Tag: یوم وفات

  • آنند نرائن ملّا: وہ شاعر جنھیں مجاہدِ اردو کہا جاتا ہے

    آنند نرائن ملّا: وہ شاعر جنھیں مجاہدِ اردو کہا جاتا ہے

    یہ تذکرہ ہے آنند نرائن ملّا کا جن کا یہ قول آج بھی بالخصوص بھارت میں اردو کے متوالوں کو مسرور اور اس زبان کو ترک کرنے کا مطالبہ کرنے والوں کو رنجور کیے دیتا ہے کہ ’’میں اپنا مذہب چھوڑ سکتا ہوں، اپنی زبان نہیں چھوڑ سکتا۔ ‘‘

    معروف شاعر اور ہندوستان میں اردو کے فروغ کے ایک بڑے حامی آنند نرائن ملّا لگ بھگ صدی جیے۔ وہ 1997ء میں آج ہی کے روز چل بسے تھے۔ جائے پیدائش لکھنؤ اور سنہ پیدائش 1901ء ہے۔ بوقتِ مرگ آنند نرائن ملّا دلّی میں‌ مقیم تھے۔

    مسعود حسین خاں لکھتے ہیں، شاعر کے ہاتھ میں شمشیر دے کر اسے ’’مجاہد‘‘ بنا دیتے وقت کوئی بھی اس بارے میں اس کے ردعمل یا جذبات کا لحاظ نہیں رکھتا۔ چنانچہ مجھ سے بھی یہی غلطی ہوتی رہی اور میں پنڈت آنند نرائن ملّاؔ کی اس تقریر کے حوالے سے جو انھوں نے آزادی ملنے کے فوراً بعد جے پور کی اردو کانفرنس میں کی تھی اور کہا تھا۔ ’’میں اپنا مذہب چھوڑ سکتا ہوں، اپنی زبان نہیں چھوڑ سکتا۔‘‘ ان کا قول بارہا اپنی تقریر و تحریر میں نقل کرتا رہا۔ ایک بار تو انجمن ترقی اردو کے ایک تہنیتی جلسے میں، جہاں ملّا صاحب موجود تھے، یہاں تک کہہ گیا: ’’ہے اردو والوں میں کوئی اور مائی کا لال جو اس طرح کا دعویٰ کر سکے؟‘‘

    میرے اس مسلسل اصرار پر ملّا صاحب کا ردعمل مجھے حال میں معلوم ہوا جب انھوں نے ایک خط میں لکھا:’’میرے مجاہدِ اردو ہونے کا ذکر تو ہر شخص کرتا ہے لیکن میرے شاعر ہونے کو سب بھول گئے ہیں۔‘‘ مجھے اس ’’شکایت ہائے رنگیں‘‘ سے دھچکا سا لگا۔ یہ نہیں کہ ملّا صاحب کی شاعری کا اعتراف نہیں کیا گیا ہے۔ ان کی سخن وری کا اور ان کے اندازِ بیان کا اعتراف تو بہت پہلے سے ہوتا آیا ہے، یہ اور بات ہے کہ چوں کہ وہ کسی ادبی تحریک کے کفِ سیلاب بن کر نہیں ابھرے اس لیے دوسروں کی طرح ان کا ڈھنڈورا نہیں پیٹا گیا! اس کے ثبوت میں میں آج ۱۹۴۱ء کی ایک دستاویز ’’جدید غزل گو‘‘ کی طرف اشارہ کروں گا، جس کے مرتب اور کوئی نہیں، رسالہ ’’نگار‘‘ کے مستند اور بے پناہ نقاد حضرت نیاز فتح پوری ہیں۔ ’’جدید غزل گو‘‘ میں ۱۹۴۰ء کے آس پاس کے ۳۱ زندہ اور معتبر غزل گوؤں کا انتخابِ کلام یکجا کر دیا ہے۔ یہ انتخاب خود انھیں شاعروں کا کیا ہوا ہے جن کو شامل کیا گیا ہے۔ پنڈت آنند نرائن ملّاؔ کا انتخاب بھی، جو اس وقت ۳۸ برس کے تھے، شامل ہے۔ وہ ایک ایسی بزم کی زینت ہیں جہاں آرزوؔ لکھنوی، ثاقبؔ لکھنوی، جلیل مانک پوری، حسرتؔ موہانی، ساحرؔ دہلوی، سیمابؔ اکبر آبادی، نوحؔ ناروی اور وحشتؔ کلکتوی جیسے جیداساتذۂ سخن براجمان ہیں۔ ۳۱ کی اس فہرست میں صرف احسان دانش اور علی اختر جیسے چند شاعر ان سے جونیئر ہیں۔ ہم عصروں میں خاص نام فراق ؔ گورکھپوری کا ہے۔

    انتخاب کے افتتاحیہ نوٹ میں ملّا صاحب نے اپنا سنہ پیدائش اکتوبر ۱۹۰۱ء بتایا ہے۔ ان کی باقاعدہ شعر گوئی کا آغاز ۱۹۲۷ء میں ایک نظم سے ہوا، اس کے ساتھ غزلیں بھی ہونے لگیں۔ جس زمانے کا ہم ذکر کر رہے ہیں، یعنی ۱۹۴۰ء تک بقول ملّا صاحب ’’پچاس ساٹھ نظمیں اور قریب سو (100) غزلیں کہی تھیں۔ ’’جدید غزل گو‘‘ کے لیے سو شعر انھوں نے انھیں سو غزلوں سے انتخاب کیے ہیں۔ ان سو غزلوں کی بدولت وہ غزل کے آسمانِ شعر میں اتنا بلند مقام حاصل کر چکے تھے کہ نیازؔ اپنی محفلِ سخن کے لیے انھیں دعوت نامہ بھیجنے پر مجبور ہو گئے۔

    ملّا صاحب کے احباب کا اصرار تھا کہ انھیں شعر گوئی کے لیے زانوئے تلمّذ کسی استاد کے سامنے تہ کرنا چاہیے کہ یہ دبستانِ لکھنؤ کی روایات کے عین مطابق تھا، لیکن ملّا صاحب یہ جواب دے کر گریز کر گئے: ’’شروع شروع میں میرے احباب نے مجھے مشورہ دیا کہ میں کسی کا شاگرد بن جاؤں، لیکن میرے ذوق نے اسے گوارا نہ کیا۔ اوّل تو یہ کہ شاگردی سے انفرادیت اس قدر مجروح ہوتی ہے کہ وہ پھر جاں بر نہیں ہو سکتی۔ استاد کا رنگ شاگرد کے کلام پر ایک نہ ایک حد تک ضرور حاوی ہو جاتا ہے۔ دوسرے یہ کہ ہر شخص کا تجربہ مختلف ہوتا ہے۔ اس کے جذبات میں مختلف طریقوں سے کیف پیدا ہوتا ہے اور اس کے دل و دماغ پر ایک مخصوص عالم طاری ہوتا ہے جس میں کوئی اس کا شریک نہیں ہو سکتا … شاعر کے لیے سب سے پہلے صداقت کی ضرورت ہے اور صداقت دوسرے کے رنگ میں ڈوب کر قائم نہیں رہ سکتی!‘‘۔

    آنند نرائن ملّا سے متعلق ادبی مضامین سے اقتباسات میں ان کی شاعری کے آغاز، ان کے فن اور شخصیت ہمارے سامنے آجاتی ہے۔ وہ ہندوستان کے مشترکہ تہذیبی، سماجی اور لسانی کلچر کی زندہ علامت تھے جس کا اظہار اردو سے متعلق ان کے مشہور قول سے ہوتا ہے۔

