Tag: یوم آزادی

  • تقسیمِ‌ ہند: ’’مردم شماری بھی کرائی جاتی تو دلّی ہمارا تھا‘‘

    تقسیمِ‌ ہند: ’’مردم شماری بھی کرائی جاتی تو دلّی ہمارا تھا‘‘

    بیگم شائستہ اکرام اللہ معروف مصنف اور سفارت کار تھیں۔ انھوں نے تحریکِ پاکستان میں فعال حصّہ لیا۔

    ان کا وطن کوکلکتہ تھا جہاں وہ حسان سہروری کے گھر میں پیدا ہوئیں جو برطانوی وزیرِ ہند کے مشیر تھے۔ 1932ء میں ان کی شادی جناب اکرام اللہ سے ہوئی جو قیامِ پاکستان کے بعد پاکستان کے سیکریٹری خارجہ کے عہدے پر فائز ہوئے۔

    بیگم شائستہ اکرام اللہ لندن یونیورسٹی سے ناول نگاری کے موضوع پر پی ایچ ڈی کرنے والی پہلی ہندوستانی خاتون تھیں۔ وہ تقسیم سے قبل بنگال لیجسلیٹو اسمبلی کی رکن رہیں جب کہ قیامِ پاکستان کے بعد پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی کی رکن بھی رہیں۔

    انھوں نے تقسیمِ ہند کے واقعات اور اپنی اس زمانے کی یادوں کو بھی تحریری شکل دی تھی جن میں کئی حقائق بیان کرنے کے ساتھ ساتھ بہت سے جذباتی پہلوؤں کا احاطہ کیا ہے۔

    بیگم شائستہ اکرام اللہ لکھتی ہیں کہ جب برصغیر کی تقسیم یقینی نظر آنے لگی تھی تو اس وقت مجھ سمیت لاکھوں لوگوں کا خیال تھا کہ دلّی اور مسلم کلچر تو ایک ہی حقیقت ہیں۔ دلّی کے بغیر پاکستان ایسے ہوگا جیسے دل کے بغیر جسم۔

    انھوں نے کتاب میں‌ لکھا، ’’مسلم فنِ تعمیر سے بھرے پُرے شہر دلّی کو اس وقت کوئی بھی دیکھتا تو یہی کہتا کہ یہ تو مسلمانوں کا شہر ہے۔ لوگ کہتے تھے کہ مسلم ثقافت اگرچہ دلّی کے چپے چپے سے چھلک رہی ہے، مگر آبادی کے لحاظ سے مسلمان یہاں اقلیت میں ہیں، لیکن ایسا ہرگز بھی نہیں تھا، مردم شماری بھی کرائی جاتی تو دلّی ہمارا تھا، مگر پنجاب کو تقسیم کر کے ہماری مجموعی اکثریت کو اقلیت میں بدلا گیا اور یوں ہم دلّی ہار گئے اور آج دلّی کی مسجدیں غرناطہ اور قرطبہ کی طرح یہ کہ رہی ہیں کہ جن عرب وارثوں نے ہمیں تخلیق کیا تھا ہم ان کی عظمتَ رفتہ کی یاد دلانے والی علامتیں ہیں۔‘‘

    (پروفیسر مشیر الحسن کی کتاب ’’منقسم قوم کی وراثت‘‘ سے خوشہ چینی)

  • بہادر یار جنگ: اقبال اور قائدِ اعظم کے شیدائی، مسلم لیگ کے عظیم مجاہد کا تذکرہ

    بہادر یار جنگ: اقبال اور قائدِ اعظم کے شیدائی، مسلم لیگ کے عظیم مجاہد کا تذکرہ

    جب قائدِ اعظم نے انگلستان سے لوٹ آنے اور مسلم لیگ کی تنظیمِ نو کی ذمے داری سنبھالنے کا فیصلہ کیا تو چند سر بَر آوردہ کارکن ان کی قیادت میں کام کرنے کے لیے ان کے ساتھ ہوگئے۔ ان کارکنوں میں نواب بہادر یار جنگ ایک نمایاں حیثیت کے حامل تھے۔

    یہ کہنا مبالغہ نہ ہوگاکہ نواب صاحب کی اندوہ ناک اور ناوقت موت تک وہ قائدِاعظم کے معتمد اور دستِ راست رہے۔ بہادر یار جنگ نے اپنے قائد کا اعتماد حاصل کرنے میں کوئی دقیقہ اٹھا نہ رکھا تھا۔ مسلم عوام کو مسلم لیگ کے جھنڈے تلے جمع کرنے کی خاطر انھوں نے سارے ہندوستان کے دورے کیے اور اپنی بے مثال خطابت سے مسلم لیگ کو مسلمانانِ ہند کی واحد نمایندہ جماعت بنانے کے سلسلے میں غیر معمولی خدمات انجام دیں۔

    بہادر یار جنگ بجا طورپر ان عظیم مجاہدین میں شمار کیے جا سکتے ہیں جنھوں نے قائدِاعظم کی قیادت میں حصولِ پاکستان کی جنگ لڑی۔

    محمد بہادر خان فروری 1905ء کو حیدرآباد دکن میں پیدا ہوئے۔ ان کی ولادت کے چند دن بعد ہی ان کی والدہ وفات پاگئیں۔ بہادر خان کی نانی نے جو ایک نہایت سمجھ دار اور مذہبی خاتون تھیں ان کی پرورش کی۔ اٹھارہ سال کے ہوئے تو والد کا سایہ بھی سر سے اٹھ گیا۔ والد کے انتقال کے وقت جاگیر قرضوں کے بوجھ سے دبی ہوئی تھی۔ نواب صاحب نے غیر معمولی تدبّر اور انتظامی صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا اور تھوڑی سی مدّت میں قرضوں سے نجات حاصل کرلی۔

    جاگیر کے حالات سنبھل گئے تو نواب صاحب نے حج بیتُ اﷲ کا عزم کیا۔ حج سے فارغ ہوکر مسلم ممالک کی سیاحت کی، سیّاحت سے واپسی کے بعد خاکسار تحریک سے وابستگی اختیار کرلی اور ساتھ ہی ریاست کی ایک سیاسی و مذہبی تنظیم مجلسِ اتحادُ المسلمین میں بھی شامل ہوگئے۔

    1944ء میں وہ خاکسار تحریک سے علیحدہ ہوگئے اور اپنی ساری توجہ مجلسِ اتحادُ المسلمین کی طرف مرکوز کردی۔ انھوں نے مجلس میں ایک رضاکار تنظیم قائم کی۔ بہادر یار جنگ کی قائدانہ صلاحیتوں نے مسلمانانِ حیدر آباد(دکن) میں ایک نیا قومی جذبہ پیدا کردیا۔

    بہادر یار جنگ بڑی ہی سادہ زندگی بسر کرتے تھے۔ وہ بڑے ہی مذہبی اور معاملات میں انتہائی صداقت پسند اور کھرے انسان تھے۔ جس بات کو حق سمجھتے اس کو کہتے اور کر گزرنے میں کسی قسم کی پروا نہ کرتے، وہ دامے، درمے، سخنے ہر ایک کی مدد کے لیے ہر وقت مستعد رہتے۔ قدرت نے بہادر یار جنگ کو ماحول کی پیداوار نہیں بلکہ ماحول کا مصلح بنایا۔ بچپن ہی سے وہ اسلامی جذبے سے سرشار تھے۔ مسلمانوں کی خدمت ان کا نصبُ العین تھا۔ ملّت کی تنظیم ان کا مدعا تھا اور قومی اتحاد ان کا مطمحِ نظر تھا۔ اسی کے پیشِ نظر انھوں نے نوجوانی کے عالم میں میلاد کی محفلوں میں تقریریں شروع کیں۔ مساجد میں وعظ اور جلسوں کا سلسلہ شروع کیا۔ اسی دور میں علامہ اقبالؒ سے بہت متاثر ہوئے۔

