پیرس: پنشن قوانین کے خلاف فرانس بھر میں لاکھوں افراد نے احتجاج کیا، ملک بھر میں شٹر ڈاؤن رہا، 15 لاکھ سے زائد مظاہرین نے ملک بھر میں احتجاج میں حصہ لیا۔
تفصیلات کے مطابق فرانس میں پنشن قوانین کے خلاف ملک بھر میں شٹر ڈاؤن رہا، پندرہ لاکھ سے زائد مظاہرین نے ملک بھر میں احتجاج کیا، دارلحکومت پیرس میں ڈیڑھ لاکھ سے زائد مظاہرین سڑکوں پر موجود رہے۔
احتجاج کے باعث 90 فی صد ٹرینیں اور 78 فی صد اسکول بھی بند رہے، 30 فی صد پروازیں بھی منسوخ ہوئیں، مظاہرے کے دوران چند شرپسند عناصر نے توڑ پھوڑ بھی کی اور پبلک پراپرٹی کو نذر آتش کرنے کی کوشش کی جس کی وجہ سے پولیس اور مظاہرین میں جھڑپیں ہوئیں، پولیس نے روایتی ہتکھنڈے استعمال کرتے ہوئے مظاہرین کو منتشر کیا۔
ملک بھر میں جاری یہ احتجاج اور ٹرانسپورٹ ہڑتال آیندہ چند روز تک جاری رہنے کا امکان ہے، سرکاری ملازمین کا کہنا ہے کہ اگر وہ یہ احتجاج نہیں کریں گے تو نئے قوانین کے تحت یا تو انھیں زیادہ کام کرنا پڑے گا یا کم تنخواہیں قبول کرنی پڑیں گی۔
دوسری طرف انتظامیہ نے مظاہرین کے شاہراہ شانزے لیزے جانے پر پابندی لگا دی ہے، 6 ہزار سے زائد پولیس اہل کار سیکورٹی کے لیے تعینات کر دیے گئے ہیں۔ ہڑتال میں وکلا، اسپتال عملے، ایئر پورٹ اسٹاف کے ساتھ ساتھ خود محکمہ پولیس کے اہل کار بھی بڑی تعداد میں حصہ لے رہے ہیں، خیال رہے کہ فرانس میں 1995 کے بعد یہ بڑی پہیہ جام ہڑتال ہے۔
گلاسگو: اسکاٹ لینڈ کے شہر گلاسگو کے ایک علاقے کی رہایشی عمارت میں خوف ناک آتش زدگی کے باعث تین منزلہ عمارت منہدم ہو گئی۔
تفصیلات کے مطابق گزشتہ رات گلاسگو کے جنوبی علاقے پولک شیلڈز میں البرٹ کراس پر ایک رہایشی عمارت میں خوف ناک آگ بھڑک اٹھی، گراؤنڈ فلور پر موجود دکان سے لگنے والی آگ نے پوری عمارت کو لپیٹ میں لے لیا تھا۔
آگ لگنے کے بعد فائر بریگیڈ کی 8 گاڑیوں نے آگ بجھانے میں حصہ لیا، آگ نے اردگرد کے فلیٹس کو بھی لپیٹ میں لے لیا تھا، رپورٹس کے مطابق پولک شیلڈز کے علاقے میں بڑی تعداد میں پاکستانی کمیونٹی بھی مقیم ہیں۔
حادثے کے بعد ریسکیو ٹیم نے لوگوں کو کرین کی مدد سے عمارت سے اتارا، تاہم آتش زدگی کے باعث پوری تین منزلہ عمارت جل گئی اور بعد ازاں منہدم ہو گئی۔
مقامی نیوز رپورٹس کے مطابق آتش زدگی کے اس واقعے میں ایک شخص دھوئیں کے باعث متاثر ہوا ہے جسے فوری طور پر طبی امداد فراہم کی گئی۔
واضح رہے کہ رواں ہفتے آسٹریلیا کی دو مختلف ریاستوں سڈنی اور برسبین میں بھی 80 مقامات میں آگ لگ گئی ہے جس پر تاحال قابو نہیں پایا گیا ہے، اس آتش زدگی میں تین افراد ہلاک ہو چکے ہیں، جب کہ ایک ہزار فائر انجن، 100 سے زیادہ طیارے اور ہیلی کاپٹر آگ بجھانے میں مصروف ہیں۔
آسٹریلوی حکام کے مطابق جنگلات میں آگ لگنے کے باعث 150 سے زائد مکانات جل کر تباہ ہو گئے ہیں، مقامی افراد امدادی کیمپوں میں رہنے پر مجبور ہیں۔