    ملّا کشمیری الاصل تھے لیکن ان کے بزرگ پنڈت کالی داس ملّا لکھنؤ آکر بس گئے تھے اور یہیں پنڈت جگت نرائن ملّا کے یہاں آنند صاحب پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم فرنگی محل لکھنؤ میں ہوئی۔ ان کے استاد برکت اللہ رضا فرنگی محلی تھے۔ اس کے بعد ملا نے انگریزی میں ایم، اے کیا اور قانون کی پڑھائی کی اور وکالت کے پیشے سے وابستہ ہو گئے۔ ۱۹۵۵ میں لکھنؤ ہائی کورٹ کے جج مقرر کئے گئے۔ سبک دوشی کے بعد سیاست کے میدان میں قدم رکھا اور ۱۹۶۷ میں لکھنؤ سے آزاد امیدوار کی حیثیت سے پارلیمینٹ کے رکن منتخب ہوئے۔ ۱۹۷۲ میں راجیہ سبھا کے رکن بنے۔ آنند نرائن ملّال انجمن ترقی اردو ہند کے صدر بھی رہے۔

    ابتداً انھوں نے انگریزی میں شاعری کی اور انگریزی ادب کے طالب علم ہونے کی وجہ سے انگریزی ادبیات پر بہت گہری نظر تھی لیکن پھر اردو شاعری کی طرف آگئے۔ لکھنؤ کے شعری و ادبی ماحول نے ان کی شاعرانہ صفات کو نکھارا۔ جوئے شیر، کچھ ذرے کچھ تارے، میری حدیث عمر گریزاں، کرب آگہی، جادۂ ملّا، ان کے شعری مجموعوں کے نام ہیں۔ کئی ادبی انعامات اور اعزازات سے بھی نوازے گئے۔

  • سنتوش کمار: پاکستانی فلمی صنعت کا بے مثال اداکار

    سنتوش کمار: پاکستانی فلمی صنعت کا بے مثال اداکار

    پاکستانی فلمی صنعت سنتوش کمار کو رومانوی فلموں‌ کے ایک بے مثال اداکار کے طور پر ہمیشہ یاد رکھے گی جو اپنے وقت کے مقبول ترین ہیرو بھی تھے جاذب و پُرکشش شخصیت کے مالک سنتوش کمار کی آج برسی منائی جارہی ہے۔

    قیامِ پاکستان کے بعد فلمی صنعت کے ابتدائی دور میں سنتوش کمار نے بطور ہیرو زبردست کام یابیاں سمیٹیں‌ اور ان کے مداحوں کی تعداد بڑھتی چلی گئی۔ بحیثیت اداکار سنتوش کی شہرت و مقبولیت کے علاوہ ایک باعثِ پذیرائی صبیحہ خانم سے شادی بھی تھا۔ صبیحہ خانم بھی پاکستانی فلموں کی مقبول ہیروئن تھیں اور نہایت باوقار خاتون تھیں جن کی کام یاب شادی فلم انڈسٹری کے لیے مثال بھی ہے۔ یہ دونوں فن کا عام زندگی میں بھی اپنے حسنِ اخلاق اور تہذیب و شائستگی کی وجہ سے بھی لوگوں کی نظر میں قابل احترام رہے ہیں۔

    بطور اداکار سنتوش کی پاکستانی فلم انڈسٹری میں‌ پہلی فلم بیلی (1950) تھی۔ آخری مرتبہ وہ فلم آنگن (1982) میں اسکرین پر نظر آئے تھے۔

    اداکار سنتوش کمار لاہور کے ایک تعلیم یافتہ گھرانے سے تعلق رکھتے تھے۔ ان کا اصل نام سیّد موسیٰ رضا تھا۔ فلم نگری میں‌ وہ سنتوش کمار کے نام سے پہچانے گئے۔ 25 دسمبر 1926ء کو پیدا ہونے والے سنتوش کمار نے عثمانیہ یونیورسٹی سے گریجویشن کیا۔ وہ اپنے ایک دوست کے اصرار پر فلمی دنیا کی طرف آئے تھے۔ انھوں نے ہیرو کا ایک رول اس وقت قبول کیا جب تقسیمِ ہند کا اعلان نہیں ہوا تھا۔ اس وقت کلکتہ اور ممبئی کے ساتھ لاہور بڑے فلمی مراکز تھے۔ اداکار سنتوش نے بمبئی سے دو فلموں ’’اہنسا‘‘ اور ’’میری کہانی‘‘ میں کردار نبھائے۔ بعد میں پاکستان ہجرت کر کے آئے اور یہاں بھی فلم انڈسٹری سے وابستہ ہوئے۔

    پاکستان میں اداکار سنتوش نے مسعود پرویز کی فلم ’’بیلی‘‘ سے اپنا سفر شروع کیا۔ سعادت حسن منٹو کی کہانی پر بنائی گئی اس فلم میں صبیحہ نے سائیڈ ہیروئن کا کردار ادا کیا تھا۔ ’’بیلی’’ کام یاب فلم نہیں تھی، لیکن اس کے بعد ’’دو آنسو‘‘ اور ’’چن وے‘‘ نے سنتوش کمار کے کیریئر کو بڑا سہارا دیا۔ اس سفر میں آگے بڑھتے ہوئے سنتوش نے شہری بابو، غلام، قاتل، انتقام، سرفروش، عشق لیلیٰ، حمیدہ، سات لاکھ، وعدہ، سوال، مکھڑا اور موسیقار جیسی فلموں‌ میں‌ کام کر کے خود کو بڑا اداکار ثابت کیا۔

    سنتوش کمار کی دیگر اہم فلموں میں دامن، کنیز، دیور بھابی، تصویر، شام ڈھلے، انجمن، نائلہ، چنگاری، لوری، گھونگھٹ اور پاک دامن شامل ہیں۔ مجموعی طور پر 92 فلموں میں اداکاری کے جوہر دکھانے والے سنتوش کمار کو ان کی بہترین اداکاری پر تین نگار ایوارڈ سے نوازا گیا۔

    اداکار سنتوش کمار 1978ء میں آج ہی کے روز انتقال کرگئے تھے۔ وہ لاہور میں مسلم ٹاؤن کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • ضمیر نیازی:‌ کوچۂ صحافت کی ایک نڈر اور بے باک شخصیت

    ضمیر نیازی:‌ کوچۂ صحافت کی ایک نڈر اور بے باک شخصیت

    یہ تذکرہ ہے آزادیٔ صحافت کے علم بردار اور پاکستان میں‌ اس شعبہ کی ایک بے مثال اور قابلِ تقلید شخصیت کا جنھیں ضمیر نیازی کے نام سے پہچانا جاتا ہے۔ پاکستان میں اعلیٰ صحافتی اقدار اور روایات کو پروان چڑھانے والے ضمیر نیازی نے ملک میں بخلاف صحافت حکومتی اقدامات، جبر اور پابندی کو للکارا۔ انھوں نے دور آمریت میں من چاہے قوانین کا نفاذ اور حکمت عملی کے خلاف آواز بلند کی اور قلم سے صحافت کا دفاع کرنے کے ساتھ ساتھ احتجاجی تحریکوں میں بھی آگے نظر آئے۔

