Tag: یورپ کی خبریں

  • بھوکوں کو کیک کھانے کا مشورہ دینے والی ملکہ کے زیورات نیلام

    بھوکوں کو کیک کھانے کا مشورہ دینے والی ملکہ کے زیورات نیلام

    جنیوا: انقلاب ِ فرانس میں عوامی غضب کا نشانہ بننے والی ملکہ میری انتونیت کے قیمتی موتی اور ہیرے جڑے ہار کی نیلامی ہوئی، ہار اور دیگر جواہرات تین کروڑ ڈالر میں خرید لیے گئے جو کہ کسی بھی فروخت ہونے والے موتی کے لیے عالمی ریکارڈ ہے۔

    تفصیلات کے مطابق اس بدنصیب ملکہ کے زیورات پچھلے دو سو سال سے منظرِ عام پر نہیں آئے تھے اور ان میں موتی اور ہیرے جڑے ہار، بالیاں اور دوسرے زیورات شامل تھے۔ یہ زیورات اٹلی کے بوربن پارما ہاؤس کی جانب سے فروخت کے لیے پیش گئے تھے۔

    سوئٹزرلینڈ کے شہر جنیوا میں سدبیز نیلام گھر نے ملکہ میری انتونیت کے زیورات کا تخمینہ 20 لاکھ ڈالر لگایا گیا تھا۔ اس موتی کی فروخت سے قبل عالمی ریکارڈ معروف اداکارہ ڈیم الزبتھ ٹیلر کے جواہرات کا تھا جب ان کا جڑاؤ ہار 2011 میں ایک کروڑ ڈالر میں فروخت ہوا تھا۔

    سدبیز نے ملکہ میری انتونیت کے جواہرات کی نیلامی پر کہا کہ یہ ‘جوہرات اہم ترین شاہی خاندان کے خزانے میں سے ایک ہیں جو فروخت کے لیے پیش کیے گئے ہیں۔’

    سدبیز کی ڈپٹی چئیر ڈینیئلا مسکیٹی نے اس پر کہا کہ ‘یہ زبردست جواہرات ہمیں صدیوں پرانے اُس خاندان کے طرز زندگی کے بارے میں ہمیں بتاتا ہے۔ یہ جواہرات انتہائی خوبصورت ہیں اور ان پر بہترین کام کیا گیا ہے۔’

    دریں اثنا ء ملکہ میری انتونیت کے جواہرات کے علاوہ شاہ چارلس پنجم، آسٹریا کے حکمران آرچ ڈیوکس اور ڈیوکس آف پارما کے جواہرات بھی اس نیلامی کا حصہ تھے۔نیلامی میں فروخت ہونے والے تمام جواہرات کی کل قیمت چھ کروڑ 90 لاکھ ڈالر تھی۔

    یاد رہے کہ میری انتونیت کا تعلق آسٹریا سے تھا اور انھوں نے فرانس کے بادشاہ لوئی شازدہم سے شادی کی تھی۔ ملک میں انقلاب کے بعد انھوں نے اپنے زیورات آسٹریا منتقل کر دیے تھے ، اور خود بھی ملک سے فرار ہونے کی کوشش کی لیکن اپنے خاوند اور بچوں سمیت پکڑی گئیں۔ سنہ 1793 میں 37 سال کی عمر میں گلوٹین کے گھاٹ اتار دیا گیا۔

    تاریخی ماخذات کے مطابق اس شاہی خاندان نے اس قدر پرتعیش زندگی گزاری تھی کہ عوام کو روٹی بھی بمشکل نصیب ہورہی تھی ، کہا جاتا ہے کہ ایسے ہی ایک احتجاج کا مذاق اڑاتے ہوئے ملکہ نے کہا تھا کہ ’اگر ان کے پاس کھانے کو روٹی نہیں ہے تو یہ کیک کیوں نہیں کھاتے‘۔ ملکہ کے اس فقرے نے جلتی پر چنگاری کا کام کیا اور پورے ملک میں انقلاب کی لہر دوڑ گئی تھی۔

  • آئر لینڈ کے ساحل پر اڑن طشتریوں کی پرواز

    آئر لینڈ کے ساحل پر اڑن طشتریوں کی پرواز

    یورپی جزیرے آئرلینڈ میں چند پراسرار روشنیاں دیکھی گئیں جنہیں اڑن طشتریاں کہا جارہا ہے، واقعے کی تحقیقات جاری ہیں۔

