Tag: یوم وفات

  • نثار بزمی: فلمی موسیقی کو نئی جہت بخشنے والا موسیقار

    نثار بزمی: فلمی موسیقی کو نئی جہت بخشنے والا موسیقار

    فضل احمد کریم فضلی کی فلم ’ایسا بھی ہوتا ہے‘ بطور موسیقار نثار بزمی کی پاکستان میں پہلی فلم تھی، لیکن تقسیمِ‌ ہند سے قبل اور بعد میں‌ بھارت میں قیام کے دوران وہ 40 سے زائد فلموں کی موسیقی ترتیب دے چکے تھے۔

    نثار بزمی نے پہلی بار فلم جمنار پار کے لیے موسیقی ترتیب دی تھی۔ یہ 1946ء کی بات ہے اور 1961ء تک وہ بھارت میں فلم انڈسٹری کے لیے کام کرتے رہے۔ تاہم کوئی خاص کام یابی ان کا مقدّر نہیں بنی تھی۔ نثار بزمی نے 1962ء میں پاکستان ہجرت کی تو جیسے قسمت کی دیوی ان پر مہربان ہوگئی۔ وہ اپنے عزیز و اقارب سے ملنے کے لیے کراچی آئے تھے اور پھر یہیں کے ہو رہے۔ پاکستان میں نثار بزمی نے فلم انڈسٹری کے لیے لازوال دھنیں تخلیق کیں۔

    فلم ‘لاکھوں میں ایک’ کا مشہور گیت ’چلو اچھا ہوا تم بھول گئے‘ کی دھن نثار بزمی نے ترتیب دی تھی۔ اس کے علاوہ ‘اے بہارو گواہ رہنا، اک حسن کی دیوی سے مجھے پیار ہوا تھا، رنجش ہی سہی دل ہی دکھانے کے لیے آ، آپ دل کی انجمن میں حسن بن کر آ گئے، دل دھڑکے، میں تم سے یہ کیسے کہوں، کہتی ہے میری نظر شکریہ، کاٹے نہ کٹے رتیاں، سیاں تیرے پیار میں جیسے لازوال گیتوں کے اس موسیقار نے یہاں‌ عزّت، مقام و مرتبہ پایا۔ ان کی ترتیب دی ہوئی دھنوں پر اپنے دور کے مشہور و معروف گلوکاروں نے اپنی آواز کا جادو جگایا۔

    دسمبر 1924ء کو صوبہ مہاراشٹر کے ایک ضلع میں آنکھ کھولنے والے نثار بزمی کا اصل نام سید نثار احمد تھا۔ نوعمری ہی سے انھیں موسیقی سے لگاؤ پیدا ہوگیا تھا اور ان کا شوق اور موسیقی سے رغبت دیکھتے ہوئے والد نے انھیں استاد امان علی خان کے پاس بمبئی بھیج دیا جن سے انھوں نے اس فن کے اسرار و رموز سیکھے۔

    نثار بزمی نے آل انڈیا ریڈیو میں چند سال میوزک کمپوزر کی حیثیت سے کام کیا اور پھر فلمی دنیا میں‌ قدم رکھا، وہ تقسیم کے پندرہ برس تک ہندوستان کی فلم انڈسٹری سے وابستہ رہے تھے اور بعد میں پاکستان ہجرت کرکے فلمی دنیا میں‌ اپنا نیا سفر شروع کیا۔ موسیقار نثار بزمی نے طاہرہ سیّد، نیرہ نور، حمیرا چنا اور عالمگیر جیسے گلوکاروں بھی اپنی آواز کا جادو جگانے کا موقع دیا۔ مختلف شعرا کے کلام پر دھنیں ترتیب دینے والے نثار بزمی خود بھی شاعر تھے۔ ان کا مجموعۂ کلام ’پھر سازِ صدا خاموش ہوا‘ کے نام سے شایع ہوا۔

    کئی فلمی گیتوں کی لازوال دھنوں کے خالق نثار بزمی 22 مارچ 2007ء کو انتقال کرگئے تھے۔ حکومتِ‌ پاکستان نے انھیں پرائیڈ آف پرفارمنس سے نوازا تھا۔

  • سلطان محمّد تغلق: برصغیر کی تاریخ کی ایک متنازع شخصیت

    سلطان محمّد تغلق: برصغیر کی تاریخ کی ایک متنازع شخصیت

    سلطان محمّد تغلق کو تاریخ میں ایک متنازع حکم راں کے طور پر پیش کیا گیا ہے جو بیک وقت اپنی شخصی خامیوں اور خوبیوں کی وجہ سے ناپسندیدہ اور مقبول رہے ہیں۔

    اکثر محققین نے محمد تغلق کو ایک ذہین، عدل پرور اور علم دوست حکم راں کے طور پر متعارف کروایا ہے، مگر ان کے درمیان اختلافِ رائے بھی پایا جاتا ہے۔ سلطان کی شخصیت میں تضاد کی نشان دہی کرتے ہوئے مسلمان مؤرخین کے علاوہ غیرمسلم محققین نے بھی ان کے دورِ حکومت کے بعض اقدامات اور فیصلوں کو ان کی کوتاہ بینی سے تعبیر کیا ہے۔ آج سلطان تغلق کی برسی ہے۔

    مشہور ہے کہ محمد تغلق دینی علم رکھنے کے ساتھ فلسفہ و منطق، ریاضی، فلکیات اور طب جیسے علوم میں گہری دل چسپی رکھتے تھے۔ منشی محمد ذکاء اللہ کی "تاریخ ہندوستان” میں سلطان محمد تغلق کے بارے میں لکھا ہے: "سلطان محمد تغلق، جو اپنی ذہانت اور علم دوستی میں مشہور تھے، انہوں نے مختلف علوم میں مہارت حاصل کی۔ وہ فلسفہ، منطق، ریاضی، فلکیات، اور طب میں گہری دل چسپی رکھتے تھے۔ ان کی یادداشت بہت تیز تھی اور وہ پیچیدہ مسائل کو آسانی سے حل کر لیتے تھے۔ وہ ایک تجربہ کار حکم راں تھے، لیکن ان کے بعض فیصلوں نے ان کی سلطنت کو نقصان پہنچایا۔”

    دوسری طرف اسکاٹش محقق اور مؤرخ، جو برٹش انڈیا کے لیے اپنی خدمات انجام دے رہا تھا، اس نے اپنی تصنیف "ہسٹری آف انڈیا” میں لکھا ہے: "سلطان اپنی ذہانت اور قابلیت میں بے مثال تھے، لیکن ان کی طبیعت میں ایک خاص قسم کی ضد اور جنون تھا۔ ان کے فیصلے اکثر غیر متوقع اور بعض اوقات تباہ کن ہوتے تھے۔ انہوں نے دارالحکومت کو دہلی سے دولت آباد منتقل کرنے کا حکم دیا، جس سے لاکھوں لوگ بے گھر اور پریشان ہوئے۔ ان کا علامتی سکہ جاری کرنے کا تجربہ بھی ناکام رہا اور اس سے معاشی افراتفری پھیل گئی۔”

