Tag: یورپی یونین

  • نوڈیل بریگزٹ: یورپ میں مقیم 13 لاکھ برطانوی شہریوں کا مستقبل کیا ہوگا؟

    نوڈیل بریگزٹ: یورپ میں مقیم 13 لاکھ برطانوی شہریوں کا مستقبل کیا ہوگا؟

    لندن: برطانیہ کا 29 مارچ 2019 کو یورپی یونین سے نکلنا طے ہے او ر دونوں فریق اگر کسی معاہدے تک نہ پہنچ پائے تو برطانیہ اور ای یو 27 کے بیرون ملک مقیم باشندے شدید مشکلات کا شکار ہوجائیں گے۔

    برطانیہ اور یورپی یونین ان دنوں ایک تاریخ سازمرحلے سے گزر رہے ہیں اور دونوں جانب سے اس پر ایک معاہدے کی کوشش کی جارہی ہے ، وزیراعظم تھریسا مے اور یورپی یونین کے درمیان ایک معاہدے کا مسودہ طے پاچکا ہے تاہم برطانوی پارلیمنٹ اس پر شدید تحفظات رکھتی ہے اورامکان ہے کہ معاہدے پر دستخط ہونے سے قبل ہی برطانیہ کے انخلا کا وقت آجائے گا۔

    یورپی یونین سے ہونے والے معاہدے میں ای یو 27 ممالک میں رہائش پذیر برطانوی شہریوں کو اور برطانیہ میں رہائش پذیر یورپی شہریوں کو بریگزٹ کا عمل مکمل ہونے تک قانونی تحفظ ملے گا اور وہ ہیلتھ کیئر، ویزہ فری ٹریول اور ملازمتوں کی سہولیات سے استفادہ حاصل کرسکیں گے تاہم اگر دونوں فریقین میں معاہدہ طے نہیں پایا تو پھر ان شہریوں کی قانونی حیثیت پر سوالیہ نشان کھڑا ہوجائے گا۔

    یہ بھی پڑھیں


    بریگزٹ: ہرگزرتا لمحہ تاریخ رقم کررہا ہے

    کیا برطانوی عوام اپنے فیصلے پرقائم رہیں گے؟

    اس وقت 13 لاکھ برطانوی شہری یورپین یونین کے مختلف ممالک میں قیام پذیر ہیں جبکہ یورپی یونین کے 32 لاکھ شہری برطانیہ میں مقیم ہیں۔ یہ تمام افراد یورپی یونین کے شہریوں کو حاصل تمام تر مراعات سے فائدہ اٹھا رہے ہیں، لیکن اگر معاہدہ طے نہیں پاتا تو بریگزٹ کے ساتھ ہی ان کے لیے شدید مشکلات پیدا ہوجائیں گی۔ ماہرین اس صورتحال کو کھائی میں گرنے جیسا قرار دے رہے ہیں۔

    اگر بریگزٹ مسودہ برطانوی پارلیمنٹ سے منظور ہوجاتا ہے تو دونوں جانب کے شہری حالیہ سہولیات کو 31 دسمبر 2020 تک بلا تعطل حاصل کرسکیں گے اور اس دوران برطانیہ اور دیگر 27 یورپی ممالک اپنے ان شہریوں کے لیے معاہدے کرسکیں گے۔

    یورپی یونین نے بریگزٹ پر کوئی ڈیل نہ ہونے کی صورت میں متوازی منصوبے کے تحت طے کیا ہے کہ برطانیہ کے ان شہریوں کے ساتھ مہربان رویہ اپناتے ہوئے انہیں فی الفور عارضی رہائشی کی حیثیت سے نوازا جائے اور برطانیہ بھی اپنے ہاں مقیم یورپی شہریوں کے لیے ایسا ہی کرے۔

    چارٹ بشکریہ بی بی سی

    ساتھ ہی ساتھ یورپی کمیشن نے یہ بھی تجویز دی ہے کہ نو ڈیل کی صورت میں برطانوی شہریوں کو یورپ کے ممالک میں وقتی طور پر ویزہ فری رسائی دی جائے اور برطانیہ بھی ایسا ہی کرے، تاکہ شہریوں کے معمولات کسی صورت متاثر نہ ہوں۔

    اگر 29 مارچ تک دونوں فریق کسی معاہدے پر نہیں پہنچتے تو برطانوی شہری ، یورپین یونین میں ایسے ہی ہوجائیں گے جیسا کہ امریکا ، چین یا کسی بھی اور ملک کے شہری ہیں اور ان پر ’تیسرے ملک ‘ کے شہریوں والے قوانین کا اطلاق ہوگا، جب تک کہ کوئی دو طرفہ ایمرجنسی ڈیل طے نہ کرلی جائے۔

    وہ برطانوی شہری اس معاملے میں سب سے زیادہ متاثر ہوں گے جو اپنے کام کے سلسلے میں متواتر ایک سے زیادہ یورپی ممالک کا سفر کرتےر ہتے ہیں اور انہیں اپنے یورپی مدمقابل افراد کی طرح ویزی فری انٹری کی سہولت میسر نہیں ہوگی۔

    دوسری جانب یونین کے ممالک میں مقیم برطانوی شہریوں کو صحت کے معاملات میں بھی مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا جیسا کہ ابھی ایک انشورنس پالیسی پوری یونین میں نافذ العمل ہے تاہم بریگزٹ کے بعد انہیں برطانیہ اورہراس ملک کے لیے علیحدہ انشورنس لینا ہوگی جہاں کا سفر ان کے معمولات میں شامل ہے، یہی صورتحال یونین کے شہریوں کو بھی درپیش ہوگی جنہیں برطانیہ کا سفر کرنا ہوگا ، انہیں وہاں کی انشورنس الگ سے لینا ہوگی۔