ایمسٹرڈیم: ہالینڈ کے شہر ایمسٹرڈیم میں شپہول ایئر پورٹ پر طیارہ ہائی جیک کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، یہ اطلاع ملتے ہی فوج اور پولیس کی بھاری نفری نے ایئرپورٹ گھیرے میں لے لیا۔
تفصیلات کے مطابق ایمسٹرڈیم کی مقامی پولیس کو اطلاع ملی کہ شپہول ایئرپورٹ پر 3 چاقو بردار افراد طیارہ ہائی جیک کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، اطلاع پر فوج اور پولیس کی بھاری نفری ایئرپورٹ پہنچ گئی۔
تاہم معلوم ہوا کہ پائلٹ نے غلطی سے طیارہ ہائی جیک ہونے کا الارم بجا دیا تھا، جس پر ایئرپورٹ میں سراسیمگی پھیل گئی، ایئرپورٹ کے اندر موجود لوگ خوف سے زرد پڑ گئے۔
ڈچ ملٹری پولیس نے ٹویٹ کے ذریعے بتایا کہ انھیں اطلاع ملی کہ ایئرپورٹ پر مشکوک صورت حال نے جنم لیا ہے، پولیس نے فوری رد عمل دکھاتے ہوئے خطرے سے نمٹنے کی تیاری کرلی ہے۔
تاہم ایک گھنٹے بعد ایئرپورٹ پر اعلان کیا گیا کہ ایک پائلٹ نے غلطی سے الارم بجا دیا تھا، مذکورہ الارم تب بجایا جاتا ہے جب کوئی طیارہ ہائی جیک ہو رہا ہوتا ہے، جسے سن کر سیکورٹی الرٹ ہو جاتی ہے۔
ایئرلائن نے ٹویٹ کر کے معذرت کرتے ہوئے کہا کہ ایئرپورٹ پر کچھ نہیں ہوا، تمام مسافر محفوظ ہیں اور جلد ہی اپنے منازل کی طرف پرواز کریں گے۔
بعد ازاں، معلوم ہوا کہ پائلٹ ایک ٹرینی کو سمجھا رہا تھا کہ ہائی جیکرز کے حملے پر یہ الارم بجانا ہے، لیکن غلطی سے اس نے خود ہی الارم بجا دیا، جس پر ایئرپورٹ میں ایمرجنسی کی صورت حال پیدا ہوگئی اور لوگ خوف کے مارے چیخنے چلانے لگے۔
انقرہ: ترک صدر رجب طیب اردوان نے کہا ہے کہ اگر امریکا سے تحریری یقین دہانی کے بعد بھی ہمارا دہشت گردوں سے سامنا ہوا تو ہمیں انھیں برباد کرنے کا حق ہوگا۔
تفصیلات کے مطابق ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ترک صدر نے امریکا پر واضح کیا کہ عالمی رہنما دہشت گردوں کے ساتھ بیٹھیں گے تو دہشت گردوں کے خلاف جنگ ہوگی، ہمیں اپنے کرد بھائیوں سے کوئی مسئلہ نہیں، ہمارا مسئلہ شام میں دہشت گرد تنظیمیں ہیں۔
رجب طیب اردوان نے کہا کہ شامی مہاجرین کے لیے یورپ کے دروازے وقت آنے پر کھلیں گے، آپریشن ’پیس اسپرنگ‘ کے تحت بارڈر کی سیکورٹی کے ساتھ اپنے شامی بھائیوں کو واپسی کا راستہ بھی فراہم کر رہے ہیں۔
ترک صدر کا کہنا تھا کہ اگر کردوں نے روس سے معاہدے پر عمل نہ کیا تو ترکی شمالی شام میں اپنا منصوبہ نافذ کر دے گا۔
یاد رہے کہ گزشتہ روز امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ترکی پر عائد تمام پابندیاں اٹھانے کا اعلان کر دیا تھا، انھوں نے وائٹ ہاؤس میں میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ پابندیاں اٹھانے کا فیصلہ ترکی اور شام میں سیز فائر پر کیا گیا ہے، اگر سیز فائر کو برقرار نہیں رکھا گیا تو امریکا پھر سے پابندیاں لگا دے گا۔
