Tag: یوم آزادی

  • پاکستان کے 77 ویں یوم آزادی کا پرتپاک استقبال، قومی پرچموں کی بہار

    پاکستان کے 77 ویں یوم آزادی کا پرتپاک استقبال، قومی پرچموں کی بہار

    اسلام آباد: پاکستان کا 77واں یوم آزادی ملی جوش و جذبے سے منایا جارہا ہے، وفاقی دارالحکومت میں 31، صوبائی دارالحکومتوں میں 21، 21 توپوں کی سلامی پیش کی گئی۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق پاکستان کی آزادی کے77 برس مکمل ہونے پر پاک فوج کے چاق و چوبند دستوں کی جانب سے دن کا آغاز توپوں کی سلامی سے کیا گیا۔

    اس موقع پر پاک فوج کے دستے کی جانب سے نعرہ تکبیر، اللہ اکبر کے فلک شگاف نعرے بھی بُلند کئے گئے، یہ توپوں کی سلامی اس بات کی غمازی کرتی ہیں کہ”ہم ایک با حوصلہ قوم ہیں اور وقت آنے پر نا صرف سینہ سپر بلکہ دشمن کو منہ توڑ جواب دینے کیلئے بھی ہمہ وقت تیار ہیں“۔

    ملک بھر کی مساجد میں پاکستان کی بقا اور سلامتی کیلئے قرآن خوانی اور دعاؤں کااہتمام کیا جارہا ہے، نماز فجر کے وقت ملک بھر میں امن واستحکام، ترقی اور خوشحالی کیلئے دعائیں کی گئیں۔

    تحریک آزادی پاکستان کے شہدا کیلئے قرآن خوانی کااہتمام کیا گیا جن کے طفیل یہ حسین خطہ ارض بہ فضلِ خداوندِ متعال ہمیں نصیب ہوا،اس موقع پر شہدائے تحریک پاکستان کو خراج عقیدت اور غازیوں کو خراج تحسین پیش کیا گیا، وطن عزیز کی سالمیت کیلئے قیمتی جانوں کا نذرا نہ پیش کرنے والوں سے بھی اظہار یکجہتی کی گئی۔

    پشاور میں جشن آزادی کے حوالے سے شہدا کے لواحقین کیلئے پاک فوج کی جانب سے خصوصی تقریب کا انعقاد کیا گیا، شہداکے لواحقین اور دیگر شرکا نے یادگار شہدا پر پھول رکھے۔

    تقریب میں پشاور کے آرمی پبلک اسکول اور اسپیشل بچوں کے اسکول کے طلبا و طالبات بھی شریک ہوئے، کور کمانڈر پشاور لیفٹننٹ جنرل عمر احمد بخاری تقریب کے مہمان خصوصی تھے۔

    77 واں یوم آزادی ملی جوش و جذبے سے منایا جارہا ہے، ملک بھر میں شاندار آتش بازی

    گوادر میں جشن آزادی کے پر مسرت موقع پر رنگارنگ آتشبازی کا مظاہرہ کیا گیا، رنگارنگ آتش بازی سے گوادر کا آسمان روشنیوں سے منور ہوگیا، گوادر کی عوام کی بڑی تعداد نے آتش بازی کا مظاہرہ دیکھا اور پاکستان سے محبت کا اظہار کیا۔

  • یوم آزادی : امریکی وزیر خارجہ کا پاکستانیوں کیلئے مبارکباد کا پیغام

    یوم آزادی : امریکی وزیر خارجہ کا پاکستانیوں کیلئے مبارکباد کا پیغام

    واشنگٹن : امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے 77ویں یوم آزادی کے موقع پر تمام پاکستانیوں کو پر مبارکباد پیش کی ہے، ان کا کہنا ہے کہ پاکستان اور امریکا کی شراکت داری مزید گہری ہوگی۔

    پاکستان کے یوم آزادی پاکستان کے موقع پر اپنے پیغام میں انٹونی بلنکن نے کہا کہ گزشتہ 77 سال سے ہمارے پاک امریکا عوامی تعلقات دو طرفہ تعلق کی بنیاد رہے ہیں۔

    انٹونی بلنکن نے کہا کہ آئندہ آنے والے برسوں میں پاکستان اور امریکا کی شراکت داری مزید گہری ہوگی، دونوں ممالک کے عوام کے درمیان تعلق کو بڑھایا جائے گا۔

    ان کا مزید کہنا تھا کہ دونوں اقوام کی زیادہ خوشحالی کیلئے اقدامات کریں گے، ہم پاکستان سے ایسی شراکت داری چاہتے ہیں جو سیکیورٹی کو زیادہ یقینی بنائے۔

  • کیا یہی قائد اعظم کا پاکستان ہے؟

    کیا یہی قائد اعظم کا پاکستان ہے؟

    14 اگست 2024 آن پہنچا ہے اور ہر سال کی طرح قوم پاکستان کا 77 واں جشن آزادی منا رہی ہے۔ اپنی آزادی کا جشن منانا زندہ قوموں کی نشانی ہے اور اس روایت کو جاری رکھتے ہوئے وطن کے نونہالوں کو قوم کی تاریخ اور وطن کے لیے جدوجہد اور ان کی ذمے داریوں سے آگاہ کرتے ہوئے مستقبل کے معماران وطن تیار کیے جاتے ہیں، لیکن بدقسمتی سے ہمارے ہاں پاکستان کی آزادی کا جشن منانے کی روایت کچھ انوکھی ہے۔

    بچّے تو بچّے ہوتے ہیں باجے بجائیں تو برداشت ہو جاتی ہے لیکن آج رات اور کل سارا دن منچلے سڑکوں پر آزادی کا جشن منانے نکلیں گے تو ہاتھ میں گز گز بھر لمبے بھونپو نما باجے لے کر پوں پاں سے آسمان سر پر اٹھائیں گے۔ دوسری طرف اکثریت ون ویلنگ کر کے اپنی اور دیگر کی زندگیوں کو خطرے میں ڈالیں گے جو یہ نہیں کریں گے وہ بغیر سائلنسر موٹر سائیکلیں جیٹ جہاز کی طرح اڑاتے اور آواز کرتے ہوئے چلا کر اپنا فرض عین سمجھیں گے۔ یہ سب عجیب وغریب آزادانہ حرکات کرنے والوں کو اس سے غرض نہیں ہوگی کہ ان کے دن و رات باجا بجانے سے کسی مریض کو تکلیف ہوتی ہے، مساجد میں لوگوں کی عبادات میں خلل پڑتا ہے۔ گھروں میں سوئے ہوئے افراد کی نیند خراب ہوتی ہے۔ ان پر حب الوطنی کا یہ انوکھا جوش صرف ایک دن کے لیے چڑھتا ہے جس کا جشن منا کر پھر 364 دن غفلت کی نیند سوئے رہتے اور ملک کی ابتر حالت پر خود اپنے گریبانوں میں جھانکنے کے بجائے باقی وقت حکومت اور دوسروں کو برا بھلا کہنے میں وقت گزارتے ہیں۔

