Tag: یوم دفاع سیریز

  • جنگِ ستمبر: پاکستانی بچّہ جو قومی رضا کار بھرتی ہونے کے لیے دفتر پہنچ گیا

    جنگِ ستمبر: پاکستانی بچّہ جو قومی رضا کار بھرتی ہونے کے لیے دفتر پہنچ گیا

    صدر ایوب نے اپنی تقریر میں کہا: ’’ہندوستان کے حکم ران شاید یہ نہیں جانتے کہ انھوں نے کس قوم کو للکارا ہے…‘‘

    جب صدر کی تقریر ختم ہوئی تو ہم نعرہ تکبیر، پاک فوج زندہ باد، پاکستان پائندہ باد کے نعرے لگاتے محلّے کے چھوٹے سے بازار میں چھوٹا سا جلوس لے کر چل پڑے۔

    دکان داروں نے ہمیں دیکھا تو وہ بھی کھڑے ہو کر ہمارے نعروں کا جواب دینے لگے۔ ایسے چھوٹے چھوٹے جلوس اور نعرے بازی ہمارا معمول بن گیا تھا۔ دن بھر ریڈیوپر قومی و ملّی نغمے، شام کو فوجی بھائیوں کے لیے خصوصی پروگرام سنا کرتے۔

    پاک فضائیہ کے پاس بھارت کے جدید طیاروں کے برعکس سیبر طیارے تھے۔ ریڈیو نے بتایا کہ پاک فضائیہ نے وطن کے دفاع کے لیے وہ کار ہائے نمایاں انجام دیے کہ قوم کا جذبۂ حُب الوطنی اور جذبۂ ایمانی فوج کی طاقت بن گیا۔ پاکستان کے فلائٹ لیفٹیننٹ یونس حسن شہید اور ایم ایم عالم کا واقعہ بھی عالمی ریکارڈ ہے۔

    ایک روز جب بھائی خاکی وردی میں ملبوس سر پر ہری ٹوپی پہنے گھر میں داخل ہوا تو اس نے بتایا کہ اسے شہری دفاع میں رضا کار کے طور پر بھرتی کرلیا گیا ہے۔

    جب بلیک آؤٹ ہوا کرتا تو یہ رضا کار لوگوں کے گھروں کی بتیاں بند کروایا کرتے تھے۔ اس کے علاوہ یہ رضا کار محاذ تک استعمال کی اشیا اور سامانِ خور و نوش کی رسد کا فریضہ بھی ادا کرنے پر مامور تھے۔ مگر ہمارا معمول تھا کہ جب بھی سائرن بجتے چھتوں پر چڑھ جاتے اور فضائے نیلگوں میں پاکستانی طیاروں کی بھارتی طیاروں پر جھپٹ پلٹ کا نظارا کرتے۔

    گھر والے روکتے، سول ڈیفنس والے بھی دروازے پر دستک دیتے، تنبیہ کرتے مگر ہم کہاں ٹلتے۔ خوف سے کھیلنا ہمارا مشغلہ بن گیا تھا۔ ہمارے گھر کے قریب ہی سول ڈیفنس کا علاقائی دفتر تھا جہاں تمام رضا کار جمع ہوتے اور انھیں ان کی ذمہ داریاں دی جاتیں۔

    ایک دن بھائی کو بتائے بغیر میں بھی سول ڈیفنس کے دفتر پہنچ گیا جہاں پر رضا کاروں کے ساتھ ساتھ ان کے انچارج بھی موجود تھے۔ میں نے کہا کہ میں بھی رضا کار بننا چاہتا ہوں۔ دشمن کو پتا نہیں اس نے کس قوم پر حملہ کیا ہے۔ میں نے بڑے جذباتی انداز میں تقریر شروع کر دی۔ سب سنتے رہے۔ آخر ان کے افسر میرے پاس آئے میرے سَر پر ہاتھ پھیرا۔ میں نے دیکھا ان کی آنکھوں میں آنسو تھے۔

