Tag: یوم دفاع سیریز

  • یومِ دفاع:‌ وہ شاعری جو دشمن ملک کی افواج کے لیے تازیانہ ثابت ہوئی

    یومِ دفاع:‌ وہ شاعری جو دشمن ملک کی افواج کے لیے تازیانہ ثابت ہوئی

    1965ء میں بھارت سے جنگ کے موقع پر پاکستانی شعراء کے جنگی ترانے اور رزمیہ شاعری ایک طرف سرحدوں کے محافظوں کا لہو گرماتی رہی اور دوسری طرف قوم میں جذبۂ حبُ الوطنی بیدار کرتے ہوئے انھیں دشمن کے خلاف متحد کر دیا تھا۔ یہ جنگی ترانے اور رزمیہ شاعری پاکستانی قوم کی امنگوں اور جذبات کی ترجمان بھی تھی اور ان کے بول دشمن کے لیے کسی تازیانے سے کم نہ تھے۔

    جنگِ‌ ستمبر کے موقع پر شعراء نے جو ترانے لکھے، وہ آج اردو زبان کے رزمیہ ادب کا حصّہ ہیں اور یہ شاعری قومی وحدت کی یادگار کے طور پر محفوظ ہے۔ یہاں ہم جنگِ ستمبر کے دوران اور بھارت کی شکست کے بعد مشہور ہونے والے اشعار اور ترانوں کے مقبول بند پیش کر رہے ہیں۔

    اپنی جاں نذر کروں، اپنی وفا پیش کروں
    قوم کے مردِ مجاہد تجھے کیا پیش کروں
    عمر بھر تجھ پہ خدا اپنی عنایت رکھے
    تیری جرأت تیری عظمت کو سلامت رکھے
    جذبۂ شوقِ شہادت کی دعا پیش کروں
    قوم کے مردِ مجاہد تجھے کیا پیش کروں
    (مسرور انور)

    اج ہندیاں جنگ دی گل چھیڑی
    اکھ ہوئی حیران حیرانیاں دی
    مہاراج اے کھیڈ تلوار دی اے
    جنگ کھیڈ نئیں ہوندی زنانیاں دی
    (ڈاکٹر رشید انور)

    تو وارث پاک اُجالوں کی
    تو دھرتی شیر جوانوں کی
    تری خوشبو کو چھلکائیں گے
    ترے پیار کی جُگنی گائیں گے
    (ضمیر جعفری)

    میری سرحد پہ پہرا ہے ایمان کا
    میرے شہروں پہ سایہ ہے قرآن کا
    میرا ایک اک سپاہی ہے خیبر شکن
    چاند میری زمیں، پھول میرا وطن
    (ساقی جاوید)

    سرفروشی ہے ایماں تمہارا
    جرأتوں کے پرستار ہو تم
    جو حفاظت کرے سرحدوں کی
    وہ فلک بوس دیوار ہو تم
    (جمیل الدّین عالی)

    ہمارا پرچم یہ پیارا پرچم
    یہ پرچموں میں عظیم پرچم
    (سیف زلفی)

    لگاؤ نعرۂ تکبیر ہر چہ بادا باد
    مجاہدوں کو پہنچتی ہے غیب سے امداد
    (احسان دانش)

    اے راہِ حق کے شہیدوں وفا کی تصویرو
    تمہیں وطن کی ہوائیں سلام کہتی ہیں
    (مشیر کاظمی)

    اردو میں جذبۂ قومیت کے اشتراک سے قومی شاعری کو ایک الگ صنفِ ادب کے طور پر متعارف کرانے والے اہم شعراء میں صبا اکبر آبادی، طفیل ہوشیار پوری، سید ضمیر جعفری، کرم حیدری، کلیم عثمانی، مشیر کاظمی، کیف بنارسی، ساقی جاوید، جمیل الدین عالی، تنویر نقوی، حمایت علی شاعر، رئیس امروہوی، احمدندیم قاسمی، منیر نیازی، ریاض الرحمن ساغر کے نام شامل ہیں۔ پاکستان کی آزاد فضاؤں میں ان ملّی نغمات اور اشعار کی گونج ہمیشہ سنائی دیتی رہے گی۔

  • جنگِ ستمبر: جب ایک پاکستانی بچّہ سول ڈیفنس کے دفتر پہنچا!

    جنگِ ستمبر: جب ایک پاکستانی بچّہ سول ڈیفنس کے دفتر پہنچا!