    یوم آزادی یعنی 14 اگست کے روز بھی سرکاری، نیم سرکاری، نجی، سیاسی وسماجی سطح پر پرچم کشائی کی تقریبات ہوں گی جس میں حکمرانوں سمیت سب کی جانب سے پاکستان کو قائداعظم کا حقیقی پاکستان بنانے کی دل خوش کن تقاریر کی جائیں گی لیکن ان تقاریر کو عملی جامہ پہنانے کے بجائے اگلے دن ہی ان سب تقاریر کو بھلا کر اپنے پرانے معمولات پر واپس آ جائیں گے اور برسوں سے جشن آزادی منانے کا ہمارا وطیرہ یہی رہا ہے۔

    پاکستان کوئی طشت میں رکھ کر پیش نہیں کیا گیا، بلکہ یہ لاکھوں جانوں کی قربانی دے کر حاصل کیا گیا اور اس کو بنانے سنوارنے میں لوگوں نے اپنی پوری زندگیاں صرف کر دیں۔

    بانی پاکستان نے اپنے رفقا کے ساتھ طویل جدوجہد کرتے ہوئے چومکھی لڑائی لڑی جس کے ایک فریق قابض انگریز تھے تو دوسری جانب شاطر ہندو جب کہ ان کے درمیان اپنی ہی صفوں میں بیٹھے ہوئے کچھ غدار بھی لیکن عزم مسلسل سے قائد اعظم محمد علی جناح نے مسلمانوں کے لیے علیحدہ وطن حاصل کیا۔ افسوس وہ آزاد وطن کی فضا میں زیادہ عرصہ نہ رہ سکے اور صرف ایک سال بعد ہی وفات پا گئے جس کے بعد پاکستان کی کشتی کنارے نہیں لگ سکی۔ قائد اعظم کیسا پاکستان چاہتے تھے اس کا اندازہ ان کے فرمودات سے ہو جاتا ہے۔

    آئیے بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کے کچھ فرمودات پر نظر ڈالتے ہیں اور پھر اپنا محاسبہ کرتے ہیں۔

    ’مجھ سے اکثر پوچھا جاتا ہے کہ پاکستان کا طرزِ حکومت کیا ہوگا؟ پاکستان کے طرزِ حکومت کا تعین کرنے والا میں کون ہوتا ہوں۔ مسلمانوں کا طرزِ حکومت آج سے تیرہ سو سال قبل قرآن کریم نے وضاحت کے ساتھ بیان کر دیا تھا۔ الحمد للہ ، قرآن مجید ہماری رہنمائی کے لیے موجود ہے اور قیامت تک موجود رہے گا۔‘ (آل انڈیا مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے اجلاس سے خطاب، 15 نومبر1942ء)

    ایک اور جگہ انہوں نے ارشاد فرمایا تھا کہ اسلامی تعلیمات کی درخشندہ روایات اس امر پر شاہد ہیں کہ دنیا کی کوئی قوم جمہوریت میں ہمارا مقابلہ نہیں کرسکی۔ جو اپنے مذہب میں بھی جمہوری نکتہ نظر رکھتے ہیں۔

    میرا یقین ہے کہ ہماری نجات ہمارے عظیم قانون دان پیغمبر اسلام ﷺ کی طرف ہمارے لیے مقرر کردہ سنہری اصولوں پر عمل کرنے میں ہے۔ ہماری نجات کا راستہ صرف اور صرف اسوہ حسنہ ہے۔

    ’آج ہم یہاں دنیا کی عظیم ترین ہستی حضرت محمدﷺ کو نذرانۂ عقیدت پیش کرنے کے لیے جمع ہوئے ہیں۔ آپ ﷺ کی عزت و تکریم کروڑوں عام انسان ہی نہیں کرتے بلکہ دنیا کی تمام عظیم شخصیات آپ ﷺ کے سامنے سر جھکاتی ہیں۔ وہ عظیم مصلح تھے، عظیم رہنما تھے، عظیم واضع قانون تھے، عظیم سیاستدان تھے اور عظیم حکمران تھے، ہم ان کی تعلیمات پر عمل کرتے رہے تو کسی میدان میں کبھی بھی ناکامی نہ ہوگی۔‘ (کراچی بار ایسوسی ایشن کے اجلاس سے خطاب،25جنوری 1948ء)

    اگر انہی فرموداشت کی روشنی میں دیکھا جائے تو قائد اعظم نے قیام پاکستان سے قبل ہی ملک میں نظام حکومت کے لیے جمہوریت کو منتخب کیا تھا لیکن مغربی نہیں بلکہ اسلامی تعلیمات کے مطابق۔ لیکن کیا آج کا پاکستان ان ارشادات پر پورا اترتا ہے؟ پاکستان میں 33 سال تک تو بلاشرکت غیرے فوجی حکمرانوں کی حکومت رہی ہے باقی جتنا عرصہ بچا اس میں بھی جمہوریت پنپ نہ سکی جس میں زیادہ قصور سیاستدانوں کا ہی ہے۔ دوسرا قائد اعظم کا ارشاد ملک میں قرآن کی تعلیمات کے مطابق حکومت کا قیام اور اسوہ حسنہ کو مشعل راہ بنانا طے کیا تھا، لیکن ہم نے پاکستان کے ساتھ اسلامی جمہوریہ لگا کر اور آئین میں شریعت کو اپنا قانون اور نظام بنانے پر اکتفا کر کے اور ہر سال سیرت کانفرنس کا انعقاد کرکے اپنے تئیں یہ سمجھ لیا کہ معراج پا لی لیکن آج حقیقی معنوں میں نہ ملک میں اسلامی نظام حکومت قائم ہے اور نہ ہی اسوہ حسنہ ﷺ کو مشعل راہ بنایا گیا ہے۔

    قیام پاکستان کے بعد حضرت قائد اعظم نے ارشاد فرمایا تھا کہ ہم نے پاکستان حاصل کرلیا۔ لیکن یہ ہمارے مقصد کی ابتداء ہے، ابھی ہم پر بڑی ذمہ داریاں ہیں۔ حصول پاکستان کے مقابلے میں، اس ملک کی تعمیر پر کہیں زیادہ کوشش صرف کرنی ہے اور اس کے لیے قربانیاں بھی دینی ہیں۔

    ’چھوت چھات صرف ہندو مذہب اور فلسفے میں جائز ہے۔ ہمارے ہاں ایسی کوئی بات نہیں۔ اسلام انصاف، مساوات، معقولیت اور رواداری کا حامل ہے، بلکہ جو غیر مسلم ہماری حفاظت میں آ جائیں، اسلام اُن کے ساتھ فیاضی کو بھی روا رکھتا ہے۔ یہ لوگ ہمارے بھائی ہیں اور اِس ریاست میں وہ شہریوں کی طرح رہیں گے۔‘(مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کے طلباء سے خطاب، 2نومبر 1940ء)

    بانیِ پاکستان محمد علی جناح نے 11 اگست 1947 کو پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی کے افتتاحی اجلاس میں کی گئی تقریر میں دیگر باتوں کے علاوہ نوزائیدہ ملک میں بسنے والے اقلیتی عوام کو تحفظ دینے کا وعدہ کیا تھا لیکن کیا یہ وعدہ پورا ہو رہا ہے؟

