Tag: یوم وفات

  • لطف اللہ خان: خزانۂ صوت کے مالک کا تذکرہ

    لطف اللہ خان: خزانۂ صوت کے مالک کا تذکرہ

    لطف اللہ خان پاکستان کے مشہور کلکٹر اور آرکائیوسٹ تھے۔ انھوں نے پاکستان اور جنوبی ایشیاء کے نام ور فن کاروں کی پرفارمنس کو ریکارڈ کیا، شاعروں، مصنفین اور دیگر شخصیات کی تخلیقات کو ان کی آواز میں‌ محفوظ کر کے اپنی لائبریری کی زینت بنایا جس میں قدم رکھنے والا دنگ رہ جاتا ہے۔

    وہ ایسے خزانے کے مالک تھے جس کا تعلق فن و تہذیب سے تھا۔ لطف اللہ خان نے اہلِ‌ علم و فن کی آواز کو ریکارڈ کر کے ایک بڑا کام کیا جس کی مثال شاذ ہی ملے گی۔ وہ اپنی نوعیت کی ایک عدیم النظیر ‘آواز لائبریری’ کے منتظم اور بطور مصنّف بھی مشہور تھے۔ لطف اللہ خان 2012ء میں آج ہی کے روز وفات پاگئے تھے۔

    25 نومبر 1916ء کو لطف اللہ خان مدراس میں پیدا ہوئے جسے اب چنئی کہا جاتا ہے۔ ان کے والد ساؤتھ انڈین ریلوے کمپنی میں ملازمت کرتے تھے۔ لطف اللہ نے تعلیم مدراس میں حاصل کی۔ وہ تقسیم ہند کے بعد 1947ء میں پاکستان ہجرت کرکے کراچی میں مقیم ہوئے۔ یہاں وہ ایک تشہیری ادارے سے منسلک رہے۔

    لطف اللہ خان کے پاس ہر بڑے فن کار کی آواز کا ریکارڈ موجود تھا۔ اس کے لیے انھوں‌ نے بڑی بھاگ دوڑ کی اور ایسے تمام ریکارڈ کو مختلف جدید ٹیکنالوجی اور کمپیوٹر سافٹ ویئرز کی مدد سے محفوظ کرتے رہے۔ فیض احمد فیض کی آواز ہو یا مولانا احتشام الحق تھانوی کا درس اور وعظ، ہندوستان کے بڑے بڑے گلوکاروں کی پرفارمنس ہو یا نام ور دانش ور اور اہلِ علم کے لیکچرز… یہ سب ان کی لائبریری میں‌ مل جاتا ہے۔ لطف اللہ خان نے مذہب، سیاست، فن و ثقافت، ادب اور علم کی دنیا کے ہر بڑے نام کی آواز کو گویا ایک خزانہ اور موتی سمجھ کر اپنے دامن میں‌ بھر لیا جس سے آج ہم بھی استفادہ کر رہے ہیں۔

    ان کا گھر ایک بڑی عظیم لائبریری ہے جس میں بالخصوص پاک و ہند سے شاعری، افسانہ، موسیقی اور سیاست سمیت کئی شعبۂ حیات کی نام ور اور قابلِ‌ ذکر شخصیات کی آوازیں ایک ریکارڈ روم میں‌ مل جاتی ہیں۔ ان میں‌ گاندھی، نہرو اور قائداعظم کی تقریریں، لیاقت علی خان اور بھٹو کی آواز میں تقریر کے علاوہ مولانا مودودی کی آواز بھی شامل ہے۔ گلوکارہ ثریا کی آواز میں خواجہ فرید کی کافیاں، جوش ملیح آبادی کا زبان و بیان پر لیکچر، شوکت صدیقی آواز میں‌ افسانہ اور بیگم شائستہ اکرام اللہ، قدرت اللہ شہاب، غلام عباس کی آواز اور بہت سے نام ہیں‌ جن کو ہم فراموش بھی کرچکے ہیں مگر لطف اللہ خان کی لائبریری میں وہ بولتے ہوئے مل جائیں گے۔ لطف اللہ خان نے اس خزانے کو جمع کرنے پر زندگی کے کئی سال لگائے اور ہر ممکن حد تک اسے موسم اور استعمال کے دوران خراب ہونے سے محفوظ بنانے کے لیے رقم اپنی جیب سے خرچ کی۔

