Tag: یوم وفات

  • ہشام اوّل: اندلس کا ایک نیک نام حکمراں

    ہشام اوّل: اندلس کا ایک نیک نام حکمراں

    اندلس کی امارتِ امویہ کا تذکرہ مسلم تاریخ میں پڑھنے کو ملتا ہے جس کا بانی عبد الرحمن الداخل تھا۔ اسی عبدالرحمن کے بیٹے ہشام نے اپنے باپ کے انتقال کے بعد اس کا جانشیں بنا اور 788ء سے 796ء تک حکمرانی کی۔ محققین کے مطابق ہشام کا انتقال 16 اپریل کو ہوا تھا۔ اسے ہشام اوّل کے لقب سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔

    ہشام اوّل یا ہشام بن عبدالرحمن کے باپ نے 756ء میں خلافتِ عباسیہ کے مقابل امارتِ قرطبہ کو ایک خود مختار امیر کے طور پر سنبھالا تھا۔ عباسیوں کے دمشق پر قبضہ کرنے اور اموی خلافت کو ختم کرنے کے بعد عبدالرحمن اموی خاندان کا زندہ بچ جانے والا ایک شہزادہ تھا۔ بعد میں اس کی حکومت کو اس کے بیٹے ہشام نے آگے بڑھایا۔ ہشام کو اپنے اقتدار کے شروع ہی میں اپنے بھائیوں سلیمان اورعبداللہ کی جانب سے بغاوت کا سامنا کرنا پڑا لیکن وہ ان کو زیر کرنے میں کام یاب ہوگیا۔ ہشام کے بارے میں تاریخ کے اوراق بتاتے ہیں کہ وہ ایک رحم دل، نرم طبیعت کا مالک، عادل اور فراخ دل حکم ران تھا۔ وہ مذہب کا بھی پابند تھا۔ ابن الاثیر کے الفاظ میں اس کو عمر بن عبدالعزیز جیسا حکم ران کہا جاسکتا ہے۔ مشہور ہے کہ وہ بھی معمولی کپڑے پہن کر قرطبہ کے بازاروں میں گھومتا پھرتا اور عوام کی شکایات سنتا۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ہشام کی سخاوت کی کوئی حد نہ تھی۔ ہشام ہر مفلس کا مددگار اور ہر مظلوم کا حامی تھا۔ ان سب باتوں کے باوجود اس کا نظم و نسق بہت سخت تھا۔ بغاوتوں کو ہشام نے بڑی سختی سے کچلا اور اس حوالے سے کوئی رعایت نہ کی۔ وہ معمولی جرم کو بھی نظرانداز نہیں کرتا تھا۔

    ہشام کے دور میں بعض اہم تعمیراتی کام بھی ہوئے۔ اس نے قرطبہ کی اس جامع مسجد کو مکمل کرایا جسے اس کے والد نے شروع کیا تھا۔ اس نے اپنی مملکت کے شہروں میں بڑی بڑی عمارتیں بنوائیں اور کئی دفاتر تعمیر کیے۔ اس کی حکومت کو 793ء میں مسیحی فرینکس سے خطرہ ہوا تو ہشام نے لشکر کشی کی۔ ہشام ابتدائی بغاوتوں پر قابو پانے کے بعد ایک باغی سردار مطروح بن سلیمان کو سزا دینے کے لیے بڑھا، جس نے فرینک شارلمین کو ہسپانیہ پر حملہ کرنے کے لیے کہا تھا۔ باغی سردار مارا گیا، سارا گوسا اور بارسیلونا ایک مرتبہ پھر اموی حکمران کے زیراثر آ گئے۔ اپنی مملکت میں امن قائم کرنے کے بعد ہشام اس قابل ہو گیا تھا کہ شمالی ہسپانیہ کی طرف توجہ کر سکے، سرحد کے مسیحی قبیلوں نے حملے شروع کر رکھے تھے۔ ان کی سرکوبی ضروری تھی۔ چنانچہ اس نے کئی بغاوتوں کو فرو کرتے ہوئے اپنی فوج کیتبالونیہ سے فرانس میں داخل کی اور دوسرے لشکر نے گلیشیا کے قبائلی لوگوں کو شکست دی۔ ان قبیلوں نے عربوں کے ساتھ صلح کر لی۔

    ہشام کے دور میں مالکی فقہ کو رواج دیا گیا۔ وہ امام مالکؒ کا بہت زیادہ احترام کرتا تھا، چنانچہ ہشام کی کوشش سے جزیرہ نما ہسپانیہ میں مالکی فقہ رائج ہو گیا۔ ہشام کا اقتدار آٹھ سال قائم رہا۔ بوقت وفات اس کی عمر صرف 40 برس تھی۔ ہشام کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس نے اسلامی قوانین کے نفاذ کی پوری کوشش کی اور خود بھی اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا رہا۔

    ہشام کی تدفین قصر قرطبہ کی گئی۔ اسے خدا نے چھے بیٹوں اور پانچ بیٹیوں سے نوازا تھا۔

  • فارسی اور اردو کے شاعر چندو لال جن کی سخاوت کا بھی خوب چرچا ہوا

    فارسی اور اردو کے شاعر چندو لال جن کی سخاوت کا بھی خوب چرچا ہوا

    یہ ہندوستان کی مرفّہ الحال ریاست حیدرآباد دکن کی مشہور شخصیت چندو لال کا تذکرہ ہے جو دکن میں وزیر اعظم کی حیثیت سے فرائض سر انجام دیتے رہے۔ لیکن ان کی وجہِ شہرت یہ منصب ہی نہیں‌ ہے بلکہ چندو لال بیک وقت فارسی اور اردو کے شاعر بھی تھے۔ اس کے علاوہ انھیں نہایت سخی اور دریا دل انسان بھی کہا جاتا ہے۔

    چندو لال 15 اپریل 1845ء کو چل بسے تھے۔ ضیا الدین احمد شکیب کے تحقیقی مضمون سے یہ اقتباسات راجا جی کی زندگی اور ان کی خدمات پر روشنی ڈالتے ہیں، ملاحظہ کیجیے:‌

    راجا چندو لال 1762ء میں پیدا ہوئے۔ راجا ٹوڈر مل ان کے مورثِ اعلیٰ تھے۔ یہ کہتری قوم سے تعلق رکھتے تھے۔ ان کے جدِ امجد رائے مول چند آصف جاہ اوّل کی ہمرکابی میں دکن آئے تھے۔

    راجا چندو لال کم سنی میں یتیم ہوگئے تھے۔ سنِ شعور کو پہنچنے کے بعد شمشیر جنگ اور بدیع اللہ خاں کمشنر کروڈ گری کی ماتحتی میں کام کرتے رہے۔ پھر ترقی کرکے سبزی منڈی کی محرری پر مامور ہوئے اور صبح سے شام تک منڈی میں بیٹھے رہتے تھے۔ اس کے بعد بیلی کے عہدے پر ترقی کی۔