    بانی پاکستان کے یہ تمام ارشادات ہم پر حکومت کرنے والوں کو روڈ میپ فراہم کرتے ہیں لیکن حکمرانوں نے اپنے راستے ہی قائد کے فرمان سے بالکل جدا کر لیے۔ آج وزرا صرف نام کے خادم ہیں جب کہ اپنے عمل اور کردار سے وہ خود کو ملک وقوم کا مالک سمجھتے ہیں۔ ان کی توجہ عوام کی فلاح وبہبود کے بجائے اپنے اور اپنے خاندان کی فلاح وبہبود پر مرکوز ہو گئی ہے اور ذمے داریوں کی ادائیگی کے بجائے عزت وناموس کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیا ہے۔

    وہ تعلیم کو تلوار سے زیادہ طاقتور سمجھتے تھے اور نوجوانوں کے لیے پیغام تھا کہ ’’آپ تعلیم پر پورا دھیان دیں۔ اپنے آپ کو عمل کے لیے تیار کریں یہ آپ کا پہلا فریضہ ہے آپ کی تعلیم کا ایک حصہ یہ بھی ہے کہ آپ دور حاضر کی سیاست کا مطالعہ کریں۔ یاد رکھیں ہماری قوم کے لیے تعلیم موت اور زندگی کا مسئلہ ہے۔
    ہمارے ملک کے بانی نے جس کو قوم کی زندگی اور موت کا مسئلہ بتایا تھا وہ اول تو ہمارے حکمرانوں کی ترجیحات میں شامل ہی نہیں ہے جس کا اندازہ ہر سال بجٹ میں تعلیم کے لیے رکھے جانے والے بجٹ سے ہوتا ہے۔ سرکاری سطح پر ہماری خواندگی کی شرح 60 فیصد سے زائد بتائی جاتی ہے لیکن اس میں وہ بھی شامل ہیں جو صرف اپنا نام لکھنا اور پڑھنا جانتے ہیں جب کہ معیار تعلیم کا یہ حال ہے کہ دنیا کی 100 بہترین یونیورسٹیوں میں سے ایک بھی پاکستان کی جامعہ نہیں ہے۔

    سرکاری سطح پر تو تعلیم کی حالت انتہائی دگرگوں ہے لیکن نجی تعلیمی اداروں نے بھی تعلیم کو مذاق بلکہ کاروبار بنا رکھا ہے اور اس کو اتنا مہنگا کر دیا ہے کہ اب غریب کے بس میں بھی بچوں کو نجی اسکولوں میں تعلیم دلانا خواب بن گیا ہے۔
    قائد اعظم کے ارشادات صرف حکمران یا بالادست طبقے کے لیے نہیں تھے بلکہ انہوں نے قوم کو بھی اتحاد تنظیم اور یقین محکم کی تلقین، کام، کام اور بس کام، لوگوں کو اصولوں پر ڈٹ جانے اور ظلم کے خلاف آواز بلند کرنے کا درس دیا تھا، لیکن افسوس ان پیغامات کو پوری قوم بھلا بیٹھی ہے۔ بدقسمتی سے آج قوم خود کو مسلمان اور پاکستانی کہلانے کے بجائے پنجابی، سندھی، پٹھان، بلوچ، سرائیکی، پختون، مہاجر کہنے میں فخر محسوس کرتی ہے اور ہمارے سیاستدان اپنے اپنے سیاسی مفادات کے لیے جان بوجھ کر لسانیت کو فروغ دیتے اور مستقبل میں ملک وقوم کی باگ ڈور سنبھالنے والوں کو اس آگ میں جھونک دیتے ہیں۔

    بانی پاکستان نے کفایت شعاری کو قومی دولت اور ہر مسلمان کو دیانت داری، خلوص اور بے غرضی سے پاکستان کی خدمت کرنے کا درس دیا تھا۔ ان ارشادات کی روشنی میں اگر ہم ایک دوسرے پر انگلیاں اٹھانے کے بجائے اپنے گریبانوں میں جھانکیں تو سوائے شرمندگی کے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔

    آج کا دن بحیثیت قوم ہمیں انفرادی اور اجتماعی حیثیت میں دیکھنا ہوگا کہ ہم جو لاکھوں جانوں کی قربانیوں سے حاصل اس آزاد وطن کی فضا میں سانس لے رہے ہیں تو کیا اس کا حق ادا کر رہے ہیں کیا ہم نے اسے اقبال کے خواب اور قائداعظم کی خواہش کے مطابق پنپنے دیا ہے۔

    حرف آخر قوم جشن آزادی منائے اور بھرپور جوش وجذبے کے ساتھ منائے۔ پرچم کشائیاں کریں، حب الوطنی پر تقاریر بھی کریں، ملی نغمے بھی گائیں لیکن اس کو صرف ایک دن تک محدود نہ رکھیں بلکہ اپنے قول کو افعال میں تبدیل کریں تاکہ ملک کا پرچم سر بلند کرسکیں۔

    (یہ تحریر/ بلاگ مصنّف کی ذاتی رائے پر مبنی ہے)

  • یومِ آزادی : سخت پابندی عائد کردی گئی

    یومِ آزادی : سخت پابندی عائد کردی گئی

    لاہور : یوم آزادی کے موقع پر سخت پابندی عائد کردی گئی اور سیکیورٹی گائیڈ لائن جاری کر دیا گیا۔

    تفصیلات کے مطابق محکمہ داخلہ پنجاب نے یوم آزادی تقریبات کا سیکیورٹی گائیڈ لائن جاری کر دیا، جس میں اسلحے کی نمائش ،ہوائی فائرنگ اور ون ویلنگ پرسخت پابندی عائد کردی گئی۔

    تمام صوبائی،اضلاعی داخلی خارجی راستوں پرسخت چیکنگ کی ہدایت جاری کرتے ہوئے اہم عمارتوں،دفاتر،حساس مقامات کی سکیورٹی کیلئےاضافی نفری تعیناتی کی ہدایت کی ہے۔

    سیکیورٹی گائیڈ لائن میں پنجاب بھر میں تقریبات سےقبل فول پروف سکیورٹی انتظامات یقینی بنائے جانے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا یوم آزادی تقریبات سے قبل اسپیشل برانچ سے وینیو کی ٹیکنیکل سویپنگ ضرور کرائی جائے۔

    گائیڈ لائن میں اسلحے کی نمائش اور ہوائی فائرنگ کے خلاف سخت ترین ایکشن کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ ون ویلنگ اورریش ڈرائیونگ کے خلاف زیروٹالرینس پالیسی اپنائی جائے۔

    محکمہ داخلہ پنجاب نے ون ویلنگ اورریش ڈرائیونگ کی روک تھام کیلئےپنجاب بھرمیں ٹاسک فورس قائم کردی اور بڑے شہروں میں چیف ٹریفک افسر اور چھوٹےشہروں میں ڈی ایس پی ٹریفک سربراہ مقرر کردیا ہے۔