    لطف اللہ خان کی برسی پر ہم اردو کے نام ور شاعر اور استاد پروفیسر سحر انصاری کے ایک مضمون سے چند پارے نقل کررہے ہیں‌، ملاحظہ کیجیے۔

    "شیخ سعدیؒ کے ایک مصرعے کا مطلب یہ ہے کہ خالق نے ہر کسی کو کسی خاص کام کے لیے تخلیق کیا ہے۔ ایک ایسی ہی مخصوص، مختلف اور منفرد شخصیت لطف اللہ خان صاحب کی تھی۔ وہ ایک اشتہار ساز ادارے کے بانی و سربراہ تھے۔ مدراس جس کا نام اب چنئی ہے، ان کی جائے پیدائش تھی۔ لطف اللہ خان صاحب کو ادب، فنون لطیفہ، موسیقی، شاعری اور شخصیات کے مطالعے کا گہرا شغف تھا۔ وہ اشتہار سازی کے سلسلے میں جب ٹیپ ریکارڈر سے پہلی بار متعارف ہوئے تو انھیں اپنی والدہ محترمہ کی گفتگو کو محفوظ کرنے کا خیال ہوا۔ اس کے بعد وہ کلاسیکی موسیقی مشاعرے، تقاریر، شخصیات کے انٹرویو وغیرہ کی ریکارڈنگ کی طرف متوجہ ہوئے۔ رفتہ رفتہ ایک ایسا بے مثال خزانہ فراہم ہو گیا جس کی کوئی دوسری مثال نہیں ملتی۔ خدا نے انھیں ایک طویل عمر دی اور وہ ساری زندگی نہایت مستقل مزاجی سے کسی صلے کی پروا کیے بغیر آنے والی نسلوں کے لیے یہ بے مثل آواز خزانہ جمع کرتے رہے۔ وہ اس فن میں ذاتی محنت، جاں کاہی اور تکمیلیت کا اعلیٰ معیار قائم رکھتے تھے۔ لطف اللہ خان صاحب نے کتابیں بھی تصنیف کی ہیں جن میں موسیقی، یادداشتیں، سفرنامے اور بعض اہم شخصیات کے خاکے شامل ہیں۔”

  • شاعری اور تنقیدی مضامین سے اردو ادب کو مالا مال کرنے والے فراق گورکھپوری

    شاعری اور تنقیدی مضامین سے اردو ادب کو مالا مال کرنے والے فراق گورکھپوری

    اردو کے عہد ساز شاعر، مایہ ناز نقاد فراق گورکھپوری کی تصانیف ادبی دنیا کے لیے وہ خزانہ ہیں جس سے ہم آج بھی استفادہ کررہے ہیں۔ فراق نے شاعری اور تنقید کے میدان میں اپنی فکر و بصیرت اور ذہنِ رسا سے ادب کو نئے رجحانات دیے اور اپنے موضوعات کو وقیع بنایا۔ فراق گورکھپوری 1982 میں آج ہی کے روز چل بسے تھے۔

    ان کا اصل نام رگھو پتی سہائے تھا۔ تخلّص فراق اور وہ اپنے آبائی علاقے کی نسبت سے گورکھپوری کہلائے۔ رگھو پتی سہائے 28 اگست 1896ء کو متحدہ ہندوستان کے شہر گورکھپور میں پیدا ہوئے۔ وہ اردو کے ایک شاعر منشی گورکھ پرشاد المتخلص بہ عبرت کے بیٹے تھے۔ والد اردو اور فارسی کے عالم اور ماہرِ قانون بھی تھے۔ یوں فراق کو شروع ہی سے علمی و ادبی ماحول ملا تھا اور گھر پر ہی انھوں نے اردو اور فارسی زبانیں‌ سیکھیں۔

    فراق نے ابتدائی تعلیمی مدارج طے کرنے کے بعد انگریزی زبان میں ایم اے کیا اور پھر سول سروسز کا امتحان پاس کرلیا مگر اس سے متعلق ملازمت اختیار نہ کی بلکہ تدریس سے منسلک ہوگئے۔ فراق کا مزاج ایسا تھا کہ ہفتوں کمرۂ جماعت میں داخل نہ ہوتے اور ان کی بعض ناپسندیدہ عادات نے بھی ان کی شہرت خراب کی تھی، لیکن علم و ادب کی دنیا میں بہرحال ان کی بڑی قدر کی جاتی تھی۔