    کل 15 جنوری کو برطانیہ کے ہاؤس آف کامنز میں برطانوی وزیراعظم تھریسا مے اور یورپی یونین کے درمیان طے پانے والےمسودے پر ووٹنگ ہونے جارہی ہے اور اس کے بعد ہی یورپ میں ہونے والے اس تاریخ ساز عمل کے مستقبل کے خدو خال ابھر کے سامنے آسکیں گے۔

  • بریگزٹ: کیا برطانوی عوام اپنے فیصلے پرقائم رہیں گے؟

    بریگزٹ: کیا برطانوی عوام اپنے فیصلے پرقائم رہیں گے؟

    دنیا کی سب سے بڑی سنگل مارکیٹ یعنی کہ یورپین یونین اپنی تاریخ کے مشکل ترین دور سے گزر رہی ہے، مارچ 2019 میں برطانیہ کا یورپی یونین سے علیحدگی اختیار کرناطے ہوچکا ہے اورتاحال برطانیہ اور یورپی یونین اس حوالے سے کسی حتمی معاہدے پر دستخط نہیں کرپائے ہیں۔

    بریگزٹ مسودہ نامی دستاویز جسے برطانوی حکومت اور یورپی یونین کے اعلیٰ ترین دماغوں نے ماہ سال کی محنتِ شاقہ کے بعد تیار کیا ہے، برطانیہ کی پارلیمنٹ اس پر راضی نہیں ہیں ، حد یہ ہے کہ خود حکومتی پارٹی کے کئی ارکان، جو کہ بریگزٹ کے حامی بھی ہیں ، تھریسا مے سے منحرف ہوچکے ہیں ۔

    یورپی یونین کا ماننا ہے کہ وہ اپنی جانب سے جس حد تک برطانیہ کو رعایت دے سکتے تھے ، وہ اسے بریگزٹ مسودے میں دی جاچکی ہے اور اس سے آگے ایک انچ بھی بڑھنا یورپ کے لیے ممکن نہیں ہے لہذا اب تھریسا مے کی حکومت اسی مسودے کو پارلیمنٹ سے منظور کروائے یا پھر برطانیہ’نوڈیل‘ کاراستہ اختیار کرے۔

    بریگزٹ ڈیل پر گزشتہ ماہ برطانوی پارلیمنٹ میں رائے شماری کی جانی تھی تاہم ممبران پارلیمنٹ کے تیور دیکھ کر تھریسا مے نے اسے ملتوی کیا اور اب یہ رائے شماری 15 جنوری کو منعقد کی جائے گی۔ اس دوران پارلیمنٹ میں برطانوی وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتما د بھی لائی گئیں لیکن وہ اس کا مقابلہ کرنے میں کامیاب رہیں۔ انہوں نے سالِ نو کے آغاز پراپنی تقریر میں ہاؤس آف کامنز کے ممبران سے اپیل کی ہے کہ وہ اس مواہدے کی حمایت کرکے برطانیہ کو آگے بڑھنے کا موقع دیں، تاہم ممبران نے ان کے مطالبے کو نظر انداز کرتے ہوئے جوابی مطالبہ کیا ہے کہ وہ ووٹنگ سے پہلے اپنا پلان بی پارلیمنٹ کے سامنے رکھیں کہ اگر ان کا مسودہ پارلیمنٹ سے منظوری حاصل کرنے میں ناکام رہتا ہے تو وہ آگے کیا لائحہ عمل اختیار کریں گی۔

    یورپی یونین کیا چاہتی ہے؟


    تھریسا مے اس معاملے پر یورپین یونین سے بھی اپیل کرچکی ہیں کہ بریگزٹ مسودے پر آئرش بارڈر کے مسئلے پر پیدا ہونے والے تنازعے میں ان کی حکومت کو کچھ رعایت دی جائے لیکن یورپی بلاک کا اس معاملے میں ماننا ہے کہ وہ اس معاملے میں پہلے ہی بہت رعایت دے چکے ہیں اور اس سے زیادہ یورپی یونین کے بس میں نہیں ہے۔

     ہرگزرتا لمحہ تاریخ رقم کررہا ہے

    جرمنی اور آئرلینڈ اس معاملے پر وہ سب کچھ کرچکے ہیں جو وہ کرسکتے ہیں تاہم کسی سیاسی اعلامیے کی گنجائش فی الحال موجود نہیں ہے۔ یورپین یونین کی جانب سے صرف یقین دہانی ہی کرائی جاسکتی ہے کہ وہ آئرش بارڈر پر بیک اسٹاپ کو روکنے کے لیے 2021 تک تجاری معاہدے کو حتمی شکل دے دی جائے گی، لگتا نہیں ہے کہ یہ یقین دہانی برطانیہ کی ٹوری اور ڈیموکریٹ یونینسٹ پارٹی کو مطمئن کرپائے گی۔

    آئرش بارڈر کا تنازعہ ہے کیا؟


    آئرش باغیوں نے سنہ 1921 میں برطانوی حکومت سے علیحدگی اختیار کی تھی اور سنہ 1948 میں اسے باقاعدہ قانونی حیثیت دی گئی تھی ۔ ریپبلک آف آئر لینڈ نے اس موقع پر ایک علیحدہ ملک کی حیثیت اختیار کی تھی جس کے اکثریتی باشندے عیسائیت کے کیتھولک فرقے سے تعلق رکھتے تھے، جبکہ شمالی آئرلینڈ کے لوگوں نے جو کہ پروٹسنٹ فرقے کے ماننے والے تھے، تاجِ برطانیہ کے ساتھ رہنا پسند کیا ۔ تب سے جمہوریہ آئرلینڈ ایک آزاد ملک ہے اور یورپی یونین کا ممبر بھی اور شمالی آئرلینڈ برطانیہ کا علاقہ ہے۔

