Tag: یوم آزادی

  • یوم آزادی پر "باجوں” پر پابندی  کی درخواست مسترد

    یوم آزادی پر "باجوں” پر پابندی کی درخواست مسترد

    لاہور : لاہور ہائی کورٹ نے یوم آزادی کے موقع پر باجوں پر پابندی عائد کرنے کی درخواست مسترد کر دی۔

    تفصیلات کے مطابق لاہور ہائی کورٹ نے یوم آزادی پر باجوں پر پابندی عائد کرنے کے لئے درخواست کی سماعت کی۔

    جسٹس شاہد وحید نےشہری منیب طارق کی درخواست پر سماعت کی، منیب طارق نامی شہری نے درخواست میں مؤقف اپنایا کہ یوم آزادی پر باجے شہریوں کو ذہنی اذیت میں مبتلا کرتے ہیں۔

    درخواست میں استدعا کی گئی کہ عدالت یوم آزادی پرباجوں کی خرید و فروخت پر پابندی کا حکم دے۔

    عدالت نے باجوں پر پابندی کی درخواست غیر موثر قرار دیتے ہوئے مسترد کرتے ہوئے کہا یوم آزادی کا دن گزرنے کی وجہ سے درخواست توغیرمؤثر ہوچکی ہے۔

    واضح رہے کہ یوم آزادی پر خوشی کے اظہار کے لیے باجوں کا استعمال پاکستان بھر میں ایک روایت بن چکا ہے۔

    اتوار کی رات کو پاکستان کے یوم آزادی کے آغاز کے بعد سے ہی لوگوں نے آتش بازی، قومی ترانوں اور ہمیشہ کی بلند آواز میں نعرے لگائے۔

  • 75 سال: کبھی پاکستان کی معیشت مستحکم تھی

    75 سال: کبھی پاکستان کی معیشت مستحکم تھی

    برصغیر کے بٹوارے کو 75 سال بیت گئے۔ تقسیمِ ہند کے اعلان کے نتیجے میں معرضِ وجود میں‌ آنے والا پاکستان آج سیاسی انتشار، افراتفری دیکھ رہا ہے اور معاشی میدان میں‌ بھی اسے ابتری کا سامنا ہے۔

    پاکستان کی معیشت ہمیشہ مد و جزر کا شکار رہی ہے، لیکن کیا اس کے قصور وار صرف حکم راں ہیں اور صرف سیاسی مصلحتیں اس تباہ حالی کی وجہ ہیں؟

    ایک حد تک تو یہ بات درست ہے، مگر اس میں مختلف عوامل کارفرما ہیں اور کئی پہلوؤں سے ان کا جائزہ لینا ہو گا۔ اس ضمن میں‌ قومی ادارۂ شماریات کے اعداد و شمار اور ٹھوس حقائق پر مبنی بحث میں‌ ماہرینِ معیشت کی رائے ہی قابلِ توجہ ہوسکتی ہے۔ تاہم ایک بات یہ بھی ہے کہ دہائیوں پہلے پاکستانی مالیاتی اداروں میں مخلص اور قابل لوگ موجود تھے جنھوں نے ملکی معیشت کو سنبھالے رکھا۔ 1950 کی بات ہے جب پاکستانی معیشت مستحکم تھی، لیکن 1958 کے بعد صورتِ حال تبدیل ہوئی۔ ملک میں‌ دوسرا پانچ سالہ معاشی منصوبہ 1965 میں ختم ہوا اور اس وقت بھی ملک ترقی پذیر ممالک میں مستحکم حیثیت کا حامل تھا۔ ورلڈ بینک کی ایک رپورٹ کے مطابق اس وقت جو ممالک پہلی دنیا (ترقی یافتہ ممالک) کا درجہ حاصل کر سکتے تھے، ان میں پاکستان بھی شامل تھا۔ پھر 1965 میں پاک بھارت جنگ نے معیشت میں بگاڑ پیدا کردیا، لیکن پاکستان جلد اس سے نکل گیا اور 1968 تک ترقی کی شرح دوبارہ سات فیصد سے زیادہ ہوگئی۔ اس کے بعد معاشی حالات بگڑنے لگے اور بعد کے برسوں میں ملک میں اصلاحات اور صنعتوں کو قومیانے سے معیشت کو نقصان پہنچا۔

    اگر حکومتی کارکردگی کے تناظر میں‌ خراب معاشی حالات اور منہگائی میں اضافے کی بات کی جائے تو ہم دیکھتے آئے ہیں کہ ترقی کے دعوؤں اور عوام کی خوش حالی کے منشور کے ساتھ مرکز اور صوبوں‌ میں‌ حکومت بنانے کے والوں کی ترجیحات راتوں رات بدل جاتی ہیں۔ سیاسی جماعتیں تمام وسائل اور سارا زور اپنے مخالفین کو کم زور کرنے اور اپنے مفادات کی تکمیل پر لگا دیتی ہیں جس میں ملک کا ہر شعبہ متاثر ہوتا ہے۔

    آج پاکستان کو معاشی میدان میں مشکلات کا سامنا ہے۔ کبھی زرِ مبادلہ کے ذخائر میں مسلسل کمی تو کبھی ڈالر کی اونچی اڑان بریکنگ نیوز کے طور پر سامنے آتی ہے۔ اس سیلابِ بلا خیز میں پاکستانی روپیہ خس و خاشاک کی طرح‌ بہہ رہا ہے، اور اس سے عوام براہِ راست متاثر ہوئے ہیں۔ معاشی عدم استحکام اور اس حوالے سے بے یقینی کی فضا میں صنعتوں کا پہیہ بری طرح متاثر ہوتا ہے۔ تیل اور گیس کی ضرورت پوری نہ ہونے سے صنعتیں اور گھریلو زندگی مشکل ہوجاتی ہے۔ ایسی صورتِ حال میں ملک کی درآمدات، برآمدات اور ہر قسم کی خرید و فروخت متاثر ہوتی ہے جب کہ پاکستان میں‌ بیروزگاری کی شرح بھی بڑھی ہے۔ ملک میں عوام کو دو وقت کی روٹی کا حصول دشوار ہوتا جارہا ہے۔ آٹا چینی، گھی تیل اور دیگر غذائی اجناس سمیت ضروریاتِ زندگی کی مختلف اشیا کے دام بڑھ رہے ہیں۔

