Tag: یوسف ناظم

  • انتساب

    انتساب

    ادب میں بہت سی چیزیں ایسی ہیں جن کی نوعیت غیر قانونی نہ سہی، مشتبہ ضرور ہے۔ انھیں میں سے ایک انتساب ہے۔

    انتساب نہ تو کوئی صنفِ ادب ہے نہ ادب کی کوئی شاخ (شاخسانہ ضرور ہے۔) اردو میں انتساب کو آئے ہوئے زیادہ عرصہ نہیں گزرا۔ یہ دورِ مغلیہ کے بعد کی چیز معلوم ہوتی ہے۔ بہت زیادہ قدیم ہوتی تو اب تک متروک ہو جاتی۔ متروک نہ ہوتی تو مکروہات میں ضرور شمار ہونے لگتی۔ آج بھی ایسے لوگ موجود ہیں۔ جنہوں نے اچھے دن دیکھے تھے۔ ان دنوں انتساب نہیں ہوا کرتا تھا۔ لوگ خوشی خوشی کتابیں پڑھا کرتے تھے (اس زمانے میں کتابیں تھیں بھی کم۔) انتساب کی تحریک، پڑھے لکھے لوگوں کی اجازت بلکہ ان کے علم و اطلاع کے بغیر اچانک شروع ہوئی اور جب یہ شروع ہوئی اس وقت کسی کے ذہن میں یہ خیال بھی نہیں آیا کہ آگے چل کر یہ اتنی خطرناک صورت اختیار کرے گی کہ صرف انتساب کی خاطر کتابیں لکھی جانے لگیں گی اور ان کے شائع کیے جانے کے لیے متعلقہ لوگ جان کی بازی لگا دیں گے۔

    انتساب کو ادب میں اب وہی مقام حاصل ہے جو سترھویں صدی میں شہنشاہ اکبر کے دربار میں بیربل اور راجا ٹوڈر مل کو حاصل تھا۔ بیربل اور ٹوڈر مل کے فرائضِ منصبی ایک دوسرے سے بالکل مختلف تھے اور مزاجاً بھی ان دونوں میں کوئی چیز مشترک نہیں تھی۔ اسی لیے ان دونوں کا نام ایک ساتھ لیا گیا۔ انتساب بھی اپنے صفات کے اعتبار سے اتنے ہی مختلف اور متضاد ہوتے ہیں۔

    ادب کے نصاب میں انتساب اگرچہ اختیاری مضمون ہے لیکن بے انتساب کتاب اس موسیقار کی طرح ہوتی ہے جو سُر میں نہ ہو۔ آج بھی اکثر کتابیں یوں ہی چھپ جاتی ہیں۔ یوں ہی سے مراد ایسی جن میں صفحۂ انتساب نہیں ہوتا۔ یہ بھی کوئی بات ہوئی۔ صفحۂ انتساب موجود نہ ہو تو قاری کے ذہن میں پہلی بات یہ آتی ہے کہ مصنف میں قوتِ فیصلہ کا فقدان ہے۔ یہ تو نہیں کہا جاسکتا کہ اپنی تصنیفِ لطیف کو کسی کے نام معنون نہ کر کے مصنف نے کسی کا حق غصب کیا ہے لیکن اسے تساہل تو کہا ہی جاسکتا ہے۔ ایک ادیب میں قوتِ فیصلہ ہونی ہی چاہئے۔ بہت سے ادیب تو اپنے انتسابوں کی وجہ سے پہچانے جاتے اور ترقی کرتے ہیں۔ (انتساب کا کچھ نہ کچھ نتیجہ تو نکلتا ہی ہے) مشکل یہ بھی ہو گئی ہے کہ اگرکتاب میں صفحۂ انتساب نہ ہو تو اسے بداخلاقی بلکہ بدنیتی سمجھا جانے لگا ہے۔ (مری تعمیر میں مضمر ہے اک صورت خرابی کی)