اس سے قبل امریکی صدر نے ٹویٹ کے ذریعے کہا تھا کہ ترکی اور شام کی سرحد پر ہمیں بڑی کامیابی ملی ہے، سیف زون بن چکا ہے، انھوں نے ترکی اور شام کے درمیان جنگ بندی پر خوشی کا اظہار کیا، اور لکھا کہ جنگ بندی ہو چکی اور لڑائی ختم ہو گئی ہے۔
انقرہ: ترک صدر رجب طیب اردوان نے امریکی صدر دونلڈ ٹرمپ کا دھمکی آمیز خط ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا ہے۔
تفصیلات کے مطابق غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ امریکی صدر کی جانب سے ترک صدر کو ملنے والا دھمکی آمیز خط طیب اردوان نے ردی کی ٹوکری میں پھینکا۔
ترک صحافی کے مطابق ڈونلڈ ٹرمپ کا خط ملنے کے دن ہی طیب اردوان نے آپریشن شروع کرنے کا حکم دے دیا تھا۔ واضح رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ترکی کو معاشی طور پر تباہ کرنے کی دھمکی دی تھی، خط میں امریکی صدر نے لکھا کہ آپ دنیا کو مایوس نہ کریں، ڈیل کر سکتے ہیں ، اردوان بے وقوفی نہ کریں۔
ٹرمپ نے اردوان کو کرد ملیشیا سے مذکرات کی ڈکٹیشن دی اور احمق جیسے توہین آمیز الفاظ اس خط میں استعمال کیے، جس پر ترک صدر نے خط پھاڑ کر ڈسٹ بن میں پھینک دیا۔
امریکی صدر نے خط میں غیر سفارتی زبان استعمال کرتے ہوئے ترک صدر کے لیے احمق کے ساتھ ساتھ اکھڑ جیسا لفظ بھی استعمال کیا۔ امریکی صدر نے شام میں کارروائی سے روکنے کے لیے لکھا کہ اگر تم نے غلطی کی تو تاریخ تمھیں ایک شیطان کے طور پر دیکھے گی، احمق اور اکھڑ مت بنو۔
ٹرمپ نے کہا کہ ایک اچھے معاہدے کی کوشش کرتے ہیں، ترک معیشت تباہ کرنے کا ذمہ دار نہیں بننا چاہتا، دنیا کو مایوس مت کرو، تم اچھی ڈیل کر سکتے ہو۔ غیر ملکی ادارے نے کہا کہ طیب اردوان نے خط ملتے ہی اسے کچرے کی ٹوکری میں پھینک دیا، اور اسی دن امریکی حمایت یافتہ کرد تنظیم کے خلاف کارروائی شروع کر دی۔
خیال رہے کہ امریکا کے نائب صدر مائیک پنس ترکی کے دورے پر انقرہ پہنچ گئے ہیں۔
انقرہ: ترکی نے شمالی شام میں آپریشن پیس اسپرنگ کا باقاعدہ آغاز کر دیا، الحسکہ میں مسلح گروپوں کے ٹھکانوں پر گولہ باری شروع کر دی۔
تفصیلات کے مطابق ترک صدر رجب طیب اردوان نے کرد کنٹرول علاقے میں آپریشن کے آغاز کا باقاعدہ اعلان ٹوئٹ کیا، انھوں نے کہا کہ ترک فوج نے شامی نیشنل آرمی کے ساتھ مل کر آپریشن کا آغاز کر دیا ہے۔
طیب اردوان نے کہا کہ شمالی شام میں آپریشن کرد ملیشیا اور داعش کے خلاف کیا جا رہا ہے، اس آپریشن کا مقصد جنوبی سرحد کو دہشت گردوں کی پناہ گاہ بننے سے روکنا ہے۔
The Turkish Armed Forces, together with the Syrian National Army, just launched #OperationPeaceSpring against PKK/YPG and Daesh terrorists in northern Syria. Our mission is to prevent the creation of a terror corridor across our southern border, and to bring peace to the area.