    بھارت کے اس شاعر اور نقاد کا مطالعہ وسیع تھا اور وہ اردو ہی نہیں انگریزی ادب پر بھی گہری نظر رکھتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ انھوں نے اردو کو بھی اپنے تنقیدی موضوعات سے نئی راہ دکھائی اور جب ان کے مضامین کتابی شکل میں سامنے آئے تو ان کا بہت شہرہ ہوا۔ ان کی دو کتابیں اردو کی عشقیہ شاعری اور حاشیے تنقیدی مضامین پر مشتمل ہیں۔

    ڈاکٹر خواجہ احمد فاروقی کے بقول اگر فراق نہ ہوتے تو ہماری غزل کی سرزمین بے رونق رہتی، اس کی معراج اس سے زیادہ نہ ہوتی کہ وہ اساتذہ کی غزلوں کی کاربن کاپی بن جاتی یا مردہ اور بے جان ایرانی روایتوں کی نقّالی کرتی۔ فراق نے ایک نسل کو متاثر کیا۔ نئی شاعری کی آب یاری میں اہم کردار ادا کیا اور حسن و عشق کا شاعر ہونے کے باوجود ان موضوعات کو نئے زاویے سے دیکھا۔ فراق کو نوجوانی میں ہی شاعری کا شوق پیدا ہو گیا تھا اور 1916ء میں جب ان کی عمر 20 سال تھی، انھوں نے پہلی غزل کہی۔ ان کا کلام ادبی جرائد میں‌ شایع ہونے لگا اور یوں ان کی شہرت کا سفر شروع ہوا۔

    فراق کی نجی زندگی کے حالات پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوگا کہ 18 سال کی عمر میں ان کی شادی کشوری دیوی سے کر دی گئی تھی، لیکن یہ تعلق ان کے لیے سوہانِ روح بن گیا۔ اس کے بعد والد کا انتقال ہوگیا جو فراق کے لیے کڑا وقت تھا۔ ان پر بھائی بہنوں کی پرورش اور تعلیم کی ذمہ داری آن پڑی۔ ادھر بے جوڑ شادی نے الگ انھیں توڑ کر رکھ دیا تھا۔ اسی زمانہ میں وہ انگریزوں سے آزادی کی جدوجہد میں شریک ہوگئے اور سیاسی سرگرمیوں کی وجہ سے 1920ء میں گرفتاری کے بعد 18 ماہ جیل میں گزارے۔ تاہم آزادی کے بعد فراق سیاست کا حصّہ نہیں رہے۔ فراق کی زندگی کا ایک بڑا المیہ ان کے اکلوتے بیٹے کی سترہ سال کی عمر میں خود کشی تھا جب کہ ان کی بیوی بھی اپنے بھائی کے گھر جا بیٹھی تھیں، یوں فراق تنہائی کا شکار رہے۔ اس کے باوجود فراق نے اردو ادب کو اپنی شاعری اور تنقیدی مضامین کی صورت میں بیش بہا خزانہ دیا۔ انھیں ایسا شاعر مانا جاتا ہے جس نے بیسویں صدی میں اردو غزل کو ایک نیا رنگ اور آہنگ عطا کیا۔ فراق نے کسی کی پیروی نہیں‌ کی بلکہ شاعری میں ان کا اپنا ہی رنگ تھا۔ ان کے متعدد شعری مجموعے شائع ہوئے جن میں روحِ کائنات، شبنمستان، رمز و کنایات، غزلستان، روپ، مشعل اور گلِ نغمہ شامل ہیں۔

    نئی دہلی میں‌ وفات پانے والے فراق گورکھپوری کو بھارت میں پدم بھوشن اور گیان پیٹھ جیسے اعزازات سے نوازا گیا تھا۔

  • سروجنی نائیڈو: ہندو مسلم اتحاد کی حامی اور محمد علی جناح کی مداح

    سروجنی نائیڈو: ہندو مسلم اتحاد کی حامی اور محمد علی جناح کی مداح

    سروجنی نائیڈو کا نام متحدہ ہندوستان اور انگریزوں سے آزادی کی جدوجہد کے دوران ایک ایسی شاعرہ اور مدبر خاتون کے طور پر مشہور تھا جو ہندو مسلم یکجہتی اور یگانگت کے لیے متحرک رہیں۔ انھیں ایک آزادی کی تحریک میں‌ اپنے سیاسی کردار اور سماجی خدمات کے لیے یاد کیا جاتا ہے۔