    یہ روشنیاں مقامی وقت کے مطابق 6 بج کر 47 منٹ پر آئرلینڈ کے جنوب مغربی ساحل پر دیکھی گئیں۔

    مذکورہ مقام پر پرواز کرنے والے برٹش ایئر ویز کے طیارے کی پائلٹ نے آئرش ایئرپورٹ شینن کے کنٹرول ٹاور سے رابطہ کیا اور دریافت کیا کہ کیا مذکورہ مقام پر کسی قسم کی فوجی مشقیں جاری ہیں؟

    پائلٹ کا کہنا تھا کہ اسے بہت تیز روشنیاں نظر آرہی ہیں تاہم کنٹرول ٹاور نے کسی بھی قسم کی فوجی مشقوں کے انعقاد سے انکار کیا۔

    برٹش ایئر ویز کا یہ طیارہ مونٹریال سے ہیتھرو جا رہا تھا۔ پائلٹ کا کہنا تھا کہ اسے دکھائی دینے والی روشنیاں بہت تیز تھیں جو طیارے کے بائیں جانب سے نمودار ہوئیں اور تیزی سے شمال کی طرف غائب ہوگئیں۔

    مزید پڑھیں: امریکا میں اڑن طشتری کی واضح تصاویر

    اسی مقام سے قریب سفر کرنے والے ورجن ایئر لائن کے طیارے کے پائلٹ نے بھی ان روشنیوں کو دیکھا۔ ان کا خیال تھا کہ یہ شہاب ثاقب ہیں جو زمین کی فضا میں داخل ہوگئے ہیں۔

    انہوں نے کہا کہ ان کی رفتار بے حد تیز تھی جسے آواز کی رفتار سے دوگنا کہا جاسکتا ہے۔ واقعے کے رپورٹ ہونے کے بعد آئرش ایوی ایشن نے تحقیقات شروع کردی ہیں۔

    خیال رہے کہ اڑن طشتریوں کے زمین پر آنے کے دعوے نئے نہیں ہیں۔

    اس سے قبل بھی کئی لوگوں نے مختلف مقامات پر پراسرار روشنیاں دیکھنے کا دعویٰ کیا اور انہیں اڑن طشتری کہا تاہم حتمی طور اب تک اس کی تصدیق نہیں ہوسکی کہ واقعی کوئی اڑن طشتری زمین پر آئی ہے۔

  • میرے کمرے میں بندر کیسے آگیا؟

    میرے کمرے میں بندر کیسے آگیا؟

    یورپی ملک آئس لینڈ میں تحفظ جنگلی حیات کی طرف توجہ دلانے کے لیے بنائی جانے والی شارٹ فلم پر سیاسی طور پر متنازعہ ہونے کی وجہ سے پابندی عائد کردی گئی، تاہم اس کے باوجود عام افراد کی جانب سے اسے پذیرائی حاصل ہورہی ہے۔

    شارٹ فلم ایک ننھی بچی اور بندر سے ملتے جلتے ایک جانور اورنگٹن پر مشتمل ہے۔ بچی اپنے کمرے میں اورنگٹن کو دیکھ کر پریشان ہے جو اس کے کھلونوں سے کھیل رہا ہے اور اس کی چیزوں کو پھینک رہا ہے۔

    دروازوں اور کھڑکیوں پر لٹکتے ہوئے اورنگٹن نے کمرے کی کئی قیمتی چیزیں بھی توڑ ڈالی ہیں۔ اس کے بعد جب وہ میز پر بیٹھتا ہے تو وہاں بچی کا شیمپو رکھا ہے جو پام (پھل) سے بنا ہے۔ اسے دیکھ کر اورنگٹن ایک ٹھنڈی آہ بھرتا ہے۔

    ادھر بچی اورنگٹن کو دیکھ کر سخت پریشان ہے اور وہ اسے فوراً اپنے کمرے سے نکل جانے کو کہتی ہے، اورنگٹن دل گرفتہ ہو کر کمرے سے باہر جانے لگتا ہے جس کے بعد بچی اس سے پوچھتی ہے کہ وہ اس کے کمرے میں کیا کر رہا تھا۔

    مزید پڑھیں: اپنی نسل کا وہ واحد جانور جو دنیا بھر میں کہیں نہیں

    اورنگٹن اپنی داستان سناتا ہے کہ وہ جنگلات میں رہتا تھا۔ ایک دن وہاں انسان آگئے جن کے پاس بڑی بڑی مشینیں اور گاڑیاں تھیں۔ انہوں نے درخت کاٹ ڈالے اور جنگل کو جلا دیا تاکہ وہ اپنے کھانے اور شیمپو کے لیے وہاں پام اگا سکیں۔

