Tag: یوم وفات

  • مصوّر اور مجسمہ ساز احمد سعید ناگی کا تذکرہ

    مصوّر اور مجسمہ ساز احمد سعید ناگی کا تذکرہ

    پاکستان میں‌ فائن آرٹ کے شعبہ کے چند نام ور فن کاروں میں احمد سعید ناگی کا نام بھی شامل ہے۔ احمد ناگی کو یہ اعزاز حاصل ہوا تھا کہ انھوں نے بانیِ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کا پورٹریٹ بنایا جب کہ اس آرٹسٹ کے میورلز بھی ہمیشہ ان کی یاد دلاتے رہیں گے۔

    احمد سعید ناگی یکم ستمبر 2006ء کو وفات پاگئے تھے۔ آج ان کی برسی منائی جارہی ہے۔ انھیں عام طور پر احمد سعید ناگی لکھا بھی جاتا ہے۔ 1916ء میں متحدہ ہندوستان کے مشہور شہر امرت سر میں احمد سعید نے آنکھ کھولی۔ تعلیم و تربیت کے مراحل طے کرتے ہوئے انھوں نے مُوقلم سے اپنا تعلق جوڑا اور عملی میدان میں اترے۔ وہ شروع ہی سے فنون لطیفہ میں دل چسپی رکھتے تھے۔ سعید ناگی 1944ء میں لاہور منتقل ہوئے۔ یہاں انھوں نے مسلم لیگ کے شعبۂ تشہیر و تعلقات کے لیے کام کیا۔ تاہم چند برس بعد امرتسر چلے گئے اور وہاں شادی کر لی۔ لیکن اسی زمانے میں تقسیمِ‌ ہند کا اعلان ہوا اور قیامِ پاکستان کے بعد 1947ء میں اے ایس ناگی پاکستان آگئے۔ ہجرت کے بعد انھوں نے کراچی میں سکونت اختیار کی۔

    معروف صحافی، آرٹ نقاد اور مصنّف شفیع عقیل ان سے اپنی ملاقات کا احوال اپنی ایک کتاب میں یوں لکھتے ہیں:

    ” جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے میں نے ناگی کو پہلی بار 1946 میں دیکھا تھا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب میں دھرم پورہ، لاہور میں انجینئر اسٹور ڈپو میں سائن رائٹر پینٹر کی حیثیت سے ملازم تھا۔

    میرے ساتھ بی اے نجمی اور نذیر ضیغم بھی سائن رائٹر، پینٹر کی حیثیت سے ملازم تھے، مگر ہمیں تصویر کشی کا بھی شوق تھا اور اس سلسلے میں تینوں بے استادے تھے۔

    1946 میں ہم نے ایک ہندو دوست کے ساتھ اس وقت کے منٹگمری روڈ پر جہاں آج کل لاہور ٹیلی ویژن اسٹیشن واقع ہے، اس کے قریب ایک دکان کرائے پر لی اور سنیما وغیرہ کے بینر بنانے اور دکانوں، دفتروں کے بورڈ لکھنے کا کام شروع کیا تھا۔

    اس کا نام ”ماڈرن آرٹ سینٹر“ رکھا تھا، حالاں کہ اگر اس وقت ہم سے کوئی ماڈرن (Modern) کے معنی پوچھ لیتا تو ہم نہ بتاسکتے، اس لیے کہ اس دور میں ہمارے نزدیک آرٹ یا مصوری کے معنی سنیما کے بینر، فلموں کی تشہیر کے تصویری بورڈ اور تھیٹروں کے پردوں وغیرہ کے سوا اور کچھ نہیں تھا۔

    یہی نہیں بلکہ وہ پینٹر جو بورڈ وغیرہ لکھتے تھے، ہم ان سب کو مصوروں ہی کے زمرے میں شمار کرتے تھے اور اپنی جگہ خوش ہوتے تھے کہ ہم بھی مصور ہیں۔

    یوں بھی ان دنوں آج کل کی طرح نہ تو جگہ جگہ آرٹ گیلریاں تھیں اور نہ آئے دن آرٹ کی نمائشیں ہوتی تھیں۔ لہٰذا تصویر کشی کرنے والے عام فن کاروں کا ذریعہ معاش یا پینٹروں کی آمدنی کا ذریعہ سنیماﺅں کے بینر تیار کرنا یا پھر تھیٹروں کے پردے اور سیٹ بنانا ہوتا تھا۔

    اگر آپ ابتدائی دور کے مصوروں کے حالاتِ زندگی کا مطالعہ کریں تو بعض بڑے مصور اس دور میں تھیٹروں میں پیش کیے جانے والے ڈراموں کے پوسٹر، پردے اور سیٹ بنایا کرتے تھے۔ یہی کچھ جانتے ہوئے ہم نے دکان شروع کی تھی، مگر ہوتا یہ کہ ہم بیٹھے باتیں کرتے رہتے تھے کیوں کہ کوئی بورڈ لکھوانے اور بینر یا پوسٹر بنوانے نہیں آتا تھا۔

    اس لیے جیسے ہی دن ڈھلتا ہم مختلف سنیماﺅں کا چکر لگاتے اور ان کے آگے لگے ہوئے ایکٹروں کے بڑے بڑے بینر اور بورڈ بڑی حسرت سے دیکھتے رہتے۔ پھر شام ہوتے ہی رائل پارک کے چوک میں پہنچ جاتے جہاں ایک پینٹر کی دکان تھی۔ اس میں نئی فلموں کے لیے بینر اور بورڈ بنتے تھے اور ایک ساتھ تین چار لوگ بنا رہے ہوتے تھے۔

    اس دکان کا مالک ہمارا واقف تھا۔ یہاں ہم کام ہوتا ہوا بھی دیکھتے تھے اور اپنی محرومی کا وقت بھی گزارتے تھے۔ ایک روز ہم کھڑے آپس میں باتیں کررہے تھے کہ وہاں ایک تانگا آکر کھڑا ہوا جس میں سے ایک کِھلتے رنگ کا خوش لباس شخص نیچے اترا۔ اسے دیکھ کر دکان کا مالک اس کے پاس گیا۔ دونوں میں دو چار منٹ کچھ باتیں ہوئیں اور وہ شخص جس تانگے میں آیا تھا اُسی میں سوار ہو کے وہاں سے چلا گیا۔

    دکان والے نے ہمیں بتایا، یہ مشہور آرٹسٹ ہے اور اس کا نام ناگی ہے۔

    ”پھر جنوری 1950 میں جب میں لاہور سے نوکری کی تلاش میں کراچی آیا تو ناگی کے نام اور کام سے واقف ہوا۔ اگرچہ کراچی آکر میں نے مصوری سے عملی رشتہ ختم کردیا تھا اور صحافت ہی کا ہو کر رہ گیا تھا، مگر رنگوں کا اپنا ایک جادو ہوتا ہے جو واقعی سَر چڑھ کر بولتا ہے۔

    یہ میرا ابتدائی دور تھا اور لکھنے لکھانے کی بھی شروعات تھیں۔ اس لیے ناگی کا مجھے جاننا یا میرا اس سے تعارف ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ اس کے باوجود میں ایک روز ”ناگی اسٹوڈیو“ چلا گیا،

    اس وقت وہ کینوس اِدھر اُدھر رکھ رہا تھا۔ اس نے خندہ پیشانی سے مجھے دیکھا اور پھر اندر آنے کو کہا۔ میں نے بتایا کہ ”مجھے آرٹ سے دل چسپی ہے اس لیے آیا ہوں؟“

    اس پر ناگی نے پوچھا۔

    ”کیا آرٹ سیکھنا چاہتے ہو۔“

    ”نہیں۔ میں صحافی ہوں، مجھے صرف آرٹ دیکھنے کا شوق ہے۔“

    میرے اس جواب پر ناگی کا کوئی ردعمل نہیں تھا۔ اس نے اپنی مصروفیت کو جاری رکھتے ہوئے کہا۔

    ”اچھا اچھا۔ یہ بات ہے، دیکھو دیکھو!“

    اس پہلی ملاقات کے بعد بھی میں چند ایک بار ناگی اسٹوڈیو گیا تھا، کیوں کہ اب اس سے تھوڑی بہت سلام دعا ہوگئی تھی۔