    سروجنی نائیڈو حیدرآباد دکن کے ایک بنگالی گھرانے کی فرد تھیں۔ ان کے والد اگورناتھ چٹوپادھیا ایک سائنس داں، فلسفی، اور ماہرِ تعلیم تھے اور والدہ بنگالی شاعرہ وردا سندری دیوی تھیں۔ ان کے والد نظام کالج حیدرآباد کے بانی تھے۔ سروجنی نائیڈو ایک قابل اور باصلاحیت خاتون تھیں جنھوں نے سولہ سال کی عمر میں انگلستان سے تعلیم مکمل کی اور انگلینڈ میں قیام کے دوران سفر گیٹ تحریک سے وابستہ رہیں۔ سروجنی نائیڈو کا پہلا مجموعہ The Golden Threshold لندن کے ناشر نے چھاپا تھا اور اس کے بعد دو مزید مجموعے The Bird of Time اور The Broken Wing بتدریج 1912ء اور 1917 ء میں منظر عام پر آئے تھے۔ اگرچہ وہ سیاست کے میدان میں بہت مصروف رہی تھیں لیکن اس کے باوجود نظم نگاری جاری رکھی تاہم کوئی مجموعہ ان کی وفات تک شایع نہیں ہوسکا۔ 1905 میں ان کا پہلا مجموعہ شائع ہوا تھا۔ سروجنی نائیڈو کی نظموں میں ہندوستانی زندگی کا عکس ملتا ہے۔ اسی سال وہ بنگال کی تقسیم کے خلاف احتجاج میں انڈین نیشنل کانگریس کی طرف سے شامل ہوگئی تھیں اور تا دم آخر سیاست میں فعال رہیں۔ سروجنی نائیڈو ہندوستان میں خواتین کے حقوق کی پُر زور حامی اور ہندو مسلم اتحاد کی بڑی داعی تھیں۔

    سروجنی نائیڈو 13 فروری 1879 کو پیدا ہوئی تھیں۔ تحریک آزادی میں ان کا بڑا فعال کردار رہا اور بعد میں‌ وہ انڈین نیشنل کانگریس کی صدر بھی رہیں۔ ہندوستان کی آزادی کے بعد انھیں اترپردیش کا گورنر بھی مقرر کیا گیا تھا۔

    مسز سروجنی نائیڈو کو بطور شاعرہ بلبل ہندوستان کے لقب سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔ وہ 2 مارچ 1949 کو تقسیم ہند کے ایک سال بعد ہی دل کا دورہ پڑنے سے چل بسی تھیں۔

    سروجنی نائیڈو کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ بانی محمد علی جناح کی ایک مداح تھیں۔ علمی سیاست اور آزادی کی تحریک میں‌ نمایاں کردار نبھانے کی وجہ سے ان کے ہندوستان کے بڑے سیاست دانوں‌ اور اکابرین سے اور سیاسی اور خاندانی نوعیت کے تعلقات تھے اور ان میں ہندو مسلم اور دیگر اقلیتوں کے سیاسی اور سماجی راہ نما شامل تھے۔ سروجنی نائیڈو ہندوستان کی ہنگامہ خیز سیاست کے کئی ادوار اور اہم فیصلوں کے لیے منعقدہ اجلاسوں میں نہ صرف شریک رہیں بلکہ اپنا مؤقف بھی بڑے اعتماد اور دلیل کے ساتھ سامنے رکھا۔

    قومی تحریک میں شمولیت اور فعال کردار ادا کرنے کے دوران وہ مہاتما گاندھی کے بہت قریب رہیں اور جدوجہد آزادی کے ساتھ گاندھی کا عدم تشدد کا فلسلفہ اور سول نافرمانی کو دل کی گہرائیوں سے قبول کیا جس کے بعد وہ ان کے قریبی ساتھیوں اور حامیوں میں سے ایک بن گئی تھیں۔ 1920 میں وہ عدم تعاون کی تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی نظر آئیں اور متعدد بار گرفتار بھی ہوئیں۔ ہندوستان میں تحریکِ آزادی کے دوران وہ نہ صرف ہندو اکابرین بلکہ مسلمان قیادت کے ساتھ بھی مسلسل بات چیت کرکے قومی یکجہتی برقرار رکھنے کے لیے کوششیں کرتی رہیں۔ ان کے اسی کردار کے اعتراف میں ان کو کانپور سیشن 1925 میں انڈین نیشنل کانگریس کی صدر کے طور پر مقرر کیا گیا تھا۔