    برطانیہ کی یورپی یونین میں شمولیت کے بعد جب ان ممالک کے درمیان سرحدیں صرف نام کی رہ گئیں تو دونوں علاقوں میں بے پناہ تعاون بڑھا اور شمالی آئرلینڈ کی زیادہ تر تجارت اسی راستے یورپ سے ہونے لگی اور اس کا حجم اس وقت 3.5 ارب یورو ہے جو کہ برطانوی معیشت میں معنی خیز حیثیت رکھتی ہے ۔ اب اگر یہاں بارڈر وضع نہ کیا جائے تو برطانیہ کی یورپی یونین سے علیحدگی کے معاملے پر ضرب آتی ہے کہ یہ کیسی علیحدگی ہے اور اگر بارڈر سخت کیا جاتا ہے اور چیک پوسٹیں اور کسٹم بارڈر قائم کیے جاتے ہیں تو برطانیہ جو بریگزٹ کے سبب ابتدائی طور پر مالی دشواریوں کا سامنا کرے گا ، اسے مزید معاشی مشکلات سے گزرنا ہوگا۔

    لیبرپارٹی کی مشکلات


    دریں اثنا حکومتی جماعت یعنی کہ لیبر پارٹی کے ارکان پارلیمنٹ کے لیے اس مسودے کی حمایت میں بے پناہ مشکلات ہیں۔ سیاسی اعشارئیے بتار ہے کہ ہیں لیبر پارٹی کے ارکان نے اگراس مسودے کی حمایت کی تو ان کے لیے آئندہ الیکشن میں اپنےلیے عوامی حمایت حاصل کرنا تقریباً ناممکن ہوجائے گا۔ امید ظاہر کی جارہی ہے کہ اگر انہوں نے اس معاہدے پراپنی حکومت کوسپورٹ کیا تواس صورت میں وہ اپنی ساکھ برقرار رکھنے کے لیے حکومت سے ٹیکس نافذ کرنے کا اختیار واپس لے لیں گے، جس کے سبب پارٹی قیادت کو شدید ترین مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔

    معاشی افراتفری


    جہاں ایک جانب سیاسی میدان میں ہلچل مچی ہوئی ہے وہیں اس ساری مشق کے اثرات برطانیہ کی معیشت پر بھی مرتب ہورہے ہیں ۔ سال 2018 کی آخری سہہ ماہی میں جی ڈی پی کی شرح نمو صرف ایک فیصد رہی ہے ۔ پیداوار کرنے والے گزشتہ تیس سال کی تاریخ میں کارکنوں کے سب سے بڑے کال کا سامنا کررہے ہیں اور گھروں کی قیمتوں میں نمایاں اضافہ دیکھا گیا ہے۔

    دوسری جانب اگر یورپی یونین اور برطانیہ بریگزٹ کے معاملے پر کوئی ڈیل نہیں کرپاتے ہیں تو شمالی آئرلینڈ میں حالات کو کنٹرول میں رکھنے کے لیے پولیس کی بھاری نفری تعینات کرنا پڑے گی جو کہ مسائل کا شکار برطانوی حکومت کے لیے ایک سنگین بوجھ ہوگا۔

    اب ہوگا کیا؟


    صورتحال یہ ہے کہ برطانوی پارلیمنٹ بریگزٹ مسودے پر رائے شماری کرنےجارہی ہے، سو اگر تھریسا مے کی حکومت مطلوبہ مقدار میں ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتی ہے تب تو پھر تمام چیزیں منصوبے کے مطابق آگے بڑھیں گی، لیکن ا س کے امکانات فی الحال کم ہی ہیں۔

    دوسری جانب یورپی یونین اس وقت تک برطانیہ کو مسودے پر مزید کوئی رعایت دینے پر آمادہ نظر نہیں آرہا جب تک موجودہ مسودہ کم از کم ایک بار رائے شماری میں شکست سے دوچار نہ ہوجائے ۔ ووٹنگ کے نتائج پر ہی آگے کے حالات منحصر ہیں، اگر شکست کا مارجن سو ووٹ سے کام کا ہوا تو تھریسا مے کی حکومت کم از کم اس پوزیشن پر ہوگی کہ ایک بار پھر یورپی یونین سے رجوع کیا جائے اور مسودے کو کسی دوسرے تناسب کے ساتھ ایک بار پھر ووٹنگ کے لیے لایا جائے۔ لیکن اگر پہلی رائے شماری میں ہی بھاری اکثریت سے شکست ہوتی ہے یا دوسری بار بھی یہ مسودہ شکست سے دوچار ہوتا ہے تو پھر یقیناً یورپ ایک بڑے بحران کا سامنا کرے گا۔

    اس معاملے میں کچھ بھی ممکن ہے کیبنٹ واک آؤٹ کرسکتی ہے، حکمت عملی میں مستقل تبدیلی لائی جاسکتی ہے، کسٹم یونین کی جانب پیش رفت بھی ممکن ہے اور ساتھ ہی ساتھ دوسرے ریفرنڈم یا پھر برطانیہ میں انتخابات کا انعقاد بھی ممکنات میں شامل ہے۔ آخرالذکردونوں صورتیں یورپی یونین کے آئین کے آرٹیکل 50 سے متصادم ہیں لہذا ان پریورپی یونین کی رضامندی لازمی ہوگی۔

