رہنماؤں کے درمیان ہونے والی ملاقات میں دوطرفہ باہمی دلچسپی کے امور بھی زیر بحث لائے گئے اس موقع پر یمن کے ڈپٹی وزیراعظم اور وزیر خارجہ عبدالملک الکیلففی نے یمن پر چین کے قرضے سے متعلق امور اور حکومت کی مالی و معاشی حالات پر تبادلہ خیال کیا.

    یمن میں چین کے سفیر ٹیان فائی نے کہا کہ ساتھ چین اور یمن کے درمیان مضبوط باہمی تعلقات ہیں اور چین اپنے دوست ملک کو مشکل کے وقت تنہا نہیں چھوڑ سکتا اس لیے چینی حکومت نے یمن کے 100 کروڑ کے قرضے معاف کرنے کا اعلان کردیا ہے جس کے لیے اگلے ہفتے ایک معاہدہ ضبط تحریر کیا جائے گا.

    چین حکومت کے اس قدام کی تعریف کرتے ہوئے کہا ہے کہ یمن اورچین کے مابین دیرینہ اور دوستانہ تعلقات ہیں جو ہر گذرتے روز کے ساتھ مضبوط سے مضبوط تر ہوتے جارہے ہیں یہی وجہ ہے کہ چین اس مشکل گھڑی میں بھی ہمارے ساتھ کھڑا ہے.

  • یمنی سرحد کےقریب ہیلی کاپٹرگرکرتباہ‘ سعودی شہزادہ جاں بحق

    یمنی سرحد کےقریب ہیلی کاپٹرگرکرتباہ‘ سعودی شہزادہ جاں بحق

    ریاض : یمن کی سرحد کے قریب فوجی ہیلی کاپٹر گرنے سے سعودی شہزادے منصور بن مقرن سمیت آٹھ افراد جاں بحق ہو گئے۔

    تفصیلات کے مطابق سعودی عرب کے سرکاری میڈیا کا کہنا ہے کہ یمن کی سرحد کے قریب ہیلی کاپٹرگرکرتباہ ہوگیا جس میں سوارسعودی شہزادے منصور بن مقرن سمیت آٹھ افراد جاں بحق ہوگئے۔

    شہزادہ منصور بن مقرن فوجی حکام کے ساتھ یمن سعودی عرب سرحد کے قریب صوبہ عسیر میں علاقے کا جائزہ لے رہے تھے کہ ان کا ہیلی کاپٹر زمین پرآگرا۔

    سعودی حکام کا کہنا ہے کہ حادثے کی وجہ فور ی طور پرمعلوم نہیں ہو سکی ہے۔ شہزادہ منصور بن مقرن سابق سعودی عرب ولی عہد مقرن ال سعود کے بیٹے اور صوبہ عسیر کےنائب گورنر تھے۔

    خیال رہے کہ گزشتہ روز سعودی عرب کی فوج نے یمن کی جانب سے ریاض میں واقع الخالد ایئرپورٹ کی طرف میزائل حملے کوسعودی ایئر ڈیفنس نے ناکام بنا دیا تھا۔


    سعودی عرب میں کرپشن کےالزام میں 11 شہزادے اور4 وزیرگرفتار


    یاد رہے کہ یہ حادثہ ایک ایسے وقت میں پیش آیا ہے جب گزشتہ روز ہی سعودی عرب میں نئی اینٹی کرپشن کمیٹی نے گیارہ شہزادوں، چار موجودہ اور سابق وزرا کو گرفتار کرلیا گیا ہے جن میں شہزادہ شہزادہ الولید بن طلال بھی شامل ہیں۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • یمن، اتحادی فوجوں کی بمباری سے کمانڈر سمیت 13 اہلکار ہلاک

    یمن، اتحادی فوجوں کی بمباری سے کمانڈر سمیت 13 اہلکار ہلاک

    صنعاء : یمن میں برسر پیکار عرب اتحاد کے طیاروں کی بمباری سے باغی گروپ کے سرکردہ رہنماؤں سمیت 13 افراد ہلاک ہو گئے ہیں.

    تفصیلات کے مطابق یمن میں موجود اتحادی فوج کے طیاروں نے ایک فضائی آپریشن کے دوران مخالف مسلح گروہ کے ٹھکانوں پر بمباری کی جس کے نتیجے میں 13 مزاحمت کار لقمہ اجل بن گئے.

    عرب ٹی وی کا کہنا ہے کہ فضائی بمباری مشرقی صنعاء میں کی گئی جس کے نتیجے میں مطلوب کمانڈر اپنے 13 ساتھیوں سمیت ہلاک ہوگیا، ہلاک ہونے والے کرنل کی شناخت علی الاعجم کے نام سے ہوئی ہے جو کہ ری پبلیکن گارڈز کے تیسرے بریگیڈ کا قائم مقام کمانڈر تھا.

