Tag: یورپ

  • یورپ کی نصف سے زائد آبادی کے لیے چند ہفتوں میں بری خبر

    یورپ کی نصف سے زائد آبادی کے لیے چند ہفتوں میں بری خبر

    ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے خبردار کیا ہے کہ چند ہفتوں میں یورپ کی نصف سے زائد آبادی اومیکرون ویرینٹ سے متاثر ہو سکتی ہے۔

    عالمی ادارہ صحت کے مطابق یورپ، روس اور وسطی ایشیا کی نصف سے زائد آبادی اگلے چھ سے آٹھ ہفتوں میں کرونا وائرس کی متغیر قسم اومیکرون سے متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔

    ریجنل ڈائریکٹر برائے یورپ ہانس کلُوگے نے منگل کے روز ایک نیوز کانفرنس میں بتایا کہ اومیکرون مغربی یورپ میں سب سے متعدی متغیر قسم کے طور پر غلبہ پا رہا ہے، اور بلقان خطے میں بھی پھیل رہا ہے۔

    ہانس کلوگے کا کہنا تھا کہ اس صورت حال میں ویکسینز ہی متاثرین کو شدید بیمار پڑنے سے بچا سکتی ہیں، اور موت کا خطرہ کم ہو سکتا ہے۔ ڈبلیو ایچ او کی جانب سے یورپی ممالک کو ویکسینیشن کا عمل تیز کرنے کی ایک بار پھر اپیل کی گئی ہے۔

    تاہم دوسری طرف گزشتہ روز منگل کو یورپی یونین کے ادویات کے نگراں ادارے نے کہا ہے کہ اومیکرون ویرینٹ کا پھیلاؤ کووِڈ 19 وبا کو ایک مقامی بیماری تک محدود رہنے کی طرف دھکیل رہا ہے، جس کے ساتھ انسانیت زندہ رہ سکتی ہے، حالاں کہ یہ ابھی تک ایک وبائی بیماری ہی ہے۔

    واضح رہے کہ یوروپی میڈیسن ایجنسی (ای ایم اے) نے بھی عام آبادی کو چوتھی ویکسین شاٹ دینے کے بارے میں شکوک و شبہات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ بار بار بوسٹر دینا کوئی ‘پائیدار’ حکمت عملی نہیں ہے۔

  • یورپ پہنچنے کی کوشش کرنے والے پناہ گزینوں کی اموات میں اضافہ

    یورپ پہنچنے کی کوشش کرنے والے پناہ گزینوں کی اموات میں اضافہ

    پناہ گزینوں کی صورتحال پر نظر رکھنے والے مانیٹرنگ گروپ واکنگ بارڈرز کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ غیر قانونی طور پر یورپ میں داخل ہونے والے پناہ گزینوں کی اموات میں اضافہ ہوا ہے۔

    بین الاقوامی خبر رساں ادارے کے مطابق مختلف سمندری راستوں سے غیر قانونی طور پر یورپ میں داخل ہونے والے پناہ گزینوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔

    گزشتہ برس کے دوران صرف اسپین میں داخلے کی کوشش کے دوران 44 سو افراد سمندر میں لاپتہ ہوئے جن میں کم از کم 205 بچے بھی شامل تھے۔

    پناہ گزینوں کی صورتحال پر نظر رکھنے والے مانیٹرنگ گروپ واکنگ بارڈرز کی ایک رپورٹ کے مطابق سنہ 2021 میں اسپین پہنچنے کے لیے سمندر میں کھو جانے والے افراد کی تعداد گزشتہ برس کی نسبت دو گنا رہی۔

    واکنگ بارڈرز نے پناہ گزینوں کے لاپتہ ہونے کی وجہ خطرناک سمندری راستوں اور کمزور کشتیوں کو قرار دیا ہے۔

    اسپین کے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق سنہ 2021 کے دوران 3 ہزار 900 غیر قانونی تارکین وطن سمندری اور زمینی راستوں سے ملک میں داخل ہوئے، حکام کے مطابق اتنی ہی تعداد میں غیر قانونی پناہ گزین اس سے پچھلے برس بھی اسپین میں داخل ہوئے تھے۔

    واکنگ بارڈرز کے مطابق زیادہ تر پناہ گزین بحر الکاہل میں اسپین کے جزیرے کینرے والے روٹ سے داخلے کی کوشش میں ہلاک یا لاپتہ ہوئے۔