    انتساب ہر کسی کے استعمال کی چیز نہیں ہے۔ اس کے لیے ذرا ترقی کرنی پڑتی ہے۔ مضمون، افسانے، غزل یا رباعی کا انتساب نہیں ہوا کرتا۔ تہنیتی اور تعزیتی قطعات جن کے آخری مصرعے سے کسی واقعے یا سانحے کی تاریخ نکلتی ہو (صحیح یا غلط)، انتساب کی تعریف میں نہیں آتے۔ خود قصیدہ بھی جو کافی طویل اور سوائے ممدوح کے دوسروں کے لیے صبرآزما ہوتا ہے۔

    انتساب تو ایک نازک چیز ہوتی ہے اور اہم بھی۔ اس کے لیے پوری ایک کتاب لکھنی پڑتی ہے۔ اس میں ضخامت کی کوئی قید نہیں۔ اگر وہ کتاب نہیں صرف کتابچہ ہے تب بھی اس کا انتساب جائز ہے۔ صندوق اور صندوقچے میں کیا فرق ہے؟ کوئی فرق نہیں۔ بلکہ صندوقچہ زیادہ قیمتی چیزوں کے لیے استعمال ہوتا ہے۔

    انتساب اور نذرمیں بڑا فرق ہے۔ نذر بظاہر انتساب سے ملتی جلتی چیز معلوم ہوتی ہے لیکن اسے زیادہ سے زیادہ انتساب کی طرف پہلا قدم سمجھا جا سکتا ہے۔ کچھ شاعر اپنی ایک مختصر سی غزل جس میں پورے 7 شعر بھی نہیں ہوتے۔ کسی پرچے میں چھپواتے وقت اسے اپنے سے ایک سینئر شاعر کے نام نذر کردیتے ہیں، یہ نجی طور پر تو جائز ہے، لیکن اس کی ادبی حیثیت صفر سے بھی کچھ کم ہوتی ہے۔ شاعر تو مشاعروں میں اپنا کلام سنانے کے دوران بھی اپنے اشعار(ظاہر ہے انھیں کے ہوتے ہوں گے) مختلف سامعین (جنھیں وہ اپنی دانست میں معززین سمجھتے ہیں) کی نذر کرتے رہتے ہیں اور کسی دوسرے مشاعرے میں وہی نذر شدہ اشعار بانیانِ مشاعرہ میں سے کسی اور کی خدمت میں پیش کیے جاتے ہیں۔ اسے انتساب سے کیا تعلق ہوسکتا ہے۔ اسے نذر کہنا بھی خوش اخلاقی ہے۔ یہ صرف ایک عادت ہے جو مصالحِ انتظامی کی بنا پر اختیار کی جاتی ہے اور یہ رفتہ رفتہ اتنی جڑ پکڑ لیتی ہے کہ شاعر سے صرف اسی وقت چھوٹتی ہے جب اس کا مشاعروں میں آنا جانا موقوف ہوجاتا ہے۔

    اس کے برخلاف انتساب یوں جگہ جگہ استعمال کرنے کی چیز نہیں ہے بلکہ اس کی ایک مستقل اور دائم حیثیت ہے، یعنی اگر اتفاق سے (جسے حسنِ اتفاق نہیں کہا جاسکتا) کسی کتاب کے دوسرے ایڈیشن کے چھپنے کی نوبت آئے تو اس ایڈیشن میں بھی، سابقہ انتساب حسبِ حال برقرار رہے گا۔ چاہے ممدوح کی وفات ہی کیوں نہ واقع ہو چکی ہو۔ اپنا بیان مع اندازِ بیان اور اپنا کلام مع زورِ کلام کسی حد تک واپس لیا جاسکتا ہے لیکن ایک مرتبہ کے کیے ہوئے انتساب پر ہاتھ نہیں ڈالا جاسکتا، یہ کمان سے نکلے ہوئے تیر کی طرح ہوتا ہے۔

    انتساب کی کئی قسمیں ہوتی ہیں۔ جتنی تصنیفات اتنی ہی قسمیں، لیکن سہولت کی خاطر انھیں چند قسموں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ تقسیم کا عمل ان دنوں بہت ضروری ہے اور اسے مجلسِ اقوام متحدہ کی تائید حاصل ہے۔