    اب پندرہ جنوری کو ہونے والی ووٹنگ کا نتیجہ کچھ بھی آئے لیکن ایک بات ماننا پڑے گی کہ اس کرہ ارض پر یورپ وہ خطہ ہےجو ماضی میں بات بات پر برسرِ پیکار ہوجایا کرتا تھا، آج اپنی تاریخ کے حساس ترین دور اور پیچیدہ ترین تنازعے کو بھی جمہوری طریقے سے حل کرنے کے لیے کوشاں ہے۔

    برطانوی حکومت اپنے عوام کی رائے کا احترام کررہی ہے اور یورپی یونین برطانوی حکومت کو اس کے عوام کی جانب سے حاصل آئینی اعتماد کا احترام کرتے ہوئے بنا کسی جنگ و جدل کے برطانیہ کو دنیا کی سب سے بڑی سنگل مارکیٹ چھوڑنے کی اجازت دے رہا ہے۔ اس وقت بھی جو تنازعات ہیں، وہ زیادہ تر تجارتی نوعیت کے ہیں اور امید ہے کہ 15 جنوری کے بعد صورتحال واضح ہوجائے گی کہ ان کا حل کیا نکلے گا۔

  • ایم پیزکو بریگزٹ معاہدے کی حمایت یا نوڈیل میں سےایک کو چننا ہوگا‘ رچرڈ ہارنگٹن

    ایم پیزکو بریگزٹ معاہدے کی حمایت یا نوڈیل میں سےایک کو چننا ہوگا‘ رچرڈ ہارنگٹن

    لندن: برطانوی وزیررچرڈ ہارنگٹن کا کہنا ہے کہ ایم پیز کو تھریسامے کے یورپی یونین سے انخلا سے متعلق معاہدے کی حمایت یا نوڈیل میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ہوگا۔

    تفصیلات کے مطابق برطانوی وزیر رچرڈ ہارنگٹن کا کہنا ہے کہ وہ ایم پیز جو چاہتے ہیں کہ برطانیہ کو کسی معاہدے کے بغیر یورپی یونین سے نکلنے کی اجازت نہیں دی جائے بعد میں کوئی معاہدہ نہ ہونے کی صورت میں حکومت کے مالی اختیارات کو محدود کرنے کی کوشش کریں گے۔

    بریگزٹ معاہدے کے مخالف ایم پیز کی جانب سے آج ہاؤس آف کامنز میں فنانس بل میں ترمیم کے لیے ووٹ ڈالا جائے گا، اور اگر یہ بل منظور ہوجاتا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ حکومت کچھ ٹیکسز میں اضافہ نہیں کرسکے گی جس سے حکومت کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔

    تھریسامے بریگزٹ ڈیل کی منظوری کا کوئی راستہ نکالیں، جیریمی ہنٹ

    دوسری جانب یورپی یونین کی جانب سے معاہدے پر منظوری کے باوجود تھریسامے کا بریگزٹ معاہدے کا مسودہ تاحال برطانوی پارلیمنٹ سے منظور نہیں ہوسکا ہے۔

    اس سے قبل رواں سال کے آغاز پر برطانوی وزیراعظم تھریسامے نے اپنے پیغام میں کہا تھا کہ نئے سال میں آگے دیکھنے کا وقت ہے، 2019 وہ سال ہوسکتا ہے جس میں ہم اپنے اختلافات کو بھلا کر ایک دوسرے کے ساتھ آگے بڑھیں۔

    برطانوی وزیراعظم تھریسامے کا کہنا تھا کہ پارلیمنٹ اگر اختلافات بھلا کر بریگزٹ معاہدے کی حمایت کرے تو برطانیہ کے لیے یہ نئے دور کا آغاز ہوگا۔

    بریگزٹ معاہدے کی حمایت ملک کی تقدیر بدل سکتی ہے‘ تھریسامے

    یاد رہے کہ جون 2016 میں برطانوی عوام نے 46 برس بعد دنیا کی سب سے بڑی سنگل مارکیٹ یورپی یونین سے نکلنے کا فیصلہ کرتے ہوئے بریگزٹ کے حق میں 52 فیصد اور اس کے خلاف 48 فیصد ووٹ دیے تھے۔

    برطانیہ نے 1973 میں یورپی یونین اکنامک کمیونٹی میں شمولیت اختیار کی تھی تاہم برطانیہ میں بعض حلقے مسلسل اس بات کی شکایات کرتے رہے ہیں کہ آزادانہ تجارت کے لیے قائم ہونے والی کمیونٹی کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا جارہا ہے جس کی وجہ سے رکن ممالک کی ملکی خودمختاری کو نقصان پہنچتا ہے۔

  • تحریک عدم اعتماد ناکام، تھریسامے یورپی سربراہی اجلاس میں روانہ

    تحریک عدم اعتماد ناکام، تھریسامے یورپی سربراہی اجلاس میں روانہ

    لندن : برطانوی وزیراعظم تھریسا مے کے خلاف اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد کی ناکامی کے بعد تھریسامے یورپی یونین کے سربراہی اجلاس میں شرکت کےلیے برسلز روانہ ہوگئیں ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق برطانوی وزیراعظم تھریسامے تحریک عدم اعتماد کی ناکامی کے بعد ایک مرتبہ پھر بریگزٹ معاہدے کے حوالے سے برسلز روانہ ہوگئیں ہیں جہاں وہ یورپی یونین کے سربراہوں سے ملاقات کریں گی۔