    دوسری جانب بین الااقوامی خبر رسان ایجنسی کا دعوی ہے کہ اتحادی فوجوں کے طیاروں نے فضائی بمباری میں مشرقی صنعاء میں نھم کے محاذ کے قریب مخالف فورسز کے ٹھکانوں پر نہیں بلکہ ایک فوجی گاڑی کو نشانہ بنایا تھا جس میں کرنل علی الاعجم اپنے 12 اہلکاروں کے ہمراہ نامعلوم منزل کی جانب محو سفر تھے.

    خیال رہے کہ کمانڈر کرنل الاعجم نے حال ہی میں بریگیڈ 3 کی عبوری کمان سنھبالی تھی جہاں وہ متحرک اور نتیجہ خیز کارروائیوں میں مصروف تھے اور جو اس سے قبل علی صالح ملیشیا کی بریگیڈ ون کو بھی کمان کرچکے ہیں.


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • عدن، القاعدہ اور یمنی فوج کے درمیان جھڑپ، 5 فوجی اور 5 حملہ آور ہلاک

    عدن، القاعدہ اور یمنی فوج کے درمیان جھڑپ، 5 فوجی اور 5 حملہ آور ہلاک

    عدن : یمنی فوج کے کیمپ میں القاعدہ کے جنگجوؤں نے حملی کر کے 5 یمنی فوجیوں کو قتل کردیا جب کہ جوابی کارروائی میں 5 حملہ آور بھی مارے گئے.

    تفصیلات کے مطابق یمن کے ساحلی علاقے عدن میں واقع یمن آرمی کے کیپم پر دہشت گردوں کی جانب سے دھاوا بول دیا گیا جس کے نتیجے میں 10 افراد کے جاں بحق ہونے کی اطلاعات موصول ہو رہی ہیں.

    غیر ملکی خبر ایجنسی کے مطابق القاععدہ جنگجوؤں نے عدن کے جنوبی صوبے ابیان میں واقع میں‌ یمنی فوج کے کیمپ پر حملہ کردیا جس کے بعد یمنی فوج اور دہشت گردوں کے خلاد دو بدو جھڑپ چھڑ گئی.

    غیر ملکی ایجنسی کا کہنا ہے کہ القاعدہ جنگجوؤں کے حملے میں یمنی فوج کے پانچ اہلکار جاں بحق ہو گئے ہیں جب کہ یمنی فوج کی جوابی کارروائی کے نتیجے میں 5 القاعدہ شدت پسند بھی ہلاک ہوگئے جب کہ زخمیوں کی تعداد کا تعین نہیں ہوسکا.

    القاعدہ جنگجوؤں کے حملے کے بعد سیکیورٹی اداروں نے فوجی کیمپ کا محاصرہ کرلیا اور دہشت گردوں کی گرفتاری کے لیے گھیرا تنگ کیا جا رہا ہے تاہم تاحال کسی کی گرفتاری کی اطلاع موصول نہیں ہوئی ہے.


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • یمن میں 3 سالہ بچی سے زیادتی کے مجرم کو سرعام سزائے موت دے دی گئی

    یمن میں 3 سالہ بچی سے زیادتی کے مجرم کو سرعام سزائے موت دے دی گئی

    صنعا: یمن کے دارالحکومت صنعا میں 3 سالہ بچی کو زیادتی کے بعد قتل کرنے والے مجرم کو سرعام سزائے موت دے دی گئی۔

    محمد المغربی نامی 41 سالہ مجرم کی سزائے موت دیکھنے کے لیے صنعا کے تحریر اسکوائر پر لوگوں کا ایک ہجوم امڈ آیا جسے پولیس کی بھاری نفری نے قابو میں رکھا۔ لوگوں نے قریب موجود چھتوں اور کھمبوں پر چڑھ کر سزا پر عملدرآمد دیکھا۔

    موقع پر موجود جج نے مجرم کا جرم اور موت کی سزا پڑھ کر سنائی جس کے بعد ایک پولیس اہلکار نے 5 گولیاں مار مجرم کو اس کے انجام تک پہنچا دیا۔

    المغربی نے کچھ عرصہ قبل 3 سالہ بچی رعنا کو زیادتی کا نشانہ بنانے کے بعد اسے قتل کردیا تھا۔

    مزید پڑھیں: زیادتی کا شکار طالبہ کو مردہ بچے کی پیدائش پر 30 سال قید

    بچی کا تعلق ایک مسلح قبیلے سے تھا اور پولیس کو خدشہ تھا کہ قبیلے کے لوگ مجرم پر حملہ کرسکتے ہیں جس کے پیش نظر مجرم کو سخت سیکیورٹی میں قتل گاہ تک لایا گیا۔

    اس دوران پولیس کی بھاری نفری آس پاس کے علاقوں میں بھی تعینات رہی۔

    سزا کے بعد بچی کے والد یحییٰ نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، ’آج میں ایک بوجھ سے آزاد ہوگیا۔ آج یوں محسوس ہورہا ہے جیسے میں نے پھر سے جنم لیا ہے‘۔


  • یمن میں مسجد پر میزائل حملہ‘ 26افراد ہلاک

    یمن میں مسجد پر میزائل حملہ‘ 26افراد ہلاک

    عدن: یمن میں حکومت کی حامی فورسز کے کیمپ کی مسجد پرمیزائل حملے میں 26افراد جان کی بازی ہارگئے۔

