Tag: یوسف ناظم کی تحریریں

  • انتساب

    انتساب

    ادب میں بہت سی چیزیں ایسی ہیں جن کی نوعیت غیر قانونی نہ سہی، مشتبہ ضرور ہے۔ انھیں میں سے ایک انتساب ہے۔

    انتساب نہ تو کوئی صنفِ ادب ہے نہ ادب کی کوئی شاخ (شاخسانہ ضرور ہے۔) اردو میں انتساب کو آئے ہوئے زیادہ عرصہ نہیں گزرا۔ یہ دورِ مغلیہ کے بعد کی چیز معلوم ہوتی ہے۔ بہت زیادہ قدیم ہوتی تو اب تک متروک ہو جاتی۔ متروک نہ ہوتی تو مکروہات میں ضرور شمار ہونے لگتی۔ آج بھی ایسے لوگ موجود ہیں۔ جنہوں نے اچھے دن دیکھے تھے۔ ان دنوں انتساب نہیں ہوا کرتا تھا۔ لوگ خوشی خوشی کتابیں پڑھا کرتے تھے (اس زمانے میں کتابیں تھیں بھی کم۔) انتساب کی تحریک، پڑھے لکھے لوگوں کی اجازت بلکہ ان کے علم و اطلاع کے بغیر اچانک شروع ہوئی اور جب یہ شروع ہوئی اس وقت کسی کے ذہن میں یہ خیال بھی نہیں آیا کہ آگے چل کر یہ اتنی خطرناک صورت اختیار کرے گی کہ صرف انتساب کی خاطر کتابیں لکھی جانے لگیں گی اور ان کے شائع کیے جانے کے لیے متعلقہ لوگ جان کی بازی لگا دیں گے۔

    انتساب کو ادب میں اب وہی مقام حاصل ہے جو سترھویں صدی میں شہنشاہ اکبر کے دربار میں بیربل اور راجا ٹوڈر مل کو حاصل تھا۔ بیربل اور ٹوڈر مل کے فرائضِ منصبی ایک دوسرے سے بالکل مختلف تھے اور مزاجاً بھی ان دونوں میں کوئی چیز مشترک نہیں تھی۔ اسی لیے ان دونوں کا نام ایک ساتھ لیا گیا۔ انتساب بھی اپنے صفات کے اعتبار سے اتنے ہی مختلف اور متضاد ہوتے ہیں۔

    ادب کے نصاب میں انتساب اگرچہ اختیاری مضمون ہے لیکن بے انتساب کتاب اس موسیقار کی طرح ہوتی ہے جو سُر میں نہ ہو۔ آج بھی اکثر کتابیں یوں ہی چھپ جاتی ہیں۔ یوں ہی سے مراد ایسی جن میں صفحۂ انتساب نہیں ہوتا۔ یہ بھی کوئی بات ہوئی۔ صفحۂ انتساب موجود نہ ہو تو قاری کے ذہن میں پہلی بات یہ آتی ہے کہ مصنف میں قوتِ فیصلہ کا فقدان ہے۔ یہ تو نہیں کہا جاسکتا کہ اپنی تصنیفِ لطیف کو کسی کے نام معنون نہ کر کے مصنف نے کسی کا حق غصب کیا ہے لیکن اسے تساہل تو کہا ہی جاسکتا ہے۔ ایک ادیب میں قوتِ فیصلہ ہونی ہی چاہئے۔ بہت سے ادیب تو اپنے انتسابوں کی وجہ سے پہچانے جاتے اور ترقی کرتے ہیں۔ (انتساب کا کچھ نہ کچھ نتیجہ تو نکلتا ہی ہے) مشکل یہ بھی ہو گئی ہے کہ اگرکتاب میں صفحۂ انتساب نہ ہو تو اسے بداخلاقی بلکہ بدنیتی سمجھا جانے لگا ہے۔ (مری تعمیر میں مضمر ہے اک صورت خرابی کی)

    انتساب ہر کسی کے استعمال کی چیز نہیں ہے۔ اس کے لیے ذرا ترقی کرنی پڑتی ہے۔ مضمون، افسانے، غزل یا رباعی کا انتساب نہیں ہوا کرتا۔ تہنیتی اور تعزیتی قطعات جن کے آخری مصرعے سے کسی واقعے یا سانحے کی تاریخ نکلتی ہو (صحیح یا غلط)، انتساب کی تعریف میں نہیں آتے۔ خود قصیدہ بھی جو کافی طویل اور سوائے ممدوح کے دوسروں کے لیے صبرآزما ہوتا ہے۔

    انتساب تو ایک نازک چیز ہوتی ہے اور اہم بھی۔ اس کے لیے پوری ایک کتاب لکھنی پڑتی ہے۔ اس میں ضخامت کی کوئی قید نہیں۔ اگر وہ کتاب نہیں صرف کتابچہ ہے تب بھی اس کا انتساب جائز ہے۔ صندوق اور صندوقچے میں کیا فرق ہے؟ کوئی فرق نہیں۔ بلکہ صندوقچہ زیادہ قیمتی چیزوں کے لیے استعمال ہوتا ہے۔