    تخت نشینی کے بعد سلطان نے اپنی سلطنت کو مستحکم کرنے کے لیے کئی فوجی مہمات کے دوران دکن اور جنوبی ہندوستان کے کچھ حصوں کو فتح کیا۔ گجرات اور مالوا میں بغاوتوں کو کچل دیا، مگر ان کی خراسان، قراجل (ہماچل پردیش) اور دیگر چند چھوٹی ریاستوں میں مہم جوئی ناکام رہی۔ محققین نے ان کی ناکامیوں کی ایک بڑی وجہ دور رس پالیسیوں کا فقدان بتایا ہے۔ سلطان کی فتوحات سے سلطنت دہلی کا رقبہ عارضی طور پر وسیع ہوا، لیکن ان کی پالیسیوں کے منفی اثرات بھی مرتب ہوئے۔

    تغلق، سلاطینِ دہلی کے معروف خاندان میں سے تھے جس خاندان کے تین حکم راں نام وَر ہوئے۔ ان میں‌ بانی حکم راں غیاث الدین تغلق شاہ، سلطان محمد بن تغلق شاہ اور سلطان فیروز شاہ تغلق شامل ہیں۔ لیکن سلاطینِ دہلی کی تاریخ میں محمد تغلق شاہ اپنی شخصی خامیوں اور خوبیوں کی وجہ سے متنازع رہے ہیں۔ انھیں سخت گیر منتظم اور ترقی پسند بادشاہ کہا جاتا ہے اور بعض مؤرخین کے نزدیک وہ بے رحم اور کوتاہ بیں تھے۔ تعجب خیز امر یہ ہے کہ محمد تغلق جن کے بارے میں لکھا جاتا ہے کہ وہ دین کا علم رکھتے تھے، لیکن دوسری طرف ان پر حکومت غیر شرعی سزاؤں اور بعض غیراسلامی احکامات کی وجہ سے بھی تنقید کی گئی ہے۔

    یحییٰ بن احمد سرہندی سلطان محمد تغلق کی بادشاہت کے نتائج پر لکھتے ہیں: ’’اُمورِ سلطنت بالکل چوپٹ ہوگئے اور نظامِ مملکت مکمل طور پر درہم برہم ہو کر رہ گیا، جب ایک طرف سے مملکت میں رونما ہونے والے فتنوں کا سدِ باب کرنے پر توجہ دی جاتی تو دوسری طرف سے فتنوں کا دروازہ کھل جاتا۔ جب ایک طرف ملک میں امن و امان برقرار کرنے کا خیال اس (سلطان) کے دل میں آتا تو دوسری طرف کوئی زبردست خلل واقع ہوجاتا اور وہ (اپنی تدبیروں کے الٹا ہوجانے پر) حیران و پریشان ہو کر رہ جاتا۔ سلطنت کی بنیاد جو کہ گزشتہ بادشاہوں نے ڈالی تھی پوری طرح متزلزل ہوگئی۔ وہ جس کام کا تہیہ کر لیتا تھا (اس کے نتیجے میں) اختلالِ مملکت، نقصانِ دین، اپنی تشویش، ملک داری اور دست گاہِ شہریاری میں سے (اس کے پاس) کچھ بھی باقی نہ رہا۔‘‘

    سلطان محمد بن تغلق کو ایک بہادر، جری حکم راں کے ساتھ ظالم بھی لکھا گیا ہے۔ وہ اپنے مخالفین کو معمولی خطا پر بھی درد ناک سزائیں دینے کے لیے مشہور تھے۔

    سلطان محمد بن تغلق نے مملکتِ ہند اور چین کے درمیان حائل علاقہ قراچل فتح کرنے کے لیے 80 ہزار سواروں پر مشتمل لشکر ترتیب دیا۔ اس مہم کامقصد کیا تھا؟ مذکورہ اَمر میں مؤرخین میں خاصا اختلاف پایا جاتا ہے، کچھ کا خیال ہے کہ وہ چین فتح کرنا چاہتا تھا لیکن یہ بات حقائق کے منافی ہے۔ بعض کی رائے ہے کہ وہ قراچل علاقے کی عورتوں کو اپنے حرم میں دیکھنا چاہتا تھا لیکن یہ اَمر سلطان کے کردار کے تمام جائزوں کے برخلاف ہے۔ کچھ مؤرخین کا خیال ہے کہ وہ پہاڑی علاقے کے سرداروں کو اپنے اقتدارِ اعلیٰ کے زیرِ اثر لانا چاہتا تھا۔ یہ رائے معتبر ہے کیونکہ اشوکِ اعظم کے بعد وہ واحد حکم ران تھا کہ جو’’جنوبی ہند اور شمالی ہند ایک اکائی‘‘ کے نظریہ کا علم بردار تھا۔ یحییٰ بن احمد سرہندی کے مطابق ’’اس نے اپنے سواروں کو حکم دیا کہ وہاں سے جب وہ نشیبی علاقے میں آئیں تو واپسی کے راستے میں (سلسلۂ مواصلات برقرار رکھنے کے لیے) چوکیاں بنائیں تاکہ لوٹتے وقت دشواری نہ ہو۔ جب لشکر وہاں پہنچا تو حسبِ دستور چوکیاں قائم کی گئیں اور سارا لشکر سلسلۂ کوہِ قراچل میں داخل (بھی) ہو گیا لیکن رسد کی کمی اور راستے کی دشواری اِس پر غالب آئی۔ جو چوکیاں قائم ہوئیں تھیں اُن پر پہاڑی لوگوں نے قبضہ کرکے سب چوکیداروں کو قتل کر دیا۔ وہ لشکر جو کہ سلسلۂ کوہِ قراچل میں داخل ہوا تھا سارے کا سارا جان سے ہاتھ دھو بیٹھا۔ اکثر سردار گرفتار ہوگئے اور کافی عرصہ تک (وہاں) کے راجاؤں کی قید میں رہے۔‘‘

    مہم جوئی کے اخراجات اور بے جا فیاضی کے سبب جب شاہی خزانہ خالی ہوگیا تو سلطان محمد بن تغلق نے اس صورت حال سے نمٹنے کے لیے سونے کے سکّوں کی جگہ تانبے کے سکّے رائج کرنے کا حکم دیا۔ یہ فیصلہ بھی غلط ثابت ہوا اور اس کے اثرات نے سلطان کی ساکھ و سلطنت کو بہت نقصان پہنچایا۔ جعل ساز اور دھوکے بازوں نے شہروں اور قصبوں میں ٹکسال قائم کر کے دھڑا دھڑ تانبے کے سکّے بنائے اور ان کے عوض سونا، چاندی، گھوڑے، ہتھیار اور دیگر قیمتی اشیا خریدنا شروع کر دیں۔ ایسا کرنے کا منطقی نتیجہ کساد بازاری ہی تھا جس کے بعد سلطان کو ایک بار پھر شاہی فرمان جاری کرنا پڑا کہ لوگ تانبے کے سکّے شاہی خزانے میں جمع کروا کے سونے کے سکّے حاصل کریں۔ اس سے شاہی خزانے کا بھرکس نکل گیا۔