    ان کی شخصیت کا ایک اور پہلو بہترین مقررہ ہونا ہے جس نے زورِ خطابت سے ہندوستان میں‌ بڑی شہرت پائی۔ وہ فصیح و بلیغ مقررہ تھیں اور خطابت کا گُر بخوبی جانتی تھیں۔ ایک موقع پر مسلم یونیورسٹی کے جلسے میں شریک ہوئیں تو کہا: ”میں آج مسلم یونیورسٹی علی گڑھ میں کئی لوگوں کے مشورے کے خلاف اور چند لوگوں کی دھمکی کے باوجود حاضر ہوئی ہوں، مجھے علی گڑھ کی ضلعی اور یو پی کی صوبائی کانگریس نے پہلے مشورہ اور پھر حکم دیا کہ تم مسلم یونیورسٹی کا دورہ منسوخ کر دو۔ انہیں یہ بات بھو ل گئی کہ گورنر کی حیثیت سے میں اب کانگریس کی ممبر نہیں رہی لہٰذا نہ ان کی رائے کی پابند ہوں نہ ان کے ضابطے سے مجبور، اور میں کسی کی دھمکیوں کو کب خاطر میں لاتی ہوں۔ میں حاضر ہوگئی ہوں، بلبل کو چمن میں جانے سے بھلا کون روک سکتا ہے؟،،

    مختار مسعود جیسے صاحبِ طرز ادیب اور انشا پرداز نے اپنی مشہور تصنیف آوازِ دوست میں ان کا شخصی خاکہ کچھ یوں رقم کیا ہے۔

    "دبلی پتلی ،بوٹا قد، تنگ دہن، آنکھیں کشادہ اور روشن، بالوں میں گھنگھر ہیں اور چھوٹا سا جوڑا گردن پر ڈھلکا ہوا ہے، جوڑے میں جڑاؤ پھول ہیں اور گلے میں موتیوں کا ہار۔

    بائیں ہاتھ کی پہلی انگلی میں بڑی سی انگوٹھی ہے، ساڑی کا پلّو کاندھے پر کلپ سے بندھا ہوا، صورت من موہنی، پہلی نظر میں پُراثر، دوسری میں پُراسرار، میں نے بھی جب اس بُت کو دوسری بار نظر بھر کر دیکھا تو صورت ہی بدلی ہوئی تھی۔

    ایک بھاری سانولی اور معمّر عورت نے سلک کی سلیٹی ساڑی باندھی ہے۔ پلّو سَر پر ہے، اور نصف چہرہ بھی اس میں چھپا ہوا ہے۔ اس نے دائیں ہاتھ سے ایک خوش نما قوس بنائی اور اسے ابرو کے سامنے لا کر سَر کی ہلکی سی جنبش کے ساتھ مسلم یونیورسٹی کورٹ کے اراکین کو جو وکٹوریا گیٹ میں صف بستہ کھڑے تھے، یوں آداب کیا، گویا وہ مسلم تمدن کا مرقع ہے یا شائستگی کا مجسمہ۔

    آداب کرتے ہوئے ساڑی کا پلّو چہرے سے ڈھلک گیا تو ہم نے پہچانا کہ یہ سروجنی نائیڈو ہے۔”

  • شبنم شکیل: شاعرہ، افسانہ نگار اور نقاد

    شبنم شکیل: شاعرہ، افسانہ نگار اور نقاد

    شبنم شکیل کی شاعری میں نسائی جذبات اور وہی رنگ غالب ہے جو اردو زبان میں اکثر شاعرات کے ہاں دیکھا جاتا ہے، مگر شبنم شکیل کی شاعری میں روایت کے ساتھ منفرد انداز بھی ان کی پہچان ہے۔

    1960ء کی دہائی میں شاعری سے پہچان بنانے والی شبنم شکیل نے غزل گوئی کو اہمیت دی۔ شبنم شکیل نے ایک علمی و ادبی گھرانے میں آنکھ کھولی تھی۔ ان کے والد سید عابد علی عابد لاہور کے ادبی اور تعلیمی حلقوں میں ایک مقتدر شخصیت تھے۔ عابد صاحب شاعر، محقق، نقاد اور کئی ادبی حیثیتوں میں‌ ممتاز تھے۔ انھوں نے زبان و بیان اور فن و شخصیت پر کئی کتابیں یادگار چھوڑی ہیں‌۔ شاعرہ، ادیب و نقاد شبنم شکیل انہی کی صاحب زادی تھیں اور ماہرِ تعلیم بھی مشہور تھیں۔ 2 مارچ 2013ء کو شبنم شکیل اس دنیا سے رخصت ہوگئی تھیں۔ آج ان کی برسی ہے۔