    انتساب کی موٹی موٹی قسمیں یہ ہیں۔

    حروف تہجی کے نام
    اس انتساب میں قارئین کو پتا نہیں چلتا کہ اس تصنیف کا اشارہ کس کی طرف ہے۔ اس کا فیض مصنف اور ممدوح کی حد تک محدود رہتا ہے۔ ان دونوں کے قریبی دوستوں اور چند مخصوص سہیلیوں کو البتہ اس بات کی اطلاع ہوتی ہے کہ اس حروف تہجی کے پردہ نگاری کے پیچھے کون چھپا ہوا ہے۔ یہ بات آہستہ آہستہ کوٹھوں چڑھتی ہے۔ (اب تو لفٹ کی بھی سہولت موجود ہے۔)

    ایسی کوئی کتاب جس کا انتساب حرف الف کے نام کیا گیا ہو ہماری نظر سے نہیں گزری، لیکن کہیں نہ کہیں کوئی ضرور۔ ’ب‘ کا انتساب ہم نے ضرور دیکھا ہے۔ غالباً یہ کوئی مجموعۂ کلام تھا۔ اسی طرح سب تو نہیں لیکن کئی حروف تہجی انتساب میں کارآمد ثابت ہوئے ہیں۔ مثال کے طور پر سلام بن رزاق کی کتاب ’ع‘ کے نام ہے۔ اب یہ ’ع‘ ظاہر ہے عبدالسلام یا عبیداللہ نہیں ہوسکتے۔ ان دونوں میں سے کوئی ہوتے تو علی الاعلان سامنے آتے۔ حروف تہجی کے انتساب ہمیں بہرحال پسند ہیں۔ ہندستان میں تھوڑا بہت پردہ ابھی باقی ہے۔

    بے نام کے انتساب
    اس قسم کے انتساب بھی مقبول ہیں اور ان میں مصنف ذرا سی محنت کرے تو بڑی نزاکتیں پیدا کر سکتا ہے۔ اکثر مصنفین اس میں بہت کامیاب ہوئے ہیں۔ بشر نواز نے جب اپنا مجموعۂ کلام ’رائیگاں‘ شائع کیا تو اس کا انتساب اس طرح کیا، ’’نام پر اس حسین کے، جس کا نام نیلگوں آسمان کے صفحے پر روشنی کے قلم نے لکھا ہے۔ ’’

    یقین کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ یہ انتساب رائیگاں نہیں کیا ہوگا۔

    بے نام کے انتساب کا اشارہ کئی لوگوں کی طرف بھی ہوسکتا ہے جن کی شناخت ایک مسئلہ بن سکتی ہے۔ شمس الرحمن فاروقی نے جب اپنی کتاب ’نئے افسانہ نگاروں کے نام‘ معنون کی تو کئی افسانہ نگار جو کافی پرانے تھے اس انتساب کی خاطر نئے بن گئے (حالانکہ ادب میں دل بدلی ہوتی نہیں ہے) ایک نوجوان نے تو ہر کسی سے پوچھنا شروع کردیا کہ کیا آپ نے فاروقی صاحب کی وہ کتاب ’افسانے کی حمایت میں‘ پڑھی ہے جس کا انتساب میرے نام ہے۔ ایک اور نوجوان چار قدم اور آگے نکل گئے اور فرمایا کہ اب جب کہ میرے نام یہ کتاب معنون ہی کردی گئی ہے تو میں بھی افسانے لکھنے پر مجبور ہوگیا ہوں۔ کسی دن لکھ ڈالوں گا کیوں کہ پلاٹ کی ضرورت تو ہے ہی نہیں۔

    اسی طرح بلراج کو مل نے اپنی ’نژاد سنگ‘ بچھڑے ہوئے دوستوں کے نام معنون کی ہے اور آج کل بچھڑے ہوئے دوستوں کی تعداد ’جاریہ‘ دوستوں سے کچھ زیادہ ہی ہے۔ شناخت دونوں کی مشکل ہے۔ یوں بھی اب دوست ایک ہی جگہ رہتے ہیں لیکن بچھڑے رہتے ہیں۔ یہ خاموش ادبی معرکہ ہوتا ہے۔