    افریقی ساحل سے اس جزیرے کی جانب رخ کرنے والے پناہ گزینوں کی زیادہ تر کشتیوں کو حادثات پیش آتے رہے۔ افریقہ، ایشیا اور یورپ کے درمیان بحیرہ روم کے راستے سے اسپین میں داخلے کی کوشش کرنے والے پناہ گزینوں کی تعداد کم ہے۔

    واکنگ بارڈرز کی بانی ہیلینا مالینو کا کہنا ہے کہ انہوں نے یہ اعداد و شمار پناہ گزینوں کے لیے قائم ہاٹ لائن اور مشکلات میں گھری کشتیوں کے رابطوں اور اور لاپتہ پناہ گزینوں کے اہل خانہ سے اکھٹے کیے ہیں۔

    ان کا کہنا تھا کہ گروپ نے ہر کشتی کی منزل یا قسمت کا پتہ لگانے کی کوشش کی اور ان تحقیقات میں یہ اخذ کیا گیا کہ جو پناہ گزین ایک ماہ تک سمندر میں لاپتہ رہے ان کو مردہتصور کیا جائے۔

    اقوام متحدہ کی تنظیم برائ ے پناہ گزین کے مطابق اسپین کے کینرے جزیرے کے قریب حادثے کا شکار ہونے والی صرف ایک کشتی میں 955 افراد مارے گئے تھے۔ تنظیم نے کہا کہ سمندر میں مرنے والے پناہ گزینوں کی اصل تعداد بہت زیادہ ہو سکتی ہے۔

    دوسری جانب اسپین کی حکومت اپنے ساحلوں کی جانب آنے کی کوشش میں مرنے والے پناہ گزینوں کا ریکارڈ مرتب نہیں کرتی اور وزارت داخلہ نے اس حوالے سے تازہ اعداد و شمار پر تبصرے سے انکار کیا ہے۔

  • اومیکرون کے ‘طوفان’ سے متعلق ڈبلیو ایچ او کا اہم بیان

    اومیکرون کے ‘طوفان’ سے متعلق ڈبلیو ایچ او کا اہم بیان

    جنیوا: عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے اومیکرون ویرینٹ کے ایک طوفان کے آنے کا خدشہ ظاہر کر دیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے کہا ہے کہ یورپ میں اومیکرون کا ایک طوفان آنے کا خدشہ ہے، اس لیے حکومتوں کو کرونا کے نئے ویرینٹ سے متعلق تیاری کر لینی چاہیے۔

    ڈبلیو ایچ او کے اعلیٰ افسر علاقائی ڈاریکٹر ڈاکٹر ہینس کلوز نے پریس کانفرنس میں کہا کہ اومیکرون پہلے ہی کئی ممالک میں حاوی ہو چکا ہے، ہم ایک اور طوفان کو آتے دیکھ سکتے ہیں۔

    انھوں نے کہا کہ کچھ ہی ہفتوں میں اومیکرون یورپ اور دیگر ممالک میں بری طرح پھیل جائے گا جس کی وجہ سے ہیلتھ سروسز شدید طور پر متاثر ہوں گی۔

    اومیکرون سب کے گھروں‌ پر دستک دینے والا ہے: بل گیٹس کی پیشگوئی

    ڈاکٹر ہینس کلوز کا کہنا تھا کہ یورپ کے 38 ممالک میں اومیکرون وائرس پہلے ہی پایا جا چکا ہے جب کہ برطانیہ، ڈنمارک اور پرتگال میں یہ پہلے ہی زبردست طریقے سے پھیل چکا ہے۔

    ڈاکٹر ہینس کے مطابق یورپی یونین میں رواں برس کرونا وائرس سے 27 ہزار لوگ جان گنوا چکے ہیں اور اس کے 26 لاکھ کیسز سامنے آئے، کیسز کی یہ تعداد گزشتہ سال کے مقابلے میں 40 فی صد زیادہ ہے۔

    ڈبلیو ایچ او نئے سال اور کرسمس کی تقریبات کے حوالے سے بھی لوگوں کو خبردار کر چکی ہے۔

  • یورپ نے فائزر کی کووِڈ ٹیبلٹ کے ایمرجنسی استعمال کی منظوری دے دی

    یورپ نے فائزر کی کووِڈ ٹیبلٹ کے ایمرجنسی استعمال کی منظوری دے دی

    برسلز: یورپی یونین کے ڈرگ ریگولیٹر نے فائزر کی تیار کر دہ کرونا گولی کے ایمرجنسی استعمال کی منظوری دے دی۔