    لاہور میں‌ 12 مارچ 1942ء کو پیدا ہونے والی شبنم شکیل نے ابتدائی تعلیمی درجات کی تکمیل کے بعد اسی شہر کے اسلامیہ کالج سے گریجویشن مکمل کی۔ اس کے بعد اورینٹل کالج، لاہور سے اردو ادب میں ماسٹرز کیا۔ ماسٹرز کرنے کے بعد وہ بطور لیکچرر تدریس کے لیے ایک کالج سے وابستہ ہوگئیں۔

    شعر و شاعری کا شوق تو شبنم شکیل کو اپنے والد کی وجہ سے ہوا تھا۔ جب کہ کم عمری ہی میں مطالعے کی عادی ہوچکی تھیں اور اسی نے ان کے دل میں لکھنے اور ادب میں نام و مقام بنانے کی لگن بھی پیدا کردی۔ قلم تھاما تو حوصلہ افزائی بھی ہوئی اور پھر شبنم شکیل کے تنقیدی مضامین پر مشتمل پہلی کتاب 1965ء میں شائع ہوگئی جس کے بعد یہ سلسلہ مزید آگے بڑھا۔ شاعرہ اور نقاد شبنم شکیل نے اپنے فنی اور تخلیقی سفر میں متعدد ایوارڈز اپنے نام کیے جن میں 2004ء میں‌ پرائڈ آف پرفارمنس بھی شامل ہے۔ وہ کئی اداروں سے وابستہ رہیں‌ اور متعدد تنظیموں‌ کی اہم رکن تھیں۔ تاہم وہ کسی ادبی تحریک کا باقاعدہ حصہ نہیں بنیں۔

    ان کے شعری مجموعے، مضامین اور افسانوں پر مشتمل کتابیں شب زاد، اضطراب اور مسافت رائیگاں تھی، تقریب کچھ تو ہو، نہ قفس نہ آشیانہ، اور آواز تو دیکھو کے نام سے شایع ہوئیں۔ شبنم شکیل اسلام آباد کے ایک قبرستان میں آسودہ خاک ہیں۔

    ان کا ایک شعر ملاحظہ کیجیے۔

    اب مجھ کو رخصت ہونا ہے اب میرا ہار سنگھار کرو
    کیوں دیر لگاتی ہو سکھیو جلدی سے مجھے تیار کرو

  • لارنس کا تذکرہ جس نے "لیڈی چیٹرلی کا عاشق” لکھ کر تہلکہ مچا دیا

    لارنس کا تذکرہ جس نے "لیڈی چیٹرلی کا عاشق” لکھ کر تہلکہ مچا دیا

    لیڈی چیٹرلی کا عاشق وہ ناول تھا جس پر ڈی ایچ لارنس کو فحش نگار کہا گیا ان کے ناول پر پابندی عائد کردی گئی اور مقدمات چلے، لیکن بعد میں یہی ناول دنیا بھر میں خوب فروخت ہوا اور لارنس کی بہترین تصنیف کہلایا۔ برطانوی مصنف ڈی ایچ لارنس کے ناول اور نظمیں پیچیدہ انسانی جذبات اور بعض حساس سماجی موضوعات کا احاطہ کرتی ہیں۔

    ادیب، شاعر اور نقاد ڈی ایچ لارنس کا یہ تذکرہ کے ان کے یومِ‌ وفات کی مناسبت سے کیا جارہا ہے۔ فرانس میں قیام کے دوران 2 مارچ 1930 کو لارنس انتقال کرگئے تھے۔