    وہ پاکستانی میڈیا کی تاریخ لکھنے والے پہلے صحافی تھے۔ انھوں نے نہ صرف پاکستانی صحافت کی تاریخ مرتّب کی بلکہ اس موضوع پر متعدد کتابیں بھی لکھیں جو اس شعبے کو اپنانے والوں کی راہ نمائی کرتی ہیں۔

    ضمیر نیازی 1927ء میں بمبئی میں پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام ابراہیم جان محمد درویش تھا۔ آبائی پیشہ تو تجارت تھا لیکن ضمیر نیازی نے جس دور میں آنکھ کھولی تھی، وہ ہندوستان میں آزادی کی تحریکوں کا دور تھا اور صحافت بھی آزادی کی جنگ میں اپنا کردار ادا کررہی تھی۔ ممتاز ترقّی پسند ادیب، خلیق ابراہیم خلیقؔ نے اپنی خود نوشت ’’ منزلیں گرد کی مانند‘‘ میں لکھا ہے: ’’بمبئی میں میرے قیام کے دوران ضمیر نیازی تین محاذوں پر سرگرمِ عمل تھے۔ طالبِ علموں کا محاذ، ادب اور صحافت کے محاذ۔‘‘

    ضمیر نیازی نے اپنے ارد گرد نہ صرف علمی و ادبی ماحول دیکھا بلکہ حکومت سے بغاوت اور آزادی کے ترانے اور تقریریں بھی سنتے ہوئے بڑے ہوئے جس نے ان کے اندر بھی جبر و استحصال کے خلاف ڈٹ جانے اور اپنے حق کی خاطر لڑنے کا جذبہ پیدا کر دیا۔ وہ پہلے ادب پڑھنے اور لکھنے کی جانب مائل ہوئے اور پھر صحافت کی طرف قدم بڑھا دیے۔ اس وقت بمبئی سے کئی اخبار و رسائل شایع ہوا کرتے تھے جن میں روزنامہ’’ اجمل‘‘ بھی شامل تھا۔ نوعمری سے ابراہیم درویش اس کا مطالعہ کرتے رہے تھے اور پھر اسی اخبار میں کام کرنے کا موقع مل گیا۔ یوں ان کی صحافت کا آغاز متحدہ ہندوستان میں ہوگیا تھا۔ تقسیم کے بعد چند سال بھارت میں رہنے والے ابراہیم درویش ہجرت کر کے کراچی آگئے اور یہاں بھی صحافت کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیا۔

    کوچۂ صحافت میں ان کے سامنے ایک واضح مقصد اور راستہ تھا۔ وہ ریاست اور حکومت کو اُن کے فرائض یاد دلاتے ہوئے غلط پالیسیوں اور اقدامات پر تنقید کرنا اور عوام کے حق میں آواز اٹھانا اپنی اوّلین ذمہ داری سمجھتے تھے۔ وہ ایسے صحافی تھے جنھوں نے نہ صرف احتجاجاً حکومت کو تمغا برائے حسنِ کارکردگی واپس کیا بلکہ ایک موقع پر ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری وصول کرنے کے لیے گورنر ہاؤس جانے سے انکار کر دیا اور ہمیشہ مراعات اور حکومتی وظائف کو اپنے اور اپنے مقصد کے لیے ہلاکت قرار دیا۔ ضمیر نیازی ڈان اور بزنس ریکارڈر سے منسلک رہنے کے بعد عملی صحافت سے کنارہ کش ہوئے اور پھر تحقیقی کاموں اور تصنیف و تالیف میں مصروف ہوگئے۔ انھوں نے اردو صحافت سے آغاز کیا تھا مگر پھر انگریزی اخبار سے جڑ گئے تھے۔ دن اور شام کے متعدد اخبارات سے ضمیر نیازی مختلف حیثیوں سے وابستہ رہے اور اپنے بے باکانہ انداز اور بے لاگ تبصروں اور اداریوں سے صحافت کا حق ادا کیا۔

    ضمیر نیازی کی پہلی کتاب ’’The Press in Chains-1986‘‘ تھی جس کا بعد میں اردو ترجمہ اجمل کمال نے کیا۔ اس میں ضمیر نیازی نے اخبارات کے بارے میں اپنے بے مثل تحقیقی متن کو معروضی انداز میں قلم بند کیا۔ ان کی دوسری کتاب ’’The Press under Siege-1992‘‘ اور اس کے بعد ’’The Web of Censorship-1994‘‘ سامنے آئی۔ ان کے انگریزی مضامین کا اردو ترجمہ بھی کتابی شکل میں شایع ہوچکا ہے۔ 2005ء میں ضمیر نیازی کی آخری کتاب ’’Fettered Freedom‘‘ شایع ہوئی جس میں اُن کے اٹھارہ مضامین شامل تھے۔

  • ذاکر علی خان: شام چوراسی گھرانے کا استاد گلوکار

    ذاکر علی خان: شام چوراسی گھرانے کا استاد گلوکار

    امتدادِ زمانہ اور تغیر کے زیر اثر جہاں‌‌ ہندوستانی سماج متاثر ہوا، وہیں برصغیر میں فنِ موسیقی اور گائیکی بھی نئی ترنگ، طرز اور ایجاد سے آشنا ہوئی۔ قدیم ساز اور طرزِ‌ گائیکی مٹتا گیا جس کی جگہ موسیقی انداز اور ساز و آلات نے لے لی۔ کلاسیکی موسیقی اور راگ راگنیوں کے سننے اور سمجھنے والے بھی نہ رہے اور ان گھرانوں کی شہرت بھی ماند پڑ گئی جو اس فن کے لیے ہندوستان بھر میں‌ جانے جاتے تھے۔ یہ تذکرہ استاد ذاکر علی خان کا ہے جو شام چوراسی گھرانے کے مشہور گلوکار تھے۔ آج استاد ذاکر علی خان کی برسی ہے۔

    استاد ذاکر علی خان 1945ء میں ضلع جالندھر کے مشہور قصبے شام چوراسی میں پیدا ہوئے تھے۔ وہ استاد نزاکت علی خان، سلامت علی خان کے چھوٹے بھائی تھے۔ ذاکر علی خان اپنے بڑے بھائی اختر علی خان کی سنگت میں گاتے تھے۔ 1958ء میں جب وہ 13 برس کے تھے تو پہلی مرتبہ ریڈیو پاکستان ملتان پر گائیکی کا مظاہرہ کیا۔ بعدازاں انھیں آل پاکستان میوزک کانفرنس میں مدعو کیا جاتا رہا۔

    پاکستان میں انھوں نے ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے لیے پرفارم اور متعدد میوزک کانفرنسوں اور اہم تقریبات میں مدعو کیے جاتے رہے۔ استاد ذاکر علی خان کو بیرونِ ملک بھی کئی مرتبہ اپنے فن کا مظاہرہ کرنے کا موقع ملا تھا۔ خصوصاً 1965ء میں کلکتہ میں ہونے والی آل انڈیا میوزک کانفرنس میں ان کی پرفارمنس کو یادگار کہا جاتا ہے۔ اس شان دار پرفارمنس پر انھیں ٹائیگر آف بنگال کا خطاب دیا گیا تھا۔ استاد ذاکر علی خان نے ایک کتاب نو رنگِ موسیقی بھی لکھی تھی۔

    کلاسیکی گلوکار استاد ذاکر علی خان 6 جون 2003ء کو انتقال کرگئے تھے۔ وہ لاہور کے ایک قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • اختر حسین جعفری:‌ بیسویں صدی کا غالب