    اسی اسٹوڈیو میں مشہور مصورہ لیلیٰ شہزادہ سے ملاقات ہوئی تھی۔ اس وقت اسے نام وری حاصل نہیں ہوئی تھی بلکہ ابھی وہ تحصیل فن کے مراحل سے گزر رہی تھی۔“

    ”پہلی دو تین ملاقاتوں میں تو ناگی نے مجھ سے اردو زبان ہی میں بات کی، مگر جب ہماری واقفیت ہوگئی تو پھر اس نے کبھی مجھ سے اردو میں بات چیت نہیں کی۔ ہمیشہ پنجابی ہی میں گفتگو ہوتی تھی۔ پھر ہمارے دوستانہ تعلقات استوار ہوگئے اور تکلف کی جگہ بے تکلفی نے لے لی۔

    آپ سے گزر کر تم تک آئے اور پھر ایک دوسرے کو تُو سے مخاطب کرنے لگے۔“

    احمد سعید ناگی نے دہلی کیمبرج اسکول دریا گنج کی استانی مس بکلے سے آرٹ کی ابتدائی تعلیم حاصل کی تھی۔ اس کے ساتھ ساتھ رقص بھی سیکھا۔ مجسمہ سازی کا ہنر شیخ احمد سے جب کہ ایس جی ٹھاکر سنگھ سے رنگوں کو برتنا سیکھا۔ بعدازاں‌ فرانس کے شہرۂ آفاق شہر پیرس چلے گئے جہاں‌ مصوری بالخصوص پورٹریٹ بنانے پر توجہ دی۔ ان کے کام میں نکھار آتا چلا گیا۔ پیرس سے کراچی لوٹنے کے بعد احمد سعید ناگی نے پاکستان کے دیہی ماحول اور ثقافتی پس منظر کو پینٹ کرنے کا مشغلہ اپنایا۔ احمد سعید ناگی نے خاص طور پر ہڑپّہ، موہن جو دڑو، ٹیکسلا کو اپنے فن کی زینت بنایا۔ پاکستان اور اس کی ثقافت میں ان کی گہری دل چسپی کو دیکھتے ہوئے سرکاری سطح پر انھیں ہوائی اڈّوں اور ان کے وی آئی پی لاؤنجز کی تزئین و آرائش کا کام سونپا گیا اور انھوں نے بخوبی اپنا کام انجام دیا۔ سعید ناگی نے پلاسٹر آف پیرس اور دھاتوں سے بھی مجسمہ سازی کی۔ احمد سعید ناگی نے اندرونِ ملک اور بیرونِ ملک دوروں‌ میں‌ مشہور عمارتوں‌، دفاتر اور ہوٹلوں کی تزئین و آرائش کی اور میورلز بنائے۔ اے ایس ناگی اس پر نازاں رہے کہ قائد اعظم کی پہلی اور واحد پورٹریٹ انھوں نے بنائی تھی۔ یہ 1944ء کی بات ہے۔

    مصور و مجسمہ ساز احمد سعید ناگی خوش لباس، ہنس مکھ، ملنسار اور محبّت والے انسان مشہور تھے۔ ان کے فن پاروں کی نمائش ملک اور بیرونِ ملک بھی ہوئی جن میں پیرس، برطانیہ، امریکا، ایران، بھارت شامل ہیں۔ شائقین کی ستائش کے ساتھ ناگی صاحب نے ناقدینِ فن سے بھی اپنے کام پر داد پائی۔

    احمد سعید ناگی کے بنائے ہوئے فن پارے زیارت ریذیڈنسی جب کہ کوئٹہ، کراچی، اور پشاور کے گورنر ہاؤس میں‌ سجائے گئے ہیں۔ ان کا کام موہٹہ پیلس، قصر ناز اور لاہور میں‌ پنجاب اسمبلی بلڈنگ میں‌ بھی دیکھا جاسکتا ہے۔ حکومتِ پاکستان کی جانب سے انھیں صدارتی تمغا برائے حسنِ کارکردگی عطا کیا گیا تھا۔

  • سلیم احمد: شاعر اور نقّاد جس نے مقبولِ‌ عام  نظریات سے انحراف کیا

    سلیم احمد: شاعر اور نقّاد جس نے مقبولِ‌ عام نظریات سے انحراف کیا

    سلیم احمد کو اگر ادبی مفکر کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ انھوں نے اپنی نکتہ بینی، تجزیاتی بصیرت اور قوّتِ مشاہدہ سے کام لے کر جن موضوعات پر خیال آرائی کی، وہ انھیں اس کا اہل ثابت کرتے ہیں۔ سلیم احمد نے شاعر، نقّاد، ڈرامہ نویس اور کالم نگار کے طور پر ادبی دنیا میں نام و مقام پایا اور بالخصوص تنقید کے میدان میں ان کا کام ان کی پہچان بنا۔ مگر ساتھ ہی ان کا ادب کی دنیا میں کئی شخصیات سے زبردست اختلاف بھی رہا اور یہ سب ادبی تاریخ کا‌ حصّہ ہے۔

    سلیم احمد یکم ستمبر 1983ء کو وفات پاگئے تھے۔ وہ بلاشبہ اپنی تنقید میں معنیٰ و اسلوب کی سطح پر منفرد بھی ہیں اور مؤثر بھی۔ ان کی تنقید میں اچھوتا پن اور گہرائی ہے۔ اسی طرح ان کی شاعری بھی ندرتِ خیال اور موضوعات کی رنگارنگی سے آراستہ ہے۔ سلیم احمد نے اپنے دور میں تنقید لکھتے ہوئے مقبولِ عام نظریات سے انحراف کیا اور اس پر انھیں اعتراضات اور نکتہ چینی کا سامنا کرنا پڑا۔

    اردو کے اس معروف شاعر اور نقّاد کے بارے میں‌ اُن کے ہم عصروں کی رائے بہت اہمیت کی حامل ہے۔ ڈاکٹر سہیل احمد خاں کہتے ہیں: سلیم احمد کی تنقیدی تحریریں میرے لیے ادب کے ایک عام قاری کی حیثیت سے قابلِ توجہ رہی ہیں۔ وہ ایسے نقاد ہیں جنھیں بار بار پڑھا جا سکتا ہے اور ادبی اور فکری معاملات میں ان کی بصیرت سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔ فراقؔ اور عسکری کو ایک طرف رہنے دیں، اردو کے اور کتنے نقادوں کے بارے میں یہ بات آسانی سے کہی جا سکتی ہے؟ ظاہر ہے کہ بنیادی طور پر اُن کا اُسلوب جس میں سلیم احمد کا مکالمہ کرتا ہوا باتونی لہجہ بنیادی شناخت رکھتا ہے، انھیں قابلِ توجہ بناتا ہے۔ لیکن اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ میں اُن سوالوں کو جو سلیم احمد اپنی تنقید میں اٹھاتے ہیں، اس دور کے بنیادی فکری سوالات سمجھتا ہوں۔

    ڈاکٹر تحسین فراقی نے یوں کہا ہے: محمد حسن عسکری کے بعد اگر نگاہ کسی اردو نقاد پر ٹھہرتی ہے، جو ہمیں نو بہ نو ادبی، علمی اور تہذیبی سوالوں سے دو چار کرتی ہے اور مدرس نقاد کی پھبتی سے بچ سکتا ہے تو وہ ایک دو مستثنیات کے علاوہ سلیم احمد ہیں۔

    سلیم احمد نے ضلع بارہ بنکی کے ایک نواحی علاقے میں‌ 27 نومبر1927 کو آنکھ کھولی تھی۔ زمانۂ طالب علمی میں قابل اور نام ور ادبی شخصیات کی رفاقت نے ان کو غور و فکر اور لکھنے پر مائل کیا۔ قیام پاکستان کے بعد سلیم احمد ہجرت کرکے کراچی آگئے اور 1950ء میں ریڈیو پاکستان سے منسلک ہوئے۔

    انھیں‌ منفرد لب و لہجے اور مضامینِ تازہ کا شاعر تو کہا جاتا ہے، مگر شعر و سخن کی دنیا میں‌ ان کی تنقیدی بصیرت کو مسترد کرتے ہوئے ان کے خلاف باتیں‌ کی جاتی رہیں۔ اس کی ایک وجہ سلیم احمد کا بے لاگ انداز اور کڑی تنقید تھی جس نے ادبی دنیا میں‌ ان کی مخالفت بڑھائی۔