    یہ حالات ایک طرف بھوک اور بیروزگاری لوگوں کو قسم قسم کے جرائم اور دھوکا دہی کی طرف مائل کر رہے ہیں اور دوسری جانب بے بس اور مجبور لوگ خود کشی کررہے ہیں۔ اس مشکل وقت میں آج پاکستان آزادی کی پلاٹینم جوبلی منا رہا ہے۔

    ادھر سرحد کے دوسری طرف بھی صورتِ حال کچھ مختلف نہیں ہے۔ بھارت کی معیشت بھی بحران کا شکار ہے۔ غربت، بدحالی اور بنیادی ضروریات سے محرومی بھارت کی اکثریت کا مسئلہ ہے اور حکومت معیشت کو سہارا دینے اور مالی خسارے کو سنبھالنے کے لیے تمام بوجھ عوام پر ڈال رہی ہے۔ پاکستان کے عوام کی اس بدحالی، پستی اور محرومی کا ایک بڑا سبب سرمایہ دار، امرا اور وڈیرے ہیں اور یہی لوگ سیاسی جماعتوں میں‌ شامل ہیں اور اقتدار ملنے کے بعد ملکی اداروں‌ میں‌ پالیسی ساز کے طور پر اختیار کو استعمال کرکے فیصلہ کُن کردار ادا کرتے ہیں۔ یہ حکم راں سرمایہ دارانہ نظام کو مضبوط بناتے ہیں اور یہ وہ نظام ہے جسے برطانوی سامراج نے اس خطّے میں پنپنے کا موقع دیا اور یہ عام آدمی کی جیب سے پیسہ نکلوا لیتا ہے۔

    75 سال گزر گئے، لیکن آج بھی پاکستان کے عوام روٹی، کپڑا اور مکان جیسی بنیادی ضرورت اور پینے کے صاف پانی کو ترس رہے ہیں۔ عام آدمی عدالتوں سے انصاف، مریض علاج معالجے کی مفت اور بہترین سہولیات، معیاری اور مفت تعلیم کے علاوہ یکساں نصاب اور اس کی بنیاد پر جامعات میں‌ داخلہ اور بعد میں روزگار ایک خواب بن کر رہ گیا ہے۔ دوسری جانب حکم راں طبقہ اور اشرافیہ کی دولت اور جائیدادوں میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان میں‌ احتساب کی کوئی روایت موجود نہیں‌ ہے اور اس حوالے سے موجود اداروں کا احتساب سیاسی دباؤ کی وجہ سے انتقامی کارروائی بن کر رہ جاتا ہے۔ پاکستان میں‌ حکم راں طبقہ اپنے مفادات کی تکمیل کے لیے امتیازی قوانین وضع کرنے اور تشکیلِ نظام کے ساتھ ضرورت پڑنے پر اپنے تحفظ کے لیے زبان، علاقے اور مذہب کا بے استعمال کرتا آیا ہے اور آج بھی یہ سلسلہ جاری ہے۔

    ملک میں معاشی مشکلات اور حالیہ منہگائی کو موضوع بنائیں‌ تو گزشتہ برس ہر کاروبار میں قیمتوں میں جس رفتار سے اضافہ ہونا شروع ہوا وہ پچھلی دہائیوں میں نہیں دیکھا گیا تھا۔ دنیا کے کئی ممالک اور بڑی معیشتوں میں سب سے زیادہ متاثر ہونے والا ملک امریکا ہے جہاں گزشتہ ماہ افراطِ زر کی شرح 8.6 فیصد تک پہنچ گئی، جو دنیا کے دیگر ممالک کی نسبت بلند ترین شرح ہے۔

    پاکستان میں منہگائی کی شرح کا تعین ادارۂ شماریات کرتا ہے جس پر کئی سوالات بھی اٹھائے جاتے رہے ہیں۔ یہ ادارہ وزارتِ خزانہ کے ماتحت ہے جس کے منہگائی سے متعلق اعداد و شمار پر شکوک و شبہات کا اظہار کیا جاتا رہا ہے۔ ایک عام خیال یہ ہے کہ ادارۂ شماریات حکومت کے دباؤ پر منہگائی کو کم ظاہر کرتا ہے اور حکومتیں‌ ان اعداد و شمار پر اثر انداز ہوتی ہیں۔

    منہگائی سے متعلق ایسی رپورٹیں‌ ملک کے مختلف علاقوں سے اکٹھے کیے جانے والے اعداد و شمار پر مبنی ہوتی ہیں۔ وفاقی ادارہ مختلف شعبوں کے اعداد و شمار اکٹھا کرکے اپنی ایک مفصل رپورٹ جاری کرتا ہے جس میں مہنگائی کی شرح کا تعین بھی کیا جاتا ہے۔

    ادارۂ شماریات جس ماڈل کے تحت کام کرتا ہے، اس میں مہنگائی کی شرح تین طریقوں سے معلوم کی جاتی ہے۔ ان میں ایک ماہانہ بنیادوں پر کنزیومر پرائس انڈیکس کا جائزہ ہوتا ہے جس میں ماہانہ بنیادوں پر قیمتوں میں ردّ و بدل کو ظاہر کیا جاتا ہے۔ ہفتہ وار بنیادوں پر قیمتوں میں ہونے والا ردّ و بدل قیمتوں کے خاص اشاریے کے تحت جاری ہوتے ہیں اور اشیائے خور و نوش کی قیمتوں کا تقابلی جائزہ لیا جاتا ہے۔ تیسرا طریقہ ہول سیل پرائس انڈیکس ہے جس میں ماہانہ بنیادوں پر ہول سیل کی سطح پر قیمتوں میں ردّ و بدل کے اعداد و شمار کو دیکھتے ہیں۔ اس حوالے سے بی بی سی کی ایک معلوماتی رپورٹ بتاتی ہے کہ ادارۂ شماریات کے تحت پاکستان کے 35 شہری علاقوں اور 27 دیہی علاقوں سے قیمتیں اکٹھی کی جاتی ہیں۔ شہری علاقوں میں 65 مارکیٹوں اور اور دیہات میں 27 مارکیٹوں سے قیمتوں کا ڈیٹا اکٹھا کیا جاتا ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق شہری علاقوں میں 356 اشیا کی قیمتوں کا ڈیٹا اکٹھا کیا جاتا ہے جب کہ دیہات سے 244 چیزوں کی قیمتیں معلوم کی جاتی ہیں۔ ان اعداد و شمار کی بنیاد پر اوسط نکالنے کے بعد‌مہنگائی کی شرح بتائی جاتی ہے۔