    اختر حسین جعفری:‌ بیسویں صدی کا غالب

    اختر حسین جعفری کو اردو کے بیسویں صدی کا غالب کہا گیا ہے۔ اختر حسین جعفری اُن معدودے چند شعرا میں سے تھے جن کو بحیثیت نظم گو جو شہرت اور مقام ملا، وہ بلاشبہ اس کے حق دار تھے۔

    ’اختر حسین جعفری اپنی روشن خیالی اور انسان دوستی کے حوالے سے آمریت، فسطائیت اور مطلق العنانیت کا غیر مشروط دشمن ہے۔ اسے انسان کی فکر و نظر کی مکمل آزادی بے حد عزیز ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے اس نے خود کو اپنے اہلِ وطن کی ذہنیتوں کی تہذیب پر مقرر کر رکھا ہے۔’ یہ احمد ندیم قاسمی کے الفاظ ہیں جو جدید اردو نظم کے اس بلند پایہ اور نہایت معتبر شاعر کی فکر و شخصیت کا گہرا اور پُرتاثر خاکہ ذہن کے پردے پر ابھارتے ہیں۔

    اختر حسین جعفری 3 جون 1992ء کو یہ دنیا چھوڑ گئے تھے۔ انھوں نے لاہور شہر میں‌ زندگی کے آخری ایام گزارے۔ اختر حسین جعفری کے شعری مجموعہ آئینہ خانہ کو اردو شاعری میں فکری اور فنی پختگی کے ساتھ اپنے حسین لسانی پیکروں کے لیے جدید اردو شاعری کا بیش قیمت سرمایہ کہا جاتا ہے۔ اردو زبان و ادب کے ساتھ غیرملکی ادب میں دل چسپی لینے والے اختر حسین جعفری نے اپنی شاعری میں تازہ فکر اور ندرتِ خیال کا اہتمام کیا۔ ان کی شاعری میں استعارے نہایت خوبی سے اور جا بجا بکھرے ہوئے ہیں جو ان کی شاعری کو سحر انگیز بناتے ہیں۔

    اختر حسین جعفری کا تعلق ضلع ہوشیار پور سے تھا۔ 15 اگست 1932 کو دنیا میں آنکھ کھولنے والے اختر حسین کی ابتدائی تعلیم ان کے ضلع کی درس گاہ سے مکمل ہوئی اور وظیفے کا امتحان پاس کرکے وہ گجرات آگئے۔ یہاں بھی تعلیمی سلسلہ جاری رہا اور عملی زندگی کا آغاز سرکاری ملازمت سے ہوا۔ اسی ملازمت میں ترقی کرتے ہوئے ڈپٹی کلکٹر کا عہدہ حاصل کیا۔

    اختر حسین جعفری نے اپنے تخلیقی سفر میں اردو شاعری کو نئی جہت سے روشناس کروایا اور خوب داد سمیٹی۔ وہ ممتاز نظم گو شاعر شمار کیے گئے۔ اختر حسین جعفری کے شعری مجموعوں میں آئینہ خانہ کے علاوہ جہاں دریا اترتا ہے بھی بہت مقبول ہوا۔ آئینہ خانہ کی اشاعت پر اسے آدم جی ایوارڈ دیا گیا تھا۔ 2002 میں اس شاعر کو صدارتی تمغا برائے حسن کارکردگی سے نوازا گیا تھا۔

    اختر حسین جعفری کا یہ شعر دیکھیے

    اس کی خوش بُو کے تعاقب میں نکل آیا چمن
    جھک گئی سوئے زمیں لمحے کی ڈال اس کے لیے

    یہ نظم ملاحظہ کیجیے

    "آخری پیڑ کب گرے گا”
    زمیں کی یہ قوس جس پہ تو مضطرب کھڑی ہے
    یہ راستہ جس پہ میں ترے انتظار میں ہوں
    زمیں کی اس قوس پر افق پر قطار اندر قطار لمحات کے پرندے
    ہمارے حصے کے سبز پتے سنہری منقار میں لیے جاگتی خلاؤں میں
    اڑ رہے ہیں
    زمیں کی اس قوس پر افق پر ہے نا بسر کردہ زندگی کی وہ فصل جس کا
    ہمیں ہر ایک پیڑ کاٹنا ہے
    یہ چاند جس پر قدم ہے تیرا
    یہ شہد جس پر زباں ہے میری
    یہ سبز لمحے یہ کرمک شب اسی گلستاں کے موسم ابر کے ثمر ہیں
    جہاں ہواؤں کے تیز طوفان منتظر ہیں کہ آخری پیڑ
    کب گرے گا

  • پاکستانی فلمی صنعت کی "رانی” کا تذکرہ

    پاکستانی فلمی صنعت کی "رانی” کا تذکرہ

    پاکستانی فلمی صنعت کے سنہری دور میں ناصرہ اردو اور پنجابی فلموں میں رانی کے نام سے مقبول تھیں۔ لاکھوں دلوں پر راج کرنے والی اداکارہ نے ذاتی زندگی میں کئی دکھ اور صدمات اٹھائے اور کینسر میں مبتلا ہوکر دارِ فانی سے کوچ کیا۔ آج اداکارہ رانی کی برسی ہے۔

    27 مئی 1993ء کو اپنے وقت کی یہ مقبول اداکارہ کراچی میں انتقال کرگئی تھیں۔ رانی نے 1941 میں‌ لاہور میں‌ آنکھ کھولی تھی۔ ناصرہ المعروف رانی اپنے وقت کی مشہور گلوکارہ مختار بیگم کے ایک ڈرائیور کی بیٹی تھیں۔ لیکن ان کی پرورش مختار بیگم نے کی اور ہمیشہ اپنے ساتھ رکھا۔ مختار بیگم نے ناصرہ کو رقص سکھایا اور جب رانی اس قابل ہوگئیں کہ کیمرے کا سامنا کرسکیں تو انھیں رانی کے نام سے فلمی دنیا میں متعارف کروایا۔

    اداکارہ نے اردو اور پنجابی فلموں میں اپنی بہترین پرفارمنس سے خوب شہرت پائی۔ اردو فلموں کی بات کریں تو بطور اداکارہ رانی نے مشہور ہدایت کار انور کمال پاشا کی فلم محبوب سے اپنا سفر شروع کیا تھا۔ اس فلم میں شمیم آرا کے مد مقابل رانی نے ثانوی کردار نبھایا۔ یہ 1962 کی بات ہے اور اس کے بعد بھی وہ کئی فلموں‌ میں مختلف کردار ادا کرتی نظر آئیں لیکن کام یابی ان کا مقدر نہ بنی۔ ان کی ابتدائی فلمیں ناکام ثابت ہوئیں یا رانی کسی بھی روپ میں فلم بینوں کو متاثر نہیں‌ کرسکیں۔ لیکن دیور بھابھی نے راتوں رات انھیں شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیا۔ یہ فلم 1967 میں سنیما کی زینت بنی تھی اور دھوم مچا دی تھی۔ ناصرہ المعروف رانی اس فلم کی بدولت واقعی انڈسٹری کی "رانی” بن گئیں۔ فلم میں وحید مراد اور لیجنڈری اداکارہ صبیحہ خانم نے ٹائٹل رولز کیے تھے۔ بعد میں رانی نے دل میرا دھڑکن تیری، بہن بھائی، دیا اور طوفان، شمع اور پروانہ، بہارو پھول برساؤ، امراؤ جان ادا، اک گناہ اور سہی، خون اور پانی جیسی کام یاب فلموں میں‌ اداکاری کے جوہر دکھائے اور کام یابی ان کا مقدر بنی۔