  • ’’ہندو انڈیا اور مسلم انڈیا کبھی متحد نہیں ہو سکیں گے!‘‘

    ’’ہندو انڈیا اور مسلم انڈیا کبھی متحد نہیں ہو سکیں گے!‘‘

    برصغیر میں‌ صدیوں تک مختلف مذاہب اور عقائد کے ماننے والے اکٹھا رہے ہیں۔ آپس میں میل جول اور راہ و رسم سے معاشرہ میں بھائی چارہ اور یگانگت فضا قائم رہی ہے۔ مغل دور کی بات کریں‌ تو دربار میں بھی بلاتفریقِ مذہب و ملّت یگانہ روزگار شخصیات اکٹھا تھیں، لیکن ہندوستان پر کمپنی کا قبضہ ہوگیا اور انگریزوں نے اپنی حکومت قائم کرنے کے لیے سب سے پہلے اس فضا کو مسموم کیا اور یہ اتحاد و اتفاق پارہ پارہ ہوگیا۔

    اس کے بعد دنیا نے ہندوستان کی تقسیم دیکھی۔ یہ انسانی تاریخ کا ایک عظیم اور ایسا دردناک واقعہ ہے جس میں لاکھوں انسانی جانیں ضایع ہوئیں اور کئی دردناک داستانیں رقم ہوئیں۔ برصغیر اور مسلم ہند کی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو سب سے نمایاں اور اہم بات یہ سامنے آتی ہے کہ یہاں مسلم قومیت کا تصوّر پہلے سے موجود تھا۔ انگریزوں نے ہندوؤں میں اقتدار کی ہوس دیکھی اور یہ جانا کہ وہ کئی سو سال تک مغل بادشاہت کی وجہ سے احساسِ محرومی کا شکار ہیں اور اسی کا فائدہ اٹھانے کے لیے ہندوستان میں نفرت کو ہوا دی، ہر قسم کی مذہبی اور قومی تفریق کو اجاگر کرکے انگریزوں نے اپنی حکومت اور اقتدار کو فائدہ پہنچایا۔ انگریز مسلمانوں کے دشمن تھے اور ان کو کچلنے اور استحصال کے لیے ہندوؤں سے گٹھ جوڑ کر کے اپنے اقتدار کو طول دینا چاہتے تھے۔ انہی سازشوں نے مسلمانوں میں جداگانہ تشخّص کو برقرار رکھنے کی خواہش کو تقویت دی اور تحریکِ پاکستان کا سفر شروع ہوا۔

    تحریکِ پاکستان کے یوں کئی عوامل ہیں، لیکن یہاں ہم اس حوالے سے چند بنیادی اور نمایاں پہلوؤں کا جائزہ لیتے ہیں۔

    جداگانہ تشخص اور تحریکِ پاکستان
    تحریکِ پاکستان کا ایک وسیع پس منظر ہے جسے جاننے کے بعد یہ کہنا مشکل نہیں کہ مسلمانوں میں جداگانہ تشخص اور علیحدہ وطن کی خواہش نے متعصب اور انتہا پسند ہندوؤں کی وجہ سے جنم لیا اور حالات کو بگاڑتے ہوئے مسلمان قیادت کو اس مقام پر پہنچا دیا جہاں انھوں نے اسلامیانِ ہند کے لیے الگ ریاست کی تشکیل کا مطالبہ کیا اور اس کے لیے ہر محاذ پر انگریزوں اور متعصب ہندوؤں کا مقابلہ کیا۔ 1920ء کے بعد جو حالات پیدا کردیے گئے تھے، ان کا بغور جائزہ لیا جائے تو عیاں ہوتا ہے کہ مسلمان انگریزوں اور ہندوؤں کی سازشوں کے سبب اکٹھے نہیں رہ سکتے تھے۔

    حالات میں بگاڑ، انگریز ہندو گٹھ جوڑ
    جنگِ بلقان کے دوران 1913ء میں کانپور میں مچھلی بازار کی مسجد کا بیرونی حصہ شہید کر دیا گیا جس سے مذہبی جذبات بُری طرح مجروح ہوئے، اور مسلمانوں کو یہ احساس ہوگیا کہ برطانوی حکومت نے مسلمانوں کو مذہبی اور سماجی اعتبار سے پامال کرنے کا تہیہ کر لیا ہے، چناں چہ سانحہ کانپور سے اسلامیانِ ہند کی سیاست نے ایک نیا رخ اختیار کیا۔

    اس واقعے سے پورے ہندوستان کے مسلمانوں میں انگریزوں کے خلاف غم و غصہ پیدا ہوا اور ہر طرف ہلچل مچ گئی۔ مولانا ظفر علی خان، مولانا محمد علی جوہر، مولانا ابوالکلام آزاد جیسے راہ نماؤں اور اکابرین نے بالترتیب لاہور سے ’’زمیندار‘‘، دہلی سے ’’کامریڈ‘‘ اور کلکتہ سے ’’الہلا ل‘‘ نامی اخبارات جاری اور مسلمانوں کا مؤقف سامنے رکھتے ہوئے انگریز سرکار کی پالیسیوں پر تنقید کی۔ دیگر مسلم زعماء مثلا ًمولانا عبدالباری فرنگی ، محلی، مولانا آزاد سبحانی ، مولانا شوکت علی وغیرہ نے ایسے واقعات کو انگریزوں کی مسلم دشمن پالیسی قرار دے کر کڑی نکتہ چینی کی۔ اسی واقعے کے بعد جب مسلمانوں پر فائرنگ اور مسلم راہ نماؤں کی گرفتاریاں شروع ہوئیں تو ان راہ نماؤں نے شدید احتجاج کیا جس سے مسلمانوں میں ملّی بیداری اور عملی سیاست میں حصّہ لینے کی سوچ کو تقویت پہنچی۔

    ہندو مسلم فسادات
    1920ء کے بعد ہندوستان میں انگریز سرکار کی مسلم دشمن پالیسیوں اور ہندوؤں سے گٹھ جوڑ کر کے نقصان پہنچانے کا جو سلسلہ شروع ہوا وہ نہ صرف برطانوی دور کی بدترین یاد ہے بلکہ مسلسل فسادات نے ایک خونیں تاریخ رقم کی۔ اس عشرے میں ہندو مسلم فسادات کی تاریخ میں ایک نئے اور سنگین باب کا اضافہ ہوا اور ہندو مسلم اتحاد کے لیے ماضی میں کی جانے والی تمام کوششیں برباد ہوگئیں۔ مسلمانوں پر عیاں ہوگیا کہ انگریز اور ہندو ان کے بدترین دشمن ہیں اور وقت گزرنے کے ساتھ ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان ایک ایسی خلیج حائل ہوگئی جسے پاٹنا ممکن نہ تھا۔

    محمد علی جناح اور اتحاد کی کوششیں
    محمد علی جناح جو اس وقت ہندو مسلم اتحاد کے ایک سفیر اور اہم راہ نما تھے، وہ بھی حالات سے دل گرفتہ نظر آئے۔ اسی عشرہ میں اتحاد و اتفاق بڑھانے اور انگریزوں سے ہندوستان کو آزاد کرانے کے حوالے سے کانفرنسیں بھی ہوئیں اور ہندو مسلم مفاہمت کے لیے کئی تجاویز سامنے آئیں جن میں قائد اعظم کے ایما پر دہلی تجاویز اہم ترین تھیں۔ یہ تجاویز 1937 میں مسلم زعما کے ایک اجلاس میں مرتب کی گئی تھیں، مگر آل انڈیا نیشنل کانگریس نے گاندھی اور نہرو کی سرکردگی میں ان مطالبات پر غور کیا اور اپنے ابتدائی اجلاس میں تسلیم بھی کرلیا لیکن بعد میں چند متعصب ہندوؤں کے زیرِ اثر ان میں سے چند مطالبات کو رد کر دیا گیا۔

