Tag: یورینیم

  • امریکی حملوں سے پہلے ایران یورینیم نہیں نکال سکا، ڈونلڈ ٹرمپ کا دعویٰ

    امریکی حملوں سے پہلے ایران یورینیم نہیں نکال سکا، ڈونلڈ ٹرمپ کا دعویٰ

    امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دعویٰ کیا ہے کہ ایران امریکی حملوں سے پہلے یورینیم کو نہیں نکال سکا تھا، یورینیم کو منتقل کرنا مشکل ہے۔

    فوکس نیوز کو انٹرویو دیتے ہوئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ ایران کو پتا بھی نہیں تھا کہ ہم کب اور کیسے حملہ کریں گے، یورینیم کو منتقل کرنا مشکل اور خطرناک کام ہے، ایرانی سائٹ پر موجود افراد نے صرف خود کو بچانے کی کوشش کی، امریکی حملوں سے پہلے ایران نے یورینیم منتقل نہیں کیے

    ٹرمپ نے کہا کہ جوہری معاملے پر ایران کے ساتھ 60 دن تک بات چیت ہوئی، میرا موقف واضح تھا ایران کے پاس جوہری ہتھیار نہیں ہونے چاہیے، ایران جوہری طاقت حاصل کرنے کےقریب تھا۔

    انھوں نے کہا کہ امریکی پائلٹوں اور بہترین طیاروں نے مشکل آپریشن کیا، آپریشن میں ایسے بم استعمال کیے جو دنیا میں کسی کے پاس نہیں، آپریشن کے بعد سی این این، نیویارک ٹائمز کی فیک نیوز کا سامنا کرنا پڑا۔

    امریکی صدر نے کہا کہ فیک نیوز نے سوال اٹھائے کہ ایٹمی تنصیبات تباہ ہوئیں یا نہیں، ایران کی ایٹمی طاقت کی خواہش کو ختم کردیا ہے۔

    انٹیلی جنس رپورٹ لیک ہونے کی تحقیقات کی جائیں گی، امریکی پائلٹوں نے 36 گھنٹے تک پرواز کی جو مشکل عمل ہے، امریکی پائلٹوں نے 50ہزار فٹ کی بلندی سے ٹارگٹ کیا، امریکی پائلٹوں نے ریفریجریٹر کے دروازے جتنے ہدف کو نشانہ بنایا۔

    ٹرمپ نے کہا کہ ہمارے پاس دنیا کی بہترین آبدوزیں ہیں، آبدوزوں سے 30راکٹ فائر کیے گئے جو ٹارگٹ پر لگے، ایرانی عوام ظالم رجیم سے نجات کےلیے لڑرہے ہیں۔

    امریکی صدر نے کہا کہ خامنہ ای انسانی حقوق سے زیادہ ایٹمی پروگرام کو ترجیح دیتا ہے، ایران ایٹمی پروگرام کی جانب بڑھا تو یہ ان کا آخری اقدام ہوگا۔

    ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ ابراہیم معاہدے میں مختلف بہترین ممالک شامل ہونا چاہتے ہیں، ابراہیم معاہدے میں ایران ہی سب سے بڑا مسئلہ تھا، میں تو سمجھتا ہوں کہ ایران کو بھی معاہدے میں شامل ہونا چاہیے۔

    ایران پرامن راستے پرچلے گا تو پابندیاں ہٹا دیں گے، ٹیرف کے مقابلے ٹیرف سے ہی مقابلہ کررہے ہیں، ٹیرف کے مقابلے میں کچھ نہ کریں تو ہماری صورتحال خطرناک ہوگی۔

    انھوں نے کہا کہ ہم کچھ نہ کریں تو امریکا معصوم بھیڑ کی طرح ہوجائےگا، امریکی حکومت معیشت کےلیے بڑے اقدامات اٹھا رہی ہے۔

    https://urdu.arynews.tv/iran-us-offering-removal-of-sanctions/

  • زیر زمین ذخائر میں ایران کا اعلیٰ افزودہ یورینیم محفوظ ہے، آئی اے ای اے سربراہ کا دعویٰ