    ڈی ایچ لارنس کی زندگی کی روداد بیان کرنے سے پہلے مختصراََ مذکورہ متنازع ناول کے بارے میں جان لیں جس نے بیسویں صدی کے وسط میں عالمی ادب میں تہلکہ مچا دیا تھا۔ اس ناول کو اخلاقی قدروں کی پامالی اور فحاشی کو فروغ دینے والا ناول قرار دیتے ہوئے امریکہ، برطانیہ سمیت غیرمنقسم ہندوستان، کینیڈا، آسٹریلیا، جاپان اور دیگر ممالک میں پابندی عائد کر دی گئی تھی۔ اس کے مصنف پر مقدمات دائر کیے گئے مگر بالآخر دنیا کو اسے انسانی نفسیات، اور اس کے مختلف پہلوؤں کو اجاگر کرتا ایک بہترین ناول تسلیم کرنا پڑا۔ یہ ناول جنگل کے ایک معمولی رکھوالے اور اعلیٰ طبقے کی ایک مہذب عورت کی وابستگی کا افسانہ ہے جس کے بارے میں بڑے ادیبوں کا کہنا تھا کہ اس ناول میں جنسیت کے پہلو کو جس خوبی سے بیان کیا گیا ہے وہ حقیقت افروز اور موسیقی ریز ہے۔ اس میں ہوس ناکی اور شہوت انگیزی کے بجائے وہ جذبات ہیں جو شاید اونچے طبقے کی مروجہ نام نہاد قدروں کی بنیادوں کو ہلا دیتے ہیں۔

    انگریز ناول نگار ڈیوڈ ہربرٹ لارنس المعروف ڈی ایچ لارنس انگلستان کے صنعتی علاقے نوٹنگھم شائر میں 1885ء کو پیدا ہوئے۔ یہ ایک غریب گھرانے کے فرد تھے اور ان کے والد ان پڑھ کان کن تھے۔ لیکن والدہ اپنی شادی سے پہلے ایک اسکول ٹیچر رہی تھیں۔ انھوں نے لارنس کو پڑھایا اور اسی زمانہ میں لارنس نے شاعری اور فکشن لکھنا شروع کر دیا۔ ان کا پہلا ناول1911ء میں شائع ہوا۔ لارنس نے محکمہ تعلیم میں ملازم ہوچکے تھے اور اس ناول کی اشاعت کے بعد انھیں نوکری سے استعفیٰ دینا پڑا کیونکہ وہ ٹی بی کا شکار ہوگئے تھے۔ یہی موقع تھا جب لارنس نے تخلیقی سفر پر توجہ دی۔ دو برس بعد نیا ناول منظر عام پر آیا اور پھر وہ مزید کہانیاں تخلیق کرنے لگے۔ لارنس نے اپنے ایک جرمن پروفیسر کی بیوی سے شادی کر لی اور 1928ء میں اپنا متنازع ناول بھی شایع کروایا۔ لارنس نے مختصر کہانیوں کے بھی 9 مجموعے شائع کروائے اور یہ کہانیاں، جذبات و ذہانت اور تخلیقی ہنر مندی کا شاہکار سمجھی جاتی ہیں۔ لارنس نے اپنی کہانیوں میں نفسیاتی موضوعات اور ورکنگ کلاس کو موضوع بنایا۔ انھوں نے ادبی تنقید بھی لکھی، ڈرامے اور خطوط کے علاوہ مختلف شخصیات پر مضامین بھی تحریر کیے۔

    لارنس کی تحریریں جنسیت، جذباتی صحت، بے ساختگی اور جبلت جیسے مسائل کو موضوع بناتی ہیں، جو اس دور میں قدامت پسند سوچ کی وجہ سے متنازع اور ناگفتہ بہ تھے۔ انھیں اپنے افکار و خیالات کی وجہ سے معاشرے میں ناپسندیدگی کا سامنا کرنا پڑا اور اپنی مختصر زندگی کے دوسرے نصف حصے میں سرکاری طور پر سنسر شپ اور اپنے تخلیقی کام کی غلط تشریحات کے بعد خود ساختہ جلا وطنی میں گزارے۔

  • امتیاز علی خاں عرشی:‌ بلند پایہ محقق اور ماہرِ غالبیات

    امتیاز علی خاں عرشی:‌ بلند پایہ محقق اور ماہرِ غالبیات

    امتیاز علی خاں عرشی کو اردو کے صفِ اوّل کے چند محققین میں شمار کیا جاتا ہے، جن کی ساری زندگی زبان و ادب میں تحقیق اور تصنیف و تالیف کے کاموں میں بسر ہوئی۔ اس میدان میں ان کے کارنامے نہایت اہم ہیں۔ امتیاز علی خاں عرشی کو ماہرِ غالبیات کی حیثیت سے بھی جانا جاتا ہے۔