    برطانوی میڈیا کا کہنا ہےکہ برطانوی وزیراعظم آئرلینڈ تنازعے پر یورپین یونین سے قانونی یقین دہانی طلب کررہی ہیں، یاد رہے کہ برطانوی ممبران پارلیمنٹ کی جانب سے بریگزٹ ڈیل کی مخالفت کا یہی بنیادی سبب ہے۔

    برطانوی نشریاتی ادارے کا خیال ہے کہ یورپی یونین بریگزٹ معاہدے پر نظرثانی نہیں کرے گا لیکن تھریسامے آئرلینڈ کے معاملے پر نظر ثانی کی زیادہ پُر امید ہیں۔

    مزید پڑھیں : برطانوی وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد منظور

    خیال رہے کہ گذشتہ شب برطانوی وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے تحت ہونے والی ووٹنگ میں تھریسامے نے 200 ووٹ حاصل کیے جبکہ مخالفت میں 117 ووٹ پڑے تھے جس کے باعث تحریک ناکام ہوگئی تھی۔

    مزید پڑھیں : صبر آزما دن کے اختتام پر خوش ہوں کہ ساتھیوں نے حق میں ووٹ دیا: برطانوی وزیر اعظم

    برطانوی وزیراعظم نے جب ووٹنگ ملتوی کرائی تو یہ معاملہ ان کے لیے تباہ کن ثابت ہوا، خود ان کی قدامت پسند جماعت کے ممبران ہی ان کے خلاف ہوگئے تھے۔

    تھریسامے کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد لانے کے لیے مطلوبہ 48 ارکان کی درخواستیں موصول ہوئی جس کے بعد ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کا مطالبہ منظورکرلیا گیا ہے۔

    مزید پڑھیں : بریگزٹ: ہرگزرتا لمحہ تاریخ رقم کررہا ہے

    مقامی میڈیا کے مطابق تھریسامے 2022 کے انتخابات میں کنزویٹو پارٹی کی قیادت نہ کرنے کا ارادہ رکھتی ہیں۔

    واضح رہے کہ 62 سالہ تھریسا مے نے برطانیہ کی یورپی یونین سے علیحدگی کے لیے ہونے والے ریفرنڈم میں، اس کے خلاف ووٹ دیا تھا۔

  • بریگزٹ: تھریسا مے کی یورپی سربراہوں سے مزید یقین دہانی کے لیے ملاقاتیں

    بریگزٹ: تھریسا مے کی یورپی سربراہوں سے مزید یقین دہانی کے لیے ملاقاتیں

    لندن: برطانوی وزیراعظم تھریسا مے نے بریگزٹ ڈیل پر یورپی حکمرانوں سے ملاقاتوں کا سلسلہ شروع کردیا ہے، ملاقاتوں کا مقصد معاہدے کے لیے زیادہ سے زیادہ حمایت اکھٹی کرنا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق تھریسا مے نے بریگزٹ ڈیل پر یورپ سے مزید یقین دہانی حاصل کرنے کے لیے یورپی سربراہوں سے ملاقات کے سلسلے میں پہلی ملاقات ڈچ وزیراعظم مارک روٹ اور جرمن چانسلر انجیلا مرکل سے کی ہیں۔

    برطانوی وزیراعظم نے ملاقاتوں کا یہ سلسلہ بریگزٹ ڈیل پر ہاؤس آف کامنز میں ہونے والی ووٹنگ ملتوی ہونے کے بعد کیا ۔ ان ملاقاتوں کو مقصد شمالی آئرلینڈ کے بارڈر تنازعے کے حل کے لیے زیادہ سے زیادہ یقین دہانی حاصل کرنا ہے۔

    برطانوی وزیراعظم کا کہنا تھا کہ برطانیہ اور یورپی یونین کے درمیان معاہدہ بہت اچھا تھا لیکن وہ معاہدے سے متعلق یورپی یونین سے دوبارہ بات کر کے معاہدے کو مزید مؤثر بنانے کی کوشش کریں گی۔ وہ اس سلسلے میں لیگل گارنٹی حاصل کرنے کے لیے کوشاں ہیں کہ شمالی آئرلینڈ بارڈر تنازعے پر برطانیہ کو پھنسایا نہیں جائے گا۔

    دوسری جانب بریگزٹ پر ووٹنگ ملتوی ہونے پر یورپی یونین کے صدر جین کلاؤڈ جنکر نے مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ڈیل پر اب برطانیہ سے دوبارہ مذاکرات نہیں ہوں گے اور معاہدے میں کسی قسم کی کوئی تبدیلی نہیں کی جائے گی، تاہم معاہدے کی شقوں کی مزید وضاحت کی جاسکتی ہے۔

    یاد رہے کہ برطانیہ کے عوام نے ریفرنڈم کے نتیجے میں یورپی یونین سے علیحدہ ہونے کا فیصلہ کیا تھا ۔ ایک طویل پراسس کے بعد برطانیہ اور یورپی یونین ایک معاہدے پر پہنچے ہیں تاہم برطانوی وزیراعظم تھریسا مے کو اس معاہدے پر ہاؤس آف کامنز کی حمایت حاصل کرنے میں مشکلات کاشکار ہیں۔یورپی یونین سے برطانیہ کا باقاعدہ اخراج آئندہ برس 19 مارچ کو ہونا طے ہے۔