    انتساب اور نذرمیں بڑا فرق ہے۔ نذر بظاہر انتساب سے ملتی جلتی چیز معلوم ہوتی ہے لیکن اسے زیادہ سے زیادہ انتساب کی طرف پہلا قدم سمجھا جا سکتا ہے۔ کچھ شاعر اپنی ایک مختصر سی غزل جس میں پورے 7 شعر بھی نہیں ہوتے۔ کسی پرچے میں چھپواتے وقت اسے اپنے سے ایک سینئر شاعر کے نام نذر کردیتے ہیں، یہ نجی طور پر تو جائز ہے، لیکن اس کی ادبی حیثیت صفر سے بھی کچھ کم ہوتی ہے۔ شاعر تو مشاعروں میں اپنا کلام سنانے کے دوران بھی اپنے اشعار(ظاہر ہے انھیں کے ہوتے ہوں گے) مختلف سامعین (جنھیں وہ اپنی دانست میں معززین سمجھتے ہیں) کی نذر کرتے رہتے ہیں اور کسی دوسرے مشاعرے میں وہی نذر شدہ اشعار بانیانِ مشاعرہ میں سے کسی اور کی خدمت میں پیش کیے جاتے ہیں۔ اسے انتساب سے کیا تعلق ہوسکتا ہے۔ اسے نذر کہنا بھی خوش اخلاقی ہے۔ یہ صرف ایک عادت ہے جو مصالحِ انتظامی کی بنا پر اختیار کی جاتی ہے اور یہ رفتہ رفتہ اتنی جڑ پکڑ لیتی ہے کہ شاعر سے صرف اسی وقت چھوٹتی ہے جب اس کا مشاعروں میں آنا جانا موقوف ہوجاتا ہے۔

    اس کے برخلاف انتساب یوں جگہ جگہ استعمال کرنے کی چیز نہیں ہے بلکہ اس کی ایک مستقل اور دائم حیثیت ہے، یعنی اگر اتفاق سے (جسے حسنِ اتفاق نہیں کہا جاسکتا) کسی کتاب کے دوسرے ایڈیشن کے چھپنے کی نوبت آئے تو اس ایڈیشن میں بھی، سابقہ انتساب حسبِ حال برقرار رہے گا۔ چاہے ممدوح کی وفات ہی کیوں نہ واقع ہو چکی ہو۔ اپنا بیان مع اندازِ بیان اور اپنا کلام مع زورِ کلام کسی حد تک واپس لیا جاسکتا ہے لیکن ایک مرتبہ کے کیے ہوئے انتساب پر ہاتھ نہیں ڈالا جاسکتا، یہ کمان سے نکلے ہوئے تیر کی طرح ہوتا ہے۔

    انتساب کی کئی قسمیں ہوتی ہیں۔ جتنی تصنیفات اتنی ہی قسمیں، لیکن سہولت کی خاطر انھیں چند قسموں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ تقسیم کا عمل ان دنوں بہت ضروری ہے اور اسے مجلسِ اقوام متحدہ کی تائید حاصل ہے۔

    انتساب کی موٹی موٹی قسمیں یہ ہیں۔

    حروف تہجی کے نام
    اس انتساب میں قارئین کو پتا نہیں چلتا کہ اس تصنیف کا اشارہ کس کی طرف ہے۔ اس کا فیض مصنف اور ممدوح کی حد تک محدود رہتا ہے۔ ان دونوں کے قریبی دوستوں اور چند مخصوص سہیلیوں کو البتہ اس بات کی اطلاع ہوتی ہے کہ اس حروف تہجی کے پردہ نگاری کے پیچھے کون چھپا ہوا ہے۔ یہ بات آہستہ آہستہ کوٹھوں چڑھتی ہے۔ (اب تو لفٹ کی بھی سہولت موجود ہے۔)

    ایسی کوئی کتاب جس کا انتساب حرف الف کے نام کیا گیا ہو ہماری نظر سے نہیں گزری، لیکن کہیں نہ کہیں کوئی ضرور۔ ’ب‘ کا انتساب ہم نے ضرور دیکھا ہے۔ غالباً یہ کوئی مجموعۂ کلام تھا۔ اسی طرح سب تو نہیں لیکن کئی حروف تہجی انتساب میں کارآمد ثابت ہوئے ہیں۔ مثال کے طور پر سلام بن رزاق کی کتاب ’ع‘ کے نام ہے۔ اب یہ ’ع‘ ظاہر ہے عبدالسلام یا عبیداللہ نہیں ہوسکتے۔ ان دونوں میں سے کوئی ہوتے تو علی الاعلان سامنے آتے۔ حروف تہجی کے انتساب ہمیں بہرحال پسند ہیں۔ ہندستان میں تھوڑا بہت پردہ ابھی باقی ہے۔

    بے نام کے انتساب
    اس قسم کے انتساب بھی مقبول ہیں اور ان میں مصنف ذرا سی محنت کرے تو بڑی نزاکتیں پیدا کر سکتا ہے۔ اکثر مصنفین اس میں بہت کامیاب ہوئے ہیں۔ بشر نواز نے جب اپنا مجموعۂ کلام ’رائیگاں‘ شائع کیا تو اس کا انتساب اس طرح کیا، ’’نام پر اس حسین کے، جس کا نام نیلگوں آسمان کے صفحے پر روشنی کے قلم نے لکھا ہے۔ ’’

    یقین کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ یہ انتساب رائیگاں نہیں کیا ہوگا۔