    غلام ربانی تاباں نے ’ذوقِ سفر‘ کا انتساب اس طرح کیا ہے، ’’میرے وہ دوست جنھیں میری شاعری پسند ہے اب اس بوجھ کو سنبھالیں۔ انھیں کے نام یہ کتاب معنون کرتا ہوں۔‘‘ اس انتساب میں بھی شناخت مشکل ہے۔ کوئی آگے بڑھ کر نہیں کہتا کہ یہ کتاب میرے نام ہے۔

    انگریزی کی ایک کتاب کا انتساب البتہ کچھ اس طرح کا تھا، ’’اپنی بیوی کے نام جو اس کتاب کی اشاعت میں اگر میرا ہاتھ نہ بٹاتیں تو یہ کتاب آج سے 5 سال پہلے چھپ جاتی۔‘‘

    (اردو کے ممتاز ادیب اور مشہور طنز و مزاح نگار یوسف ناظم کے مضمون سے شگفتہ پارے)

  • مشاعروں میں ہوٹنگ کے ‘فوائد’

    مشاعروں میں ہوٹنگ کے ‘فوائد’

    مشاعرے تو بہت ہوتے ہیں، لیکن ہر مشاعرہ کام یاب نہیں ہوتا اور صرف کام یابی بھی کافی نہیں ہوتی۔ مشاعرہ اچّھے نمبروں سے کام یاب ہونا چاہیے۔ ایسی ہی کام یابی سے مشاعروں کا مستقبل روشن ہوتا ہے۔ مشاعروں کی کام یابی کا انحصار اب ہوٹنگ پر ہے۔ ہوٹنگ معرکے کی ہوگی تو مشاعرہ بھی معرکۃ الآرا ہوگا۔

    دیکھا گیا ہے کہ بڑے شہروں میں جہاں تعلیم یافتہ لوگ زیادہ پائے جاتے ہیں ہوٹنگ کا معیار اچھا خاصا ہے، لیکن اضلاع کے سامعین ہوٹنگ کے معاملے میں ابھی پسماندہ ہیں۔ بعض اضلاع میں اس کا معیار ٹھیک رہا ہے، لیکن اس سلسلے میں ابھی انہیں بہت کام کرنا ہے۔ مشاعروں کے سیزن میں اضلاع کے کچھ مندوبین کو بڑے شہروں کے مشاعروں میں حاضر رہنا چاہیے۔

    مشاعرہ ورک شاپ میں حصہ لیے بغیر اچھی ہوٹنگ نہیں آتی۔ بڑے شہروں میں تو بعض مشاعرے ایسے بھی ہوئے ہیں کہ مشاعرے کے دوسرے دن مشاعرہ گاہ کی چھت کی مرمت کروانی پڑی ہے، اس لیے اب زیرِ سما مشاعروں کا رواج بڑھتا جارہا ہے۔ زیرِ سما مشاعروں میں، شاعر تو نہیں لیکن سامعین سماں باندھ دیتے ہیں۔ ایک زمانہ تھا جب مشاعروں میں شاعروں کے کلام کا مقابلہ ہوتا ہے، اب سامعین کے کمال کا مقابلہ ہوتا ہے۔ مشاعرے بھی ٹکٹ سے ہونے لگے ہیں جو ایک لحاظ سے اچھی بات ہے۔

    صحیح معنوں میں مشاعرہ وہ ہوتا ہے جب مشاعرہ گاہ میں زندگی رواں دواں ہو، مشاعرہ گاہ میں کیفیت کچھ ایسی ہونی چاہیے، جس سے یہ معلوم ہو کہ شاعروں کو سننے سامعین نہیں آئے، سامعین کا مورچہ آیا ہوا ہے۔ خوب صورت پنڈال جگمگاتا شہ نشین اور جگہ جگہ ایک ہزار کینڈل پاور کے قمقمے یہ سب بیکار ہیں۔ اصل چیز ہے ہوٹنگ۔ مشاعروں میں یہ نہ ہو تو منتظمینِ مشاعرہ مایوس ہوجاتے ہیں۔ ان کے سارے کیے کرائے پر پانی پِھر جاتا ہے۔