    کانگریس کی چالیں
    اس کے بعد جب نہرو رپورٹ سامنے آئی جو کانگریس نے ہندوستان کے آئین کی حیثیت سے تیار کی تھی، ان میں بھی مسلم حقوق کو پامال کیا گیا تھا۔ یہی نہیں بلکہ دسمبر 1928ء اور جنوری 1929ء میں جب نہرو رپورٹ کو حتمی شکل دینے کے لیے کلکتہ میں نیشنل کنونشن منعقد ہوا تواس میں بھی محمد علی جناح کے تین بنیادی مطالبات کو مسترد کر دیا گیا۔

    ہندو انڈیا اور مسلم انڈیا
    محمد علی جناح اور ان ساتھیوں کے لیے یہ ایک انتہائی مایوس کن اور چونکا دینے والی صورت حال تھی۔ محمد علی جناح نے اپنے پارسی دوست جمشید نسروانجی سے کہا کہ ’’آج ہندو انڈیا اور مسلم انڈیا اس طرح جدا ہو گئے ہیں کہ اب کبھی متحد نہیں ہو سکیں گے۔‘‘

    اس رپورٹ کے بعد اس وقت مختلف معاملات پر گروہ بندی اور اختلافات کی وجہ سے دور ہو جانے والے مسلمان راہ نماؤں کو بھی جب کانگریس کی مسلم دشمنی کا یقین ہوگیا تو وہ سب متحد ہوگئے۔

    مسلمان قیادت کا اتحاد اور آل پارٹیز مسلم کانفرنس
    جنوری 1929ء میں آل پارٹیز مسلم کانفرنس اسی اتحاد کا مظہر ہے۔ اس کانفرنس کا اجلاس دہلی میں ہوا جس کی صدارت سر سلطان محمد آغا خان نے کی۔ اس کانفرنس میں نہ صرف میاں محمد شفیع اور سر شفاعت احمد خان پیش پیش تھے بلکہ ترک موالات اور تحریک خلافت کے راہ نما مولانا محمد علی جوہر، مولانا شوکت علی اور حسرت موہانی جیسے جید علما اور سیاست دانوں نے بھی اس میں اہم کردار اداکیا۔

    قائدِ اعظم کے 14 نکات
    ان واقعات کی روشنی میں محمد علی جناح نے 1929ء میں اپنے مشہور چودہ نکات پیش کیے اور اسے برصغیر کی تاریخ میں اسلامیانِ ہند کے منشور کی حیثیت حاصل ہوئی۔ بعد کے برسوں میں مسلم لیگ اور محمد علی جناح کی قیادت میں مختلف مسلم جماعتوں کے اتحاد کی کوششیں جاری رہیں اور لندن میں تین گول میز کانفرنسیں منعقد ہوئیں جس کے بعد ایک مشترکہ پارلیمانی کمیٹی کی سفارشات کی روشنی میں گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1935ء مرتب کیا گیا۔

    انتخابات اور کانگریس کی غیر متوقع کام یابی
    1906ء سے 1938ء تک ہندو مسلم مفاہمت کی کوششیں اور اس ضمن میں تجاویز مسلمانوں کی ہی جانب سے پیش کی جاتی رہی تھیں لیکن کانگریس اور ہندوؤں کی جانب سے منفی رویہ اور غیر ذمہ داری کا مظاہرہ دیکھا گیا جس نے 1937ء کے انتخابات کے بعد شدت اختیار کرلی۔ انتخابات سے قبل قوی امید تھی کہ کانگریس اور مسلم لیگ میں مفاہمت ہو جائے گی اور دونوں جماعتیں مل کر مخلوط وزارتیں قائم کریں گی، لیکن انتخابات میں کانگریس کی غیر متوقع کام یابی کے بعد طاقت کے نشے میں بدمست کانگریس نے کچھ اور ہی منصوبہ بنا لیا۔

    کانگریس کے متعصب اور مفاد پرست ہندو راہ نماؤں نے دوسری تمام پارٹیوں کو اپنے اندر ضم کر کے ہندوستان کی واحد سیاسی جماعت بن جانے کا سوچا اور مخلوط وزارتوں کے بارے میں مسلم لیگ کی پیش کش کو ٹھکرا دیا، یہی نہیں جن ہندو اکثریتی صوبوں میں کانگریسی وزارتیں قائم ہوئیں وہاں مسلمانوں کو ان کے حقوق سے محروم کردیا۔

    کانگریس کی پالیسیاں اور مسلم کش اقدامات
    سیاسی طاقت کے حصول کے بعد کانگریس کی جانب سے ایک سوچی سمجھی پالیسی کے تحت یکے بعد دیگرے مسلم کش اقدامات کیے جن میں بندے ماترم کو قومی ترانہ کی حیثیت دینا، تمام سرکاری عمارتوں پر کانگریس کے پرچم کو قومی پرچم کی حیثیت سے لہرانا، اردو کی جگہ ہندی زبان، گائے کو ذبح کرنے پر پابندی، ملازمتوں میں مسلمانوں کو ان کے مخصوص اور مقررہ حقوق سے محروم کرنا۔

    آل انڈیا مسلم لیگ کی مقبولیت
    مسلم قیادت اور اکابرین نے یہ سب دیکھتے ہوئے مسلمانوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنے کی غرض سے قائدِ اعظم کے ساتھ 1934ء میں‌ کوششوں کا آغاز کیا اور جب مسلم لیگ کا اجلاس لکھنؤ میں 1937ء میں ہوا تو اس نے ہندوستان بھر میں مسلمانوں کو ایک ایسے جوش و جذبہ سے سرشارکردیا جس کی اس سے پہلے کوئی نظیر نہیں ملتی۔ اس اجلاس کے صرف تین ماہ بعد ہی مسلم لیگ کی نئی شاخیں قائم ہونے لگیں اور رکنیت سازی زوروں پر تھی۔

    محمد علی جناح کی حکمت عملی، صبر و تحمل اور سیاسی بصیرت کے باوصف تحریک کام یاب ہوتی چلی گئی اور ہندوستان بھر میں ترقی کی اور بڑے صوبوں میں اسلامیانِ ہند کے کام یاب ترین اجلاس منعقد ہوئے۔ مسلم لیگ کی روز افزوں قوّت اور مقبولیت بڑھنے کا اندازہ ضمنی انتخابات کے نتائج سے بھی ہوتا ہے جس نے سیاسی طور پر مسلمانوں کو بہت فائدہ پہنچایا۔ مسلم لیگ کی مقبولیت کا ایک ثبوت 1939ء میں یومِ نجات منانے کی جناح صاحب کی اپیل تھی جس پر برصغیر کے مسلمانوں نے والہانہ انداز اور جوش و جذبے سے لبیک کہا۔