    سلطان محمد بن تغلق نے دکن میں دَیو گری کا شہر آباد کیا جسے بعد ازاں دولت آباد کہا جانے لگا اور پھر اسے سلطنت کا نیا انتظامی شہر قرار دیا۔ اس کے بعد فرمان صادر کیا کہ دہلی اور مضافات کے تمام باشندوں کو کارواں در کارواں دولت آباد میں منتقل کیا جائے اور ان کے لیے مکانات خریدنے کے لیے شاہی خزانے سے پیسے دیے گئے۔ کہتے ہیں کہ اس اَمر سے دہلی شہر ایسا اجڑا کہ چند دنوں بعد یہاں سے بلّی اور کتّے کے بولنے کی آوازیں بھی سنائی نہ دیتی تھیں۔ ایسے میں اوباش لوگ دہلی میں داخل ہوگئے اور جو شہری یہاں رہ گئے تھے ان کو لوٹ لیا گیا لیکن دوسری جانب تمام اطرافی قصبات سے علماء اور مشائخ تک کو دولت آباد میں بسایا گیا۔ حالانکہ دہلی ایک سو ساٹھ سال سے سلطنت کا دارُالحکومت چلا آ رہا تھا۔ دہلی کی بربادی اور دولت آباد کی آبادی بھی سلطان کا غلط فیصلہ تھا۔

    سلطان محمد تغلق 1290ء میں ملتان میں پیدا ہوئے تھے۔ وہ بادشاہ غیاث الدّین تغلق کی اولاد تھے۔ 1351ء میں آج ہی کے دن سلطان ٹھٹھہ میں بیماری کے سبب انتقال کرگئے تھے۔ وفات کے بعد ان کے چچا زاد بھائی فیروز تغلق کو سلطنتِ دہلی کا نیا حاکم قبول کر لیا گیا۔

  • ڈاکٹر انور سدید: ادب ان کا پہلا عشق تھا

    ڈاکٹر انور سدید: ادب ان کا پہلا عشق تھا

    ڈاکٹر انور سدید اردو ادب میں بطور افسانہ نگار، نقاد، محقق اور کالم نویس پہچانے جاتے ہیں جن کی آج برسی منائی جارہی ہے۔ 20 مارچ 2016ء انور سدید انتقال کرگئے تھے۔

    ڈاکٹر انور سدید 4 دسمبر 1928ء کو ضلع سرگودھا کے دور افتادہ قصبہ مہانی میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم سرگودھا اور ڈیرہ غازی خان کے اسکولوں میں مکمل کی اور میٹرک کا امتحان فرسٹ ڈویژن میں پاس کیا۔ مزید تعلیم کے لیے اسلامیہ کالج لاہور میں داخل ہوئے۔ اس دور میں اسلامیہ کالج لاہور میں تحریک پاکستان کی سرگرمیاں زور پکڑ چکی تھیں، انور سدید بھی ان میں شرکت کرنے لگے اور ایف ایس سی کا امتحان نہ دے سکے۔ اسی دور میں انھوں نے افسانے لکھنا شروع کردیے تھے جو مشہور ادبی جرائد میں شایع ہونے لگے۔ پیشہ ورانہ زندگی کی ابتدا محکمۂ آبپاشی میں لوئر گریڈ کلرک سے کی۔ بعد ازاں گورنمنٹ انجینئرنگ اسکول رسول (منڈی بہاء الدین) میں داخل ہو گئے۔ اگست 1948ء میں اوّل آنے اور طلائی تمغہ پانے کے بعد آب پاشی کے ڈیپارٹمنٹ میں سب انجینئر ہو گئے۔ اسی دور میں‌ دوبارہ تعلیم کی طرف راغب ہوئے اور ایف اے، بی اے اور ایم اے کے امتحان پرائیویٹ امیدوار کی حیثیت سے دیے۔ انور سدید نے”اردو ادب کی تحریکیں” کے عنوان سے مقالہ لکھ کر پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ ان کے نگران و سرپرست ڈاکٹر وزیر آغا جیسے بڑے ادیب اور انشا پرداز تھے۔ بعدازاں انور سدید نے انجینئرنگ کا امتحان اے ایم آئی، انسٹی ٹیوٹ آف انجینئر ڈھاکہ سے پاس کیا۔ محکمۂ آبپاشی پنجاب سے 1988ء میں ریٹائرمنٹ کے بعد صحافت کا پیشہ اختیار کیا۔ اور "نوائے وقت” سے آخر دم تک وابستہ رہے۔ تنقید، انشائیہ نگاری، شاعری اور کالم نگاری میں اپنی فکر اور تخلیقی صلاحیتوں کا اظہار کیا۔ اے پی این ایس سے بہترین کالم نگار کا ایوارڈ لینے والے انور سدید کو ۲۰۰۹ میں صدر پاکستان نے انھیں تمغائے امتیاز سے نوازا تھا۔

    ڈاکٹر انور سدید نے ادبی تنقید اور دیگر اصناف پر تصانیف یادگار چھوڑی ہیں جو ان کے کالموں‌ کے علاوہ ہیں۔ ان کی تحریروں اور تصانیف پر نظر ڈالی جائے تو ان میں اُردو اَدب میں سفر نامہ، ادبی تاریخ ”اُردو ادب کی تحریکیں، میر انیس کی اقلیم سخن، غالب کا جہاں اور، فکر و خیال، اختلافات، کھردرے مضامین، برسبیل تنقید کے ساتھ متعدد شخصیات پر کتب شامل ہیں۔ خاکہ نگاری کی بات کی جائے تو اس میں‌ محترم چہرے، قلم کے لوگ، ادیبانِ رفتہ اور زندہ لوگ انور سدید کے قلم سے نکلی ہیں۔

  • اخلاق احمد دہلوی کی "یادوں کا سفر”

    اخلاق احمد دہلوی کی "یادوں کا سفر”

    اخلاق احمد دہلوی نے اپنی خود نوشت سوانح عمری میں کئی دل چسپ واقعات اور پُرلطف تذکرے رقم کیے ہیں جن کا مطالعہ ہمیں متحدہ ہندوستان کی دلّی، تقسیمِ ہند کے واقعات، مختلف شخصیات اور ریڈیو پاکستان کے اہلِ علم و فن سے آشنائی کا موقع دیتا ہے۔ وہ ایک معروف براڈ کاسٹر ہی نہیں ایک ادیب اور خاکہ نگار بھی تھے۔

    اخلاق احمد 12 جنوری 1919ء کو کوچۂ چیلاں، دہلی میں پیدا ہوئے۔ تقسیم ہند کے بعد پاکستان منتقل ہو گئے اور لاہور میں سکونت اختیار کی۔ وہاں وہ ریڈیو پاکستان سے وابستہ رہے اور چند اہم براڈ کاسٹروں میں سے ایک کہلائے۔ ان کے اپنے وقت کے کئی ادیبوں، شعرا اور بڑے بڑے فن کاروں سے دوستی اور یاد اللہ رہی۔ اخلاق احمد نے انہی مشاہیر کے بہت خوب صورت شخصی خاکے تحریر کیے اور ادبی حلقوں میں پہچان بنائی۔ اخلاق احمد دہلوی کے شخصی خاکوں کے تین مجموعے اور بیان اپنا، پھر وہی بیان اپنا اور میرا بیان کے نام سے شایع ہوئے۔ 20 مارچ 1992ء کو اخلاق احمد دہلوی انتقال کرگئے تھے۔ آج ان کی برسی ہے۔ یہاں ہم اخلاق احمد دہلوی کے تذکرے پر مشتمل ایک کالم سے چند پارے نقل کررہے ہیں جو معروف ادیب اور مشہور کالم نگار رفیع الزّماں زبیری نے تحریر کیا تھا۔

