Tag: یوم وفات

  • حسرت موہانی: رئیس المتغزلین کا تذکرہ

    حسرت موہانی: رئیس المتغزلین کا تذکرہ

    دورِ جدید کے غزل گو شعراء میں حسرت کو جو مقام حاصل ہوا، وہ کسی اور کے حصّے میں نہیں آیا۔ حسرت کے کلام میں تغزل کی فراوانی نے انھیں رئیس المتغزلین مشہور کیا۔ وہ ایک جرات مند سیاست داں اور صحافی بھی تھے اور تحریکِ آزادی میں ان کی خدمات اور عملی کاوشیں بھی ناقابلِ فراموش ہیں۔

    حسرت کا اصل نام سید فضل الحسن تھا۔ ان کا تخلص حسرت تھا۔ حسرت کا وطن قصبہ موہان ضلع اناؤ تھا۔ 1875ء میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم حاصل کر کے علی گڑھ گئے اور وہاں سے 1903ء میں بی اے پاس کیا۔ تعلیم سے فارغ ہونے کے بعد رسالہ اُردوئے معلی نکالا اور باقاعدہ صحافت شروع کی جو ان کے لیے ایک مشن تھا۔ اس رسالہ میں ادبی مضامین کے ساتھ ساتھ سیاسی مضامین بھی ہوتے تھے اور حسرت بھی اپنے افکار کا بے باکانہ اظہار کرتے تھے۔ 1905ء میں انھوں نے آل انڈیا کانفرنس میں حصہ لیا اور اسی وقت سے وہ سودیشی تحریک کے ممبر بن گئے۔ 1907ء میں حسرت کانگریس سے علیحدہ ہوگئے۔ 1908ء میں اُردوئے معلی میں حکومت کے خلاف ایک مضمون چھاپنے کی پاداش میں قید بامشقت کی سزا ہوئی۔ دو سال قید رہنے کے بعد 1910ء میں رہا ہوئے۔ پرچہ دوبارہ جاری کیا لیکن 1904ء میں گورنمنٹ نے پھر بند کر دیا۔ مجبور ہو کر سودیشی مال کا ایک اسٹور قائم کیا۔ اسی زمانے میں جماعت احرار نے جنم لیا۔ مولانا حسرت موہانی اس کے ایک سرگرم کارکن بن گئے۔ اسی نسبت سے رئیس الاحرار بھی کہلائے۔ وہ آزادی کے بہت بڑے داعی تھے اور اپنی سیاسی سرگرمیوں اور قلم کی وجہ سے معتوب رہے۔ 1919ء میں انھیں پھر گرفتاری دینا پڑی۔ ترک موالات کی تحریک میں حصہ لینے کی وجہ سے 1922ء میں تیسری مرتبہ دو سال کے لئے قید ہوگئی۔ 1935ء میں اردوئے معلی پھر جاری کیا۔ 1936ء میں مسلم لیگ کی نظم جدید سے وابستہ ہوگئے۔ تقسیم ہند کے بعد حسرت ہندوستان ہی میں رہے اور وہاں کے مسلمانوں کا سہارا بنے رہے۔ ان کے نظریات عجیب و غریب تھے۔ ایک طرف وہ سوشلزم کے قائل تھے۔ دوسری جانب ان کی زندگی ایک مرد مومن کی زندگی تھی۔ ان کا ظاہر و باطن یکساں تھا ۔ وہ حق بات کہنے میں کبھی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتے تھے۔

    اُن کی تصانیف میں اپنے کلیات کے علا وہ دیوان غالب کی شرح بے حد مقبول ہوئی۔ مولانا حسرت موہانی کا انتقال 13 مئی 1951ء کو لکھنؤ میں ہوا۔

    نقاد اور ماہر لسانیات گوپی چند نارنگ لکھتے ہیں کہ نیاز فتح پوری نے جنوری ۱۹۵۲ء میں سات آٹھ ماہ کے اندر اندر نگار کا ’’حسرت نمبر‘‘ ان کی یاد کے شایان شان شائع کر دیا۔ نیاز نے اس نمبر کے لیے اس زمانے کی تمام بڑی شخصیتوں سے مضامین لکھوائے، مثلاً، مجنوں گورکھپوری، رشید احمد صدیقی، فراق گورکھپوری، آل احمد سرور، احتشام حسین، عبادت بریلوی، کشن پرشاد کول اور خواجہ احمد فاروقی۔ خود نیاز نے اس یادگار نمبر میں پانچ حصے قلم بند کیے اور تذکرۂ حسرت اور انتخاب کلام حسرت کے علاوہ ’’حسرت کی خصوصیات شاعری‘‘ کے عنوان سے جامع مضمون بھی لکھا۔

    واقعات جنگِ آزادی ۱۸۵۷ء کے بعد حسرت موہانی اردو شاعروں میں شاید پہلے سیاسی قیدی تھے۔ وہ واقعہ جس پر انھیں قید بامشقت کی سزا ہوئی تھی اب تاریخ کا حصہ ہے۔ ۱۹۰۸ء میں رسالہ اردوئے معلیٰ میں ایک مضمون مصر کے نامور لیڈر مصطفی کمال کی موت پر شائع ہوا جس میں مصر میں انگریزوں کی پالیسی پر بے لاگ تنقید تھی۔ یہ مضمون انگریز سرکار کی نظر میں قابل اعتراض ٹھہرا۔ بقول سید سلیمان ندوی، ’’علی گڑھ کی سلطنت میں بغاوت کا یہ پہلا جرم تھا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ علی گڑھ کالج کی حرمت کو بچانے کے لیے کالج کے بڑے بڑے ذمہ داروں نے حسرت کے خلاف گواہی دی۔ یہاں تک کہ نواب وقار الملک نے بھی مضمون کی مذمت کی۔ حسرت کو دو برس کی قید سخت کی سزا ہوئی۔ ان کا کتب خانہ اور پریس پولیس کے ظلم وستم کی نذر ہو گیا۔‘‘

    اس سانحے کا دلچسپ پہلو جس سے حسرت کے کردار کا اندازہ ہوتا ہے، یہ ہے کہ مضمون حسرت کا نہ تھا۔ مضمون پر کسی کا نام نہیں تھا۔ باوجود اصرار کے حسرت نے اس کے لکھنے والے کا نام نہیں بتایا۔

    حسرت کا یہ شعر بہت مشہور ہے

    ہے مشق سخن جاری، چکی کی مشقت بھی
    اک طرفہ تماشا ہے، حسرت کی طبیعت بھی

  • احمد سنجر: آخری سلجوق سلطان جس کی آواز پر مسلمان حکم راں اکٹھے ہوئے

    احمد سنجر: آخری سلجوق سلطان جس کی آواز پر مسلمان حکم راں اکٹھے ہوئے

    عالمِ اسلام میں سلطان احمد سنجر کو خاص اہمیت حاصل ہے اور تاریخ ان کو ’’سلطانِ اعظم‘‘ کے لقب سے یاد کرتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ زوالِ دولتِ عباسیہ کے بعد سلطان احمد سنجر نے ہی آخری مرتبہ اسلامی ریاستوں‌ کو یک جا و بہم کیا تھا۔

    سلطان سنجر کی شان و شوکت اور عظمت و سطوت بھی ضربُ المثل تھی۔ ان کی سلطنت مشرق وسطیٰ اور وسطی ایشیا کے علاقوں تک پھیلی ہوئی تھی اور عباسی اقتدار کے خاتمے کے بعد اسی کے زیرِ سایہ مسلمانانِ عالم اکٹھے ہوئے تھے۔ تاریخ دانوں کے نزدیک یہ اس سلجوق حکم راں کا وہ کارنامہ ہے جس نے عالمِ اسلام میں‌ ان کی عزّت و توقیر میں‌ اضافہ کیا۔