    1797ء میں شمشیر جنگ نے انہیں اپنے تعلقہ موروثی کی کار پردازی پر مقرر کردیا اور اسی سال مشیر الملک بہادر کی تحریک پر دربارِ آصفیہ سے یہ قلعہ سدوٹ، موضع کریہ اور کانجی کوٹہ وغیرہ کے انتظام کے لیے چار ہزار سوار اور چار ہزار پیدل کے ساتھ مامور کیے گئے اور راجا بہادر کا خطاب پایا۔

    اس مہم سے واپسی کے بعد شمس الامرا کی جمعیت پائیگاہ ان کو تفویض کی گئی۔ ان خدمات کو انہوں نے کمال حسن و خوبی کے ساتھ انجام دیا۔ جس کی وجہ سے میر عالم بہادر وزیر مملکت آصفیہ کی نگاہوں میں ان کا مقام بڑھ گیا۔ کچھ ہی دنوں کے بعد سکندر جاہ بہادر نے ان کی قابلیت سے آگاہ ہوکر افواجِ آصفیہ کا پیش کار مقرر فرمایا۔

    1235ھ (1820۔1819ء) میں نواب سکندر جاہ بہادر نے ان کو مہاراجا کا خطاب دے کر نوبت اور جھالر دار پالکی سے سرفراز فرمایا۔ اور اس کے علاوہ ایک کروڑ روپیہ نقد عطا فرمایا۔ 1822ء میں ہفت ہزاری منصب سے سرفراز کیا۔ نواب منیر الملک کے انتقال کے بعد مہاراجہ چندو لال وزارتِ عظمیٰ پر سرفراز کیے گئے۔ 1844ء میں ملازمت سے مستعفی ہوئے اور 1854ء میں 86 برس کی عمر میں انتقال کیا۔

    مہاراجا چندو لال کو انگریزوں کی تائید کی وجہ سے ایسا مقام حاصل ہوگیا تھا کہ وزیر اعظم امورِ نظم و نسق سے تقریباً بے دخل تھا اور سوائے دستخط کے عملاً اسے کوئی اختیار نہ تھا۔ نواب سکندر جاہ بھی بالکل بے اختیار ہوگئے تھے۔ اور انہوں نے ان حالات سے متاثر ہو کر محل سے نکلنا چھوڑ دیا تھا، بعض اوقات چار چار سال تک انہوں نے قدم باہر نہیں نکالا۔

    1829ء میں نواب سکندر جاہ کا انتقال ہو گیا اور نواب میر فرخندہ علی خاں ناصرُ الدّولہ آصف جاہ رابع تخت نشین ہوئے۔ 1832ء میں نواب منیر الملک وزیرِ اعظم کا انتقال ہوگیا اور راجا چندو لال وزیرِ اعظم مقرر ہوگئے۔

    راجا چندو لال کے اوصاف میں جس چیز نے نظم اور نسق اور تہذیب دونوں کو متاثر کیا وہ ان کا جود و سخا تھا۔ ان کی فراخ دستی اس حد کو پہنچی ہوئی تھی کہ نہ صرف مختلف تیوہاروں اور تقاریب پر وہ بے دریغ روپیہ صرف کردیتے بلکہ ہر روز ان کے داد و دہش کا یہ عالم رہتا کہ بقول نجم الغنی، مثنوی سحرُالبیان کے واقعات اس کے آگے پھیکے پڑ جاتے تھے۔

    حکیموں، شاعروں، مرثیہ خوانوں، سوز خوانوں اور اربابِ نشاط و طرب کو ہزاروں روپے انعام میں دیتے اور ان کی تنخواہیں اس کے سوا ہوتی تھیں۔ راجا چندو لال نے حیدرآباد میں بہت سی خوب صورت و بیش قیمت عمارتیں بنوائیں۔ اس فیاضی کے اثر سے اہلِ ہنر تو مستفید ہوئے لیکن اس کا بار حکومت کے خزانہ پر پڑا۔ چندو لال خود بھی شاعر و ادیب تھے اور اہلِ ہنر کے قدر داں تھے۔

    راجا چندو لال اردو اور فارسی کے اچھے شاعر تھے۔ ان کا یہ معمول تھا کہ ہر رات کئی گھنٹے اہلِ علم کی مجلس آراستہ کرتے جس میں شعر و سخن اور مسائلِ تصوف کا چرچا ہوتا۔ اس دور کے شعرا میں مولوی بو تراب، مولوی محمد حسین، مولوی غلام حسین، حفیظ دہلوی، فائز حاجی محمد علی ساغر، مرزا محمد طاہر تبریزی، حسین علی خاں ایما، تاج الدین مشتاق، ذوالفقار علی خاں صفا، میر عنایت علی ہمت، احمد علی شہید، ظہور اکرم، میر مفتون وغیرہ قابلِ ذکر شعرا گزرے ہیں۔

    (ضیا الدین احمد شکیب نے اپنے تحقیقی مضمون کی تیّاری میں تاریخِ ریاستِ حیدرآباد دکن از محمد نجمُ الغنی خاں کا حوالہ بھی دیا ہے)

  • امجد بوبی: پاکستانی فلم انڈسٹری میں نئے رجحان کو فروغ دینے والا موسیقار

    امجد بوبی: پاکستانی فلم انڈسٹری میں نئے رجحان کو فروغ دینے والا موسیقار

    پاکستان میں فلمی موسیقاروں میں امجد بوبی جدّت طراز اور تجربات کے شائق موسیقار کے طور پر مشہور ہوئے۔ ان کی وجہِ شہرت کئی سدا بہار اور لازوال گیت ہیں جو پاکستان ہی نہیں سرحد پار بھی مقبول ہوئے۔ فنِ موسیقی میں نت نئے تجربات نے امجد بوبی کو بے مثل اور باکمال موسیقار ثابت کیا۔

    امجد بوبی کا تعلق ایک فن کار گھرانے سے تھا۔ وہ رشید عطرے جیسے عظیم موسیقار کے بھانجے تھے۔ موسیقار وجاہت عطرے ان کے ماموں زاد بھائی تھے، موسیقار صفدر حسین اور ذوالفقار علی اور گلوکار منیر حسین بھی ان کے قریبی عزیز تھے۔ ان کے والد غلام حسین خان بھی کلاسیکی گائیک تھے، لیکن خود کو ایک بڑا موسیقار منوانے کے لیے امجد بوبی کو خاصی محنت کرنا پڑی تھی۔

    فلمی تذکروں کے مطابق بہ طور موسیقار ان کی پہلی فلم راجا جانی تھی جس کی نمائش 1976 میں ہوئی۔ اس کے گیت بہت پسند کیے گئے۔ اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ امجد بوبی کی پہلی فلم اک نگینہ (1969ء) تھی۔ اس میں احمد رشدی کے گائے ہوئے دو گیتوں "مل گئی، مل گئی ہم کو پیار کی یہ منزل۔” اور "دل نہیں تو کوئی شیشہ، کوئی پتّھر ہی ملے۔” کے علاوہ آئرن پروین کا گایا ہوا گیت "ساری سکھیوں کے بلم گورے، میرا بلم کالا۔” بڑے خوب صورت گیت تھے۔ اسی سال فلم میری بھابھی پردے پر سجی اور کے گیت بھی اچھّے تھے۔ لیکن کوئی گیت سپرہٹ ثابت نہیں‌ ہوا اور امجد بوبی اپنی پہچان کروانے میں بھی ناکام رہے۔