    تفصیلات کے مطابق امریکی فارماسیوٹیکل کمپنی فائزر کی کرونا کی دوا کو یورپی یونین ڈرگ ریگولیٹر نے ایمرجنسی استعمال کے لیے منظوری فراہم کر دی ہے۔

    امریکی فارما کمپنی کا کہنا ہے کہ یہ دوا اومیکرون ویرینٹ سے نمٹنے کے لیے ایک نئے طرح کا علاج ہے، کمپنی کا دعویٰ ہے کہ اس دوا کے ذریعے مریضوں میں اسپتال میں داخل ہونے اور موت کے خطرے کو تقریباً 90 فی صد تک کم کیا جا سکتا ہے۔

    یورپی میڈیسن ایجنسی (ای ایم اے) کے مطابق فائزر کی گولی ابھی تک یورپی یونین میں منظور شدہ نہیں ہے، تاہم اسے کرونا کے ایسے بالغ مریضوں کے علاج کے لیے ہنگامی طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے جنھیں اضافی آکسیجن کی ضرورت نہیں ہے۔

    فائزر کی اس دوا کا نام پیکس لووڈ (Paxlovid) ہے اور یہ ایک نئے مالیکیول PF-07321332 اور ایچ آئی وی اینٹی وائرل ریٹینویر کا مرکب ہے۔

    استعمال کے حوالے سے یورپی میڈیسن ایجنسی نے کہا کہ پیکس لووڈ کو کووڈ-19 کی تشخیص کے بعد اور علامات کے شروع ہونے کے 5 دنوں کے اندر استعمال کرنا چاہیے، اس میں دیر نہیں کرنی چاہیے اور یہ گولیاں پانچ دن تک کھانی چاہیئں۔

    ڈاکٹرز کا کہنا ہے کہ فائزر کی اس گولی کے کچھ مضر اثرات بھی ممکن ہیں، جیسا کہ ذائقے میں کمی محسوس ہونا، اسہال اور متلی۔ استعمال کے دوران احتیاط میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ حاملہ خواتین کو اس کا استعمال نہیں کرنا چاہیے اور اسے لیتے وقت دودھ پلانا بند کر دینا چاہیے۔

  • یورپ جانے والے تارکین وطن بڑی مصیبت میں پڑ گئے

    یورپ جانے والے تارکین وطن بڑی مصیبت میں پڑ گئے

    منسک: بیلاروس میں مشرق وسطیٰ سے تعلق رکھنے والے تارکین وطن بڑی مصیبت میں پڑ گئے ہیں، بیلاروس حکام نے انھیں پولینڈ کے ساتھ ملنے والی سرحد سے پیچھے دھکیل کر شدید سردی میں بے آسرا چھوڑ دیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق یورپی یونین کے انسانی حقوق حکام نے پولینڈ – بیلاروس سرحد پر تارکین وطن کی ‘خطرناک’ صورت حال کے بارے میں خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ سرحد پر بے آسرا لوگوں کی زندگیاں بچانے کے لیے ہنگامی اقدامات کی ضرورت ہے۔

    بیلاروس میں جمعرات کے روز حکام نے تارکین وطن کو پولینڈ کے ساتھ ملنے والی سرحد سے پیچھے دھکیل دیا تھا، جہاں ہزاروں افراد مغربی ملکوں میں قسمت آزمائی کے لیے عارضی خمیوں میں جمع ہیں، ان تارکین وطن نے بیلاروس کی پولینڈ کے ساتھ ملنے والی سرحد پار کرنے کی کوشش کی تھی، لیکن پولینڈ کی سیکیورٹی فورسز نے انھیں آگے بڑھنے سے روک دیا۔

    تارکین وطن کی جانب سے فورسز پر پتھراؤ بھی کیا گیا، لیکن سپاہیوں نے انھیں پانی کی بوچھاڑ کرنے والی واٹر کینن کی مدد سے پیچھے دھکیلا۔

    رپورٹس کے مطابق اگست کے بعد سے ہزاروں تارکین وطن (زیادہ تر مشرق وسطیٰ کے جنگ زدہ ممالک سے ہیں) بیلاروس اور اس کے پڑوسیوں کے درمیان سرحد پر پھنسے ہوئے ہیں، جو یورپی یونین کے علاقے میں داخل ہونے کی کوشش کر رہے ہیں۔