    سلجوقی سلطنت یا سلاجقۂ عظام دراصل 11 ویں تا 14 ویں صدی عیسوی کے درمیان ایک مسلم بادشاہت تھی اور یہ نسلاً اوغوز ترک تھے۔ سلطان سنجر اسی سلجوق خاندان میں سے چھٹے حکم راں تھے جن کا نام تاریخ میں امتیازی حیثیت میں درج ہوا۔ بعد کے برسوں میں چشمِ فلک نے سلجوقیوں کا بھی زوال دیکھا اور اسی کے ساتھ مسلم ریاستیں بھی سیاسی ابتری اور انتشار کا شکار ہوگئیں۔ یہ وہ دور تھا جس میں یورپ کی عیسائی طاقتوں نے سر اٹھایا اور مسلمانوں کی صفوں میں انتشار کا فائدہ اٹھانے کے لیے ان کے خلاف متحد ہوگئیں۔ یہاں تک کہ صلیبی جنگ شروع ہوئی اور بیتُ المقدس پر ان کا قبضہ ہوگیا۔

    سلطان سنجر کی شان و شوکت کا تذکرہ شاعرِ مشرق علّامہ اقبال نے بھی اپنی ایک نظم میں‌ کیا ہے۔ اقبال نے انھیں اپنے اشعار میں یوں‌ سراہا ہے:

    شوکتِ سنجر و سلیم تیرے جلال کی نمود!
    فقرِ جنیدؔ و با یزیدؔ تیرا جمال بے نقاب!
    عجب نہیں کہ مسلماں کو پھر عطا کر دیں
    شکوہِ سنجر و فقرِ جنیدؒ و بسطامیؒ

    8 مئی 1157ء کو سلطان احمد سنجر دنیا سے رخصت ہوگئے تھے۔ قدیم خراسان کے شہر مرو میں سلطان کا مقبرہ آج بھی موجود ہے، لیکن اب یہ علاقہ ترکمانستان کا حصّہ ہے۔ بعض تاریخی کتب میں لکھا ہے کہ 1221ء میں تولوئی خان کی سرکردگی میں منگولوں نے جب اس شہر پر حملہ کیا تو سلطان احمد سنجر کے مقبرے کو بھی نقصان پہنچا تھا۔ تاریخ کی کتب میں سلطان سنجر کی فوجی مہّمات کے بارے میں لکھا ہے کہ وہ تقریباً‌ ہر معرکہ میں فاتح ٹھہرے، اور ان کی سلطنت خراسان، غزنی اور دریا کے پار عراق، آزربائجان، آرمینیا، شام، موصل اور گرد و نواح تک پھیل گئی تھی۔ تاریخ دان ابن خلقان نے سنجر کے بارے لکھا ہے کہ وہ انتہائی طاقت ور بادشاہ تھے اور سلجوقیوں میں سب سے زیادہ نرم مزاج اور سخی تھے۔ الذہبی کہتے ہیں کہ سلطان سنجر ایک باوقار، زندہ دل، سخی اور شفقت کرنے والا سلطان تھا۔

    مؤرخین لکھتے ہیں‌ کہ منگول سپاہیوں نے سلطان کے مقبرے کو آگ لگا دی تھی، مگر اس کا بڑا حصّہ جلنے سے محفوظ رہا تھا۔ اس مزار کے طرزِ‌ تعمیر کی ایک انفرادیت اس کے 27 میٹر بلند گنبد کے اوپر تعمیر کردہ وہ بیرونی گنبد تھا جس کی وجہ سے اسے دہرے گنبد والی عمارت کہا جاسکتا ہے۔ اس کے گرد ایک مسجد، کاروان سرائے، بازار اور دیگر مقابر کے آثار بھی ملے ہیں اور اس بنیاد پر کہا جاسکتا ہے کہ قدیم دور میں یہ مقام آباد تھا اور یہاں آنے والوں کی بڑی تعداد مزار پر بھی فاتحہ خوانی کے لیے آتی ہوگی۔

    سلجوق خاندان کے اس چھٹے سلطان کا نام اور ان کے کنیت و القاب ابو الحارث، سنجر بن ملک شاہ اوّل، بن الپ ارسلان بن داؤد بن میکائیل بن سلجوق بن دقاق درج ہیں۔ وہ 1086ء میں اس دور کے عراق کے ایک علاقہ میں پیدا ہوئے تھے ان کی وفات کے بعد داؤد بن محمود سلجوقی تخت نشیں ہوا، لیکن محققین سمجھتے ہیں کہ احمد سنجر کے ساتھ ہی سلاجقہ کا زور بھی ٹوٹ گیا تھا اور ان کی حکومت جاتی رہی تھی۔

  • سنتوش کمار کے پان کی ڈبیا اور چھالی الائچی کا بٹوا

    سنتوش کمار کے پان کی ڈبیا اور چھالی الائچی کا بٹوا

    اب ایک بالکل مختلف قسم کی صبح یاد آ رہی ہے۔ صبح ہی صبح گھر سے نکلا اور جہاز میں جا بیٹھا۔ کشور ناہید ہم سفر ہیں۔ یہ فلموں کا چکر ہے۔

    اس زمانے میں کشور ناہید اور میں دونوں ہی فلم سنسر بورڈ کے رکن تھے۔ اس واسطے سے مجھے بس ایک ہی شخصیت اس وقت یاد آرہی ہے، سنتوش کمار، کہ وہ بھی ان دنوں اس بورڈ کے رکن تھے اور جو گاڑی انہیں لینے جاتی تھی وہ رستے میں سے مجھے بھی بٹھا لیتی تھی۔ میں گاڑی میں بیٹھا اور سنتوش کمار نے پان کی ڈبیا کھولی۔ کس سلیقہ اور محبت سے پان پیش کرتے تھے۔ میں نے پان ناصر کے ساتھ بہت کھائے تھے۔ وہ زمانہ گزر گیا تو پان کھانا ہی چھوڑ دیا۔ اب سنتوش کمار کی صحبت میں پھر پان کھانے شروع کر دیے تھے، بلکہ بہت سی فلمیں تو ایسی ہوتی تھیں کہ اگر سنتوش کمار کی پانوں کی ڈبیا اور چھالی الائچی کے بٹوے کا سہارا نہ ہوتا تو پتا نہیں ہمارا کیا حال ہوتا۔ کیا باغ و بہار آدمی تھے اور کیسے بانکے سجیلے۔

    میں نے شروع میں انہیں اس وقت دیکھا تھا جب 1948ء کے اوائل میں مسعود پرویز کی فلم میں جس کی کہانی منٹو صاحب نے لکھی تھی، وہ ہیرو کا رول ادا کر رہے تھے اور منٹو صاحب کہتے تھے کہ یہ نوجوان پاکستان کا دلیپ کمار بنے گا یا اب دیکھ رہا تھا، جب وہ اداکاری کے کاروبار سے فارغ ہو چکے تھے، مگر اسی طرح سرخ و سفید۔ وہی سفید براق کرتا پاجاما، قریب سے اب دیکھا احساس ہوا کہ بہت باغ و بہار شخصیت ہیں۔ فلم کے بارے میں وہ کہہ دیتے کہ ہاں تو پھر میں بھی ان کی ہاں میں ہاں ملا دیتا۔ جب ہی تو فلم پاس، فیل کے سلسلہ میں سفارش میرے پاس کم کم پہنچتی تھی۔ انہیں پتا تھا کہ جو دو پنچوں سنتوش کمار اور کشور ناہید کی رائے ہوگی وہی اس شخص کی بھی رائے ہو گی۔ میں اس کے سوا اور کر بھی کیا سکتا تھا۔ اصل رائے کے اظہار کی وہاں گنجائش کہاں تھی۔ اس حساب سے تو مشکل ہی سے کوئی فلم اس لائق نکلتی کہ اسے پاس کیا جا سکے۔