    اسّی کی دہائی میں موسیقار کے طور پر امجد بوبی نے شہرت پائی اور اپنے فن کا عروج دیکھا۔ فلم نقشِ قدم (1979) میں گلوکار اے نیّر کی آواز میں "کرتا رہوں گا یاد تجھے میں، یونہی صبح و شام، مٹ نہ سکے گا میرے دل سے بینا تیرا نام” وہ گیت تھا جو سپر ہٹ ثابت ہوا۔

    امجد بوبی کی انفرادیت کا باعث اپنے دور کی پاکستانی فلموں کے گیتوں کی بمبئی میں ریکارڈنگ بنی۔ وہ نئی آوازوں کا تجربہ کرنے والے موسیقار کے طور پر مشہور ہوئے۔ جاوید شیخ کی فلم ’یہ دل آپ کا ہوا‘ کے لیے امجد بوبی نے اپنی دھن پر بھارتی گلوکار سونو نگم اور کویتا کرشنا مورتی سے گانے گوائے تھے۔ اس طرح‌ امجد بوبی نے پاکستانی فلم انڈسٹری میں ایک نئے رجحان کو فروغ دیا۔

    پاکستانی فلم انڈسٹری کے اس جدت طراز موسیقار کا انتقال 2005ء میں آج ہی کے روز ہوا تھا۔ آج امجد بوبی کی برسی ہے۔ ان کا آبائی وطن امرتسر تھا۔ امجد بوبی 1942 میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کی ترتیب دی ہوئی موسیقی میں گھونگھٹ، پرورش، کبھی الوداع نہ کہنا، نادیہ، روبی، نزدیکیاں، سنگم، چیف صاحب، گھر کب آؤ گے، یہ دل آپ کا ہوا جیسی فلمیں کام یاب ثابت ہوئیں۔

  • فارغ بخاری: اردو اور پشتو ادب کا نمایاں نام

    فارغ بخاری: اردو اور پشتو ادب کا نمایاں نام

    فارغ بخاری ترقّی پسند شاعر تھے اور ادبی صحافت میں‌ نمایاں مقام رکھتے تھے انھوں نے زبان اور شعری ہیئت میں متعدد نئے تجربات کیے اور اردو ادب کو اپنی تخلیقات سے مالا مال کیا جن میں خاکے، تنقیدی مضامین اور تراجم بھی شامل ہیں۔

    فارغ بخاری نے غزل جیسی مقبول صنف سخن میں بھی ہیئت اور تکنیک کا منفرد تجربہ کیا اور اپنی شعری تخلیقات کو ’’غزلیہ‘‘ کے عنوان سے کتابی شکل میں‌ نقّادوں‌ کے سامنے رکھا۔

    وہ اردو ہی نہیں‌ پشتو میں بھی شاعری کرتے تھے۔ فارغ بخاری 14 اپریل 1997ء کو وفات پاگئے تھے۔ ان کا تعلق پشاور سے تھا۔ 11 نومبر 1917ء کو پیدا ہونے والے فارغ بخاری کا اصل نام سید میر اکبر شاہ تھا۔ فارغ بخاری نظریاتی طور پر ترقّی پسند تھے جس زمانے میں کمیونسٹ اور انقلابی فکر کے حامل اہلِ‌ قلم اور بالخصوص اس تحریک سے وابستہ شعرا اور ادیبوں‌ کو جبر اور پابندیوں کا سامنا تھا، فارغ بخاری کو بھی قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنا پڑیں۔

    پشتو اور اردو زبان و ادب اور ثقافت کے فروغ کے لیے فارغ بخاری کی خدمات اور گراں قدر کام آج بھی ان کی یاد دلاتا ہے۔ انھوں نے رضا ہمدانی کے ساتھ کئی علمی، تحقیقی اور ادبی موضوعات پر کام کیا۔ ان کی مشترکہ تصانیف میں ادبیاتِ سرحد، پشتو لوک گیت، سرحد کے لوک گیت، پشتو شاعری اور پشتو نثر شامل ہیں۔

    فارغ بخاری نے اردو شاعری میں بھی نام و مقام پیدا کیا۔ ان کے شعری مجموعوں میں زیر و بم، شیشے کے پیراہن، خوشبو کا سفر، پیاسے ہاتھ، آئینے صداؤں کے اور غزلیہ شامل ہیں۔ انھوں‌ نے شخصی خاکے بھی تحریر کیے اور خاکوں‌ پر مشتمل مجموعے البم کے علاوہ کتابیں مشرقی پاکستان کا رپورتاژ، براتِ عاشقاں اور خان عبدالغفار خان کی سوانح عمری باچا خان کے عنوان سے شایع ہوئیں۔

    فارغ بخاری نے انٹرمیڈیٹ تک تعلیم حاصل کرنے کے بعد مشرقی زبانوں کے کئی امتحانات پاس کیے۔ عملی زندگی میں انھوں نے اردو زبان میں ادبی صحافت کی۔ وہ ماہنامہ ’نغمۂ حیات‘ اور ہفت روزہ ’شباب‘ کے مدیر رہے اور ’سنگ میل‘ کے نام سے ایک ادبی رسالہ بھی نکالا۔

    حکومتِ پاکستان نے انھیں صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی سے نوازا تھا۔ فارغ بخاری کی ایک غزل کا مشہور شعر ملاحظہ کیجیے۔

    یاد آئیں گے زمانے کو مثالوں کے لیے
    جیسے بوسیدہ کتابیں ہوں حوالوں کے لیے

  • ٹونی موریسن: ایک عظیم داستان گو

    ٹونی موریسن: ایک عظیم داستان گو

    ٹونی موریسن وہ پہلی امریکی سیاہ فام مصنّف تھیں جن کو ادب کا نوبیل انعام دیا گیا۔ انھیں ایک بے مثال فکشن رائٹر ہی نہیں مشہور ہوئیں‌ بلکہ افریقی نژاد امریکی مصنّفین کی نمائندہ قلم کار کے طور پر دنیا بھر میں‌ پہچانی گئیں۔