    اخلاق احمد دہلوی کی خود نوشت سوانح عمری یادوں کا سفر کے نام سے شائع ہوئی تھی۔

    زبیری صاحب لکھتے ہیں، دہلی کے مشہور کوچۂ چیلاں میں ان کا بچپن بڑی بڑی شخصیات کے درمیان گزرا۔ مولانا محمد علی جوہر ان کے ہم محلّہ تھے، آصف علی کا مکان ان کے گھر کے بالکل سامنے تھا۔ مولانا محمد علی کے اخبار”کامریڈ” کا دفتر اور پریس بھی تھا۔ اس کے ساتھ جو مسجد تھی وہاں اخلاق احمد قرأت، فارسی اور عربی سیکھتے تھے اور بچوں کو نماز بھی پڑھاتے تھے۔ اخلاق احمد نے نو برس کی عمر میں قرآن شریف حفظ کیا اور رمضان شریف میں دلّی کی جامع مسجد میں محراب سنائی۔ اس تقریب میں مولانا محمد علی، شوکت علی، مولانا احمد سعید، مفتی اعظم کفایت اللہ اور حسن نظامی جیسے بزرگوں نے شرکت کی۔ وہ بتاتے ہیں کہ غدر کے زمانے سے آخری مغل تاجدار بہادر شاہ ظفر کی پوتی شہزادی ہمارے ہاں مقیم تھیں۔ ان کا میں لے پالک تھا اور ان بزرگ خاتون کی وجہ سے ہمارے گھر میں ان نامور شخصیات کا مجمع لگا رہتا تھا۔

    اخلاق احمد جب چوتھی پانچویں جماعت میں تھے تو انھیں شعر کہنے کا شوق پیدا ہوا۔ یہ ایک مشاعرے میں گئے اور وہاں اپنی زندگی کی پہلی اور آخری غزل پڑھی جس کا ایک شعر یہ تھا۔

    شمع سے پوچھے کوئی کیوں اشک بار ہے
    پروانہ اس کے حسن پہ جب خود نثار ہے

    تابش دہلوی اور شان الحق حقی دونوں شاعر اخلاق احمد کے اسکول کے ساتھی تھے۔ ان سے یہ ضرور متاثر ہوئے۔ دہلی کے کوچہ چیلاں میں بھی کچھ ایسی ہستیاں تھیں جن کا اخلاق احمد نے اپنی کتاب میں زور و شور سے ذکر کیا ہے۔ یہ سب ان کے بچپن کے دورکی یادیں ہیں۔ اخلاق احمد نے جب میٹرک پاس کرلیا تو اب یہ فیصلہ ہونا تھا کہ وہ آگے کیا کریں گے۔ ان کی والدہ مرحومہ نے ان کی تعلیم و تربیت کی ذمے داری اپنی پھوپھی زاد بہن بیگم نور الحسن برلاس کو سونپی تھی۔ ان کی خواہش تھی کہ یہ علی گڑھ کالج جاکر پڑھیں۔ ان کی دادی انھیں دینی علوم کی تعلیم کے لیے دیوبند بھیجنا چاہتی تھیں۔ اسی کشمکش کے دوران خواجہ حسن نظامی نے انھیں اپنے ہفتہ وار اخبار ”ڈکٹیٹر” میں نائب ایڈیٹر بنا دیا مگر یہ رسالہ ایک بار چھپ کر بند ہوگیا۔ آصف علی نے یہ دیکھا تو انھیں بلاکر مولوی عبدالحق کے پاس بھیج دیا کہ جاؤ ان کے پاس انجمن ترقی اردو میں کام کرو جب تک آیندہ تعلیم کے بارے میں فیصلہ ہو۔ وہاں کیا ہوا، یہ اخلاق احمد سے سنیے۔ لکھتے ہیں ”مولوی صاحب نے پوچھا، آپ نے کچھ پڑھا لکھا ہے؟ میں نے عرض کیا، جی ہاں۔ اردو پڑھی ہے۔ فرمایا، اردو میں کیا پڑھا ہے؟ میں نے کہا، جتنی کتابیں اردو میں اب تک چھپ چکی ہیں۔ مولوی صاحب کی تیوری چڑھ گئی۔ کہنے لگے، جائیے۔ آصف علی صاحب سے میرا سلام کہیے اور کہیے مجھے اتنا پڑھا لکھا آدمی نہیں چاہیے۔”

    اخلاق احمد نے جب یہ ساری روداد آصف علی کو سنائی تو انھوں نے ڈانٹا اور کہا کہ حصولِ علم اپنی جہالت کی آگاہی کے لیے ہوتا ہے، شیخی بگھارنے کے لیے نہیں۔ پھر انھوں نے دوبارہ مولوی صاحب سے سفارش کی، اخلاق احمد نے بھی اظہار شرمندگی کیا تو مولوی صاحب نے مولوی احتشام الحق حقی کے زیرِ نگرانی اردو لغت کے کام پر ان کا تقرر کر دیا۔

    اخلاق احمد لکھتے ہیں۔ ”1941 میں میری عمر اکیس برس کی ہوگئی، اگر میٹرک کا امتحان پاس کر لینے کے بعد میری تعلیم کا سلسلہ جاری رہتا تو مجھے اب بی اے کر لینا چاہیے تھا لیکن میں میٹرک کرتے ہی خواجہ حسن نظامی کے ہفت روزہ اخبار کا ایڈیٹر بن کر باقاعدہ تعلیم حاصل کرنے سے ایک طرح سے محروم ہوگیا، پھر مولوی احتشام الحق حقی کے ساتھ اردو لغت کی ترتیب کے کام میں لگ گیا ۔ نتیجہ یہ ہوا کہ بقول احمد شاہ بخاری کے پڑھے نہ لکھے نام محمد ترقی پسند۔”

    لغت کا کام حقی صاحب کا انتقال ہوجانے پر ختم ہوگیا تو اخلاق احمد کو ملٹری اکاؤنٹس میں ملازمت مل گئی، پہلی پوسٹنگ میرٹھ میں ہوئی۔ کلرکی ان کے بس کی نہ تھی، چھ مہینے میں واپس دلّی آگئے۔ بیرسٹر آصف علی کے وسیلے سے آل انڈیا ریڈیو دلّی میں اناؤنسر کی جگہ مل گئی۔ یہاں بھی یہ لطیفہ ہوا کہ جس دن یہ اناؤنسر بنے اسی دن سے اناؤنسر سرکاری ملازم نہ رہے، کنٹریکٹ پر اسٹاف آرٹسٹ بن گئے، یعنی پنشن اور دوسری سرکاری مراعات سے محروم ہو گئے۔

    میرٹھ میں اگرچہ ان کا قیام مختصر تھا مگر وہاں کی باتیں دلچسپ ہیں۔ پڑھنے سے تعلق رکھتی ہیں۔