    (فکشن نگار اور کالم نویس انتظار حسین کی کتاب ”چراغوں کا دھواں“ سے اقتباس)

  • جوزف گوئبلز: ہٹلر کا وہ ساتھی جو جھوٹ اور افواہیں پھیلانے کا ماہر تھا

    جوزف گوئبلز: ہٹلر کا وہ ساتھی جو جھوٹ اور افواہیں پھیلانے کا ماہر تھا

    جھوٹ کو سچ اور سچ کو جھوٹ میں بدل دینے میں گوئبلز کو گویا ملکہ حاصل تھا وہ جرمنی میں نازی دور میں ہٹلر کا ‘وزیر برائے پروپیگنڈا’ مشہور ہوا۔ گوئبلز نے بھی ہٹلر کی موت کے اگلے روز اپنی زندگی ختم کر لی تھی۔

    یہ یکم مئی 1945ء کی ایک شام تھی۔ ایک ڈاکٹر نے گوئبلز کے چھے بچّوں، ہیلگا، ہلڈا، ہیلمٹ، ہولڈے، ہیڈا اور ہیڈے کو مارفین دی تاکہ انھیں نیند آجائے۔ ان بچوں کی عمریں چار سے 12 سال کے درمیان تھیں۔ بعد میں گوئبلز کی بیوی نے ہائیڈروجن سائینائڈ کے قطرے ان بچّوں کے حلق میں اتار دیے اور وہ سب ابدی نیند سو گئے۔ گوئبلز ایک بنکر میں‌ اپنی بیوی میگڈا کا منتظر تھا۔ یہ کام انجام دے کر وہ بنکر پہنچی اور رات کو ساڑھے آٹھ بجے اس جوڑے سائینائڈ کا کیپسول چبا لیا اور اپنے انجام کو پہنچ گئے۔

    ہٹلر کی کام یابیوں میں گوئبلز کے پروپیگنڈے کا بڑا دخل تھا۔ 30 اپریل کو ہٹلر کی موت کے بعد اس کے وزیر گوئبلز کی بیوی میگڈا گوئبلز نے اپنے پہلے شوہر سے پیدا ہونے والے اپنے بیٹے کو ایک خط ارسال کیا جس میں بتایا گیا تھا کہ وہ اپنے موجودہ شوہر یعنی گوئبلز کے ساتھ اپنی زندگی کا خاتمہ کرنے جارہی ہے جس سے قبل وہ اپنے بچّوں کو بھی زہر دے گی۔

    سیاست اور جمہوریت کی تاریخ‌ میں جوزف گوئبلز بہت بدنام ہے۔ وہ ایک ایسا بااثر جرمن وزیر تھا جس نے نازی دور میں‌ جرمنی کے عوام کو ہٹلر کی حکومت اور اس کی پالیسیوں کی حمایت کرنے پر قائل کیا۔ گوئبلز نے کئی جھوٹ گھڑے اور مخصوص فضا بنانے کے لیے بے بنیاد باتیں‌ مشہور کیں۔ وہ باتیں جن کی کوئی حقیقت نہ تھی۔ وہ ہٹلر کو جرمن قوم کا نجات دہندہ ثابت کرنے کے لیے فرضی واقعات اور ایسی باتیں مشہور کرتا تھا جو لوگوں کے ذہن پر ہٹلر اور نازی حکومت کا اچھا اثر چھوڑیں اور حکومت کے من چاہے، ظالمانہ اقدامات پر اندرونِ ملک بے چینی اور اضطراب جنم نہ لے۔ جوزف گوئبلز نے عوام میں یہودیوں کے خلاف نفرت کو بڑھایا جب کہ جرمنوں میں ہٹلر کی قیادت پر فخر اور بحیثیت قوم ان میں دوسری اقوام پر برتری کا احساس اجاگر کیا۔

    جوزف گوئبلز 29 اکتوبر 1897 کو فریڈرک گوئبلز کے گھر پیدا ہوا۔ اس کا باپ کیتھولک عقیدے کا حامل تھا اور ایک فیکٹری میں بطور کلرک کام کرتا تھا۔ گوئبلز کی ماں کا نام کیتھرینا ماریا اوڈن تھا۔ گوئبلز اس جوڑے کی پانچ اولادوں میں‌ سے ایک تھا۔ بچپن میں پولیو وائرس سے متأثر ہونے کے بعد گوئبلز لنگڑا کر چلنے پر مجبور تھا۔ ابتدائی تعلیمی مراحل طے کرنے کے بعد گوئبلز نے 1920 میں ہائیڈلبرگ یونیورسٹی سے جرمن ادب کی تعلیم مکمل کی۔ وہ قوم پرست نوجوان تھا۔ زمانۂ طالب علمی میں سوشلسٹ اور کمیونسٹ فکر نے گوئبلز کو جکڑا تو جوانی میں وہ اینٹی بورژوا ہوگیا، لیکن نازی پارٹی میں شمولیت اختیار کرنے کے بعد اس کے اندر قومی تفاخر اور جرمن ہونے کے ناتے احساسِ برتری پیدا ہوگیا۔ کہا جاتا ہے کہ اس سے قبل وہ اپنے یہودی اساتذہ کی بڑی قدر کرتا تھا اور اس کے دل میں‌ کسی کے لیے نفرت نہیں‌ تھی۔ پہلی عالمی جنگ چھڑی تو گوئبلز کو فوج میں بھرتی ہونے سے بچ گیا کیوں کہ وہ پولیو کا شکار تھا۔ 1931ء میں اس کی شادی میگڈا رِٹشل نامی ایک امیر گھرانے کی لڑکی سے ہوگئی اور وہ چھے بچّوں کا باپ بنا۔

    نازی پارٹی کا رکن بن کر جوزف گوئبلز نے اپنی صلاحیتوں اور نازی کٹّر پن کی وجہ سے اعلیٰ‌ قیادت کی توجہ حاصل کر لی۔ وہ ایک اعلیٰ پائے کا مقرر تھا جس نے پارٹی میں اس کی ترقی کا راستہ بنایا۔ گوئبلز کو کئی اہم ذمہ داریاں سونپی گئیں اور وہ ان سے بخوبی نمٹتا رہا۔ اس کی مستقل مزاجی، لگن اور صلاحیتوں نے اسے ہٹلر کے قریب کر دیا۔ نازی حکم راں گوئبلز کی تحریر کردہ تقاریر عوام کے سامنے پڑھنے لگا اور اس کی مقبولیت بڑھتی چلی گئی۔ سچ جھوٹ، صحیح اور غلط سے ہٹلر کو کچھ غرض نہ تھی بلکہ وہ پراپیگنڈا پر گوئبلز کی گرفت اور فن تقریر نویسی میں اس کی مہارت سے بہت متاثر تھا۔ یہی وجہ تھی کہ 1926 میں ہٹلر نے گوئبلز کو برلن میں نازی پارٹی کا ضلعی راہ نما مقرر کر دیا۔ جب نازی برسرِ اقتدار آئے تو ہٹلر نے ایک وزارت قائم کی جسے ’چیمبر آف کلچر‘ کی شکل میں عامل بناتے ہوئے گوئبلز کو اس کا سربراہ بنا دیا۔ یہ وزارت پریس اور ادب و فنون کے شعبہ جات کو مکمل طرح‌ سے کنٹرول کرتی رہی اور اسی کے سہارے عوام کی ذہن سازی کی جانے لگی۔ گوئبلز کی کوششوں سے ملک میں نازی ازم کو فروغ اور پذیرائی نصیب ہوئی جب کہ یہودیوں‌ سے نفرت زور پکڑ گئی۔ گوئبلز نے ریڈیو اور فلم کے ذریعے ہٹلر کو نجات دہندہ بنا کر پیش کیا اور اپنی مخالف جماعتوں اور گروہوں کے خلاف اور ہٹلر کے حق میں رائے عامّہ ہموار کی۔