    ’وہ انسان میری ماں کو بھی ساتھ لے گئے اور مجھے ڈر تھا کہ وہ مجھے بھی نہ لے جائیں چنانچہ میں چھپ گیا‘۔

    اورنگٹن کہتا ہے کہ انسانوں نے میرا پورا گھر جلا دیا، میں نہیں جانتا تھا کہ مجھے کیا کرنا چاہیئے سو میں نے سوچا کہ میں تمہارے ساتھ رہ جاتا ہوں۔

    اورنگٹن کی کہانی سن کر بچی اچھل پڑتی ہے اور وہ عزم کرتی ہے کہ وہ اس اورنگٹن کی کہانی ساری دنیا کو سنائے گی تاکہ پام کے لیے درختوں کے کٹائی کو روکا جاسکے اور اورنگٹن کی نسل کو بچایا جاسکے۔

    اورنگٹن کی نسل کو کیوں خطرہ ہے؟

    جنوب مشرقی ایشیائی جزیروں بورنو اور سماترا میں پایا جانے والا یہ جانور گھنے برساتی جنگلات میں رہتا ہے۔

    تاہم ان جنگلات کو کاٹ کر اب زیادہ سے زیادہ پام کے درخت لگائے جارہے ہیں جو دنیا کی ایک بڑی صنعت کی ضروریات پوری کر رہے ہیں۔

    پام کا پھل کاسمیٹک اشیا، مٹھائیوں اور دیگر اشیائے خوراک میں استعمال ہوتا ہے۔ علاوہ ازیں اس کے تیل کی مانگ بھی بہت زیادہ ہے۔

    اس ضرورت کو پورا کرنے کے لیے کئی ایشیائی اور یورپی ممالک میں جنگلات کو آگ لگا دی جاتی ہے جس کے بعد وہاں پام کے درخت لگائے جاتے ہیں۔ آگ لگنے کے بعد وہاں موجود جنگلی حیات بے گھر ہوجاتی ہے اور ان کی موت کی شرح میں بھی اضافہ ہوجاتا ہے۔

    اورنگٹن بھی انہی میں سے ایک ہے جو اپنی پناہ گاہوں کے تباہ ہونے کا باعث معدومی کے شدید خطرے کا شکار ہے۔

    دوسری جانب آئس لینڈ اب تک وہ پہلا ملک ہے جو مقامی برانڈز پر زور دے رہا ہے کہ وہ اپنی اشیا میں سے پام کا استعمال ختم کردیں۔

    مذکورہ شارٹ فلم بھی آئس لینڈ میں موجود ماحولیاتی تنظیم گرین پیس کی جانب سے بنائی گئی ہے تاہم نشریاتی بورڈ کا کہنا ہے کہ یہ چند نشریاتی قوانین کی خلاف ورزی پر مبنی ہے۔

    اس اینیمیٹڈ فلم کو سوشل میڈیا پر بہت مقبولیت حاصل ہورہی ہے۔ فلم کو ان 25 اورنگٹنز کے نام کیا گیا ہے جو ہر روز اپنی پناہ گاہیں کھونے کے بعد اپنی جان سے ہاتھ دھو رہے ہیں۔

    فلم کے آخر میں ننھی بچی اورنگٹن کو گلے لگاتے ہوئے کہتی ہے، ’مستقبل لکھا ہوا نہیں ہے، لیکن میں اسے یقینی بناؤں گی کہ وہ ہمارا ہو‘۔

  • یورپ کی حفاظت کے لیے امریکا پر مزید انحصار نہیں کیا جاسکتا: فرانسیسی صدر

    یورپ کی حفاظت کے لیے امریکا پر مزید انحصار نہیں کیا جاسکتا: فرانسیسی صدر

    پیرس: فرانسیسی صدر ایمائل میکرون کا کہنا ہے کہ یورپ کی حفاظت ایک خالصتاً یورپیوں پر مشتمل فوج کے علاوہ اور کوئی نہیں کرسکتا اور اس کے لیے امریکا پر مزید انحصار نہیں کیا جاسکتا۔

    بین الاقوامی خبر رساں ادارے کے مطابق فرانسیسی صدر نے جنگ عظیم اول کے صلح نامے کی سالگرہ کے موقعے پر مغربی محاذ وردن کا دورہ کیا۔