    بے نام کے انتساب کا اشارہ کئی لوگوں کی طرف بھی ہوسکتا ہے جن کی شناخت ایک مسئلہ بن سکتی ہے۔ شمس الرحمن فاروقی نے جب اپنی کتاب ’نئے افسانہ نگاروں کے نام‘ معنون کی تو کئی افسانہ نگار جو کافی پرانے تھے اس انتساب کی خاطر نئے بن گئے (حالانکہ ادب میں دل بدلی ہوتی نہیں ہے) ایک نوجوان نے تو ہر کسی سے پوچھنا شروع کردیا کہ کیا آپ نے فاروقی صاحب کی وہ کتاب ’افسانے کی حمایت میں‘ پڑھی ہے جس کا انتساب میرے نام ہے۔ ایک اور نوجوان چار قدم اور آگے نکل گئے اور فرمایا کہ اب جب کہ میرے نام یہ کتاب معنون ہی کردی گئی ہے تو میں بھی افسانے لکھنے پر مجبور ہوگیا ہوں۔ کسی دن لکھ ڈالوں گا کیوں کہ پلاٹ کی ضرورت تو ہے ہی نہیں۔

    اسی طرح بلراج کو مل نے اپنی ’نژاد سنگ‘ بچھڑے ہوئے دوستوں کے نام معنون کی ہے اور آج کل بچھڑے ہوئے دوستوں کی تعداد ’جاریہ‘ دوستوں سے کچھ زیادہ ہی ہے۔ شناخت دونوں کی مشکل ہے۔ یوں بھی اب دوست ایک ہی جگہ رہتے ہیں لیکن بچھڑے رہتے ہیں۔ یہ خاموش ادبی معرکہ ہوتا ہے۔

    غلام ربانی تاباں نے ’ذوقِ سفر‘ کا انتساب اس طرح کیا ہے، ’’میرے وہ دوست جنھیں میری شاعری پسند ہے اب اس بوجھ کو سنبھالیں۔ انھیں کے نام یہ کتاب معنون کرتا ہوں۔‘‘ اس انتساب میں بھی شناخت مشکل ہے۔ کوئی آگے بڑھ کر نہیں کہتا کہ یہ کتاب میرے نام ہے۔

    انگریزی کی ایک کتاب کا انتساب البتہ کچھ اس طرح کا تھا، ’’اپنی بیوی کے نام جو اس کتاب کی اشاعت میں اگر میرا ہاتھ نہ بٹاتیں تو یہ کتاب آج سے 5 سال پہلے چھپ جاتی۔‘‘

    (اردو کے ممتاز ادیب اور مشہور طنز و مزاح نگار یوسف ناظم کے مضمون سے شگفتہ پارے)

  • خوش نصیب ملک!

    دنیا میں کوئی ایسا خوش نصیب ملک نہیں ہے جہاں ادیب پیدا نہ ہوتے ہوں۔

    بہت سے ملک ایسے ہوتے ہیں، جہاں ادیبوں کو فرش وغیرہ پر بیٹھنے نہیں دیا جاتا۔ انہیں وہاں کے لوگ ہمیشہ سر آنکھوں پر بٹھائے رکھتے ہیں۔ ان ادیبوں کو بھی لوگوں کے سروں پر بیٹھے رہنے کی اتنی عادت ہوتی ہے کہ پھر یہ کہیں اور بیٹھ ہی نہیں سکتے۔ بہت سے ملک ایسے بھی ہوتے ہیں، جہاں ادیبوں کو ہاتھوں ہاتھ لیا جاتا ہے اور ان کا بچا کھچا حصّہ ان کے ورثا کو بڑی مشکل سے واپس ملتا ہے، بلکہ بعض صورتوں میں تو یہ حصّہ بھی میونسپلٹی کے حصّے میں آتا ہے۔ اب یہ ادیب کی قسمت پر منحصر ہے کہ وہ کہاں پیدا ہوتا ہے۔ اگر اس کے ہاتھ کی لکیریں اچھی ہیں اور اس کے والدین سعادت مند ہیں تو یقیناً ایسے ملک میں پیدا ہوا ہو گا، جہاں خرافات لکھنے پر باز پرس نہیں کی جاتی۔

    ادیبوں کے بہت سے حقوق ہوا کرتے ہیں، جن میں سے چند حقوق پیدائشی ہوتے ہیں۔ خرافات لکھنا پیدائشی حقوق کی فہرست میں آتا ہے۔ اچھا ادیب وہ ہوتا ہے، جو دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کر دے۔ دودھ خود پی لے اور پانی اپنے پڑھنے والوں کی خدمت میں پیش کردے۔

    اچھا ادیب اسے بھی مانا گیا ہے جو قلم توڑ دے، اس ادیب کے ساتھ مشکل یہ ہوتی ہے کہ وہ ایک قلم توڑ کر چپ نہیں بیٹھ جاتا، بلکہ دوسرے قلم سے لکھنا شروع کر دیتا ہے اور لوگ کہتے ہیں کہ وہی پہلے والا قلم غنیمت تھا، لیکن جو قلم ٹوٹ گیا، ٹوٹ گیا۔ سمجھدار لوگ اسی دوسرے قلم سے نکلی ہوئی تحریر کو صبر و شکر کے ساتھ سہہ لیتے ہیں اور دعا کرتے ہیں کہ کم سے کم یہ قلم تو نہ ٹوٹے۔ ادیب کو ہمیشہ لگن سے لکھنا چاہیے۔ لوگ چاہے کتنا ہی منع کریں، لکھنے سے کبھی باز نہ آئے۔ لوگ خود ہی عادی ہو جائیں گے۔ یوں بھی لوگوں میں مدافعت کا مادّہ کم ہی ہوتا ہے اور جو کچھ ہوتا ہے، وہ ادیبوں کے مقابلے میں استعمال نہیں کیا جاتا۔ جو ادیب اس سہولت سے فائدہ نہیں اٹھاتے، وہ غبی ہوتے ہیں۔