    زیر زمین ذخائر میں ایران کا اعلیٰ افزودہ یورینیم محفوظ ہے، آئی اے ای اے سربراہ کا دعویٰ

    ویانا: انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی (آئی اے ای اے) کے سربراہ رافیل گروسی نے کہا ہے کہ زیر زمین ذخائر میں ایران کا اعلیٰ افزودہ یورینیم محفوظ ہے۔

    تفصیلات کے مطابق IAEA کے ڈائریکٹر جنرل رافیل ماریانو گروسی نے پیر کو آئی اے ای اے کے بورڈ آف گورنرز کو اسلامی جمہوریہ ایران کی صورت حال پر بریفنگ میں بتایا کہ ایران کے افزودگی پلانٹ میں تمام مشینیں تباہ ہونے کا امکان ہے، جب کہ نطنز پلانٹ میں 15 ہزار سینٹری فیوجز متاثر یا تباہ ہو گئے ہیں۔

    انھوں نے کہا اسرائیلی بمباری سے بجلی بند ہوئی اسی لیے مشینیں اب نہیں چل رہیں، ہو سکتا ہے کہ اسرائیلی بمباری سے نطنز کے اندرونی حصے کو بھی نقصان پہنچا ہو، نطنز کا زمینی سطح پر موجود پائلٹ پلانٹ مکمل طور پر تباہ ہو چکا ہے۔ نطنز ایران کا وہ افزودگی پلانٹ ہے جہاں 60 فی صد تک U-235 افزودہ یورینیم تیار کیا جا رہا ہے۔


    تہران اسرائیل جنگ سے متعلق تازہ ترین خبریں یہاں پڑھیں


    رافیل گروسی نے بتایا کہ فردو فیول انرچمنٹ پلانٹ کا مقام یا خندب ہیوی واٹر ری ایکٹر، جو زیر تعمیر ہے، کو کوئی نقصان نہیں پہنچا ہے، حالیہ حملوں میں بوشہر نیو کلیئر پاور پلانٹ کو نشانہ نہیں بنایا گیا، نہ ہی تہران ریسرچ ری ایکٹر کو۔

    انھوں نے کہا جمعہ کے حملے میں اصفہان کمپلیکس کی 4 عمارتیں تباہ ہو چکیں، اور یورینیم کی تبدیلی کی تنصیبات متاثر ہوئی ہیں، تاہم اصفہان میں زیر زمین ذخائر محفوظ ہیں جن کے مکمل تجزیے کی ضرورت ہے، جن چار عمارتوں کو نقصان پہنچا ہے ان میں مرکزی کیمیائی لیبارٹری، یورینیم کی تبدیلی کا پلانٹ، تہران ری ایکٹر فیول مینوفیکچرنگ پلانٹ، اور زیر تعمیر دھاتی پروسیسنگ کی یو ایف 4 عمارت۔

    رافیل گروسی کے مطابق نطنز میں آف سائٹ تابکاری کی سطح میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔

  • ایران نے انتہائی افزودہ یورینیم ترک کرنے پر آمادگی ظاہر کر دی، اقتصادی پابندیاں ختم کرنے کی شرط

    ایران نے انتہائی افزودہ یورینیم ترک کرنے پر آمادگی ظاہر کر دی، اقتصادی پابندیاں ختم کرنے کی شرط

    تہران: ایران نے انتہائی افزودہ یورینیم ترک کرنے پر آمادگی ظاہر کر دی، تاہم تہران نے تمام امریکی اقتصادی پابندیاں ختم کرنے کی شرط بھی رکھ دی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق ایران کے سپریم لیڈر کے ایک اعلیٰ مشیر نے بدھ کو این بی سی نیوز کو بتایا کہ ایران اقتصادی پابندیاں ہٹانے کے بدلے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ بعض شرائط کے ساتھ جوہری معاہدے پر دستخط کرنے کے لیے تیار ہے۔