    اس موقع پر ان کا کہنا تھا کہ روس نے ظاہر کردیا ہے کہ وہ یورپیوں کے لیے بہت بڑا خطرہ ثابت ہوسکتا ہے اور یورپ کا دفاع کرنے کے لیے مقامی یورپی ہی کافی ہیں۔

    ایمائل میکرون اس سے قبل ایک مشترکہ فورس بنانے کی تجویز بھی دے چکے ہیں جس کی جرمن چانسلر اینجلا مرکل نے بھی حمایت کی ہے۔

    برطانیہ نے بھی اس فورس کی حمایت کی ہے تاہم وہ یورپی فوج کی تجویز کے خلاف ہے اور اس کا کہنا ہے کہ نیٹو کی طرز پر ایک اور فورس تشکیل دینا خطرناک بھی ہوسکتا ہے۔

    صدر میکرون اس سے پہلے بھی خبردار کر چکے ہیں کہ یورپ اپنے دفاع کے لیے امریکا پر مزید انحصار نہیں کرسکتا۔

    فرانسیسی ریڈیو سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اس وقت سب سے زیادہ خطرے میں یورپ اور اس کی سیکیورٹی ہے۔ ’میں روس کے ساتھ ایک سیکیورٹی ڈائیلاگ کرنا چاہتا ہوں تاہم ہمیں یورپ کو ایسا بنانا ہوگا جو امریکا کی مدد کے بغیر اپنی حفاظت خود کرسکے‘۔

    دوسری جانب صدر میکرون کے مخالفین کا کہنا ہے کہ صدر کی توجہ عام آدمی کے مسائل کی طرف بالکل نہیں ہے۔ فرانس میں 17 نومبر کو فیول ٹیکسز میں بے تحاشہ اضافے کے خلاف ملک گیر احتجاج کا اعلان بھی کیا جاچکا ہے۔

  • جرمنی نے 94 سالہ نازی کیمپ کے گارڈ پرمقدمہ چلانے کا فیصلہ کرلیا

    جرمنی نے 94 سالہ نازی کیمپ کے گارڈ پرمقدمہ چلانے کا فیصلہ کرلیا

    جرمنی نے جنگ ِعظیم دوئم میں اس وقت کی نازی حکومت کی جانب سے قائم کیے جانے والے ایذا رسانی کیمپ کے بزرگ گارڈ کے خلاف مقدمہ چلانے کا فیصلہ کیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق جرمنی میں 94 سالہ بزرگ شہری کے خلاف دائر ہونے والا یہ مقدمہ اپنی نوعیت کا انوکھا اور تاریخ ساز اہمیت کا حامل ہوگا، جنگ ِعظیم کو ختم ہوئے 70 سال سے زائد ہوچکے ہیں۔

    یورپ کے مقامی میڈیا ذرائع کے مطابق یہ شخص جس کی عمر اب 94 سال ہے جنگ عظیم کےد وران اسٹیتھوف نامی نازی ایذا رسانی کیمپ کا گارڈ تھا اور وہاں ہونے والے تمام جنگی جرائم کے طریقہ کار اور واقعات سے واقف تھا ۔ یاد رہے کہ یہ کیمپ اب جرمنی کے بجائے پولینڈ کی حدود میں آتا ہے۔

    عدالت کی جانب سے اس شخص کی شناخت مخفی رکھی گئی ہے لیکن ڈائی والٹ نامی جریدے کے مطابق ا س شخص کا نام جان آر ہے ،اور وہ ایک زمانے میں نارتھ رائن ویسٹ فیلیا کے سرکاری حکام کے تحت کام کرچکا ہے۔

    اس بزرگ شخص پر الزام عائد کیا گیا ہے کہ گارڈ کی حیثیت سے وہ اس کیمپ میں ہلاک ہونے والے سینکڑوں قیدیوں کی ہلاکت میں بطور آلہ ٔ کار شامل رہا۔ جن میں سو سے زائد پولش قیدی بھی شامل ہیں جنہیں سنہ 1944 کی 21 اور 22 جون کو گیس کے ذریعے ہلاک کیا گیا تھا۔

    جنگ عظیم کے دوران اس گارڈ کی عمر 18 سے 20 سال تھی اور یہ ان کیمپوں میں ہونے والی ہلاکتوں میں شامل تھا۔ نجانے کتنوں کو گیس چیمبر کے سپرد کیا گیا، گولی ماری گئی یا پھر بھوکا مرنے کےلیے چھوڑدیا گیا ۔