    یہ گوئبلز ہی تھا جس نے 1932ء میں ہٹلر کی صدارتی انتخابی مہم جدید انداز سے چلائی۔ لیکن ہٹلر انتخابات ہار گیا۔ اس کے باوجود جرمن پارلیمان میں نازی پارٹی کی نمائندگی میں اضافہ ہوا اور وہ سب سے بڑی جماعت بن گئی۔ جرمنی میں مخلوط حکومت کے قیام کے بعد ہٹلر کو چانسلر مقرر کیا گیا اور 35 سال کی عمر میں گوئبلز کابینہ میں سب سے کم عمر وزیر کے طور پر شامل تھا۔

    1937ء اور 1938ء میں گوئبلز کا اثر و رسوخ مختلف وجوہات کی بنا پر کچھ کم ہو گیا تھا۔ لیکن وہ آخری وقت تک ہٹلر کے ساتھ رہا۔ ہٹلر اور اس کا دستِ راست سمجھا جانے والا گوئبلز اپنی زندگی کا خاتمہ کرکے اس دنیا کے کئی راز ہمیشہ کے لیے منوں‌ مٹی تلے اپنے ساتھ لے گئے۔

  • محمود غزنوی: ایک بُت شکن کا تذکرہ

    محمود غزنوی: ایک بُت شکن کا تذکرہ

    غزنی شہر سلطان محمود کی جائے پیدائش ہے جو موجودہ افغانستان کے شمال مشرقی حصے میں واقع ہے۔ اپنے آبائی شہر کی نسبت سے وہ محمود غزنوی مشہور ہوئے جنھیں برصغیر کی تاریخ میں بُت شکن کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے۔

    ہندوستان میں سلطان محمود غزنوی کا نام سومناتھ کے مندر پر لشکر کشی اور سترہ حملوں کی وجہ سے مشہور بھی ہے اور بھارت میں متنازع بھی ہندوؤں کے نزدیک سلطالن کی فوج نے مندر کو برباد کرنے کے بعد لوٹ مار کی اور بڑا خزانہ اپنے ساتھ لے گئے۔ کہا جاتا ہے کہ سلطان محمود غزنوی نے مندر 1026ء میں دروازے نکال لیے تھے اور ان کو غزنی لے آئے تھے۔ نریندر مودی کے دور میں بھارت میں انتہا پسندی اور مذہب کی بنیاد پر نفرت اور تشدد عام ہوگیا ہے اور جہاں مسلمانوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے، وہیں ہزاروں سال پرانی تاریخ کو مسخ کرنے اور مسلمانوں حکم رانوں کی کردار کشی کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ متعصب ہندو مصنفین سلطان محمود غزنوی کو لٹیرا اور غارت گر لکھتے ہیں اور حکومت ہندوستان کے عوام میں غلط فہمیاں پیدا کر کے تاریخ کو اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل لیے لیے بدلنا چاہتی ہے۔

    محمود غزنوی کو تاریخ کا پہلا حکم راں کہا جاتا ہے جنھوں نے اپنے لیے سلطان کا لفظ استعمال کیا۔ مؤرخین نے انھیں سلطنتِ‌ غزنویہ کا پہلا مطلق العنان اور آزاد حکم راں بھی لکھا ہے۔

    محمود کا دورِ سلطانی 999ء سے شروع ہوتا ہے جو 1030ء میں ان کی وفات پر تمام ہوا۔ محمود غزنوی ایک بیماری میں مبتلا ہونے کے بعد 30 اپریل کو انتقال کرگئے تھے۔

    برصغیر میں مسلمانوں کی فتوحات کے ابتدائی دور کی بات ہو تو سلطان محمود غزنوی کا نام ضرور لیا جاتا ہے۔ اس میں سومناتھ میں ہندوؤں کے مقدس اور عظیم معبد پر حملہ ایک بڑی کارروائی تھی۔ دوسری طرف محمود غزنوی مثالی مسلمان حکم راں اور فاتح کے طور پر نظر آتے ہیں جن کے دربار میں علم و فضل کا بڑا چرچا تھا اور وہ قابل اور باصلاحیت شخصیات پر عنایات کرتے رہے۔ اسی سلطان کو اپنے ایک غلام ایاز کی وجہ سے بھی شہرت ملی۔ محمود و ایاز کے کئی واقعات ہم کو بصورتِ حکایت پڑھنے کو ملتے ہیں۔ تاہم تاریخ کی نہایت معتبر اور مستند کتب کے علاوہ ان سے منسوب اکثر مشہور قصّوں پر یقین نہیں کیا جاسکتا۔ البیرونی جیسی علمی شخصیت بھی سلطان کے دربار سے وابستہ رہی اور اسے سلطان کی علم دوستی سے جوڑا جاتا ہے۔

    سلطان محمود غزنوی اپنے باپ سبکتگین کی وفات کے بعد تخت نشین ہوئے۔ اقتدار میں آکر اپنی سلطنت کو وسعت دینے اور اس کے استحکام کے لیے کئی فوجی مہمّات انجام دیں اور زیادہ تر معرکوں میں کام یابی نے ان کے قدم چومے۔ سلطان نے غیرمسلم ریاستوں کے ساتھ ان علاقوں پر بھی لشکر کشی کی جہاں حاکم مسلمان تھے۔ یہ ان کے سلطنت کی توسیع کے عزم کو ظاہر کرتا ہے۔ سلطان نے غزنی کے ایک طرف ‘کاشغر کی ایل خانی حکومت کو، دوسری طرف خود اپنے آقا سانیون کی سلطنت، تیسری طرف ویلمیوں اور طبرستان کی حکومت آل زیاد کو مشرقی سمت میں غوریوں کی سرزمین کو جن میں سے کچھ مسلمان ہو چکے تھے، پھر اسی مشرقی سمت میں ملتان اور سندھ کی حکومتوں کو، لاہور اور ہندوستان کے بعض دوسرے راجاﺅں کی حکومت کو ختم کر کے غزنی میں اپنے اقتدار کو عظمت اور دوام بخشا۔ تاریخ بتاتی ہے کہ سلطنتِ غزنوی شمال مغربی ایران سے لے کر برصغیر میں پنجاب تک، ماوراء النہر میں خوارزم اور مکران تک پھیلی ہوئی تھی۔ محمود کی آخری مہم 1027ء میں سندھ کے کنارے جاٹ قبائل کے خلاف تھی اور اس کے بعد ان کی فوج نے ہندوستان کا رخ نہیں کیا۔ بعض کتابوں میں لکھا ہے کہ آخری مرتبہ سلطان نے ایرانی علاقے رے میں فتح حاصل کی تھی۔