  • قوم کو یوم آزادی مبارک، بہادر افواج سے مل کر دشمن کے عزائم خاک میں ملا دیں گے: وزیر اعظم

    قوم کو یوم آزادی مبارک، بہادر افواج سے مل کر دشمن کے عزائم خاک میں ملا دیں گے: وزیر اعظم

    اسلام آباد: وزیر اعظم شہباز شریف نے قوم کو یوم آزادی کی مبارک باد دیتے ہوئے کہا ہے کہ ہم اپنی بہادر افواج کے ساتھ مل کر دشمن کے عزائم خاک میں ملا دیں گے۔

    اے آروائی نیوز براہِ راست دیکھیں live.arynews.tv پر

    تفصیلات کے مطابق جناح کنونشن سینٹر اسلام آباد میں پرچم کشائی کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم پاکستان نے کہا کہ اللہ کا شکر ہے، آج ہم یوم آزادی منا رہے ہیں، میں دنیا بھر میں بسنے والے پاکستانیوں کو دل کی گہرائی سے مبارک باد پیش کرتا ہوں۔

    وزیر اعظم نے کہا مشاہیر پاکستان کی عظمت کو سلام جن کی وجہ سے آزاد وطن میسر آیا، یہ ملک آئین، جمہوریت اور قانون کی حکمرانی کے لیے حاصل کیا گیا تھا، پاکستان ہمارے آبا و اجداد کی عظیم قربانیوں کا ثمر ہے، بہادر افواج سے مل کر دشمن کے عزائم خاک میں ملا دیں گے۔

    شہباز شریف نے کہا میں پاکستان کی ترقی میں اوورسیز پاکستانیوں کے کردار کو سراہتا ہوں، جب قومیں اجتماعی نصب العین طے کرتی ہیں تو پہاڑ اور سمندر بھی ان کا راستہ نہیں روک سکتے، ملکی حصول میں جدوجہد کرنے والی اقلیتوں کی جدوجہد کو بھی سلام پیش کرتے ہیں۔

    انھوں ںے کہا قیام پاکستان کا ایک مقصد مکمل ہو چکا، دوسرامقصد ہنوز جاری ہے، قیام پاکستان کا دوسرا مقصد ہم سب نے مل کر پورا کرنا ہے، دعا ہے مقبوضہ کشمیر اور فلسطین کو بھی جلد آزادی ملے۔

    31 توپوں کی سلامی سے دن کا آغاز، ملک بھر میں آج 75 واں یوم آزادی جوش و جذبے سے منایا جا رہا ہے

    وزیر اعظم نے کہا نیشنل ڈائیلاگ کی اشد ضرورت ہے، کسی بھی قوم کے لیے اندرونی خلفشار، تقسیم، انتشار سے بڑھ کر کوئی چیز خطرناک نہیں، آزادی کی حفاظت کے لیے خون کا آخری قطرہ تک بہائیں گے۔

    شہباز شریف نے کہا آج کا دن پاکستانی سول سوسائٹی کی خدمات کے اعتراف کا بھی دن ہے، عبدالستار ایدھی، ڈاکٹر رتھ فاؤ کی خدمات کو بھی خراج عقیدت پیش کرتے ہیں، وطن عزیز ایک مقدس امانت اور مشن ہے۔

  • 31 توپوں کی سلامی سے دن کا آغاز، ملک بھر میں آج 75 واں یوم آزادی جوش و جذبے سے منایا جا رہا ہے

    31 توپوں کی سلامی سے دن کا آغاز، ملک بھر میں آج 75 واں یوم آزادی جوش و جذبے سے منایا جا رہا ہے

    لاہور: ملک بھر میں 75 واں یوم آزادی ملی جوش و جذبے سے منایا جا رہا ہے۔

    پاکستان کا پچھتر واں جشن آزادی آج ملی جوش و جذبے سے منایا جا رہا ہے، وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں 31 اور صوبائی دارالحکومتوں میں 21,21 توپوں کی سلامی سے دن کا آغاز کیا گیا۔

    اے آروائی نیوز براہِ راست دیکھیں live.arynews.tv پر

    فوجی جوانوں نے اللہ اکبر اور پاکستان زندہ باد کے فلک شگاف نعرے لگائے، مساجد میں ملکی سلامتی، استحکام اور خوش حالی کی دعائیں کی گئیں۔

    مصور پاکستان علامہ اقبال کے مزار پر گارڈز تبدیلی کی باوقار تقریب منعقد ہوئی، پاک فوج کے چاق و چوبند دستے نے گارڈز کے فرائض سنبھال لیے، بابائے قوم قائد اعظم محمدعلی جناح کے مزار پر بھی گارڈز تبدیل ہوئے اور پاک بحریہ کے کیڈٹس نے ذمہ داری سنبھال لی۔

    اسلام آباد میں جناح کنونشن سینٹر میں پرچم کشائی کی مرکزی تقریب منعقد ہوئی، جس میں وزیر اعظم شہباز شریف نے پرچم کشائی کی، چیئرمین سینیٹ، اسپیکر قومی اسمبلی اور وفاقی وزرا، ارکان سینیٹ و قومی اسمبلی اور اعلیٰ عسکری قیادت شریک ہوئی۔

    لاہور میں ایوب اسٹیڈیم میں 21 توپوں کی سلامی سے دن کا آغاز کیا گیا، اور پاک فوج کے چاق و چوبند دستے نے توپوں کی سلامی دی۔

  • 75 سال پہلے بٹوارے کے ساتھ جنم لینے والی کہانیاں

    75 سال پہلے بٹوارے کے ساتھ جنم لینے والی کہانیاں

    تقسیمِ ہند کے اعلان پر فوری اور شدید رد عمل فسادات کی صورت میں سامنے آیا اور قتل و غارت گری کی وہ داستان رقم ہوئی جس سے برصغیر کی تاریخ کے اوراق چھلنی ہیں۔

