Tag: یورپی مسلمان

  • یورپ پر عربی تہذیب کا احسان

    یورپ پر عربی تہذیب کا احسان

    پندرہویں صدی میں قسطنطنیہ کے سقوط (1453ء) اور ویانا کی سرحد تک عثمانی فوجوں کے پہنچنے کے بعد، جس نے یورپ کی چولیں ہلا دیں اور جس سے اہلِ یورپ کے حصولِ علم کے رجحان میں مزید تیزی آئی اور دوسری ایک وجہ یہ بھی رہی کہ صلیبی جنگوں میں مسلمانوں سے معاندانہ ٹکراؤ اور اسپین میں مسلمانوں سے مصالحانہ میل جول کا نتیجہ یورپ کی نشاۃِ ثانیہ کی شکل میں ظاہر ہوا۔

    مسیولیٹری لکھتے ہیں کہ ’’اگر تاریخ میں عرب منصۂ شہود پر نمودار نہ ہوتے تو علوم و فنون اور تہذیب و تمدن میں یورپ کی بیداری کئی صدی اور مؤخر ہو جاتی۔‘‘

    بریولٹ اپنی کتاب ’’انسانیت کی تعمیر‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ’’جدید دنیا پر عربی تہذیب کا سب سے بڑا احسان علم ہے، لیکن اس کے نتائج بعد میں رونما ہوئے۔ جس عظیم جینیئس نے اسپین میں عربی تہذیب کو جنم دیا وہ ایک طویل وقت گزارنے کے بعد اپنے شباب کو پہنچی اور تنہا علم ہی نے یورپ کی حیاتِ نو نہیں کی بلکہ اسلامی تہذیب کے اور بھی بہت سے مؤثرات کارفرما تھے جس اسلامی تہذیب نے اپنے فن کی پہلی کرنیں یورپ پر ڈالیں۔ یورپ کی ترقّی کا کوئی گوشہ ایسا نہیں ہے جو اسلامی تہذیب سے متأثر ہوئے بغیر رہ گیا ہو۔‘‘

    یورپ نے مسلمانوں سے علم سیکھا۔ تہذیب و تمدن سیکھا اور نظریۂ آزادی حاصل کیا اور مسلمانوں سے تجربی علوم حاصل کیے اور ان پر اپنی نشاۃِ ثانیہ کی بنیاد رکھی۔

    یورپ کی نشاۃِ ثانیہ:
    قرون وسطیٰ کے مقابلے میں جدید دور کے ذہنی رنگ ڈھنگ کا آغاز اٹلی میں ہونے والی تحریک سے ہوا جسے نشاۃِ ثانیہ کہتے ہیں۔ ابتدا میں چند لوگ اس طرح کا نظریہ رکھتے تھے جس میں خاص طور پر پٹرارک کا نام آتا ہے لیکن پندرہویں صدی میں یہ تحریک باذوق، باادب، دنیا دار اور دین دار دونوں قسم کے اطالوی باشندوں کی ایک بڑی تعداد میں پھیل گئی۔

    فلورینس دنیا کا بہت تہذیب یافتہ شہر ہونے کے علاوہ نشاۃِ ثانیہ کا منبع ہونے کی وجہ سے بھی اہم ترین سمجھا جاتا ہے۔ ادبی دنیا کے تقریباً تما م بڑے ادبا اور دنیائے فن کے اہم ترین اور نام وَر لوگوں کا تعلق فلورینس سے تھا۔

    تیرہویں صدی میں فلورینس میں تین طبقات سے تعلق رکھنے والے لوگ رہتے تھے۔ اشرافیہ (دولت مند اور جاگیردار) امیر کبیر تجار( بورژوا) اور ادنیٰ لوگوں کا طبقہ۔ یہ سب باہمی مفادات کے لیے باہم دست و گریباں تھے، ان میں سے اشرافیہ کے لوگ بنیادی طور پر پوپ کے خلاف شہنشاہ کے حمایتی تھے جب کہ دوسرے طبقوں کے لوگ شہنشاہ کے خلاف پوپ کی حمایت کر رہے تھے۔ ان میں اوّل الذّکر طبقہ شکست سے دوچار ہوا اور چودہویں صدی میں ادنیٰ طبقہ کے لوگوں نے بھی بورژوا طبقے سے اپنی جان چھڑا لی۔

    نشاۃِ ثانیہ کا دور فلسفے میں حاصل کی گئی کسی بڑی کام یابی کا دور نہیں تھا، لیکن اس کے نتائج کے طور پر جو چیزیں سترہویں صدی میں ہوئیں وہ بڑی اہمیت کا حامل تھی۔ اس نے افلاطون کے مطالعہ کا ازسر نو احیا کیا۔ آزادیِ رائے اور فکری آزادی پروان چڑھی۔ چنانچہ نشاۃِ ثانیہ کے نتیجہ میں انسانوں نے معقول انداز سے سوچنا شروع کیا اور قدیم دور سے چلی آرہی لغویات کی بابت ان کے افکار و خیالات میں وسعت پیدا ہوئی۔