    خامنہ ای کے سینئر مشیر علی شمخانی نے کہا ایران افزودہ یورینیم کا موجودہ ذخیرہ ترک کر دے گا، امریکا ایرانی شرائط کو تسلیم کرے، اگر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے عائد اقتصادی پابندیاں مکمل طور پر ختم کر دی جائیں تو تہران جوہری معاہدے پر دوبارہ دستخط کر دے گا۔

    علی شمخانی نے مزید کہا اگر سمجھوتہ ہو جاتا ہے تو ایران بین الاقوامی معائنہ کاروں کو اپنی جوہری تنصیبات تک رسائی دینے پر بھی آمادہ ہوگا۔


    ایران کسی بدمعاش کے سامنے نہیں جھکے گا، مسعود پزشکیان


    واضح رہے کہ علی شمخانی ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کے اعلیٰ سیاسی، فوجی اور جوہری مشیر ہیں، جو جاری بات چیت کے بارے میں عوامی سطح پر بات کرنے والے اعلیٰ ترین ایرانی عہدیداروں میں سے ایک ہیں۔

    انھوں نے کہا کہ ایران کبھی بھی ایٹمی ہتھیار نہیں بنائے گا، اور انتہائی افزودہ یورینیم کے اپنے ذخیرے سے چھٹکارا حاصل کر لے گا جس سے ہتھیار بنایا جا سکتا ہے، تاہم یورینیم کو صرف نچلی سطح تک افزودہ کرنے پر اتفاق کرے گا جو شہری استعمال کے لیے درکار ہے۔

    یہ پوچھے جانے پر کہ کیا ایران آج معاہدے پر دستخط کرنے پر راضی ہو جائے گا اگر ان شرائط کو پورا کیا جائے تو شمخانی نے جواب دیا ’’ہاں۔‘‘

    یاد رہے کہ اس سے قبل ایرانی صدر مسعود پزشکیان نے صدر ٹرمپ کو کہا تھا کہ آپ کیا یہاں ہمیں ڈرانے آئے ہیں، اگر آپ سوچتے ہیں کہ یہاں آ کر ہمیں ڈرا سکتے ہیں تو شہادت بستر پر موت سے زیادہ پیاری ہے، ہم کسی کی غنڈہ گردی کے آگے نہیں جھکیں گے۔

  • لیبیا میں ڈھائی ٹن یورینیم غائب

    لیبیا میں ڈھائی ٹن یورینیم غائب

    تریپولی: جنگ زدہ ملک لیبیا میں ایک مقام پر ذخیرہ شدہ تقریباً 2.5 ٹن قدرتی یورینیم غائب ہونے کا انکشاف ہوا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق اقوام متحدہ کے جوہری نگران ادارے نے جمعرات کو انکشاف کیا ہے کہ لیبیا کی ایک سائٹ سے ڈھائی ٹن یورینیم غائب ہو گیا ہے، سابقہ حکومت نے قدرتی یورینیم کے 10 ڈرم ڈیکلیئر کیے تھے جو اب موجود نہیں ہیں۔

    اے پی نیوز کی رپورٹ کے مطابق قدرتی یورینیم کو فوری طور پر توانائی کی پیداوار یا بم کے ایندھن کے لیے استعمال نہیں کیا جا سکتا، کیوں کہ افزودگی کے عمل کے لیے عام طور پر دھات کو گیس میں تبدیل کرنے کی ضرورت ہوتی ہے، اور اس کے بعد مطلوبہ سطح تک پہنچانے کے لیے اسے مخصوص مشین میں گھمایا (سینٹریفیوج) جاتا ہے۔