    متحدہ ہندوستان کے بٹوارے کے ساتھ پیدا ہونے والے حالات کا اثر انسانی زندگی کے تمام شعبوں پر پڑا۔ ہجرت کرنے کا سلسلہ شروع ہوا تو مذہب اور قومیت کے نام پر خوب لہو بھی بہا جس نے ادب پر گہرے اثرات مرتب کیے۔ نظم ہو یا نثر، ناول ہو، یا افسانہ، تقسیم اور فسادات پر لکھنے کا سلسلہ چل نکلا۔ کرشن چندر، سعادت حسن منٹو، عصمت چغتائی، راجندر سنگھ بیدی، حیات اللہ انصاری، قرۃالعین حیدر، رام لعل، خواجہ احمد عباس، احمد ندیم قاسمی اور کئی ادیبوں نے اس تقسیم اور عظیم ہجرت سے جڑے واقعات اور مسائل پر کہانیاں لکھیں۔ یہاں ہم ایسے ہی چند مشہور افسانوں کے مصنّفین اور ان کی تخلیق کا چند سطری تعارف پیش کررہے ہیں جنھیں آپ انٹرنیٹ کی مدد سے پڑھ سکتے ہیں۔

    ’ٹوبہ ٹیک سنگھ‘
    مشہور افسانوں‌ کے خالق، نام ور ادیب اور فلمی کہانی کار سعادت حسن منٹو کا یہ افسانہ نقل مکانی یا ہجرت کے کرب کو بیان کرتا ہے۔ مصنّف نے بتایا ہے کہ تقسیمِ ہند کے بعد جہاں ہر چیز کا تبادلہ اور منتقلی عمل میں لائی جارہی تھی اور نئی نئی بنائی گئی سرحدوں کے اطراف قیدیوں اور پاگلوں کی بھی منتقلی کا منصوبہ بنایا گیا تو ایک پاگل انسان پر کیا بیتی۔ یہ کردار فضل دین پاگل کا تھا جسے صرف اس بات سے سروکار ہے کہ اُسے ’ٹوبہ ٹیک سنگھ‘ سے یعنی اس کی جگہ سے دور نہ کیا جائے۔ وہ جگہ خواہ ہندوستان میں ہو یا پاکستان میں، اسے اس سے غرض نہیں‌ تھی۔ جب اُسے جبراً وہاں سے نکالنے کی کوشش کی جاتی ہے تو وہ ایک ایسی جگہ جم کر کھڑا ہو جاتا ہے جو نہ ہندوستان کا حصّہ ہے اور نہ پاکستان کا۔ اور اچانک وہ اسی جگہ پر ایک فلک شگاف چیخ کے ساتھ اوندھے منھ گر جاتا ہے۔ وہ مَر چکا ہوتا ہے۔

    ‘لاجونتی’
    راجندر سنگھ بیدی نے اپنے اس افسانے کو اس کے مرکزی کردار کا نام ہی دیا ہے۔ یہ عورت یعنی لاجونتی خلوص کے ساتھ سندر لال کو اپنا سب کچھ مانتی ہے اور اس سے بڑی محبت کرتی ہے۔ سندر لال بھی لاجونتی پر جان چھڑکتا ہے، لیکن تقسیم کے وقت کچھ مسلمان نوجوان لاجونتی کو اپنے ساتھ پاکستان لے جاتے ہیں۔ پھر کہانی میں وہ موڑ آتا ہے جب مہاجرین کی ادلا بدلی شروع ہوتی ہے اور اس کے نتیجے میں لاجونتی پھر سندر لال تک پہنچ جاتی ہے، لیکن اب وہ سندر لال جو اس پر جان چھڑکتا تھا، اس پر شک کرتا ہے اور اس کا لاجونتی کے ساتھ رویہ اس قدر بدل جاتا ہے کہ اس عورت کو کچھ سمجھ نہیں‌ آتا۔ سندر لال کے رویے سے اس کی وفاداری اور پاکیزگی خود اس کے لیے سوالیہ نشان بن جاتی ہے۔

    ‘ماں بیٹا’
    حیات اللہ انصاری اردو افسانہ کا اہم نام ہیں اور اپنے اسلوب کے باعث پہچانے جاتے ہیں۔ انھوں‌ نے اپنے افسانہ میں‌ مذہبی انتہا پسندی سے پریشان ایک ہندو بیٹے اور مسلمان ماں کو دکھایا ہے جو بالکل الگ تھے۔ ان کا ماحول، معاشرہ جدا تھا اور وہ دونوں ہی ایک دوسرے کے مذہب سے سخت بیزار اور نفرت کرنے والے تھے۔ مگر تقسیم کے موقع پر ان کا دکھ ایک ہی تھا۔ لاکھوں لوگوں کی طرح برسوں سے ایک جگہ بسے ہوئے یہ دونوں بھی بالکل اجڑ گئے تھے۔ ان کا مذہب اور رسم و رواج، تہوار اور خاندان تو بالکل الگ تھے، مگر ان کے اجڑنے کی کہانی ایک جیسی تھی۔ پھر اتفاق سے جب وہ ملتے ہیں تو ایک دوسرے کی کہانی سنتے ہیں اور پھر ان کی سوچ بدل جاتی ہے۔

    ‘جلاوطن’
    قرۃ العین حیدر نے اس میں مشترکہ تہذیب کے بکھرنے کو بیان کیا ہے۔ یہ اس مشترکہ تہذیب کی کہانی ہے جس نے برصغیر میں بسنے والوں کے صدیوں کے میل جول سے جنم لیا اور ان کے درمیان یک جہتی کی علامت تھی۔ اس کہانی میں مصنّفہ نے رشتوں کے بکھرنے، خاندانوں کی جدائی اور انسانی قدروں کے پامال ہونے کے المیے کو پیش کیا گیا ہے۔ تقسیم کے بعد جس طرح رشتوں کا بھی بٹوارہ ہوا اور ایک ہی گھر کے باپ بیٹا سرحدوں کے اطراف میں بٹ کر کیسے کرب سے اور کن مسائل سے دوچار ہوئے، یہ سب اس کہانی میں‌ پڑھا جاسکتا ہے۔ یہ ان لوگوں کی داستان ہے جو بٹوارہ نہیں چاہتے تھے اور اپنا گھر بار چھوڑنا ان کے لیے آسان نہ تھا۔ بیٹے کی پاکستان ہجرت دوسری طرف بھارت کے شہری بن جانے والے اس کے خاندان کو اپنے ہی وطن میں مشکوک بنا دیتی ہے۔ جوان اولاد کی جدائی کا غم تو مارے ہی دے رہا تھا، اس پر اپنی ہی پولیس کی تفتیش بھی برداشت کرنا پڑتی ہے۔