    دو ممالک کی افواج اگر آمنے سامنے ہوں اور ان میں سے ایک سپاہ اور سامانِ حرب ہر لحاظ سے دوسرے ملک کی فوج پر بھاری ہو تو غالب امکان یہی ہے کہ فتح بھی عدد و اسباب میں برتری رکھنے والے کا مقدّر بنے گی، لیکن جس ملک کی فوج اور عوام اپنی آزادی کی خاطر اپنی جان نچھاور کرنے کا جذبہ رکھتے ہوں، بڑی سے بڑی طاقت بھی ان کے آگے نہیں ٹھہر سکتی۔ 1965ء کی جنگ میں دنیا نے یہی دیکھا جب پاکستان نے اپنے کئی گنا زیادہ طاقت رکھنے والے بھارت کو اس کی جارحیت پر منہ توڑ جواب دیا اور میدانِ جنگ میں شکست دی۔

    جنگِ ستمبر کی مناسبت سے ہم یہاں محمد ظہیر بدر کے مضمون "پینسٹھ اور قومی زندہ دلی” سے ایک ایسا پارہ نقل کررہے ہیں جو 1965ء میں اُن کے اور ان کے ہم عمر ساتھیوں کے جوش و ولولے اور جذبۂ ایمانی کی مثال ہے۔ محمد ظہیر بدر لکھتے ہیں:

    صدر ایوب نے اپنی تقریر میں کہا: ’’ہندوستان کے حکم ران شاید یہ نہیں جانتے کہ انھوں نے کس قوم کو للکارا ہے…‘‘

    جب صدر کی تقریر ختم ہوئی تو ہم نعرہ تکبیر، پاک فوج زندہ باد، پاکستان پائندہ باد کے نعرے لگاتے محلّے کے چھوٹے سے بازار میں چھوٹا سا جلوس لے کر چل پڑے۔

    دکان داروں نے ہمیں دیکھا تو وہ بھی کھڑے ہو کر ہمارے نعروں کا جواب دینے لگے۔ ایسے چھوٹے چھوٹے جلوس اور نعرے بازی ہمارا معمول بن گیا تھا۔ دن بھر ریڈیو پر قومی و ملّی نغمے، شام کو فوجی بھائیوں کے لیے خصوصی پروگرام سنا کرتے۔

    پاک فضائیہ کے پاس بھارت کے جدید طیاروں کے برعکس سیبر طیارے تھے۔ ریڈیو نے بتایا کہ پاک فضائیہ نے وطن کے دفاع کے لیے وہ کار ہائے نمایاں انجام دیے کہ قوم کا جذبۂ حُب الوطنی اور جذبۂ ایمانی فوج کی طاقت بن گیا۔ پاکستان کے فلائٹ لیفٹیننٹ یونس حسن شہید اور ایم ایم عالم کا واقعہ بھی عالمی ریکارڈ ہے۔

    ایک روز جب بھائی خاکی وردی میں ملبوس سر پر ہری ٹوپی پہنے گھر میں داخل ہوا تو اس نے بتایا کہ اسے شہری دفاع میں رضا کار کے طور پر بھرتی کرلیا گیا ہے۔

    جب بلیک آؤٹ ہوا کرتا تو یہ رضا کار لوگوں کے گھروں کی بتیاں بند کروایا کرتے تھے۔ اس کے علاوہ یہ رضا کار محاذ تک استعمال کی اشیا اور سامانِ خور و نوش کی رسد کا فریضہ بھی ادا کرنے پر مامور تھے۔ مگر ہمارا معمول تھا کہ جب بھی سائرن بجتے چھتوں پر چڑھ جاتے اور فضائے نیلگوں میں پاکستانی طیاروں کی بھارتی طیاروں پر جھپٹ پلٹ کا نظارا کرتے۔

    گھر والے روکتے، سول ڈیفنس والے بھی دروازے پر دستک دیتے، تنبیہ کرتے مگر ہم کہاں ٹلتے۔ خوف سے کھیلنا ہمارا مشغلہ بن گیا تھا۔ ہمارے گھر کے قریب ہی سول ڈیفنس کا علاقائی دفتر تھا جہاں تمام رضا کار جمع ہوتے اور انھیں ان کی ذمہ داریاں دی جاتیں۔

