Tag: یوم نکبہ

  • فلسطین:‌ انگلیاں فگار اپنی، خامہ خونچکاں اپنا

    فلسطین:‌ انگلیاں فگار اپنی، خامہ خونچکاں اپنا

    مومنہ طارق

    ہم آزاد تھے، آزاد فضا میں سانس لیتے اور رکوع و سجود کرتے تھے۔ ہمارے بچّے بے خوف ہو کر گلیوں میں کھیلتے تھے اور ہماری ماؤں، بہنوں کی عزت محفوظ تھی۔ ہمارے جوان آنکھوں میں خواب سجاتے تھے۔ اچانک 1948 میں ہم تقریباً ساڑھے سات لاکھ باسیوں کو اپنا گھر بار چھوڑنا پڑا اور دنیا ہماری بے بسی کا تماشا دیکھتی رہی۔ آج 76 سال ہوگئے دنیا خاموش ہے۔ سانحہ تو یہ کہ اپنوں نے بھی آنکھیں بند کر رکھی ہیں بلکہ ہمیں سہارا دینے کے بجائے ہمارے گھروں کو گرانے والوں کے پیچھے چھپ گئے ہیں۔ ہم اپنی زمین پر بے گھر اور مارے مارے پھر رہے ہیں۔ ہمارے پاس مسکرانے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔ ہماری فریاد سننے والا کوئی نہیں ہے۔

    پچھلے سال 7 اکتوبر کا سورج طلوع ہوا تو جس ظلم و ستم اور بربادی کا آغاز کیا گیا، لگتا تھا کہ اب روئے زمین پر فلسطینیوں کا نام و نشان باقی نہیں رہے گا اور اس مشن کو آگے بڑھاتے ہوئے اسرائیل کو 243 دن ہوگئے ہیں۔ کانوں میں گولیوں اور بموں کی آواز گونجتی ہے، فضا میں بارود کی بُو اس قدر ہے کہ سانس لینا محال ہے۔ ہر طرف خون اور چیخ و پکار، آہ و فغاں سنائی دے رہی ہے۔ ارضِ فلسطین اب تک 37 ہزار سے زائد لاشیں سمیٹ چکی ہے۔ 90 ہزار سے زائد زخمی ان اسپتالوں میں پڑے ہیں جہاں ان کے جسم سے رستے ہوئے خون کو روکنے، زخموں کو سینے اور ان کی مرہم پٹی کرنے کے انتظامات نہیں ہیں، ان کو بچانے کی کوشش کرنے والے ڈاکٹر نہیں ہیں۔ اسپتال میں نہ تو طبّی آلات ہیں اور نہ ہی بجلی۔ زندگی گزارنے کے لیے کھانا تو دور کی بات بچّوں کو دو گھونٹ پانی تک میسر نہیں ہے اور وہ بھوک پیاس سے دم توڑ رہے ہیں۔ مگر مہذب معاشرے، انصاف کے پرچارک اور انسانی حقوق کے علم برداروں نے شاید اسی طرح اپنے ضمیر کو کہیں دفنا دیا ہے، جس طرح آج فلسطین کی مٹی میں لوگ اپنے پیاروں کو دفنا رہے ہیں۔

    حقیقت تو یہ ہے کہ اقوامِ متحدہ کہتا ہے کہ فلسطینیوں کو ان کا حق دینا ہو گا، مگر دنیا میں قیامِ امن کو یقینی بنانے اور انسانیت کا پرچم بلند رکھنے والے اس سب سے بڑے ادارے کو شاید خود بھی انصاف چاہیے کہ اس کے فیصلوں اور احکامات کو کم از کم سنا تو جائے۔ صرف 1967 سے 1988 تک 131 قرارداد فلسطین کے حق میں منظور ہوچکی ہیں مگر آج بھی غزہ اور رفاہ میں لاشیں بچھی ہوئی ہیں۔ دنیا تو ایک طرف مسلم ممالک بھی اس بدترین ظلم اور معصوم فلسطینیوں کے قتل پر خاموش ہے اور ‘الاقصی’ کی محبّت بھی انھیں فلسطین کے ساتھ کھڑا ہونے پر مجبور نہیں کرسکی ہے۔