    ‘نصیب جلی’
    رام لعل کا یہ افسانہ تقسیم کے بعد ایک مسلمان اور سکھ کی محض دو سالہ دوستی اور ایک موقع پر ان کے امتحان کی خوب صورت تصویر پیش کرتا ہے۔ یہ انسانیت کے عظیم جذبے کی کہانی ہے جس میں‌ مذہب کی تفریق حائل نہیں‌ ہوتی۔ یہ دو کردار موتا سنگھ اور غلام سرور کی کہانی ہے جو امرتسر میں ایک ہی ورکشاپ میں کام کرتے تھے۔ وہ اسی ورکشاپ کے قریب ایک بیرک میں پڑوسی کی حیثیت سے رہتے تھے۔

    سکھ اکثریت والے علاقے میں جب فسادات شروع ہوئے تو غلام سرور کو جان کے لالے پڑ گئے۔ وہ اپنی جان بچانے کے لیے دیواریں پھلانگتا ہوا کسی طرح موتا سنگھ کے آنگن میں کود جاتا ہے۔ موتا سنگھ کے کئی عزیز بھی عین تقسیم کے موقع پر مسلمانوں‌ کے ہاتھوں مارے گئے تھے اور وہ چاہتا تو اس موقع پر ایک مسلمان کو قتل کرکے بدلہ لے بھی سکتا تھا۔ لیکن جب بھیڑ چیختی ہوئی موتا سنگھ کے دروازے پر پہنچی، تب اس نے اپنے دوست اور ایک انسان کی جان بچانے کا فیصلہ کیا۔ موتا سنگھ اسے گھسیٹتا ہوا کمرے میں لے گیا جہاں ایک پلنگ پر اپنی بیوی کے ساتھ لٹا کر ان کے اوپر رضائی ڈال دی۔

    اس نے کہا، دونوں لیٹے رہو سیدھے، ایک دوسرے کے ساتھ بالکل لگ کر۔ کسی کو شک نہ ہو کہ دو سوئے ہوئے ہیں۔ ادھر فسادی گھر میں‌ داخل ہوجاتے ہیں اور گھر میں غلام سرور کا سراغ نہ پا کر واپس نکل جاتے ہیں۔

  • عدالت میں یوم آزادی پر نوجوانوں کی ہلڑ بازی کے خلاف درخواست مسترد

    عدالت میں یوم آزادی پر نوجوانوں کی ہلڑ بازی کے خلاف درخواست مسترد

    لاہور: ہائی کورٹ نے یوم آزادی پر نواجوانوں کی ہلڑ بازی کے خلاف درخواست مسترد کر دی۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق لاہور ہائی کورٹ نے یوم آزادی پر نوجوانوں کو ہلڑ بازی، باجے اور سیٹیاں بجانے سے روکنے اور ایس او پیز پر عمل درآمد کی درخواست ناقابل سماعت قرار دے کر مسترد کر دی۔

    جسٹس انوار حسین نے منیب طارق ایڈووکیٹ کی درخواست پر سماعت کی، درخواست گزار نے مؤقف اختیار کیا کہ یوم آزادی کے موقع پر باجے بجا کر شہریوں کو تنگ کیا جاتا ہے اور پولیس ذمہ داروں کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لیتی۔

    درخواست گزار نے استدعا کی کہ عدالت یوم آزادی پر باجے فروخت کرنے اور ہلڑ بازی پر پابندی لگائے۔ درخواست گزار نے یہ بھی کہا کہ کرونا کی موجودہ صورت حال کے پیش نظر ایس او پیز پر مکمل عمل درآمد کا حکم دیا جائے۔

    تاہم عدالت نے بغیر تیاری کے پیش ہونے پر درخواست گزار پر برہمی کا اظہار کیا، اور درخواست کو ناقابل سماعت قرار دے کر مسترد کر دیا۔

    واضح رہے کہ لاہور میں کرونا ایس او پیز کے پیش نظر آتش بازی کے تمام پروگرامز منسوخ کر دیے گئے ہیں، وائس چیئرمین پنجاب ہارٹی کلچر اتھارٹی حافظ ذیشان رشید نے بتایا کہ پی ایچ اے انتظامیہ نے آتش بازی نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

    انھوں نے بتایا کہ آتش بازی 13 اور 14 آگست کی درمیانی رات کو کی جانی تھی، لیکن کرونا وائرس ایس او پیز اور محرم الحرام کے تقدس کے پیشِ نظر آتش بازی منسوخ کی گئی، اس لیے پی ایچ اے کے زیر اہتمام کسی بھی پارک میں آتش بازی نہیں ہو گی۔

    دوسری طرف راولپنڈی میں ایک افسوس ناک واقعہ پیش آیا ہے، نیا محلہ میں آتش بازی سوتر گولا پھٹنے سے ایک کم سن بچی جاں بحق ہو گئی، اے آر وائی نیوز کے مطابق ایمن ندیم گھر کے باہر کھیل رہی تھی کہ اس کے قریب سوتر گولہ (بارود) پھٹ گیا۔

    بارودی مواد پھٹنے سے بچی کے سینے اور جسم کے مختلف حصے زخمی ہوگئے تھے، بچی کو شدید زخمی حالت میں اسپتال منتقل کیا گیا، تاہم وہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے جان کی بازی ہار گئی، بچی کے غم زدہ والد شیخ ندیم نے کہا کہ حکام اس معاملے کا نوٹس لیں ہمارے بچے مر رہے ہیں، اور پولیس کی آتش بازی کے خلاف کاروائیاں بھی سوالیہ نشان بن گئی ہیں۔

  • 1947ء: اسلامی دنیا کا قیامِ‌ پاکستان پر مسرّت کا اظہار، تہنیتی پیغامات

    1947ء: اسلامی دنیا کا قیامِ‌ پاکستان پر مسرّت کا اظہار، تہنیتی پیغامات

    تقسیمِ ہند سے قبل دنیا نے عالمی جنگیں بھی دیکھیں، ممالک نے مختلف تنازعات، سیاسی انتشار، ریاستی سطح پر عدم استحکام اور خانہ جنگی اور قدرتی آفات کا سامنا بھی کیا اور مختلف برسوں کے دوران عرب خطّہ، انڈونیشیا، فلسطین، مصر، افریقا کے ممالک، ترکی اور ایشیا میں آباد مسلمان بھی ایسے حالات اور واقعات سے متاثر ہوئے۔