    انسانی حقوق کی یورپی کمشنر ڈنجا میجاٹووِچ نے کہا کہ سرحد سے ملحقہ علاقوں تک رسائی پر پابندی کے نتائج نقصان دہ ہوں گے، اس پابندی نے بین الاقوامی تنظیموں اور سول سوسائٹی کو نہایت ضروری انسانی امداد فراہم کرنے سے روک دیا۔

    واضح رہے کہ یورپی یونین کے رہنماؤں نے بیلاروس میں انتخابات کو دھاندلی زدہ قرار دیتے ہوئے صدر الیگزینڈر لُکاشینکو کو سرحدی بحران پیدا کرنے کا ذمہ دار ٹھہرایا، ان کا کہنا ہے کہ لُکاشینکو نے یورپی یونین میں تارکین وطن کی بھرمار کرنے کے لیے انھیں یہاں جمع ہونے پر اکسایا ہے۔

  • آسٹرازینیکا ویکسین سے فالج کا خطرہ، لیکن امکان نہایت کم

    آسٹرازینیکا ویکسین سے فالج کا خطرہ، لیکن امکان نہایت کم

    ایمسٹرڈیم: یورپی میڈیسن ایجنسی نے اعصابی بیماری گیلن بررے سنڈروم کو کرونا وائرس ویکسین آسٹرازینیکا کے ممکنہ مضر اثرات کی فہرست میں شامل کر لیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق یورپ نے ایک اعصابی بیماری کو بہ طور ممکنہ سائیڈ ایفکٹ اس فہرست میں شامل کر لیا ہے جو کرونا وائرس کی ویکسین آسٹرازینیکا سے متعلق ہے، یہ بیماری (Guillain-Barré syndrome) عارضی فالج کا باعث بن سکتی ہے، تاہم اس کے امکانات کو بہت ہی کم قرار دیا گیا ہے۔

    یورپی میڈیسن ایجنسی نے بدھ کو کہا کہ گیلن بررے سنڈروم کو اس ویکسین کے مضر اثرات سے متعلق معلومات میں شامل کیا گیا ہے۔

    خیال رہے کہ گیلن بررے سنڈروم کرونا وائرس ویکسین آسٹرازینیکا کے ’انتہائی کم‘ مضر اثرات میں سے تھا، یہ دس ہزار میں سے ایک فرد میں سامنے آیا۔

    یہ خرابی ایک اعصابی سوزش ہے جس سے عارضی فالج ہو سکتا ہے اور سانس میں دشواری کا سبب بن سکتی ہے، ہر سال امریکا میں اس سنڈروم سے ایک اندازے کے مطابق تین سے 6 ہزار افراد متاثر ہوتے ہیں اور زیادہ تر صحت یاب ہو جاتے ہیں۔

  • یورپ نے کرونا ٹریول گرین لسٹ اپ ڈیٹ کر دی

    یورپ نے کرونا ٹریول گرین لسٹ اپ ڈیٹ کر دی

    برسلز: بیماریوں کی روک تھام اور کنٹرول کے یورپی مرکز نے کووِڈ 19 گرین لسٹ اپ ڈیٹ کر دی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق ای سی ڈی سی نے اپنی تازہ ترین اپ ڈیٹ میں بتایا ہے کہ کئی یورپی ممالک اور علاقوں میں گزشتہ دو ہفتوں میں کرونا وبا کی شرح میں کمی آنے کے باعث یہ گرین لسٹ میں آگئے ہیں۔

    گرین لسٹ میں آنے والے ممالک میں جرمنی، پولینڈ، جمہوریہ چیک، سلوواکیہ، آسٹریا، ہنگری، سلووینیا، رومانیہ، بلغاریہ، لیٹویا، لیکٹنسٹائن، اور ناروے، کروشیا اور اٹلی کے کئی علاقے گرین لسٹ میں آگئے ہیں۔

    ای سی ڈی سی کے مطابق 5 اگست کو گرین لسٹ میں شامل کیے گئے ان علاقوں میں آمد و رفت بحال ہوگئی ہے۔

    مذکورہ ممالک اور علاقوں کو گرین لسٹ میں شامل کرنے کا فیصلہ گزشتہ دو ہفتوں کے دوران فی 1 لاکھ رہائشیوں میں کرونا کیسز کی 75 سے کم تعداد کی نشان دہی کے بعد کیا گیا ہے۔

    ایسے ممالک کو بھی گرین لسٹ میں رکھا گیا ہے جہاں فی 1 لاکھ افراد میں کرونا کیسز کی تعداد 50 سے کم رہی ہے، جب کہ گرین لسٹ میں شامل ہر ملک میں مکمل ویکسینیٹڈ افراد کی اوسط شرح تقریباً 50 فی صد ہے۔