    مسلم قومیت کا فروغ اور علیحدہ ریاست کا قیام
    وہ وقت بھی آیا جب قائداعظم نے الگ مسلم قومی تشخص کی اس طرح توضیح اور تشریح کی کہ مسلم اکثریتی صوبوں میں ایک علیحدہ مملکت کے قیام پر سب رضامند ہوگئے۔ چنانچہ قائداعظم کی زیرِ قیادت مسلم لیگ نے لاہور میں 1940ء میں منعقدہ اجلاس میں ایک علیحدہ مسلم ریاست کے قیام کو اپنا نصب العین قرار دیا اور اس کو پاکستان کا نام دیا گیا۔

    یہ پہلا موقع تھا جب مسلمانانِ ہند نے اتنے واضح اور مدلل انداز میں اپنی منفرد اور علیحدہ قومیت کا نہ صرف اعلان اور دعویٰ کیا بلکہ برصغیر میں ایک علیحدہ وطن کی تشکیل پر بھی زور دیا اور پھر 14 اگست 1947ء کو پاکستان معرضِ وجود میں آیا۔

  • یوم آزادی نہ منانے کے لیے سیاسی جماعت کی سازش پر عوام کی رائے سامنے آگئی

    یوم آزادی نہ منانے کے لیے سیاسی جماعت کی سازش پر عوام کی رائے سامنے آگئی

    اسلام آباد : یوم آزادی نہ منانے کے لیے سیاسی جماعت کی سازش پر عوام نے رائے دیتے ہوئے کہا کہ جو بھی آزادی نہ منانے کی مہم چلا رہے ہیں وہ ملک دشمن ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق ایک سیاسی جماعت نے ملک مخالف پروپیگنڈا کرکے عوام کو یوم آزادی نہ منانےکی ترغیب دی اور اس سیاسی جماعت کی مذموم سازش کو عوام نے بھرپور طریقے سے ناکام بنایا۔

    عوام کا کہنا تھا کہ یوم آزادی نہ منانے کے لیے سیاسی جماعت کی سازش پر عوام کی رائے سامنے آگئی ، عوام کا کہنا ہے کہ یہ پروپیگنڈابالکل غلط ہے کہ14 اگست نہیں منانی چاہئے، 14اگست کو یوم آزادی ہرصورت منانی چاہیے،عوام کی رائے

    پاکستانی عوام نے رائے دی ہم آزاد ملک میں جی رہےہیں اور اپنی آزادی پر الحمدللہ بہت خوش ہیں، ہم غلام توہیں نہیں جو آزادی نہ منائیں، ہم نے اپنے علاقے میں بھرپور جوش وخروش سے یوم آزادی منایا، جتنی بھی سیاسی جماعتیں ہیں انہیں اپنے ملک سے محبت کو اولین رکھنا چاہئے اور ہر پاکستانی کو پرامن طریقے سے خوشحالی کے ساتھ آزادی منانی چاہئے۔

    عوام نے مزید کہا کہ جوبھی آزادی نہ منانےکی مہم چلارہے ہیں وہ ملک دشمن ہیں، جو پارٹی یہ کہتی ہے کہ آزادی نہ منائیں وہ محب الوطن نہیں ہے، ہم ہمیشہ پاکستان زندہ باد کے نعرے لگاتے رہیں گے۔

    پاکستانی عوام کا کہنا تھا کہ افسوسناک بات ہے کہ سیاسی پارٹی اپنے مفاد کیلئے یوم آزادی کو غلامی کا دن کہہ رہی ہے۔

  • اتحاد ٹاؤن فیز ون کے تحت جشن آزادی کی  شاندارتقریب

    اتحاد ٹاؤن فیز ون کے تحت جشن آزادی کی شاندارتقریب

    لاہور : اتحاد ٹاؤن فيز ون مین رائیونڈ روڈ میں شاندار گرينڈ بیلیٹنگ اور يوم آزادی کی تقريب کا انعقاد کیا گیا جس میں پلاٹ نمبروں کی بیلٹنگ کا اعلان کیا گیا۔

    اس رنگا رنگ تقریب میں نامور گلوکار بلال سعید نے اپنے فن کا مظاہرہ کیا، یوم آزادی کی خوشی میں آتش بازی کا مظاہرہ بھی کیا گیا، تقریب میں لوگوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔

    میزبانی کے فرائض نامور اداکار واسع چودھری نے انجام دیئے، اس موقع پر شرکاء کو پلاٹ نمبرز الاٹ کیے گئے، کنسرٹ اور آتش بازی نے اس تہوار کے ماحول کو نئی بلنديوں پر پہنچا ديا، تقریب کے شرکاء بلال سعید کی پرفارمنس پر جھوم اٹھے۔

    اتحاد ٹاؤن

    چيف آپريٹنگ آفيسر شيخ شجاع الله خان نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ جب ہم اپنے ملک کی آزادی کا جشن منا رہے ہيں تو آئيے ترقی کے جذبے سے سرشار اپنی صلاحيتوں کا بھی جشن منائيں جو پاکستان کے رئيل اسٹيٹ سيکٹر کی حقیقت ہے۔

    ان کا مزید کہنا تھا کہ اتحاد ٹاؤن فيز 1 اتحاد اور ترقی کی علامت کے طور پر کھڑا ہے، اتحاد ٹاؤن کی بنيادی اقدار وعدے کے مطابق تکميل اور معيار ہیں، يہ تقريب نہ صرف ايک جشن کی علامت ہے بلکہ اس بات کو يقينی بنانے کے لئے ہمارے عزم کی بھی عکاسی کرتی ہے کہ وعدے صرف کئے ہی نہيں گئے بلکہ انہيں مسلسل پورا بھی کيا گيا ہے۔

    تقریب میں معزز ڈائریکٹرز، مینجنگ ڈائریکٹر چودھری محمد منیر سمیت گروپ ڈائریکٹرز چودھری فیصل منیر، چودھری سہیل منیر، چودھری راحیل منیر اور چیف آپریٹنگ آفیسر شیخ شجاع اللہ خان اس کی رونمائی کو دیکھنے کے لیے موجود تھے۔

    گروپ ڈائریکٹرز  نے جشن آزادی کے موقع پر دلی نیک خواہشات کا اظہار کیا، انہوں نے رئیل اسٹیٹ اور متحد کمیونیٹیز کے اہم کردار پر زور دیا جو ملک کے روشن مستقبل کے لیے ضروری ہیں۔ انہوں نے اتحاد کی انتظامیہ ٹیم کو مبارکباد دی اور ایک شاندار عوامی تقریب کے انعقاد پر مارکیٹنگ ڈیپارٹمنٹ کی کاوشوں کو بھی سراہا۔

  • وطن عزیز کا یوم آزادی آج ملی جوش و جذبے سے منایا جا رہا ہے

    وطن عزیز کا یوم آزادی آج ملی جوش و جذبے سے منایا جا رہا ہے

    وطن عزیز پاکستان کا یوم آزادی آج ملی جوش و جذبے سے منایا جا رہا ہے، عمارتوں، گلی کوچوں کو سبز ہلالی رنگوں سے سجایا گیا ہے۔

    قوم آج پاک سرزمین کی ترقی، خوشحالی، سلامتی، استحکام اور وقار کے عزم کی تجدید کررہی ہے، پاکستانی عوام ملک پر تن، من دھن قربان کرنے سے بھی دریغ نہ کرنے کا عزم کرتے ہوئے یہ دن منا رہی ہے۔