    ویانا میں قائم بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی نے ایک بیان میں کہا کہ ڈائریکٹر جنرل رافیل ماریانو گروسی نے بدھ کو رکن ممالک کو غائب ہونے والے یورینیم کے بارے میں آگاہ کر دیا ہے۔

    ایجنسی نے اپنے بیان میں کہا کہ جوہری مواد سے متعلق معلومات نہ ہونا ریڈیالوجیکل رسک اور جوہری سیکیورٹی خدشات کا باعث بن سکتا ہے، تاہم مذکورہ مقام تک پہنچنے کے لیے پیچیدہ لوجسٹکس کی ضرورت ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ قدرتی یورینیم اگر کسی گروپ کے ذریعے تکنیکی ذرائع اور وسائل سے حاصل کیا جائے، تو ایک ٹن یورینیم کو وقت کے ساتھ ساتھ 5.6 کلوگرام ہتھیاروں کے درجے کے مواد تک ریفائن کیا جا سکتا ہے، یہی وہ بات ہے جس کی وجہ سے ایٹمی عدم پھیلاؤ کے ماہرین کے لیے اس غائب شدہ دھات کی تلاش ایک اہم مسئلہ ہے۔

    واضح رہے کہ 2003 میں لیبیا کے معمر قذافی نے جوہری اسلحہ پروگرام ترک کرنے کا اعلان کیا تھا۔

  • جوہری معاہدہ، 24 ٹن یورینیم افزودگی کے ایرانی اقدام کی تصدیق

    جوہری معاہدہ، 24 ٹن یورینیم افزودگی کے ایرانی اقدام کی تصدیق

    تہران: ایران میں ایٹمی توانائی کی تنظیم کے سربراہ علی اکبر صالحی نے تصدیق کی ہے کہ ان کے ملک نے 2015 میں جوہری معاہدہ طے پانے کے بعد 24 ٹن یورینیم افزودہ کیا۔

    تفصیلات کے مطابق ایران اور دیگر عالمی طاقتوں کے درمیان طے پائے معاہدے میں ذخیرہ کیے گئے یورینیم کی حد 300 کلو گرام تک مقرر کی گئی تھی۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق علاوزہ ازیں معاہدے کے تحت ایران کو یورینیم افزودہ کرنے اور برآمد کرنے کی بھی اجازت دی گئی۔

    ایران میں ایٹمی توانائی کی تنظیم کے سربراہ نے بتایا کہ ایران نے 300 کلو گرام نہیں بلکہ 24 میٹرک ٹن یورینیم افزودہ کیا ہے۔

    ایرانی ایٹمی توانائی کی تنظیم کے سربراہ علی اکبر صالحی کے مطابق ان کا ملک بھاری پانی کے آرآ ری ایکٹرز میں دوبارہ کام کا آغاز کرے گا۔

    رپورٹوں کے مطابق بھاری پانی کے آراک ری ایکٹرز کو پلوٹونیم تیار کرنے کے واسطے ڈیزائن کیا گیا جو جوہری ہتھیار سازی میں کام آ سکتا ہے۔ یہ ایران کی سب سے بڑی ایٹمی تنصیب ہے جو ملک کے شمال مغرب میں آراک شہر سے 75 کلو میٹر کی دوری پر واقع ہے۔

    ایران یورینیم افزودگی روک دے، یورپی یونین نے خبردار کردیا

    خیال رہے کہ آراک ری ایکٹرز کی تعمیر 1998 میں شروع ہوا تھا۔ اسی مقام پر 2004 میں ایک اور ری ایکٹر قائم کیا گیا۔ تہران کا دعوی ہے کہ ان ری ایکٹرز کا مقصد تحقیق کرنا اور سرطان کے علاج کے واسطے استعمال ہونے والی ریڈیونیوکلائیڈمتیار کرنا ہے۔ تاہم یہ موقف ایٹمی توانائی کی عالمی ایجنسی کو مطمئن اور قائل نہیں کرسکی۔