  • یورپ میں تباہ کن سیلاب، عالمی ماحولیاتی تنظیم نے بڑھتی گرمی کو بڑا خطرہ قرار دے دیا

    یورپ میں تباہ کن سیلاب، عالمی ماحولیاتی تنظیم نے بڑھتی گرمی کو بڑا خطرہ قرار دے دیا

    جنیوا: یورپ میں تباہ کن سیلاب کے بعد عالمی ماحولیاتی تنظیم نے بڑھتی گرمی کو یورپ کے لیے بڑا خطرہ قرار دے دیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق عالمی موسمیاتی تنظیم (ڈبلیو ایم او) نے کہا ہے کہ شدید بارشوں سے متعدد مغربی یورپی ممالک میں تباہ کن سیلاب اس بات کا انتباہ ہے کہ موسمیاتی تبدیلی سے متاثرہ آفات کو روکنے کے لیے تمام ممالک کو زیادہ سے زیادہ اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔

    ڈبلیو ایم او کے عہدے دار نے کہا کہ یقینی طور پر اس ہفتے جرمنی، بیلجیئم اور نیدرلینڈ کے مناظر چونکا دینے والے ہیں، انھوں نے خبردار کیا کہ موسمیاتی تبدیلی کے منظرناموں کے تحت ہمیں شدید گرمی میں مزید اس قسم کے واقعات دیکھنے کو ملیں گے۔

    ورلڈ میٹیورولوجیکل آرگنائزیشن کا کہنا ہے کہ بیلجیئم، جرمنی، لکسمبرگ اور نیدرلینڈ میں 14 سے 15 جولائی تک صرف 2 دن میں دو ماہ کی بارش ہو چکی ہے، جو انتہائی خطرناک ہے، اطلاعات کے مطابق جرمنی اور بیلجیئم میں جمعہ کی صبح تک 100 سے زیادہ ہلاکتوں کی تصدیق ہو چکی ہے، جب کہ وسیع علاقوں میں متعدد افراد ابھی تک لا پتا ہیں۔

    ڈبلیو ایم او کی خاتون ترجمان کلیر نولیس کا کہنا ہے کہ ان سیلابوں نے متاثرہ ترقی یافتہ ممالک کی طرف سے کیے جانے والے حفاظتی اقدامات کو بھی تہس نہس کر دیا ہے، اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتیرس نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ مجموعی طور پر یورپ تیار ہے لیکن جب دو مہینوں کی بارش دو دن میں ہو تو اس کا مقابلہ کرنا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔

    کلیر نولیس نے کہا کہ جیسے جیسے ماحول گرم ہوتا جا رہا ہے، اس میں مزید نمی آتی جا رہی ہے، جس کا مطلب ہے کہ طوفانوں کے دوران اور بھی زیادہ بارش ہوگی، جس سے سیلاب کا خطرہ اور بڑھ جائے گا۔

  • یورپ میں کرونا کی سب سے خطرناک قسم کے پھیلنے کا انتباہ

    یورپ میں کرونا کی سب سے خطرناک قسم کے پھیلنے کا انتباہ

    کوپن ہیگن: عالمی ادارہ صحت نے یورپ میں کو وِڈ 19 کی ڈیلٹا قسم کے پھیلنے کا انتباہ جاری کیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق ڈبلیو ایچ او کے ریجنل ڈائریکٹر برائے یورپ ہانس کلوگ نے کہا ہے کہ یورپ میں دس ہفتوں سے جاری کرونا کیسز میں کمی کا سلسلہ رک گیا ہے، اس کی وجہ بڑھتے ہوئے میل جول، سفر، اجتماعات اور سماجی پابندیوں میں نرمی ہے۔

    کوپن ہیگن میں ایک آن لائن پریس کانفرنس میں کلوگ نے کہا کہ پچھلے ہفتے کرونا وائرس کے کیسز کی تعداد میں 10 فی صد اضافہ ہوا، یہ تیزی موجودہ صورت حال کی وجہ سے ہے۔

    انھوں نے کہا وبا کی ایک نئی قسم ڈیلٹا تشویش کا باعث بنی ہوئی ہے، جو ایسے خطے میں ہے جہاں رکن ممالک کی زبردست کوششوں کے باوجود لاکھوں افراد کو تاحال ویکسین نہیں لگائی جا سکی ہے۔