    قیامِ پاکستان سے قبل مسلمانانِ ہند کے سیاسی و سماجی راہ اور مذہبی قائدین دنیا کے کسی بھی خطّے سے بلند ہونے والی تحریک اور مصیبت میں ان کا ساتھ دیتے دیتے تھے۔ خصوصاً ہر اس تحریک پر ہندوستان سے حمایت میں ضرور آواز بلند کی جاتی تھی جس کا تعلق مسلمانوں کے حقوق سے ہوتا تھا۔

    تاریخی طور پر اس بات کے ثبوت موجود ہیں کہ بانیانِ پاکستان نے نہ صرف برصغیر کے مسلمانوں بلکہ فلسطین، انڈونیشیا اور دنیا کے ہر کونے میں سامراج کی غلامی میں جکڑے ہوئے اور مظلوم طبقات کے حق کی بات کی اور ان کے لیے آواز بلند کی۔ یہی سبب تھا کہ قیامِ پاکستان کے اعلان کے بعد اسلامی دنیا کی جانب سے نہایت والہانہ انداز میں‌ خوشی اور مسّرت کا اظہار کیا گیا اور نہایت قریبی اور برادرانہ تعلقات کی بنیاد رکھی گئی۔

    نوزائیدہ مملکت کی قیادت اور عوام کے لیے بھی خیرمقدم کا یہ سلسلہ جہاں نہایت پُرمسرّت اور روح افزا تھا، وہیں سفارت کاری اور بین الاقوامی سطح پر تعلقات کے قیام و فروغ کے حوالے سے بھی مددگار ثابت ہوا۔

    یہاں ہم ایسے چند اسلامی ممالک اور ان کی قیادت کا تذکرہ کررہے ہیں جنھوں نے نہ صرف دنیا کے نقشے پر ابھرنے والی نئی اسلامی ریاست کو سب سے پہلے تسلیم کیا بلکہ سفارتی تعلقات قائم کرکے اسے مضبوط شناخت دی۔

    1947ء میں جب آزاد اسلامی ریاست پاکستان کا قیام عمل میں آیا تو بین الاقوامی برادری بالخصوص اسلامی دنیا سے سربراہانِ مملکت اور عوام نے قائد اعظم محمد علی جناح اور عوام کے نام تہنیتی پیغامات بھیجے اور پاکستانی قیادت کو اپنے ملک کا دورہ کرنے کی دعوت دی گئی۔

    اسلامی دنیا کی طرف سے بانی پاکستان اور ملک کے عوام کو ہدیہ تبریک پیش کرنے والوں میں شاہِ ایران، شاہِ یمن، ترکی کی اعلیٰ قیادت اور عوام، شاہِ شرق اردن، لبنان کے صدر، تنزانیہ کی قیادت، انڈونیشیا کے وزیرِ اعظم، لیبیا، تیونس، مفتیِ اعظم فلسطین محمد امین الحسینی، سعودی عرب کے شہزادہ فیصل و شاہ عبد العزیز و دیگر شامل تھے۔

    قیام پاکستان پر اسلامی دنیا نے برصغیر میں اس نئی مسلم ریاست کا شایانِ‌ شان اور مثالی خیر مقدم کیا۔

    قیام پاکستان سے قبل سعودی عرب کا قیام عمل میں آچکا تھا۔ مسلمانانِ ہند کا بیتُ اللہ اور روضہ رسول ﷺ کی نسبت اس خطّے اور اس کے باشندوں سے ہمیشہ عقیدت اور محبّت کا رشتہ رہا ہے جو بعد میں مزید مضبوط ہوا اور سفارتی سطح پر اس تعلق کی بنیادیں استوار کی گئیں۔

    سعودی عرب، آزادی حاصل کرنے کے بعد پاکستان کو تسلیم کرنے والے اوّلین ممالک میں شامل تھا۔

    اس وقت سعودی عرب کے وزیرِ خارجہ نے قائدِاعظم محمد علی جناح کے نام پیغامِ تہنیت بھیجا اور عوام کو مبارک باد دی۔

    ہمارے ہمسایہ اسلامی جمہوریہ ایران نے آزادی کے اعلان کے فوراً بعد پاکستان کو بطور آزاد اور خودمختار ریاست سب سے پہلے تسلیم کیا اور سفارتی تعلقات قائم کیے۔

    مسلمانانِ ہند اور ترکی کے عوام پاکستان کے قیام سے قبل خلافتِ عثمانیہ کی وجہ سے ایک دوسرے سے قلبی اور برادرانہ تعلق میں بندھے ہوئے تھے۔ تحریک پاکستان کے دوران ترکی کے اخبارات میں مسلمانانِ ہند کی حوصلہ افزائی کی جاتی رہی تھی اور ان کی جدوجہد کو خاص طور پر نمایاں کیا جاتا تھا۔ ترکی نے بھی پاکستان کے قیام کے بعد اسے تسلیم کرنے کا اعلان کیا تھا۔

    قیام پاکستان کے فوراً بعد ملک فیروز خان نون نے حکومت کے نمائندے کی حیثیت سے ترکی، شام، شرقِ اردن، سعودی عرب، لبنان اور بحرین کا دورہ کیا تھا۔

  • 1906: نواب سلیم اللہ خان اور آل انڈیا مسلم لیگ کا قیام

    1906: نواب سلیم اللہ خان اور آل انڈیا مسلم لیگ کا قیام

    ہندوستان میں جب مسلمان سیاسی و مذہبی راہ نماؤں علیحدہ وطن کے حصول کو ناگزیر اور اسلامیانِ ہند کی سیاسی میدان میں مؤثر اور منظّم طریقے سے ترجمانی کی ضرورت محسوس کی تو آل انڈیا مسلم لیگ کا قیام عمل میں آیا۔ تحریکِ‌ آزادی کے متوالے اسی مسلم لیگ کے پرچم تلے اکٹھے ہوئے اور برصغیر کی تاریخ بدل کر رکھ دی۔

    آل انڈیا مسلم لیگ كا قیام 1906ء میں ڈھاكہ میں عمل میں آیا تھا۔ محمڈن ایجوكیشنل كانفرنس كے سالانہ اجلاس كے اختتام پر برصغیر كے مختلف صوبوں سے آئے ہوئے مسلم عمائدین نے ڈھاكہ كے نواب سلیم اللہ خان كی دعوت پر خصوصی اجلاس میں شركت كی جس میں مسلمانوں كی سیاسی راہ نمائی كے لیے ایک جماعت تشكیل دینے کا تاریخی فیصلہ کیا گیا۔