    وہ ایک بہت اچھے ڈرامہ نگار بھی تھے۔ انھوں نے ریڈیو اور ٹیلی وژن کے لیے متعدد ڈرامے تحریر کیے، اور پاکستان کی پہلی جاسوسی فلم ’’راز کی کہانی‘‘ بھی سلیم احمد ہی نے لکھی تھی جس پر ان کو نگار ایوارڈ سے نوازا گیا تھا۔

    سلیم احمد کے شعری مجموعوں میں بیاض، اکائی، چراغَِ نیم شب اور مشرق جب کہ تنقیدی مضامین کے مجموعوں میں ادبی اقدار، نئی نظم اور پورا آدمی، غالب کون؟ ادھوری جدیدیت، اقبال ایک شاعر، محمد حسن عسکری آدمی یا انسان شامل ہیں۔

    سلیم احمد کا یہ شعر بہت مشہور ہے

    شاید کوئی بندۂ خدا آئے
    صحرا میں اذان دے رہا ہوں

  • آذر زوبی: معروف پاکستانی مصور اور مجسمہ ساز

    آذر زوبی: معروف پاکستانی مصور اور مجسمہ ساز

    پاکستان میں فنِ مصوری اور مجسمہ سازی میں جو چند نام اپنے کام کی بدولت ممتاز ہوئے ان میں آذر زوبی کا نام بھی شامل ہے۔ آذر زوبی کی ایک وجہِ شہرت درونِ خانہ آرائش بھی ہے اور یہ اس زمانہ کی بات ہے جب اس کام کو بہت کم ایک شعبہ کے طور پر توجہ دی جاتی تھی۔

    پاکستان کے اس معروف مصور اور مجسمہ ساز کو فائن آرٹسٹوں کے ساتھ ساتھ ادیبوں اور شاعروں میں بھی پہچانا جاتا تھا۔ اس کی وجہ آذر زوبی کا ادبی ذوق بھی تھا۔ آذر زوبی یکم ستمبر 2001ء کو کراچی میں انتقال کر گئے تھے۔ ان کی تدفین کراچی میں ڈیفنس سوسائٹی کے قبرستان میں کی گئی۔ اشفاق احمد جیسے افسانہ نگار اور ادیب زوبی کے دوستوں میں سے تھے۔اپنے ایک مضمون میں اشفاق احمد اپنی دوستی اور آذر زوبی کے فن سے متعلق لکھتے ہیں:

    زوبی میرا دوست نہ بھی ہوتا تو بھی میں اس کو ایک بڑا فن کار ہی سمجھتا۔ حالانکہ میرے سمجھنے اور نہ سمجھنے سے کچھ فرق نہیں پڑتا۔ پھر بھی اس کو اصرار ہے کہ میں چار گواہوں کے سامنے اس امر کا اعلان کروں کہ زوبی ایک عظیم آدمی، ایک عظیم فن کار اور ایک عظیم تخلیقی قوت ہے۔ یہ بالکل زوبی کا بچپنا ہے ورنہ آپ خود دلیلِ آفتاب کے طور پر اس کے مرقعات کا جائزہ لے چکے ہیں۔ اب جب کہ ہم زندگی کے اس دور میں پہنچ چکے ہیں جہاں بس ایک جست کی کسر رہ جاتی ہے تو کچھ پرانی باتیں کہ دینے اور کر دینے میں کوئی مضایقہ نہیں۔

    میٹرک پاس کرنے کے بعد میں نے اور روبی نے عہد کیا تھا کہ ہم اپنی اپنی لائن میں بڑے آدمی بننے اور شمالی ہندوستان کے Who’s Who میں داخل ہونے کے لیے سر توڑ کوشش کریں گے اور اگر نیا ملک پاکستان بن گیا تو اس کے دونوں حصوں کے معروف لوگوں کی صف اوّل یا زیادہ سے زیادہ صفِ دوم میں اپنا اپنا مقام ضرور حاصل کریں گے۔ میں تو خیر نوکریوں اور ملازمتوں کی ذلّتوں میں لتھڑتا رہا۔ اس لیے اس معاہدے کو پورے طور پر نبھا نہ سکا، لیکن زوبی نے اپنے زورِ عمل سے اور اپنی دن رات کی محنت سے یہ ثابت کر دیا کہ وہ شمشیر زن جس میدان کو فتح کرنے کا تہیہ کرتا ہے اس کو فتح کر کے چھوڑتا ہے۔

    زوبی بڑے غضب کا مصور ہے۔ اپنی شہرت اور ناموری کے لیے، اس نے جو تصویریں، جو مرقع اور جو مجسمے بنائے ہیں وہ آپ نے دیکھے ہیں، انھیں پسند کیا ہے، ان کی داد دی ہے۔ ان سے مسحور ہوئے ہیں، لیکن اس کی وہ تصویریں جو اس نے اپنی معصومیت کے دور میں بنائی تھیں وہ آپ کی نظر سے نہیں گزریں۔ شکوے کو آپ نے بہت قریب سے دیکھا ہے لیکن یہ زوبی نہیں ہے۔ اس کا اصل وہ رنگ دار مرقعے ہیں جو وہ شہرت ناموری، جہدِ مسلسل، کوششِ پیہم اور تجویز اور پلاننگ کی سیڑھی سے اتر کر بناتا ہے اور کسی کو دکھاتا نہیں۔ کہا کرتا ہے یہ میری عبادت ہے اور عبادت کسی کو دکھا کر نہیں کیا کرتے۔ عبادت، ترقی کے لیے نہیں، سرخ روئی کے لیے کی جاتی ہے۔

    آذر زوبی کا اصل نام عنایت اللہ تھا۔ انھوں نے 28 اگست 1922ء کو قصور کے ایک گھرانے میں آنکھ کھولی۔ ابتدائی تعلیم و تربیت کے مراحل طے کرتے ہوئے 1943ء میں میو اسکول آف آرٹ لاہور سے فائن آرٹ کی تعلیم مکمل کی اور پھر اسکالر شپ پر اٹلی چلے گئے۔1950ء سے 1953ء تک اٹلی میں زیرِ تعلیم رہے اور 1954ء میں پاکستان لوٹے تو یہاں پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ فائن آرٹس میں اپنے فن پاروں کی پہلی سولو نمائش کی۔ بعد ازاں کراچی منتقل ہوگئے۔ ان کے مُو قلم نے کئی کتابوں کے سرورق، طغرا بنائے اور تزئین و آرائش بھی کی۔

    آخری ایام میں آذر زوبی نے بڑے سائز کی ڈرائنگ بنانے کا سلسلہ شروع کر رکھا تھا جس کے بارے میں صحافی، آرٹ نقاد اور مضمون نگار شفیع عقیل لکھتے ہیں: ” یہ ڈرائینگیں یا اسکیچ بے لباس انداز کے تھے جو زوبی کا پسندیدہ موضوع تھا۔ وہ عورت کا بے لباس جسم بنانے میں کچھ زیادہ ہی دل چسپی لیتا تھا…. جو نیوڈ (nude) اسکیچ یا ڈرائینگیں بنا رہا تھا اور جس طرح کی بنا رہا تھا ان میں چار پانچ کا مزید اضافہ ہو جاتا تھا۔ نہ موضوع میں کوئی تبدیلی ہوتی تھی، نہ اشکال میں کوئی فرق آتا تھا۔ نہ اجسام کے زاویے بدلتے تھے اور نہ خطوط میں کوئی تفریط ہوتی تھی۔ ایک عورت بیٹھی ہوتی تھی یا دو ہوتی تھیں اور چہروں کے خدوخال میں وہی یکسانیت ملتی تھی۔ اس نے یہ ڈرائینگیں سو کے لگ بھگ بنائی تھیں“ ایک اور جگہ لکھا ہے کہ ” تجریدی کام کرنے سے پہلے رئیلسٹک (realistic) میں مہارت ہونا ضروری ہے۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ اناٹمی (anatomy) سیکھنا بھی ضروری ہے الٹے سیدھے برش لگا دینے سے پینٹنگ نہیں بن جاتی۔“ انھوں نے ایک مقام اور آذر زوبی کے حوالے سے مزید لکھا: ” زوبی تجریدی آرٹ کے بہت خلاف تھا اور تجریدی کام کرنے والوں کو بے نقط سناتا رہتا تھا۔ اس سلسلے میں دل چسپ بات یہ ہے کہ خود اس کے اپنے اپنے بعض فن پارے ایسے ہیں جو تجریدی یا نیم تجریدی انداز میں بنے ہوئے ہیں۔ اس کا وہ کام جو پین ورک میں ہے، اس میں بہت سے اسکیچ اور ڈرائینگیں تجریدی (abstract) ہیں۔ خاص طور پر اس کی وہ السٹریشنز جو اس نے بعض کتابوں میں بنائی ہیں- مثلاً” جنم کنڈلی“ ، ”سرخ فیتہ“ اور ” موت سے پہلے“ وغیرہ میں۔ جب وہ تازہ تازہ اٹلی سے آیا تھا تو اس نے کئی اسکریپر ڈرائینگیں (scraper drawings ) بنائی تھیں- وہ سب تجریدی انداز کی ہیں جن میں سے بیشتر کو دیکھ کر مجسمے کا تصور اُبھرتا ہے۔“