    اخلاق احمد نے جب ریڈیو میں کام شروع کیا توکرشن چندر نے جو وہاں پہلے سے تھے، چاہا کہ اخلاق احمد ریڈیو مسودہ نگار بنیں۔ ان سے انھوں نے ایک مسودہ بھی لکھوایا لیکن ن۔ م۔ راشد اور حفیظ جاوید کا اصرار تھا کہ اخلاق احمد کو اناؤنسر رہنا چاہیے، آغا اشرف استعفیٰ دے کر جاچکے تھے، دوسرے اناؤنسر الیاس کا انتقال ہوگیا، غلام محی الدین بھی چلے گئے۔ اب تین مشہور ڈرامہ آرٹسٹ شکیل احمد، راج نارائن مہرا اور برہما نند متل دلّی ریڈیو اسٹیشن پر اناؤنسر بنا دیے گئے تھے۔ کچھ عرصے بعد اخلاق احمد ریڈیو پر خطوط کا جواب بھی دینے لگے۔ دلّی ریڈیو اسٹیشن پر ان دنوں ادیبوں کا جمگھٹا تھا۔ اخلاق احمد نے اس دورکی یادوں کو خوب تحریرکیا ہے۔ میرا جی، منٹو، اختر الایمان اور دوسرے ساتھیوں کا ذکر کیا ہے، یہ دلچسپ تحریریں ہیں۔

    پھر جب آزادی کی تحریک اور کانگریس اور مسلم لیگ کے اختلافات نے زور پکڑا تو اس کے اثرات ہر طرف نمایاں ہونے لگے۔ اخلاق احمد لکھتے ہیں۔ 1945-46 کا زمانہ خاصا افراتفری کا تھا۔ ہندو مسلم فسادات کا عہد۔ ہر طرف شور شرابا، مار کٹائی، گویا سارے ملک کی اینٹ سے اینٹ بج رہی تھی اور ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالی جا رہی تھی۔ سردار پٹیل جب انفارمیشن اور براڈ کاسٹنگ کے وزیر مقرر ہوئے تو ریڈیو کے مسلمان ملازمین کے لیے حالات خراب ہونے شروع ہوگئے۔ احمد شاہ بخاری کو یہ کہہ کر سبکدوش کردیا گیا کہ ریڈیو بخاری کے بغیر بھی چل سکتا ہے۔ آخر وہ دن آیا کہ دن گنے جاتے تھے جس دن کے لیے 3 جون 1947 کو پاکستان بننے کا اعلان کر دیا گیا۔

    اخلاق احمد لکھتے ہیں ”3 جون کی یہ شام اس برصغیر میں کوئی بھلا ہی نہیں سکتا۔ ایسی تاریخ ساز شام جس میں پاکستان بننے کا اعلان ہوا اور ہندوستان کی آزادی کی تاریخ مقرر ہوئی۔ میں نے ریڈیو کی اپنی 39 سالہ زندگی میں کوئی ایسی رنگین شام نہیں دیکھی جس میں مہمان خصوصی تھے لارڈ ماؤنٹ بیٹن، قائداعظم محمد علی جناح، جواہر لال نہرو اور سردار بلدیو سنگھ اور میزبان عمومی تھے۔ یعنی سید انصار ناصری، مسعود الحسن تابش، آغا صفدر، بی این متل کلارک اور میں۔”

    اخلاق احمد دہلوی اپنے قافلے کے ہمراہ 10 فروری 48ء کو پاکستان پہنچے۔ لکھتے ہیں ”میں لاہور پہنچتے ہی فکر معاش میں اچھرے سے شملہ پہاڑی پیدل پہنچا۔ جیسے ہی ریڈیو اسٹیشن میں داخل ہوا تو یوں محسوس ہوا جیسے نئے سرے سے ماں کے پیٹ میں آگیا ہوں۔ سب کے سب اس تپاک سے ملے، گویا ایک زبان ہوکر کہہ رہے ہوں۔

    بہت دیر کی مہرباں آتے آتے

  • محمد علی: پاکستانی فلم انڈسٹری کا ناقابلِ‌ فراموش نام

    محمد علی: پاکستانی فلم انڈسٹری کا ناقابلِ‌ فراموش نام

    محمد علی فلم انڈسٹری میں ’’بھیا‘‘ مشہور تھے۔ ان کی فلمیں یادگار بھی ہیں اور بطور اداکار محمد علی کو ایک بے مثال فن کار کے طور پر پیش کرتی ہیں کہ وہ اپنے طرز کے واحد اداکار تھے جن پر پاکستان اور ہندوستان کے کسی بھی دوسرے اداکار کی چھاپ نہیں تھی۔

    اداکار محمد علی 19 اپریل 1931 کو بھارت کے شہر رامپور میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کا خاندان 1947ء میں تقسیم کے بعد ہندوستان سے کراچی ہجرت کر گیا تھا۔ محمد علی نے 1956ء میں ریڈیو پاکستان حیدرآباد اسٹیشن میں بطور براڈ کاسٹر شمولیت اختیار کی۔ بعد ازاں وہ ریڈیو پاکستان کراچی چلے گئے جہاں اس وقت کے ڈائریکٹر جنرل ذوالفقار علی بخاری ان کی اداکاری کے لئے ان کے سرپرست بن گئے۔ محمد علی نے اپنے منفرد انداز سے اداکاری کی دنیا کو ایک نئی بلندی سے ہم کنار کیا اور بے مثال کام کیا۔ ان کے فلمی سفر کا آغاز فلم چراغ جلتا رہا سے ہوا تھا اور پھر وہ شوبز کی نگری کا معتبر اور بڑا حوالہ بن گئے۔ بلاشبہ محمد علی کردار میں اس قدر ڈوب جاتے کہ اس پر حقیقت کا گماں ہوتا۔ انہیں اپنی آواز کے اتار چڑھاؤ پر کمال عبور حاصل تھا۔ ان کی آواز اور لب و لہجہ دیگر فن کاروں سے انہیں نمایاں کرتا تھا۔ محمد علی نے اداکارہ شبنم، بابرہ شریف اور دیبا سمیت ماضی کی تمام معروف اداکاراؤں کے ساتھ بطور ہیرو کام کیا، لیکن زیبا کے ساتھ ان کی جوڑی بے حد مقبول ہوئی اور پھر حقیقی زندگی میں بھی وہ رشتہ ازدواج سے منسلک ہوئے اور اس جوڑی نے فلم
    بینوں سے ہی نہایت عزت اور احترام نہیں پایا بلکہ فن و ثقافت کے ہر شعبہ میں وہ ایک مثالی جوڑا سمجھا گیا۔

    محمد علی نے آگ کا دریا، انسان اور آدمی، شمع، آئینہ اور صورت، کنیز اور صاعقہ سمیت درجنوں فلموں میں کام کیا اور فن اداکاری میں اپنا لوہا منوایا۔ ورسٹائل اداکار محمد علی کو تمغائے امتیاز اور تمغائے حسنِ کارکردگی سے نوازا گیا تھا۔ 19مارچ 2006ء کو اداکار محمد علی کا انتقال ہوگیا تھا۔

    محمد علی ان اداکاروں میں سے تھے جو ہر قسم کے کردار کو نبھانا جانتے تھے۔ چاہے وہ المیہ سین ہو یا کامیڈی، چاہے کسی جنگجو ہیرو کا کردار ادا کرنا ہو یا رومانی ہیرو کے طور پر کوئی گانا عکس بند کروانا ہو۔ اداکار محمد علی کی شخصیت ایسی تھی کہ وہ ہر طبقہ سماج کے فلم بینوں میں پسند کیے گئے۔ وہ ذاتی زندگی میں ایک شریف النفس اور دوسروں کے مددگار انسان کے طور پر مشہور تھے۔