    پاکستان کے قریہ قریہ، نگرنگر کو سبز ہلالی رنگوں سے سجایا گیا ہے، یوم آزادی کی مناسبت سے سرکاری اور نجی عمارتوں پر رنگا رنگ روشنیاں آویزاں کی گئی ہیں جب کہ یومِ آزادی پر ملک بھر میں تقریبات کا انعقاد کیا جارہا ہے۔

    پرچم کشائی کی مرکزی تقریب کنونشن سینٹر اسلام آباد میں منعقد ہوگی، دن کا آغاز وفاقی دارالحکومت میں 31 اور صوبائی دارالحکومتوں میں 21، 21 توپوں کی سلامی سے ہوگا۔

    مساجد میں نماز فجر کے بعد ملک کی خوشحالی، یکجہتی اور امن کے لیے خصوصی دعائیں کی جائیں گی، بابائے قوم محمد علی جناح اور علامہ محمد اقبال کے مزاروں پر گارڈز کی تبدیلی کی پروقار تقاریب ہوں گی۔

  • تحریکِ پاکستان اور خواتین

    تحریکِ پاکستان اور خواتین

    محسنؔ بھوپالی نے کہا تھا
    ملی نہیں ہے ہمیں ارضِ پاک تحفے میں
    جو لاکھوں دیپ بجھے ہیں تو یہ چراغ جلا
    بلاشبہ یہ وطن غیر منقسم ہندوستان کے انگنت مسلمانوں کے ایثار کے صلے میں انعام کی صورت ہمیں ملا ہے۔ ہمارے اسلاف نے آزاد وطن کے لیے عملی جدوجہد کی، انتھک محنت کی، بے مثال قربانیاں دیں تب کہیں جا کر غلامی کی قید سے خود کو آزاد کرانے میں کامیاب ہوئے۔
    ہماری وہ بزرگ خواتین جنھوں نے پاکستان بنتے دیکھا ہے کم و بیش ایک سے واقعات سناتی ہیں۔ انگریزوں بالخصوص فسادات کے دوران ہندوؤں اور سکھوں کی عصبیت اور ظلم و بربریت کی بات ہو تو ایک ہی دہائی سنائی دیتی ہے کہ مسلمانوں کی عزت، جان، مال، گھر کچھ بھی محفوظ نہ رہا تھا۔ عجب بے سرو سامانی کا عالم تھا۔ پاکستان بنانے میں مردوں کے ساتھ ساتھ خواتین نے بھی فعال کردارا دا کیا۔ مسلمان خواتین کی سیاسی بیداری نے ہندوستان میں تہلکہ مچا دیا۔ بی اماں تحریکِ خلافت کے دوران منظرِ عام پر آئیں۔ قائدِ اعظم کی عزیز ہمشیر محترمہ فاطمہ جناح ہر مشکل گھڑی میں اُن کے ساتھ ساتھ رہیں، آپ سیاسی سفر میں قائداعظم کی بہترین معاون اور مشیر تھیں۔ آپ مسلم لیگ کے خواتین کے جلسوں سے خطاب کرتیں تو خواتین کی تعلیم پر زور دیتیں اور تعلیمِ نسواں کا شعور بیدار کرتیں۔ اس ضمن میں آپ کی ساتھی خواتین بیگم رعنا لیاقت علی خان، امجدی بیگم، جمیلہ شوکت، بیگم شائستہ اکرام اللہ، نورالصباح بیگم، بیگم اختر سلیمان، بیگم جمعہ، بیگم اصفہانی، لیڈی ہارون، بیگم ممتاز شاہنواز، بیگم سلمیٰ تصدق حسین، وقار النساء نون و دیگر کی مخلصانہ کاوشوں کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ ان تمام معزز خواتین نے مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے آزاد وطن کے حصول کے لیے بہت فعال کردار ادا کیا۔ یہ وہ خواتین تھیں جن کی کوئی نہ کوئی اعلیٰ یا ادنیٰ درجے کی سیاسی حیثیت تھی مگر نام وَر مسلم لیگی خواتین کے ساتھ ساتھ عام عورتیں بھی اپنے اپنے انداز سے سرگرمِ عمل رہیں لیکن ان کی حیثیت گمنام سپاہی کی سی تھی۔ان تمام خواتین نے نہ صرف آزادی کی جدوجہد میں انتھک محنت کی بلکہ بڑی قربانیاں بھی دیں، زیورات جو اکثر خواتین کی کمزوری ہوتے ہیں اپنے ہاتھوں انہوں نے فنڈز میں دے دیے۔ اس راہ میں کئی کانٹے تھے جنھیں وہ پھول سمجھ کر چنتی رہیں۔
    ایک مرتبہ ایک ضعیف خاتون نے قائد اعظم سے صحت کی جانب سے غفلت نہ برتنے کی درخواست کرتے ہوئے ٹانک استعمال کرنے کا مشورہ دیا، جسے سن کر قائدِ اعظم مسکرائے اور فرمایا، ”آپ کا بہت بہت شکریہ، میری صحت خراب نہیں ہے، بات صرف یہ ہے کہ مجھے کام بہت زیادہ کرنا پڑتا ہے، اگر آپ لوگ مجھ سے زیادہ کام کرنا شروع کر دیں تو اس سے بڑا ٹانک میرے لیے اور کوئی نہیں ہو سکتا۔“ قائدِاعظم نے ہمیشہ خواتین کو ہمّت اور حوصلے سے کام لینے کی تلقین کی اور ان کی منزل کے حصول کے لیے لگن اور جدوجہد کو سراہا۔
    اُن دنوں تمام مسلمانوں کا یہ حال تھا کہ گھر بار ہوتے ہوئے بھی بے گھری کا خوف سر پر سوار رہتا۔ ایسے میں 3 جون کے تقسیم کے اعلان 14 اگست 1947ء کو آزاد وطن کے حصول کی خوشی ناقابلِ بیان تھی اور پھر اپنے آزاد وطن جانے کے راستے کی صعوبتوں نے جینا محال کر دیا تھا، لیکن آزادی کی خوشی نے ہر مشکل گھڑی کو آسان بنا دیا۔
    قائدِ اعظم نے فرمایا تھا، ”مجھے ہر پڑھی لکھی عورت کی ضرورت ہے کیونکہ ہمیں پاکستان بنانا ہے اور ہر عورت کو تعمیری کام کرنا ہو گا۔“
    ایک آزاد وطن حاصل کرنے کے بعد خواتین کی ذمہ داریاں ختم نہیں ہوگئی تھیں۔ نئے ملک کے ساتھ ذمہ داریاں بھی نئی تھیں، خواتین کی لگن اور ہمت مزید بڑھ گئی تھی۔ انہوں نے فلاحی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصّہ لیا۔ مضحکہ خیز المیہ ہے کہ قیامِ پاکستان کے لیے سرتوڑ کوششیں کرنے والی خاتون کو مادرِ ملّت کا خطاب تو دے دیا گیا لیکن اُن کی قدر نہیں کی گئی۔ اگر مادرِ ملّت کو مواقع میسر آتے تو وہ پاکستان کی بقا و ترقی کے لیے اپنا کردار ضرور ادا کرتیں۔ آپ اولو العزم خاتون تھیں۔
    اے پیکرِ خلوص و وفا، اے متاعِ جاں
    خدمات آپ کی ہیں گراں فاطمہ جناح
    ( سید ذوالفقار حُسین نقوی)
    بیگم رعنا لیاقت علی خان نے اپنی ساتھی خواتین کے تعاون سے عورتوں کی ترقی، فلاح و بہبود کے لیے فعال ادارہ اپوا قائم کیا۔ بیگم اختر سلیمان نے نہ صرف تحریکِ پاکستان کے لیے عام کارکن سے کام لیا بلکہ قیامِ پاکستان کے بعد بھی معذور بچّوں کی بحالی کے لیے ادارہ SRCC اور بے سہارا خواتین کے لیے ”نشیمن“ قائم کیا۔ بیگم اصفہانی نے کاشانۂ اطفال بنایا۔ نورالصباح بیگم، بیگم تزئین فریدی اور بیگم صدیق علی خان نے خواتین اور بچّوں کی فلاح و بہبود کے لیے کاوشیں کیں اور فعال کردارادا کرتی رہیں۔ تحریک کے دنوں‌ میں‌ اور بعد میں‌ پاکستان کی خدمت کا جذبہ اتنا قوی تھا کہ خواتین بڑے سے بڑے کام کر جاتی تھیں۔تاریخ گواہ ہے کہ پنجاب لاہور سیکریٹریٹ پر جھنڈا لہرانے والی بھی ایک طالبہ ہی تھی۔
    کل تک آزادی کی کامیاب جنگ لڑنے والی اور پاکستان بنتے ہوئے دیکھنے والی خواتین ماضی کے دریچے کھولتی ہیں تو جہاں انھیں وہ خوں آشام مناظر، قائدِ اعظم اور اُن کے رفقائے کار کی جدوجہد اور خواتین کی کاوشوں اور قربانیوں کا خیال آتا ہے وہاں احساسِ زیاں بھی ستاتا ہے کہ
    یہ داغ داغ اُجالا، یہ شبِ گزیدہ سحر
    وہ انتظار تھا جس کا، یہ وہ سحر تو نہیں
    (فیض احمد فیضؔ)
    گزشتہ پچھتّر برسوں میں پل پل رنگ بدلتی ملکی معاشی، سیاسی اور سماجی صورتحال دیکھ کر کئی بار یقین کے جھلملاتے دیے ٹمٹمائے، لیکن اِن نہایت تشویش ناک، غیر تسلی بخش اور غیر یقینی حالات میں بھی خواتین نے تعمیرِ وطن کے لیے اپنا سفر جاری رکھا۔
    چینی کہاوت ہے کہ ” اگر آپ کے ذہن میں چند ماہ کے لیے موسم کے اعتبار سے کوئی منصوبہ ہے تو موسمی پودے لگائیے، اگر کچھ عرصے کا منصوبہ ہے تو چھوٹے درخت لگائیے، اگر برسوں پر محیط منصوبہ ہے تو پھر گھنے تناور درخت لگائیے اور اگر صدیوں پر محیط منصوبہ ہے تو عورتوں کو اپنے ساتھ شامل کر کے جمہوریت کے درخت کو پروان چڑھائیے۔ “
    بلاشبہ خواتین کی اہمیت کو اگر تسلیم کیا جائے اور اُن کی صلاحیتوں پر بھروسہ اور ان کا اعتراف کیا جائے تو خواتین ہر میدان میں کامیابی حاصل کر سکتی ہیں۔جب سے ہماری وزارت اور کابینہ میں خواتین کی شمولیت بڑھی ہے، مختلف شعبہ ہائے زندگی میں خواتین کلیدی عہدوں پر فائز ہورہی ہیں۔ ترقی و خوش حالی بھی نظر آئی ہے، گو یہ مسرت صدفی صد ابھی ہمارے حصّے میں نہیں آئی اور اس ہدف کو پورا کرنے کے لیے ابھی مزید محنت اور ریاضت کی ضرورت ہے لیکن ہمیں یقین ہے کہ اگر خلوصِ نیّت کے ساتھ پاکستان کی بقا کے لیے خواتین اپنا عملی کردار اسی طرح‌ ادا کرتی رہیں تو بقول شاہدہ ؔحسن
    قدم پہ خود ہی کھلیں گی راہیں، سحر سے خود سلسلہ ملے گا
    ہم اپنے سارے چراغ لے کر چلیں گے تب راستہ ملے گا
    ہم اپنے حصّے کی روشنی سے اجال دیں گر تمام رستے
    جو تھک گئے ہیں انھیں بھی چلنے کا اک نیا حوصلہ ملے گا
    ہم اپنے ریشم ملا کے بُن لیں جو ایک پوشاک الفتوں کی
    تو اِس زمیں پر کوئی بھی پیکر نہ پھر دریدہ قبا ملے گا
    اور پھر خواتین کے عزمِ محکم اور عملِ پیہم سے پاکستان کو ترقی یافتہ اقوام کی صف میں کھڑا ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا۔
    میں راہِ ترقّی کا ہوں دیا
    دنیا نے مجھے تسلیم کیا
    مجھے عزّت، مان، وقار دیا
    میں، عفت، عزّت، عصمت ہوں
    میں ہمّت ہوں، میں قوت ہوں
    میں طاقت ہوں، میں جرأت ہوں
    میں عورت ہوں، میں عورت ہوں
    (عنبرین حسیب عنبرؔ)
  • یوم آزادی کی رات عوامی مقامات پر ہلڑ بازی  کرنے والوں کیخلاف سخت کارروائی کا حکم