    2019ء میں ٹونی موریسن یہ دنیا چھوڑ چلی تھیں۔ 1931ء میں اوہائیو کے ایک قصبے میں جنم لینے والی ٹونی موریسن نے بچپن میں غربت دیکھی تھی۔ سیاہ فام لوگوں کے ساتھ سفید چمڑی والوں کا توہین آمیز سلوک بھی اس دور کی تلخ یاد تھی۔ وہ ایک مزدور کی بیٹی تھیں۔ لیکن تعلیم و تربیت کے زیور سے آراستہ ہوکر عملی زندگی میں درس و تدریس کو بطور پیشہ اپنایا۔ حساس طبع اور دردمند ٹونی موریسن نے ادبی سرگرمیوں میں حصّہ لینا شروع کردیا تھا اور خود بھی لکھنے لگی تھیں۔ لیکن وہ یہ نہیں جانتی تھیں کہ مستقبل میں انھیں امریکا کی عظیم ناول نگار کے طور پر یاد کیا جانے لگے گا۔ سابق امریکی صدر بارک اوباما بھی ٹونی موریسن کے مداح رہے ہیں۔ انہی کے دورِ صدرات میں مصنفہ کو ‘صدارتی میڈل آف آنر‘ بھی دیا گیا تھا۔ 1993ء میں ٹونی موریسن کو نوبیل انعام دیتے ہوئے سویڈش اکیڈیمی نے ان کے طرزِ تحریر، لسانی انفرادیت اور بطور مصنّف ٹونی موریسن کو بصیرت کو الفاظ میں سراہا کہ ‘ٹونی موریسن اپنے ناولوں میں تخیلاتی قوتوں کو بروئے کار لاتی ہیں، ان کی نثر شاعرانہ ہے، وہ زندگی کے ایک لازمی حصے کے طور پر امریکی بدیہی حقیقت کی نقاب کشائی کرتی ہیں۔ موریسن کے بارے میں کہا گیا کہ اپنے بیانیے کی سچائی کے اظہار میں بے رحم ہیں۔’

    ان کا شمار بے مثل فکشن رائٹرز میں کیا گیا اور وہ ایسی مصنفہ کہلائیں جس نے فکشن کی زبان کو نئے طلسم اور سحر انگیزیوں سے آشنا کیا انھوں نے زبان کو آزادی کے رمز اور نعمت سے سرشار کیا اور سیاہ فاموں کو مستقبل کی نوید سنائی یہ یقین دلاتی رہیں کہ ان کی قربانیاں رائیگاں نہیں جائیں گی۔ ناقدین نے کہا کہ ٹونی موریسن نے اپنے لفظوں سے غلامی کی زنجیرکو توڑا اور زبان سے بے پایاں محبت کے استعارے تخلیق کیے۔ ٹونی موریسن 1967ء سے1983ء تک افریقی امریکی رائٹر کے طور پر رینڈم ہاؤس کی ایڈیٹر کے عہدہ پر فائز رہیں۔ پرنسٹن و دیگر یونیورسٹیوں میں پڑھاتی بھی رہیں۔ پروفیسر نولیوے روکس کے مطابق ان کے پہلے ناول ”دی بلیوسٹ آئی” کو ایک سنگ میل کی حیثیت سے دیکھا جائے گا جو ایک سیاہ فام لڑکی کی زندگی کے گرد گھومتا ہے۔ اس ناول نے موریسن کی شہرت کو چار چاند لگا دیے۔ کہا جاتا ہے کہ اگر وہ کار کو شاپنگ کے لیے جاتے ہوئے دکھاتیں تو اس کے بیانیے میں ہومر کی اوڈیسی کی جادوگری جاگ اٹھتی تھی۔

    ٹونی موریسن کا ایک مشہور ناول ‘محبوب‘ (Beloved) ہے جس پر وہ 1988ء میں فکشن کے پلٹزر پرائز کی حق دار قرار پائی تھیں۔ یہ ایک ماں اور بیٹی کی درد ناک کہانی تھی جس میں ماں اپنی بیٹی کو غلامی کی زندگی سے بچانے کے لیے قتل کرنے کا فیصلہ کرتی ہے۔ ٹونی موریسن کی دیگر اہم ترین تصنیفات میں ‘چشمِ نیلگوں (Bluest Eye)‘، ‘سلیمان کا گیت‘ (Song of Solomon)، شامل ہیں۔ مؤخر الذّکر ناول بہت مقبول ہوا اور ٹونی موریسن کو امریکا میں اس پر زبردست پذیرائی ملی۔

    ٹونی موریسن مختصر علالت کے بعد 88 سال کی عمر میں دنیا سے رخصت ہوگئی تھیں۔ وہ نیویارک میں مقیم تھیں۔

  • صادق ہدایت:‌ عوامی زبان کو اعتبار بخشنے والا ادیب

    صادق ہدایت:‌ عوامی زبان کو اعتبار بخشنے والا ادیب

    فارسی ادب میں صادق ہدایت کا نام ایک مصنّف اور دانش ور کے طور پر بھی لیا جاتا ہے جن کا عہد جدید افسانے کا دوسرا اور اصل دور کہلاتا ہے۔ صداق ہدایت نے اسی زمانے میں افسانے کو جدید‌ خطوط پر استوار کیا اور فارسی ادب میں ممتاز ہوئے۔

    قدیم ایران کی تہذیب و ثقافت کے علاوہ اس ملک میں بادشاہت اور بعد میں انقلاب کا بھی مقامی ادب پر گہرا اثر ہوا، اور بہت سے اہل قلم نے نام و مقام پیدا کیا۔ مگر اس خطّے میں ادب اور صحافت کے ساتھ ہر اہلِ‌ قلم نے جرأتِ اظہار اور اپنی تصانیف کی وجہ سے طرح طرح کی مشکلات اور صعوبتیں برداشت کی ہیں۔ ان ادوار میں‌ ادیب و شعرا کا آزادی سے کسی معاملے میں رائے دینا اور اظہار خیال کرنا مشکل تھا۔

    صادق ہدایت کو ایرانی ادب میں بیسویں صدی کے عظیم مصنفین میں شمار کیا جاتا ہے اور یہ مقام و مرتبہ انھیں افسانوں کے مجموعے ’زندہ بگور‘ (1930)، اُس کے بعد ’سہ قطرۂ خوں‘ (1932) سایۂ روشن (1933)، وغ وغ ساباب، طویل کہانی علویہ خانم (1933) اور ناول بوفِ کور (1937) کی بدولت ملا۔

    جدید ایرانی ادب میں صادق ہدایت کا امتیازی وصف یہ رہا کہ انھوں‌ نے زبان بظاہر مزید سادہ اور صاف برتی لیکن وہ کہانی میں حقیقت پسندی اور تصوّرات کو اس طرح بہم کر دیتے ہیں کہ کہانی کی شکل ہی کچھ اور ہو جاتی ہے۔ ذاتی زندگی کی بات کی جائے تو صادق کی شخصیت میں‌ یاسیت پسندی اور پژمردگی وقت کے ساتھ بڑھ گئی تھی اور اس کی جھلک ان کی تخلیقات میں بھی نظر آتی ہے۔ ان حالات کا شکار ہونے کے بعد صادق ہدایت نے اپنی زندگی کا خاتمہ کرلیا تھا۔ 4 اپریل 1951ء کو فرانس میں مقیم اس ادیب نے خود کشی کر لی تھی۔

    صادق ہدایت کو فارسی ادب میں پہلا باقاعدہ قنوطی تخلیق کار سمجھا جاتا ہے جو مایوسی اور ناامیدی پر مبنی افسانے لکھنے کے باوجود ایران میں بے حد مقبول تھے۔ انھیں فارسی ادب میں قنوطیت (Nihilism) کا بانی کہا جاتا ہے۔ صادق ہدایت کی کہانیاں انسانی زندگی کی بدنما حالت اور نفسیاتی کرب کا مجموعہ ہیں جن میں فلسفیانہ قسم کا اضطراب، ناامیدی، یاسیت اور حد درجہ مایوسی نظر آتی ہے۔ صادق ہدایت کے کم و بیش تمام ہی افسانوں کے مرکزی کرداروں کا انجام یا تو کسی نہ کسی حال میں موت پر ہوا یا وہ خود کشی کرنے پر مجبور ہو گئے۔