    علامہ اقبال کے جذبہ اسلامی کے وہ بڑے پرستار تھے۔ ان کے کلام اور اشعار بر محل پڑھتے تھے۔ اس لگاؤ نے انھیں اس بات پر آمادہ کیا کہ درسِ اقبالؒ کی محفلیں باقاعدہ منعقد کریں۔ چنانچہ وہ اپنے مکان بیتُ الّامت میں درسِ اقبال کی محفلیں منعقد کرتے تھے جس میں اقبال شناس شخصیتیں موجود ہوتی تھیں۔

    ایک طرف بہادر یار جنگ درسِ اقبال دیا کرتے تھے تو دوسری طرف درسِ قرآن۔ وہ جس طرح اقبال سے متاثر تھے اسی طرح مولانا رومیؒ کے زیر اثر بھی تھے۔ وہ علامہ اقبال ؒ اور مولانا رومیؒ کے تو مرید تھے۔

    بہادر یار جنگ میں دو خصوصیات بہت نمایاں تھیں۔ ان ہی خصوصیات نے انھیں اس مقام پر پہنچایا جو بہت سوں کے لیے باعثِ رشک تھا۔ ایک خصوصیت ان کا بے پناہ خلوص تھا، سیاست ان کے لیے پیشہ ہرگز نہ تھی اور نہ وہ اس کو اپنا ذریعہ بنانا چاہتے تھے۔

    مسلمانوں کے سیاسی عروج اور ان کے اتحاد کے لیے وہ پورے خلوص کے ساتھ زندگی بھر کام کرتے رہے۔ اگر دولت جاہ و منصب ان کی راہ میں رکاوٹ بنتے تو وہ بڑی خوشی کے ساتھ اور بغیر کسی تامل کے انھیں ٹھکرا دیتے اپنی ساری زندگی اور ساری توانائی انھوں نے بڑی ایمان داری اور جرأت کے ساتھ مسلم سیاست پر صرف کر دی۔ ان کا یہی نصبُ العین تھا اور یہی ان کی جد وجہد کی غرض وغایت۔ اپنے کام کو آگے بڑھانے کے لیے وہ بڑی سے بڑی قربانی سے بھی دریغ نہ کرتے تھے۔

    سیاست میں ان کا ہیرو قائدِ اعظم تھے جن کی زندگی سے انھوں نے عزم و ثبات کا سبق سیکھا تھا۔ ان میں قائدِاعظم کی سی اصول پرستی تھی اور وہی بے باکی اور صاف گوئی۔ وہ نڈر اور جری تھے۔ مجاہد کی طرح ہر محاذ پر ڈٹ جاتے اور غازی کی طرح کام یاب اور کام ران رہتے۔

    دوسری خصوصیت ان کی خطابت تھی۔ قدرت نے انھیں یہ نعمت بطورِ خاص عطا کی تھی اور اس کا استعمال بھی انھوں نے ہر موقع اور ہر محل پر صحیح کیا۔ بغیر کسی تیاری کے وہ ہر موضوع پر بے تکان بولتے تھے۔ الفاظ کا انتخاب، فقروں کی بندش اظہار خیال کی ندرت اور آواز کا اتار چڑھاؤ اس قدر متوازن ہوتا کہ مجموعی طورپر ان کی ہر تقریر ایک شہ پارہ ہوتی تھی۔ ہر تقریر سننے والوں کو پچھلی تقریر سے بہتر معلوم ہوتی ۔ اور وہ اس ذوق وشوق سے سنتے جیسے کہ کوئی نغمہ ہو۔ میلاد کی محفل ہو، کالج کی انجمن ہو یا سیاسی تحریک ہر جگہ ان کا طوطی بولتا نظر آتا تھا۔

    انھوں نے تحریکِ پاکستان کو فروغ دینے میں جس خلوص و تن دِہی سے حصہ لیا تھا اس کی وجہ بھی یہی تھی کہ وہ اسلام کے بڑے شیدائی تھے۔ ان کی دلی تمنّا تھی کہ ایک ایسی مملکت برصغیر کے اندر بنائی جائے جہاں اسلامی آئین و قوانین نافذ ہوں۔ ایسی سلطنت کے قیام کا منصوبہ دیکھ کر انھوں نے غیر مبہم الفاظ میں یہ کہہ دیا تھا۔

    ’’میرے خیال میں پاکستان کے لیے ہر قسم کی سعی و کوشش حرام اگر پاکستان سے الٰہی اور قرآنی حکومت مراد نہیں جس میں قانون سازی کا بنیادی حق صرف خدائے قدوس کو حاصل ہو، ہمارے بنائے ہوئے قوانین اس کی توصیح و تشریح کریں۔‘‘ وہ آج ہم میں نہیں لیکن ان کی اعلیٰ شخصیت، بے مثال خطابت کی یاد آج بھی ہمارے ذہنوں میں تازہ ہے۔

    بلا شبہ ان کی زندگی میں ہمارے لیے ایک ایسا قابلِ تقلید نمونہ موجود ہے جسے بلا مبالغہ اقبالؒ کے مردِ مومن سے تشبیہ دی جاسکتی ہے۔

    (پروفیسر خواجہ قطب الدّین نے چند سال قبل یہ مضمون بہادر یار جنگ کی برسی کے موقع پر سپردِ قلم کیا تھا)

  • تحریکِ پاکستان: کانگریس کی سیاست اور نہرو رپورٹ نے قائدِاعظم کو راستہ بدلنے پر مجبور کیا

    تحریکِ پاکستان: کانگریس کی سیاست اور نہرو رپورٹ نے قائدِاعظم کو راستہ بدلنے پر مجبور کیا

    انیسویں اور بیسویں صدی میں بہت سی سیاسی و علمی تحاریک سامنے آئیں جنھوں نے ہندوستان میں بھی سیاست و سماج اور علم و ادب کے میدان میں نئے رجحانات اور تبدیلیوں کو جنم دیا۔

    انگلستان جو اس وقت بڑا علمی مرکز تھا، اس کی لبرل تحریک نے تقریباً تمام دنیا، خاص طور پر نوآبادیات میں اشرافیہ کو ضرور متاثر کیا تھا۔ برطانوی ہند( برٹش انڈیا) کے لوگ بالخصوص جب مغرب سے تعلیم حاصل کرکے واپس اپنے وطن آتے تو بہت سے نئے رجحان اور افکار بھی یہاں ان کے ذریعے پہنچتے تھے۔

    انڈین نیشنل کانگریس بھی انہی لبرل تصورات کی بنیاد پر سیاسی شعور کی مظہر ایک جماعت تھی۔ اس کی بنیاد ایک ریٹائرڈ برطانوی افسر اے او ہیوم نے 1885ء میں رکھی تھی۔ اس کی قومی وضع، انفرادی آزادی کے تصوّرات اور ہندوستان کے لیے اس پلیٹ فارم تلے جمع ہوکر کام کرنے کے عزم نے اشرافیہ اور مختلف گروہوں کے تعلیم یافتہ، باشعور اور ممتاز ہندوستانیوں کو اس میں شامل ہونے پر آمادہ کرلیا۔

    مغرب سے تعلیم یافتہ اور جدید و لبرل تصوّرات کے حامل محمد علی جناح نے بھی انڈین نیشنل کانگریس میں شمولیت اختیار کرلی۔ وہ انڈین نیشنل کانگریس کے معتمدین بدرالدین طیّب جی، دادا بھائی نارو جی، سر فیروز شاہ مہتا اور گوپال کرشنا گوکھلے کے بہت قریب تھے۔