    محمود کی نجی زندگی کے بارے میں بہت کم معلومات ملتی ہیں تاہم ان کا نام اکثر ان کے القابات کے ساتھ یمین الدّولہ ابو القاسم محمود ابن سبکتگین المعروف محمود غزنوی لکھا جاتا ہے۔ محمود غزنوی کا سنہ پیدائش 971ء ہے۔ انھیں خدا نے دو بیٹوں سے نوازا تھا جن میں ایک کا نام محمد اور دوسرے کا نام مسعود تھا۔ سلطان محمود غزنوی کا مقبرہ افغانستان کے صوبے غزنی میں ہے۔

  • وہ اردو فلم جس کا ٹائٹل ہی مزاحیہ اداکار منور ظریف کے نام پر رکھا گیا

    وہ اردو فلم جس کا ٹائٹل ہی مزاحیہ اداکار منور ظریف کے نام پر رکھا گیا

    منور ظریف کا نام پاکستانی فلموں کے مشہور کامیڈین کے طور پر لیا جاتا ہے جو بے مثال شہرت اور مقبولیت کے حامل رہے۔ منور ظریف نے ابتدائی دور ہی میں اپنی بے ساختہ پرفارمنس اور چہرے کے تاثرات سے شائقین کو اپنا گرویدہ بنا لیا تھا اور وہ مقبول ترین مزاحیہ اداکاروں میں شامل ہوئے۔

    منور ظریف کی آج برسی منائی جا رہی ہے اور اس مناسبت سے ہم اُس فلم کا تذکرہ کریں گے جو اپنے ٹائٹل کی وجہ سے پاکستان کی تاریخ کی واحد فلم کہی جاسکتی ہے جسے دو مزاحیہ اداکاروں‌ کے نام سے ریلیز کیا گیا۔ یہ اداکار تھے رنگیلا اور منور ظریف۔ فلم کا نام ’’رنگیلا اور منور ظریف‘‘ تھا۔ نذر آرٹ پروڈکشنز کے بینر تلے عکس بند ہونے والی اس فلم کو شباب کیرانوی نے ہدایت کار نذر شباب اور موسیقار ایم اشرف کے ساتھ مل کر بنایا تھا۔ فلم میں صاعقہ اور شائستہ قیصر بالترتیب ان دونوں کے مقابل ہیروئن تھیں اور دیگر فن کار اورنگ زیب، ممتاز، نذر، آشا پوسلے، ساقی، نجمہ محبوب، اسلم پرویز اور دیگر شامل تھے۔

    یہ مزاحیہ اور نغماتی فلم لاہور پنجاب سرکٹ میں 30 نومبر 1973ء کو ریلیز ہوئی، جب کہ کراچی سندھ سرکٹ میں 5 جنوری 1974ء کو اسکرین کی زینت بنی۔ پورے ملک میں اس فلم نے باکس آفس پر خوب بزنس کیا۔ اس میں بھی رنگیلا اور منور ظریف کی کامیڈی سے شائقین بہت محظوظ ہوئے۔ منور ظریف نے اس فلم کی کہانی کے تناظر میں ایک ڈبل رول خان بہادر اشتیاق علی کا نبھایا۔ باقی پوری فلم میں اُن کے کردار کا نام منور ظریف ہی تھا۔ یہ وہ فلم تھی جس سے ثابت ہوا کہ اس زمانے میں ان اداکاروں کے نام پر فلمیں بزنس کرتی تھیں۔

    اداکار منور ظریف 1976ء میں آج ہی کے دن انتقال کر گئے تھے۔ منور ظریف 2 فروری 1940ء کو لاہور کے علاقے قلعہ گجر سنگھ میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے فلم اونچے محل سے اپنے مزاحیہ فلمی کیریئر کا آغاز کیا تھا، لیکن اس فلم کی نمائش سے پہلے ان کی ایک اور فلم ڈنڈیاں ریلیز کردی گئی تھی۔ یوں اسی کو منور‌ ظریف کی پہلی فلم کہا جاتا ہے۔ منور ظریف نے پنجابی اور چند اردو فلموں میں بھی کام کیا۔ اداکار منور ظریف کا فلمی کیریئر 15 سال پر محیط رہا جس میں انھوں نے ساڑھے تین سو فلمیں کیں۔ اداکار کی پہلی سپر ہٹ فلم ہتھ جوڑی تھی۔ منور ظریف کی مقبولیت اور فلمی دنیا میں‌ ان کی اہمیت کا اندازہ اسی بات سے کیا جاسکتا ہے کہ ایک تو فلم کا ٹائٹل ان کے نام پر تھا اور دوسرا فلم سازوں نے ان کی شخصیت کے مطابق فلمی سین اور مکالمے لکھوانے کا سلسلہ شروع کر دیا تھا۔

    بنارسی ٹھگ، جیرا بلیڈ، رنگیلا اور منور ظریف، نوکر ووہٹی دا، خوشیاں، شیدا پسٹل، چکر باز، میرا ناں پاٹے خاں، حکم دا غلام، نمک حرام ان کی کام یاب ترین فلموں میں سے ایک ہیں۔ منور ظریف کی آخری فلم لہو دے رشتے تھی جو 1980ء میں ریلیز ہوئی۔

    منور ظریف لاہور کے ایک قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • یاد نگاری: تھیٹر اور ڈرامہ نویسی کو بامِ‌ عروج پر پہنچانے والے آغا حشر

    یاد نگاری: تھیٹر اور ڈرامہ نویسی کو بامِ‌ عروج پر پہنچانے والے آغا حشر

    ہندوستان میں‌ تھیٹر کی ابتدا اور اردو ڈرامہ کی مقبولیت جب بھی موضوعِ بحث بنے گی، آغا حشر کاشمیری کا نام بھی ضرور لیا جائے گا۔ وہ اپنے زمانے کے مشہور ڈرامہ نویس اور بہترین فن کار تھے جنھوں نے طبع زاد کے ساتھ بدیسی ڈراموں کو بھی اردو کے قالب میں ڈھال کر تھیٹر پر پیش کیا۔

    آغا حشر کاشمیری کو ہندوستانی شیکسپئر بھی کہا جاتا ہے۔ اس دور میں تھیٹر ہر خاص و عام کی تفریح کا بڑا ذریعہ تھا جس کے لیے آغا حشر کاشمیری نے طبع زاد کھیلوں کے ساتھ کئی غیر ملکی ادیبوں کے ڈراموں کے تراجم کیے اور انھیں ڈرامہ کے قالب میں ڈھالا۔ ان کی کہانیاں عوام میں بے حد مقبول ہوئیں۔ آغا صاحب کے تحریر کردہ مکالمے نہایت جان دار ہوتے تھے۔ آغا حشر تقسیم ہند سے کئی سال پہلے 28 اپریل 1935ء کو دارِ بقا کو کوچ کرگئے تھے۔ انھیں لاہور کے میانی صاحب کے قبرستان میں سپردِ‌ خاک کیا گیا۔

    امرتسر میں آغا حشر کی پیدائش یکم اپریل 1879 کو ہوئی۔ آغا حشر کا اصل نام محمد شاہ تھا۔ نوعمری میں انھیں تھیٹر دیکھنے اور ڈرامے پڑھنے کا شوق ہو گیا اور ایک وقت آیا جب وہ خود بھی لکھنے کی طرف مائل ہوئے۔ ان کی ابتدائی کہانیوں سے متاثر ہوکر بمبئی کے الفریڈ تھیٹریکل کمپنی نے بطور ڈرامہ نویس ان کی خدمات مستعار لے لیں۔ آغا حشر نے اپنے قلم کو اس کمپنی کے لیے متحرک رکھا اور پھر 1910 میں انھوں نے سرمایہ لگا کر اپنی تھیٹریکل کمپنی قائم کرلی۔ وہ کہانی اور مکالمہ نویسی میں‌ مہارت پیدا کرچکے تھے اور اب اپنے ڈراموں کے ہدایت کار بھی بن گئے۔ اس وقت تک ان کی شہرت اور مقبولیت ہندوستان بھر میں پھیل چکی تھی اور ان کا شمار بڑے ڈرامہ نگاروں میں کیا جانے لگا تھا۔