    اسی طرح اخلاقی حالات و واقعات کے دائرہ کار سے باہر نشاۃِ ثانیہ بڑی خوبیوں کی حامل تھی۔ فنِ تعمیرات، فنِ مصوّری، شاعری اور دیگر علوم وفنون کو اس دور میں بڑی ترقّی حاصل ہوئی۔ عربی و عبرانی زبان سیکھنے کا عام رواج ہوا۔ مشنریوں نے ادارے اور اسکول قائم کیے۔ اس دور میں بڑے بڑے فلسفی اور اہلِ علم پیدا ہوئے جیسے لیوناڈو، مائیکل اینجلو اور میکاؤلی وغیرہ۔

    از: محمد اشفاق عالم ندوی

  • یورپ کا عیسائی اکثریتی ملک جہاں زبان میں عربی الفاظ بکثرت شامل ہیں

    یورپ کا عیسائی اکثریتی ملک جہاں زبان میں عربی الفاظ بکثرت شامل ہیں

    1964ء میں برطانوی پارلیمان نے قانونِ آزادی کے تحت مالٹا کو ریاست تو تسلیم کرلیا تھا، لیکن یہ ملک تاجِ‌ برطانیہ کا وفادار اور ملکہ کے زیرِ نگیں تھا، 1974ء میں مالٹا کو جمہوریہ کی حیثیت سے شناخت کیا جانے لگا۔

    1813ء میں برطانیہ نے اس سرزمین کو اپنی کالونی بنایا تھا۔ یہاں کے باشندوں نے طویل جدوجہد اور جنگ کے بعد آزادی حاصل کی۔ بحیرۂ روم کے کنارے واقع مالٹا جزیرہ قدرتی حُسن اور تاریخی مقامات کی وجہ سے بھی دنیا میں‌ مشہور ہے۔ والیٹا اس کا دارالحکومت ہے۔

    رقبے کے لحاظ سے مالٹا دنیا کے چھوٹے ممالک میں شامل ہے۔ اس جزیرے پر یونانی، رومن، بازنطینی، عرب، نارمن، ہسپانوی، فرانسیسی، اور برطانیہ کا راج رہا۔ ان اقوام کے رنگ مالٹا کی تہذیب و ثقافت سے جھلکتے ہیں اور تاریخ پر اس کے گہرے اثرات دیکھے جاسکتے ہیں۔

    اس تہذیب اور ثقافت کا اثر خاص طور پر یہاں کے طرزِ‌ تعمیر سے نمایاں ہوتا ہے۔ مالٹا میں‌ کئی قدیم اور تاریخی مقامات موجود ہیں جو فن و ثقافت اور تاریخ کے شیدائیوں، سیروسیّاحت کے شوقین افراد کے لیے باعثِ کشش ہیں۔

    مالٹا کی سرکاری زبان مالٹی (مالٹیز) اور انگریزی ہے جب کہ اس خطّے میں ہسپانوی، اطالوی، رومی اور برطانوی دور کے علاوہ عرب دور کے اثرات بھی نمایاں ہیں، لیکن زبان کی بات کی جائے تو یہ بات دل چسپی خالی نہیں‌ کہ مالٹیز زبان فرانسیسی، ہسپانوی اور اطالوی زبانوں کے زیرِ‌اثر نہیں‌ بلکہ یہ سامی زبان ہے اور عربی اور عبرانی کے گروپ سے اس کا تعلق ہے۔

    مالٹا کے قدیم اور تاریخی علاقوں کے ناموں میں اب بھی لمدینہ (المدینہ)، غین طیبہ، غین الکبیرہ مشہور ہیں۔ عرب گیارھویں صدی تک یہاں‌ حکم راں رہے تھے اور بعد میں اس جزیرہ پر ہسپانیہ کے کیتھولک حکم راں غالب ہوگئے تھے۔ آج یہاں اکثریت عیسائی مذہب کی پیروکار ہے جب کہ مسلمان دو فی صد ہیں۔ تاہم مالٹیز زبان کا ڈھانچا عربی کا ہے جس میں وقت کے ساتھ ساتھ یورپی اور انگریزی زبانوں کے الفاظ بھی شامل ہوگئے۔

    مالٹا کو دنیا کا محفوظ اور پُرامن ملک بھی کہا جاتا ہے۔ یہاں کئی قدیم معبد اور دوسری تاریخی عمارتیں موجود ہیں جب کہ مختلف ادوار میں کھدائی کے دوران یہاں سے تہذیبی آثار اور قدیم اشیا و نوادرات بھی برآمد ہوئے ہیں‌ جو مقامی میوزیم کا حصّہ ہیں‌۔