    ادیبوں کی صحبت کے کئی فائدے ہیں۔ ان میں سے ایک بڑا فائدہ یہ ہے کہ مشتبہ قسم کے لوگ اگر ادیبوں کی صحبت میں بیٹھیں تو انہیں کوئی نہیں پہچان سکتا۔

    عام آدمیوں کی طرح ادیبوں کی بھی دو ٹانگیں ہوتی ہیں۔ لیکن اُن کی ایک ٹانگ ہمیشہ اونچی رہتی ہے۔ غیر ادیبوں کو یہ اعزاز حاصل نہیں ہے۔ مساوات ہر معاملے میں اچھی بھی نہیں معلوم ہوتی۔ ادیب کی اس اونچی ٹانگ کو گھسیٹنا مشکل ہے۔ ادیبوں کی ناک بھی خلافِ معمول اونچی ہوتی ہے اور اس ناک کو اونچا رکھنے کے سلسلے میں ادیب راستہ چلتے وقت نیچے نہیں دیکھا کرتے، البتہ بعد میں صرف یہ دیکھ لیتے ہیں کہ گرنے پر انہیں زیادہ چوٹ تو نہیں لگی۔ ادیب کی ناک پر مکھی بھی نہیں بیٹھ سکتی۔ خود مکھیوں کو بھی اِس قاعدے کا علم ہے اور وہ اپنے بیٹھنے کے لیے کسی اور معقول شخص کی ناک کا انتخاب کرلیتی ہیں۔ آرام دہ نشستوں کی اس وسیع دنیا میں کمی نہیں ہے۔

    پہلے زمانے میں سُنا ہے ادیب پیدائشی ہوا کرتے تھے اور جس گھر میں پیدا ہوجاتے، اس گھر پہلے ہی دن سے رونا پیٹنا شروع ہوجاتا، لیکن اب قدرت کو والدین پر رحم آنے لگا ہے۔ اب ہر گھرمیں صرف آدمی پیدا ہوتے ہیں، البتہ آگے چل کر اُن میں سے کچھ ادیب بن جاتے ہیں۔ اپنے اپنے کرتوت ہیں۔ اس کی ذمہ داری اب قدرت پر نہیں ڈالی جا سکتی۔

    ادیبوں کے پاؤں میں سنیچر ہوتا ہے اور سر میں اتوار، یعنی بالکل چھٹی۔ ادیبوں میں ایک بات اچھی ہوتی ہے کہ یہ جو کچھ لکھتے ہیں، خود نہیں پڑھتے۔ اگر خود پڑھ لیں تو آیندہ کبھی نہ لکھیں۔ یہ اسی سے ڈرتے ہیں اور دوسروں کا لکھا ہوا نہیں پڑھتے۔ اس کے باوجود اگر ان کے خیالات کسی اور کے پراگندہ خیالات سے ٹکرا جائیں تو اس میں ان کا قصور نہیں ہوتا، نظامِ شمسی کا ہوتا ہے۔ جو نظامِ شمسی ادیبوں کے مشورے کے بغیر بنے گا، اس میں یہی خرابی ہو گی۔ اگر ادیبوں کے خیالات کسی وجہ سے ایک دوسرے سے نہ ٹکرائیں تو ادیب خود ٹکرا جاتے ہیں۔ ادیبوں ہی کی دیکھا دیکھی کئی ملکوں میں بُل فائٹنگ اور گھونسا بازی کے مقابلے مقرر کیے جاتے ہیں۔

    ادیب دیکھنے میں بے ضرر نظر آتے ہیں، لیکن یہ اندر ہی اندر بڑے جنگ جُو ہوتے ہیں۔ تحریر و تقریر کی آزادی کے لیے انہوں نے “ پانی پت” اور “واٹر لو” کی کئی لڑائیاں لڑی ہیں۔ اِن لڑائیوں میں جب بھی اور جہاں بھی ادیب جیتے ہیں، وہاں ہر قسم کے ادب کے ڈھیر کے ڈھیر لگ گئے، اور اقوام و افراد بے بس ہو کر رہ گئے۔ بعض ملکوں میں ادیبوں کو لکھنے پر اور بعض ملکوں میں نہ لکھنے پر انعامات دیے جاتے ہیں۔ کس میں نقصان اور کس میں فائدہ ہے، ابھی تک طے نہیں ہوا ہے۔ یوں بھی ادیبوں کے سلسلے میں کوئی بات طے ہو ہی نہیں سکتی۔ ظلم اور ادب ہمیشہ غیر محدود رہے ہیں۔

    بعض ادیب بے حد بے دردی سے لکھتے ہیں اور کاغذ پر اپنا کلیجہ نکال کر رکھ دیتے ہیں۔ اس صورتِ حال کی وجہ سے پڑھنے والا کچھ بھی نہیں پڑھ سکتا۔ خود اُس کا کلیجہ منہ کو آجاتا ہے اور بڑی مشکل سے واپس جاتا ہے۔