    ہندوستان کے مسلمانوں کو انڈین نیشنل کانگریس پر کچھ تحفظات تھے اور وہ بہت کم اِس میں شامل ہوئے اور بعد میں جب تقسیمِ بنگال کا مسئلہ اٹھا تو انڈین نیشنل کانگریس نے ایسا سخت اور مسلم مخالف رویہ اپنایا کہ اس سے ایک ہندو نظریات کی پرچارک جماعت کا تاثر قائم ہوا۔ یہ وہ وقت تھا جب مسلم اشرافیہ اپنی ہندوستانی سیاست کے مستقبل پر الجھی ہوئی تھی اور ہندو مسلم اتحاد کی کوششیں بے سود نظر آرہی تھیں۔ دوسری جانب سیاسی میدان میں مسلمانوں کو اپنی نمائندگی اور حقوق پورے ہونے کی بھی فکر تھی اور لگتا تھاکہ ہندو انھیں‌ پیچھے رکھنا چاہتے ہیں، تب 1906ء میں آل انڈیا مسلم لیگ کی بنیاد رکھی گئی ۔

    ادھر محمد علی جناح مسلم لیگ کے قیام کے فوراً بعد اس میں شامل نہ ہوئے۔ وہ انڈین نیشنل کانگریس سے بددل تو ہورہے تھے، لیکن اسے ایک بڑی اور ایسی پارٹی سمجھتے تھے جو برٹش انڈیا کی تمام جماعتوں کی نمائندہ تھی۔ لیکن جلد ہی انھیں احساس ہوگیا کہ مسلمانوں کے حقوق کے لیے کانگریس کے پلیٹ فارم سے نہیں لڑا جاسکتا اور انھوں نے مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کرنے کے بعد اس کی قیادت سنبھالی۔

    محمد علی جناح نے دیکھا کہ انڈین نیشنل کانگریس کے افکار و نظریات پر موہن داس کرم چند گاندھی کی شخصیت اور سیاسی خیالات کا اثر گہرا ہورہا ہے انھوں نے 1920ء میں کانگریس کی رکنیت سے استعفیٰ دے دیا۔ محمد علی جناح ایک قوم پرست ہندوستانی تھے اور کانگریس کو بلاامتیازِ رنگ و نسل اور مذہب عوام کی نمائندہ اور حقیقی جماعت سمجھتے تھے، لیکن متعصب اور انتہا پسند ہندو قائدین کے طرزِعمل اور پارٹی کے بعض فیصلوں نے ان کے خیالات تبدیل کردیے تھے۔

    ادھر مسلمانوں کی قیادت نے قائداعظم کو اس بات پر قائل اور آمادہ کرنے کی کوششیں جاری رکھی ہوئی تھیں کہ ہندوستانی مسلمانوں کی سیاسی بقا اور حقوق کا تحفظ اسی صورت ممکن ہے جب وہ مسلم لیگ جیسی جماعت کے جھنڈے تلے جمع ہوں اور بعد میں‌ ثابت ہوا کہ زعمائے وقت کا کہنا ٹھیک تھا۔ وہ وقت بھی آیا جب محمد علی جناح نے ’’گاندھی زدہ‘‘ کانگریس چھوڑ کر اس عظیم جدوجہد اور تحریک کے قائد بنے جس نے پاکستان کا خواب پورا کیا۔

    قائدِ اعظم نے جو کانگریس چھوڑی اس کی تنظیم اس منشور اور مقصد سے بالکل مختلف تھی جس کے لیے انھوں نے اس جماعت میں‌ شمولیت اختیار کی تھی۔

    1910ء کے عشرے میں قائدِ اعظم انڈین نیشنل کانگریس کی ایک معروف شخصیت تھے۔ 1908ء سے 1920ء تک وہ باقاعدگی سے انڈین نیشنل کانگریس کمیٹی کے رکن منتخب ہوتے رہے۔ انھوں نے کانگریس کے مختلف اجلاسوں میں کئی اہم قرادادیں پیش کیں یا ان کی تائید کی اور کانگریس کو کئی سال تک باقاعدگی سے ماہانہ فنڈ دیتے رہے۔

    کانگریس کو چھوڑ کر مسلم لیگ کو فعال کرنے والے محمد علی جناح نے 1929ء کی نہرو رپورٹ کے بعد اپنی سیاست کا رُخ مکمل طور پر مسلم قوم پرستی کی طرف موڑ لیا، وہ برٹش انڈیا میں مسلمانوں کے واحد اور متفقہ قائد کے طور پر ابھر کر سامنے آئے اور ان کی سیاسی بصیرت نے مسلمانوں کی جدوجہد کو اگست 1947ء میں قیامِ پاکستان کی صورت میں منزل تک پہنچایا۔

  • جدوجہدِ آزادی: ہندوستان میں جداگانہ مسلم تشخّص اور تحریکِ پاکستان

    جدوجہدِ آزادی: ہندوستان میں جداگانہ مسلم تشخّص اور تحریکِ پاکستان

    مسلمانوں کے ساتھ ساتھ صدیوں تک ہندوستان میں‌ ہر مذہب کے ماننے والے اسلامی احکامات، علما اور بزرگانِ دین کی تعلیمات اور صوفیائے کرام کے پیار و محبّت کے درس کی بدولت امن و سکون سے زندگی بسر کرتے رہے، لیکن انگریزوں کی آمد کے بعد جب اس اتحاد و اتفاق اور یگانگت نے دم توڑا تو ہندوستان بھی تقسیم ہوگیا۔

    برصغیر اور مسلم ہند کی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو سب سے نمایاں اور اہم بات یہ سامنے آتی ہے کہ یہاں مسلم قومیت کا تصوّر پہلے سے موجود تھا۔ جب ہندوؤں نے انگریزوں سے گٹھ جوڑ کرکے مسلمانوں کو سیاست و سماج، تعلیم و معیشت غرض ہر شعبے میں پیچھے رکھنے کی کوششیں شروع کیں اور مسلمانوں میں‌ احساس محرومی پیدا کرنے کے ساتھ مذہبی تفریق اور نفرت پھیلا کر ہندوستان پر حکومت کرنے کا خواب دیکھنے لگے جس نے جداگانہ تشخّص کو برقرار رکھنے کے تصّور کو تقویت دی اور تحریکِ پاکستان کا سفر شروع ہوا۔

    تحریکِ پاکستان کے یوں کئی عوامل ہیں، لیکن یہاں ہم اس حوالے سے چند بنیادی اور نمایاں پہلوؤں کا جائزہ لیتے ہیں۔

    جداگانہ تشخص اور تحریکِ پاکستان
    تحریکِ پاکستان کا ایک وسیع پس منظر ہے جسے جاننے کے بعد یہ کہنا مشکل نہیں کہ مسلمانوں میں جداگانہ تشخص اور علیحدہ وطن کی خواہش نے متعصب اور انتہا پسند ہندوؤں کی وجہ سے جنم لیا اور حالات کو بگاڑتے ہوئے مسلمان قیادت کو اس مقام پر پہنچا دیا جہاں انھوں نے اسلامیانِ ہند کے لیے الگ ریاست کی تشکیل کا مطالبہ کیا اور اس کے لیے ہر محاذ پر انگریزوں اور متعصب ہندوؤں کا مقابلہ کیا۔ 1920ء کے بعد جو حالات پیدا کردیے گئے تھے، ان کا بغور جائزہ لیا جائے تو عیاں ہوتا ہے کہ مسلمان انگریزوں اور ہندوؤں کی سازشوں کے سبب اکٹھے نہیں رہ سکتے تھے۔