  • ایران کا یورینیم افزودگی میں اضافہ خطرناک ہوگا‘فرانسیسی صدر

    ایران کا یورینیم افزودگی میں اضافہ خطرناک ہوگا‘فرانسیسی صدر

    پیرس :فرانسیسی صدر نے جوہری معاہدے سے متعلق گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ایران 15 جولائی کو جوہری معاہدے میں شامل تمام فریقین کے درمیان مذاکرات کے لیے حالات سازگار بنانے کےلئے اقدامات کریں۔

    تفصیلات کے مطابق فرانس کے صدر عمانوئل ماکروں نےاپنے ایرانی ہم منصب حسن روحانی کو خبردار کیاکہ اگر ایران نے جوہری معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے یورینیم افزدوگی کی مقدار میں اضافہ کیا تو اس کے خطرناک نتائج برآمد ہوں گے جن کی تمام ترذمہ داری ایران پرعائد ہوگی۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ فرانسیسی ایوان صدر کی طرف سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ ایرانی صدر حسن روحانی اور عمانوئل ماکروں کے درمیان ایک گھنٹے سے زاید ٹیلیفون پر بات چیت جاری رہی۔

    اس موقع پر فرانسیسی صدر نے روحانی پر زور دیا کہ وہ 15 جولائی کو جوہری معاہدے میں شامل تمام فریقین کےدرمیان مذاکرات کے لیے حالات سازگار بنانے کے لئے اقدامات کریں، صدر ماکروں نے کہا کہ وہ ایرانی قیادت اور جوہری معاہدےمیں شامل دیگر ملکوں ے ساتھ رابطے میں ہیں۔

    ان کا کہنا تھا کہ فرانس کسی کی طرف سے جارحیت کا حامی نہیں۔ایرانی حکومت کےایک عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر خبر رساں ایجنسی رائیٹرز کو بتایا کہ آج حکومت یورینیم کی افزدوگی کی مقدار پانچ فی صد تک بڑھانے کا اعلان کرے گی۔

    خیال رہے کہ ایران اور عالمی طاقتوں میں طے پائے معاہدے کے تحت ایران کو بھاری پانی کا ذخیرہ محدود کرنے کا پابند بنایا گیا تھا مگر ایران بھاری پانی کا ذخیرہ بھی 5 فی صد سے بڑھا چکا ہے۔

    یورینیم افزودگی کی مقدار 5 فی صد تک لے جانے کا ایرانی فیصلہ سلامتی کونسل کی قرارداد 2231 کی بھی کھلی خلاف ورزی ہے۔

  • ایران کا یورینیم افزودگی میں اضافے کا اعلان

    ایران کا یورینیم افزودگی میں اضافے کا اعلان

    واشنگٹن : جان بولٹن نے ایران کو ہدف تنقید بناتے ہوئے کہا کہ یورینیم افزدوگی میں اضافے کا اعتراف اس بات کا ثبوت ہے کہ تہران جوہری ہتھیاروں کی تیاری کےلئے بے لگام ہوتا جا رہا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق امریکا نے ایران کی طرف سے یورینیم افزودگی میں اضافے کے اعلان کے بعد عالمی جوہری توانائی ایجنسی ’آئی اے ای اے‘ کا خصوصی اجلاس طلب کیا ہے۔

    عالمی توانائی ایجنسی میں امریکی مشن کی طرف سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ واشنگٹن نے بین الاقوامی جوہری ایجنسی کا خصوصی اجلاس بلایا ہے تاکہ ایران کے معاملے پر غور کیا جا سکے۔

    ایجنسی کے سفارت کاروں کا کہنا ہے کہ آئندہ بدھ کو ہونےوالے اجلاس میں ایران کی یورینیم کی مجاز مقدار سے زائد افزودگی اور 2015ءکو طے پائے معاہدے کی خلاف ورزیوں پر غور کیا جائےگا۔