    ایک دن بھائی کو بتائے بغیر میں بھی سول ڈیفنس کے دفتر پہنچ گیا جہاں پر رضا کاروں کے ساتھ ساتھ ان کے انچارج بھی موجود تھے۔ میں نے کہا کہ میں بھی رضا کار بننا چاہتا ہوں۔ دشمن کو پتا نہیں اس نے کس قوم پر حملہ کیا ہے۔ میں نے بڑے جذباتی انداز میں تقریر شروع کر دی۔ سب سنتے رہے۔ آخر ان کے افسر میرے پاس آئے میرے سَر پر ہاتھ پھیرا۔ میں نے دیکھا ان کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ انھوں نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا: خدا کی قسم! جس قوم کے بچّوں میں وطن کی محبّت کا یہ جذبہ ہو اسے دنیا کی کوئی طاقت شکست نہیں دے سکتی۔ اس کے بعد انھوں نے مجھے کہا۔ بیٹا تم ابھی بہت چھوٹے ہو۔ تم اپنی پڑھائی پر دھیان دو، اپنے والدین کا کہا مانو، ہمسایوں سے اچھا سلوک کرو، تمہارا یہی فرض ہے، یہی جہاد ہے اور وطن سے محبّت کا یہی طریقہ ہے۔ تم سمجھو کہ تم بھی پاک فوج کے شانہ بشانہ لڑ رہے ہو۔

    وحدت کالونی کی سڑک ان دنوں بہت چھوٹی سی تھی جو ملتان روڈ کو فیروز پور روڈ سے ملاتی تھی۔ ہم سڑک پر کھڑے ہو کر منتظر رہتے کہ کب فوجی گاڑی یہاں سے گزرے۔ دور سے آتی ہوئی گاڑی کو دیکھ کر ہم اپنے دوسرے ساتھیوں کو آوازیں دے کر بلاتے اور بتاتے کہ گاڑی آ رہی ہے اور وہ دوسرے لڑکوں کو بتاتے اور سب سڑک کے کنارے آکر کھڑ ے ہو جاتے۔

    فوجیوں کو ہاتھ ہلا کر سلام کرتے، پاک فوج زندہ باد کے نعرے لگاتے۔ کبھی کبھار کوئی گاڑی ایک پل کے لیے رکتی، ہم بھاگم بھاگ سپاہیوں سے ہاتھ ملاتے۔ سپاہی ہمارے گال تھپتھپاتے اور نعروں کی گونج میں چل دیتے۔

    خبروں میں سب سے زیادہ جن محاذوں کے نام سنے، ان میں واہگہ، چھمب جوڑیاں، کھیم کرن، گنڈا سنگھ والا کے نام مجھے یاد رہ گئے۔ آج بھی جب ان شہروں اور علاقوں کے نام سنتا ہوں تو جنگِ ستمبر 65 ء کی یاد تازہ ہو جاتی ہے۔

  • جنگِ ستمبر: کراچی میں لالو کھیت کا ہوائی اڈّہ اور تین ہٹی کا پُل

    جنگِ ستمبر: کراچی میں لالو کھیت کا ہوائی اڈّہ اور تین ہٹی کا پُل

    1965ء میں پاکستان اور بھارت کے درمیان ہونے والی جنگ میں سرحدوں پر لڑنے والے فوجی جوانوں اور عام پاکستانیوں نے دلیری، شجاعت اور ایثار کی تاریخ رقم کی۔ جنگِ ستمبر میں‌ دنیا نے دیکھا کہ پاکستان نے کئی گنا زیادہ فوج اور بھاری اسلحہ رکھنے والے دشمن کو پسپائی اختیار کرنے پر مجبور کیا۔

    قیامِ پاکستان کے بعد اردو کے نام وَر انشا پرداز اور ممتاز ادیب شاہد احمد دہلوی ہجرت کرکے یہاں آگئے تھے۔ انھوں نے جنگِ ستمبر کا آنکھوں دیکھا احوال اور مادرِ‌ گیتی کے دفاع کے لیے جان قربان کر دینے کے جذبے سے سرشار قوم کے چیدہ چیدہ اور مستند واقعات کو تحریری شکل دی۔ بھارت کے اس جنگ میں‌ برتری اور فتح کے کھوکھلے دعوؤں اور پروپیگنڈے پر مبنی ایک قصّہ شاہد احمد دہلوی نے کچھ یوں بیان کیا ہے:

    "1965ء میں کئی گنا زیادہ فوج اور بھاری اسلحے کے زعم میں پاکستان کی سرحدوں کو روند کر قابض ہونے کا خواب دیکھنے والے بھارت کو جب ناکامی کا سامنا کرنا پڑا تو اس نے دنیا اور اپنے عوام کے سامنے جھوٹ اور پروپیگنڈے کا سہارا لیا۔ اس حوالے سے یہ واقعہ تاریخ کا حصّہ ہے۔”

    "6 ستمبر سے 23 ستمبر تک ہوائی حملوں کی وجہ سے پورے پاکستان میں بلیک آؤٹ رہا۔ حکومت کو اس سلسلے میں کسی قسم کی زحمت نہ کرنا پڑی۔ پبلک کو خود اپنی ذمہ داری کا اتنا احساس تھا کہ رات کے وقت کسی ایک گھر سے بھی روشنی کی کرن تک دکھائی نہیں دیتی تھی۔”