  • برطانوی وزیراعظم تھریسامے نے بریگزٹ معاہدے پر ووٹنگ ملتوی کردی

    برطانوی وزیراعظم تھریسامے نے بریگزٹ معاہدے پر ووٹنگ ملتوی کردی

    لندن: برطانوی وزیر اعظم تھریسامے نے بریگزٹ معاہدے پر ووٹنگ ملتوی کردی۔

    غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق 11 دسمبر کو پارلیمنٹ میں بریگزٹ معاہدے پر ووٹنگ کی جانے تھی جسے برطانوی وزیراعطم تھریسامے نے ملتوی کردیا ہے، تھریسامے کو ایسے خدشات تھے کہ پارلیمانی اراکین کی اکثریت اس معاہدے کی مخالفت میں ووٹ دے گی۔

    برطانوی وزیراعظم تھریسامے کا ووٹنگ ملتوی کرنے سے قبل اپنے بیان میں کہنا تھا کہ پارلیمنٹ کی جانب سے بریگزٹ معاہدے کو مسترد کیے جانے پر ان کی حکومت ختم اور اپوزیشن جماعت لیبر پارٹی اقتدار میں آسکتی ہے۔

    میڈیا رپورٹس کے مطابق ایڈوائزر اور وزراء کی جانب سے تھریسامے کو مشورہ دیا گیا کہ پارلیمنٹ میں ہونے والی ووٹنگ کو منسوخ کردیا جائے ان میں انہیں شکست کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

    بریگزٹ سیکریٹری اسٹیفن بارسلے کا دی میل سے گفتتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ اس معاہدے کی ناکامی قوم کو غیریقینی صورتحال سے دوچار کردے گی جہاں بریگزٹ نہیں ہونے کا حقیقی خطرہ موجود تھا۔

    دوسری جانب آج یورپی عدالت برائے انصاف نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا تھا کہ برطانیہ دیگر یورپی ممالک کے اتفاق کے بغیر بھی بریگزٹ معاہدے سے دستبردار ہوسکتا ہے، دریں اثناء یورپی کمیشن نے بریگزٹ معاہدے پر نظرثانی کرنے سے انکار کردیا ہے۔

    برطانوی وزیراعظم تھریسامے 2016 میں اقتدار میں آنے کے ایک ماہ بعد سے برطانیہ میں سب سے بڑے بحران کا سامنا کررہی ہیں۔

    یاد رہے کہ جون 2016 میں برطانوی قوم نے 46 برس بعد دنیا کی سب سے بڑی سنگل مارکیٹ یورپی یونین سے نکلنے کا فیصلہ کرتے ہوئے بریگزٹ کے حق میں 52 فیصد اور اس کے خلاف 48 فیصد ووٹ دئیے تھے۔

  • یورپی یونین نے افغانستان کے لیے 535 ملین ڈالرز کی امداد کا اعلان کردیا

    یورپی یونین نے افغانستان کے لیے 535 ملین ڈالرز کی امداد کا اعلان کردیا

    جنیوا: یورپی یونین نے افغانستان میں امن اور بحالی کے لیے 535 ملین ڈالرز کی امداد کا اعلان کردیا۔

    غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق سوئٹزرلینڈ کے شہر جنیوا میں افغان کانفرنس جاری ہے جس میں یورپی یونین نے جنگ زدہ افغانستان میں امن اور بحالی کے لیے 535 ملین ڈالرز امداد کی منظوری دے دی ہے۔

    اقوام متحدہ اور افغان حکومت کے اشتراک سے منعقد کی گئی افغان کانفرنس میں پاکستان، روس، چین اور متعدد یورپی ممالک کے نمائندے شرکت کررہے ہیں، اعلیٰ سطح کا وفد افغان کانفرنس میں پاکستان کی نمائندگی کررہا ہے۔

    امدادی پیکیج میں سے 351 ملین ڈالر خدمت عامہ کی اصلاحات، 90 ملین ڈالر صحت اور خوراک کی کمی کو دور کرنے کے لیے اور 16 ملین ڈالر 2019 میں ہونے والے صدارتی انتخابات کی مد میں خرچ کیے جائیں گے جبکہ 42 ملین ڈالر کا ایک اور معاہدہ بھی کیا گیا ہے۔

    کانفرنس میں افغانستان میں امن و استحکام اور سیکیورٹی معاملات پر بات کی جارہی ہے، افغان حکومت سیکیورٹی معاہدوں کی بھی تجدید کرے گی۔

    واضح رہے کہ یونیسیف افغانستان کے سربراہ ایلسن پارکر نے متنبہ کیا تھا کہ جنگ زدہ افغانستان میں بچوں کو خوراک کی شدید کمی کا سامنا ہے اور 5 لاکھ کے قریب بچے فاقہ کشی کے باعث ہلاک ہونے کا خدشہ ہے جس سے بچنے کے لیے ہنگٓامی بنیادوں پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔

  • بریگزٹ ڈیل سے امریکا اوربرطانیہ کی تجارت ختم ہوسکتی ہے: ڈونلڈ ٹرمپ

    بریگزٹ ڈیل سے امریکا اوربرطانیہ کی تجارت ختم ہوسکتی ہے: ڈونلڈ ٹرمپ

    واشنگٹن: امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے برطانیہ اور یورپین یونین کے درمیان ہونے والے متوقع بریگزٹ معاہدے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہنا ہے کہ اس سے امریکا اور برطانیہ کی تجارتی ڈیل کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق واشنگٹن ڈی سی میں وائٹ ہاؤس کے باہر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے امریکی صدر نے کہا کہ بادی النظر میں دکھائی دیتا ہے کہ بریگزٹ معاہدہ یوپرین یونین کے لیے تو کئی فواید لیے ہوئے ہے لیکن اس کے بعد شاید برطانیہ ہمارے ساتھ تجارت نہ کرسکے۔