    انھوں نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا: خدا کی قسم! جس قوم کے بچّوں میں وطن کی محبّت کا یہ جذبہ ہو اسے دنیا کی کوئی طاقت شکست نہیں دے سکتی۔ اس کے بعد انھوں نے مجھے کہا۔ بیٹا تم ابھی بہت چھوٹے ہو۔ تم اپنی پڑھائی پر دھیان دو، اپنے والدین کا کہا مانو، ہمسایوں سے اچھا سلوک کرو، تمہارا یہی فرض ہے، یہی جہاد ہے اور وطن سے محبّت کا یہی طریقہ ہے۔ تم سمجھو کہ تم بھی پاک فوج کے شانہ بشانہ لڑرہے ہو۔

    وحدت کالونی کی سڑک ان دنوں بہت چھوٹی سی تھی جو ملتان روڈ کو فیروز پور روڈ سے ملاتی تھی۔ ہم سڑک پر کھڑے ہو کر منتظر رہتے کہ کب فوجی گاڑی یہاں سے گزرے۔ دور سے آتی ہوئی گاڑی کو دیکھ کر ہم اپنے دوسرے ساتھیوں کو آوازیں دے کر بلاتے اور بتاتے کہ گاڑی آرہی ہے اور وہ دوسرے لڑکوں کو بتاتے اور سب سڑک کے کنارے آکر کھڑ ے ہو جاتے۔

    فوجیوں کو ہاتھ ہلا کر سلام کرتے، پاک فوج زندہ باد کے نعرے لگاتے۔کبھی کبھار کوئی گاڑی ایک پل کے لیے رکتی، ہم بھاگم بھاگ سپاہیوں سے ہاتھ ملاتے۔ سپاہی ہمارے گال تھپتھپاتے اور نعروں کی گونج میں چل دیتے۔

    خبروں میں سب سے زیادہ جن محاذوں کے نام سنے، ان میں واہگہ، چھمب جوڑیاں، کھیم کرن، گنڈا سنگھ والا کے نام مجھے یاد رہ گئے۔ آج بھی جب ان شہروں اور علاقوں کے نام سنتا ہوں تو جنگِ ستمبر 65 ء کی یاد تازہ ہو جاتی ہے۔

    (محمد ظہیر بدر کے مضمون پینسٹھ اور قومی زندہ دلی سے اقتباسات)

  • جنگِ‌ ستمبر: بی آر بی نہر پر پہنچ کر ہزاروں شہریوں نے پاک فوج کو اپنی خدمات پیش کردیں

    جنگِ‌ ستمبر: بی آر بی نہر پر پہنچ کر ہزاروں شہریوں نے پاک فوج کو اپنی خدمات پیش کردیں

    لاہور اور سیالکوٹ کے محاذوں پر بھارت کی اچانک اور بزدلانہ کارروائی پر پاکستان نے سرحدوں کا دفاع کرنے کے ساتھ بھارت کا یہ غرور اور گھمنڈ بھی خاک میں ملا دیا کہ اس کے پاس جنگی ساز و سامان اور فوج ہم سے زیادہ ہے۔ جب دونوں ملکوں کے درمیان جنگ ختم ہوئی تو دنیا کو معلوم ہوگیا کہ جنگ صرف دلیری و شجاعت اور حکمتِ عملی سے جیتی جاتی ہے۔

    ستمبر 1965ء کی پاک بھارت جنگ میں لاہور اور سیالکوٹ کا دفاع ہماری قومی اور عسکری تاریخ کا ایک سنہرا باب ہے۔ یہ وہ جنگ تھی جس میں پاکستانی فوج اور عوام نے اکٹھے ہو کر وطن کا دفاع کیا۔

    جنگِ ستمبر اس لیے بھی ہماری بڑی فتح تھی کہ دشمن نے مکمل تیّاری اور منصوبہ بندی کے تحت باقاعدہ افواج اور بھاری اسلحہ کے ساتھ اچانک حملہ کیا تھا، جب کہ پاکستان اس جنگ کے لیے بالکل تیّار نہیں تھا۔

