Tag: یورپی عدالت

  • سزا یافتہ مجرمان کی ذاتی تفصیلات تاحیات محفوظ رکھنا غیر قانونی قرار

    سزا یافتہ مجرمان کی ذاتی تفصیلات تاحیات محفوظ رکھنا غیر قانونی قرار

    لندن : یورپی عدالت انصاف نے سزائیں پانے والے مجرمان کی تمام تر تفصیلات (ڈیٹا) پولیس کے پاس تاحیات محفوظ رکھنے کے فیصلے کو قانون کی خلاف ورزی قرار دے دیا۔

    یورپی عدالت انصاف کے ایک حالیہ فیصلے کے مطابق یورپی یونین کے رکن ممالک میں پولیس کی جانب سے سزا یافتہ مجرموں کا ڈیٹا ان کے انتقال تک محفوظ رکھنا مروجہ یورپی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔

    یورپی یونین کی اس اعلیٰ ترین عدالت نے اپنا یہ فیصلہ رکن ملک بلغاریہ کی ایک عدالت کی ایسی کارروائی کے پس منظر میں سنایا ہے جو ایک ایسے بلغارین شہری کے خلاف مقدمے سے متعلق تھی، جسے ماضی میں بطور گواہ ملکی عدالت میں غلط بیانی کا مرتکب ٹھہرایا گیا تھا۔

    بعد ازاں یہ شخص اپنی ایک سال کی قید کاٹنے کے بعد پولیس ریکارڈ سے اپنی ذاتی معلومات ختم کروانا چاہتا تھا، اس نے پولیس حکام کو درخواست بھی دی تھی لیکن اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہو سکا تھا۔

    بلغاریہ میں نافذ ملکی قوانین کے تحت پولیس سزا یافتہ مجرموں کی انگلیوں کے نشانات، تصاویر اور ڈی این اے کے نمونوں کے ساتھ ساتھ ان کے جرائم سے متعلق ڈیٹا ایسے مجرموں کی موت تک محفوظ رکھ سکتی ہے اور ایسا کرتی بھی ہے۔

    اس بارے میں یورپی عدالت انصاف (ای سی جے) نے اب اس عمل کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے فیصلہ سنایا ہے کہ سزا یافتہ مجرموں کو یہ حق حاصل ہے کہ رکن ممالک کے قانون نافذ کرنے والے ادارے ایسے افراد کو ذاتی اور ان کے جرائم سے متعلق ڈیٹا ان کی موت تک محفوظ نہ رکھیں۔

    مذکورہ یورپی عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ سزا یافتہ مجرموں کا ڈیٹا ان کے انتقال تک پولیس کی جانب سے محفوظ رکھا جانا صرف مخصوص حالات میں ہی جائز ہے۔

    عدالتی فیصلے کے مطابق اگر ایسی معلومات کا مستقل محفوظ رکھا جانا جرائم کی روک تھام، تفتیش اور عدالتی کارروائی یا مجرموں کے سنائی گئی سزاؤں پر عمل درآمد کے لیے بوجوہ ضروری اور یوں جائز قرار دے بھی دیا جائے تو بھی ایسے محفوظ ڈیٹا کا وقتاً فوقتاً جائزہ لیا جاتا رہنا چاہیے۔

    واضح رہے کہ یورپی یونین کے رکن ممالک میں مجموعی طور پر پرسنل ڈیٹا کے تحفظ کے لیے سخت قوانین نافذ ہیں۔

  • یورپی عدالت کا توہینِ رسالت پر خاتون کی سزا برقرار رکھنے کا فیصلہ

    یورپی عدالت کا توہینِ رسالت پر خاتون کی سزا برقرار رکھنے کا فیصلہ

    برلن: انسانی حقوق کی یورپی عدالت نے توہینِ رسالت کے جرم میں آسٹرین خاتون کی سزا برقرار رکھنے کا فیصلہ سنا دیا۔ یورپی عدالت نے توہینِ رسالت کے معاملے کو آزادیٔ اظہار ماننے سے انکار کر دیا۔

    تفصیلات کے مطابق انسانی حقوق کی یورپی عدالت نے توہینِ رسالت کے جرم میں آسٹرین خاتون کی سزا برقرار رکھنے کا فیصلہ جاری کرتے ہوئے کہا کہ توہینِ رسالت آزادیٔ اظہارِ رائے کے زمرے میں نہیں آتی۔

    [bs-quote quote=”توہینِ رسالت سے مذہبی آزادی متاثر ہوتی ہے، یہ اظہارِ رائے کی حدود سے تجاوز ہے: عدالت” style=”style-7″ align=”left” color=”#dd3333″][/bs-quote]

    یورپی عدالت برائے انسانی حقوق نے کیس کی سماعت کرتے ہوئے واضح طور پر کہا کہ پیغمبرِ اسلام کی توہین مذہبی انتشار اور فساد کا باعث بھی بن سکتی ہے۔

    سزا برقرار رکھنے کا فیصلہ برلن کی عدالت میں 7 ججز پر مشتمل پینل نے سنایا، عدالت کا کہنا تھا کہ توہینِ رسالت سے مذہبی آزادی متاثر ہوتی ہے، یہ اظہارِ رائے کی حدود سے تجاوز ہے۔

    انسانی حقوق کی عدالت نے  آسٹریا کی عدالت کا فیصلہ درست قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس نے محتاط ہو کر آزادئ اظہار کا دوسروں کے مذہبی احساسات کے تحفظ کے حق کے ساتھ موازنہ کیا تھا۔


    یہ بھی پڑھیں:  پاکستان کا نیدرلینڈز کے رکن پارلیمنٹ کے گستاخانہ ٹویٹ پر شدید احتجاج


    واضح رہے کہ آسٹریا کی خاتون نے 2008 اور 2009 میں اسلام کے موضوع پر سیمینار کا ایک سلسلہ شروع کیا تھا، آسٹریا کی عدالت نے 2011 میں خاتون کو توہینِ رسالت کا مرتکب قرار دیا۔

    چالیس سالہ خاتون نے عدالتی فیصلے کے خلاف آسٹریا کی اپیلز کورٹ میں بھی اپیل کی تھی لیکن فیصلہ برقرار رکھا گیا تھا۔

    واضح رہے کہ آج پاکستان نے نیدرلینڈز کے رکن پارلیمنٹ کے گستاخانہ ٹویٹ پر شدید احتجاج کرتے ہوئے نیدرلینڈز کے پاکستان میں تعینات سفیر کو دفترِ خارجہ طلب کر کے تحفظات سے آگاہ کیا۔ سیکریٹری خارجہ تہمینہ جنجوعہ نے کہا کہ آزادیٔ اظہار کے نام پر ایسے اقدامات کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