ترک صدر کا کہنا تھا کہ آپریشن پیس اسپرنگ ترکی میں دہشت گردی کے خطرات کو ختم کر دے گا، آپریشن کا مقصد علاقے کو محفوظ بنانا، پناہ گزینوں کی گھروں کو واپسی بھی ہے۔
یاد رہے کہ چند دن قبل ترک صدر رجب طیب اردوان نے کہا تھا کہ ترک فوج تیار ہے، شام میں کرد ملیشیا کے خلاف آپریشن کسی بھی لمحے شروع ہو سکتا ہے۔
ادھر امریکی فوج نے بھی ترک سرحد سے انخلا شروع کر دیا تھا، وائٹ ہاؤس نے اعلان کیا تھا کہ امریکا کی مسلح افواج آپریشن کی حمایت نہیں کریں گی نہ ہی اس کا حصہ بنیں گی۔
دوسری طرف شامی ڈیموکریٹک کونسل کے ایک سینئر رہ نما نے کہا تھا کہ ترکی کے عزائم خطرناک ہیں، وہ ایسی جنگ کو ہوا دینا چاہتا ہے جس کے ساتھ سرحد کے دونوں طرف خاص طور پر ترکی کے اندر بڑے پیمانے پر انتشار پھیلنے کا اندیشہ ہے۔
جنوبی وسطی یورپ کے اہم پہاڑی سلسلے الپس کی بلندیوں پر ایک جھیل دریافت کی گئی ہے جس نے ماہرین کو تشویش میں مبتلا کردیا ہے۔
یہ جھیل برائن میسٹر نامی ایک کوہ پیما نے دریافت کی، جھیل الپس پہاڑی سلسلے کے سب سے بلند پہاڑ ماؤنٹ بلانک پر دیکھی گئی اور یہ سطح سمندر سے 11 ہزار 100 فٹ بلند ہے۔
ماہرین کے مطابق اس جھیل کی تشکیل اس ہیٹ ویو کی وجہ سے ہوئی جس نے گزشتہ ماہ پورے یورپ کو بری طرح متاثر کیا۔ کوہ پیما میسٹر کا کہنا تھا کہ یہ نہایت خطرناک صورتحال ہے۔ صرف 10 دن کی شدید گرمی نے برفانی پہاڑ کو پگھلا کر ایک جھیل تشکیل دے دی۔
میسٹر کا کہنا تھا کہ جس وقت وہ اس مقام پر پہنچے اس سے صرف 10 دن قبل ہی ایک اور کوہ پیما اس علاقے میں پہنچا تھا۔ اس وقت یہ حصہ برف سے ڈھکا ہوا تھا اور یہاں کسی جھیل کا نام و نشان بھی نہیں تھا۔ صرف 10 دن میں یہاں ایک جھیل نمودار ہوگئی۔
A post shared by Bryan Mestre (@bryanthealpinist) on
انہوں نے کہا کہ یہ اس قدر بلند حصہ ہے کہ یہاں پر صرف برف کی موجودگی ممکن ہے، ’جب ہم یہاں جاتے ہیں تو ہماری بوتلوں میں موجود پانی جم جاتا ہے‘۔
یاد رہے کہ گزشتہ دنوں یورپ میں آنے والی ہیٹ ویو کے دوران کئی شہروں میں درجہ حرارت 46 ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچ گیا تھا، شدید گرمی کے باعث کئی افراد کی ہلاکتیں بھی سامنے آئیں۔
یہ پہلی بار نہیں ہے کہ کلائمٹ چینج کی وجہ سے ہونے والی شدید گرمی کے باعث گلیشیئرز پر جھیلیں دیکھی جارہی ہیں۔ ماہرین اس سے قبل برفانی خطے انٹارکٹیکا میں بھی جھیلیں بننے کی تصدیق کر چکے ہیں۔
کچھ عرصہ قبل برطانوی ماہرین نے سیٹلائٹ سے موصول ہونے والی ہزاروں تصویروں اور ڈیٹا کی بغور چھان بین کے بعد اس بات کی تصدیق کی تھی کہ قطب جنوبی یعنی انٹارکٹیکا میں برف کے نیچے جھیلیں بن رہی ہیں۔