    آغا صاحب کی طبع زاد کہانیوں اور ڈراموں کو شائقین نے اتنا سراہا کہ انھیں ایک سے زائد مرتبہ تھیٹر پر پیش کیا گیا۔ ہر بار بڑی تعداد میں‌ لوگوں نے تھیٹر دیکھا اور آغا حشر کی تعریف کی۔ وہ ایسا دور تھا جب تھیٹر پر معاشرتی مسائل اور سماجی رویوں کی تمثیل نگاری کو بہت پسند کیا جاتا تھا۔ آغا حشر نے ’یہودی کی لڑکی‘ اور ’رستم و سہراب‘ جیسے یادگار ڈرامے لکھے جنھیں‌ شائقین نے بے حد پسند کیا جب کہ ناقدین بھی داد دیے بغیر نہیں‌ رہ سکے اور ان ڈراموں کو اردو ادب میں‌ خاص اہمیت حاصل ہوئی جس پر آج بھی مقالہ جات لکھے جاتے ہیں اور آغا حشر کے فن کو سراہا جاتا ہے۔

    ڈرامہ نویسی کے ساتھ آغا حشر نے بطور شاعر بھی شہرت پائی۔ ان کی شاعری کو اپنے وقت کے مشہور شعرا نے سراہا ہے۔ ان کا ایک شعر ملاحظہ کیجیے۔

    سب کچھ خدا سے مانگ لیا تجھ کو مانگ کر
    اٹھتے نہیں ہیں ہاتھ مرے اس دعا کے بعد

    ان کے ایک ہم عصر چراغ حسن حسرت نے اپنے شخصی خاکوں کی کتاب مردمِ‌ دیدہ میں‌ لکھا ہے: یہ جس زمانے کا ذکر ہے، ہندوستان میں فلموں کا رواج نہیں تھا۔ جو کچھ تھا تھیٹر ہی تھیٹر تھا اور اس دنیا میں آغا حشر کا طوطی بول رہا تھا۔ یوں تو اور بھی اچھے اچھے ڈراما آرٹسٹ موجود تھے۔ احسن، بیتاب، طالب،مائل، سب کے سب لنکا کے باون گزے تھے لیکن آغا کے سامنے بونے معلوم ہوتے تھے۔

    وہ ہر قسم کی کتابیں پڑھتے تھے۔ ادنیٰ قسم کے بازاری ناولوں، اخباروں او رسالوں سے لے کر فلسفہ اور مابعدالطبیعات کی اعلیٰ تصانیف تک سب پر ان کی نظر تھی۔ بازار میں چلتے چلتے کتابوں کی دکان نظر آگئی۔ کھڑے ہوگئے۔ اچھی اچھی کتابیں چھانٹ کے بغل میں دبائیں اور چل کھڑے ہوئے۔ راستہ میں کسی کتاب کا کوئی گرا پڑا ورق دکھائی دیا تو اسے اٹھا لیا اور وہیں کھڑے کھڑے پڑھ ڈالا۔ نوکر بازار سے سودا سلف لے کر آیا ہے، بنیے نے اخباروں اور کتابوں کے اوراق میں پڑیاں باندھ کے دی ہیں۔ یکایک آغا صاحب کی نظر پڑگئی۔ نوکر سے کہہ رہے ہیں کہ پڑیا خالی کر کے لاؤ۔ یہ بڑے کام کی چیز معلوم ہوتی ہے مجھے اس پر شبلی کا نام لکھا نظر آیا ہے۔ ان کا حافظہ بہت اچھا تھا۔ ایک مرتبہ کوئی کتاب پڑھ لیتے تھے تو اسے دوسری مرتبہ دیکھنے کی ضرورت نہیں رہتی تھی۔ یہ اسی مطالعہ کی برکت تھی کہ ان کی معلومات پر لوگوں کو حیرت ہوتی تھی۔

  • مرزا فرحت اللہ بیگ:‌ حسنِ بیان اور شگفتگی ان کی تحریروں کا خاصّہ ہیں

    مرزا فرحت اللہ بیگ:‌ حسنِ بیان اور شگفتگی ان کی تحریروں کا خاصّہ ہیں

    مرزا فرحت اللہ بیگ کی وجہِ شہرت ان کی مزاح نگاری ہے، لیکن وہ ایک ایسے ادیب بھی تھے جن کے قلم نے شان دار شخصی خاکے، ادبی تذکرے اور بہت واقعات سے بھی جمع کیے جو ہندوستانی تہذیب و ثقافت کی یاد تازہ کرتے ہیں۔ آج مرزا صاحب کی برسی ہے۔

    مرزا فرحت اللہ بیگ کی تحریروں میں طنز کا عنصر کم ہے، بلکہ انھوں نے جہاں بھی طنزیہ انداز اپنایا ہے، وہاں حسبِ ضرورت مزاح کا سہارا بھی لیا ہے۔ مرزا فرحت اللہ بیگ کی تحریروں کی مقبولیت کی ایک وجہ یہ بھی رہی کہ ان کے طنز میں شدت نہیں ہے۔ تقسیمِ ہند سے چند ماہ قبل 27 اپریل 1947ء کو مرزا صاحب دنیا سے رخصت ہوگئے تھے۔

    انشا پرداز اور ادیب مرزا فرحت اللہ بیگ نے خالص ادبی تحریروں کے علاوہ مختلف موضوعات مثلاً تاریخ و سوانح میں بھی طبع آزمائی کی اور ان میں بھی وہ اکثر جگہ مزاح سے کام لیتے ہیں۔ مرزا صاحب کے تین مضامین ان کی خاص پہچان ہیں جو اس دور میں بعنوان نذیر احمد کی کہانی، کچھ میری کچھ ان کی زبانی، دہلی کی آخری شمع (ایک مشاعرہ) اور پھول والوں کی سیر شایع ہوئے تھے۔ تاریخِ اردو ادب میں‌ مرزا فرحت اللہ بیگ کے بارے میں لکھا ہے کہ وہ خاکہ نگار کی حیثیت سے بہت مشہور ہیں اور ان خاکوں کو ہر دل عزیز بنانے میں مرزا کی فطری ظرافت کو بہت دخل ہے۔ انھوں نے مختلف موضوعات پر قلم اٹھایا۔ تنقید، افسانہ، سوانح، سیرت، معاشرت و اخلاق کی طرف انھوں نے توجہ کی لیکن ان کی اصل شہرت ظرافت نگاری ہے۔

    مرزا فرحت اللہ بیگ کا عہد ہندوستان کی تاریخ کا عبوری دور تھا۔ تہذیبی تصادم کا یہ دور جس میں 1857ء نقطۂ عروج کی حیثیت رکھتا ہے، زوال، انحطاط، مایوسی، محرومی اور احساسِ شکست کا آئینہ دار بھی تھا اور غیرملکی اقتدار کا مرقع بھی۔ اسی عہد میں سیاسی، سماجی، ملی اور ادبی تحریکات کی نشو و نما بھی ہوئی اور اسی دور میں دماغوں سے قدامت کا رنگ بھی چھوٹنا شروع ہوا۔ اسی عہد میں قدیم و جدید کی کشمکش اپنی انتہا کو پہنچی اور آخرکار قدیم تہذیب، قدیم علوم اور قدیم اندازِ فکر کو شکست تسلیم کرنا پڑی۔ معاشرے نے کروٹ بدلی اور تمدن کے ایک شاندار دور کا خاتمہ ہو گیا۔