    ادیبوں کو لکھنے سے جب بھی فرصت ملتی ہے، وہ اور زیادہ لکھتے ہیں۔ وہ اصل میں اُس شخص کی طرح ہوتے ہیں، جو لیٹے لیٹے تھک جاتا ہے تو اور آرام کرتا ہے۔ ادیب بھی جب ایک چیز لکھتے لکھتے تھک جاتا ہے تو دوسری چیز لکھنے لگتا ہے اور پہلے کے لکھے ہوئے علمی مضمون کے صفحے، بعد کے لکھے ہوئے سیاسی مضمون کے صفحوں میں مل جاتے ہیں اور ادیب کو فرصت نہیں ملتی کہ انہیں چھانٹ سکے۔ پڑھنے والوں کی قسمت میں یہی دو رنگی مضمون ہوتا ہے۔ ایڈیٹر اس مضمون کو صرف اس لیے چھاپ دیتا ہے کہ اس کی سمجھ سے بالاتر ہوتا ہے۔ ادب کی ترویج و اشاعت کے لیے ضروری ہے کہ ہر وہ مضمون جو سمجھ میں نہ آئے، ہر حال میں چھاپا جائے۔ اخباروں اور رسالوں میں صرف اشتہارات ہی اچھے نہیں معلوم ہوتے، ایک آدھ مضمون چھپنا ہی چاہیے۔

    (اردو کے معروف طنز و مزاح نگار یوسف ناظم​ کی اہلِ قلم سے متعلق شگفتہ بیانی)

  • شعر و ادب میں‌ عاشقوں اور بادشاہوں کے علاوہ جانوروں اور پرندوں کا حصّہ

    شعر و ادب میں‌ عاشقوں اور بادشاہوں کے علاوہ جانوروں اور پرندوں کا حصّہ

    ہمارے ادیبوں اور شاعروں نے عاشقوں اور بادشاہوں کو ادب میں خاصا اونچا مقام دے رکھا ہے بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ ادب کا بیشتر حصہ انہی لوگوں پر صرف ہوا ہے۔

    اس کا ہمیں کوئی خاص گلہ نہیں، کیونکہ جہاں تک عاشقانِ کرام یعنی فرہاد اور مجنوں کا تعلق ہے، ان دونوں نے عشق و عاشقی کے میدان میں واقعی قابلِ قدر کارنامے انجام دیے ہیں۔ دونوں کے دونوں نہایت دیانت دار، جفا کش اور مخلص عاشق تھے۔ ان میں عقل کچھ کم تھی تو کیا ہوا، دوسری خوبیاں تو بہرحال وافر مقدار میں تھیں۔ اس لیے ان کی خدمات کو بھلایا جانا ممکن نہیں۔ کسی میونسپل کارپوریشن یا ضلع پریشد کو تو ان کے مجسمے بنوا کر سڑکوں پر یا پارکوں میں کھڑا کرنے کی توفیق نہیں ہوئی کیونکہ عام طور پر اس قسم کے کمرشل ادارے عشق کی اہمیت سے ناواقف ہوتے ہیں۔ یا ممکن ہے فنڈز کی کمی کی وجہ سے ان سے یہ کام نہ ہوسکا ہو۔

    اس میں شک نہیں کہ میونسپل ٹیکس مکانوں کی قیمت کے قریب قریب پہنچ گئے ہیں۔ تاہم فرہاد اور مجنوں کے مجسموں کے خرچ کی گنجائش نکلنی اب بھی مشکل ہے۔ شہری زندگی میں تو انہیں داخلہ مل نہیں سکا۔ اگر ادب میں بھی ان لوگوں کا ذکر نہ ہوتا تو معلوم نہیں انہیں یہ بات کتنی ناگوار گزرتی اور ان کی روحیں کتنا ایجی ٹیشن کرتیں۔

    اسی طرح اگر چند بادشاہوں کو بھی ادب میں جگہ جگہ درج کردیا گیا ہے تو کچھ برا نہیں ہوا۔ کیونکہ بعض بادشاہوں سے بھی ‘بھولے ہی سہی’ کچھ نیک کام ضرور سرزد ہوئے ہیں۔ بعض بادشاہ تو عین رات کے وقت جو سب کے آرام کا وقت ہوتا ہے۔ بھیس بدل کر شہر کا دورہ کیا کرتے تھے کہ دیکھیں رعایا ٹھیک سے سوئی بھی ہے یا نہیں۔ (بادشاہوں کا چھپ کر، رعایا کی خانگی باتیں سننا منع نہیں تھا۔ رعایا پر البتہ اس کی پابندی تھی) ان بادشاہوں کو اپنی گشت کے موقع پر عموماً رعایا آرام کی نیند سوتی ملی (رعایا کو آرام کی نیند سلا دینے کا انتظام آج بھی ہے لیکن یہ انتظام اس زمانے کے انتظام سے قدرے مختلف بلکہ بہتر ہے، آج کے انتظام میں رعایا سو کر اٹھتی نہیں ہے) ان بادشاہوں کو کچھ رعایا موسیقی میں مگن ملی لیکن وہ موسیقی صرف چین کی بنسری کی موسیقی تھی جو رعایا خود ہی بجاتی اور خود ہی سنتی تھی (اس میں میوزک ڈائرکٹر نہیں ہوا کرتا تھا۔) بادشاہوں کا اس طرح بھیس بدل کر رعایا کی شکل کا ہوجانا اور وہ بھی اس مہارت سے کوئی پہچان ہی نہ سکے معمولی بات نہ تھی (مانا کہ اس زمانے میں رعایا اتنی ذہین نہیں تھی لیکن پہچانتے پہچانتے تو آج بھی چھ سال لگ ہی جاتے ہیں)۔ اس لیے اگر چند بادشاہوں کا ادب میں ذکر آگیا ہے تو اس میں ناراض ہونے کی کوئی بات نہیں بلکہ ایک لحاظ سے یہ اچھا ہی ہوا ورنہ ان کے ذکر کے بجائے کسی شاعر کی سات نظمیں نو غزلیں یا کوئی تبصرہ چھپ جاتا۔ یوں بھی ہر زبان کے ادب میں سرکشی کی داستانیں کم اور زر کشی کی وارداتیں زیادہ ہیں۔