    "محلّے والے ٹولیاں بنا کر گشت کرتے تھے تاکہ محلّے کی بھی حفاظت رہے۔ کراچی پر کئی رات بھارت کے طیّارے آئے اور اپنی دانست میں بم بھی گراتے رہے مگر معلوم ہوا کہ یا تو بم چلے نہیں یا سمندر میں گرتے رہے۔ دو چار شل البتہ آبادی پر گرے مگر کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔ مگر بھارت نے بڑے فخر سے اعلان کیا کہ لالو کھیت کا ہوائی اڈّہ اور تین ہٹی کا پل برباد کر دیا گیا۔ حالاں کہ لالو کھیت میں کوئی ہوائی اڈّہ نہیں ہے اور ایک برساتی نالے پر تین ہٹّی کی پلیا ہے۔”

    "بھارت کے محکمہ اطلاعات نے ایک فرضی فلم بھی کراچی کی تباہی کی بنا لی جس میں دکھایا ہے کہ جہاں پہلے کراچی آباد تھا اب وہاں سمندر موجیں مار رہا ہے۔ بھارت کے پروپیگنڈے کا اصول یہ ہے کہ بمرگش بگیر تابہ تپ راضی شود۔”

    "اتنا بڑا جھوٹ بولو کہ اسے گھٹاتے گھٹاتے بھی کچھ نہ کچھ باقی رہ جائے۔”

  • جنگِ ستمبر: جب بھارت نے کراچی کی تباہی کی فرضی فلم بنائی!

    جنگِ ستمبر: جب بھارت نے کراچی کی تباہی کی فرضی فلم بنائی!

    1965ء میں کئی گنا زیادہ فوج اور بھاری اسلحے کے زعم میں پاکستان کی سرحدوں کو روند کر قابض ہونے کا خواب دیکھنے والے بھارت کو جب ناکامی کا سامنا کرنا پڑا تو اس نے دنیا اور اپنے عوام کے سامنے جھوٹ اور پروپیگنڈے کا سہارا لیا۔ اس حوالے سے یہ واقعہ تاریخ کا حصّہ ہے۔

    6 ستمبر سے 23 ستمبر تک ہوائی حملوں کی وجہ سے پورے پاکستان میں بلیک آؤٹ رہا۔ حکومت کو اس سلسلے میں کسی قسم کی زحمت نہ کرنا پڑی۔ پبلک کو خود اپنی ذمہ داری کا اتنا احساس تھا کہ رات کے وقت کسی ایک گھر سے بھی روشنی کی کرن تک دکھائی نہیں دیتی تھی۔

    محلّے والے ٹولیاں بنا کر گشت کرتے تھے تاکہ محلّے کی بھی حفاظت رہے۔ کراچی پر کئی رات بھارت کے طیّارے آئے اور اپنی دانست میں بم بھی گراتے رہے مگر معلوم ہوا کہ یا تو بم چلے نہیں یا سمندر میں گرتے رہے۔ دو چار شل البتہ آبادی پر گرے مگر کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔ مگر بھارت نے بڑے فخر سے اعلان کیا کہ لالو کھیت کا ہوائی اڈہ اور تین ہٹی کا پل برباد کر دیا گیا۔ حالاں کہ لالو کھیت میں کوئی ہوائی اڈّہ نہیں ہے اور ایک برساتی نالے پر تین ہٹّی کی پلیا ہے۔

    بھارت کے محکمہ اطلاعات نے ایک فرضی فلم بھی کراچی کی تباہی کی بنا لی جس میں دکھایا ہے کہ جہاں پہلے کراچی آباد تھا اب وہاں سمندر موجیں مار رہا ہے۔ بھارت کے پروپیگنڈے کا اصول یہ ہے کہ بمرگش بگیر تابہ تپ راضی شود۔

    اتنا بڑا جھوٹ بولو کہ اسے گھٹاتے گھٹاتے بھی کچھ نہ کچھ باقی رہ جائے۔

    (انشا پرداز اور نام ور ادیب شاہد احمد دہلوی کے مضمون سے اقتباس)

  • جنگِ ستمبر: جب پاکستانی خواتین نے رائفل اور پستول چلانا سیکھا

    جنگِ ستمبر: جب پاکستانی خواتین نے رائفل اور پستول چلانا سیکھا

    پاکستانی خواتین جنگ کے زمانے میں اس قدر چاق و چوبند ہوگئیں کہ رفاہِ عام کے کاموں کے علاوہ انھوں نے شہری دفاع کی ٹریننگ لی، فوری امداد کی تربیت حاصل کی۔