    بتایا جارہا ہے کہ گارڈ پر مقدمہ بچوں کی عدالت میں چلایا جائے گا ، اس وقت اس کی عمر 21 سال سے کم تھی اور قانون کے تحت 21 سال سے کم عمر والے افراد کا مقدمہ بچوں کی عدالت میں چلتا ہے۔ وکلاء کا کہنا ہے کہ اس شخص کی یاد داشت حیرت انگیز طور پر کام کررہی ہے تاہم وہ کیمپ کے اندر ہونے والی ہلاکتوں کے بارے میں کچھ جاننے سے انکاری ہے ، امکان ظاہر کیا جارہا ہے کہ اگر یہ شخص شریکِ جرم ثابت ہوا تو اسے 15 سے 20 سال کی سزا بھی سنائی جاسکتی ہے۔

  • یورپین لیڈرزسمٹ: تھریسا مے کےلیے آئندہ 48 گھنٹے مشکل

    یورپین لیڈرزسمٹ: تھریسا مے کےلیے آئندہ 48 گھنٹے مشکل

    لندن: بریگزٹ کے معاملے پر یورپین لیڈرز کے سمٹ میں صرف اڑتالیس گھنٹے رہ گئے،برطانوی وزیراعظم تھریسا مے کوشش کررہی ہیں کہ اس معاملے پر انہوں زیادہ سے زیادہ وزراء کی حمایت حاصل رہے۔

    گزشتہ روز پارلیمنٹ کے اجلاس میں انہوں نے ممبرانِ پارلیمنٹ کو آگاہ کیا کہ شمالی آئرلینڈ کے بارڈر کے مسئلے پر ڈیڈ لاک کے باوجود اس معاملے پر معاہدے کے امکانات تاحال موجود ہیں۔

    دوسری جانب یورپین یونین کے حکام نے خبردار کیا ہے کہ برطانیہ کے اخراج کے بعد کسی بھی قسم کی ڈیل نہ ہونے کے امکانا ت ماضی کی نسبت آج کئی گنا زیادہ ہیں۔ یورپین لیڈرز کا اجلاس بدھ کے روز منعقد ہوگا جس کے بارے میں امکان ظاہر کیا جارہا ہے کہ برطانیہ اور یورپی یونین کسی متفقہ معاہدے تک پہنچنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔

    یاد رہے کہ برطانیہ آئندہ سال مارچ میں یورپین یونین سے انخلا کرے گا ۔ امید کی جارہی ہے کہ کل ہونے والے اجلاس میں یورپین لیڈر متفق ہوجائیں گے کہ اس معاملے پر اس حد تک اقدامات اٹھائے جاچکے ہیں ، اور نومبر میں ایک خصوصی بریگزٹ سمٹ طلب کرکے علیحدگی کی اس ڈیل کو حتمی شکل دے دی جائے۔

    تاہم اس امید کو ابھی آئرش بارڈر تنازعے کے سبب کئی خدشات لاحق ہیں جس کا ابھی تک کوئی حتمی فیصلہ ممکن نہیں ہوسکا ہے۔ تھریسا مے کو امید ہے کہ معاملے کے دونوں فریق اب اس تنازعے کے حل سے زیادہ دور نہیں ہیں اور محض ایک بارڈر کے تنازعے کے سبب اس سارے عمل کو واپس نہیں کیا جاسکتا ۔

    تھریسا مے کے اجلاس سے خطاب کے موقع پر انہیں کابینہ ارکان کی جانب سے مخالفت کا بھی سامنا کرنا پڑا ، اور ان پر آوازیں بھی کسی جاتی رہیں ، تاہم انہوں نے اپنا خطاب جاری رکھا۔

    دو ہفتے قبل برطانوی وزیر خزانہ فلپ ہمونڈ کا کہنا تھا کہ یورپی یونین بریگزٹ معاملے پر سنجیدہ دکھائی دیتے ہیں اور وہ ڈیل کے لیے بھی آمادہ ہیں۔انہوں نے کہا کہ بریگزٹ معاملے پر یورپ اور برطانیہ کے تناؤ کے باعث برطانوی معیشت بھی متاثر ہورہی ہے، اس بابت اقدامات کی ضرورت ہے۔

    برطانوی وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ متعدد سرمایہ کار بریگزٹ ڈیل کے نتائج کے منتظر ہیں، جوں ہی یہ ڈیل طے پا جائے گی، برطانوی اقتصادیات میں ترقی دیکھی جائے گی۔