    بیسویں صدی کا پہلا نصف حصّہ عالمی سطح پر تمدّن کی شکست و ریخت کا زمانہ تسلیم کیا جاتا ہے۔ اس زمانے میں دو عالمی جنگوں نے انسانی آبادی اور اس سے وابستہ شعبوں کو بڑا نقصان پہنچایا۔ انسانی تہذیب اور ثقافت کو شدید نقصان ہوا اور دنیا بھر ناگفتہ بہ حالات پیدا ہوگئے جس کی جھلکیاں اس زمانے کے ادب میں دیکھی جاسکتی ہیں۔ صادق ہدایت بھی اس سے متاثر ہوئے اور جدید فارسی ادب میں داستانوی حقیقت پسندی کی بنیاد رکھتے ہوئے اپنے ناولوں اور افسانوں کا موضوع عام آدمی کے مسائل اور مشکلات کو بنایا۔ انھوں نے زندگی کے تلخ حقائق کو الفاظ کا جامہ پہنایا۔

    وہ 1903ء میں تہران کے ایک متموّل گھرانے میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے دارالفنون نامی ادارے سے ابتدائی تعلیم کے حصول کے بعد فرانسیسی زبان سیکھی۔ 20 سال کی عمر میں اعلیٰ‌ تعلیم کے حصول کی غرض سے وہ فرانس چلے گئے جہاں پہلی عالمی جنگ کے تباہ کن اثرات اور اس کے نتیجے میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کو دیکھا اور اس کا گہرا اثر لیا۔ بعد میں وہ ایران لوٹے، مگر یہاں کے حالات دیکھ کر ہندوستان منتقل ہوگئے۔ وہ اپنا تخلیقی سفر شروع کرچکے تھے اور بمبئی میں قیام کے دوران صادق ہدایت نے اپنا ناول بوف کور (The Blind Owl) تحریر کیا۔ ان کی یہ کہانیاں ہندوستان، ایران ہی نہیں دنیا بھر میں‌ مشہور ہوئیں۔ صادق ہدایت نے ڈرامہ اور سفرنامے بھی لکھے۔

    صادق ہدایت نے اپنے دور کے عوام کے جذبات اور خیالات کی بھرپور ترجمانی کی اور اپنے عہد کے دوسرے ادیبوں سے اس لیے ممتاز ہوئے کہ انھوں نے عوامی زبان کو فارسی ادب کا حصّہ بنایا اور اسے اعتبار بخشا۔ صادق ہدایت کی تصانیف کی تعداد 30 سے زائد ہے اور یہ جدید ایرانی ادب کا حصّہ ہیں۔

  • منوج کمار: بولی وڈ کے لیجنڈری اداکار جن کے والد اردو کے معروف شاعر تھے

    منوج کمار: بولی وڈ کے لیجنڈری اداکار جن کے والد اردو کے معروف شاعر تھے

    قومی تفاخر اور حب الوطنی کے موضوع پر بولی وڈ کی فلموں میں شان دار پرفارمنس کی وجہ سے منوج کمار کو ‘بھارت کمار‘ بھی کہا جانے لگا تھا۔ منوج کمار نے فلم انڈسٹری میں بطور اداکار ہی نہیں شہرت پائی بلکہ پروڈکشن اور ہدایت کاری کے شعبہ میں بھی کام کیا اور نوّے کی دہائی انڈسٹری میں خاصے متحرک رہے۔

    ہری کرشن گوسوامی المعروف منوج کمار 1937ء میں ایبٹ آباد میں پیدا ہوئے تھے۔ وہ ایچ ایل گوسوامی کے بیٹے تھے جو اردو شاعر کی حیثیت سے پہچان رکھتے تھے۔ ایبٹ آباد منوج کمار کا ننھیالی گاؤں تھا جب کہ ددھیال ضلع شیخو پورہ کے جنڈیالہ شیر خان سے تعلق رکھتا تھا۔ اداکار منوج کمار کی مذکورہ شہروں کے ساتھ لاہور سے بہت سی یادیں وابستہ تھیں۔ ہندوستان کی تقسیم کا اعلان ہوا تو منوج کمار کے والد کو بھی اپنی زمین چھوڑنا پڑی۔ بھارت میں‌ منوج کمار کی پڑھائی کا سلسلہ شروع ہوا۔ گھر کا ماحول علمی و ادبی تھا جس کے باعث منوج کمار کو بھی ادب سے دل چسپی رہی اور فلمیں دیکھنے کا بھی شوق پیدا ہوگیا۔

    منوج کمار کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ دلیپ کمار کی فلم ”جگنو‘‘ دیکھنے کے بعد وہ ان کے دیوانے ہوگئے۔ اس کے بعد فلم ”شبنم‘‘ دیکھی جس میں دلیپ کمار نے منوج کا کردار نبھایا تھا۔ اسی فلم کو دیکھنے کے بعد ہری کرشن گوسوامی نے اپنا نام منوج کمار رکھنے کا فیصلہ کیا۔ اس وقت وہ دہلی میں مقیم تھے اور پھر نوجوانی میں فلم میں کام کرنے کا خواب سجائے 1956ء میں بمبئی چلے گئے۔ وہ ایک خوش قامت اور وجیہ صورت نوجوان تھے جس کے چچا بمبئی میں تھے اور یوں منوج کمار کو وہاں رہائش کا مسئلہ نہیں ہوا۔ کچھ وقت نگار خانوں کے چکر کاٹنے کے بعد منوج کمار کو فلم ”فیشن‘‘ میں کردار مل گیا۔ اس کے بعد اسے چند اور فلمیں سہارا، چاند، ہنی مون میں چھوٹے اور مختصر کردار نبھانے کا موقع ملا۔ پہلا لیڈنگ رول 1961ء میں منوج کمار نے فلم ”کانچ کی گڑیا‘‘ میں نبھایا اور اسی برس تین مزید فلموں ”پیا ملن کی آس‘‘، ”سہاگ سیندور‘‘ اور ”ریشمی رومال‘‘ میں کام کیا۔ اگلے ایک سال کے دوران منوج کمار کو ”اپنا بنا کے دیکھو‘‘اور ”گرہستی‘‘ جیسی فلمیں ملیں۔ لیکن شہرت انھیں راج کھوسلہ کی فلم ”وہ کون تھی؟‘‘ سے ملی۔ یہ فلم 1964ء میں ریلیز ہوئی اور باکس آفس پر شان دار کام یابی حاصل کی۔ اس فلم میں لتا منگیشکر کے گائے ہوئے دو گیتوں ”لگ جا گلے‘‘ اور ”نیناں برسیں رِم جھم رِم جھم‘‘ شامل تھے جو ہندوستان بھر میں مقبول ہوئے اور آج بھی ان کی مقبولیت برقرار ہے۔ اب فلم ”شہید‘‘ آئی جس میں منوج کمار نے بھگت سنگھ کا کردار ادا کیا تھا۔ یہ جنگِ‌ آزادی اور انقلابی تحریک کی وہ داستان تھی جسے ہندوستان بھر میں‌ سراہا گیا اور منوج کمار کی اداکاری کو بہت پسند کیا گیا۔