    رائفل اور پستول چلانے کی مشق کی۔ زخمیوں کی مرہم پٹّی کرنی سیکھی۔ نرسنگ کے لیے اسپتالوں میں جانے لگیں۔ ہر لڑکی اور عورت کے ہاتھ میں سلائیاں اور اُون نظر آنے لگا۔ فوجی بھائیوں کے لیے انھوں نے کئی کئی سوئیٹر اور موزے بُنے۔

    اُن کے لیے چندہ جمع کیا۔ تحفے اکٹھے کر کے بھیجے۔ یہ بھی ایک معجزہ ہے کہ پاکستانی خواتین مردوں کے دوش بہ دوش کام کرنے لگیں۔

    انھوں نے اپنا بناؤ سنگھار چھوڑ دیا۔ آرائش کی چیزیں خریدنی چھوڑ دیں اور جو بچت اس طرح ہوئی اسے دفاعی فنڈ میں دے دیا۔ مینا بازار سجائے گئے اور زنانہ مشاعرے کیے گئے۔ زنانہ کالجوں میں ڈرامے کیے گئے اور ان کی آمدنی کشمیر کے مہاجروں کے لیے بھیجی گئی۔

    (نام ور ادیب شاہد احمد دہلوی کے جنگِ ستمبر کے تذکرے پر مبنی تحریر سے انتخاب)

  • یومِ دفاع: جنگی ترانے اور ملّی نغمات کے بول دشمن پر تازیانے کی طرح برسے

    یومِ دفاع: جنگی ترانے اور ملّی نغمات کے بول دشمن پر تازیانے کی طرح برسے

    1965ء میں پاکستان کی افواج نے سرحدی محاذوں پر بھارت کے ناپاک عزائم کو خاک میں ملا کر جہاں دنیا سے اپنی طاقت اور شجاعت کا لوہا منوایا، وہیں پاکستانی شاعروں کے تخلیق کردہ جنگی ترانوں اور رزمیہ شاعری کی گونج اور قوم کی امنگوں اور جذبات کی ترجمانی کرتے ہوئے ملّی نغمات کے بول بھی سرحد پار ایوانوں میں بیٹھے ہوئے دشمن کے لیے کسی تازیانے سے کم نہ تھے۔

    ستمبر کی جنگ کے دوران پاکستانی شاعروں نے اپنے جذبۂ حبُ الوطنی کا جس طرح اظہار کیا وہ نہ صرف یہ کہ ایک قومی شعری سرمائے کے طور پر محفوظ ہوچکا ہے بلکہ مادرِ گیتی اور پاک فوج سے محبت کی ایک لازوال اور ناقابلِ فراموش یادگار ہے۔

    شعرا نے اپنے کلام سے جہاں فوجی جوانوں کا حوصلہ بڑھایا وہیں اس رزمیہ ادب نے قوم کے اندر جذبۂ آزادی کو مزید توانا کیا اور یہ شاعری قومی وحدت کی یادگار لڑی ثابت ہوئی۔ یہ چند اشعار دیکھیے جو جنگِ ستمبر اور بعد کے ادوار میں تخلیق کیے گئے۔

    لگاؤ نعرۂ تکبیر ہر چہ بادا باد
    مجاہدوں کو پہنچتی ہے غیب سے امداد
    (احسان دانش)

    تو وارث پاک اُجالوں کی
    تو دھرتی شیر جوانوں کی
    تری خوشبو کو چھلکائیں گے
    ترے پیار کی جُگنی گائیں گے
    (ضمیر جعفری)

    میری سرحد پہ پہرا ہے ایمان کا
    میرے شہروں پہ سایہ ہے قرآن کا
    میرا ایک اک سپاہی ہے خیبر شکن
    چاند میری زمیں، پھول میرا وطن
    (ساقی جاوید)

    سرفروشی ہے ایماں تمہارا
    جرأتوں کے پرستار ہو تم
    جو حفاظت کرے سرحدوں کی
    وہ فلک بوس دیوار ہو تم
    (جمیل الدّین عالی)

    اپنی جاں نذر کروں اپنی وفا پیش کروں
    قوم کے مردِ مجاہد تجھے کیا پیش کروں
    (مسرور انور)

    ہمارا پرچم یہ پیارا پرچم
    یہ پرچموں میں عظیم پرچم
    (سیف زلفی)

