Tag: یوسف بخاری دہلوی

  • ‘بخاری صاحب کا دل آزادی کے جذبے سے بالکل خالی ہے’

    ‘بخاری صاحب کا دل آزادی کے جذبے سے بالکل خالی ہے’

    بخاری صاحب کی باتیں اس زمانے میں بھی سب سے نرالی ہوتی تھیں۔ ہم لوگوں کے دل و دماغ کا ریشہ ریشہ آزادی کے جوش سے معمور تھا۔

    بخاری صاحب گورنمنٹ کالج میں پروفیسر تھے۔ ایک روز انہوں نے خاص احساسِ ذمہ داری کے ساتھ فرمایا کہ آزادی کے ليے جو کچھ ہوسکتا ہے، ضرور کرنا چاہیے مگر یہ حقیقت بھی پیشِ نظر رکھیے کہ جس قوم کا لباس ایک نہیں، جس کے کھانے کے اوقات مقرر نہیں، جس میں یکسانی اور یک جہتی کا کوئی بھی پہلو نظر نہیں آتا، وہ آزادی سے کیا فائدہ اٹھائے گی؟

    کوشش کرو کہ اس سرزمین میں بسنے والے لوگ واقعی ایک ایسی قوم بن جائیں جو ایک نظامِ زندگی کی پابند ہو۔

    اس وقت یہ سن کر احساس ہوا کہ بخاری صاحب کا دل آزادی کے جذبے سے بالکل خالی ہے، لیکن جب بنیادی حقائق کے صحیح اندازے کا شعور پیدا ہوا تو پتہ چلا کہ یہ ارشاد ان کے بلوغِ نظر کی ایک روشن دستاویز تھا۔

    (اردو کے نام وَر ادیب، انشا پرداز، مؤرخ، نقّاد، مترجم اور صحافی غلام رسول مہر کے مضمون چند پرانی یادیں سے انتخاب)

  • جب فرید آباد میں مسلم لیگ کا پرچم لہرایا گیا!

    جب فرید آباد میں مسلم لیگ کا پرچم لہرایا گیا!

    فرید آباد میں مسلمان اقلیت میں تھے، لیکن مطلبی اور ہاشمی کا اتنا دبدبہ اور اثر تھا کہ وہاں کے ہندوؤں کا فرید آباد کے مسلمان اور بالخصوص خاندان ہاشمی کے افراد کو ”میاں جی“ اور ”مولوی صاحب“ کہتے ہوئے منہ خشک ہوتا تھا۔

    حق یوں ہے کہ یہ ہر سہ برادران گرامی کے اقبال کا کرشمہ تھا کہ فرید آباد جیسی چھوٹی سی بستی میں جناب ہاشمی صاحب کے ہاتھوں مسلم لیگ کا پرچم لہرایا گیا، ترانے پڑھے گئے۔ اس طرح فرید آباد کی یہ چھوٹی سی سرزمین مسلم لیگ، قائد اعظم، اردو زبان زندہ باد اور ”لے کر رہیں گے پاکستان“ کے فلک شگاف نعروں سے گونج اٹھی۔

    مغرب کی نماز کے بعد فرید آباد کی جامع مسجد میں ایک شان دار جلسہ منعقد ہوا۔ نمازیوں کے علاوہ فرید آباد کے بیشتر مسلمان وہاں پہلو بہ پہلو سر جوڑ کر بیٹھے ہوئے تھے۔

    تلاوتِ کلامِ پاک کے بعد میں نے اقبال کی مشہور نظم ”طلوعِ اسلام، سے ”خدائے لم یزل کا دستِ قدرت، تُو زبان تُو ہے“ والا ایک بند پڑھا، اتفاق سے میں ایک شعر کا مصرع غلط پڑھ گیا۔

    ہاشمی صاحب نے جو پہلی ہی صف میں تشریف رکھتے تھے مجھے نہ ٹوکنے کے انداز میں اس طرح ٹوکا ”واہ سبحان اللہ مکرر پڑھیے۔“ ناخواندہ عوام نے میری اس غلطی کو محسوس کیا یا نہیں، لیکن دوبارہ میں نے اس شعر کو بالکل صحیح اور زیادہ ترنم کے ساتھ پڑھا اور پھر کئی بار اسی شعر کو نعرہ اللہ اکبر کی گونج میں پڑھنا پڑا۔

    دوسرے دن صبح تمام کارکن فرید آباد میں مسلم لیگ کا جھنڈا گاڑ کر دہلی رخصت ہوئے۔ ہاشمی صاحب، ابو تمیم اور چند اہلِ فرید آباد ہمیں بس اسٹاپ تک چھوڑنے کے لیے آئے۔

    الغرض پاکستان وجود میں آیا، لیکن حروفِ آزادی کی طرح منتشر اور پراگندہ، علم و ادب کے گہواروں، تہذیب و تمدن کے سرچشموں سے محروم، دلی غائب، لکھنؤ ندارد، اکبر آباد گم، حیدرآباد دکن غتر بود، پنجاب و بنگال بود و نابود۔

    (ممتاز علمی و ادبی شخصیت سید ہاشمی فرید آبادی کے متعلق سید یوسف بخاری دہلوی کی یادوں سے ایک ورق)