    مرزا فرحت اللہ بیگ نے ہندوستان پر انگریزوں کے قبضے اور جنگِ آزادی کی ناکامی کے بعد ستمبر 1883ء میں دہلی میں آنکھ کھولی تھی۔ تاریخِ اردو ادب میں‌ لکھا ہے کہ ان کے اجداد شاہ عالم ثانی کے عہد میں ترکستان سے آئے اور دہلی کو اپنا وطن بنایا تھا۔ یہاں کالج کی تعلیم کے دوران مولوی نذیر احمد سے ملاقات ہوئی۔ ان سے نہ صرف عربی زبان و ادب کی تعلیم حاصل کی بلکہ ان کی شخصیت کا گہرا اثر بھی قبول کیا۔ تعلیم سے فارغ ہونے کے بعد حیدرآباد دکن گئے تھے اور وہاں سے معاش کا خوب انتظام ہوا۔ وہیں‌ وفات پائی اور دفن بھی دکن کی مٹی میں‌ ہوئے۔

    1905 میں بی اے کا امتحان پاس کرکے 1907 تک دہلی میں مقیم رہے۔ 1908 میں وہ حیدرآباد (دکن) چلے گئے جہاں گورنمنٹ اسکول چادر گھاٹ کی مددگاری پر پہلا تقرر ہوا۔ پھر ہائیکورٹ کے مترجم ہوگئے اور اس کے بعد اسپیشل مجسٹریٹ، سیشن جج اور آخر میں ہائیکورٹ کے انسپکٹنگ آفیسر بنے جو ہائیکورٹ کے جج کے مساوی عہدہ تھا۔

    ان کی تصنیف ’’دلی کا آخری یادگار مشاعرہ‘‘ مرقع نگاری کا عمدہ نمونہ ہے۔ مولوی نذیر احمد کو انہوں نے بہت قریب سے دیکھا اور بہت برسوں دیکھا۔ اسی قرابت اور نذیر احمد کی دل چسپ شخصیت نے "نذیر احمد کی کہانی” ان سے لکھوائی۔ واقعہ یہ ہے کہ اس کہانی نے نہ صرف موصوف کے فن کو اجاگر کیا، بلکہ انھوں نے حقِ شاگردی ادا کیا اور انوکھی طرز کی کردار نگاری کا سنگ بنیاد رکھ کر اپنے فن و تخلیق کی داد بھی پائی۔ ’’مولوی نذیر احمد کی کہانی کچھ ان کی کچھ میری زبانی‘‘ میں مرزا صاحب نے ان کی ہوبہو تصویر اتاری ہے۔ یہ خاکہ ہندوستان کے ادبی حلقوں میں بہت مقبول ہوا۔ مولوی وحید الدین سلیم جیسے اہل قلم کو یہ خاکہ ایسا پسند آیا کہ انھوں نے بھی مرزا صاحب سے اپنا خاکہ لکھنے کی فرمائش کردی۔ ان کی وفات کے بعد مرزا نے اس فرمائش کو پورا کیا اور اس خاکے کو ’’ایک وصیت کی تعمیل میں‘‘ کا نام دیا۔ فرحت اللہ بیگ نے بڑی تعداد میں مضامین لکھے جو مضامینِ فرحت کے نام سے سات جلدوں میں شائع ہوچکے ہیں۔ شاعری بھی کی لیکن یہ ان کا اصل میدان نہیں۔

    دہلی کی ٹکسالی زبان پر انہیں بڑی قدرت حاصل تھی اور شوخی ان کی تحریر کا خاصّہ تھا۔ ادبی ناقدین کے مطابق وہ کسی موضوع یا کسی شخصیت پر قلم اٹھاتے ہیں تو چھوٹی چھوٹی باتوں کو نظر انداز نہیں کرتے اور اس جزئیات نگاری سے قاری لطف اندوز ہوتا ہے۔

    مرزا صاحب کے مضامین کا مجموعہ اردو کے قارئین میں بہت مقبول رہا ہے اور ان کی ایک خودنوشت بھی بہت پسند کی گئی جس پر ڈاکٹر اسلم فرخی لکھتے ہیں، اُردو کے نامور نثر نگار مرزا فرحت اللہ بیگ کی یہ خودنوشت ’’میری داستان‘‘ دراصل ایک ’’دفتر بیتی‘‘ ہے جو آپ بیتی کے تمام پہلوؤں کی بجائے صرف ایک پہلو یعنی ان کی دفتری زندگی اور کارناموں پر محیط ہے۔ مرزا صاحب نے انسانی زندگی کو ایک قید سے تعبیر کیا ہے اور اس قید کے پانچ حصے کیے ہیں۔ حصہ اوّل ماں کا پیٹ۔ دوسرا حصہ بڑے بوڑھوں کی قید۔ سوم حصہ مدرسے کی قید۔ چوتھا حصہ نوکری کی قید اور آخری حصہ قبر کی قید۔ یہ تقسیم ان کی بڑی خوش طبعی پر مبنی ہے۔

    ’’میری داستان‘‘ اپنے تمام کرداروں کے صحیح تشخص کے باوجود ایک زبردست عوامی میلہ ہے جس میں قہقہے ہیں، چہچہے ہیں، بھیڑ بھاڑ ہے، آدمی پر آدمی گر رہا ہے، ہنڈولے جھول رہے ہیں، چرخ جھوم رہے ہیں، حلوائیوں کی دکانوں پر مٹھائی کے تھال سجے ہیں، کڑھاؤ چڑھے ہیں، پوریاں تلی جا رہی ہیں، کہیں ناچ گانا ہو رہا ہے، کہیں بھنڈی کی دھوم دھام ہے۔ یہ حسنِ بیان، ذہانت، انشاء پردازی اور ادبِ عالیہ کا شاہ کار ہیں۔

  • تان سین اور ہرن والی حکایت

    تان سین اور ہرن والی حکایت

    برصغیر میں تان سین کو علم موسیقی کا بادشاہ سمجھا گیا ہے۔ تان سین سے متعلق اکبر کے دور کے مؤرخین نے بھی لکھا ہے اور بعد میں‌ آنے والوں نے بھی، لیکن اکثر ایسے واقعات اور حکایات بھی سننے کو ملتی ہیں جن کی صداقت نہایت مشکوک ہے۔ خاص طور پر تان سین کا راگ سن کر ہرنوں کا اس کے گرد جمع ہوجانا یا موسم میں تغیر۔ البتہ تان سین کو عظیم فن کار سبھی مانتے ہیں۔ 26 اپریل کو تان سین چل بسا تھا۔