    مشاعروں میں ہوٹنگ کی ابتدا کب اور کہاں ہوئی اس کے بارے میں مختلف روایتیں ہیں، لیکن یہ ضرور کہا جاسکتا ہے کہ مشاعرہ خود اور مشاعرے کے دیگر لوازمات (جن میں ہوٹنگ شامل ہے) شمالی ہند کی دین ہیں۔ البتہ یہ کہنا مشکل ہے کہ اس کی رسمِ اجرا کہاں انجام دی گئی۔ تحقیق اس بات کی کرنی چاہیے کہ ٹکٹ سے پہلا مشاعرہ کس جگہ منعقد ہوا؟ اسی مشاعرے میں سامعین نے شور مچایا ہوگا۔ اسی احتجاج نے بعد میں ہوٹنگ کی شکل اختیار کی۔

    ہوٹنگ اب شوق یا شغل نہیں ہے، ایک فن ہے اور اس میں بھی وہی صنائع بدائع ہونے چاہییں جو شاعری میں مستعمل ہیں۔ ہوٹنگ میں اسقام کا پایا جانا معیوب ہے۔ کچھ لوگوں نے عملی تنقید کی طرح عملی ہوٹنگ کی بھی کوشش کی ہے اور بعض مقامات پر شاعروں کی سرکوبی کے لیے عملی ہوٹنگ سے کام لیا گیا ہے، لیکن ان وارداتوں میں ‘ایلڈرس’ نے کبھی حصّہ نہیں لیا۔ ان وارداتوں کو ‘یوتھ فیسٹول’ سمجھ کر شاعروں کی تاریخ سے حذف کردینا چاہیے۔

    ہوٹنگ دل چسپی کی چیز ہے، دل شکنی کاحربہ نہیں۔ اسی لیے عملی ہوٹنگ مقبول نہیں ہوسکی۔ مشاعروں میں آلات و ظروف استعمال نہیں کیے جاسکتے۔ میونسپل کارپوریشن کے اجلاس کی بات اور ہوتی ہے۔

    (یوسف ناظم کا تعلق بھارت سے تھا، ان کا شمار اردو کے معروف طنز و مزاح نگاروں میں ہوتا ہے، پیشِ نظر مقتَباسات یوسف ناظم کے شگفتہ مضمون کے ہیں)

  • لمحہ لمحہ بدلنے والی تین چیزیں

    لمحہ لمحہ بدلنے والی تین چیزیں

    دنیا کی یوں تو سبھی چیزیں بدلتی رہتی ہیں، کیوں کہ دنیا کا انتظام انسانوں کے ہاتھ میں ہے اور ہم انسان اس بات کے قائل نہیں کہ دنیا اسی ڈھب پر چلتی رہے جس ڈھب پر سورج، چاند، ستارے اور ہوا جیسی چیزیں چلتی آرہی ہیں۔

    سورج وہی اپنی قدیم رفتار پر قائم ہے، نہ تو اس کے قد و قامت، جسامت اور ضخامت میں کوئی تبدیلی ہوئی ہے اور نہ اس کی مشرق کی طرف سے طلوع ہونے کی عادت بدلی ہے۔ مغرب نے سائنس وغیرہ کے معاملے میں اتنی ترقّی کرلی لیکن سورج نے اس ترقّی اور مغربی ممالک کے بڑھتے اقتدار کی کوئی پروا نہیں کی۔ یہی حال چاند ستاروں کا ہے۔ ہوا بھی ویسی کی ویسی ہی ہے، جیسی کہ پہلے تھی۔

    اس میں آلودگی ذرا زیادہ ہوئی ہے، لیکن یہ کوئی خاص تبدیلی نہیں ہے، لیکن دنیا کی ہر چیز تغیر پذیر ہے۔ خود آدمی بھی اب اتنا بدل گیا ہے کہ پتا نہیں چلتا کہ یہ آدمی ہے بھی یا نہیں۔