    حالات میں بگاڑ اور ہندوؤں کا انگریزوں سے گٹھ جوڑ
    جنگِ بلقان کے دوران 1913ء میں کانپور میں مچھلی بازار کی مسجد کا بیرونی حصہ شہید کر دیا گیا جس سے مذہبی جذبات بُری طرح مجروح ہوئے ، اور مسلمانوں کو یہ احساس ہوگیا کہ برطانوی حکومت نے مسلمانوں کو مذہبی اور سماجی اعتبار سے پامال کرنے کا تہیہ کر لیا ہے، چناں چہ سانحہ کانپور سے اسلامیانِ ہند کی سیاست نے ایک نیا رخ اختیار کیا۔

    اس واقعے سے پورے ہندوستان کے مسلمانوں میں انگریزوں کے خلاف
    غم و غصہ پیدا ہوا اور ہر طرف ہلچل مچ گئی۔ مولانا ظفر علی خان، مولانا محمد علی جوہر، مولانا ابوالکلام آزاد جیسے راہ نماؤں اور اکابرین نے بالترتیب لاہور سے ’’زمیندار‘‘، دہلی سے ’’کامریڈ‘‘ اور کلکتہ سے ’’الہلا ل‘‘ نامی اخبارات جاری اور مسلمانوں کا مؤقف سامنے رکھتے ہوئے انگریز سرکار کی پالیسیوں پر تنقید کی۔ دیگر مسلم زعماء مثلا ًمولانا عبدالباری فرنگی ، محلی، مولانا آزاد سبحانی ، مولانا شوکت علی وغیرہ نے ایسے واقعات کو انگریزوں کی مسلم دشمن پالیسی قرار دے کر کڑی نکتہ چینی کی۔

    اسی واقعے کے بعد جب مسلمانوں پر فائرنگ اور مسلم راہ نماؤں کی گرفتاریاں شروع ہوئیں تو ان راہ نماؤں نے شدید احتجاج کیا جس سے مسلمانوں میں ملّی بیداری اور عملی سیاست میں حصّہ لینے کی سوچ کو تقویت پہنچی۔

    ہندو مسلم فسادات
    1920ء کے بعد ہندوستان میں انگریز سرکار کی مسلم دشمن پالیسیوں اور ہندوؤں سے گٹھ جوڑ کر کے نقصان پہنچانے کا جو سلسلہ شروع ہوا وہ نہ صرف برطانوی دور کی بدترین یاد ہے بلکہ مسلسل فسادات نے ایک خونیں تاریخ رقم کی۔ اس عشرے میں ہندو مسلم فسادات کی تاریخ میں ایک نئے اور سنگین باب کا اضافہ ہوا اور ہندو مسلم اتحاد کے لیے ماضی میں کی جانے والی تمام کوششیں برباد ہوگئیں۔ مسلمانوں پر عیاں ہوگیا کہ انگریز اور ہندو ان کے بدترین دشمن ہیں اور وقت گزرنے کے ساتھ ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان ایک ایسی خلیج حائل ہوگئی جسے پاٹنا ممکن نہ تھا۔

    محمد علی جناح اور ہندو مسلم اتحاد کی کوششیں
    محمد علی جناح جو اس وقت ہندو مسلم اتحاد کے ایک سفیر اور اہم راہ نما تھے، وہ بھی حالات سے دل گرفتہ نظر آئے۔ اسی عشرہ میں اتحاد و اتفاق بڑھانے اور انگریزوں سے ہندوستان کو آزاد کرانے کے حوالے سے کانفرنسیں بھی ہوئیں اور ہندو مسلم مفاہمت کے لیے کئی تجاویز سامنے آئیں جن میں قائد اعظم کے ایما پر دہلی تجاویز اہم ترین تھیں۔ یہ تجاویز 1937 میں مسلم زعما کے ایک اجلاس میں مرتب کی گئی تھیں، مگر آل انڈیا نیشنل کانگریس نے گاندھی اور نہرو کی سرکردگی میں ان مطالبات پر غور کیا اور اپنے ابتدائی اجلاس میں تسلیم بھی کرلیا لیکن بعد میں چند متعصب ہندوؤں کے زیرِ اثر ان میں سے چند مطالبات کو رد کر دیا گیا۔

    کانگریس کی چالیں اور مسلمانوں کو کم زور کرنے کی سازشیں
    اس کے بعد جب نہرو رپورٹ سامنے آئی جو کانگریس نے ہندوستان کے آئین کی حیثیت سے تیار کی تھی، ان میں بھی مسلم حقوق کو پامال کیا گیا تھا۔ یہی نہیں بلکہ دسمبر 1928ء اور جنوری 1929ء میں جب نہرو رپورٹ کو حتمی شکل دینے کے لیے کلکتہ میں نیشنل کنونشن منعقد ہوا تواس میں بھی محمد علی جناح کے تین بنیادی مطالبات کو مسترد کر دیا گیا۔

    ہندو انڈیا اور مسلم انڈیا
    محمد علی جناح اور ان ساتھیوں کے لیے یہ ایک انتہائی مایوس کن اور چونکا دینے والی صورت حال تھی۔ محمد علی جناح نے اپنے پارسی دوست جمشید نسروانجی سے کہا کہ’’آج ہندو انڈیا اور مسلم انڈیا اس طرح جدا ہو گئے ہیں کہ اب کبھی متحد نہیں ہو سکیں گے۔‘‘

    اس رپورٹ کے بعد اس وقت مختلف معاملات پر گروہ بندی اور اختلافات کی وجہ سے دور ہو جانے والے مسلمان راہ نماؤں کو بھی جب کانگریس کی مسلم دشمنی کا یقین ہوگیا تو وہ سب متحد ہوگئے۔

    مسلمان قیادت کا اتحاد اور آل پارٹیز مسلم کانفرنس
    جنوری 1929ء میں آل پارٹیز مسلم کانفرنس اسی اتحاد کا مظہر ہے۔ اس کانفرنس کا اجلاس دہلی میں ہوا جس کی صدارت سر سلطان محمد آغا خان نے کی۔ اس کانفرنس میں نہ صرف میاں محمد شفیع اور سر شفاعت احمد خان پیش پیش تھے بلکہ ترک موالات اور تحریک خلافت کے راہ نما مولانا محمد علی جوہر، مولانا شوکت علی اور حسرت موہانی جیسے جید علما اور سیاست دانوں نے بھی اس میں اہم کردار اداکیا۔

    قائدِ اعظم کے 14 نکات
    ان واقعات کی روشنی میں محمد علی جناح نے 1929ء میں اپنے مشہور چودہ نکات پیش کیے اور اسے برصغیر کی تاریخ میں اسلامیانِ ہند کے منشور کی حیثیت حاصل ہوئی۔ بعد کے برسوں میں مسلم لیگ اور محمد علی جناح کی قیادت میں مختلف مسلم جماعتوں کے اتحاد کی کوششیں جاری رہیں اور لندن میں تین گول میز کانفرنسیں منعقد ہوئیں جس کے بعد ایک مشترکہ پارلیمانی کمیٹی کی سفارشات کی روشنی میں گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1935ء مرتب کیا گیا۔

    انتخابات اور کانگریس کی غیر متوقع کام یابی
    1906ء سے 1938ء تک ہندو مسلم مفاہمت کی کوششیں اور اس ضمن میں تجاویز مسلمانوں کی ہی جانب سے پیش کی جاتی رہی تھیں لیکن کانگریس اور ہندوؤں کی جانب سے منفی رویہ اور غیر ذمہ داری کا مظاہرہ دیکھا گیا جس نے 1937ء کے انتخابات کے بعد شدت اختیار کرلی۔ انتخابات سے قبل قوی امید تھی کہ کانگریس اور مسلم لیگ میں مفاہمت ہو جائے گی اور دونوں جماعتیں مل کر مخلوط وزارتیں قائم کریں گی، لیکن انتخابات میں کانگریس کی غیر متوقع کام یابی کے بعد طاقت کے نشے میں بدمست کانگریس نے کچھ اور ہی منصوبہ بنا لیا۔