    انھوں نے بتایا کہ کہ ڈیلٹا کی قسم متعدد اور بار بار کی انٹروڈکشنز کے ذریعے الفا کو تیزی سے تبدیل کر دیتی ہے، جس کی وجہ سے پہلے ہی اسپتال داخل ہونے والوں اور مرنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔

    کلوگ کے مطابق ڈبلیو ایچ او کے یورپی علاقے میں زیادہ تعداد اگست تک کرونا کی ڈیلٹا قسم کی ہوگی۔ انھوں نے خبردار کیا کہ وبا کی نئی قسم، ویکسین کی مقدار میں کمی اور سماجی میل جول میں اضافے سے خطے میں موسم خزاں سے قبل اسپتال داخلوں اور اموات کی زیادہ تعداد کی لہر آ سکتی ہے۔

  • گھر کی قیمت صرف 25 روپے

    گھر کی قیمت صرف 25 روپے

    یورپی ملک کروشیا ایک خوبصورت ملک ہے اور وہاں گھر خریدنے کے لیے لاکھوں ڈالرز کی ضرورت ہوتی ہے۔ مگر شمالی کروشیا کے ایک چھوٹے قصبے میں گھروں کو محض پاکستانی 25 روپے میں فروخت کیا جارہا ہے۔

    لیگارڈ نامی قصبے میں 2 ہزار 2 سو سے زائد افراد مقیم ہیں اور گزشتہ ایک صدی کے دوران وہاں سے زیادہ تر افراد دیگر علاقوں میں منتقل ہوگئے ہیں۔ اب وہاں گھروں کو محض ایک کیونا (کروشین کرنسی) یعنی لگ بھگ 25 روپے میں فروخت کیا جارہا ہے تاکہ وہاں کی گھٹتی آبادی کو بڑھایا جاسکے۔

    قصبے کے میئر ایوان سابولک نے اتنی کم قیمت میں گھروں کو فروخت کرنے کے حوالے سے بتایا کہ اس کا مقصد قصبے کو پھر نقشے میں واپس لانا ہے۔

    انہوں نے کہا کہ ہم ایک سرحدی قصبے میں تبدیل ہوگئے ہیں جہاں دیگر مقامات کے مقابلے میں سہولیات کم ہیں کیونکہ آبادی میں بتدریج کمی آئی ہے۔

    اس قیمت پر اب تک 17 گھر فروخت بھی کیے جاچکے ہیں جبکہ انتظامیہ کی جانب سے گھروں کی تزئین و آرائش کے لیے 25 ہزار کیونا (6 لاکھ 23 ہزار روپے سے زائد) دینے کا وعدہ بھی کیا گیا ہے۔

    اس اسکیم کے تحت اب صرف ایک گھر اور ایک عمارت کے پلاٹ کی فروخت باقی رہ گئی ہے۔ میئر نے بتایا کہ نئے آنے والوں کو فوڈ پروڈکشن اور میٹریل پراسیس کرنے والی صنعتوں میں ملازمتیں بھی مل سکیں گے۔

    مگر اتنے سستے گھروں کی پیشکش کے ساتھ کچھ شرائط بھی ہیں۔

    جیسے کہ مجوزہ خریداروں کی عمر 40 سال سے کم ہونی چاہیئے، وہ مالی طور پر خود مختار ہوں اور کم از کم 15 سال تک وہاں رہنے کا عزم کریں۔

    اسی طرح ان گھروں میں رہنے والے جوڑوں میں سے کسی ایک نے ہائی اسکول کی تعلیم مکمل کی ہو اور 3 سال تک کام کا تجربہ اضافی خصوصیات سمجھی جائیں گی۔

    ایسے ایک گھر کو خریدنے والے ڈینیل ہارمینسر نے بتایا کہ کاغذات میں ہم نے کم از کم 15 سال تک یہاں رہنا ہے مگر یہ کوئی مسئلہ نہیں، گھر تعمیر شدہ ہے اور ہمارا اسے فروخت کرنے یا کہیں اور منتقل ہونے کا ارادہ نہیں۔

    میئر کا کہنا تھا کہ اگرچہ یورپ سے باہر کے ممالک کے رہائشیوں نے بھی اس اسکیم میں بہت زیادہ دلچسپی ظاہر کی ہے مگر امیگریشن کی پیچیدگیوں کے باعث فی الحال یہ گھر یورپ سے باہر کے رہائشیوں کو فروخت نہیں کیے جارہے۔