    آذر زوبی نے کراچی میں‌ 1956ء میں شعور کے نام سے ایک ادبی جریدہ بھی جاری کیا تھا۔ انھوں نے کراچی میں آرٹس کونسل آف پاکستان کے اسکول آف آرٹس میں تدریس کے فرائض بھی انجام دیے اور اس اسکول کے پرنسپل رہے۔ 1968ء میں آذر زوبی نے اسکول آف ڈیکور کے نام سے مصوری، مجسمہ سازی اور درون خانہ آرائش کی تربیت کا ایک ادارہ قائم کیا تھا۔

    1980ء میں حکومتِ پاکستان کی جانب سے آذر زوبی کو صدارتی تمغا برائے حسنِ کارکردگی عطا کیا گیا تھا۔

  • کشمیری لال ذاکر: اردو فکشن کا ایک بڑا نام

    کشمیری لال ذاکر: اردو فکشن کا ایک بڑا نام

    اردو فکشن کا نام بلند کرنے والوں میں کشمیری لال ذاکر کا نام نمایاں ہے جن کے ناولوں اور افسانوں میں اعلٰی انسانی اقدار اور زندگی کے صحت مند عناصر پوری توانائی کے ساتھ موجود ہیں۔ ذاکرنے شاعری بھی کی ہے لیکن ان کے ناول اور افسانے اردو ادب کے لئے ایک بیش بہا دین ہیں اور سرمایہ افتخار۔

    کشمیری لال کا بچپن کشمیر کی رنگین اور تازگی بخش فضاؤں میں کھیلا اور تخلیقی ادب کی طرف مائل ہوا تھا۔ شاید اسی لیے ایک دل کشی، حسن افروزی اور فرحت بخش چاندنی اُن کی ادبی کاوشوں میں بھی اٹھکیلیاں لیتی ہے۔ وہ 31 اگست 2016ء میں چل بسے تھے اور اسی مناسبت سے ہم اج ان کا تذکرہ کر رہے ہیں۔

    کشمیری لال ذاکر نے جہاں ایک آزمودہ کار ماہرِ تعلیم کی حیثیت سے معاشرے کی اصلاح و بہبود میں ہاتھ بٹایا، وہیں ہندوستان میں اپنی مسلسل لگن اور ریاضت سے اردو فکشن کی تعمیر و ترقی کے لیے اپنا خونِ جگر جلاتے رہے۔ ان کی تصانیف اردو ادب کا سرمایہ ہیں۔ ادب برائے زندگی اور ادب برائے مقصدیت پر ایمان رکھنے کے باوجود ذاکر نے نہ تو ترقی پسند تحریک کی انتہا پسندانہ روش اور نعرہ بازی کا ساتھ دیا اور نہ جدیدیت اور اشاریت جیسی کسی نام نہاد تحریک کا دُم چھلّا بن کر اپنے فن کی سچائی اور کھرے پن کو مجروح کیا۔

    کشمیری لال ذاکر ۱۷ اپریل ۱۹۱۹ میں ضلع بیگا بنیان، گجرات میں پیدا ہوئے۔ ایم اے انگریزی کیا اور تاحیات محکمۂ تعلیم سے منسلک رہے۔ پرنس آف ویلز کالج جموں میں طالب علم تھے تو خود بھی کالج کے ادبی میگزین کے مدیر رہے۔ تعلیم کے شعبہ کے ساتھ ہریانہ اردو اکادمی کے لیے بھی خدمات سر انجام دیں۔ ابتدائی تعلیم ریاست پونچھ اور سری نگر کے اسکولوں میں حاصل کی تھی۔ ذاکر صاحب نے اپنے ادبی سفر کا آغاز تو شاعری سے کیا تھا لیکن پھر فکشن کی طرف آگئے۔ وہ ان ادیبوں میں سے تھے، جو تقسیم کے بعد ملک بھر میں بھڑک اٹھنے والے فسادات اور کشمیر کی الم ناک صورت حال پر بہت رنجیدہ تھے اور بہت سے واقعات نے انھیں کرب و اذیت میں گرفتار کیا جن پر ان کی کہانیاں پڑھنے کو ملتی ہیں۔ ان کی کتابیں ’جب کشمیر جل رہا تھا‘ ’انگھوٹھے کا نشان‘ ’اداس شام کے آخری لمحے‘ ’خون پھر خون ہے‘ ’ایک لڑکی بھٹکی ہوئی‘ وغیرہ اسی تخلیقی کرب کا اظہار ہیں۔ کشمیری لال ذاکر کی مختلف اصناف پر مشتمل سو سے زیادہ کتابیں شائع ہوئیں۔ کشمیری لال ذاکر نے سیندور کی راکھ کے نام سے ناول لکھ کر ناول نگاری کا آغاز کیا۔ ذاکر کو کئی اہم ترین اعزازات سے بھی نوازا گیا۔

    ۱۹۴۱ میں ان کی غزل لاہور کے ادبی جریدے "ادبی دینا” میں چھپی تھی جس کے بعد یہ سلسلہ فکشن تک پھیل گیا۔ انھوں نے ۲۹ ناول لکھے۔ ان کی چند دیگر تصانیف میں "میری شناخت تم ہو” ، "آدھے چاند کی رات” ، ہارے ہوئے لشکر کا آخری سپاہی”، اس صدی کا آخری گرہن”، بنا چھت گھر” اور ” خوابوں کے قافلے” شامل ہیں۔

  • نجیب محفوظ: نوبیل انعام یافتہ مصری ناول نگار

    نجیب محفوظ: نوبیل انعام یافتہ مصری ناول نگار

    عرب دنیا کے پہلے نوبیل انعام یافتہ ادیب نجیب محفوظ تھے جن کی تخلیقات نے انھیں متنازع بنا دیا تھا اور ان پر قاتلانہ حملہ بھی ہوا۔ نجیب محفوط 30 اگست 2006ء میں قیدِ‌ حیات سے آزاد ہوئے۔

    نجیب محفوظ 17 سال کے تھے جب انھوں نے قلم تھاما اور لکھنے کا آغاز کیا، لیکن ان کی پہلی تصنیف اُس وقت منظرِ عام پر آئی جب ان کی عمر 38 برس ہوچکی تھی۔ انھوں نے مصر میں ایک حقیقت نگار کی حیثیت سے بے پناہ مقبولیت حاصل کی۔ جس ناول پر انھیں نوبیل انعام دیا گیا اس کی اشاعت 30 سال قبل ہوئی تھی۔ نجیب محفوظ کا تعلق مصر تھا جنھوں نے نصری ادب کو کئی بے مثال کہانیاں دیں۔ انھیں 1988ء میں نوبیل انعام دیا گیا تھا۔

    ان کا مکمل نام نجیب محفوظ عبدالعزیز ابراہیم احمد پاشا تھا۔ وہ مشہور شہر قاہرہ میں 11 دسمبر 1911ء کو پیدا ہوئے۔ نجیب محفوظ نے تیس سے زائد ناول اور تین سو سے زائد کہانیاں لکھیں۔ انھوں نے فلم کے لیے اسکرپٹ اور اسٹیج ڈرامے لکھنے کے ساتھ ساتھ مؤقر روزناموں‌ کے لیے مضامین اور کالم بھی لکھے۔