    لیکن ہمارے شاعروں اور ادیبوں نے عاشقوں اور بادشاہوں کے علاوہ چند جانوروں اور پرندوں کو بھی ادب میں غیر معمولی منزلت سے نوازا ہے اور یہ لوگ بھی ادب میں یوں درانہ چلے آئے ہیں۔ گویا ادب نہ ہوا غالب کا غریب خانہ ہوگیا۔ ان جانوروں میں سے دو تو ایسے ہیں جن کے ساتھ خصوصی رعایت برتی گئی ہے اور ان کے ساتھ اتنا امتیازی سلوک کیا گیا ہے کہ کیا کوئی ماں یا کوئی باپ اپنے بیٹے کے ساتھ کرے گا!

    گھوڑا اور بلبل یہ دو افراد ایسے ہیں جنہوں نے ادب میں سب سے زیادہ جگہ گھیر رکھی ہے۔ ہماری ساری تشبیہات، استعارے، کنایے روز مرّہ ضرب الامثال اور محاورے انہی دو شخصیتوں کے گرد گھومتے ہیں اور بعض وقت تو یہ خوف ہونے لگتا ہے کہ آئندہ چل کر اگر کسی سیاسی دباؤ کی وجہ سے اردو کے رسم الخط کی طرح یہ بھی نظر میں آگئے اور ان دونوں کو ادب سے خارج کر دینا پڑا تو ادب میں سوائے مزاح کے اور بچے گا کیا؟

    گھوڑا ہمارے ادب میں اور خاص طور پر شاعری میں اسی طرح بس گیا ہے کہ ادب ہی کا باشندہ معلوم ہونے لگا ہے۔ یہ جانور یوں بھی انسانوں سے بہت قریب رہا ہے۔ اتنا قریب کہ اسے ڈپٹی اشرف المخلوقات تو کہا ہی جاسکتا ہے۔ (لیکن زندگی کے اس شعبے میں ڈپٹی کا کوئی عہدہ ہے نہیں) گھوڑے کی ہم سے قربت کا یہ حال ہے کہ وہ ہماری سماجی، فوجی، سیاسی بلکہ ازدواجی زندگی تک میں دخیل ہے شادی کے موقع پر نوشہ گھوڑے ہی پر سوار ہوکر دلہن لانے جاتا ہے۔ گھوڑے پر بیٹھ کر نہ جانے والے دولہے کو دلہن تو خیر مل جاتی ہے لیکن جہیز نسبتاً کم ملتا ہے۔ سوئمبر کے جشن
    میں بھی گھوڑے ہی نے مستحق اشخاص کی مدد کی ہے۔ اس کی فوجی اہمیت بھی مسلمہ ہے۔ کتنی ہی جنگیں انہوں نے ہرائی ہیں اور آج بھی گھوڑا جنگ کے میدان کا نہ سہی، ریس کے میدان کا تو ہیرو ہے ہی بلکہ ریس کے وجود میں آنے کی وجہ سے اس جانور کے شخصی وقار میں کافی اضافہ ہوا ہے۔

    جنگ میں استعمال کیے جانے والے گھوڑوں کا شجرہ نہیں ہوا کرتا تھا لیکن ریس کے گھوڑوں کا شجرہ ہوا کرتا ہے اور جب تک ان کے حسب نسب کے بارے میں خاطر خواہ اطمینان نہیں کر لیا جاتا انہیں ریس کے میدان کے قریب بھی نہیں آنے دیا جاتا ہے۔ ہاں ان کے مالکوں کی بات اور ہے۔ گھوڑے کی اس افادیت اور وجاہت سے متاثر ہو کر ادیبوں اور شاعروں نے بھی اپنی ہر چیز کو گھوڑے سے نسبت دے رکھی ہے۔ شاعر اور ادیب اپنی ہر چیز کا انتساب گھوڑے ہی کے نام کرتے ہیں۔ وہ اپنے قلم کو صرف قلم نہیں کہیں گے کیونکہ قلم تو بچوں کے بھی ہوا کرتے ہیں۔ شاعروں کا قلم یا تو اسپ خامہ ہوتا ہے یا اشہب قلم۔ لکھنے کی رفتار چاہے کتنی ہی سست یا بے ڈھنگی کیوں نہ ہو وہ لکھیں گے اسپ خامہ ہی سے۔

    پرندوں کو ادب میں اتنا اونچا مقام تو نہیں دیا گیا لیکن بلبل کو قریب قریب یہی رتبہ حاصل ہے۔ بات یہ ہے کہ بلبل جانور تو چھوٹا سا ہے لیکن کافی جاندار ہے اور دوسرے پرندوں کے مقابلے میں اس کی جمالیاتی حس بہتر ہے۔ آرٹ کے معاملے میں کی سوجھ بوجھ پر بھروسہ کیا جاسکتا ہے۔ اس کی نظر خوب صورتی کو پہچانتی ہے بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ خوب صورت پر اس کی اتنی ہی گہری نظر ہے جتنی ہمار ے بعض دانشوروں کی کافکا اور سارتر پر ہے۔ اس لیے عشق و عاشقی کے معاملے میں بلبل جسے عندلیب بھی کہاجاتا ہے، آدمی کے برابر تو نہیں دوسرے نمبر پر ضرور ہے اور چاندی کا تمغہ اس کا حق ہے۔