ماہرین کے مطابق یہ جھیلیں اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہیں کہ وہاں موجود برف پگھلنے کے باعث اس کی تہہ کمزور ہو کر چٹخ رہی ہے۔
ایک تحقیق کے مطابق سنہ 2000 سے انٹارکٹیکا کی برف نہایت تیزی سے پگھل رہی ہے اور اس عرصہ میں یہاں 8 ہزار کے قریب مختلف چھوٹی بڑی جھیلیں تشکیل پا چکی ہیں۔
کولمبو: یورپی ملک ڈنمارک کی کاروباری شخصیت اور ارب پتی انڈرس ہولش بولسن اتوار کے روز سری لنکا میں ہونےوالے بم دھماکوں میں اپنے تین بیٹوں سے محروم ہوگئے۔
یورپی ذرائع ابلاغ کے مطابق انڈرس کو ڈنمارک کا امیر ترین شخص سمجھا جاتا ہے۔ ان کے تینوں بیٹے ایسٹر منانے کے لیے سری لنکا میں موجود تھے جب وہاں ہولناک خودکش حملے ہوئے ، جن میں 310 افراد ہلاک اور 500 سے زائد زخمی ہوئے ہیں۔
انڈرس کے پاس اسکاٹ لینڈ میں دو لاکھ ایکڑ قیمتی اراضی موجود ہے۔ اس کے علاوہ ‘بیسٹ سیلر’ کے نام سے ملبوسات کی ایک چین بھی اس کی ملکیت ہے۔ برطانیہ میں”اسوس“ کے نام سے ایک آن لائن شاپنگ سینٹر چلانے کے ساتھ ملبوسات کاسمیٹک کا بھی کاروبار کرتے ہیں۔
عالمی ذرائع ابلاغ نے انڈرس کے ترجمان کے حوالے سے بتایا ہے کہ انڈرس کی دولت پانچ ارب 70کروڑ ڈالرہے۔ اتوارکے روز ان کے تین بیٹے سری لنکا میں ہونے والے دھماکوں میں مارے گئے۔
ترجمان کا کہنا تھا کہ ہمارے پاس انڈرس کے بیٹوں کی موت کے بارے میں مزید تفصیلات نہیں۔ ہم تمام لوگوں سے متاثرہ خاندان کی پرائیویسی کے احترام کا تقاضا کرتے ہیں۔ ڈینش ذرائع ابلاغ کے مطابق انڈرس کا خاندان تعطیلات منانے سری لنکا میں تھا جہاں اتوار کو ہونے والے دھماکوں میں ان کے تین فراد ہلاک ہوگئے۔
غیرملکی میڈیا کے مطابق انٹیلی جنس حکام کا کہنا ہے متوقع دھماکوں کے بارے میں پولیس کوپہلے ہی آگاہ کردیا گیا تھا، سری لنکا دھماکوں میں پانچ سوسے زائد افراد زخمی ہوئے جبکہ دھماکے 7 خود کش بمبار وں نے کئے تھے ۔
واضح رہے سری لنکا میں اتوار کے روز چرچ میں جاری ایسٹر تقریبات پر اور ہوٹلز میں 8 دھماکے ہوئے تھے، دھماکوں کے بعد ملک بھر میں ایمرجنسی نافذ کردی گئی تھی ، سری لنکن صدر نے سیکیورٹی حکام کو مشتبہ افراد کو گرفتار کرنے کا مکمل اختیار بھی دے دیا تھا جبکہ پورے ملک میں سیکیورٹی سخت ہے اور سوشل میڈیا پر پابندی تاحال برقرار ہے۔
سری لنکا کے دارالحکومت میں یکے بعد دیگرے 8 دھماکوں کے نتیجے میں زخمی ہونے والوں چار پاکستانی شہری بھی شامل تھے ، زخمی ہونے والے پاکستانیوں میں ماہین حسن زوجہ حسن محمود، مزنہ ہمایوں ولد چوہدری محمد ہمایوں، عاتکہ عاطف زوجہ چوہدری عاطف شریف شامل ہیں جبکہ ایک پاکستانی بچہ بھی معمولی زخمی ہوا ۔
کوپن ہیگن: ڈنمارک نےسوائن فلو کی روک تھام کے لیے جرمنی کے ساتھ اپنے 70 کلومیٹر طویل بارڈر پرباڑھ لگانا شروع کردی، باڑھ کا مقصد متاثرہ جانوروں کی آمد ورفت روکنا ہے۔