    اب منوج کمار فلمی دنیا میں بطور اداکار اپنی پہچان بنا چکے تھے۔ اس کے بعد انھوں نے خود کو بطور ہدایت کار منوانے کا فیصلہ کیا اور 1967ء میں ان کی فلم ”اُپکار‘‘ ریلیز ہوئی جس نے باکس آفس پر دھوم مچا دی۔ وطن سے محبت پر منوج کمار کے فلموں میں کردار کو شائقین نے بہت پسند کیا اور پھر وہ بھارت کمار کے نام سے مشہور ہوگئے۔ 1969ء میں فلم ”ساجن‘‘ اور اگلے ہی سال ”پورب اور پچھم‘‘ نے منوج کمار کی شہرت میں مزید اضافہ کیا۔ 1972ء کی ریلیز کردہ فلم ”بے ایمان‘‘ پر منوج کو بہترین اداکار کا فلم فیئر ایوارڈ دیا گیا۔ اسی سال فلم ”شور‘‘ پر بھی وہ فلم فیئر ایوارڈ لے اڑے۔ پھر ان کی ایک بلاک بسٹر فلم ”کرانتی‘‘ سامنے آئی اور وہ اس ہدایت کار بھی تھے۔ یہ فلم سال کی بہترین فلم قرار پائی۔ بعد کے برسوں‌ میں منوج کمار نے خاص کام یابی نہیں سمیٹی لیکن انھیں فلم بین اور فن کار کوئی بھی فراموش نہیں کرسکا۔

    دل کے عارضے میں‌ مبتلا منوج کمار جمعہ (آج) کے روز ممبئی کے ایک اسپتال میں چل بسے۔ وہ حکم راں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے رکن بھی رہے۔ 1950ء کی دہائی میں اداکاری کا آغاز کرنے والے منوج کمار نے بھارتی سنیما کا سب سے بڑا اعزاز ‘دادا صاحب پھالکے ایوارڈ‘ بھی حاصل کیا تھا۔

  • آلیور گولڈ اسمتھ: انگریزی زبان کا مشہور ادیب اور شاعر

    آلیور گولڈ اسمتھ: انگریزی زبان کا مشہور ادیب اور شاعر

    آلیور گولڈ اسمتھ کا نام بطور ادیب اور شاعر لیا جاتا ہے، مگر دل چسپ بات یہ ہے کہ وہ پیشے کے اعتبار سے طبیب تھا جس نے اپنا مطب چلانے میں ناکامی کے بعد قلم تھام کر قسمت آزمائی۔ یہ راستہ اسے شہرت اور کام یابی کی طرف لے گیا اور آلیور گولڈ اسمتھ نے نثر نگاری کے علاوہ شاعری میں بھی نام پایا۔

    آلیور گولڈ اسمتھ کے آبا و اجداد انگریز تھے۔ اس نے پادریوں کے ایک ایسے خاندان میں‌ آنکھ کھولی تھی جو اس وقت آئرلینڈ میں مقیم تھا۔ 1728 میں پیدا ہونے والے آلیور گولڈ اسمتھ کا انتقال 4 اپریل 1774 کو ہوا تھا۔

    انگریز ادیب اور شاعر آلیور کی تعلیم کا ایک مرحلہ ٹرنٹی کالج ڈبلن میں طے ہوا اور بعد میں اس نے ایڈنبرا اور لیڈن میں طبّ کے مضامین پڑھے اور سند یافتہ طبیب کی حیثیت سے اپنا مطب شروع کیا، لیکن اس پیشے میں آلیور کو کام یابی نہیں ملی۔ وقت گزرتا گیا اور طب میں اس کی دل چسپی کم ہوتی چلی گئی۔ وہ ادب کا مطالعہ کرنے لگا اور اس کے اندر ادب پڑھنے کے ساتھ لکھنے کی خواہش بڑھ گئی۔ آلیور گولڈ اسمتھ نے ابتدائی طور پر مختلف رسائل کو مضامین ارسال کرنا شروع کیے اور ان کی اشاعت نے اسے بہت حوصلہ دیا۔ اس دور میں انگریزی ادب کے کئی نام شہرت اور مقبولیت کی بلندیوں‌ کو چھو رہے تھے اور آلیور کو ان قدآور شخصیات کے درمیان خود کو منوانا تھا۔ اس نے سنجیدگی سے کہانیاں اور پھر بڑی محنت اور لگن سے ایک ناول لکھا جو آلیور گولڈ اسمتھ کی وجہِ شہرت بن گیا۔

    اس کا ناول The Vicar of Wakefield کے نام سے 1766ء میں‌ شایع ہوا۔ اس سے قبل 1770ء میں آلیور کی ایک نظم The Deserted Village کے عنوان سے ایک ڈرامے The Good-Natur’d Man کا حصّہ بن کر بطور شاعر اس کی پہچان بن چکی تھی۔ ناول کی شہرت نے آلیور گولڈ اسمتھ کو بڑا حوصلہ دیا۔ اس کے بعد مصنف کی کتاب Citizens of the World منظرِ‌ عام پر آئی اور وہ ہر خاص و عام میں اس کی پہچان کا سبب بن گئی۔

    انگریزی ادب میں آلیور گولڈ اسمتھ کو جو مقام و مرتبہ حاصل ہوا، اس کی بنیاد دو کامیڈی ڈرامے تھے۔ ایک کا ذکر ہم اوپر کر چکے ہیں اور دوسرا She stoops to Conquer تھا۔ ان ڈراموں کا بعد میں متعدد غیر ملکی زبانوں میں ترجمہ کیا گیا اور یہ ڈرامے اسٹیج بھی کیے گئے۔

    گولڈ اسمتھ کے دور میں انگریزی ادب پر جذباتیت غالب تھی۔ فکشن اور المیہ کو معاصر ادیب اہمیت دیتے تھے مگر آلیور گولڈ اسمتھ نے ان سے الگ اپنی راہ نکالی اور اس دور میں‌ وہ حقیقت پسندی کو اہمیت دینے والا ادیب بن کر ابھرا۔ کہتے ہیں کہ گولڈ اسمتھ نے اپنی تصانیف سے کافی کمایا لیکن مالی طور پر خوش حال نہیں‌ ہوسکا۔ اس کی ایک وجہ تھی۔ دراصل آلیور طبیعتاً بہت سادہ اور درد مند انسان تھا۔ وہ دریا دل اور دوسروں کی مدد کرنے کا جذبہ رکھتا تھا جس کا دوسرے لوگوں نے ناجائز فائدہ اٹھایا۔ لوگ اس کو جھوٹی دکھ بھری داستان سنا کر رقم اینٹھنے میں‌ کام یاب ہوجاتے تھے اور یوں اس کی دولت کا ایک بڑا حصّہ دوسروں کی مالی امداد کرتے ہوئے خرچ ہوگیا۔