    ان کے مطابق معاہدے کی شق نمبر 10 کے تحت برطانیہ کو دنیا بھر کےممالک سے نئے تجارتی معاہدے کرنے ہوں گے ۔

    امریکی صدر کا کہنا ہے کہ فی الحال برطانیہ اور یورپی یونین کے درمیان ہونے والے متوقع معاہدے کا مسودہ سامنے آیا ہے اس کو دیکھ کر لگتا ہے کہ برطانیہ کے ساتھ ہماری تجارت منقطع ہوجائے گی جو کہ یقیناً کوئی اچھی بات نہیں ہے۔

    انہوںمزید کہا ہے کہ مجھے امید ہے کہ برطانیہ اور یورپی یونین اس کو دیکھ رہے ہوں گے اور ان کا ہر گز مقصد یہ نہیں ہوگا کہ برطانیہ اور امریکا کے درمیان تجارت منقطع ہوجائے۔

    یاد رہے کہ برطانوی وزیر اعظم تھریسا مے ، بریگزٹ معاہدے کو یورپی یونین سے منظور کرالینے کے بعد اب 11 دسمبر کو برطانوی پارلیمنٹ میں لے کر جارہی ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ وہ اس معاہدے پر اراکینِ پارلیمنٹ کی منظور ی حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائیں گی۔ ممبرانِ پارلیمنٹ کو قائل کرنے کے لیے تھریسا ، ووٹنگ سے دو روز قبل لیبر پارٹی کے رہنما جیریمی کاربائن کے ساتھ ایک ٹی وی شو میں مذاکرہ بھی کریں گی۔

    ذرائع کا کہنا ہے کہ تھریسا مے جنہوں نے ممبرانِ پارلیمنٹ کا اعتماد حاصل کرنے کے لیے دو ہفتے کی ڈیڈ لائن طے کررکھی ہے ان کے لیے امریکی صدر کا یہ بیان کسی دھچکے سے کم نہیں ہوگا۔

    یاد رہے کہ دو روز قبل برطانیہ اور یورپی یونین کے درمیان علیحدگی کے لیے تیار کردہ بریگزٹ معاہدے کا مسودہ یورپی یونین کے سربراہی اجلاس میں منظورکرلیا گیا تھا، اسپین نے معاہدے کی مخالفت کی تھی۔یورپی یونین کے سربراہی اجلاس میں اسپین کے آخری لمحات میں کارروائی سے باہر ہونے کے بعد تمام رکن ممالک نے معاہدے پر دستخط کیے تھے۔

    برطانوی میڈیا کا کہنا ہے کہ لیبر پارٹی، ایل آئی بی ڈیم، ایس این پی، ڈی یو پی اور حکمران جماعت متعدد ایم پیز اس معاہدے کے خلاف ووٹنگ کرنے کےلیے تیار ہیں، لہذا تھریسا مے کو 11 دسمبر کو ایک انتہائی دشوار گزار مرحلہ طے کرنا ہے۔

  • یورپی سربراہی اجلاس میں بریگزٹ معاہدے کی منظوری

    یورپی سربراہی اجلاس میں بریگزٹ معاہدے کی منظوری

    برسلز: برطانیہ اور یورپی یونین کے درمیان علیحدگی کے لیے تیار کردہ بریگزٹ معاہدے کا مسودہ یورپی یونین کے سربراہی اجلاس میں منظور کرلیا گیا، اسپین نے معاہدے کی مخالفت کردی۔

    تفصیلات کے مطابق برسلز میں یورپی یونین کے سربراہی اجلاس میں ایک گھنٹے تک جاری رہنے والی بحث کے بعد یورپی یونین کے 27 رکن ممالک نے برہگزٹ معاہدے کے مسودے کو تسلیم کرلیا ہے۔

    ڈونلڈ ٹسک کا کہنا ہے کہ یورپی یونین کے سربراہی اجلاس میں اسپین کے آخری لمحات میں کارروائی سے باہر ہونے کے بعد تمام رکن ممالک نے معاہدے پر دستخط کیے تھے۔

    برطانوی خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم تھریسامے کو مذکورہ معاہدے کے مخالف ایم پیز سمیت برطانوی پارلیمنٹ سے منظور کروانا ہوگا۔

    برطانوی میڈیا کا کہنا ہے کہ بریگزٹ معاہدے کے منظور ہونے کی خبر یورپی یونین کونسل کے صدرڈونلڈ ٹسک سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر کے ذریعے عام کی تھی۔

    مقامی خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ امید ہے برطانوی رکن پارلیمنٹ آئندہ ماہ دسمبر میں معاہدے کے حق میں فیصلہ دیں لیکن فی الحال معاہدے کو منظور کرنے کی کوئی ضمانت نہیں ہے۔

    برطانوی پارلیمنٹ ووٹنگ کے لیے تیار

    برطانوی میڈیا کا کہنا ہے کہ لیبر پارٹی، ایل آئی بی ڈیم، ایس این پی، ڈی یو پی اور حکمران جماعت متعدد ایم پیز اس معاہدے کے خلاف ووٹنگ کرنے کےلیے تیار ہیں۔

    دوسری جانب وزیر اعظم تھریسا مے نے برطانوی عوام سے گذارش کی ہے کہ وہ اس معاہدے کی حمایت کریں کیوں کہ یہ سب سے بہترین معاہدہ ہے۔