تفصیلات کے مطابق ڈنمار ک کی جانب سے باڑھ لگانے کافیصلہ بیلجئم کےنزدیک سوائن فلو میں مبتلا دو جانوروں کے مردہ حالت میں ملنے کے بعد کیا گیا۔
یاد رہے کہ ڈنمارک کی معیشت میں سور کی فارمنگ کو بے پناہ اہمیت حاصل ہے اور اگر ڈنمار ک میں سوائن فلو پھیلتا ہے تو اس سے 1.7 بلین امریکی ڈالر کی صنعت کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے۔
ناقدین کی جانب سے کہا جارہا ہے کہ سوائن فلو میں مبتلا دو سوروں کی لاشیں ملنے پر 12 ملین ڈالر کی خطیر لاگت سے لگائی جانے والی باڑھ ناقابل فہم ہے ۔ افریقہ سے یورپ آنے والا یہ بخار نہ صرف جنگلی سوروں کو بلکہ فارمز میں پلے جانوروں کو بھی نشانہ بنا سکتاہے۔ اس کا نہ علاج ہے اورنہ ہی احتیاطی ویکسین ابھی تک دریافت ہوسکی ہے۔
یاد رہے کہ ڈنمارک ہرسال برآمد کرنے کے لیے دو کروڑ اسی لاکھ سے زائد سوروں کی فارمنگ کرتا ہے اوراس انڈسٹری کی کل مالیت 4.6 بلین امریکی ڈالر ہے۔ اگر سوائن فلو پھیلتا ہے تو وہ ممالک جو کہ یورپی یونین کا حصہ نہیں ، وہاں ایکسپورٹ بند ہوجائے گی۔
ڈنمار ک کے وزیر برائے خوراک اور ماحولیات جیکب جینسن کا کاکہنا ہے کہ حکومت اس موذی مرض کو ڈنمارک میں داخل ہونے سے ہر حال میں روکیں گے۔
یہ بھی بتایا جارہا ہے کہ یورپی یونین کے قوانین کے تحت انسانوں کی آزادانہ نقل و حرکت کو برقرار رکھنے کے لیےہر ایک کلومیٹر پر گیٹ لگایا جارہا ہے جبکہ باڑھ کی اونچائی اتنی رکھی ہے کہ انسان باآسانی اسے عبور کرسکیں۔ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ باڑھ کی جالی کے درمیان کی جگہ اتنی رکھی گئی ہے کہ چھوٹے جانور اسے با آسانی عبور کرسکیں اور ان کی نقل و حرکت پر فرق نہ پڑے۔
لندن: برطانیہ کا 29 مارچ 2019 کو یورپی یونین سے نکلنا طے ہے او ر دونوں فریق اگر کسی معاہدے تک نہ پہنچ پائے تو برطانیہ اور ای یو 27 کے بیرون ملک مقیم باشندے شدید مشکلات کا شکار ہوجائیں گے۔
برطانیہ اور یورپی یونین ان دنوں ایک تاریخ سازمرحلے سے گزر رہے ہیں اور دونوں جانب سے اس پر ایک معاہدے کی کوشش کی جارہی ہے ، وزیراعظم تھریسا مے اور یورپی یونین کے درمیان ایک معاہدے کا مسودہ طے پاچکا ہے تاہم برطانوی پارلیمنٹ اس پر شدید تحفظات رکھتی ہے اورامکان ہے کہ معاہدے پر دستخط ہونے سے قبل ہی برطانیہ کے انخلا کا وقت آجائے گا۔
یورپی یونین سے ہونے والے معاہدے میں ای یو 27 ممالک میں رہائش پذیر برطانوی شہریوں کو اور برطانیہ میں رہائش پذیر یورپی شہریوں کو بریگزٹ کا عمل مکمل ہونے تک قانونی تحفظ ملے گا اور وہ ہیلتھ کیئر، ویزہ فری ٹریول اور ملازمتوں کی سہولیات سے استفادہ حاصل کرسکیں گے تاہم اگر دونوں فریقین میں معاہدہ طے نہیں پایا تو پھر ان شہریوں کی قانونی حیثیت پر سوالیہ نشان کھڑا ہوجائے گا۔