    درایں اثناءامریکی قومی سلامتی کے مشیر جان بولٹن نے کہا ہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ ایران کے جوہری پروگرام پر دی گئی ہر طرح کی چھوٹ ختم کرنے پر غور شروع کیا ہے۔

    ایک انٹرویو میں جان بولٹن نے کہا کہ ایران کا یورینیم افزودگی کی مجاز حد سے تجاوز کرنا اور ایرانی صدر حسن روحانی کی طرف سے یورینیم افزدوگی میں اضافے کا اعتراف اس بات کا ثبوت ہے کہ تہران جوہری ہتھیاروں کی تیاری کےلئے بے لگام ہوتا جا رہا ہے۔

    جان بولٹن نے کہا کہ ایران کے جوہری پروگرام پر تہران کو 7 طرح کی چھوٹ دی گئی تھیں، ایران کو دی گئی یہ تمام رعایتیں پہلے ہی پانچ تک کم کر دی گئی ہے۔

    کویتی میڈیا نے ایک سفارتی ذریعے کے حوالے سے بتایا ہے کہ آئی اے ای اے کا اجلاس آئندہ ہفتے ویانا میں ہوگا۔ اجلاس میں ایران کے جوہری پروگرام پر پید اہونے والے تنازع پر غور کیا جائےگا۔

  • ایران نے مقررہ حد سے زیادہ یورینیم ذخیرہ کرلی ، عالمی اٹامک انرجی ایجنسی

    ایران نے مقررہ حد سے زیادہ یورینیم ذخیرہ کرلی ، عالمی اٹامک انرجی ایجنسی

    نیویارک :  انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی کا کہنا ہے کہ ایران نے مقررہ حدسے زیادہ یورینیم ذخیرہ کرلی ہے، ایرانی وزیرخارجہ نے کہا یورپ ذمہ داری  نبھائےتواقدام واپس لےلیں گے، ایران کے ساتھ دوہزارپندرہ میں ہوئے جوہری معاہدے میں یورینیم ذخیرہ کی حد مقررکی گئی تھی۔

    غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی نے ایک بیان میں کہاکہ اس کے معائنہ کاروں نے تصدیق کر دی ہے کہ تین سو کلو کی جو حد طے کی گئی تھی ایران نے اسے عبور کر لیا ہے۔

    دریں اثناء ایرانی وزیرِ خارجہ نے کہا کہ جوہری معاہدے میں موجود ہے کہ کوئی فریق اپنے وعدوں پر عملدرآمد اس صورت میں جزوی یا مکمل طور پر بند کرسکتا ہے کہ اگر دوسرا فریق یا فریقین قابلِ ذکر کارکردگی نہ دکھا پائِیں تاہم انھوں نے یہ بھی واضح کیا کہ اگر یورپی ممالک اپنی ذمہ داریوں کا پاس کریں تو ایران کا یہ اقدام قابلِ واپسی ہے۔

    اگر یورپی ممالک اپنی ذمہ داریوں کا پاس کریں تو ایران کا یہ اقدام قابلِ واپسی ہے، جواد ظریف

    جواد ظریف کا کہنا تھا اگر یورپی طاقتوں نے ایرانی معیشت کو امریکی پابندیوں سے بچانے کے لیے عملی اقدامات نہ کیے تو ایران دس دن میں یورینیم کی 3.67 فیصد کی حد سے زیادہ افزدوگی کا عمل شروع کر دے گا۔

    ایران کو کسی بھی سطح پر یورینیم کی افزودگی کی اجازت دینا ایک غلطی تھی، امریکہ

    دوسری جانب امریکی وزارت خارجہ نے ایک بیان میں کہا ایران پر زیادہ دباؤ کی پالیسی جاری رکھیں گے، ایران کو کسی بھی سطح پر یورینیم کی افزودگی کی اجازت دینا ایک غلطی تھی، برطانیہ اور جرمنی ایران سے مطالبہ کر چکے ہیں کہ وہ اپنا یہ فیصلہ واپس لے۔