    ہمارے ادب میں مرغ بھی موجود ہے (بلکہ یہ دنیا ہی "جہانِ مرغ و ماہی” ہے۔) لیکن یہ مرغ انگریزی زبان کا وہ ٹیبل برڈ نہیں ہے جو لذّتِ کام و دہن کے کام آتا ہے۔ انگریزی ادب کا جو جستہ جستہ مطالعہ ہم نے کیا ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کے ادب میں بھی جانور بکثرت موجود ہیں بلکہ ان کے ہاں بارش بھی ہوتی ہے تو کتے اور بلیاں برسا کرتی ہیں، ہر مالِ غنیمت میں ان کا حصہ شیر کے حصے کے برابر ہوتا ہے۔ وہ لوگ اتنے چوکنے رہتے ہیں کہ بلی کی نیند سوتے ہیں۔ ان کے ہاں بیل کی آنکھ بھی ادب میں داخل ہے اور جب تک وہ کوئی بات خود گھوڑے کے منہ سے نہیں سنتے اس پر یقین نہیں کرتے۔

    (ہندوستان کے معروف مزاح نگار اور مصنّف یوسف ناظم کی کتاب "البتہ” سے انتخاب)

  • "خواجہ صاحب کیا نہیں تھے؟”

    "خواجہ صاحب کیا نہیں تھے؟”

    خواجہ صاحب کیا نہیں تھے؟ ادیب، صحافی، مقرر، فلم ساز، سوشل ورکر اور نہ جانے کیا کیا۔ بس شاعر نہیں تھے۔ قانون کی ڈگری بھی ان کی جیب میں پڑی تھی۔ لیکن وہ وکیل بھی نہیں تھے۔

    شاعری کی ہوتی تو زندگی کی آدھی سے زیادہ راتیں مشاعروں کی نذر ہو جاتیں۔ اور وکالت کی ہوتی تو دن کے سولہ اٹھارہ گھنٹے موکلوں کی صحبتِ ناجنس میں گزر جاتے۔ (محنتانہ بھی وہ وصول کر پاتے یا نہیں ٹھیک سے نہیں کہا جا سکتا)۔ اپنے خلاف فیصلے الگ سننے پڑتے۔ نجی زندگی میں ممکن ہے خواجہ صاحب کے کوئی اصول نہ ہوں اور اگر ہوں گے تو بھی ان میں لچک (شاخِ گُل والی لچک نہیں) کی گنجائش ہو گی۔

    لیکن جہاں تک ان کے بیرونِ خانہ زندگی کا تعلق ہے انہوں نے اپنی ایک ڈگر بنا لی تھی، وہ اسی راستے پر چلتے رہے۔ کبھی مڑ کر نہیں دیکھا کہ کوئی ساتھ چل رہا ہے یا نہیں۔ شاید انہوں نے سوچا ہی نہیں کہ زندگی اور سفر میں "ساتھ” بھی کوئی چیز ہوتی ہے۔ اتنا سخت تجرد شاید ہی کسی نے برتا ہوگا۔ قولاً بھی اور فعلاً بھی۔

    اپنے اصول کے پکے تھے۔ فلمیں بھی بنائیں۔ تو اس بات کا خیال رکھا کہ کوئی فلم باکس آفس پر ہٹ نہ ہو جائے۔

    عوام کے آدمی تھے، لیکن اپنی فلموں میں کبھی عوام کے "بلند ذوق” کو پیشِ نظر نہیں رکھا۔ میرا ان سے پہلا رابطہ فلم ہی کی بدولت ہوا۔ وہ اس طرح کہ خواجہ صاحب 1963ء کے ارد گرد اپنی فلم۔ غالباً "شہر اور سپنا” بنا رہے تھے۔ اور اس میں ایک شاٹ ایمپلائمنٹ ایکسچینج کا بھی تھا۔ میں محکمۂ لیبر میں معمور تھا (یوں سمجھیے کہ محکمۂ لیبر مجھ سے معمور تھا) اور اس زمانے میں یہ ایمپلائمنٹ ایکسچینج اسی محکمے کے تحت (انتظامی طور پر) تھا۔ خواجہ صاحب نے کرشن جی کی زبانی مجھ سے کہلوایا کہ میں اس شاٹ کے لیے سرکاری اجازت حاصل کروں۔ شاید خود بھی آفس آگئے تھے۔ بعد میں اپنے اسسٹنٹ (اطہر فاروقی) کے ذریعے کاغذات بھی بھجوائے۔ یہ اجازت انہیں مل گئی اور جہاں تک مجھے یاد ہے ان سے کوئی رقم وصول نہیں کی گئی۔ ( یہ شاٹ تو ایمپلائمنٹ ایکسچینج کا ایک اشتہار ہو گیا۔)

    مصروف تو سبھی ہوتے ہیں کیوں کہ بمبئی شہر ہے ہی مصروف لوگوں کا شہر، لیکن خواجہ صاحب بے حد مصروف آدمی تھے۔ ڈھونڈ ڈھونڈ کر اپنے لیے مصروفیتیں پیدا کرتے تھے۔ بامبے کرانیکل سے اپنی صحافتی زندگی کا آغاز کیا۔ اور آخر دم تک اس کمبل سے اپنا رشتہ نباہا۔ لکھتے بھی تو "آخری صفحہ” تھے انگریزی میں الگ اردو میں الگ۔