    کانگریس کے متعصب اور مفاد پرست ہندو راہ نماؤں نے دوسری تمام پارٹیوں کو اپنے اندر ضم کرکے ہندوستان کی واحد سیاسی جماعت بن جانے کا سوچا اور مخلوط وزارتوں کے بارے میں مسلم لیگ کی پیش کش کو ٹھکرا دیا، یہی نہیں جن ہندو اکثریتی صوبوں میں کانگریسی وزارتیں قائم ہوئیں وہاں مسلمانوں کو ان کے حقوق سے محروم کردیا۔

    کانگریس کی پالیسیاں اور مسلم کش اقدامات
    سیاسی طاقت کے حصول کے بعد کانگریس کی جانب سے ایک سوچی سمجھی پالیسی کے تحت یکے بعد دیگرے مسلم کش اقدامات کیے جن میں بندے ماترم کو قومی ترانہ کی حیثیت دینا، تمام سرکاری عمارتوں پر کانگریس کے پرچم کو قومی پرچم کی حیثیت سے لہرانا، اردو کی جگہ ہندی زبان، گائے کو ذبح کرنے پر پابندی، ملازمتوں میں مسلمانوں کو ان کے مخصوص اور مقررہ حقوق سے محروم کرنا۔

    آل انڈیا مسلم لیگ کی مقبولیت
    مسلم قیادت اور اکابرین نے یہ سب دیکھتے ہوئے مسلمانوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنے کی غرض سے قائدِ اعظم کے ساتھ 1934ء میں‌ کوششوں کا آغاز کیا اور جب مسلم لیگ کا اجلاس لکھنؤ میں 1937ء میں ہوا تو اس نے ہندوستان بھر میں مسلمانوں کو ایک ایسے جوش وجذبہ سے سرشارکردیا جس کی اس سے پہلے کوئی نظیر نہیں ملتی۔ اس اجلاس کے صرف تین ماہ بعد ہی مسلم لیگ کی نئی شاخیں قائم ہونے لگیں اور رکنیت سازی زوروں پر تھی۔

    محمد علی جناح کی حکمت عملی، صبر و تحمل اور سیاسی بصیرت کے باوصف تحریک کام یاب ہوتی چلی گئی اور ہندوستان بھر میں ترقی کی اور بڑے صوبوں میں اسلامیانِ ہند کے کام یاب ترین اجلاس منعقد ہوئے۔ مسلم لیگ کی روز افزوں قوّت اور مقبولیت بڑھنے کا اندازہ ضمنی انتخابات کے نتائج سے بھی ہوتا ہے جس نے سیاسی طور پر مسلمانوں کو بہت فائدہ پہنچایا۔ مسلم لیگ کی مقبولیت کا ایک ثبوت 1939ء میں یومَِ نجات منانے کی جناح صاحب کی اپیل تھی جس پر برصغیر کے مسلمانوں نے والہانہ انداز اور جوش و جذبے سے لبیک کہا۔

    مسلم قومیت کا فروغ اور علیحدہ ریاست کا قیام
    وہ وقت بھی آیا جب قائداعظم نے الگ مسلم قومی تشخص کی اس طرح توضیح اور تشریح کی کہ مسلم اکثریتی صوبوں میں ایک علیحدہ مملکت کے قیام پر سب رضامند ہوگئے۔ چنانچہ قائداعظم کی زیرِ قیادت مسلم لیگ نے لاہور میں 1940ء میں منعقدہ اجلاس میں ایک علیحدہ مسلم ریاست کے قیام کو اپنا نصب العین قرار دے دیا جو بعد میں پاکستان کے نام سے مشہور ہوا۔

    یہ پہلا موقع تھا جب اسلامیانِ ہند نے اتنے واضح اور مدلل انداز میں اپنی منفرد اور علیحدہ قومیت کا نہ صرف اعلان اور دعویٰ کیا بلکہ برصغیر میں ایک علیحدہ وطن کی تشکیل پر بھی زور دیا اور 14 اگست 1947ء میں لاکھوں جانوں کی قربانیاں دے کر مسلمانوں نے پاکستان حاصل کیا۔

  • جدوجہدِ آزادی: شدھی اور سَنگَھٹن تحریکوں نے ہندو انتہا پسند ذہنیت کو بے نقاب کیا

    جدوجہدِ آزادی: شدھی اور سَنگَھٹن تحریکوں نے ہندو انتہا پسند ذہنیت کو بے نقاب کیا

    ناکام غدر کے بعد جب ایسٹ انڈیا کمپنی کے گھناؤنے اور پُر فریب کردار کو سمیٹ کر برطانیہ نے ہندوستان کو اپنی کالونی بنایا اور یہاں انگریز راج قائم ہوا تو مسلمان اور ہندو سیاسی و سماجی راہ نما اور اکابرین نے متحد ہوکر انگریزوں کو اپنے وطن سے نکالنے اور اپنی حکومت قائم کرنے کا خواب دیکھنا شروع کیا۔

    اس وقت ہندو مسلم اتحاد کے نعرے نے زور پکڑا، لیکن اس سے قبل کئی واقعات اور سانحات رونما ہو چکے تھے جن سے ثابت ہوتا تھا کہ ہندوستان میں دو بڑی قومیں آباد ہیں جو اپنے مذہب، رہن سہن، روایات اور ثقافت کے اعتبار سے ہر طرح جداگانہ شناخت رکھتی ہیں اور اکٹھے نہیں‌ رہ سکتیں۔

    ہندو مسلم اتحاد کا سنہری خواب تحریکِ خلافت کے دوران ہی ادھورا نظر آنے لگا تھا اور جونہی یہ تحریکِ کم زور پڑی ہندو مسلم فسادات کا ایک طویل اور خوف ناک سلسلہ چل نکلا۔

    1920ء کے بعد ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان ہر قسم کے تعلقات بڑھتی ہوئی کشیدگی کی نذر ہونے لگے۔ اس کشیدگی کی انتہا کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ 1923ء میں 11، اگلے سال 18، 1925ء میں 16 اور اس کے ایک سال بعد یعنی 1926ء میں 35 اور اگلے ہی برس 37 افسوس ناک واقعات رونما ہوئے جو ہندو مسلم فسادات کا نتیجہ تھے۔ ہر سال ایسے واقعات بڑھتے رہے جب کہ چھوٹے اور معمولی نوعیت کی تکرار اور جھگڑے عام ہوتے جارہے تھے۔

    تاریخ سے ثابت ہے کہ ہندو شروع ہی سے مسلمانوں کو اپنا مطیع و حاشیہ نشیں بنا کر رکھنے کا خواب دیکھتے آئے تھے جس کا ایک سبب یہ بھی تھا کہ وہ جس ہندوستان میں‌ رہتے تھے، اس پر صدیوں سے مسلمان حکم رانی کررہے تھے اور دہلی میں ان کا تخت سجا رہا تھا۔

    مغل سلطنت کے کم زور پڑ جانے کے بعد اور انگریزوں کی آمد سے قبل بھی یہاں مختلف چھوٹے بڑے علاقے مسلمان حکم رانوں کے زیرِ‌نگیں تھے اور ریاستوں پر انہی کی حکم رانی تھی۔

    ہندو احساسِ محرومی کا شکار بھی تھے اور خود کو مسلمانوں کا محکوم خیال کرتے تھے جب کہ انھیں مغل دور میں مذہبی اور ہر قسم کی آزادی حاصل تھی۔ ان کی عبادت گاہیں محفوظ تھیں اور وہ اپنے رسم و رواج اور طور طریقوں کے مطابق زندگی بسر کررہے تھے۔