اس وقت 13 لاکھ برطانوی شہری یورپین یونین کے مختلف ممالک میں قیام پذیر ہیں جبکہ یورپی یونین کے 32 لاکھ شہری برطانیہ میں مقیم ہیں۔ یہ تمام افراد یورپی یونین کے شہریوں کو حاصل تمام تر مراعات سے فائدہ اٹھا رہے ہیں، لیکن اگر معاہدہ طے نہیں پاتا تو بریگزٹ کے ساتھ ہی ان کے لیے شدید مشکلات پیدا ہوجائیں گی۔ ماہرین اس صورتحال کو کھائی میں گرنے جیسا قرار دے رہے ہیں۔
اگر بریگزٹ مسودہ برطانوی پارلیمنٹ سے منظور ہوجاتا ہے تو دونوں جانب کے شہری حالیہ سہولیات کو 31 دسمبر 2020 تک بلا تعطل حاصل کرسکیں گے اور اس دوران برطانیہ اور دیگر 27 یورپی ممالک اپنے ان شہریوں کے لیے معاہدے کرسکیں گے۔
یورپی یونین نے بریگزٹ پر کوئی ڈیل نہ ہونے کی صورت میں متوازی منصوبے کے تحت طے کیا ہے کہ برطانیہ کے ان شہریوں کے ساتھ مہربان رویہ اپناتے ہوئے انہیں فی الفور عارضی رہائشی کی حیثیت سے نوازا جائے اور برطانیہ بھی اپنے ہاں مقیم یورپی شہریوں کے لیے ایسا ہی کرے۔
چارٹ بشکریہ بی بی سی
ساتھ ہی ساتھ یورپی کمیشن نے یہ بھی تجویز دی ہے کہ نو ڈیل کی صورت میں برطانوی شہریوں کو یورپ کے ممالک میں وقتی طور پر ویزہ فری رسائی دی جائے اور برطانیہ بھی ایسا ہی کرے، تاکہ شہریوں کے معمولات کسی صورت متاثر نہ ہوں۔
اگر 29 مارچ تک دونوں فریق کسی معاہدے پر نہیں پہنچتے تو برطانوی شہری ، یورپین یونین میں ایسے ہی ہوجائیں گے جیسا کہ امریکا ، چین یا کسی بھی اور ملک کے شہری ہیں اور ان پر ’تیسرے ملک ‘ کے شہریوں والے قوانین کا اطلاق ہوگا، جب تک کہ کوئی دو طرفہ ایمرجنسی ڈیل طے نہ کرلی جائے۔
وہ برطانوی شہری اس معاملے میں سب سے زیادہ متاثر ہوں گے جو اپنے کام کے سلسلے میں متواتر ایک سے زیادہ یورپی ممالک کا سفر کرتےر ہتے ہیں اور انہیں اپنے یورپی مدمقابل افراد کی طرح ویزی فری انٹری کی سہولت میسر نہیں ہوگی۔
دوسری جانب یونین کے ممالک میں مقیم برطانوی شہریوں کو صحت کے معاملات میں بھی مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا جیسا کہ ابھی ایک انشورنس پالیسی پوری یونین میں نافذ العمل ہے تاہم بریگزٹ کے بعد انہیں برطانیہ اورہراس ملک کے لیے علیحدہ انشورنس لینا ہوگی جہاں کا سفر ان کے معمولات میں شامل ہے، یہی صورتحال یونین کے شہریوں کو بھی درپیش ہوگی جنہیں برطانیہ کا سفر کرنا ہوگا ، انہیں وہاں کی انشورنس الگ سے لینا ہوگی۔
کل 15 جنوری کو برطانیہ کے ہاؤس آف کامنز میں برطانوی وزیراعظم تھریسا مے اور یورپی یونین کے درمیان طے پانے والےمسودے پر ووٹنگ ہونے جارہی ہے اور اس کے بعد ہی یورپ میں ہونے والے اس تاریخ ساز عمل کے مستقبل کے خدو خال ابھر کے سامنے آسکیں گے۔