    خیال رہے کہ گذشتہ ما ہ آسٹریا میں یورپی سربراہی اجلاس ہوا تھا، جس میں یورپ اور برطانیہ کے درمیان بریگزٹ معاملے پر اختلافات اور تناؤ بدستور برقرار رہا تھا ۔

    امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا خیال ہے کہ بریگزٹ سے برطا نیہ کو نقصان ہوگا ۔ انہوں نے عندیہ تھا کہ بریگزٹ کے بعد امریکا یورپی یونین سےتجارت کرے گا اور برطانیہ کو امریکا کے ساتھ اپنے تعلقات از سرِ نو استوار کرنا ہوں گے ۔

  • ہنگری: نئے قانون نے فٹ پاتھ پر سونا جرم بنا دیا

    ہنگری: نئے قانون نے فٹ پاتھ پر سونا جرم بنا دیا

    بوڈاپسٹ: ہنگری کے آئین نے بے گھری اور سڑکوں پر سونے کو جرم قرار دے دیا، آئین اب کہتا ہے کہ راستوں میں سونا ایک جرم ہے۔

    تفصیلات کے مطابق قانون کی یہ نئی شق پیر سے نافذ العمل ہو گئی ہے، شق میں کہا گیا ہے کہ عوامی مقامات پر مستقبل رہائش اختیار کرنے پر پابندی عائد کی گئی ہے۔

    [bs-quote quote=”بے گھر افراد جرمانہ ادا نہیں کر سکے تو جیل جانا پڑے گا” style=”style-7″ align=”left” color=”#dd3333″][/bs-quote]

    نئے قانون نے پولیس کو اختیار دے دیا ہے کہ گلیوں اور سڑکوں پر سونے والوں کو ہٹا دیں اور ان کی اشیا ضبط کر لی جائیں۔

    قانون میں شامل ترمیمی شق کے مطابق وہ بے گھر لوگ جو شیلٹر جانے سے انکار کریں، انھیں مفادِ عامہ کے کاموں میں شریک کرنے کے لیے مجبور کیا جائے گا۔

    شق میں مزید کہا گیا ہے کہ مفادِ عامہ کے کاموں سے بچنے کے لیے انھیں جرمانہ ادا کرنا پڑے گا، جرمانہ ادا نہیں کر سکے تو جیل جانا پڑے گا۔

    سماجی معاملات کے وزیر اٹیلا فولوپ نے نئے قانون کے حوالے سے کہا کہ یہ معاشرے کے مفاد میں لایا گیا ہے، بے گھر لوگوں کے لیے ادارے اپنا کام کر رہے ہیں۔


    یہ بھی پڑھیں:  مسلمان پناہ گزینوں کی آبادکاری کے خلاف ہنگری کی حکمران جماعت آئین میں ترمیم کرے گی


    دوسری طرف نئے قانون پر تنقید بھی کی گئی ہے، اور اسے ہنگری کے وزیرِ اعظم وکٹر اوربن کے ملک کے کم زور لوگوں کے خلاف کریک ڈاؤن کا حصہ قرار دیا گیا۔

    اقوام متحدہ کے ایک مندوب کا کہنا ہے کہ اس قانون سے احساس اجاگر ہوتا ہے کہ حکومت بے گھر لوگوں کے ساتھ ظالمانہ اور غیر انسانی رویہ رکھتی ہے اور سمجھتی ہے کہ بے گھری جرم کے برابر ہے۔

  • سویڈش پارلیمنٹ میں وزیراعظم کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد کامیاب

    سویڈش پارلیمنٹ میں وزیراعظم کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد کامیاب

    اسٹاک ہوم: یورپی ملک سویڈن کی پارلیمنٹ نے تحریکِ عدم اعتماد کے ذریعے اپنے وزیراعظم کو برطرف کردیا ، اس طریقے سے برطرف ہونے والے یہ پہلے سویڈش وزیراعظم ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق اسٹاک ہوم میں واقع سویڈش پارلیمنٹ میں سوشل ڈیموکریٹ پارٹی کے لیڈر اور منتخب وزیراعظم اسٹیفن لوف وین کے خلاف تحریک ِ عدم اعتماد پیش کی گئی، اسٹیفن نو ستمبر کو ہونے والے انتخابات کے نتیجے میں منتخب ہوئے تھے۔

    پارلیمنٹ کے کل 349 ارکان میں سے 346 ارکان نے رائے شماری میں حصہ لیا۔ تین ارکان اجلاس میں موجود نہیں تھے ۔ وزیراعظم کی برطرفی کے حق میں 204 ووٹ پڑے جبکہ انہیں برقرار رکھنے کے حامی ووٹوں کی تعداد 142 تھی۔