  • مزاح‌ نگاری میں نمایاں مقام رکھنے والے شفیق الرحمٰن کا تذکرہ

    مزاح‌ نگاری میں نمایاں مقام رکھنے والے شفیق الرحمٰن کا تذکرہ

    شفیق الرحمٰن کا شمار اردو کے صفِ اوّل کے مزاح نگاروں میں کیا جاتا ہے لیکن وہ ایک عمدہ افسانہ نگار بھی تھے۔ 19 مارچ 2000ء میں شفیق الرحمٰن انتقال کرگئے تھے۔

    9 نومبر 1920ء کو کلا نور ضلع روہتک میں پیدا ہونے والے شفیق الرحمٰن نے کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج، لاہور سے ایم بی بی ایس کیا تھا۔ وہ قیام پاکستان سے قبل ہی اپنا ادبی سفر شروع کرچکے تھے۔ انھوں نے برطانوی دور میں فوج کے شعبۂ طب سے وابستگی اختیار کی۔ قیامِ پاکستان کے بعد پاک فوج میں خدمات انجام دیں اور میجر جنرل کے عہدے تک ترقّی پائی۔ ان کو لڑکپن اور جوانی میں سیر و سیاحت، کرکٹ، باکسنگ اور تیراکی میں دل چسپی رہی اور کارٹون، مصوری اور فوٹوگرافی بھی ان کا شوق تھا۔ ان کی پہلی کتاب کرنیں 1938 میں اس وقت سامنے آئی جب وہ میڈیکل کے طالب علم تھے۔ 1942 میں انڈین میڈیکل سروس سے جڑنے کے بعد دوسری جنگ عظیم میں مختلف محاذوں پر جانے کا موقع ملا تو کئی ممالک کی سیر بھی کی۔ بذلہ سنج اور نکتہ بیں شفیق الرحمٰن نے اپنے ان اسفار اور واقعات سے بڑی چابک دستی سے مزاح پیدا کیا اور مقبول ہوئے۔ ستمبر 1979 میں فوج کی میڈیکل سروسز ریٹائر ہوئے۔ دسمبر 1980 میں انھیں اکادمی ادبیات پاکستان کا چیئرمین مقرر کیا گیا اور سبک دوشی کے بعد راولپنڈی میں زندگی گزاری۔

    شفیق الرّحمٰن کے مزاحیہ مضامین کا مجموعہ شگوفے 1943ء میں پہلی مرتبہ شایع ہوا۔ بعد میں دیگر کتب لہریں، مدوجزر، پرواز، حماقتیں، پچھتاوے، مزید حماقتیں، دجلہ، کرنیں اور دریچے شایع ہوئیں اور انھیں‌ ملک گیر شہرت اور پذیرائی ملی۔ ایک ناولٹ اور افسانوں کے مجموعے کے علاوہ ان کے ترجمہ کردہ ناول بھی کتابی صورت میں سامنے آئے، معاشیات اور صحّت و امراض سے متعلق بھی ان کی کتب شایع ہوئیں۔

    مزاح نگاری کے ساتھ ڈاکٹر شفیق الرّحمٰن نے افسانے بھی لکھے جن پر رومانوی رنگ غالب نظر آتا ہے۔ حکومتِ پاکستان نے بعد از مرگ ان کے لیے ہلالِ امتیاز کا اعلان کیا تھا۔ مزاح نگار شفیق الرحمٰن راولپنڈی کے ایک فوجی قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • یادِ رفتگاں: معروف صدا کار ایس ایم سلیم کا تذکرہ

    یادِ رفتگاں: معروف صدا کار ایس ایم سلیم کا تذکرہ

    ایس ایم سلیم آج فن و تخیلق کی دنیا میں‌ کئی لوگوں کے لیے ایک اجنبی اور بالخصوص نئی نسل کے لیے نامانوس نام ہے، لیکن کبھی ریڈیو پاکستان پر ان کی آواز ملک کے کونے کونے میں مقبول تھی اور بعد میں ایس ایم سلیم نے ٹیلی وژن پر اپنی اداکاری کی وجہ سے ناظرین کو متوجہ کیا۔ ایس ایم سلیم صدا کار اور اداکار کی حیثیت سے مشہور تھے۔

    16 مارچ 1990ء کو ایس ایم سلیم کا انتقال ہوگیا تھا۔ آج ان کی برسی منائی جارہی ہے۔ ایس ایم سلیم نے ریڈیو پاکستان اور ٹیلی ویژن پر اپنی فن اور صلاحیتوں کا اظہار کر کے شہرت پائی۔ بعد میں وہ امریکا منتقل ہوگئے تھے اور وہیں‌ ہیوسٹن میں ان کی زندگی کا سفر تمام ہوا۔

    ایس ایم سلیم کا تعلق دہلی سے تھا۔ وہ 18 اگست 1929ء کو پیدا ہوئے۔ انھوں نے اپنے فنی سفر کا آغاز آل انڈیا ریڈیو سے کیا اور قیامِ پاکستان کے بعد ہجرت کرکے لاہور میں ریڈیو سے وابستہ ہوگئے۔ بعد میں انھوں نے کراچی سینٹر سے ناتا جوڑا اور یہاں سے پروگرام کرتے رہے۔

    ایس ایم سلیم کو ریڈیو پاکستان پر ان کے پروگرام "دیکھتا چلا گیا” کے سبب ملک بھر میں پہچان ملی۔ یہ اس دور میں ریڈیو کا مقبول ترین پروگرام تھا۔ ریڈیو کے لیے ایس ایم سلیم نے یادگار ڈرامے کیے، جن میں رستم اور سہراب سرِفہرست ہیں۔ اس مشہور اور مقبولِ عام ڈرامے میں رستم کا کردار زیڈ اے بخاری نے جب کہ سہراب کا کردار ایس ایم سلیم نے ادا کیا تھا۔

    صدا کاری کے ساتھ ایس ایم سلیم نے اداکاری کے میدان میں بھی خود کو منوایا۔ انھوں نے پاکستان ٹیلی وژن کے متعدد ڈراموں میں کام کیا جن میں انسان اور آدمی اور منٹو راما شامل ہیں۔ اس ڈرامے میں ایس ایم سلیم نے نام ور افسانہ نگار سعادت حسن منٹو کا کردار ادا کیا تھا۔

  • علّامہ ابنِ خلدون: فلسفۂ تاریخ و عمرانیات کے بانی کا تذکرہ

    علّامہ ابنِ خلدون: فلسفۂ تاریخ و عمرانیات کے بانی کا تذکرہ

    مقدمہ، علّامہ ابنِ خلدون کی علمیت اور قابلیت کا ایک شاہکار ہے۔ ابنِ خلدون اسلامی دنیا کی ایک معتبر شخصیت ہیں اور اپنے علمی ذوق و شوق اور تصانیف کی وجہ سے عالمِ اسلام ہی نہیں پوری دنیا میں‌ مشہور ہیں۔