    اگرچہ آلیور گولڈ اسمتھ کو ایک بڑے مصنّف اور ڈرامہ نگار کے طور پر بہت کم یاد کیا جاتا ہے، مگر انگریزی ادب میں اس کا تذکرہ ضرور ہوتا ہے۔ برطانیہ، بالخصوص آئرلینڈ اور اسکاٹ لینڈ میں چند شاہراہیں بھی آلیور سے موسوم ہیں جب کہ متعدد مقامات پر آلیور گولڈ اسمتھ کے یادگاری مجسمے بھی دیکھے جاسکتے ہیں۔

  • ستار طاہر: ایک باکمال ادیب اور شان دار مترجم

    ستار طاہر: ایک باکمال ادیب اور شان دار مترجم

    ستّار طاہر ایک باکمال مصنّف، مؤلف اور شان دار مترجم تھے جنھوں نے بحیثیت مدیر بھی اپنی صلاحیتوں‌ کو منوایا اور اپنے دور کے بہترین جرائد کی ادارت کی اور ان کا وقار بڑھایا۔ اردو زبان میں‌ کئی موضوعات پر مضامین اور کتابوں‌ کے علاوہ ستار طاہر نے غیرملکی ادب کا معیاری ترجمہ اردو زبان میں کیا جنھیں قارئین نے بہت پسند کیا۔ ستار طاہر 1993ء میں‌ آج ہی کے روز انتقال کر گئے تھے۔

    اہلِ علم و ادب میں ستار طاہر اپنی صلاحیتوں، قلم کی روانی اور معیاری تراجم کے لیے مشہور تھے۔ ان کی تحریریں اور تصانیف قارئین میں بے حد پسند کی گئیں۔ ستار طاہر گورداس پور میں یکم مئی 1940ء کو پیدا ہوئے۔ قیامِ پاکستان کے بعد وہ ہجرت کرکے فیصل آباد آگئے۔ زمانۂ طالبِ علمی ہی سے لکھنے پڑھنے سے لگاؤ رہا اور شروع ہی سے مطالعہ کی عادت پختہ ہوگئی تھی۔ اسی شوق نے ستار طاہر کو ادب کی طرف مائل کیا اور تصنیف و تالیف کے ساتھ انھوں نے ترجمہ اس طرح کیا کہ اس پر تخلیق کا گمان ہوتا تھا۔ ستار طاہر نے کالم نگاری بھی کی اور 250 سے زائد کتابیں مرتب کیں کرنے کے علاوہ خاص طور پر روسی ادب کا ترجمہ کیا۔ اپنا قائدِاعظم ایک، دنیا کی سو عظیم کتابیں اور مارشل لاء کا وائٹ پیپر سمیت کئی کتابیں ستار طاہر کے زورِ قلم کا نتیجہ ہیں۔ انھوں نے فلموں کی کہانیاں‌ بھی لکھیں۔ ان میں وعدے کی زنجیر اور میرا نام ہے محبت جیسی فلمیں‌ شامل ہیں۔ ستار طاہر نے ایک مضمون نگار اور کہانی کار کی حیثیت سے مختلف طبقات کی زندگیوں کو اپنی تحریروں میں‌ سمیٹا اور داد و تحسین پائی۔

    ستار طاہر کو جنرل ضیاء الحق کے دورِ آمریت میں‌ جیل کی ہوا بھی کھانا پڑی تھی۔ وہ اپنے نظریات اور افکار کی وجہ سے بھی اہل علم و ادب میں نمایاں‌ پہچان رکھتے تھے۔ ستار طاہر کو جمہوریت اور بھٹو صاحب پر کتاب لکھنے کی پاداش میں جیل بھیجا گیا تھا۔ ستار طاہر کا شمار ان مصنفین میں ہوتا ہے جو قلم کی مزدوری کرنے کے ساتھ ساتھ جمہوریت کے حامی و پرچارک رہے۔

    ان کی متعدد تصانیف میں‌ سورج بکف و شب گزیدہ، حیاتِ سعید، زندہ بھٹو مردہ بھٹو، صدام حسین، مارشل لا کا وائٹ پیپر، تعزیت نامے سرِ فہرست ہیں۔ ان کی ترجمہ کردہ کتب میں ری پبلک، حسن زرگر، دو شہروں کی ایک کہانی، شہزادہ اور فقیر، سرائے، تاراس بلبا اور دنیا کی سو عظیم کتابیں شامل ہیں۔

    حکومتِ پاکستان نے ستّار طاہر کے لیے بعد از مرگ صدارتی ایوارڈ کا اعلان کیا تھا۔ ستار طاہر لاہور میں اسلام پورہ کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • رجب علی بیگ سرورؔ: فسانۂ عجائب کے خالق کا تذکرہ

    رجب علی بیگ سرورؔ: فسانۂ عجائب کے خالق کا تذکرہ

    فسانۂ عجائب کو اردو ادب میں نثرِ مقفیٰ کا شاہ کار اور دبستانِ لکھنؤ کی نمائندہ داستان تسلیم کیا گیا ہے جس کے مصنّف رجب علی بیگ سرور ہیں۔ قدیم انشا میں مصنّف کے طرزِ دل نشیں کی یہ یادگار کسی تعارف کی محتاج نہیں۔

    بلاشبہ اردو زبان میں کلاسیکی ادب انتہائی توانا اور زرخیز رہا ہے اور اس کی ایک نمایاں مثال رجب علی بیگ سرور کا فسانۂ عجائب ہے۔ اردو ادب کے طالبِ علم اور باذوق قارئین اس داستان اور اس کے مصنّف سے کسی قدر ضرور واقف ہیں۔ آج رجب علی بیگ سرورؔ کی برسی ہے۔ وہ 1867ء میں آج ہی کے روز وفات پاگئے تھے۔ ان کی داستان اپنے زمانے کے لکھنؤ کی ایسی جیتی جاگتی تصویر ہے جس میں ہم خود کو حیران و ششدر پاتے ہیں۔

    تحریر کردہ اس داستان کے بارے میں شمس الدّین احمد لکھتے ہیں، ”فسانۂ عجائب لکھنؤ میں گھر گھر پڑھا جاتا تھا اور عورتیں بچّوں کو کہانی کے طور پر سنایا کرتی تھیں اور بار بار پڑھنے سے اس کے جملے اور فقرے زبانوں پر چڑھ جاتے تھے۔“ اس داستان کی مقبولیت ایک الگ بات ہے، لیکن فسانۂ عجائب کے طرزِ تحریر اور اس کے محاسن و معائب پر نقّادوں کی رائے مختلف ہے۔ آگے بڑھنے سے پہلے مصنّف کا تعارف اور ان کے تخلیقی سفر پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔

    سُرور کا درست سنہ پیدائش معلوم نہیں اور اسی طرح‌ تاریخِ وفات میں اختلاف ہے لیکن قیاس ہے کہ وہ 1786ء میں پیدا ہوئے۔ ان کی وفات کا مہینہ مارچ اور اپریل بھی بتایا جاتا ہے۔ انھیں شاعری کا شوق بھی تھا اور نثر نگاری کے ساتھ شاعری بھی کی۔ رجب علی بیگ ان کا نام تھا اور سُرورؔ تخلّص۔ وطن لکھنؤ تھا۔ تاہم تعلیم و تربیت کے مراحل دہلی میں انجام پائے۔ عربی فارسی زبان و ادب کے علاوہ خوش نویسی اور موسیقی میں بھی دست گاہ رکھتے تھے۔ اس دور میں زبان و تہذیب کا بڑا رواج تھا اور اس کے ساتھ اکثر نوجوانوں کے مشاغل میں شہ سواری اور تیر اندازی وغیرہ بھی شامل ہوتے تھے۔ سرور نے شہ سواری اور تیر اندازی بھی سیکھی۔ کہتے ہیں دوستوں کا حلقہ بہت وسیع تھا جن میں مرزا غالبؔ بھی ایک تھے۔ ان سے سرور کی خوب راہ و رسم رہی۔

    یہ 1824ء کی بات ہے جب والیٔ اودھ غازی الدّین حیدر رجب بیگ سرور سے کسی بات پر خفا ہوگئے اور لکھنؤ بدر کردیا۔ سرورؔ کانپور چلے گئے اور وہیں فسانۂ عجائب لکھی جس نے انھیں بہت شہرت دی۔ اس تصنیف کے لیے انھیں حکیم اسد علی نے تحریک دی تھی بعد میں اجازت ملی تو لکھنؤ لوٹ گئے۔ جب سلطنتِ اودھ کا خاتمہ ہوا تو رجب صاحب وظیفہ سے محروم ہوگئے۔ اور مالی تنگی کا شکار ہوکر ایک مرتبہ پھر لکھنؤ چھوڑنا پڑا۔ تب، مہاراجہ بنارس، مہاراجہ الور اور مہاراجا پٹیالہ کے درباروں سے منسلک ہوئے اور وظیفہ پایا۔ زندگی کے آخری ایّام میں آنکھوں کی بیماری کے علاج کی غرض سے کلکتہ گئے تھے جہاں سے واپسی پر انھیں بنارس میں اجل نے آ لیا۔

    فسانۂ عجائب کے علاوہ رجب علی بیگ سرور کی تصانیف میں سلطانی، گل زارِ سرور، شبستانِ سرور، انشائے سرور اور منظومات شامل ہیں۔

    اگرچہ فورٹ ولیم کالج کی سلیس نگاری نے مولانا فضلی اور مرزا رسوا کے پُرتکلف طرزِ تحریر پر کاری ضرب لگائی اور باغ و بہار جیسی سادہ نثر سامنے آئی، لیکن اس زمانے میں اسے قبول کرنے کے بجائے بعض ادبا نے قدیم طرز کو جاری رکھا اور اس کی حمایت کی۔ ان میں رجب علی بیگ سرور بھی شامل تھے۔ باغ و بہار چوں کہ عام فہم اسلوب کی حامل تھی تو فارسی کے پرستار اور مشکل پسند نثر نگاروں نے اس پر اعتراضات کیے اور سرور نے اسے منوانے کی غرض سے ”فسانۂ عجائب“ کی صورت میں مشکل اور مقفّیٰ عبارت لکھ ڈالی جو ایک طرح سے باغ و بہار کی ضد تھی۔ معلوم ہوتا ہے کہ مصنف کے نزدیک سادہ و سہل زبان کوئی خوبی نہیں، بلکہ عیب تھا۔ وہ صناعی اور عبارت آرائی کو ہی سب کچھ سمجھتے تھے۔ چوں کہ اس زمانے میں یہ اندازِ نگارش عام بھی تھا اور اس کے سمجھنے اور پڑھنے والے بھی موجود تھے، اس لیے سرور کی یہ داستان بہت مقبول ہوئی، لیکن اس کے چند برس بعد ہی زبان اور طرزِ نگارش میں تبدیلیاں آئیں اور بعد میں نقّادوں نے اس داستان کو فقط انشا پردازی کا نمونہ اور ایک یادگارِ ادب شمار کیا۔ اس سے زیادہ اس کی اہمیت تسلیم نہیں کی جاتی۔

    نقّاد مانتے ہیں کہ سرور موقع محل کے مطابق زبان اختیار کرنے پر پوری قدرت رکھتے ہیں۔ منظر کشی، مختلف فنون کی اصطلاحیں، ہر قسم کے سازو سامان کی تفصیلات، عوام النّاس کے مختلف طبقات کا طرزِ کلام، گویا ہر قسم کا بیان نہایت مناسب اور موزوں الفاظ میں کیا گیا ہے۔ عبارت آرائی اور قافیہ بندی میں بھی سرور کی قدرت اور استادی جھلکتی ہے۔

    فسانۂ عجائب کی زبان کو دو حصّوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ ایک قسم سلیس اور بامحاورہ زبان اور دوسری قسم پیچیدہ اور گراں بار ہے جس کو سمجھنے کے لیے قاری کو فرنگی محل کی گلیوں کی خاک چھاننا پڑتی ہے۔

    فسانۂ عجائب سے یہ اقتباس ملاحظہ کیجیے۔

    "صاحبو! دُنیائے دوں، نیرنگیٔ زمانۂ سِفلَہ پرور، بو قلموں عبرت و دید کی جا ہے۔ گرما گرم آئندہ رَوِندہ کا بازار ہے۔ کس و ناکس جنسِ نا پائیدار، لہو و لعب کا خریدار ہے۔ اپنے کام میں مصروف قضا ہے۔ جو شے ہے، ایک روز فنا ہے۔ معاملاتِ قضا و قدر سے ہر ایک ناچار ہے، یہی مسئلۂ جبر و اختیار ہے۔ کوئی کسی کی عداوت میں ہے، کوئی کسی کا شیدا ہے۔ جسے دیکھا، آزاد نہ پایا؛ کسی نہ کسی بکھیڑے میں مبتلا ہے۔”

    ایک اور جگہ لکھتے ہیں:
    "دُنيا جائے آزمائش ہے۔ سفیہ جانتے ہیں یہ مقام قابلِ آرام و آسائش ہے۔ دو روزہ زیست کی خاطر کیا کیا ساز و ساماں پیدا کرتے ہیں۔ فرعونِ با ساماں ہو کے زمین پر پاؤں نہیں دھرتے ہیں۔ جب سر کو اٹھا آنکھ بند کر کے چلتے ہیں، خاکساروں کے سر کچلتے ہیں۔ آخرکار حسرت و ارماں فقط لے کر مرتے ہیں۔ جان اُس کی جستجو میں کھوتے ہیں جو شے ہاتھ آئے ذلّت سے، جمع ہو پریشانی و مشقّت سے، پاس رہے خِسَّت سے، چھوٹ جائے یاس و حسرت سے۔ پھر سَر پر ہاتھ دھر کر روتے ہیں۔”

    فسانۂ عجائب 1824ء کی تصنیف ہے۔ حسن و عشق کی اس داستان میں بہت سی غیرفطری باتیں بھی شامل ہیں جنھیں بعض اہلِ نظر نے داستان اور ناول کے بیچ کی کڑی قرار دیا ہے۔ تاہم آج سرور اور ان کی یہ تصنیف اردو ادب کی تاریخ اور نصاب تک محدود ہیں۔