    نجیب محفوظ کا بچپن غربت اور مشکلات دیکھتے ہوئے گزرا۔ ان کا گھرانا مذہبی تھا۔ فنونِ لطیفہ اور ادب کی طرف مائل ہونے والے نجیب محفوظ روایت شکن ثابت ہوئے اور اپنے معاشرے کے اُن موضوعات پر بھی قلم اٹھایا جنھوں نے قدامت پسندوں کی نظر میں‌ نجیب محفوظ کو معاشرے اور مذہب کا باغی ٹھیرایا۔ نجیب محفوظ نے جس عہد میں سانس لی، وہ مصر پر برطانیہ کے قبضے اور انقلابی تحریکوں کا عہد تھا اور اسی کے زیرِ اثر نجیب محفوظ کی تخلیقی صلاحیتیں ابھر کر سامنے آئیں۔

    1934 میں نجیب محفوظ نے جامعہ قاہرہ سے فلسفے میں گریجویشن کی ڈگری لی اور ماسٹرز میں داخلہ لیا، لیکن تعلیم مکمل نہ کرسکے اور لکھنے میں منہمک ہوگئے۔ وہ مذہبی امور کی وزارت میں بھی رہے اور آرٹ کی سنسر شپ کے شعبے کے ڈائریکٹر بھی۔

    50 کی دہائی میں نجیب محفوظ معروف ادیب بن چکے تھے جب کہ ان کی مشہور کتاب ’قاہرہ ٹرائلوجی‘ 80 کی دہائی میں‌ شائع ہوئی۔ یہ ان کی تین کہانیوں کا وہ مجموعہ ہے جس کا پہلا حصہ: ’محل تا محل 1956، دوسرا حصہ قصرِ شوق 1957، اور تیسرا کوچۂ شیریں 1959 پر مبنی ہے۔ اس کتاب نے ان کو مقبول مصنفین کی صف میں لاکھڑا کیا اور ناقدین کی نظر میں وہ اپنے اسلوب میں رمزیت اور تہ داری کی وجہ سے ممتاز ہوئے۔ اپنے معاشرے کی خرابیوں کو اپنی کہانیوں‌ کا حصّہ بناتے ہوئے انھوں‌ نے کئی حساس موضوعات پر قلم اٹھایا۔ نجیب محفوظ کے ناولوں اور کتابوں کے تراجم بشمول اردو دنیا کی تمام بڑی زبانوں میں ہوچکے ہیں۔ ان کا ناول ’جبلاوی کے بیٹے‘ قسط وار شائع ہونا شروع ہوا تو مذہبی طبقہ ان کا مخالف ہوگیا۔ اس ناول کی اشاعت بمشکل ممکن بنائی گئی اور پھر اسے کتابی شکل دینا بھی آسان ثابت نہیں ہوا۔ مصر میں کوئی پبلشر اسے شائع کرنے پر تیار نہ ہوا تو نجیب محفوظ نے اسے لبنان سے شائع کروایا۔

  • شہاب حسن دہلوی: بہاولپور کا ایک دہلوی مؤرخ

    شہاب حسن دہلوی: بہاولپور کا ایک دہلوی مؤرخ

    اردو ادب میں شہاب دہلوی کو ایک شاعر، مؤرخ، محقق اور متعدد کتابوں کے مصنّف کے طور پر پہچانا جاتا ہے جو مشہور جریدے الزبیر کے مدیر تھے۔ شہاب دہلوی تقسیمِ ہند کے بعد پاکستان کے مشہور شہر بہاولپور آبسے تھے اور اس شہر سے ان کی محبّت تادمِ آخر قائم رہی۔ اسی محبت نے شہاب دہلوی کو بہاولپور کی تاریخ اور تہذیب و ثقافت پر تحقیقی کام پر مجبور کیا اور انھوں نے متعدد کتابیں یادگار چھوڑیں۔

    شہاب دہلوی 29 اگست 1990 کو انتقال کرگئے تھے او آج ان کی برسی منائی جارہی ہے۔ ان کا اصل نام سید مسعود حسن رضوی تھا۔ ان کے خاندان کے بزرگ قیامِ پاکستان سے عشروں پہلے دہلی سے بہاولپور آئے تھے اور یہاں ریاستی عہدوں پر فائز رہے تھے۔ شہاب دہلوی 20 اکتوبر 1922 کو پیدا ہوئے۔ ان کی پیدائش دہلی کی تھی۔ ان کے والد اور تایا بھی نہ صرف شاعر اور ادیب تھے بلکہ علمی و ادبی سرگرمیوں کے ساتھ دہلی شہر میں اشاعتی ادارہ بنام مطبع رضوی قائم کر رکھا تھا۔ شہاب دہلوی نے آنکھ کھولی تو گھر میں کتابیں دیکھیں اور علمی و ادبی موضوعات پر گفتگو سنتے رہے۔ یوں ان میں بھی پڑھنے لکھنے کا شوق پیدا ہوا اور مطالعہ نے ان کے ذہن کو سیراب کیا۔ بڑے ہوئے تو عملی زندگی کا آغاز دہلی کے ایک ماہنامہ الہام کے اجرا سے کیا۔ بہاولپور آنے کے بعد شہاب دہلوی نے نہ صرف الہام کا دوبارہ اجرا کیا بلکہ یہاں کی سیاسی اور سماجی سرگرمیوں میں بھی وہ بڑھ چڑھ کر حصہ لینے لگے۔ یہ وہ شہر تھا جہاں ان کے بزرگوں کے نقشِ قدم موجود تھے۔ لوگ اس خاندان سے واقف تھے اور یوں شہاب دہلوی کو بہاولپور سے اپنی محبّت کا جواز مل گیا۔ انھوں نے شعر و ادب کے ساتھ اس علاقے کی تہذیب و ثقافت اور زبان و تاریخ کو محفوظ کرنے کا بیڑا اٹھایا۔ شہاب دہلوی نے تاریخی اور ثقافتی اعتبار سے بہاول پور اور اس خطّے پر نظر ڈالتے ہوئے یہاں کی دینی اور روحانی شخصیات کا خاص طور پر تذکرہ کیا ہے اور روحانی فضا کو اپنی کتابوں کا موضوع بنایا ہے۔ ان کتابوں میں مشاہیر بہاولپور، اولیائے بہاولپور، خواجہ غلام فرید: حیات و شاعری اور وادیٔ جمنا سے وادیٔ ہاکڑہ تک شامل ہیں۔ بطور محقّق شہاب دہلوی کا گراں قدر کام ان کو بہاولپور کی تاریخ و ثقافت کا مستند مؤرخ ثابت کرتا ہے۔

    شہاب حسن دہلوی کا کلام نقوش شہاب، گل و سنگ، اور موجِ نور کے نام سے شائع ہوا۔

  • محسنِ اردو میر محبوب علی خان کا تذکرہ

    محسنِ اردو میر محبوب علی خان کا تذکرہ

    حیدر آباد دکن کو برصغیر میں شان و شوکت، تہذیب و ثقافت اور علم و فنون کا ایسا نقش کہا جاسکتا ہے، جسے صدیاں فراموش نہیں کرسکیں‌ گی۔ ہندوستان کی اسی مرفہ الحال ریاست کے فرماں روا میر محبوب علی خان کا کارنامہ یہ تھا کہ سب سے پہلے انھوں نے اردو کو اپنی ریاست کی سرکاری زبان قرار دیا اور اسے وقار و تمکنت بخشا۔

    آج نظام دکن میر محبوب علی خان کا یومِ وفات ہے جن کی اردو زبان کی ریاستی سطح پر سرپرستی اور اس کے لیے مستقل مالی اعانت تاریخ کا حصّہ ہے۔ دکن کو گنگا جمنی تہذیب کا عملی نمونہ کہا جاتا تھا، جس کا خزانہ معمور تھا اور جو تہذیب و ثقافت کا گہوارہ تھی۔ یہاں مختلف زبانیں بولی جاتی تھیں جن میں بڑا طبقہ تیلگو دوسرا کنڑ بولتا تھا اور ایک علاقہ مراٹھی زبان بولنے والوں پر مشتمل تھا۔ نظامِ دکن نے اردو کو سرکاری زبان قرار دے کر ان سب کو آپس میں گویا جوڑ دیا۔ یہ انیسویں صدی کے اواخر کی بات ہے۔