    رائے شماری میں سوشل ڈیموکریٹ اور گرین پارٹی نے وزیراعظم کے حق میں ووٹ دیا جبکہ ماڈریٹ، سینٹر ، لبرل، کرسچن ڈیموکریٹ اور سویڈن ڈیموکریٹ نامی جماعتوں نے وزیراعظم کے خلاف ووٹ دیا۔ اس موقع پر اپوزیشن اتحاد کی سب سے بڑی پارٹی یعنی ماڈریٹ پارٹی کے رہنما الف کرسٹریسن کا کہنا تھا کہ آج ہم اپنا انتخابات سے قبل کیا گیا وعدہ پورا کررہے ہیں۔

    یاد رہے کہ اس سےقبل الیکشن کے بعد حکومت کی تشکیل سازی کے موقع پر دو دھڑے ابھر کر سامنے آئے تھے ، بائیں بازو کے بلاک نے 144 ووٹ جبکہ چار جماعتی اتحاد نے 143 ووٹ حاصل کیے تھے۔

    ایوان میں تبدیلی کا سبب سوشل ڈیموکریٹس پارٹی کی جانب سے حکومت سازی کے بعد کرسچن ڈیموکریٹ اور ڈیموکریٹ پارٹی سے کیے جانے والے مذاکرات کے سبب عمل میں آیا ، لبرل اور سنٹر پارٹی نے اس ایما پر وزیراعظم سے اعتماد کا ووٹ واپس لیا کہ سوشل ڈیموکریٹ نے ان کی مرضی کے خلاف کچھ قوانین پر حزب اختلاف کی پارٹیوں سے ڈیل کی ہے جیسا کہ امیگریشن سے متعلق قوانین وغیرہ۔

  • جرمنی میں ہرشخص کو جسمانی اعضا کا ڈونر قراردینے پرغور

    جرمنی میں ہرشخص کو جسمانی اعضا کا ڈونر قراردینے پرغور

    بون: جرمنی کی وزارتِ صحت کی جانب سے ملک میں جسمانی اعضا کی بڑھتی ہوئی ضرورت کے پیش ِ نظر ملک کے ہر شہری کو اعضا کا عطیہ کنندہ قرار دینے کی کوشش کی جارہی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق جرمنی کے وزیر صحت جین سپاہن کوشش کررہے ہیں کہ ان کا ملک جسمانی اعضاء عطیہ کرنے کے حوالے سے آپٹ آؤٹ پالیسی ( ہر شخص اعضا ء کا ڈونر) اختیار کرلے۔

    مقامی میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وہ اس پالیسی کے حق میں ہیں جس کی وجہ رواں سال جسمانی اعضا ء کے ڈونرز کا تاریخ کی کم ترین شرح پر ہونا ہے جبکہ سائنس کے میدان میں ہونے والی روز افزوں ترقی کے سبب جسمانی اعضا ء کی ڈیمانڈ روز بروز بڑھتی جارہی ہے۔

    آپٹ آؤٹ پالیسی میں ہر شخص کو اعضاء کا عطیہ کنندہ تصور کیا جاتا ہے اور اس کی موت پر قابل استعمال اعضاء نکال لیے جاتے ہیں تا آنکہ وہ شخص از خود اس بات کا قانونی طریقے سے اظہار نہ کرے کہ موت کےبعد اس کے اعضاء نہ نکالے جائیں۔

    وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ ہمیں اس معاملے کو پارلیمنٹ میں لانا ہوگا کہ وہی اس بات پر بحث کرنے کی سب سے مناسب جگہ ہے۔ انہوں نے بتایا کہ صورتحال اس قدر سنگین ہے کہ ہر آٹھ گھنٹے میں ایک ایسا مریض انتقال کرجاتا ہے جو کہ جسمانی اعضا کے حصول کے لیے کسی عطیہ کنندہ کا منتظر ہوتا ہے ، ابھی بھی دس ہزار لوگ انتظار کی فہرست میں موجود ہیں۔

    جرمنی کی اعضا پیوند کاری کرنے والی فاؤنڈیشن کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ سال صرف 797 افراد نے اعضا عطیہ کرنے کے لیے رجسٹریشن کرائی اور محض 2،594 اعضا لگائے جاسکے جبکہ دس ہزار لوگ اعضا کا انتظار کررہے ہیں۔