    انھیں فلسفۂ تاریخ کا موجد و بانی ہی نہیں تسلیم کیا جاتا بلکہ عمرانیات، سیاسیات اور اقتصادیات کے کئی مبادی اصول بھی اُنہی سے منسوب ہیں۔ علّامہ ابنِ خلدون کے خاندان اور حسب نسب کے حوالے سے تاریخ کے اوراق بتاتے ہیں‌ کہ یمن کے قدیم شہر حضرُ الموت سے ان کے اجداد نے اندلس کے شہر قرمونہ ہجرت کی اور بعد میں تیونس کو اپنا مستقر ٹھیرایا جہاں 27 مئی 1332ء کو ابنِ خلدون پیدا ہوئے۔ ان کا گھرانا علمی تھا اور ابنِ خلدون کو ابتدائی عمر ہی میں‌ جیّد علمائے کرام اور اہلِ علم کی صحبت نصیب ہوگئی۔ انھوں نے حفظِ قرآن اور ضروری دینی تعلیم کے ساتھ باقاعدہ علومِ اصول و فقہ کی تعلیم حاصل کی۔ بعد ازاں فلسفہ، منطق، ریاضی اور لسانیات کا درس لیا۔

    نوجوانی میں ابن خلدون نے ہجرت کے ساتھ سیّاحت کا شوق بھی پورا کیا اور اس دور میں انھوں نے مختلف اہلِ علم اور عبقری شخصیات سے بہت کچھ سیکھا اور اپنے علم کے زور پر دوسروں کی نظر میں بھی احترام اور مقام پایا۔ ان کے فہم و ذکا اور علم کا چرچا اس قدر ہونے لگا کہ شاہانِ وقت اور امرا ان کے قریب ہونے لگے۔ انھیں سلاطین نے عزّت و شرف سے نوازا اور عہدوں پر فائز کیا۔ اسی سبب ان کے حاسد اور مخالف بھی پیدا ہوگئے اور ایک موقع پر انھیں قید میں‌ بھی ڈالا گیا۔

    ابنِ خلدون کی کئی تصانیف کا آج نام و نشان نہیں ملتا، لیکن مقدمہ کے بعد سب سے مشہور کتاب’’ تاریخِ ابنِ خلدون‘‘ ہے، اس کے علاوہ، روزنامچے اور مشاہدات بھی ابنِ خلدون نے قلم بند کیے ہیں۔ وہ جب اسکندریہ اور پھر قاہرہ پہنچے تو خلافتِ عباسیہ میں‌ شہرۂ آفاق جامعہ ازہر میں مدرّس مقرر ہوئے۔ اسی زمانے میں‌ انھوں نے اپنے اہلِ خانہ کو تیونس سے قاہرہ اپنے پاس بلوایا، مگر کہتے ہیں کہ جہاز کو سمندر میں‌ حادثہ پیش آیا اور وہ سب موت کے منہ میں‌ چلے گئے جس کی اطلاع ملنے کے بعد صدمے سے دوچار ابنِ خلدون سب کچھ چھوڑ کر حج کے لیے روانہ ہوگئے۔ تاریخی تذکروں میں آیا ہے کہ انھوں نے ایک سال مکّہ مکرمہ میں قیام کیا اور مصر لوٹ آئے جہاں آج ہی کے دن 1406ء میں وفات پائی۔

    جہاں تک سائنس اور فلسفۂ تاریخ کا تعلق ہے عربی لٹریچر میں آج ابن خلدون کا نام بقائے دوام حاصل کر چکا ہے۔ جدت طرازی، فکر کی گہرائی اور وسعتِ نظری ابن خلدون کی امتیازی خصوصیات ہیں۔

    ”مقدمہ ابن خلدون‘‘ دیباچہ تمہید اور چھ ابواب پر مشتمل ہے، جس میں اس نے فلسفۂ تاریخ سے متعلق یہ نظریہ پیش کیا ہے کہ تاریخ بادشاہوں، سلطنتوں اور جنگوں ہی کا نام نہیں بلکہ تاریخ نام ہے ان وجوہات کے تجسس اور اس کے جاننے کا جو سماجی انقلابات اور اقوام عالم کے رست خیز کے عقب میں کار فرما رہتی ہیں۔ تاریخ پر اس نقطۂ نگاہ سے بحث کرنے سے ابن خلدون کا منشا یہ تھاکہ تاریخ کو ایک محدود اور تنگ دائرے سے اٹھا کر سائنس کے بلند اور ارفع مقام پر لاکھڑا کیا جائے۔ اس تصنیف کے پہلے باب میں وہ سوسائٹی پر عمومیت کے ساتھ اور نسل انسانی کے تنوع اور مختلف طبقات زمین پر خصوصیت کے ساتھ بحث کرتے ہیں۔ باب دوئم میں مصنف خانہ بدوش اور نیم وحشی اقوام کے تہذیب و تمدن پر بحث کرتے ہیں جب کہ تیسرے باب میں بتایا گیا ہے کہ صحرا نشین قبائل میں باہمی اتحاد و یگانگت کا راز رشتۂ خون یا اور کسی ایسی ہی محکم وجہ اشتراک میں مضمر ہے۔ باب چہارم بڑے بڑے شہروں کے معرض وجود میں آنے کے اسباب، ان کی سلطنتوں سے باہمی ربط اور اضلاع پر اثر اور ان سے متعلق دیگر امور پر مشتمل ہے۔ پانچویں باب میں قومی بقا کے ذرائع اور ممالک میں خوش حالی کے حوالے سے شعبہ جات اور کئی نکات زیر بحث لائے گئے ہیں۔

    ان سے قبل ان موضوعات پر کسی نے بھی اتنے مبسوط انداز سے بحث و تمحیض نہیں کی اور نہ ہی کوئی تصنیف اس سلسلہ میں سامنے آئی۔ اگرچہ قبل ازیں یونانی فلسفیوں نے اس موضوع کو جزوی طور پر موضوع تحریر بنایا، تاہم ان کے ہاں اس مضمون کی کوئی مستقل حیثیت نہیں تھی۔ قوموں کی تاریخ کے ساتھ ساتھ ابنِ خلدون نے جن موضوعات پہ قلم اٹھا کر شہرتِ دوام حاصل کی ان میں نظریہ عصبیت، قوموں کے عروج و زوال اور ان کے اسباب، انسانی اخلاق، اخلاق کا تجارت پر اثر، تجارت کی اقسام، معاشرہ و ثقافت، نظریہ ریاست، ریاست کی اقسام سے لے کر امامت، قانون، فکرِ معاش اور فلسفۂ تعلیم تک الغرض ہر وہ موضوع جس کا تعلق کہیں نہ کہیں بھی معاشرہ سے متصل و منسلک ہو اس پر اپنے علم اور مشاہدے کی بنیاد پر ٹھوس اور منطقی انداز میں‌ بات کرنے کی کوشش کی ہے۔

  • غلام جیلانی برق: معروف علمی و ادبی شخصیت

    غلام جیلانی برق: معروف علمی و ادبی شخصیت

    اگرچہ غلام جیلانی برق کو ان کی ایک تصنیف کی وجہ سے پاکستان میں مطعون بھی کیا گیا اور ان کی شخصیت اپنے بعض افکار اور خیالات کے سبب متنازع بھی رہی، مگر ان کی ذہانت اور علمی و ادبی حیثیت سے کسی کو انکار بھی نہیں بلکہ آج بھی ان کو ایک مذہبی اسکالر کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔

    غلام جیلانی برق ایک ماہرِ تعلیم، مصنّف، مترجم اور شاعر تھے جن کا انتقال 1985ء میں آج ہی کے روز ہوا۔ برق کو ان کی علمی استعداد، قابلیت اور تحقیقی کام کی وجہ سے جہاں بہت سراہا جاتا ہے، وہیں مذہبی موضوع پر اپنی ایک تصنیف کے بعد انھیں سخت تنقید اور تنازع کا سامنا بھی کرنا پڑا تھا لیکن کہا جاتا ہے کہ انھوں نے بعد میں اپنے مؤقف پر نظر ثانی کی اور رجوع کرلیا تھا۔ اس تنازع کے باوجود غلام جیلانی برق کو ہر مکتبِ‌ فکر میں خاص اہمیت ضرور دی جاتی رہی ہے اور انھیں‌ ایک ذی فہم اور دانش ور تسلیم کیا جاتا ہے۔

    26 اکتوبر 1901ء کو پنڈی گھیپ، ضلع کیمبل پور میں پیدا ہونے والے غلام جیلانی برق نے عربی، فارسی اور اردو میں اسنادِ فضیلت حاصل کیں۔ بعد میں عربی اور فارسی میں ایم اے کیا۔ 1940ء میں غلام جیلانی برق نے امام ابنِ تیمیہ کی زندگی اور کارناموں پر تحقیقی مقالہ لکھ کر پی ایچ ڈی کی ڈگری لی۔ بعدازاں تدریس کے شعبے سے وابستہ ہوئے اور ملازمت کے ساتھ مختلف موضوعات پر لگ بھگ 40 کتابیں تحریر کیں۔ ان کی قابلِ ذکر تصنیف میں دو اسلام، فلسفیانِ اسلام، مؤرخینِ اسلام، حکمائے عالم، فرماں روایانِ اسلام، دانشِ رومی و سعدی، ہم اور ہمارے اسلاف شامل ہیں۔

    ڈاکٹر غلام جیلانی برق کا انتقال اٹک میں ہوا اور قبرستان عید گاہ میں سپردِ‌ خاک کیے گئے۔

  • ادا جعفری: شعورِ‌ حیات اور دل آویزیٔ فن نے بطور شاعرہ انھیں‌ ممتاز کیا

    ادا جعفری: شعورِ‌ حیات اور دل آویزیٔ فن نے بطور شاعرہ انھیں‌ ممتاز کیا

    اردو ادب میں ادا جعفری کا نام بطور شاعرہ اس لیے بھی امتیازی حیثیت کا حامل ہے کہ انھوں نے اپنے اشعار کو شعورِ حیات کے ساتھ بہت دل آویزیٔ فن سے سجایا ہے۔ انھوں نے جس خوش سلیقگی سے اپنے جذبات اور خیالات کو غزل اور نظم کا پیکر عطا کیا، وہ ان کی شناخت بنا۔

    ادا جعفری کا اصل نام عزیز جہاں تھا۔ وہ 1924ء میں بدایوں کے اک خوش حال گھرانے میں پیدا ہوئیں۔ تین برس کی تھیں جب ان کے والد کا انتقال ہو گیا۔ بعد کا دور ننھیال میں گزرا۔ ابتدائی تعلیم کے ساتھ اردو فارسی اور انگریزی زبان بھی سیکھی۔ لیکن باقاعدہ کالج نہیں جاسکیں اور گھر پر ہی پڑھنے لکھنے کے ساتھ مطالعہ کے شوق کو اپنائے رکھا۔ نو سال کی عمر میں انھوں نے پہلا شعر کہا۔ ادا جعفری کی زندگی میں کتابیں اور مظاہر فطرت سے لگاؤ بچپن ہی سے شامل رہا تھا اور اسی محبت نے ان کے اندر چھپی ہوئی شاعرہ کو بیدار کیا تھا۔ ان کی شادی 1947ء میں نور الحسن جعفری سے انجام پائی۔ ادا جعفری اختر شیرانی اور اثر لکھنوی سے اصلاح لیتی رہیں۔ ان کے متعدد شعری مجموعہ سامنے آئے جن میں شہرِ درد کو 1968ء میں آدم جی ایوارڈ دیا گیا۔ اس کے علاوہ ’’جو رہی سو بے خبری رہی ‘‘ کے عنوان سے انھوں نے خود نوشت سوانح عمری بھی 1995ء میں لکھی۔ 1991ء میں حکومت پاکستان نے ادا جعفری کو ان کی ادبی خدمات کے اعتراف میں تمغائے امتیاز سے نوازا تھا۔

    ادا جعفری کے شعری سفر کا آغاز ترقی پسند تحریک کے عروج کے وقت ہوا۔ دوسری جنگ عظیم کی ہنگامہ خیز فضا اور تحریک آزادی کے ساتھ اس وقت کے پُر آشوب ماحول میں ادا جعفری نے اپنی فکر اور جذبے کا اظہار کرنے کے لیے شاعری کی صنف کو اپنایا۔ ادا جعفری نے جاپانی صنف سخن ہائیکو میں بھی طبع آزمائی کی اور ایک مجموعہ ”ساز سخن“ کے نام سے شائع کروایا۔ ان کی تصانیف میں ’’حرف شناسائی‘‘، ”ساز سخن بہانہ ہے‘‘، ”سفر باقی ہے‘‘، ”شہر در‘‘، ’’غزالاں تم تو واقف ہو‘‘ اور ’’میں ساز ڈھونڈتی رہی‘‘ شامل ہیں۔

    اگر جدید شعر و ادب کے معماروں کا تذکرہ کیا جائے تو ادا جعفری کا نام بھی لیا جائے گا جن کو اکثر شاعری کی دنیا کی خاتونِ اوّل بھی کہا جاتا ہے۔ وہ اردو شاعرات میں شعور و کیفیت کے ایک نئے سلسلہ کی پیشرو تھیں۔ انھوں نے نسائی جذبات اور ایک خاص فضا سے آگے نکل کر عام موضوعات اور لوگوں کے مسائل کو بھی اپنے اشعار میں پرویا ہے۔

    ادا جعفری کی ابتدائی غزلیں اور نظمیں 1940ء کے آس پاس اختر شیرانی کے رسالہ "رومان” کے علاوہ اس وقت کے معیاری ادبی رسالوں "شاہکار” اور "ادب لطیف” وغیرہ میں شائع ہونے لگی تھیں اور ان کی پہچان بن چکی تھی۔ شادی کے بعد وہ پاکستان چلی آئیں اور یہاں انھوں نے شاعری کی کتابوں اور خودنوشت سوانح کے علاوہ قدیم اردو شعراء کے حالات بھی قلم بند کیے۔

    شاعرہ ادا جعفری 2014 میں آج ہی کے روز انتقال کر گئی تھیں۔ ان کی ایک غزل بہت مشہور ہوئی اور اسے خاص طور پر استاد امانت علی کی آواز میں پاکستان ہی نہیں بھارت میں بھی بہت پسند کیا گیا جس کا مطلع ہے۔

    ہونٹوں‌ پہ کبھی ان کے میرا نام ہی آئے
    آئے تو سہی برسرِ الزام ہی آئے