    انگریزوں کی آمد کے بعد مخصوص ذہنیت اور انتہا پسندوں نے ہندو مسلم تعلقات کو خراب کرنے کی کوششیں شروع کیں اور خیال کیا کہ انگریزوں سے ساز باز اور سازشیں کرکے اقتدار حاصل کرسکیں گے۔

    ہندو مسلم تعلقات خراب کرنے کی ابتدا ہندوؤں کی جانب سے ہوئی جنھوں نے پنڈت مدن موہن مالویہ، لالہ لاجپت رائے اور شردھا نند کی قیادت میں سَنگَھٹن اور شدھی تحریکیں شروع کیں۔ سَنگَھٹن کے معنی ایک ساتھ جوڑ کر مضبوطی سے باندھنا تھا۔ اس تحریک کا مقصد ہندوؤں کی تعلیم و تربیت کرنا، انھیں نظم و نسق اور مختلف امور کا ماہر بنانا، اور مخالفین سے اپنا دفاع سکھانا تھا جس کے لیے ایسے اسلحہ کا استعمال بھی سکھایا جاتا جس سے فسادات کی صورت میں مسلمانوں کے خلاف کام لینا مقصود تھا۔ ہندو نوجوانوں کو لاٹھیوں، اینٹوں کے ٹکڑوں اور بنوٹ کا دشمن پر استعمال سکھایا جارہا تھا۔

    دوسری طرف شدھی تحریک کا شور ہونے لگا جس کا مطلب تھا پاک کرنا۔ یعنی وہ لوگ جو اسلام کے ہمہ گیر اور آفاقی نظریات اور اس کی تعلیمات سے متاثر ہوکر ہندو مت ترک کر کے مسلمان ہو گئے تھے انھیں مجبور کرکے دوبارہ ہندو مت میں داخل کر لیا جائے۔

    ان حالات میں ہندو مسلم اتحاد کا نعرہ محض فریب ہی تھا۔ ان دونوں تحریکوں کا مقصد ہندوستان سے مسلمانوں کے وجود کو مٹانا تھا اور اسے بڑے بڑے ہندو راہ نماؤں کی حمایت حاصل تھی۔

    ایسی تحریکوں کے انتہا پسند ہندو لیڈروں نے مسلمانوں کے بارے میں اپنی ذہنیت کا کھلم کھلا اظہار شروع کردیا تھا اور ڈاکٹر مونجے نے اودھ ہندو سبھا کی صدارت کرتے ہوئے کہا کہ ’’جس طرح انگلستان انگریزوں کا، فرانس فرانسیسیوں اور جرمن جرمنوں کا ملک ہے اسی طرح ہندوستان ہندوؤں کا ملک ہے۔‘‘ ہندو چاہتے تھے کہ یا تو مسلمانوں کو ہندوستان سے نکال دیا جائے یا انھیں ہندو مت قبول کرنے پر مجبور کردیا جائے۔

    جیسا کہ پہلے بیان کیا گیا کہ ہندوستان میں فرقہ وارانہ فسادات وسیع پیمانے پر ہونے لگے اور ان کا دائرہ پھیلتا جارہا تھا اور ہندو مسلمانوں کے خون کے پیاسے ہو رہے تھے، لیکن مسلم زعما بالخصوص قائدِاعظم ان مایوس کن حالات میں بھی ہندو مسلم اتحاد کے لیے کوشاں تھے۔ تاہم جلد ہی انھیں بھی احساس ہو گیا کہ علیحدہ وطن کا حصول ناگزیر ہے۔

    مصوّرِ پاکستان ڈاکٹر علّامہ اقبال کی بات کی جائے تو وہ برطانوی راج میں ہندوستانی آئین کے مطابق مسلمانوں کے لیے جداگانہ طرزِ‌ انتخاب سمیت علیحدہ ریاست کو اُس وقت بھی اہمیت دے رہے تھے جب قائداعظم سمیت دیگر مسلمان راہ نما ہندو مسلم اتحاد کے نعروں کے پیچھے چھپی ہندوؤں کی ذہنیت کا صحیح اندازہ نہیں لگا پائے تھے۔

    علّامہ اقبال نے ایک موقع پر واضح طور پر کہا کہ مسلمانوں کو ہندوستان میں بحثیت مسلمان زندہ رہنا ہے تو ان کو جلد از جلد اپنی اصلاح و ترقی کے لیے سعی و کوشش کرنی چاہیے اور ایک علیحدہ سیاسی پروگرام بنانا چاہیے۔

    بیسویں صدی كے آغاز پر جو حالات اور فسادات سمیت دیگر واقعات رونما ہوئے تو مسلمان قائدین اور اکابرین نے علیحدہ تشخص کی بات کرتے ہوئے الگ سیاسی پلیٹ فارم بنانے كی کوششیں تیز کردیں اور بے شمار قربانیوں کے بعد پاکستان حاصل کیا۔

  • میاں بشیر احمد اور وہ نظمیں جو بانیِ پاکستان کے مثالی کردار اور لازوال قیادت کی غمّاز ہیں

    میاں بشیر احمد اور وہ نظمیں جو بانیِ پاکستان کے مثالی کردار اور لازوال قیادت کی غمّاز ہیں

    ہندوستان کی تاریخ میں‌ آزادی کی تحریک اور علیحدہ وطن پاکستان کے حصول کے لیے پہلی مرتبہ طول و عرض میں پھیلے ہوئے مسلمان جس عظیم مدبّر، سیاست داں اور راہ برِ وقت کی ولولہ انگیز قیادت میں اکٹھے ہوئے تھے، دنیا انھیں ایک ذہین اور نہایت قابل وکیل محمد علی جناح کے نام سے پہلے ہی جانتی تھی۔

    محمد علی جناح جب مسلمانوں کے راہ بَر و قائد بنے تو ان کے رفقا اور قریبی ساتھی ان کے مثالی کردار اور ان کی شخصیت کے مختلف پہلوؤں سے بھی واقف ہوئے۔ انھیں یقین ہو چلا تھا کہ اب منزل قریب ہے اور قائدِ‌ اعظم کی قیادت میں متحد ہوکر مسلمان جلد علیحدہ وطن حاصل کرلیں گے۔

    اس تمہید کے ساتھ ہم یہاں آزادی کے ایک متوالے کا تذکرہ کررہے ہیں جن کا نام میاں بشیر احمد تھا۔ وہ تحریکِ پاکستان کے سرگرم کارکن تھے اور قائدِ اعظم محمد علی جناح کے معتمد رفقا میں شامل تھے۔

    میاں بشیر احمد کی تحریک اور آزادی کے لیے کوششیں اور اپنی قیادت کے ساتھ محنت، بھاگ دوڑ، قربانیاں اور مسلم لیگ کے لیے خدمات ایک الگ باب ہیں، لیکن وہ ایک ایسے شاعر بھی تھے جن کی نظموں کے ذریعے مسلمانانِ ہند نے جانا کہ خدا نے محمد علی جناح کی صورت میں انھیں کیسا نقشِ تابندہ عطا کیا ہے جو دراصل نشانِ منزل بھی ہے۔

    میاں بشیر احمد بانی پاکستان کے وہ مخلص ساتھی تھے جنھوں نے اپنی بساط سے بڑھ کر ان کا اور مسلم لیگ کا ساتھ دیا۔

    اُس وقت ہندوستان کے مسلمانوں سے قائدِاعظم محمد علی جناح کے کردار اور ان کی شخصیت کا نہایت خوب صورت اور منفرد انداز میں جامع تعارف کروانے والے میاں بشیر احمد کی زندگی کے چند اوراق ہم آپ کے سامنے رکھ رہے ہیں۔