    اس دور میں‌ پنجابی فلمیں بہت مقبول تھیں اور رانی کو فلم چن مکھناں سے بریک تھرو ملا تھا۔ ان کی دیگر مشہور پنجابی فلموں میں سجن پیارا، جند جان، مکھڑا چن ورگا، دنیا مطلب دی، ٹیکسی ڈرائیور اور سونا چاندی قابلِ ذکر ہیں۔ اردو فلموں میں رانی کی جوڑی اداکار کمال، وحید مراد اور شاہد کے ساتھ بہت پسند کی گئی۔ لیکن حقیقی زندگی میں وہ اپنی شادی شدہ جوڑی برقرار نہیں رکھ سکیں۔ انھوں نے تین ناکام شادیوں کے بعد تنہائی اور محرومی کا عذاب جھیلا اور الم ناک موت رانی کا مقدر بنی۔

    فلمی پردے پر خوب صورت اور ناچتی گاتی نظر آنے والی اس اداکارہ نے ٹیلی ویژن کے ڈراموں میں‌ بھی کام کیا۔ ان مقبول ترین ٹی وی ڈراموں میں‌ خواہش اور فریب شامل ہیں۔ اداکارہ رانی لاہور میں مسلم ٹاؤن کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • طلعت حسین: فن کی دنیا کے ”عالی جاہ‘‘کا تذکرہ

    طلعت حسین: فن کی دنیا کے ”عالی جاہ‘‘کا تذکرہ

    اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ طلعت حسین نے فن کی دنیا میں نصف صدی اپنے نام کی ہے۔ تھیٹر سے ریڈیو، ٹی وی ڈراموں اور فلموں تک ان کا فنی سفر یادگار اور بے مثال ہے۔سینئر اداکار طلعت حسین پچھلے برس 84 سال کی عمر میں‌ انتقال کر گئے تھے۔ آج ان کی پہلی برسی ہے۔

    یہ بھی پڑھیے:‌ طلعت حسین کو عالی جاہ بنانے والے حمید کاشمیری

    طلعت حسین کو بطور صدا کار ان کے منفرد لب و لہجے کے ساتھ عمدہ تلفظ کی وجہ سے الگ پہچان ملی طلعت حسین کو شروع ہی سے مطالعہ کا بے حد شوق تھا۔ وہ انگریزی اور اردو ادب سے خاص لگاؤ رکھتے تھے۔ اداکاری کے میدان میں ان کا مخصوص اور متاثر کن انداز انھیں ہم عصروں میں امتیاز بخشتا ہے۔

    طلعت حسین سنہ 1940 میں دہلی میں پیدا ہوئے تھے۔ طلعت حسین کا پورا نام طلعت حسین وارثی تھا۔ ان کی والدہ شائستہ بیگم ریڈیو پاکستان کی مقبول اناؤنسر تھیں جب کہ ان کے والد الطاف حسین وارثی انڈین سول سروس میں ایک اعلیٰ عہدے پر فائز تھے۔ ان کی فیملی 1947ء میں ہجرت کر کے کراچی پہنچی۔ پاکستان آنے کے بعد والد کی بیماری کے باعث مالی حالات بہت خراب ہو گئے۔ ان کی والدہ نے ریڈیو پر ملازمت اختیار کر لی۔ طلعت حسین نے یہاں اسلامیہ کالج سے گریجویشن کیا۔ گھر کے نامساعد حالات کی وجہ سے ان کی ماسٹر کرنے کی خواہش پوری نہ ہو سکی۔ وہ تین بھائیوں میں سب سے بڑے تھے۔ معاش کے لیے کئی چھوٹی موٹی نوکریاں بھی کیں اور فن کی دنیا سے وابستہ ہوئے۔

    طلعت حسین کو شہرت سنہ 1970 سے ملنا شروع ہوئی۔ اسٹیج اور تھیٹر پر انھوں نے اپنے فن کے جوہر دکھائے اور پھر ٹی وی ڈراموں نے انھیں ملک گیر شہرت دی۔ طلعت حسین کے مقبول ڈراموں میں پرچھائیاں، ہوائیں، کشکول، طارق بن زیاد، دیس پردیس اور دیگر شامل ہیں۔ فن کی دنیا کے کئی ایوارڈ اپنے نام کرنے والے طلعت حسین کو حکومت نے ستارۂ امتیاز اور تمغائے حسن کارکرگی سے نوازا۔

    اداکاری و صدا کاری دونوں ہی شعبہ جات میں طلعت حسین بلاشبہ ایک منجھے ہوئے فن کار کے طور پر مشہور تھے۔ طلعت حسین نے اپنے فن کے سفر کا آغاز ریڈیو سے کیا اور پاکستان ٹیلی ویژن نے اپنی نشریات کا آغاز کیا تو وہ ڈراموں کی جانب آ گئے۔ ان کا پہلا ڈرامہ ”ارجمند‘‘ تھا جو 1967ء میں آن ایئر ہوا۔ 1972ء میں وہ انگلینڈ چلے گئے اور ”لندن اکیڈمی آف میوزک اینڈ ڈرامیٹک آرٹ‘‘ سے وابستہ ہوئے۔ وہاں برطانوی ڈرامہ میں بھی کام کیا اور متعدد غیر ملکی فلموں، ٹی وی ڈراموں اور طویل دورانیے کے کھیلوں میں اپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھائے۔ ناروے کی فلم ”امپورٹ ایکسپورٹ‘‘ میں وہ بہترین معاون اداکار کا ”ایمنڈا ایوارڈ‘‘ بھی لینے میں کام یاب ہوئے تھے۔ اس فلم میں انھوں نے اللہ دتہ نامی شخص کا کردار ادا کیا تھا۔ ایک بھارتی فلم ”سوتن کی بیٹی‘‘ میں طلعت حسین نے اداکارہ ریکھا اور جیتندر کے ساتھ کام کیا تھا۔ 1970ء میں طلعت حسین فلم ”انسان اور آدمی‘‘ میں نظر آئے جب کہ فلم ”گمنام‘‘ میں ڈاکٹر کا کردار ادا کرنے پر بہترین اداکار کا نگار ایوارڈ بھی اپنے نام کیا۔

    1998ء میں بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناحؒ پر بننے والی فلم ”جناح‘‘ میں بھی انھوں نے کردار ادا کیا تھا۔ اس فلم میں ان کے ساتھ ہالی ووڈ کے اداکار کرسٹوفر لی اور بھارتی اداکار ششی کپور نے بھی کام کیا تھا۔

  • نیاز فتح پوری: ایک نابغۂ روزگار شخصیت

    نیاز فتح پوری: ایک نابغۂ روزگار شخصیت

    برصغیر پاک و ہند میں نیاز فتح‌ پوری کا نام ایک ایسے قابل اور بے پناہ علمی استعداد کی حامل شخصیت کے طور پر مشہور ہے جنھیں اپنے دور کا اسکالر اور جدید صوفی بھی کہا جاسکتا ہے۔ نیاز صاحب اپنے مذہبی اور دینی نقطۂ نظر کی وجہ سے متنازع بھی رہے۔ لیکن ان کی نکتہ رسی کی قائل ان کے زمانے کی وہ علمی و ادبی ہستیاں بھی تھیں جنھوں نے نیاز فتح پوری سے دینی امور میں رائے کے اظہار پر شدید اختلاف کیا۔