    اردو میں جذبۂ قومیت کے اشتراک سے قومی شاعری کو ایک الگ صنفِ ادب کے طور پر متعارف کرانے والے اہم قومی شعرا صبا اکبر آبادی، طفیل ہوشیار پوری، سید ضمیر جعفری، کرم حیدری، کلیم عثمانی، مشیر کاظمی، کیف بنارسی، ساقی جاوید، جمیل الدین عالی، تنویر نقوی، حمایت علی شاعر، رئیس امروہوی، احمدندیم قاسمی، منیر نیازی، ریاض الرحمن ساغر اور کئی شعرا شامل ہیں۔ پاکستان کی آزاد فضاؤں میں ان شعرا کے ترانے اور ملّی نغمات کی گونج ہمیشہ سنائی دیتی رہے گی۔

  • 6 ستمبر: لاہور کے لڑکے اور لڑکیاں‌ بھی دَم کے دَم میں شالیمار پہنچ گئے

    6 ستمبر: لاہور کے لڑکے اور لڑکیاں‌ بھی دَم کے دَم میں شالیمار پہنچ گئے

    پاکستان سے چھے گنی فوجی طاقت اور چار گنی آبادی کے زعم میں بھارت نے پاکستان پر قبضہ کرنے کی ٹھان لی تھی، مگر یہ حق اور باطل کی لڑائی تھی۔ چراغِ مصطفوی سے شرارِ بولہبی کی ستیزہ کاری تھی۔

    نتیجہ آپ نے اور ہم نے بھی دیکھ لیا اور دنیا نے بھی۔ پاکستان کے لیے یہ جنگ ایک رحمت ثابت ہوئی۔ یہ ایک ایسا غیبی جھٹکا تھا جس نے اہلِ وطن کو متفق و متحد کر دیا اور پوری قوم میں ایک نئی لہر دوڑ گئی۔

    لاہور والوں نے تو کمال ہی کر دیا کہ دشمن کے ٹینک اور فوجیں شہر سے کوئی آٹھ میل کے فاصلے پر آگئیں تھیں اور ہماری فوجیں ان کے پرخچے اڑا رہی تھیں کہ شہر کے جیالے جو کچھ ہاتھ میں آیا، لے کر دشمن کو مارنے گھر سے نکل پڑے۔ ان کے پیچھے لڑکیاں اور عورتیں بھی چل پڑیں اور سب کے سب دم کے دم میں شالیمار پہنچ گئے۔

    ہماری فوجوں کے پچھلے دستوں نے انھیں روکا۔ ورنہ حیدرآباد کے رضا کاروں کی طرح یہ سب بھی ٹینکوں کے آگے لیٹ جاتے اور دشمن کو للکارتے کہ جب تک ہم زندہ ہیں تو ہمارے شہر میں داخل نہیں ہوسکتا۔ پہلے تجھے ہماری لاشوں پر گزرنا پڑے گا، مگر اس کی نوبت نہ آئی۔

    ہماری فوجوں نے بڑی مشکل سے انھیں سمجھا بجھا کے واپس کیا کہ آپ شہر کا انتظام کیجیے، یہاں ہمیں دشمن سے نمٹنے دیجیے۔ آپ پر آنچ اس وقت آئے گی جب ہم نہ ہوں گے۔ اس پر بھی جوشیلے نوجوانوں نے واپس جانے سے انکار کر دیا اور محاذ پر رسد بھیجنے میں‌ فوجیوں کا ہاتھ بٹاتے رہے۔

    (از شاہد احمد دہلوی)

  • جنگِ ستمبر: کراچی کا لالو کھیت، تین ہٹّی کی پُلیا اور بھارت کا جھوٹ

    جنگِ ستمبر: کراچی کا لالو کھیت، تین ہٹّی کی پُلیا اور بھارت کا جھوٹ

    6 ستمبر سے 23 ستمبر تک ہوائی حملوں کی وجہ سے پورے پاکستان میں بلیک آؤٹ رہا۔ حکومت کو اس سلسلے میں کسی قسم کی زحمت نہ کرنا پڑی۔ پبلک کو خود اپنی ذمہ داری کا اتنا احساس تھا کہ رات کے وقت کسی ایک گھر سے بھی روشنی کی کرن تک دکھائی نہیں دیتی تھی۔

    محلّے والے ٹولیاں بنا کر گشت کرتے تھے تاکہ محلّے کی بھی حفاظت رہے۔ کراچی پر کئی رات بھارت کے طیّارے آئے اور اپنی دانست میں بم بھی گراتے رہے مگر معلوم ہوا کہ یا تو بم چلے نہیں یا سمندر میں گرتے رہے۔ دو چار شل البتہ آبادی پر گرے مگر کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔ مگر بھارت نے بڑے فخر سے اعلان کیا کہ لالو کھیت کا ہوائی اڈہ اور تین ہٹی کا پل برباد کر دیا گیا۔ حالاں کہ لالو کھیت میں کوئی ہوائی اڈّہ نہیں ہے اور ایک برساتی نالے پر تین ہٹّی کی پلیا ہے۔