    میاں بشیر احمد کون تھے؟
    ان کا تعلق اس خانوادے سے تھا جس نے تحریکِ آزادی اور قیامِ پاکستان کے لیے بہت سی خدمات انجام دیں۔ میاں بشیر احمد برطانوی ہندوستان کے پہلے مسلمان چیف جسٹس میاں محمد شاہ دین ہمایوں کے فرزند تھے جنھیں شاعرِ مشرق علّامہ اقبال نے اپنی نظم میں خراجِ عقیدت بھی پیش کیا ہے۔ میاں شاہ دین لاہور کی ممتاز سماجی اور ادبی شخصیت تھے اور علاّمہ اقبال کے ادبی سرپرستوں میں سے ایک تھے۔ یوں ایک علمی و ادبی ماحول میں میاں بشیر احمد کی پرورش ہوئی اور تعلیم و تربیت کے بعد انھوں نے خود بھی شاعری کا مشغلہ اختیار کیا۔ انھوں نے ایک ادبی رسالہ بھی نکالا تھا جس کا نام ہمایوں تھا۔

    تحریکِ پاکستان اور علیحدہ وطن کی جدوجہد شروع ہوئی تو میاں بشیر احمد قائدِاعظم کے قریب آگئے اور ان کے وفادار و جاں نثار ساتھیوں میں شمار کیے جانے لگے۔

    میاں بشیر احمد نے قائدِ اعظم کا تعارف کس منفرد اور شایانِ شان انداز سے کروایا؟

    میاں بشیر احمد عمدہ شاعر تھے۔ انھوں نے اپنی نظموں میں قائداعظم کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے ہندوستان کے باسیوں کو بتایا کہ ان کا قائد عزم و ارادے کا پکّا، روشن اور مضبوط کردار کا مالک ہے جس کی ولولہ انگیز قیادت میں اور مسلمانوں کے اتحاد اور اتفاق سے جلد ہمارا خواب پورا ہو گا۔

    یہ کلام آپ نے ضرور سنا ہوگا۔

    ملّت کا پاسباں ہے محمد علی جناح
    ملّت ہے جسم، جاں ہے محمد علی جناح

    یہ میاں بشیر احمد کی مشہور نظم کا ایک شعر ہے۔ قائدِ اعظم کی شخصیت و کردار اور ان کی قیادت کے حوالے سے میاں بشیر احمد کی ایک اور مشہور نظم کا ایک شعر ملاحظہ کیجیے۔

    ملّت ہے فوج، فوج کا سردار ہے جناح
    اسلامیانِ ہند کی تلوار ہے جناح

    یہ وہ نظمیں تھیں جنھیں تحریکی جلسوں میں پڑھا اور سنا گیا اور یہ اشعار ہندوستان کے کونے کونے میں بسنے والے مسلمانوں تک پہنچے اور ان کے دل میں‌ قائدِ اعظم کی عظمت و محبّت جگائی اور ان کی قیادت پر مسلمانوں کا یقین اور اعتماد بڑھایا۔

    قائد اور تحریکِ پاکستان کے لیے مسلمانوں میں جوش و ولولہ پیدا کرنے اور آزادی کے متوالوں کا حوصلہ اور ہمّت بڑھانے کے لیے ان نظموں کو گلوکاروں کی آواز میں ریکارڈ کرکے مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے نشر کیا گیا۔

    قیامِ‌ پاکستان سے قبل 1946ء میں یہ نظمیں ہندوستان بھر سنی گئیں اور ہر جلسے اور تقریب میں آزادی کے متوالوں کی زبان پر جاری رہیں۔ آج بھی میاں بشیر احمد کی یہ نظمیں اسی جوش و جذبے سے سنی جاتی ہیں اور یومِ‌ آزادی پر قائدِ اعظم محمد علی جناح کو خراجِ‌ تحسین پیش کرنے کا ذریعہ اور ان کے لیے قوم کے جذبات اور احساسات کی عکاس ہیں۔

    قیامِ پاکستان کے بعد میاں بشیر احمد کو ترکی میں پاکستان کا سفیر مقرر کیا گیا تھا۔ وہ 1971ء میں وفات پاگئے۔

  • وزیر اعظم کی آذربائیجان کے صدر، عوام کو یوم آزادی کی مبارک باد

    وزیر اعظم کی آذربائیجان کے صدر، عوام کو یوم آزادی کی مبارک باد

    اسلام آباد: وزیر اعظم عمران خان نے آذربائیجان کے صدر اور عوام کو یوم آزادی کی مبارک باد دی۔

    تفصیلات کے مطابق وزیر اعظم نے آج ایک ٹویٹ میں آذر بائیجان کے یوم آزادی کے موقع پر آذری عوام اور ان کے صدر کو مبارک باد کا پیغام دیا ہے۔

    وزیر اعظم نے ٹویٹ میں آرمینیا کے ساتھ حالیہ تنازع پر لکھا کہ پاکستان نگورنو کاراباخ کا حل یو این قرارداد کے مطابق چاہتا ہے، انھوں نے مزید لکھا کہ اپنی سرزمین کا دفاع کرنے پر ہم آذربائیجان کی فورسز کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔

    واضح رہے کہ آذربائیجان اور آرمینیا ایک نئے موڑ پر آ گئے ہیں، دونوں ممالک کے درمیان جنگ بندی ہوگئی ہے جس کے بعد فریقین نے ایک دوسرے پر حملے روک دیے ہیں۔

    آذربائیجان نے بھی آرمینیا سے جنگ بندی معاہدے کی تصدیق کر دی ہے، آذربائیجان کا کہنا ہے کہ انسانی ہم دردی کی بنیاد پر جنگ بندی معاہدہ کیا گیا ہے۔ خیال رہے کہ فریقین کا تقریباً 3 ہفتوں سے جاری جنگ کے بعد سیز فائر پر اتفاق ہوا ہے۔

    نگورنو کاراباخ میں دونوں ممالک میں جھڑپوں میں سیکڑوں ہلاکتیں ہوچکی ہیں۔

    کاراباخ تنازع: آذربائیجان اور آرمینیا نئے موڑ پر آگئے

    یاد رہے کہ رواں ماہ 11 اکتوبر کو بھی فریقین کے درمیان سیزفائر ہوا تھا، روس کی ثالثی میں فریقین نے جنگ بندی کا اعلان کیا لیکن چند گھنٹے بعد جھڑپیں پھر شروع ہو گئیں، اور دونوں اطراف سے ایک دوسرے پر جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزی کے الزامات عائد کیے گئے۔

  • سعودی عرب: سمندر کی گہرائی میں پاکستانیوں کا سعودی اور شامی دوستوں کے ہمراہ جشن آزادی

    سعودی عرب: سمندر کی گہرائی میں پاکستانیوں کا سعودی اور شامی دوستوں کے ہمراہ جشن آزادی

    جدہ: سعودی عرب کے ساحلی شہر جدہ میں گزشتہ روز پاکستانیوں نے سعودی اور شامی دوستوں کے ہمراہ پاکستان کا یوم آزادی منایا۔

    تفصیلات کے مطابق دنیا بھر میں پاکستانی جہاں کہیں بھی موجود ہیں انھوں نے کرونا کی وبا میں بھی احتیاطی تدابیر کے ساتھ اپنے انداز میں جشن آزادی منایا، اس سلسلے میں جدہ کے سمندر میں بھی یوم آزادی منایا گیا اور پاکستان کی 74 ویں سال گرہ کا کیک کاٹا گیا۔

    پاکستانی، سعودی اور شامی ڈائیورز جدہ کے سمندر میں پاکستان کی سالگرہ کا کیک کاٹ رہے ہیں