    نظام دکن کی سخاوت اور علم و فنون میں دل چسپی کی بدولت ہندوستان بھر سے ہر نادرِ روزگار، یکتا و یگانہ اور عالم فاضل شخصیات نے وہاں کا رخ کیا اور اردو زبان کی خدمت کے ساتھ علم و فنون کی ترقی و فروغ کے لیے خوب کام کیا اور میر محبوب علی خاں کے دربار سے عزت و توقیر، انعام و اکرام پایا۔ یہ سب میر محبوب علی خان کی اردو کی سرپرستی اور اسے سرکاری زبان بنانے کے فیصلے کی وجہ سے ممکن ہوا تھا۔

    حیدر آباد دکن، بیدر و گلبرگہ میں مختلف ادوار میں قطب شاہی، بہمنی دور کے سلاطین کے بعد مغل حکم راں اورنگ زیب عالم گیر کا بھی راج رہا۔ 1724ء میں یہاں سلطنتِ آصفیہ کی بنیاد رکھی گئی اور اس خاندان کے بادشاہ نظام دکن مشہور ہوئے جن کی فیاضی، سخاوت اور زبان و ادب سے لگاؤ اور اس کے لیے خزانے سے مال خرچ کرنا مشہور رہا ہے۔

    میر محبوب علی خان آصفی دور کے چھٹے حکم راں تھے۔ 17 اگست 1866ء کو پیدا ہونے والے محبوب علی خان نے تخت نشینی کے بعد اپنے عہد میں فارسی کی جگہ اردو کو رائج کیا اور اس فیصلے نے زبان کو بے مثال ترقی دی۔ ان کا دور 50 سال سے زائد عرصہ پر محیط ہے جس میں نظامِ دکن نے تعلیمی ادارے، مدرسے اور دارُالعلوم مع اقامت گاہ قائم کیے اور جدید و اسلامی علوم کی تعلیم کے فروغ کے لیے گراں قدر خدمات انجام دیں۔ میر محبوب علی خان 29 اگست 1911ء کو انتقال کر گئے تھے۔

    میر محبوب علی خان کے بعد ان کے بیٹے میر عثمان علی خان حیدرآباد کے آخری بادشاہ تھے اور ان کی تخت نشینی کے بعد دکن ہی نہیں برصغیر میں اردو نے عدیمُ النظیر ترقی کی اور خوب پھولی پھلی۔ علوم و فنون، دین و مذہب، تہذیب و ثقافت کا وہ کون سا آفتاب، کیسا گوہرِ آب دار تھا جسے حضور نظام کے دربار سے نوازا نہ گیا۔ میر عثمان علی خان نے اپنے والد کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے عظیم درس گاہ جامعہ عثمانیہ کے قیام کی منظوری دی جس کا ذریعۂ تعلیم صرف اردو قرار پایا۔ اس کے لیے عثمان علی خان اپنے خزانوں کا منہ کھول دیا اور بے دریغ دولت خرچ کی۔

  • جان ہسٹن کا تذکرہ جن کی فلمیں‌ شاہ کار کا درجہ رکھتی ہیں

    جان ہسٹن کا تذکرہ جن کی فلمیں‌ شاہ کار کا درجہ رکھتی ہیں

    جان ہسٹن کو فلمی دنیا میں بحیثیت ڈائریکٹر جو امتیاز اور بے مثال شہرت ملی، وہ بہت کم لوگوں کا مقدر بنتی ہے۔ وہ غیرمعمولی شخصیت کے مالک تھے جن کی بطور امریکی فلم ڈائریکٹر متعدد فلمیں شاہکار کا درجہ رکھتی ہیں۔ جان ہسٹن نے اسکرین رائٹر کے طور پر بھی شان دار کام یابیاں سمیٹیں اور اداکاری بھی کی۔

    جان ہسٹن نے ایک ہنگامہ خیز زندگی بسر کی۔ وہ بگڑے ہوئے نوجوان کی طرح مئے نوشی، رقص و سرود کی محفلوں کے عادی اور جوئے کا شوق پورا کرتے تھے۔ مگر یہ ان کی زندگی کا ایک رخ ہے۔ ہسٹن اپنے کام سے بہت مخلص رہے جب کہ ان کا حال یہ تھا کہ نشے کے عالم میں ان کی اکثر شامیں شور شرابا اور ہلڑ بازی کرتے گزر جاتیں۔ وہ نصف شب کو اپنے آوارہ دوستوں کا ساتھ چھوڑ کر اپنے گھر کی راہ لیتے اور اگلے روز دن ڈھلنے تک سوتے رہتے۔ ظاہر ہے ایسے نوجوان سے کیا توقع کی جاسکتی تھی۔ مگر حیرت انگیز طور پر یہی جان ہسٹن گُھڑ سواری کے ماہر، باکسنگ کے کھلاڑی اور فائن آرٹ کے شوقین بھی تھے۔ فنون لطیفہ میں دل چسپی رکھنے والے جان ہسٹن انگریزی اور فرانسیسی ادب کا مطالعہ بھی کرتے تھے جس نے ان کی فکر کو پختگی اور خیال کو وسعت دی اور تب جان ہسٹن لکھنے کی طرف مائل ہوئے۔ فیچر رائٹنگ اور کہانیوں سے قلمی سفر کا آغاز کیا اور بعد کے برسوں میں ایک باکمال فلم ڈائریکٹر اور اسکرپٹ رائٹر مشہور ہوئے۔

    جان ہسٹن نے فلمی دنیا میں 46 برس کے دوران متعدد بڑے اور نہایت معتبر اعزازات اپنے نام کیے، اور آج اس شعبہ میں آنے والوں کو ان کے نام اور کام کی مثال دی جاتی ہے۔ جان ہسٹن 28 اگست 1987 کو چل بسے تھے۔

    فلم ڈائریکٹر جان ہسٹن کا بچپن اور نوعمری کا دور تنہائی اور کرب کے عالم میں‌ گزرا۔ ان کے والدین میں علیحدگی ہوگئی تھی۔ انھیں بورڈنگ ہاؤس میں رہنا پڑا۔ انہی دنوں دل اور گردے کی مختلف پیچیدگیوں اور امراض نے جان ہسٹن کو گھیر لیا اور بغرضِ علاج انھیں مختلف شہروں میں قیام کرنا پڑا۔ اس دوران انھیں زندگی کے مختلف روپ دیکھنے اور سمجھنے کا موقع بھی ملا اور یہی سب فلمی دنیا میں ان کے بہت کام آیا۔

    وہ امریکا میں 5 اگست 1906 کو پیدا ہوئے تھے۔ نوعمری ہی میں انھیں باکسنگ کا شوق پیدا ہوگیا اور وہ باقاعدہ رِنگ میں اترے اور متعدد مقابلوں میں فاتح بھی رہے۔ البتہ ایک مقابلے میں اپنے حریف کے ہاتھوں ناک تڑوانے کے بعد انھوں نے میدان چھوڑ دیا۔ فائن آرٹ میں دل چسپی اتنی بڑھی کہ باقاعدہ مصوری کرنے لگے۔ پیرس میں کچھ عرصہ قیام کے دوران ہسٹن نے وہاں بطور پورٹریٹ آرٹسٹ بھی کام کیا۔ جان ہسٹن کی مہارت کا شعبہ فلم ڈائریکشن ہے۔ ان کو دو مرتبہ آسکر دیا گیا اور پندرہ مرتبہ اس ایوارڈ کے لیے نام زد ہوئے۔ ہالی وڈ کی فلموں میں ہسٹن نے بطور اداکار بھی کام کیا۔

    ہالی وڈ میں جان ہسٹن کی آمد اسکرپٹ رائٹر کے طور پر ہوئی تھی۔ بعد میں ”وارنرز” کے بینر تلے فلم ڈائریکشن شروع کی۔ جان ہسٹن نے Frankie and Johnny کے عنوان سے اسٹیج پلے لکھا تو اس کا معقول معاوضہ ملا۔ تب اسی کام کو ذریعۂ معاش بنانے کا سوچا۔ اور مزید دو شارٹ اسٹوریز Fool اور Figures of Fighting Men کے نام سے لکھیں جو ایک امریکی میگزین کی زینت بنیں۔ یہ 1929 کی بات ہے۔ اس کے بعد جان ہسٹن فیچر رائٹر کے طور پر دی نیویارک ٹائمز کے صفحات پر جگہ پانے لگے۔

    جان ہسٹن کو مہم جوئی، جنگ و جدل، اجنبی راستوں اور نئی منزلوں کا سفر ہمیشہ متوجہ کرتا رہا اور انہی واقعات کی عکاسی انھوں نے فلموں میں کی۔ ان کی زیادہ تر فلمیں مشہور ناولوں سے ماخوذ ہیں۔ ان کی شان دار فلموں میں The Maltese Falcon، Wise Blood ، The Misfits، The African Queen شامل ہیں۔