    غزہ میں صیہونی دہشت گردی کے خلاف پہلی اٹھنے والی آواز کولمبیا یونیورسٹی کے طالبِ علموں کی تھی۔ یہ اسی سپر پاور امریکا کی ایک یونیورسٹی ہے جو کھل کر غزہ میں صیہونی فوج کے قتلِ عام کی حمایت کرتا ہے۔ اس کے بعد دنیا کے مختلف ممالک میں احتجاج شروع ہوا اور پاکستان کے طالبِ علم بھی جاگے۔ آج اسلام آباد کے ڈی چوک پر ان کے دھرنے کو 25 دن ہوچکے ہیں اور ان کا اپنی حکومت سے مطالبہ ہے کہ وہ فلسطین کے حق میں عالمی عدالتِ انصاف میں جنوبی افریقہ کی دائر کردہ غزہ درخواست میں فریق بنے، مگر حکومت ان پُرامن مظاہرین کی بات نہیں سن رہی۔ یہی نہیں بلکہ سابق سینیٹر مشتاق احمد اور ان کی اہلیہ جو پاکستان میں ”غزہ بچاؤ“ مہم کی قیادت کر رہے ہیں، ان کے خلاف متعدد ایف آئی آر کاٹ دی گئی ہیں۔ جب کہ جامعات کے چند طلبہ کا کہنا ہے کہ ان کو معطل کر دیا گیا ہے کیوں کہ وہ اس دھرنے میں شریک ہوئے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ہم متعدد بار اپنی جامعات کی انتظامیہ سے تحریری طور پر درخواست کر چکے ہیں کہ ہمیں اس مہم کا حصّہ بننے کی اجازت دی جائے اور جامعات اپنی حدود میں طلبہ پر اسرائیلی مصنوعات کے استعمال پر پابندی عائد کرے، مگر کوئی مثبت جواب نہیں دیا جا رہا۔ دوسری طرف فلسطینیوں کا درد رکھنے والے لاکھوں پاکستانیوں نے اسرائیلی مصنوعات کا مکمل بائیکاٹ کر کے صیہونی ریاست کے ظلم پر اپنا احتجاج ریکارڈ کروایا ہے جس کے اثرات واضح طور پر نظر آرہے ہیں۔

    داستانِ ارضِ فلسطین جب لکھی جائے گی تو بلاشبہ جہاں کولمبیا، ہاروڈ جیسی جامعات کا نام لیا جائے گا وہیں پاکستان کے غیرت مند اور باشعور عوام اور بالخصوص طلبہ میں غزہ کا درد جگانے والی قیادت کا نام بھی سرفہرست ہو گا۔ لیکن اس وقت تو سوال یہ ہے کہ انسانیت اور حق و انصاف کا نعرہ بلند کرنے والے ممالک کی حکومتیں اور بالخصوص امّتِ مسلمہ کب جاگے گی؟ مسلمانوں کے قبلۂ اوّل پر ہزاروں اسرائیلیوں نے فلیگ مارچ کے نام پر حملہ کیا، مگر کسی مسلم ملک کے حکم راں نے اس کے خلاف بیان نہیں دیا۔

    اسرائیل اتنا طاقت ور تو کبھی نہیں تھا کہ جسے امریکا جنگ بندی کا اعلان کرنے کو کہے تو نیتن یاہو صاف انکار کر دے اور اتنے دھڑلے سے پوری دنیا کے سامنے کہے کہ حماس سے مذاکرات میدانِ جنگ ہی میں ہوں گے۔ آج کا مؤرخ یہ سب دیکھ رہا ہے اور کل جب داستانِ خونچکاں رقم ہوگی تو مؤرخ کا قلم کئی ناموں کو تاریک و باعثِ ننگ تحریر کرے گا۔

  • فلسطین سمیت دنیا بھر میں آج مسلمان یومِ نکبہ منا رہے ہیں

    فلسطین سمیت دنیا بھر میں آج مسلمان یومِ نکبہ منا رہے ہیں

    فلسطین سمیت دنیا بھر میں آج مسلمان یومِ نکبہ منا رہے ہیں، اسرائیلی شہر حائفہ کی سڑکیں آزاد فلسطین کے نعروں سے گونج اٹھیں۔

    تفصیلات کے مطابق 15 مئی 8 لاکھ فلسطینیوں کو ان کے گھروں سے بے دخل کرنے کا دن ہے، فلسطین سمیت دنیا بھر میں آج مسلمان یومِ نکبہ منا رہے ہیں۔

    اسرائیلی شہر حائفہ کی سڑکیں آزاد فلسطین کے نعروں سے گونج اٹھیں، ’نکبہ‘ کے 76 برس مکمل ہونے پر ہزاروں افراد فلسطینی پرچم لہراتے ہوئے سراپا احتجاج تھے۔