    بھارت کے محکمہ اطلاعات نے ایک فرضی فلم بھی کراچی کی تباہی کی بنا لی جس میں دکھایا ہے کہ جہاں پہلے کراچی آباد تھا اب وہاں سمندر موجیں مار رہا ہے۔ بھارت کے پروپیگنڈے کا اصول یہ ہے کہ بمرگش بگیر تابہ تپ راضی شود۔

    اتنا بڑا جھوٹ بولو کہ اسے گھٹاتے گھٹاتے بھی کچھ نہ کچھ باقی رہ جائے۔

    (اردو کے نام ور ادیب، انشا پرداز اور سوانح و تذکرہ نگار شاہد احمد دہلوی مرحوم کے قلم سے، یہ واقعات انھوں نے 1966ء میں بھارت کی جنگ میں شکست کے ایک سال بعد رقم کیے تھے)

  • یوم دفاع: "سارا بھارت یقیناًَ گوش بَر آواز ہو گا”

    یوم دفاع: "سارا بھارت یقیناًَ گوش بَر آواز ہو گا”

    ریڈیو سنو ممکن ہے کوئی اہم اعلان ہو!

    ریڈیو پاکستان گرجا۔ صدر ایوب آج دن کے گیارہ بجے قوم سے خطاب کریں گے۔

    سارا لاہور گوش بر آواز ہوگیا۔ سارا پاکستان گوش بر آواز ہوگیا۔

    سارا بھارت یقیناًَ گوش بر آواز ہو گا۔

    اور صد ایوب کی آواز فضائے بسیط میں گونجی۔

    بھارت کو معلوم نہیں اس نے کس قوم کو للکارا ہے۔ حالات نے دشمن سے مقابلے کے لیے لاہور کے بہادروں کا سب سے پہلے انتخاب کیا ہے۔ تاریخ ان جواں مردوں کے کارنامے اس عبارت کے ساتھ زندہ رکھے گی کہ یہی لوگ تھے جنھوں نے دشمن کی تباہی کے لیے آخری ضرب لگائی۔

    لاہور کا سَر فخر سے بلند ہوگیا۔ لاہور کا ہر شہری یہ محسوس کرنے لگا جیسے صرف لاہور ہی نہیں سارے پاکستان کی حفاظت اس کے کاندھوں پر آن پڑی ہے۔ کیوں نہ ہو لاہور کو پاکستان کا دل کہا جاتا ہے اور جب تک دل میں دھڑکن باقی ہے زندگی ہے تابندگی ہے۔

    نہ لاہور کا دل ڈوبا نہ لاہور کی نبضیں چھوٹیں۔ صدر کے گراں قدر الفاظ نے لاہور کی رگوں میں تازہ خون کی لہر دوڑا دی۔ لاہور کمر کس کے تیار ہو گیا۔ سارا پاکستان دشمن کی توپوں کے دہانے سرد کرنے کے لیے چوکس ہوگیا۔

    دیکھتے ہی دیکھتے سارے شہر میں ایک نیا جذبہ پیدا ہو گیا۔ جذبہ ایثار۔ بچّہ ہو کہ بوڑھا امیر ہو کہ غریب۔ اعلی افسر ہو کہ ادنیٰ ملازم۔ امیر کبیر تاجر ہو کہ چھابڑی والا۔ ہر ایک اپنے وطن کی حفاظت کے لیے اپنی عزیز شے قربان کرنے لگا۔

    صدر نے قومی دفاعی فنڈ کا اعلان کیا تو ہر طرف سے روپوں کی بارش ہونے لگی۔

    آدم جی نے لاکھوں روپے دے کر یہ اعلان کیا کہ یہ تو محض پہلی قسط ہے۔

    اسکول کے دو ننّھے بچے نیشنل بینک کے باہر بینک کھلنے کا انتظار کرنے لگے۔ ان کی مٹھیاں بند تھیں۔ بینک کھلنے پر انھوں نے خزانچی کے پاس جاکر ٹیڈی پیسوں کے ڈھیر لگا دیے اور کہنے لگے۔ یہ ہمارے جیب خرچ کے پیسے ہیں مگر ہم نے ان پر کلمہ طیبہ پڑھا ہے۔ اسے اپنے پیسوں میں ملا لیجیے بڑی برکت ہوگی۔