    ہسٹن کی ان کام یابیوں کے دوران ایک تکلیف دہ واقعہ یہ پیش آیا کہ ان کی کار سے ٹکرا کر ایک راہ گیر عورت ہلاک ہوگئی۔ مقدمہ چلا تو جان ہسٹن بے قصور قرار پائے، مگر ذہن اور دل پر ایسا بوجھ تھا جس نے برسوں ان کی جان نہ چھوڑی۔ وہ ہمیشہ اس کے لیے ملول رہے۔

  • کلیم عثمانی: مقبول ترین ملّی نغمات اور فلمی گیتوں کا خالق

    کلیم عثمانی: مقبول ترین ملّی نغمات اور فلمی گیتوں کا خالق

    کلیم عثمانی مقبول ملّی نغمات کے خالق ہی نہیں ان کے فلمی گیت بھی بہت مشہور ہوئے، مگر بحیثیت غزل گو شاعر بھی انھوں نے اپنی پہچان بنائی۔ بلاشبہ وہ ان شعرا میں سے ہیں جن کا بطور فلمی نغمہ نگار ہی برصغیر میں چرچا نہیں ہوا بلکہ غزل جیسی معتبر صنف سخن میں بھی وہ قتیل شفائی، مجروح سلطان پوری، شکیل بدایونی، سیف الدین سیف، تنویر نقوی اور دوسرے شعرا کی طرح مشہور تھے۔

    28 اگست 2000ء کو کلیم عثمانی انتقال کرگئے تھے۔ آج ان کی برسی منائی جارہی ہے۔ کلیم عثمانی کا اصل نام احتشام الٰہی تھا۔ وہ ضلع سہارن پور، دیو بند میں 28 فروری 1928 کو پیدا ہوئے۔ والد فضل الٰہی بیگل بھی شاعر تھے اور اس علمی و ادبی ماحول میں پروان چڑھنے والے احتشام الٰہی نے بھی یہی مشغلہ اپنایا۔ وہ شاعری کے میدان میں کلیم عثمانی کے نام سے پہچانے گئے۔ قیامِ پاکستان کے بعد ان کا خاندان ہجرت کر کے لاہور آگیا تھا جہاں بطور شاعر انھوں نے شہرت پائی۔

    کلیم عثمانی نے اپنے وقت کے مشہور شاعر احسان دانش سے اصلاح لی۔ ان کا ترنم بہت مشہور تھا اور لاہور اور پاکستان بھر میں وہ مشاعروں میں‌ ترنم سے اپنا کلام پیش کرکے داد پاتے تھے۔ کلیم عثمانی نے غزل گوئی سے اپنے شعری سفر کا آغاز کیا اور بعد میں‌ فلموں کے لیے گیت لکھنے شروع کیے۔ فلم بڑا آدمی، راز، دھوپ چھاؤں کے لیے ان کے تحریر کردہ گیت بہت مقبول ہوئے اور کلیم عثمانی کو ان کے بعد فلم انڈسٹری میں بہت اہمیت دی جانے لگی۔

    1966ء میں کلیم عثمانی نے فلم ہم دونوں اور جلوہ کے گیت تخلیق کیے جس سے ان کی شہرت کو گویا پَر لگ گئے۔ جلوہ وہ فلم تھی جس کے یہ دو گیت انتہائی اعلیٰ درجے کے تھے، کوئی جا کے ان سے کہہ دے ہمیں یوں نہ آزمائیں… اور لاگی رے لاگی لگن یہی دل میں…۔ ایک فلم راز کا مقبول ترین گیت تھا، میٹھی میٹھی بتیوں سے جیا نہ جلا….. کلیم عثمانی نے لکھا تھا۔ 1974ء میں فلم شرافت ریلیز ہوئی جس کے ایک گیت کو لازوال شہرت نصیب ہوئی۔ اس گیت کی موسیقی روبن گھوش نے ترتیب دی تھی اور اس کے بول تھے ’’تیرے بھیگے بدن کی خوشبو سے…. لہریں بھی ہوئیں مستانی سی۔‘‘ اس گیت کی مثال آج بھی دی جاتی ہے اور بلاشبہ یہ وہ گیت ہے جو کلیم عثمانی کو بطور نغمہ نگار ہمیشہ زندہ رکھے گا۔

    جوشِ انتقام، ایک مسافر ایک حسینہ، عندلیب اور نازنین جیسی کام یاب فلموں کے نغمات بھی کلیم عثمانی نے لکھے تھے جو بہت مقبول ہوئے۔ ایک زمانہ تھا جب ریڈیو پر فلمی گیت سامعین کی فرمائش پر نشر کیے جاتے تھے۔ ان میں دوسرے شعرا کی طرح کلیم عثمانی کے لکھے ہوئے نغمات بھی شامل ہوتے تھے۔

    1973 میں کلیم عثمانی کو فلم گھرانا کے اس مقبولِ عام گیت "تیرا سایہ جہاں بھی ہو سجنا پلکیں بچھا دوں….” پر نگار ایوارڈ سے نوازا گیا تھا۔ یہ گیت آج بھی ہماری سماعتوں میں محفوظ ہے اور جب بھی سنا جائے ایک عجیب لطف دیتا ہے۔ اگر ملّی نغمات کی بات کریں تو پاکستانی قوم کی امنگوں اور وطن کے لیے جذبات کی ترجمانی کرنے والے ان نغمات میں "اس پرچم کے سائے تلے ہم ایک ہیں” اور "یہ وطن تمہارا ہے، تم ہو پاسباں اس کے….” سرفہرست ہیں۔ کلیم عثمانی کے یہ ملّی نغمات تاقیامت پاکستان کی فضاؤں میں گونجتے رہیں گے۔

    غزل گو شاعر، اور فلمی گیت نگار کلیم عثمانی لاہور کے ایک قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔ ان کی ایک غزل بہت مشہور ہوئی جس کے چند اشعار ہم یہاں نقل کررہے ہیں۔

    غزل
    رات پھیلی ہے تیرے سرمئی آنچل کی طرح
    چاند نکلا ہے تجھے ڈھونڈنے پاگل کی طرح

    خشک پتوں کی طرح لوگ اڑے جاتے ہیں
    شہر بھی اب تو نظر آتا ہے جنگل کی طرح

    پھر خیالوں میں ترے قرب کی خوشبو جاگی
    پھر برسنے لگی آنکھیں مری بادل کی طرح

    بے وفاؤں سے وفا کر کے گزاری ہے حیات
    میں برستا رہا ویرانوں میں بادل کی طرح

  • شاعری میں شدّتِ غم کو درجۂ کمال پر پہنچانے والے فانی بدایونی کا تذکرہ

    شاعری میں شدّتِ غم کو درجۂ کمال پر پہنچانے والے فانی بدایونی کا تذکرہ

    اردو ادب میں فانی بدایونی کو یاسیات کا شاعر کہا جاتا ہے۔ ان کا کلام حزن و یاس، رنج و الم سے عبارت ہے۔

    فانی کا اصل نام شوکت علی خاں تھا، وطن بدایوں اور تخلّص انھوں نے فانی اختیار کیا۔ 1879ء میں پیدا ہوئے اور 27 اگست 1941ء تک دنیا کے میلے اور زندگی کے جھمیلے میں گرفتار رہے۔

    فانیؔ بدایونی کے کلام میں یوں تو وارداتِ قلب و نظر، اخلاقیات، فلسفہ اور تصوف کا بیان بھی ملتا ہے، لیکن یاس و نا امیدی کے مضامین بڑی آب و تاب کے ساتھ کلام میں ظاہر ہوئے ہیں اور اسی بنا پر انھیں یاسیات کا شاعر کہا گیا ہے۔ ناقدین کہتے ہیں کہ فانیؔ نے اردو شاعری میں شدّتِ غم کو درجۂ کمال تک پہنچایا۔