    بیسویں صدی كے آغاز سے كچھ ایسے واقعات رونما ہونے شروع ہوئے كہ مسلمان ایك سیاسی پلیٹ فارم بنانے كی ضرورت محسوس كرنے لگے۔ ڈھاكہ اجلاس كی صدارت نواب وقارُ الملك نے كی جس میں نواب محسن الملك٬ مولانا محمد علی جوہر٬ مولانا ظفر علی خاں٬ حكیم اجمل خاں اور نواب سلیم اللہ خان سمیت بہت سے اہم مسلم اكابرین موجود تھے۔

    سَر نواب سلیم اللہ خان جن کی رہائش گاہ پر اس تنظیم کی بنیاد رکھی گئی اور دیگر اکابرین نے اس بات کا اعلان کیا کہ مسلم لیگ کے ذریعے مسلمانوں کے لیے مذہب میں آزادی اور سیاسی و مالی حقوق کے لیے آواز بلند کی جائے گی۔ دوسرے مذاہب کے لوگوں کے ساتھ اچھے، مناسب تعلقات کو اہمیت دی جائے گی اور یہ واضح ہے کہ مسلمانوں کی ترقی اور فوائد کے لیے یہ جماعت تشکیل دی گئی ہے۔ مسلمانانِ ہند کا یہ اجتماع یا میٹنگ 30 دسمبر1906 ء کو ہوئی تھی جس کے ساتھ ہی ایک دو رکنی کمیٹی نواب وقار الملک اور نواب محسن الملک پر تشکیل دی گئی جنھیں مسلم لیگ کا آئین تیار کرنے کا کام سونپا گیا اور اس حوالے سے خدوخال اور وضاحت و تفصیل کو تحریری شکل دینے کے لیے بعد میں مزید اکابرین کو کام تفویض کیا گیا۔

    آل انڈیا مسلم لیگ کے عہدے داروں کا انتخاب مارچ 1908 ء میں لکھنؤ میں عمل میں آیا اور اس وقت تک مزید صلاح و مشورے اور تجاویز کی روشنی میں لیگ کو برطانوی ہند میں انگریز حکومت اور آئین کے دائرے میں رہتے ہوئے مسلمانوں کی سیاسی، سماجی، معاشی ترقی اور حقوق کے تحفظ کی مؤثر تنظیم کے طور پیش کیا گیا جو آگے چل کر تشکیل و قیامِ پاکستان کا ذریعہ بنی۔

    نواب سلیم اللہ خان عین عالمِ شباب میں 16 جنوری 1915ء کو خالقِ حقیقی سے جا ملے۔ ان کے مسلمانوں کی علیحدہ سیاسی شناخت اور مؤثر نمائندگی کے ضمن میں کردار کو اور مسلم لیگ کے لیے دیگر خدمات کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔

  • جدوجہدِ آزادی: قائدِ اعظم کے معتمد اور مسلم لیگ کے راہ نما سردار عبدالرّب نشتر

    جدوجہدِ آزادی: قائدِ اعظم کے معتمد اور مسلم لیگ کے راہ نما سردار عبدالرّب نشتر

    سردار عبدالرّب نشتر ایک اچھے شاعر، مدبّر، شعلہ بیان مقرر اور تحریکِ پاکستان کے صفِ اوّل کے راہ نما تھے جنھوں نے قیامِ پاکستان کے لیے جدوجہد میں قائداعظم کا بھرپور ساتھ دیا اور ان کے بااعتماد ساتھیوں میں شمار ہوئے۔

    سردار عبدالرّب نشتر 13 جون 1899ء کو پشاور میں پیدا ہوئے تھے۔ وہ مذہبی گھرانے کے فرد تھے اور جدید تعلیم کے ساتھ ان کی تربیت دینی ماحول میں ہوئی۔ انٹرمیڈیٹ کا امتحان پاس کرنے کے بعد انھوں نے ایل ایل بی کی ڈگری 1925ء میں حاصل کی اور وکالت کا لائسنس بھی حاصل کرلیا۔ جس وقت وہ علی گڑھ میں پڑھ رہے تھے، ان کے والد کا انتقال ہوگیا۔ انھوں نے پشاور میں وکالت شروع کردی۔

    علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں دورانِ تعلیم بھی اُن کی فکری اور نظریاتی بنیادوں پر تربیت ہوتی رہی اور عنفوان شباب میں وہ مولانا محمد علی جوہر اور مولانا ابو الکلام آزاد جیسے اکابرین کے قریب رہے۔ سامراج دشمنی گویا اُن کے خون میں تھی جو زمانۂ طالب علمی ہی میں اِن بزرگوں کے زیرِ اثر دو آتشہ ہوگئی۔

    وکالت کے ساتھ ساتھ سیاست کا شوق پیدا ہوا تو نوجوانی میں تحریکِ خلافت میں عملی شرکت سے سفر کا آغاز کیا اور مسلمانانِ ہند کو درپیش مسائل اور مشکلات کو زیادہ بہتر طریقے سے سمجھنے لگے۔ انھیں مسلمانوں کے خلاف ہندوؤں کی سازشوں اور ان کے رویّوں کا بھی اچھی طرح اندازہ ہوگیا۔

    1929ء میں جب صوبہ سرحد میں انتخابات کا اعلان کیا گیا تو سردار عبدالرب نشتر خلافت کمیٹی کی طرف سے میونسپل کمیٹی کے رکن منتخب ہوئے اور مسلسل 1938ء تک رُکن رہے۔ بعد میں سردار عبدالرب نشتر نے آل انڈیا مسلم لیگ کی رکنیت اختیار کی اور 1944ء میں اس تنظیم کی مجلسِ عاملہ کے رکن بنائے گئے۔ 1946ء کے انتخابات کے بعد بننے والی عبوری حکومت کے لیے نمائندہ بھی نام زد ہوئے جب کہ 3 جون کے اعلان کے حوالے سے’’پارٹیشن کمیٹی‘‘ کے ارکان میں سردار عبدالرب نشتر بھی شامل تھے۔

    سردار عبدالرب نشتر غیر منقسم ہندوستان کے وزیرِ مواصلات بھی رہے اور قیامِ پاکستان کے بعد لیاقت علی خان کی کابینہ میں بھی اِسی منصب پر کام کرتے رہے۔

    وہ متحدہ ہندوستان میں پنجاب میں پہلے مسلمان اور پاکستانی گورنر بھی رہے۔ وہ 14 فروری 1958ء کو کراچی میں وفات پاگئے۔