    خواجہ صاحب کا ذہن اتنا زرخیز تھا کہ انہیں لکھنے کے لیے کسی موضوع کی تلاش نہیں کرنی پڑتی تھی۔ صرف قلم اٹھانا پڑتا تھا۔ وہ شاید ہی تقریبوں اور دعوتوں میں جاتے ہوں گے، ٹھیک ہی کرتے تھے ورنہ وہاں جاکر بھی وہ کاغذ قلم لے کر لکھنے بیٹھ جاتے۔ یوں تو سارا ملک ان کا دوست ہوگا، لیکن بمبئی میں بھی انہوں نے اپنے آپ کو دو چار گھروں تک محدود رکھا۔ یہ بات مجھے اس لیے یاد رہی کہ بیدی صاحب کی تو شکایت ہی رہی کہ وہ کبھی ان کے گھر جاتے۔

    لیکن ایسا نہیں ہے کہ خواجہ صاحب کسی تقریب میں جاتے ہی نہیں تھے۔ جاتے ضرور تھے، لیکن انتظارِ ساغر کھینچنے کا کام وہ نہیں کر سکتے تھے۔ (یوں بھی ساغر سے ان کا تعلق تھا بھی کہاں) اور شادی بیاہ کی تقاریب میں تقریب تو کم ہوتی ہے انتظار ہی زیادہ ہوتا ہے۔

    کئی سال پہلے (20 سال تو ہو ہی گئے ہوں گے) وہ گورنمنٹ کالونی باندرہ میں اپنے کسی اسسٹنٹ کے یہاں ایک تقریب میں شریک ہوئے۔ جو وقت بتایا گیا تھا اس سے بھی کوئی پندرہ منٹ پہلے پہنچے (اس کی کیا ضرورت تھی؟) وہاں ان کی حیرانی، پریشانی، اضطراب، بے چینی قابلِ دید تھی۔ اس محفل میں ان کا شناسا صرف میں تھا۔ اور تو اور جنہوں نے انہیں بلایا تھا وہ خود عدم موجود تھے۔ خواجہ صاحب نے بڑی رحم طلب نظروں سے مجھے دیکھا اور ایک لفافہ میرے حوالے کرتے ہوئے تاکید کی کہ یہ میں ان کے میزبان کے حوالے کر دوں، عجلت میں تھے، لیکن اس کے باوجود دو تین مرتبہ پوچھا کہ آپ دے دیں گے نا۔

    حالانکہ وہ لفافہ میں نے ملفوف الیہ کو پہنچا دیا تھا۔ لیکن شاید خواجہ صاحب تک رسید نہیں پہنچی۔ اس کا انہیں اتنا صدمہ ہوا کہ وہ پھر کسی ایسی تقریب میں شریک ہی نہیں ہوئے۔

    خواجہ صاحب کے متعلق بمبئی میں یہ بھی مشہور تھا کہ روس میں ان کی اتنی کتابیں چھپی اور فروخت ہوئی ہیں کہ وہ ہندوستان میں تو نہیں لیکن روس میں بے حد متمول آدمی ہیں۔ (روس سے یہاں سب کچھ آ سکتا ہے لیکن کتابوں کی رائلٹی کی رقم نہیں آسکتی) یہ بھی کہا جاتا تھا کہ روس میں اگر عزّت و آبرو کے ساتھ گھومنا پھرنا ہے تو خواجہ صاحب کی چِھٹی لے کر جاؤ۔ اور دیکھو کہ تمہاری کتنی قدر و منزلت ہوتی ہے۔ یہ خبریں یقیناً خواجہ صاحب تک بھی پہنچتی ہی ہوں گی۔ اس بارے میں ان کا کیا رد عمل تھا کسی کو پتہ نہیں چلا کیوں کہ خواجہ صاحب ردِعمل کے نہیں عمل کے آدمی تھے۔

    خواجہ صاحب کو اس بات کا احساس تھا کہ ان کی ‘ہمہ جہتی’ نے ان کا کوئی مخصوص امیج نہیں بننے دیا۔ فلم سازوں کی محفل میں انہیں ادیب کی حیثیت سے جانا جاتا تھا۔ صحافیوں کے یہاں وہ ایک اچھے ہدایت کار مشہور تھے اور ادیبوں نے انہیں ایک اعلٰی درجے کا جرنلسٹ مانا۔ اس کا وہ لطف بھی اٹھاتے تھے۔ لطف تو انہوں نے کھانے میں بھی بہت اٹھایا۔ دور دور سے آنے والے لوگ انہیں بہت دولت مند سمجھتے تھے، ان کے گھر پر جاتے، اپنی جیب کے کٹ جانے کی داستان نہایت درد انگیز انداز میں سناتے اور بمبئی سے کلکتہ جانے کا کرایہ طلب کرتے اور خواجہ صاحب خود کہیں سے قرض حاصل کر کے اس شخص کو کلکتہ بھیجتے۔

    (یہ پارے "آئی جو ان کی یاد” کے عنوان سے یوسف ناظم کے تحریر کردہ خاکے سے لیے گئے ہیں جو انھوں نے اردو کے معروف افسانہ نگار، ڈرامہ نویس، فلمی ہدایت کار اور صحافی خواجہ احمد عباس پر لکھا تھا)