    جہاں تک رفتار کا تعلق ہے، دنیا کی تین چیزیں ایسی ہیں جن کے بارے میں کہا نہیں جاسکتا کہ یہ کس لمحہ بدل جائیں گی۔ لمحہ لمحہ بدلنے والی ان تین چیزوں میں پہلی چیز ہے قیمتیں۔ قیمتیں چاہے آلو کی ہوں یا رتالو کی۔ چولھے کی ہوں یا دولھے کی، زر کی ہوں یا زمین کی، اس قدر تیزی سے بدلنے لگی ہیں کہ زمین کے سودے کی بات چیت ختم ہونے سے پہلے زمین کی قیمت میں دس بیس فی صد کا اضافہ ہو جاتا ہے۔

    دوسری چیز ہے عورتوں کا مزاج، یہ بھی کچھ کم تیزی سے نہیں بدلتا۔ ہمارے یہاں تو خیر ابھی بیسویں صدی کے آخری دہوں میں بھی غنیمت ہے کہ خواتین کسی اور بات کا نہ سہی، کم سے کم ازدواجی رشتوں کا تھوڑا بہت لحاظ کرتی ہیں، ورنہ دنیا میں ایسے کئی ملک موجود ہیں جہاں کی رہنے بسنے والی خواتین اس تیزی سے ان رشتوں کو بدلتی ہیں کہ مردوں کے فرشتوں کو بھی ان کے منصوبوں کی اطلاع نہیں ملتی۔ کبھی کبھی تو ایسا ہوتا ہے کہ عدالت میں جب جج محترم قانون کے حق میں فیصلہ لکھنے کے لیے قلم اٹھاتا ہے تو یہ محترمہ اپنا فیصلہ بدل دیتی ہیں اور عدالت سے درخواست کرتی ہیں کہ وہ ملزم کو یعنی اُن کے شوہر کو راہِ راست پر آنے کے لیے چند دنوں کی مہلت عطا کرے۔

    ہمارے یہاں عورتوں کے مزاج اس تیزی سے نہیں بدلتے۔ ان کے مزاج میں پہلے صرف رچاؤ تھا، اب ٹھہراؤ آگیا ہے۔ اس تبدیلی کی وجہ شاید یہ ہے کہ عورتوں کو اب مردوں پر فوقیت حاصل ہوگئی ہے۔ برابری کا درجہ تو حاصل تھا ہی، عورتیں اب سماج سدھار اور سیاست میں حصّہ لینے لگی ہیں حالاں کہ سماج سدھار اور سیاست دو الگ چیزیں ہیں۔

    عورتوں کو اس سے تعلق ہے بھی نہیں کہ کون سی چیز مفید ہے اور کون سی نقصان دہ۔ بیلن اور تھالی لے کر جب وہ شارعِ عام پر نکل آتی ہیں تو سرکار لرزہ براندام ہوجاتی ہے، کیوں کہ عورتوں کو سرکار سے جب بھی کوئی مطالبہ کرنا ہوتا ہے وہ اتنے سخت لہجے میں مطالبہ کرتی ہیں کہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ سرکارسے نہیں اپنے گھر میں اپنے شوہر سے مخاطب ہیں۔ عورتوں کے اسی لب و لہجہ کو شاعروں نے سراہا ہے۔

    کہا جاتا ہے عورتوں کا مزاج، باورچی خانے میں بھی قابو میں نہیں رہتا۔ ویسے تو عام طور پر عورتوں نے کھانا پکانا ہی ترک کردیا ہے، لیکن جنھوں نے ترقّی کی اس منزل پر قدم نہیں رکھا ہے جب بھی کھانا پکاتی ہیں اپنا منصوبہ ہر دوسرے لمحے بدل دیتی ہیں۔

    کسی ایک پراجیکٹ پر کام کرنا ان سے ہو نہیں سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ جب ان کی تیّار کی ہوئی ڈش کھانے کی میز پر پہنچتی ہے تو پہچاننا دشوار ہو جاتا ہے کہ یہ غذا ہے یا راتب۔ شوہر اس غذا کو اس لیے قبول کرلیتا ہے کہ وہ اس سے زیادہ کڑی سزا برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔

    (طنز و مزاح نگاری میں ممتاز یوسف ناظم کے شگفتہ مضمون فیشن سے اقتباس)