  • تحریکِ‌ آزادی:  آل پارٹیز کانفرنس کلکتہ اور قائدِ اعظم کے 14 نکات

    تحریکِ‌ آزادی: آل پارٹیز کانفرنس کلکتہ اور قائدِ اعظم کے 14 نکات

    انگلستان سے وطن واپس آکر کانگریس کے پلیٹ فارم سے سیاست کا آغاز کرنے والے محمد علی جناح خود مسلم ہندو اتحاد کے بڑے حامی تھے۔

    اپنے سیاسی سفر کے ابتدائی دور میں وہ مسلسل کوشش کرتے رہے کہ مسلم علما اور اکابرین کو انگریزوں سے آزادی اور متحدہ ہندوستان کے قیام کے لیے قائل کرلیں، لیکن دوسری طرف ان پر جلد ہی واضح ہو گیا کہ ہندو کسی بھی طرح مسلمانوں کو ان کا جائز حق، سیاسی اور مذہبی آزادی نہیں‌ دیں گے بلکہ انھیں اپنا محکوم و غلام بنانا چاہتے ہیں اور پھر انھوں نے کانگریس کو چھوڑنے کا اعلان کیا۔

    ملک میں ہندو مسلم فسادات کا سلسلہ جاری تھا اور 1920ء کے بعد اس میں تیزی آئی جس نے ثابت کیا کہ اس سرزمین پر دو قوموں کا اکٹھے رہنا ممکن نہیں ہے اور ہندو قیادت اور تمام راہ نما ایسے واقعات میں ملوث انتہا پسندوں کی پشت پناہی کررہے ہیں۔ اس سے قبل ہی 1916ء میں محمد علی جناح کو مسلم لیگ کا صدر منتخب کرلیا گیا اور جب انھیں یہ یقین ہوگیا کہ دو قومی نظریہ اور اس کی بنیاد پر علیحدہ وطن کی جدوجہد تیز کرنا ہوگی، تو وہ اس پلیٹ فارم سے فعال ہوگئے۔

    قائدِ اعظم کا تحریکِ آزادی کے قافلے کی قیادت سنبھالنا تھاکہ ایک کونے سے دوسرے کونے تک جوش و ولولے کی گویا ایک نئی لہر دوڑ گئی۔ اپنے قافلے میں شامل ساتھیوں کی مدد سے آپ نے نظریۂ پاکستان کی ترویج کی اور سیاسی میدان میں پاکستان کے حصول کا مقدمہ بھرپور طریقے سے لڑا۔

    دراصل اس وقت کی تحریکِ خلافت کے بعد ملک میں فسادات کا جو سلسلہ شروع ہوا تھا، ان سے واضح ہو گیا تھا کہ ہندوستان میں مذہبی ہم آہنگی کو جان بوجھ کر نقصان پہنچایا جارہا ہے اور اسے محض جذباتی تقاریر اور امتداد زمانہ سے رفع نہیں کیا جاسکے گا۔ اسی دوران نہرو رپورٹ نے قائدِاعظم کو دلبرداشتہ کردیا اور اس کے ردِعمل میں 1929ء میں مسلمانوں کی آل پارٹیز کانفرنس کلکتہ میں منعقد ہوئی، جس میں قائدِاعظم نے 14 نکات پیش کیے، جن کو انتہا پسند ہندوؤں نے نہ صرف رد کردیا بلکہ قائدِ اعظم پر مزید طعن و تشنیع کی گئی۔

    قائدِ اعظم محمد علی جناح نے اپنے پیش کردہ 14 نکات میں یہ باور کرانے کی کوشش کی تھی کہ مستقبل کے ہندوستان میں سیاست اور معاشی ترقی کے میدان میں ہندوؤں اور مسلمانوں کو مساوی مواقع فراہم کیے جائیں گے اور ان کے حقوق کا تحفظ ہوگا اور برابری کی بنیاد پر سیاسی اور سماجی طور پر آزادی کا سفر شروع ہو گا۔

    بانی پاکستان قائدِ اعظم محمد علی جناح کے وہ نکات درج ذیل ہیں۔

    1- ہندوستان کا آئندہ دستور وفاقی طرز کا ہو گا۔

    2- تمام صوبوں کو برابری کی سطح پر مساوی خود مختاری حاصل ہو گی۔

    3- ملک کی تمام مجالسِ قانون ساز کو اس طرح تشکیل دیا جائے گا کہ ہر صوبے میں اقلیت کو مؤثر نمائندگی حاصل ہو اور کسی صوبے میں اکثریت کو اقلیت یا مساوی حیثیت میں تبدیل نہ کیا جائے۔

    4- مرکزی اسمبلی میں مسلمانوں کو ایک تہائی نمائندگی حاصل ہو۔

    5- ہر فرقے کو جداگانہ انتخاب کا حق حاصل ہو۔

    6- صوبوں میں آئندہ کوئی ایسی اسکیم عمل میں نہ لائی جائے، جس کے ذریعے صوبہ سرحد، صوبہ پنجاب اور صوبہ بنگال میں مسلم اکثریت متاثر ہو۔

    7- ہر قوم و ملّت کو اپنے مذہب، رسم و رواج، عبادات، تنظیم و اجتماع اور ضمیر کی آزادی حاصل ہو۔

    8- مجالسِ قانون ساز کو کسی ایسی تحریک یا تجویز منظور کرنے کا اختیار نہ ہو، جسے کسی قوم کے تین چوتھائی ارکان اپنے قومی مفادات کے حق میں قرار دیں۔

    9- سندھ کو بمبئی سے الگ کر کے غیر مشروط طور پر الگ صوبہ بنایا جائے۔

    10- صوبہ سرحد اور صوبہ بلوچستان میں دوسرے صوبوں کی طرح اصلاحات کی جائیں۔

    11- سرکاری ملازمتوں اور خود مختار اداروں میں مسلمانوں کو مناسب حصہ دیا جائے۔

    12- آئین میں مسلمانوں کی ثقافت، تعلیم، زبان، مذہب، قوانین اور ان کے فلاحی اداروں کے تحفظ کی ضمانت دی جائے۔

    13- کسی صوبے میں ایسی وزارت تشکیل نہ دی جائے، جس میں ایک تہائی وزیروں کی تعداد مسلمان نہ ہو۔

    14- ہندوستانی وفاق میں شامل ریاستوں اور صوبوں کی مرضی کے بغیر مرکزی حکومت آئین میں کوئی تبدیلی نہ کرے۔