    (حبیب اللہ اوج کے قلم سے جنھوں نے 1966ء میں جنگ کے حوالے سے اپنی یادیں رقم کی تھیں)

  • جنگِ‌ ستمبر: بھارت کو سبق سکھانے کے لیے ہاکی اور کلہاڑی تھامے ہر شہری نے بارڈر کا رخ کیا

    جنگِ‌ ستمبر: بھارت کو سبق سکھانے کے لیے ہاکی اور کلہاڑی تھامے ہر شہری نے بارڈر کا رخ کیا

    ستمبر 1965ء کی جنگ نے قومی یکجہتی اور پاک فوج کے ساتھ عوام کا والہانہ پیار اور گہرے و قلبی تعلق کو جس طرح تازہ کیا اور مزید مضبوط بنایا، اس کی مثال کم ہی اقوام میں دیکھنے کو ملتی ہے۔

    دورانِ جنگ ایک جانب پاکستان کے شیر دل جوانوں نے جذبہ شہادت سر سرشار ہو کر جس طرح مختلف محاذوں پر اپنی پیشہ ورانہ تربیت اور جنگی ساز و سامان کے استعمال میں اپنی مہارت کا عملی مظاہرہ کیا، وہ ہماری عسکری تاریخ کا ایک شان دار باب ہے اور دوسری طرف جوش و ولولہ اور جذبہ ایمانی سے معمور پاکستانی عوام تھے جو بلیک آؤٹ کے دوران یا کسی بھی موقع پر اپنے گھروں اور تہ خانوں میں‌ محفوظ رہنے کے بجائے ہر محاذ پر اپنی فوج کے شانہ بشانہ لڑنے کے لیے تیّار نظر آئے۔

    ایک جگہ قدرت ﷲ شہاب یوں رقم طراز ہیں: ’’بھارتی حملے کو روکنے اور پسپا کرنے کا سہرا ائیر فورس، فوجی جوانوں اور افسروں کے سَر ہے جنھوں نے سر دھڑ کی بازی لگا کر حیرت انگیز جواں مردی دکھائی اور بعضوں نے وطنِ عزیز کے دفاع میں جامِ شہادت نوش کیا۔‘‘

    یہ وہ موقع تھا جب پوری قوم یک جان و یک قالب ہوگئی۔ قوم نے جذبۂ حب الوطنی کی سرشاری میں قومی یک جہتی کے ایسے نقش اُبھارے کہ تاریخ اس کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے۔

    پوری قوم نے اپنے باوقار وجود کا احساس اس شان سے دیا کہ رات کی تاریکی میں شب خون مارنے والوں کو جان بچانا مشکل ہوگئی۔ شجاعت و عزم کے نئے باب کا اضافہ ہوا۔ قومی غیرت اور جذبہ حریت کی تازہ داستانیں رقم ہوئیں۔

    جنگِ ستمبر کے دوران پوری قوم کا ایک ہی نعرہ تھا کہ دشمن نے ہم پر جنگ مسلط کی ہے۔ ہم اسے سبق سکھائیں گے۔ فضائی حملوں کے دوران پور لاہور بلیک آؤٹ میں ڈوب جاتا تو لاہوری اپنے گھروں کی چھتوں پر کھڑے ہو کر ’’فائٹ‘‘ دیکھتے۔ اور اپنے پائلٹوں کو باقاعدہ داد دیتے۔ انھیں اس بات کا کوئی خوف نہیں ہوتا تھا کہ وہ حملوں کی زد میں بھی آ سکتے ہیں۔

    فائٹ کا نظارہ میں نے ایک مرتبہ خود اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ کس طرح آگے بھارتی طیارے اور ان کے پیچھے ہمارے جہاز ہوتے۔ لوگ سڑکوں پر دشمنوں کے جہازوں کو نشانہ بنانے کے لیے بلند نعرے لگاتے۔

    عوام کے جذبات کا اندازہ آپ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ ہر شہری کا رخ بارڈر کی طرف ہوتا۔ ان میں سے کوئی ہاکی اور کلہاڑی اٹھائے تو کوئی اپنے فوجی بھائیوں کے لیے کھانا اور دیگر اشیا لے کر بارڈر کی طرف جا رہا ہوتا۔ یہ کیسا جذبہ تھا ہمارے ملّی نغمے ہتھیار کا کام کر رہے تھے۔ ہمارے فوجی جوان ان کو سن کر بہادری اور دلیری سے لڑتے، یقیناً فوج اور عوام کا ساتھ بہت کام آتا ہے۔

    (قومی یکجہتی اور جنگ ستمبر سے اقتباسات)