    یاد رہے کہ یورپ کے کئی ممالک جیسا کہ آسٹریا ، بیجلئم، کروشیا، اسٹونیا ، فن لینڈ، فرانس ، یونان ، ہنگری ، اسپین ، نیدر لینڈ ، روس اور ترکی پہلے ہی یہ نظام اپنا چکے ہیں تاہم ان میں سے کچھ ممالک میں ڈونر کے ورثاء کو یہ حق حاصل ہے کہ اگر ڈونر نے اپنے اعضا سے متعلق وصیت نہیں کی تو وہ اس معاملے میں فیصلہ کرسکیں۔

  • حیرت انگیزروسی شہر، جو آہستہ آہستہ دھنس رہا ہے

    حیرت انگیزروسی شہر، جو آہستہ آہستہ دھنس رہا ہے

    بیرزنکی: روسی شہر بیرزنکی آہستہ آہستہ زمین میں دھنس رہا ہے، شہری آبادی کی اکثریت اس شہر کو ترک کررہی ہے لیکن روسی حکومت نے تاحال کوئی سنجیدہ اقدامات نہیں کیے ہیں۔

    تفصیلات کےمطابق روسی شہر بیرزنکی، ملک کے پہاڑی علاقے ارل ماؤنٹین میں نمک کی کان کے اوپر بسایا گیا تھا۔ یہ ایک صنعتی شہر ہے جس کی آبادی ڈیڑھ لاکھ سے زائد ہے۔

    Berezniki

    شہریوں کے مطابق سنہ 1980 میں نمک کی کان پر شہر بسانے کے نقصانات سامنے آنے شروع ہوئے اور کئی مقامات پر انتہائی بڑے گڑھے پڑ گئے جن میں فیکٹریاں اور دفاتر دھنس کررہ گئے، جبکہ کئی اسکول اور مکانات مکمل طور پر تباہ ہوگئے ۔،

    سنہ 2007 میں بیرزنکی شہر کو ایک بار پھر بڑی تباہی کا سامنا کرنا پڑا ، ماضی کی نسبت اب تک کا سب سے بڑا گڑھا اس سال پیدا ہوا جس کےبننے سے پیدا ہونے والی ارتعاشی لہروں نے پورے شہر کو ہلا کررکھ دیا۔

    Berezniki

    تباہی کا نشانہ بننے والوں کا کہنا ہے کہ حکومت اس معاملے کو ابھی تک سنجیدگی سے نہیں لے رہی، ہمارے گھروں میں دراڑیں پڑ رہی ہیں اور ہمیں ہر وقت خو ف رہتا ہے کہ کسی بھی وقت ہم زیرِ زمین گہرائی میں کہیں جا گریں گے، تاہم ابھی تک حکومت نے ہمارے لیے عارضی رہائش کابندوبست بھی نہیں کیا ہے۔

    دوسری جانب شہر کے حکام کا کہنا ہے کہ وہ معاملے کا باریک بینی سے جائزہ لے رہے ہیں اور جب ضرورت ہوتی ہےتو شہریوں کو نئے مکانات مہیا کیے جاتے ہیں ۔ سنہ 2016 میں روسی صدر پیوٹن نے شہر کے حکام سے اس معاملے میں تاخیر کا سبب معلوم کیا تھا اور خطرے کا شکار شہریوں کے لیے جلد از جلد مکانات تعمیر کرنے کی ہدایات کی تھی۔ تاہم دو سال گزرنے کے بعد بھی یہ عمل مکمل نہیں کیا جاسکا ہے۔

    Berezniki

    سابق سویت یونین کےفوجی ویلری میٹ اس آفت سے متاثرہ افراد کی بحالی کی مہم چلا رہے ہیں۔ انہوں نے سنہ 2007 کے واقعے کو یاد کرتے ہوئے کہا کہ وہ ایک اندوہناک صورتحال تھی، لوگ اپنے اہل خانہ کو قریبی اضلاع میں رہنے والے رشتے داروں کے گھروں میں منتقل کررہے تھے اور ہر کوئی خوفزدہ تھا۔

    وہ گورنر کو اس صورتحال سے آگاہ کرنے کے لیے مستقل خطوط لکھتے ہیں اور ان کا ریکارڈ بھی رکھتے ہیں ، ایک خاتون جن کا گھر آہستہ آہستہ زمیں میں دھنس رہا ہے ،ا ن کے لیے میٹ اب تک دس خطوط لکھ چکے ہیں۔