    کہا جاتا ہے کہ تان سین نے علم موسیقی کی تعلیم و تربیت کے مراحل گوالیار کے ایک مکتب میں مکمل کیے تھے۔ یہ اس وقت کے ایک راجا مان سنگھ تنور کا قائم کردہ مکتب تھا۔ کچھ عرصے راجاؤں کے درباروں سے جڑے رہنے کے بعد تان سین کو بادشاہ اکبر نے اپنے نورتنوں میں شامل کرلیا تھا۔ نام سے ظاہر ہوتا ہے کہ تان سین ہندو تھے۔ لیکن "آئینِ اکبری” میں شیخ ابو الفضل نے آپ کو میاں تان سین لکھا۔ یہ ایک قسم کا وہ لقب ہے جو کسی مسلمان کے لیے برتا جاتا تھا۔ شاید اسی سبب تان سین کو ایک قبرستان میں ابدی آرام گاہ ملی۔ سچ یہ ہے کہ تان سین کی زندگی کے ابتدائی حالات، اس کا مذہب، پیدائش اور درست تاریخِ وفات بھی ہمیں معلوم نہیں ہے۔ لیکن اس بات میں کوئی شبہ نہیں کہ وہ ہندوستانی موسیقی کا بادشاہ تھا۔ ابوالفصل نے اکبر نامہ میں لکھا ہے کہ پچھلے ہزار سال میں شاید ہی کوئی کاونت ایسا پیدا ہوا ہوگا۔

    خیال ہے کہ تان سین کا اصل نام ترلو چن داس تھا۔ وہ ذات کا گوڑ برہمن تھا۔ اس کے باپ کا نام بعض کتابوں میں مکرند پانڈے ملتا ہے جو گوالیار کے رہنے والے تھے۔ تان سین موضع بھینٹ میں پیدا ہوا۔ سینہ بہ سینہ اقوال اور روایات سے محققین نے قیاس کیا کہ تان سین 1524ء میں پیدا ہوا تھا۔ اور یہ برصغیر میں صدیوں سے رائج بکرمی تقویم کے مطابق 1582ء بنتا ہے۔

    محققین کے مطابق تان سین نے کئی راگ اور راگنیاں اختراع کی تھیں۔ میاں توری، میاں سارنگ، میاں کی ملہار اور درباری کانگڑا اس کی چند تخلیق ہیں جو اس وقت تک زندہ رہیں گی جب تک کلاسیکی موسیقی زندہ ہے۔ تان سین سے دو تصانیف سنگیت سارا اور راگ مالا بھی منسوب ہیں۔ ایک اندازہ ہے کہ تان سین دربارِ اکبری میں 1562ء میں پہنچا اور نغمہ سرا ہوا تو اکبر کو بھا گیا۔ وہ اس سے بہت مثاثر ہوا اور بہت زیادہ انعام دیا۔

    تان سین کی وفات کا سنہ 1589ء بتایا جاتا ہے۔ اس گلوکار کو حضرت محمد غوث گوالیاریؒ کے مقبرہ کے قریب دفنایا گیا اور کہتے ہیں کہ تدفین کے وقت اکبر کے حکم پر ہندوستان کے تمام بڑے مغنی بھی موجود تھے۔

    تان سین کے فن کے متعلق ایک حکایت بھی زبان زد عام رہی ہے۔ کہتے ہیں کہ اس زمانے میں کوئی گائک بیجو باورا تھا جو راگ کی دھن میں ہمیشہ مست رہتا اور اس پر موسیقی کا جنون تھا۔ ایک روز تان سین گوالیار کے گھنے جنگل میں راگ الاپ رہا تھا کہ بیجو بھی ادھر آ نکلا۔ دونوں نے آمنے سامنے اپنے فن کا مظاہرہ شروع کردیا۔ بیجو نے اساوری راگ الاپنا شروع کیا۔ اس راگنی کی تاثیر یہ بتائی جاتی ہے کہ اسے سن کر ہرن جمع ہوجاتے ہیں۔ چنانچہ جب ہرن راگنی سن کر ان کے پاس آگئے تو بیجو نے اپنے گلے سے سونے کا ہار اتار کر ایک ہرن کے گلے میں ڈال دیا۔ وہ خاموش ہوا تو سب ہرن واپس جنگل میں چلے گئے۔ بیجو نے تان سین کو چیلنج کیا کہ تمھیں جب استاد مانوں گا کہ میرا سنہری ہار جس ہرن کے گلے میں تھا، اسے یہاں آنے پر مجبور کردو۔ یہ سن کر تان سین ایک راگ الاپنا شروع کیا جو راگ میان کی ٹوڑی کے نام سے مشہور ہوا۔ اس راگ کی تاثیر بھی وہی ثابت ہوئی جو ساوری کی تھی۔ ہرنوں کا وہی گروہ پھر نمودار ہوگیا اور انہی میں وہ ہرن بھی شامل تھا جس کے گلے میں بیجو نے ہار ڈالا تھا۔ تب بیجو نے تان سین کے روبرو زانوئے ادب تہ کیا اور اسے اپنا استاد تسلیم کرلیا۔

  • عزیز حامد مدنی:‌ اردو شاعری کا منفرد اور نمایاں نام

    عزیز حامد مدنی:‌ اردو شاعری کا منفرد اور نمایاں نام

    عزیز حامد مدنی اردو شاعری کی توانا آواز تھے جو اپنے منفرد اور جدید لب و لہجے کے سبب اپنے ہم عصروں‌ میں نمایاں‌ ہوئے۔ وہ ایک براڈ کاسٹر اور نقّاد بھی تھے۔ 1991ء میں آج ہی کے دن عزیز حامد مدنی وفات پاگئے تھے۔ آج ان کی برسی ہے۔

    رائے پور( یو پی) کے ایک ذی علم گھرانے میں عزیز حامد مدنی نے 15 جون 1922ء کو آنکھ کھولی تھی۔ ان کے والد مولانا شبلی نعمانی کے شاگرد اور مولانا محمد علی جوہر کے دوستوں میں سے تھے۔ مشہور ادیب، نقاد، محقق، مترجم ڈاکٹر اختر حسین رائے پوری بھی اُن کے عزیزوں میں سے تھے۔ عزیز حامد مدنی نے انگریزی ادبیات میں ایم اے کیا۔ قیامِ پاکستان کے بعد اپنی عملی زندگی کا آغاز تدریس کے شعبے سے کیا اور بعد میں ریڈیو پاکستان سے منسلک ہوئے۔ انھوں نے ریڈیو پر کئی پروگرام کیے اور خود کو بہترین براڈ کاسٹر ثابت کیا۔عزیز حامد مدنی نے اردو ادب میں شاعری کے ساتھ تنقید کے میدان میں خوب کام کیا۔

    عزیز حامد مدنی کے شعری مجموعے چشمِ نگراں، دشتِ امکاں اور نخلِ گماں کے نام سے شایع ہوئے۔ ان کی تنقیدی کتب جدید اردو شاعری اور آج بازار میں پابجولاں چلو ان کے نام سے اشاعت پذیر ہوئیں۔

    عزیز حامد مدنی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان کی سانولی سلونی شخصیت بڑی دل آویز تھی۔ آواز میں نسوانیت تھی، ثقلِ سماعت کے سبب یا محض عادتاً پہلی بار مخاطب ہونے پر گویا کچھ سن، سمجھ نہ پاتے تھے اور ان کے سامنے بات دہرانا پڑتی تھی۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ منفرد اور باکمال شاعر عزیز حامد مدنی شعر بہت برے انداز سے سناتے تھے۔ ان کی آواز اور انداز شعر کو بے مزہ کردیتا تھا۔ اس کے باوجود باذوق سامعین اور اہلِ ادب ان کو بہت احترام سے سنا کرتے تھے۔

    مدنی صاحب کو کراچی میں لیاقت آباد کے قبرستان میں سپرد خاک کیا گیا۔ ان کا ایک مشہور شعر دیکھیے۔

    وہ لوگ جن سے تری بزم میں تھے ہنگامے
    گئے تو کیا تری بزمِ خیال سے بھی گئے