    یوم آزادی کی رات عوامی مقامات پر ہلڑ بازی کرنے والوں کیخلاف سخت کارروائی کا حکم

    لاہور : نگراں وزیراعلیٰ محسن نقوی نے یوم آزادی کی رات عوامی مقامات پر ہلڑ بازی اور بد نظمی کرنے والوں کیخلاف سخت کارروائی کا حکم دے دیا۔

    تفصیلات کے مطابق نگراں وزیراعلیٰ محسن نقوی نے جشن آزادی کے موقع پر آئی جی پنجاب کو شرپسندوں کیخلاف کارروائی یقینی بنانے کی ہدایت کردی۔

    محسن نقوی نے یوم آزادی کی رات فیملیز کو تحفظ فراہم کرنے کے لئے پولیس کو ہدایات جاری کی اور عوامی مقامات پر ہلڑ بازی اوربد نظمی کرنے والوں کیخلاف سخت کارروائی کا حکم دے دیا۔

    نگراں وزیراعلیٰ نے فیملز سے نازیباحرکات کرنے والے شرپسندوں سے نمٹنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ ون ویلنگ اور موٹر سائیکل میں آلٹریشن کرنے والوں کیخلاف کارروائی ہوگی۔

    ان کا کہنا تھا کہ 13اور14اگست کوصرف اورصرف قومی پرچم لگانےاورلہرانےکی اجازت ہوگی تاہم 13 اور 14 اگست کو کسی بھی سیاسی جماعت کو ریلی کی اجازت نہ دینے کا فیصلہ کیا ہے۔