    جدہ میں موجود پاکستانی ڈائیور یحییٰ اشفاق نے اس منفرد انداز میں یوم آزادی منانے کا انتظام کیا، ڈائیور (غوطہ خور) یحییٰ اشفاق نے جمعے کو جدہ میں بحیرہ احمر کے ساحل کے قریب تین پاکستانی نوجوانوں عمر جان، حسن بخش اور فائز، 2 سعودیوں اور ایک شامی  کے ہمراہ زیر آب پاکستان اور سعودی عرب کے پرچم لہرائے اور کیک کاٹا۔

    غوطہ خوروں نے زیر آب رہتے ہوئے اذان دی اور نماز بھی پڑھی

    پاکستانی اور سعودی نوجوانوں کے ساتھ 7 برس کے چھوٹے بچے باسل نے بھی ڈائیو کر کے وہاں موجود لوگوں کو حیران کر دیا اور اس طرح پاکستان کے ساتھ اپنی دلی وابستگی کا اظہار کیا۔ ڈائیورز نے زیر آب رہتے ہوئے اذان بھی دی اور باجماعت نماز پڑھی۔

    ڈائیور یحیٰ اشفاق اپنے دوستوں کے ہمراہ زیر آب جانے کو تیار

    تمام غوطہ غوروں نے اپنی اس کاوش کو کرونا وائرس کے خلاف فرنٹ لائن پر موجود ڈاکٹرز اور طبی عملے کے نام کیا، اس موقع پر تمام ڈائیورز نے فرنٹ لائن ورکرز کی کٹ پہن رکھی تھی۔

    یحییٰ اشفاق نے کہا کہ میں اپنے دوستوں کے ہمراہ ہر سال پاکستان کا یوم آزادی اس منفرد انداز کے ساتھ منا رہا ہوں اور اس بار کرونا کی وبا میں بھی یہ روایت برقرار رکھی ہے، اس بار کا ایک مقصد کرونا وائرس سے آگہی بھی تھا۔

    کم سن بہنوں نے 14 اگست منفرد انداز میں منا کر مثال قائم کر دی

  • کم سن بہنوں نے 14 اگست منفرد انداز میں منا کر مثال قائم کر دی

    کم سن بہنوں نے 14 اگست منفرد انداز میں منا کر مثال قائم کر دی

    کراچی: شہر قائد کے علاقے اولڈ مظفر آباد کالونی کی کم سن بہنوں نے 14 اگست منفرد انداز میں منا کر اعلیٰ مثال قائم کر دی۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق ملک میں ہر سال یوم آزادی تو سبھی مناتے ہیں لیکن کراچی میں رہنے والے تین بہنوں اور ایک بھائی نے سوچا کہ اس بار پاکستان کے یوم آزادی پر کچھ ایسا کیا جائے جس سے کم از کم آس پاس کے لوگوں کو فائدہ پہنچے۔

    اس سلسلے میں اولڈ مظفر آباد کی آمنہ نے بہن کے ساتھ مل کر 14 اگست کو علاقے کا کچرا صاف کیا، اس علاقے میں صفائی کا بڑا مسئلہ ہے، اس لیے کم سن بہنوں نے اسی مسئلے کا حل نکالنے کے لیے عملی قدم اٹھایا۔

    اپنے عمل سے پاکستانی پرچم کے رنگ میں ملبوس بہنوں نے بڑوں کو سبق دے دیا، بچیوں نے ماسک لگا کر کرونا کے حوالے سے بھی پیغام دیا۔

    واضح رہے کہ اولڈ مظفر آباد کالونی میں پانی اور کچرے سمیت بجلی کی عدم فراہمی کے مسائل ہیں، صفائی کے حوالے سے ان تمام بچوں کی عادتیں مثالی ہیں، 2 سال قبل یہ چار بہن بھائی جب سوات گئے تو انھوں نے اس بات پر حیرت کا اظہار کیا کہ مینگورہ اتنا خوب صورت ہے مگر لوگ اس کو گندا کرتے ہیں۔

    یہ دیکھ کر انھوں نے فیصلہ کیا کہ کسی بھی اسپاٹ پر جائیں گے تو اپنے ساتھ 2 بڑے بڑے شاپنگ بیگز بھی لے کر جائیں گے اور وہاں لوگوں کا پھینکا گیا کچرا ضرور اٹھائیں گے اور مناسب جگہ پر واپس لا کر ڈمپ کریں گے۔

    اس سلسلے میں کالام میں انھوں نے 6 گھنٹے گزارے اور وہاں سے جوس کے ڈبے، چپس کے پیکٹس، پلاسٹک کی بوتلوں سے بھرے چار بڑے شاپنگ بیگز کا کچرا جمع کر کے واپس مینگورہ لاکر ڈمپ کیے۔

    یہ عادت ان بھائی بہنوں میں اتنی پختہ ہو چکی ہے کہ جہاں جاتے ہیں کوڑا سمیٹ کر ڈمپ کرنا نہیں بھولتے، 14 اگست کے دن بھی انھوں نے اپنی گلی کی صفائی کی، اس دوران بھائی ویڈیو بناتا رہا اور یہ دو بہنیں کچرا جمع کرتی رہیں۔

    واضح رہے کہ آمنہ کے چاچا عامر گزشتہ برس فیکٹری میں قواعد کے خلاف مبینہ تجربے کے دوران جھلس کر جاں بحق ہو گئے تھے۔

  • بھات کے یوم آزادی پر مقبوضہ وادی میں یوم سیاہ منایا جا رہا ہے

    بھات کے یوم آزادی پر مقبوضہ وادی میں یوم سیاہ منایا جا رہا ہے

    سری نگر: بھات کے یوم آزادی پر آج مقبوضہ وادی میں یوم سیاہ منایا جا رہا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق بھات کے یوم آزادی پر آج مقبوضہ وادی میں یوم سیاہ منایا جا رہا ہے، حریت رہنما کی کال پر آج مقبوضہ وادی میں مکمل ہڑتال ہوگی۔

    گزشتہ روز مقبوضہ وادی میں پاکستان کے یوم آزادی کا جشن منایا گیا تھا، اس موقع پر سرینگر میں پاکستانی پرچم لہرائے گئے تھے، آج بھارت کے یوم آزادی پر دنیا بھر میں مقیم کشمیری یوم سیاہ منائیں گے۔

    یوم سیاہ پر بھارتی غیر قانونی مقبوضہ جموں و کشمیر میں مکمل ہڑتال ہوگی، قابض انتظامیہ نے مظاہرے روکنے کے لیے مقبوضہ علاقے میں پابندیوں کو مزید سخت کر دیا ہے۔

    ادھر کشمیر کونسل یورپ نے بیان جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہم بھارت کا یوم آزادی یوم سیاہ کے طور پر منائیں گے، یورپی ہیڈکوارٹرز میں بھارتی سفارت خانے کے سامنے مظاہرہ بھی کیا جائے گا۔

    کشمیر کونسل کا کہنا ہے کہ ملٹری لاک ڈاؤن سے کشمیریوں کی مشکلات میں اضافہ ہو گیا ہے، ہم کشمیر کی آزادی اور بھارتی مظالم کے خلاف جدوجہد جاری رکھیں گے۔

    واضح رہے کہ جموں و کشمیر کی قانونی جداگانہ حیثیت ختم کرنے کا رواں ماہ ایک سال پورا ہو گیا ہے، وادی میں اس عرصہ بدترین لاک ڈاؤن رہا، ہزاروں کشمیری بھارتی فورسز کے تشدد اور فائرنگ سے زخمی ہوئے اور سیکڑوں لاپتا کیے گئے ہیں۔