    بھارت نے پاکستان کی شہری آبادی پر ٹینک بردار دستوں سے حملہ کیا تھا۔ واہگہ کے محاذ سے بھارتی ٹینک نہر کے پُل تک پہنچ گئے اور راستے میں آبادیوں پر قبضہ کرلیا۔ بزدل دشمن نے حملہ نصف شب کو کیا تھا۔ زیادہ تر لوگ سو رہے تھے۔ بھارتیوں نے پراپیگنڈہ کیا کہ وہ لاہور پر قبضہ کر چکے ہیں جب کہ سرحدوں پر موجود چند فوجیوں نے جان پر کھیلتے ہوئے پل توڑ دیا۔ اس پر بھارتی فوج متبادل انتظام کر کے مزید ٹینکوں کو نہر پار پہنچانے کی تیّاری کر رہی تھی کہ مزید جوان محاذ پر پہنچ گئے اور بھارتی ٹینکوں کی پیش قدمی روک کر لاہور شہر کے دفاع کا پہلا مورچہ بنا لیا۔

    لاہور میں جنگ کی دل چسپ کہانیاں سننے میں آئیں۔ مثلاً جب شہر پر بھارتی طیارے پرواز کرتے تو عوام سائرن سن کر گلیوں اور چھتوں پر نکل آتے۔ ہر چند یہ خطرے کی بات تھی لیکن عوام کا جوش و خروش اتنا تھا کہ وہ موت کے خوف سے آزاد ہو چکے تھے۔ شہر میں سے فوجیوں کا گزرنا ایک جشن کی طرح ہوتا۔ لوگ ان پر پھول پھینکتے۔ چھتوں پر کھڑی خواتین ہاتھ اُٹھا اُٹھا کر دعائیں کرتیں اور انھیں تحائف پیش کیے جاتے۔ بے شمار شہری بی آر بی نہر کے محاذ پر پہنچ گئے اور فوج کو اپنی خدمات پیش کر دیں۔ جہاں دونوں ملکوں کی فوجیں آمنے سامنے تھیں۔

    پاکستان کے دل لاہور اور تمام شہروں اور آزاد کشمیر میں عوام کے حوصلے بے حد بلند تھے۔ خصوصاً فوج اور عوام کے درمیان محبت اور باہمی احترام کا جو جذبہ 65ء کی جنگ میں پیدا ہوا تھا، وہ عدیم النّظیر اور ناقابلِ‌ فراموش ہے۔

  • 6 ستمبر: ہر فرد نے اپنے گرد حبُ الوطنی کا حصار کھینچ لیا تھا

    6 ستمبر: ہر فرد نے اپنے گرد حبُ الوطنی کا حصار کھینچ لیا تھا

    تاریخِ عالم گواہ ہے کہ 1965ء کی جنگ میں بھارت کی ایک لاکھ فوج کو 60 ہزار پاکستانی جوانوں پر مشتمل فوج نے شکست دی تھی اور بھارت کو یہ سبق دیا تھا کہ سامانِ حرب کی فراوانی اور میدانَ‌ جنگ میں عددی برتری فتح کی ضمانت نہیں‌ بلکہ زورِ بازو پر بھروسا، ہمّت و جذبہ، جوہرِ شجاعت اور یقین و ایمانِ کامل کے ساتھ سرحدوں کا دفاع کیا جاتا ہے جس سے وہ محروم ہے۔

    ہر سال 6 ستمبر کو ہم یومِ دفاعِ پاکستان بڑے جوش و جذبے سے مناتے ہوئے اپنے فوجی جوانوں کی دلیری، شجاعت اور جنگ میں ان کی قربانیوں کی یاد تازہ کرتے ہیں۔

    6 ستمبر ایک ایسا دن اور تاریخ ہے جس کا ہر لمحہ، ہر ساعت اپنی علیحدہ شناخت رکھتی ہے۔ یہی تو وہ دن ہے جب زندگی کا ہر شعبہ، ہر گوشہ اتحاد، یکجہتی اور یگانگت کی علامت بن گیا۔ سیاسی اختلافات طاقِ نسیاں پر رکھ دیے گئے۔ سارے دائیں بائیں بازو ایک دوسرے کا دست و بازو بن گئے۔ دینی راہ نما ایک صف میں کھڑے نظر آئے۔ شاعروں نے اپنے فن کے جوہر دکھائے۔ گانے والوں نے اپنی آواز کا جادو جگایا۔ اُفق تا بہ اُفق ہم نظری کے منظر ابھرے۔