    ان کی ابتدائی تعلیم گھر پر ہوئی اور بعد میں مکتب میں داخل ہوئے۔ 1892ء میں گورنمنٹ اسکول میں داخلہ لیا اور انٹرنس کا امتحان پاس کرنے کے بعد بی اے کی ڈگری حاصل کی۔ فانی نے گیارہ بارہ سال کی عمر میں شاعری شروع کر دی تھی۔ کالج کے زمانے میں شغل جاری رہا اور احباب کی فرمائش پر ان کو کلام سناتے رہتے تھے۔ بعد میں‌ وکالت پڑھ کر لکھنؤ میں پریکٹس کرنے لگے، لیکن پھر والد اور چند اعزّہ کے انتقال کے بعد ان کا ہر کام سے گویا دل اچاٹ ہوگیا۔ معاش کے حوالے سے تنگی ان کو لاحق ہوئی۔ یہ ایک تکلیف دہ زمانہ تھا جس میں طبیعت یاسیت پر مائل ہوگئی۔ اسی دور میں انھیں غمِ جاناں نے بھی آ گھیرا اور عشق میں ناکامی ہوئی جس سے وہ شکستہ خاطر ہوئے۔

    فانی نے شہر شہر کی خاک چھانی اور معاش کے لیے جگہ جگہ قسمت آزمائی۔ آخر وہ مرفہ الحال ریاست حیدر آباد دکن پہنچے جہاں دربار سے اداروں تک عالم فاضل شخصیات کی قدر افزائی کی جاتی تھی اور نظام دکن کی جانب سے وظیفہ دیا جاتا تھا۔ دکن میں فانی اچھے برے دن کاٹ کر اس دنیا سے ہمیشہ کے لیے چلے گئے۔

    ممتاز نقاد اور ادیب آل احمد سرور فانی بدایونی کے بارے میں‌ اپنے مضمون میں لکھتے ہیں:

    "فانیؔ کے والد بڑے سخت گیر تھے۔ فانی کو اپنے پہلے عشق میں ناکامی ہوئی۔ ملازمت انہیں راس نہ آئی۔”

    "ان کے والد ان کی شاعری کے بہت خلاف تھے۔ انہیں کچھ آزادی بریلی کالج میں ملی، مگر دراصل ان کی ادبی شخصیت علی گڑھ کے قیام کے زمانے میں بنی جب وہ حسرت اور ان کی اردوئے معلیٰ سے قریب آئے۔ انہوں نے ملازمت پر وکالت کو ترجیح دی جس طرح اقبالؔ نے دی۔ اقبالؔ کو بھی اپنا پیشہ پسند نہ تھا، مگر وہ فانیؔ سے زیادہ لطافت کی خاطر کثافت کو گوارا کر سکتے تھے۔ فانیؔ اچھے وکیل ہو سکتے تھے کیوں کہ وہ ذہین آدمی تھے، مگر ان کی شاعرانہ شخصیت ان پر اتنی حاوی ہو گئی تھی کہ وہ وکالت کے پیشے کی پستی اور زمانہ سازی گوارا نہ کر سکتے تھے۔ ایک شاہانہ انداز سے زندگی گزارنے میں انہیں لطف آتا تھا۔”

    "کلکتے اور بمبئی کے سفر، لکھنؤ میں کچھ دن کے ٹھاٹھ، حیدرآباد میں شروع میں ان کی فضول خرچیاں، فانیؔ کے مزاج کے ایک خاص پہلو کو ظاہر کرتی ہیں۔”

    "فانیؔ کو ادبی شہرت جلد حاصل ہو گئی اور آخر تک وہ معاصرین میں ممتاز رہے۔ لکھنؤ، اٹاوے، مین پوری علی گڑھ اور آگرے میں مشاعروں میں ان کی غزلیں حاصلِ مشاعرہ سمجھی جاتی تھیں جب کہ ان میں یگانہ، جگر جیسے قابلِ قدر شاعر بھی موجود ہوتے تھے۔ ان کی ادبی شہرت 1920ء سے شروع ہوئی اور 1930ء میں عروج کو پہنچ گئی۔”

    "فانیؔ پُر گو نہ تھے۔ ماہر القادری کا بیان ہے کہ ان کی غزل کئی کئی دن میں مکمل ہوتی تھی۔ ان کے تمام دوستوں نے بیان کیا ہے کہ ان پر ایک استغراق کی کیفیت طاری رہتی تھی۔ ان کی مایوسیوں اور ناکامیوں، تلخیوں اور محرومیوں کی داستان ان کے چہرے پر لکھی ہوئی تھی۔”

    "فانیؔ بہت پریشاں رہے مگر انہوں نے کبھی کسی سے ان پریشانیوں کا اظہار نہ کیا۔ جب وہ بدایوں میں اپنے ایک وسیع اور کشادہ مکان کو رہن رکھ رہے تھے تو ان کے ایک ملنے والے آگئے اور انہوں نے تازہ کلام کی فرمائش کی۔ فانیؔ نے انہیں اپنا ایک شعر یہ کہہ کر سنایا کہ آج ہی موزوں ہوا ہے۔”

    اپنے دیوانے پہ اتمامِ کرم کر یارب
    درو دیوار دیے اب انہیں ویرانی دے

    "وہ اگرچہ ہنگامے سے گھبراتے تھے اور نمود و نمائش سے دور بھاگتے تھے مگر دوستوں کی محفل میں ہنستے بولتے بھی تھے۔ گو کسی نے انہیں قہقہہ لگاتے نہیں سنا۔ دوسروں کے کلام کی تعریف کرتے تھے مگر ان اشعار کی، جو انہیں پسند آتے تھے۔ جب ماہرُ القادری نے ان کی اس غزل کی تعریف کی جس کا مطلع ہے۔”

    پھر فریبِ سادگی ہے رہ نمائے کوئے دوست
    مٹنے والی آرزو ہی لے چلیں پھر سوئے دوست

    تو ان سے کہنے لگے لیکن آتشؔ کے اس مصرع کا جواب کہاں..

    دل سوا شیشے سے نازک دل سے نازک خوئے دوست

    "ماہر القادری نے ایک اور واقعہ کا ذکر کیا ہے۔ پڑوس میں ریڈیو تھا۔ کہیں سے کوئی مشاعرہ نشر ہورہا تھا۔ فانیؔ وہاں پہنچے۔ جگرؔ کی غزل سنی اور کئی اشعار پر رانوں پر ہاتھ مارتے ہوئے کہا۔ ارے ظالم مار ڈالا۔ جب غزل ختم ہوئی تو اٹھ کھڑے ہوئے۔ لوگوں نے کہا مشاعرہ تو ابھی جاری ہے مگر وہ یہ کہتے ہوئے چلے ’’مشاعرہ تو ہو چکا۔‘‘ یہی نہیں کہ فانیؔ کے مزاج میں تعلی بالکل نہ تھی۔ وہ اس زمانے کے تہذیبی اور مجلسی آداب کے مطابق اپنے اور اپنے کلام کے متعلق ایسے انکسار سے کام لیتے تھے کہ آج کے ظاہر بین اس سے غلط فہمی میں مبتلا ہو جائیں تو تعجب کی بات نہ ہو گی۔”

    "1922ء میں علی گڑھ میگزین کے ایڈیٹر رشید احمد صدیقی کو غزل کی فرمائش پر لکھا ہے، ’’میری بکواس نہ پڑھنے کے لائق ہے نہ سننے کے قابل۔ دامنِ اردو پر ایک بدنما داغ کے سوا کچھ نہیں۔ کوشش کیجیے کہ مٹ جائے۔ یہ آپ کا پہلا فرض ہے۔ میگزین کے بیش بہا صفحات پر میری غزل کا وجود باعثِ ننگ ہے۔ زبان اردو کے نادان دوست نہ بنیے۔’‘ یہ انکسار اس زمانے میں شرفاء کا دستور تھا۔ غالباً اس کے پیچھے یہ جذبہ تھا کہ اپنی تعریف آپ کرنا معیوب ہے۔ ہاں دوسرے تعریف کریں تو اور بات ہے۔”

    فانی بدایونی کے کئی اشعار ضرب المثل کا درجہ رکھتے ہیں۔

    ہر نفس عمرِ گزشتہ کی ہے میّت فانیؔ
    زندگی نام ہے مر مر کے جیے جانے کا

    یہ مقطع ان کی پیشِ نظر غزل کا حاصل ہے۔ اسی غزل میں ایک اور مقطع بھی شامل ہے جو بہت مشہور ہے، ملاحظہ کیجیے:

    اِک معما ہے سمجھنے کا نہ سمجھانے کا
    زندگی کاہے کو ہے خواب ہے دیوانے کا