    نیاز فتح پوری ایک عقلیت پسند مشہور تھے جنھوں نے مذہب اور دینی تعلیمات کو عصر حاضر اور تاریخی پس منظر میں بیان کرنے کی سعی کی جب کہ اردو ادب کی مختلف اصناف کو بھی اپنی تخلیقات سے مالا مال کیا۔ وہ شاعر بھی تھے، افسانہ نگار بھی، محقق اور نقّاد بھی لیکن انھیں عالمِ دین، مؤرخ اور ماہرِ نفسیات بھی سمجھا جاتا ہے۔ دراصل نیاز فتح پوری کی ادبی اور علمی سرگرمیوں کا میدان بہت وسیع تھا جسے انھوں نے رسالہ ’’نگار‘‘ کے ذریعے عام کیا۔ یہ وہ رسالہ تھا جس میں ادب کے علاوہ فلسفہ، مذہب اور سائنس پر شان دار تحریریں‌ شایع ہوتی تھیں اور اس کی بدولت قارئین پیچیدہ اور ادق موضوعات پر مباحث پڑھنے کے ساتھ غور و فکر کے عادی بنتے تھے۔ نیاز فتح پوری نے جدید نفسیات، ہپناٹزم اور جنسیات پر بھی خوب جم کر لکھا۔

    کون تھا جو نیاز فتح پوری کی علمیت سے مرعوب نہ تھا اور ان کی شخصیت کے سحر میں گرفتار نہ رہا ہو۔ نیاز صاحب کہیں ایک افسانہ نگار کے روپ میں سامنے آتے ہیں تو کہیں مذہب اور زندگی، اصول، قوانین، روایات اور انسانیت سے متعلق دقیق، پُرپیچ اور گنجلک موضوعات پر لیکچر دیتے اور مضامین رقم کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ کوئی فلسفیانہ انداز میں مسائل کا حل نکالنے، بہت سی گتھیاں سلجھانے کے اُن کے انداز سے متأثر تھا تو کسی کو مذہبی اعتقادات اور تاریخی موضوعات پر نیاز فتح‌ پوری کی مدلّل گفتگو اور مباحث میں کشش محسوس ہوتی تھی۔ نیاز فتح پوری نے اسلام کے پیغام کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہوئے عقل کا سہارا لیا اور مذہب کے بنیادی اصولوں کے مطابق تعلیمات کی تفہیم کرتے ہوئے اپنے دل کش اور نہایت متاثر کن اسلوب سے قاری تک پہنچایا۔

    ایک زمانہ تھا کہ نیاز صاحب کی نثر کا ڈنکا بجتا تھا۔ تخلیقی ادب میں افسانے ہی نہیں‌ ان کے ناولٹ اور انشائیے کے علاوہ مذہب اور سائنس کے تال میل پر ان کے مضامین، اور بعد میں اپنی تحریروں پر اعتراضات کے جوابات کا بھی بہت شہرہ ہوا۔ نیاز فتح پوری کی متنازع فیہ کتاب ’’من و یزداں‘‘ تھی۔

    نگار کے مدیر کی حیثیت سے بھی نیاز صاحب نے بڑا کام کیا۔ 1924ء کے ایک شمارۂ نگار میں ان کا ’’اہلِ مریخ سے گفتگو کا امکان‘‘ اور ’’جنگ کا نقشہ ایک صدی بعد‘‘ جب کہ 1935ء کی اشاعت میں ’’چاند کا سفر‘‘ جیسا مضمون شایع ہوا تھا اور یہ مضامین بہت مقبول ہوئے۔ یہ تحریریں ایک طرف نیاز فتح پوری کی تخلیقی صلاحیتوں کے ساتھ ان کی فکر و نظر کی بلندی اور دوسری جانب اس دور میں مصنّف کے سائنسی رجحان کا پتا دیتی ہیں۔

    نیاز صاحب کو عقلیت پسندی کے سبب اپنے دور میں سخت مخالفت اور کڑی تنقید کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ مذہبی حلقوں کی جانب سے اُن پر بگاڑ کا الزام عائد کرتے ہوئے فتاویٰ جاری کیے گئے جب کہ قدامت پسند حلقوں کی طرف سے اُن کی بھرپور مخالفت کی جاتی رہی۔

    معروف شاعر، ادیب اور کالم نگار جمیل الدّین عالی نیاز صاحب کے بارے میں لکھتے ہیں: ” فروری 1922ء میں جب علّامہ نیاز فتح پوری نے ترک زبان کی مشہور شاعرہ ”نگار بنت عثمان“ کی انقلابی شاعری سے متاثر ہو کر ”نگار“ جاری کیا تو ان کی نظر سنجیدہ علمی موضوعات پر مرکوز تھی۔ نگار کے ذریعے انہیں تخلیقی و تحقیقی قوتوں کے آزادانہ استعمال کا موقع مل گیا اور دیکھتے ہی دیکھتے افسانہ، ناول، صحافت، مقالہ نگاری، تنقید، مکتوبات نگاری اور انشا پردازی سب میں ان کا سکّہ چلنے لگا۔ اب وہ ادیب نہ رہے، ادیب ساز بھی ہو گئے اور ان کی علمی اور ادبی شخصیت اتنی وقیع اور واضح ہوگئی کہ ادبی تاریخ کی ترتیب و تدوین میں ان کا کٹر سے کٹر مخالف بھی ان کے نام کو نظر انداز نہیں کرسکتا۔ نیاز کا قلم، انیسویں صدی کی پہلی دہائی سے لے کر 1966ء کے اوائل تک کم و بیش ساٹھ سال چلتا رہا۔ جس زمانے میں ”نگار“ منظر عام پر آیا اس وقت علمی رسائل نہ ہونے کے برابر تھے اور علمی و تحقیقی مضامین لکھنے والوں کی بھی بہت کمی تھی، یہ نگار کا کمال ہ ے کہ اس نے لوگوں میں لکھنے کے شوق کو جلا دی اور اہلِ قلم پیدا کیے جن کی علمی طبقے نے بڑی پذیرائی کی۔ نگار محض ادبی جریدہ نہیں بلکہ ایک ادارہ، ایک رجحان اور ایک قدر تھا۔”

    24 مئی 1966ء کو نیاز فتح پوری انتقال کرگئے تھے۔ نیاز صاحب کا وطن یوپی کا ضلع بارہ بنکی تھا جہاں وہ 28 دسمبر 1884ء کو پیدا ہوئے۔ نیاز محمد خان ان کا نام رکھا گیا۔ مدرسہ اسلامیہ فتح پور، رام پور اور بعد میں لکھنؤ کے مشہور دارالعلوم ندوۃ العلماء سے تعلیم حاصل کی۔ شروع ہی سے ان کا رجحان علم و ادب کی جانب رہا اور غور و فکر کی عادت بھی وقت کے ساتھ پختہ ہوگئی۔ تعلیمی مدارج طے کرتے ہوئے مطالعہ اور مشاہدہ کی قوّت نے ان کو اس قابل بنا دیا وہ اپنے خیالات اور مشاہدات کو رقم کرسکیں۔ محکمۂ پولیس میں بھرتی ہوئے۔ لیکن یہ ملازمت ترک کر دی۔ 1922ء میں نگار جاری کیا جو تھوڑے ہی عرصے میں روشن خیالی کی مثال بن گیا۔ نیاز صاحب تقسیمِ ہند کے بعد 1962ء میں ہجرت کر کے کراچی آئے تھے اور اسی شہر میں وفات پائی۔