    آئیے ہم بتاتے ہیں کہ جنگ کا آغاز کب ہوا اور جارحیت کا ارتکاب کرنے والے بھارت کو کتنی ہزیمت اٹھانا پڑی۔

    وہ عجیب دن تھا۔ ہر فرد ملّت کے مقدّر کا ستارہ بن گیا تھا۔ کیا تاجر، کیا صنعت کار، کیا پنساری، کیا پٹواری، کیا قصاب ایک ایک فرد نے اپنے گرد حبُ الوطنی کا حصار کھینچ لیا تھا۔

    جنگِ ستمبر1965ء کا سبب بھی بھارت کے زیرِ تسلط مقبوضہ کشمیر تنازع تھا۔ تقسیمِ ہند کے بعد ہی سے بھارت نے بین الاقوامی برادری کے سامنے وادی سے متعلق اپنے وعدوں کی خلاف ورزی کا سلسلہ شروع کردیا تھا۔ بھارتی حکومت کی جانب سے مسلسل ایسے اقدامات کیے جارہے تھے جو بین الاقوامی سطح پر اس کی متنازع حیثیت کے بالکل برعکس تھے۔

    کشمیر میں استصواب رائے کا وعدہ تو دوسری جانب مقبوضہ کشمیر کو بھارت کے وفاقی ڈھانچے میں شامل کرکے اپنا اٹوٹ انگ قرار دینا عالمی دنیا کی نظر میں بھی کھلی بدمعاشی اور متنازع حیثیت کے یکسر خلاف اقدامات تھے جب کہ اس کے بعد رن آف کچھ میں پاکستانی علاقے پر بھارت کی جانب سے حملہ نے پاکستان کو جوابی ردِ عمل ظاہر کرنے پر مجبور کردیا تھا۔ پاکستان ہمیشہ سے اس بات کا اعلان کرتا رہا کہ وہ مسئلہ کشمیر کا پرامن اور منصفانہ حل چاہتا ہے اور عالمی برادری کے سامنے کشمیر کے مسلمانوں کی‌ خواہش کے مطابق ان کے حق کے لیے آواز اٹھا رہا ہے، جب کہ بھارت وادی کشمیر پر اپنا قبضہ برقرار رکھنے اور اپنا اثر رسوخ بڑھانے کے لیے نہ صرف عالمی سطح پر ہونے والے معاہدوں کی خلاف ورزی کررہی تھی بلکہ اس نے مقبوضہ وادی میں ظلم و ستم اور بربریت کا سلسلہ بھی شروع کررکھا تھا۔

    21 فروری 1965ء کو بھارت نے رن آف کچھ میں ایک بہت پرانے قلعے پر موجود پاک فوج کو یہاں سے نکال کر اس پر قبضہ کرنا چاہا تو پاکستان سے یہ پنجہ آزمائی مہنگی پڑی اور اس دوران منہ کی کھانے کے بعد بھارت نے اپنی اس شکست کا بدلہ لینے کے لیے جنگ چھیڑ دی۔

    6 ستمبر 1965ء کو بزدل بھارتی فوج رات کی تاریکی میں للکارے بغیر ہماری سرحدوں کو پامال کرتے ہوئے علاقوں کو فتخ کرنے کا خواب لے کر حملہ آور ہوئی۔ میجر جنرل نرنجن پرشاد کی قیادت میں ٹینکوں کے 25 ویں ڈویژن اور توپ خانے کی مدد سے لاہور پر 3 اطراف سے حملہ کیا گیا تھا جس پر پاک فوج کے جاں بازوں نے مادرِ گیتی پر اپنی جانیں نثار کرنے کا عہد کیا اور سرحدوں پر ڈٹ گئے۔ اس جنگ میں بھارتی فوج بھاری جنگی ساز و سامان چھوڑ کر بھاگنے پر مجبور ہوگئی۔