    مظاہرے میں فلسطینیوں سمیت، یہود اور عیسائی بھی موجود تھے، فلسطینی ہر سال پندرہ مئی کا دن یوم نکبہ کے طور پر مناتے ہیں، پندرہ مئی 1948 کو اسرائیلی ریاست کے قیام کا اعلان کیا گیا تھا، جو فلسطینیوں کے لیے یوم سیاہ ہے۔

    اسرائیلی فوج رفح کے رہائشی علاقوں میں داخل، جانی نقصان کا خدشہ

    فلسطینی اسرائیلی ریاست کے قیام کو ’نکبہ‘ یا ’تباہی‘ قرار دیتے ہیں۔ تاہم غزہ میں اسرائیل جو کچھ اب کر رہی ہے، ایسا لگتا ہے کہ یہ ماضی کے تجربے سے کہیں زیادہ اندوہ ناک اور تباہ کن ہوگا۔

    1948 کی عرب اسرائیل جنگ کے بعد اسرائیل نے بے گھر فلسطینیوں کو واپس آنے کی اجازت دینے سے انکار کر دیا تھا، اس طرح وہ مستقل پناہ گزین کمیونٹی بن گئے، جن کی تعداد اب تقریباً 60 لاکھ ہے، زیادہ تر فلسطینی اب لبنان، شام، اردن اور اسرائیل کے زیر قبضہ مغربی کنارے میں کچی آبادی نما شہری پناہ گزین کیمپوں میں رہتے ہیں۔

  • یوم نکبہ، فلسطین پر صیہونی قبضے کے 71 برس مکمل

    یوم نکبہ، فلسطین پر صیہونی قبضے کے 71 برس مکمل

    یروشلم : یوم نکبہ کے موقع پر غزہ اور شمالی فلسطینی علاقوں کے درمیان سرحدی دیوار کے قریب فلسطین پر اسرائیلی قبضے 71 سال مکمل ہونے پر ہزاروں فلسطینیوں نے احتجاج کیا۔

    تفصیلات کے مطابق کل 15 مئی کو فلسطینیوں نے اپنے ملک پر صہیونی ریاست اسرائیل کے غاصبانہ قبضے کے خلاف یوم النکبہ کے حوالے سے جلسے جلوس اور ریلیوں کا انعقاد کیا۔

    مقامی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ فلسطینی گذشتہ 71 برسوں سے سنہ 1948ء کی جنگ میں اپنے گھروں سے زبردستی نکالے جانے خلاف اور اپنے حقوق کے حصول کے لیے مناتے ہیں، غزہ اور شمالی فلسطینی علاقوں کے درمیان سرحدی دیوار کے قریب ہزاروں فلسطینیوں نے احتجاج کیا۔

    فلسطینی میڈیا کا کہنا تھا کہ مظاہرے کا اہتمام حماس کی جانب سے کیا گیا تھا۔ اس موقع پر عام ہڑتال تھی اور مظاہروں کے شرکاء کی تعداد بڑھانے کے لیے اسکولوں میں عام تعطیل کی گئی تھی۔

    خیال رہے کہ حماس گذشتہ ایک سال سے غزہ میں مصر اور اسرائیل کی جانب سے کی گئی علاقے کی ناکہ بندی کے خاتمے کے لیے احتجاج کررہی ہے۔

    یاد رہے کہ ایک سال قبل فلسطین میں یوم النکبہ کے موقع پر مظاہروں کے دوران اسرائیلی فوج کے حملوں میں 60 سے زائد فلسطینی شہید ہوگئے تھے۔ تاہم رواں سال یوم نکبہ ایک ایسےوقت میں منایا گیا جب دو ہفتے قبل غزہ میدان جنگ بن چکا ہے۔

    حالیہ ایام میں فلسطینی مزاحمت کاروں اور اسرائیل کے درمیان عارضی جنگ بندی بھی طے پاچکی ہے۔

    مقامی میڈیا کا کہنا تھا کہ فلسطینی شہری ایک ایسے وقت میں یوم نکبہ منا رہے ہیں جب لاکھوں فلسطینی ملک سے باہرمشرق وسطیٰ کے ملکوں میں پناہ گزین کے طورپر رہ رہے ہیں۔ مشرق وسطیٰ میں فلسطینی پناہ گزینوں کی تعداد پچاس لاکھ سے زیادہ ہے۔