    خیال رہے کہ اسپین نے گذشتہ روز متنبہ کیا تھا کہ اگر اجلاس کے آخری لمحات تک تاریخی جبل الطارق کا معاملہ حل نہیں ہوا تو معاہدے پر دستخط نہیں کریں گے۔

    برطانوی میڈیا کا کہنا ہے کہ یورپی یونین کے سربراہوں نے بریگزٹ کے حوالے سے خصوصی اجلاس میں بریگزٹ کی دستاویزات میں دو اہم چیزوں پر منظوری دی ہے۔

    پہلا بریگزٹ کے بعد برطانیہ اور یورپی یونین کے درمیان تعلقات اور ٹریڈ و سیکیورٹی کے معاملات۔

    دوسرا برطانیہ کے 29 مارچ 2019 کو یورپی یونین سے نکلنے کا 585 صفحات پر مشتمل مسودہ ہے، جس میں شہری حقوق، مالی معاملات اور آئریش بارڈر کے مسائل بھی شامل ہیں۔

    مزید پڑھیں : برطانوی وزراء تھریسا مے سے بریگزٹ مسودے میں تبدیلی کرانے کے لیے پرامید

    آئر لینڈ کے ساتھ بارڈر مینیجمنٹ کا معاملہ

    واضح رہے کہ آئر لینڈ کے ساتھ بارڈر مینیجمنٹ کا معاملہ برسلز کے ساتھ اس ڈیل میں سب سے زیادہ اہمیت کا حامل تھا۔

    تھریسا کے کیبنٹ منسٹرز کا ماننا ہے کہ مسودے کے مطابق آئر لینڈ تجارتی طور پر یورپین یونین کے زیادہ قریب ہوجائے گا جو کہ کسی بھی صورت برطانیہ کے حق میں نہیں ہے۔

    خیال رہے کہ معاہدے کے دونوں ہی فریق آئرلینڈ کے ساتھ کوئی سخت بارڈر نہیں چاہتے۔

    برطانوی وزراء معاہدے کی مخالفت میں مستعفی

    یاد رہے کہ بریگزٹ ڈیل کے مسودے کے منظرعام پر آنے کے بعد سے تھریسا مے کے لیے مشکلات کا سلسلہ جاری ہے، کچھ روز قبل ان کی کابینہ کے چار وزراء نے ڈیل کی مخالفت کرتے ہوئے استعفیٰ دے دیا تھا۔

    استعفیٰ دینے والوں میں برطانوی حکومت کے بریگزٹ سیکرٹری ڈومینک راب سرفہرست ہیں جبکہ ان کے ہمراہ ورک اور پنشن کی وزیر یستھر میکووے بھی اپنے عہدے سے مستعفی ہو گئیں ہیں۔اس کے علاوہ جونیئر ناردرن آئرلینڈ منسٹر شائلیش وارہ ، جونئیر بریگزٹ منسٹر سویلا بریور مین اور پارلیمنٹ کی پرائیویٹ سیکرٹری این میری ٹریولیان نے بھی اپنے عہدے سے استعفیٰ دیا ہے۔

  • برطانیہ اور یورپی یونین کے درمیان مستقبل کے تعلقات پر اتفاق

    برطانیہ اور یورپی یونین کے درمیان مستقبل کے تعلقات پر اتفاق

    لندن : برطانوی وزیر اعظم تھریسامے کی کوششوں سے بریگزٹ معاہدے کے بعد برطانیہ اور یورپی یونین کے درمیان تعلقات کے حوالے سے مشترکا اعلامیے پر اتفاق ہوگیا ہے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق برطانوی وزیر اعظم نے مشترکا اعلامیے پر اتفاق رائے ہونے کے بعد کہا ہے کہ اب یورپی یونین کی ہفتے کے اختتام پر اجلاس کی راہ ہموار ہوگئی ہے اور اتوار کے روز ہونے والے اسی اجلاس میں معاہدے کی تصدیق کی جائے۔

    برطانوی میڈیا کا کہنا ہے کہ تھریسا مے نے بریگزٹ سے متعلق معاہدے کو برطانیہ کے مفاد میں بہترین قرار دیا ہے۔

    برطانوی وزیر اعظم تھریسا مے کا کہنا ہے کہ بریگزٹ ڈیل شہریوں کے مفاد میں بھی اچھی ثابت ہوگی جبکہ اس معاہدے کے نتیجے میں ان کا مستقبل بھی بہترین ہوگا۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ یورپی یونین کے صدر ڈونلڈ ٹسک نے آئندہ اتوار کو یورپی سربراہوں کے منعقد ہونے والے اجلاس کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا ہے کہ یورپی سربراہی اجلاس میں معاہدے کے مسودے کا جائزہ لیا جائے گا۔

    واضح رہے کہ برطانوی وزیر اعظم تھریسا مے نے گذشتہ روز بریگزٹ ڈیل کے حوالے سے رواں ہفتے کے اختتام پر ایک مرتبہ پھر یورپی سربراہوں کو بریگزٹ معاہدے پر راضی کرنے کے لیے برسلز کے دورے کا اعلان کیا تھا۔

    برطانوی خبر رساں ادارے کے مطابق یورپی یونین کے اعلیٰ حکام سے دو گھنٹے کی ملاقات کے بعد وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ کارکردگی برطانیہ اور یورپی یونین کے مستقبل کے تعلقات کا چہرہ بنائے گی۔

    خیال رہے کہ اسپین کا کہنا ہے کہ جب تک ہسپانوی جزیرے جبل الطارق پر گفتگو نہیں ہوگی وہ بریگزٹ معاہدے کو ہرگز تسلیم نہیں کرے گا۔