    رسالہ نقوش کے مدیر محمد طفیل لکھتے ہیں، "نیاز صاحب نے جو کچھ بھی امتیاز حاصل کیا۔ وہ اپنے قلم کے سحر سے حاصل کیا۔ لکھنے کے لیے کسی اہتمام کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ باتیں بھی کرتے جاتے ہیں۔ لکھتے بھی جاتے ہیں۔ گلوری منہ میں ہو گی۔ خوں خوں کر کے باتوں میں ساتھ دیں گے۔ ضرورت پڑی تو پیک نگل کر بولیں گے: ’’یہ آپ نے کیسے سمجھ لیا کہ میں کام میں مشغول ہوں۔‘‘ حافظہ بلا کا پایا ہے۔ ہر چیز، ہر کتاب ان کے ذہن میں منتقل ہو جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے بڑے بڑے کام صرف چند دنوں میں کر ڈالے۔ ان کے ہاں آمد ہی آمد ہے۔ آورد نام کو نہیں۔ الفاظ واقعی ہاتھ باندھے کھڑے رہتے ہیں۔ یہ کمال میں نے صرف انیس، جوش اور نیاز میں دیکھا۔ باقی سب کے ہاں کاری گری ہے۔”

    علّامہ نیاز فتح پوری نے 35 کتابیں یادگار چھوڑیں جن میں من و یزداں، نگارستان، شہاب کی سرگزشت، جمالستان اور انتقادیات مقبول ہوئیں۔ حکومتِ پاکستان نے انھیں "نشانِ سپاس” سے نوازا تھا۔

    علّامہ نیاز فتح پوری کراچی میں پاپوش نگر کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • محمد مارما ڈیوک پکتھال: برطانوی نومسلم اور ترجمۂ قرآن

    محمد مارما ڈیوک پکتھال: برطانوی نومسلم اور ترجمۂ قرآن

    ہندوستان کی تاریخ میں برطانوی دور کی اُن شخصیات کا نام بھی پڑھنے کو ملتا ہے، جنھوں نے یہاں اسلام کو بطور مذہب قبول کر کے باقی ماندہ عمر یہیں گزار دی اور یہاں کے لوگوں سے بڑی عزّت اور احترام پایا۔ قرآن مجید کے مترجم، کئی معیاری علمی، ادبی اور تحقیقی کتب کے مصنف اور مشہور صحافی مارما ڈیوک پکتھال بھی انہی میں سے ایک تھے۔

    مارما ڈیوک پکتھال کی پیدائش 1875ء میں انگلستان میں ہوئی۔ انگلستان اور یورپ کی درس گاہوں میں تعلیم پانے والے پکتھال نے بعد میں مصر، ترکی، بیروت، شام اور بیت المقدس کی سیاحت کی اور وہاں کافی عرصہ قیام کیا۔ ان ملکوں میں انھوں نے عربی زبان سے رغبت محسوس کی اور اس کی تحصیل کے بعد اسلامی کتب کا مطالعہ کرنے لگے۔ اس نے اسلام کے بارے میں ان کی معلومات میں اضافہ کیا اور وہ غور و فکر کرنے کے بعد 1914ء میں دائرۂ اسلام میں داخل ہوگئے۔

    محمد مارما ڈیوک پکتھال 1920ء میں بمبئی آئے تھے۔ صحافت ان کا پیشہ تھا۔ وہ مشہور اخبار بمبئی کرانیکل کے ایڈیٹر مقرر ہوئے اور 1924ء تک یہ ذمہ داری نبھاتے رہے۔ ادھر دکن میں انھیں چادر گھاٹ ہائی اسکول کے پرنسپل کی نشست کے لیے پیشکش کی گئی اور کہا گیا کہ اسکول ان کی غیر معمولی قابلیت اور اعلیٰ صلاحیتوں سے استفادہ کرنا چاہتا ہے تو پکتھال نے اس پیشکش کو قبول کیا۔ 1925ء میں وہ حیدرآباد دکن میں اسکول کے پرنسپل ہوکر چلے آئے اور واقعی اپنے زمانہ میں چادر گھاٹ ہائی اسکول کو ایک مثالی درس گاہ بنا دیا۔

    پکتھال کے دور کے اسکول کے ایک طالب علم کا مضمون ماہنامہ ‘سب رس’ حیدرآباد کے 1994ء کے شمارے میں شایع ہوا تھا جس میں وہ لکھتے ہیں کہ پکتھال کے مراسم مصر، ترکی اور برطانیہ کے اعلی عہدیداروں سے تھے، اسی زمانے میں وہ سول سروس کے منتخب افراد کی تربیت بھی کرتے تھے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ وہ ترجمۂ قرآن کے کام میں غرق تھے مگر حیرت ہے کہ اس مصروفیت کے باوجود وہ بلاناغہ سوائے جمعہ کی تعطیل کے، دن بھر مدرسے میں موجود رہتے۔ دوپہر کے وقفے میں نماز ظہر کی امامت بھی کرتے اور اسی گھنٹے میں اسکول کے صحن میں کچھ دیر کے لئے لڑکوں سے بے تکلف گفتگو بھی کرتے تھے۔ ان کی گفتگو میں لطیف ظرافت جھلکتی رہتی تھی۔

    بعد میں‌ پکتھال حیدرآباد میں محکمۂ نظامتِ اطلاعاتِ عامہ اور سول سروس ہاؤس کے نگراں کار بھی مقرر کیے گئے تھے۔

    قرآن پاک کا انگریزی میں ترجمہ پکتھال کا ایک کارنامہ ہے۔ حیدرآباد کی ملازمت کے دوران ترجمے کے کام کو مکمل فرصت اور یکسوئی کے ساتھ انجام دینے کے لیے ان کو پوری تنخواہ کے ساتھ دو سال کی رخصت دی گئی۔ ان کا ترجمہ 1930ء میں The Meanning of tha Glorious Koran کے نام سے بیک وقت لندن اور نیویارک سے شائع ہوا۔

    محمد مارما ڈیوک پکتھال کو ریاست حیدرآباد میں اس ترجمہ کی وجہ سے سَر آنکھوں پر بٹھایا گیا اور عظیم مترجم کے لیے ہر ممکن سہولت فراہم کی گئی۔ یہی نہیں بلکہ اس ترجمے کی تکمیل کے بعد بھی ان سے شایانِ شان سلوک روا رکھا گیا۔ ان کے انتقال کے بعد ان کی بیوہ کا دو سو پونڈ سالانہ وظیفہ تاحیات مقرر کیا گیا۔

    سر راس مسعود نے اپنی ایک تحریر میں لکھا کہ "پکتھال آج کل کی علمی دنیا میں مشاہیر میں شمار کیے جاتے ہیں۔ انھوں نے انگلستان اور یورپ کے دیگر ممالک میں تعلیم پائی ہے۔ انگریزی، جرمن، فرانسیسی اطالوی اور ہسپانوی زبانوں سے واقف ہونے کے علاوہ عربی میں بھی بہت اچھی استعداد رکھتے ہیں۔ وہ 1876ء میں پیدا ہوئے اور انھوں نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ اسلامی ممالک میں عربوں، ترکوں اور مصریوں کی صحبت میں گزارا ہے۔اسلامی ممالک کے بارے میں ان کی بہت سی تصانیف ہیں۔ انگلستان اور امریکہ کے تمام معتبر اخبارات اور رسائل میں ان کتابوں کی تعریف و توصیف کے ساتھ اس امر کا اعتراف کیا گیا ہے کہ مشرقی ممالک کے حالات اور تمدن کو سمجھنے کے لیے ان کا مطالعہ لازمی ہے۔ یہ کتابیں اس قدر مقبول ہوئی ہیں کہ ان کا ترجمہ فرانسیسی، جرمن ، دینش، ہنگرین اور روسی زبانوں کے علاوہ ایشیا کی متعدد زبانوں میں بھی ہوا ہے۔