    ایران کو اسے جوہری معاہدے کی خلاف ورزی کے نتائج بھگتنا پڑیں گے، یورپی اقوام

    یورپی اقوام نے ایران کو خبردار کیا تھا کہ اسے جوہری معاہدے کی خلاف ورزی کے نتائج بھگتنا پڑیں گے اور اس معاہدے کے تحت وہ پابندیاں بھی دوبارہ لگائی جا سکتی ہیں جو ایران کی جانب سے جوہری سرگرمیاں محدود کرنے پر اٹھائی گئی تھیں۔

    برطانیہ نے جو کہ اب بھی فرانس، جرمنی، چین اور روس کے ہمراہ اس جوہری معاہدے کا حصہ ہے، کہا ہے کہ وہ فوری طور پر اپنے آئندہ اقدامات کے بارے میں غور کر رہا ہے، وزیراعظم ٹریزا مے کے ایک ترجمان کا کہنا تھا کہ یہ معاہدہ دنیا کو ایک محفوظ مقام بناتا ہے کیونکہ اس کی وجہ سے جوہری ہتھیاروں سے مسلح ایران کا امکان رد ہو جاتا ہے۔

    ترجمان نے کہا ہم نے یہ بات متعدد بار واضح طور پر دہرائی ہے کہ ہماری جے سی پی او اے سے وابستگی ایران کی جانب سے معاہدے کی خلاف ورزی نہ کرنے  سے منسلک ہے، جس کے تحت وہ اس معاہدے کی تمام شقوں پر عمل پیرا ہوں اور ہم ان سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اپنے اس فیصلے کو واپس لیں۔

    ایران کی جانب سے ایسا فیصلہ معاہدے کی سالمیت کو نقصان پہنچائے گا، اقوام متحدہ

    اقوام متحدہ کے ترجمان سٹیفان ڈوجارک نے کہا کہ ایران کی جانب سے ایسا فیصلہ معاہدے کی سالمیت کو نقصان پہنچائے گا اور نہ ہی اس سے ایران کی عوام کو کسی قسم کا کوئی معاشی فائدہ ہوگا۔

    روس کے نائب وزیر خارجہ سرگئی ریاب کوو نے ایران کے فیصلہ پر تاسف کا اظہار کیا لیکن ساتھ ساتھ میں مزید کہا کہ اسے ڈرامائی شکل نہ دی جائے، ایران کی جانب سے ایسا فیصلہ کرنے کو اس پس منظر میں دیکھنا ضروری ہوگا کہ اس سے پہلے ہونے والے واقعات کیا تھے اور کیا وجہ بنی کہ ایران نے یہ قدم لیا۔

    ان کا کہنا تھا ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ یہاں ایک ملک کی تیل کی تجارت پر پابندی عائد کی جا رہی ہے اور ایک خود مختار ملک کو دبانے کی کوشش ہو رہی ہے۔

    اسرائیل کے وزیر اعظم بنیان نتن یاہو نے یورپی ممالک سے کہا کہ وہ ایران پر لگائی جانے والی پابندیوں کو بحال کریں جو جوہری معاہدے کا حصہ تھیں۔

    خیال رہے ایران کی جانب سے یہ قدم ایک ایسے موقع پر اٹھایا گیا ہے کہ مشرقِ وسطیٰ میں حالات ویسے ہی کشیدہ ہیں اور ایران نے حال ہی میں آبنائے ہرمز کے اوپر پرواز کرنے والے ایک امریکی ڈرون کو مار گرایا ہے، اس کے علاوہ امریکہ نے ایران پر تیل بردار بحری جہازوں پر حملے کرنے کے الزامات بھی لگائے ہیں۔