    تفصیلات کےمطاقب یمن کے صوبے مارب میں باغیوں کی جانب سے حکومت کی حامی فورسز کے کوفیل کیمپ کی مسجد پرنمازجمعہ کے دوران میزائل حملے کیے گئےجس میں26افراد ہلاک ہوئے۔

    حوثی باغیوں کے زیر قبضہ نیوز ایجنسی ’صبا‘ کا کہنا تھا کہ مسجد پر حملہ باغیوں نے کیا۔حملے میں ایرانی ساختہ ’ذِلذال وَن‘ میزائل مرکزی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا گیااور آرٹلری بھی فائر کیے گئے۔

    یمن کے صوبے مارب میں مسجد کا ذکر کیے بغیر کہاگیاکہ حملے کا نشانہ بننے والی جگہ سے کئی فوجی اہلکاروں کی لاشوں کو نکالا گیا۔

    مزید پڑھیں:حلب میں مسجد پرطیاروں کی بمباری ‘42افراد شہید

    یاد رہےکہ گزشتہ روزحلب میں انسانی حقوق کی مبصر تنظیم کےمطابق باغیوں کے زیر انتظام علاقے ال جن میں ایک مسجد پر فضائی حملے میں 42 افرادشہید اور 100سےزائد زخمی ہوگئےتھے۔

    سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس کاکہناتھاکہ فی الحال شناخت نہیں ہوسکی کہ یہ فضائی کارروائی کس کی جانب سے کی گئی ہےلیکن روسی اور شامی طیارے اس علاقے میں پرواز کرتے رہتے ہیں۔

    واضح رہے کہ یمن کے صدر عبدالرب منصور ہادی کی حمایت میں سعودی اتحاد کی مداخلت کے بعد حکومت کی حامی فورسز نے صوبہ مارب کا بڑا حصہ حوثی باغیوں سے خالی کرا لیا تھا۔

  • کس بچے کو کھانا کھلائیں اور کس کو نہیں؟ صومالی والدین اذیت میں

    کس بچے کو کھانا کھلائیں اور کس کو نہیں؟ صومالی والدین اذیت میں

    مشرقی افریقی ملک صومالیہ میں شدید قحط کے باعث خوراک کی فراہمی کی مقدار دن بدن گھٹتی جارہی ہے جس کی وجہ سے والدین اپنے بچوں کو کھانا دینے سے پہلے سوچ میں پڑجاتے ہیں کہ کس بچے کو کھانا دیا جائے اور کس کو نہیں۔

    افریقی ملک صومالیہ میں قحط کی صورتحال خطرناک حدوں کو پہنچ گئی ہے۔ ملک کی نصف آبادی یعنی لگ بھگ 62 لاکھ افراد قحط سے متاثر ہیں۔ گزشتہ دو روز میں 110 افراد بھوک کے باعث ہلاک ہوچکے ہیں۔

    قحط کے باعث گھاس خشک ہوچکی ہے جس کی وجہ سے لوگوں کے مویشی بھی بھوک سے ہلاک ہوچکے ہیں جبکہ پانی کے ذخائر بھی خشک ہو چکے ہیں۔

    پانی کی کمی اور قحط کا شکار صومالی آلودہ پانی پینے پر بھی مجبور ہیں جو لاغر و کمزور صومالیوں کو ہیضے کا شکار کر کے موت کے کنویں میں دھکیل دیتا ہے۔

    بھوک اور قحط کی اس صورتحال میں صومالی والدین اپنے بچوں کو خوراک دیتے ہوئے تذبذب کا شکار ہوجاتے ہیں کہ کس بچے کو کھانا دیا جائے اور کس کو نہیں۔

    somalia-2

    ایک صومالی ماں کا کہنا ہے کہ جب ہمارے پاس کھانے کا بہت کم ذخیرہ ہوتا ہے تو ہم اسے صرف اس بچے کو دیتے ہیں جسے سب سے زیادہ ضرورت ہوتی ہے اور جو بھوک سے بالکل بے جان ہوچکا ہوتا ہے۔

    دوسری جانب اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ صومالیہ میں ایک بار پھر 2011 جیسا قحط آسکتا ہے جس میں 2 لاکھ سے زائد افراد ہلاک ہوگئے تھے۔

    یاد رہے کہ صومالیہ گزشتہ تقریباً 25 سال سے خانہ جنگی کی زد میں ہے۔ جنگ کی وجہ سے ملک کی معیشت تباہ ہوچکی ہے جبکہ صومالیوں کا ذریعہ معاش زراعت بھی تقریباً ختم ہوچکا ہے۔

    چند روز قبل شمالی افریقی ملک جنوبی سوڈان کو بھی قحط زدہ قرار دیا جاچکا ہے۔ سوڈان کی کل 1 کروڑ 13 لاکھ آبادی میں سے 40 فیصد بھوک کے باعث موت کے کنارے کھڑی ہے۔

    اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ صومالیہ کے ساتھ ساتھ، نائیجیریا اور مشرق وسطیٰ کا ملک یمن بھی قحط کے دہانے پر ہیں۔