    19 مئی 1936ء کو پکتھال وفات پاگئے تھے۔

  • ایملی ڈکنسن: خلوت پسند شاعرہ جس نے موت اور ابدیت کو موضوع بنایا

    ایملی ڈکنسن: خلوت پسند شاعرہ جس نے موت اور ابدیت کو موضوع بنایا

    ناقدین کی رائے ہے کہ انیسویں صدی میں ایملی ڈکنسن نے اپنی شاعری کے موضوعات کو برتنے میں انفرادیت کے ساتھ ساتھ ہیئت کے تجربات کیے وہ اس کی شاعری کو اگلی صدی میں بھی زندہ رکھے گا۔ ایملی ڈکنسن کو انگریزی زبان کی سب سے بڑی شاعرہ بھی تسلیم کیا جاتا ہے۔

    ایملی ڈکنسن کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ تنہائی پسند اور دروں بیں تھی۔ یہی وجہ ہے کہ اس کی نظموں‌ میں یاسیت کا رنگ گہرا ہے۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ امریکہ کی یہ عظیم شاعرہ اپنی زندگی میں سنکی مشہور تھی۔ وہ اپنے عزیز و اقارب اور محلّے داروں میں اپنی خلوت پسندی اور میل جول سے احتراز کے سبب عجیب و غریب عورت مشہور ہو گئی تھی۔ بظاہر ایملی کی تنہائی پسندی غیرمعمولی یا پریشان کُن تو نہیں‌ تھی، لیکن وہ اپنے پڑوسیوں یا رشتے داروں سے بھی بات چیت نہیں کرتی تھی بلکہ ان کا سامنا کرنے سے کتراتی تھی۔ اس کی وجہ موت کا نفسیاتی دباؤ تھا۔ ایملی ڈکنسن جواں عمری میں موت کو اپنے اور دوسرے انسانوں کے لیے ایک بڑا عفریت تصوّر کرنے لگی تھی۔ اس کی یہ ذہنی حالت ایک قریبی عزیز کی موت کے بعد دوسروں پر کھلی تھی۔ اس موقع پر انھوں نے ایملی کو شدید صدمے کی کیفیت میں ڈوبا ہوا پایا تھا۔

    ایملی ڈکنسن کی شاعری نے واقعی اس کے عہد ہی نہیں، اگلی صدی میں‌ بھی اس کے قارئین کے ذہنوں کو متاثر کیا۔ لیکن بطور شاعرہ اس کی شہرت کا سفر اس کی موت کے بعد شروع ہوا۔ ایملی ڈکنسن 10 دسمبر 1830ء کو امریکی ریاست میساچوسسٹس کے شہر ایمہرسٹ میں‌ پیدا ہوئی۔ اس کے والد ڈیوڈ ڈکنسن پیشے کے اعتبار سے وکیل اور ایمہرسٹ کالج کے ٹرسٹی تھے۔ وہ اپنے شہر کی نمایاں اور قابل و باصلاحیت شخصیت تھے۔ اگرچہ یہ خاندان مالی طور پر مستحکم نہیں تھا، اس کے باوجود والد نے اپنی اولادوں کی تعلیم و تربیت کا اہتمام کیا اور وہ بطور شہری انھیں کارآمد اور مفید بنانا چاہتے تھے۔ دراصل وہ ایک مہذّب اور اصولوں کی پاس داری کرنے والے انسان تھے اور یہی اوصاف وہ اپنے بچوں میں منتقل کرنا چاہتے تھے۔ ایملی ڈکنسن کو پرائمری کی تعلیم کے لیے قریبی اسکول میں داخل کروایا گیا اور بعد میں وہ ایمہرسٹ کی اکیڈمی میں 7 برس کے دوران دیگر مضامین کے ساتھ کلاسیکی ادب پڑھتی رہی۔ ایملی بچپن ہی سے موسیقی اور پیانو بجانے میں‌ دل چسپی لینے لگی تھی جب کہ ایک طالبہ کی حیثیت سے ادب کا مطالعہ کرنے کے بعد وہ شاعری کی جانب متوجہ ہوئی اور نظمیں لکھنے لگی۔

    ایملی اس قدر شرمیلی یا محتاط تھی کہ قریبی لوگوں پر بھی بطور شاعرہ ایک عرصہ تک نہیں کھلی۔ اسے خط کتابت کا بھی شوق تھا۔ اس نے قلمی دوستیاں کیں اور علمی و ادبی شخصیات سے مکتوب کے ذریعے رابطہ رکھا۔ اس کے باوجود زندگی میں ایملی ڈکنسن کو بطور شاعرہ بہت کم لوگ جان سکے۔ 1850ء کے اواخر میں سموئیل بولس نامی ایک صحافی اور جریدے کے مدیر سے اس کا رابطہ ہوا اور اس طرح ایملی ڈکنسن کی چند نظمیں قارئین تک پہنچیں جس نے ایملی ڈکنسن کو خوشی اور حوصلہ دیا۔ بعد میں سموئیل اپنی اہلیہ کے ساتھ ایملی ڈکنسن سے ملنے کئی مرتبہ اس کے گھر بھی آیا۔ ایملی ڈکنسن نے اسے تین درجن سے زائد خطوط بھی لکھے تھے اور لگ بھگ پچاس نظمیں‌ ارسال کی تھیں۔ ایملی ڈکسنن کی متعدد نظمیں بھی اس دور کے چند ادبی پرچوں کی زینت بنی تھیں، تاہم ان کی تعداد قابلِ‌ ذکر نہیں‌۔ 15 مئی 1886ء میں ایملی ڈکنسن کے انتقال کے بعد اس کی بہن نے نظموں کو اکٹھا کر کے کتابی شکل میں شایع کروایا اور ایملی ڈکنسن امریکہ بھر میں پہچانی گئی۔

    ایملی ڈکنسن کی اکثر نظمیں موت اور ابدیت کے موضوع پر ہیں جب کہ اپنے ارسال کردہ خطوط میں ان موضوعات کے علاوہ ایملی ڈکنسن نے جمالیات، فطرت، روحانیت اور سماجی معاملات پر اظہارِ‌ خیال کیا ہے۔

    ایملی ڈکنسن نے تا عمر شادی نہیں‌ کی۔ تعجب خیز امر یہ ہے کہ اس شاعرہ کی موت کے بعد صرف ایک ہی تصویر کئی سال تک ادبی رسائل میں اس سے متعلق مضامین کے ساتھ شایع ہوتی رہی، اور پھر 1995ء میں‌ اس کی دوسری تصویر سامنے آئی۔ کسی مداح نے ایک نیلامی کے دوران ایملی ڈکنسن کو پہچان کر اس کی وہ تصویر حاصل کرلی تھی۔ لیکن وہ دس سال تک اسے منظرِ عام پر نہیں لایا۔ بعد میں‌ ثابت ہوا کہ وہ ایملی ڈکنسن ہی کی تصویر ہے۔ اس میں وہ اپنی ایک سہیلی کے ساتھ موجود ہے۔ اس وقت ایملی ڈکنسن 17 برس کی تھی۔