    محقق و مصنّف امتیاز علی خاں عرشی کا وطن رام پور ہے۔ ان کی پیدائش کا سال 1904ء ہے اور رام پور، بھارت ہی میں‌ 25 فروری 1981ء کو عرشی انتقال کر گئے تھے۔ آج ان کی برسی ہے۔ وہ زندگی بھر رام پور کے ایک عظیم علمی ادارے رضا لائبریری سے وابستہ رہے جہاں نادر و نایاب کتابوں کا ذخیرہ موجود تھا۔ عرشی نہ صرف خود اس ذخیرے سے خود فیض یاب ہوئے بلکہ جہانِ علم و ادب کو بھی اپنے علم اور مطالعہ سے خوب فیض پہنچایا۔ عرشی صاحب کا اصل میدان عربی ادب تھا لیکن اردو میں ان کی تصانیف بھی نہایت اہم ہیں۔

    یہ درست ہے کہ تحقیق و تدوین کا کام جس دیدہ ریزی اور جگر کاوی کا مطالبہ کرتا ہے امتیاز علی خاں عرشی اس پر پورا اترتے ہیں۔ عرشی صاحب نے تصنیف و تالیف کی ابتدا اپنی تعلیم کے زمانے میں پنجاب یونیورسٹی میں کی۔ بعد میں رام پور ریاست کی عظیم الشان رضا لائبریری سے وابستہ ہو گئے۔ وہ عربی، فارسی اور انگریزی زبانوں سے گہری واقفیت رکھتے تھے اور اسی وصف کے سبب تحقیق کے میدان میں کار ہائے نمایاں انجام دے سکے۔خاص طور پر انھوں نے غالبیات کے ضمن میں بڑے وقیع و مستند اضافے کیے۔ عرشی صاحب نے 1947 میں ’’فرہنگ غالب‘‘ شائع کی اور ’’دیوان غالب نسخۂ عرشی‘‘ میں غالب کے اردو کلام کو تاریخی ترتیب سے پیش کیا۔ انشاء اللہ خان انشاء کی مختصر کہانی سلک گہر کو بھی عرشی صاحب نے اپنے دیباچے کے ساتھ 1948 میں اسٹیٹ پریس رام پور سے چھپوایا۔ محاورات کے نام سے ایک کتاب شائع کی جس میں بیگمات کے محاوروں کو یکجا کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ کئی عربی کتابوں کو اردو میں ترجمہ کیا جب کہ شاعروں اور ادیبوں سے متعلق متعدد مقالات بھی لکھے جو بہت اہمیت رکھتے ہیں۔

    امتیاز علی خاں عرشی کی تحقیقی کاوشوں اور ان کی بصیرت سے انکار تو نہیں کیا جاسکتا مگر یہ بھی ہے کہ ان کی تحریروں پر بعض ناقدین نے اعتراض کرتے ہوئے اغلاط کی نشان دہی کی ہے مگر آج بھی عرشی کا نام اردو تحقیق کے چند بڑے ستونوں میں شامل ہے۔

  • نصراللہ خان: صحافت اور ادب کی دنیا کا ایک اہم نام

    نصراللہ خان: صحافت اور ادب کی دنیا کا ایک اہم نام

    نصراللہ خان کا شمار معروف فکاہیہ کالم نگاروں میں ہوتا ہے انھوں نے ڈرامے بھی تحریر کیے اور شخصی خاکے اور تذکرہ نویسی بھی خوب کی۔ نصراللہ خان اپنے منفرد اور شگفتہ اسلوب کی بنا پر اپنے ہم عصروں میں نمایاں ہوئے۔

    بطور فکاہیہ کالم نویس نصراللہ خان کئی مشہور اخبارات و رسائل سے وابستہ رہے اور ان کی نثر پر مشتمل دیگر تحاریر بھی اکثر ادبی صفحات کی زینت بنتی رہیں۔ نصر اللہ خان کا ایک وصف تحریر کی شگفتگی اور روانی تھی جس نے انھیں صاحبِ اسلوب کالم نگار بنایا۔

    نصر اللہ خان کی صحافت پر خامہ بگوش کے عنوان سے کالم لکھنے والے ادیب و محقق اور نقاد مشفق خواجہ نے کہا تھا: وہ اس زمانے کے آدمی ہیں جب صحافی سیاسی جماعتوں یا سرکاری ایجنسیوں کے زر خرید نہیں ہوتے تھے۔ ان کے پاس ضمیر نام کی ایک چیز بھی ہوتی تھی۔

    نصر اللہ خان کو اردو صحافت کا ایک بڑا نام بھی تسلیم کیا جاتا ہے جن کی تحریریں ہر طبقۂ سماج میں‌ یکساں‌ پسند کی گئیں۔ نصر اللہ خان 11 نومبر 1920ء کو جاورہ، مالوہ کے ایک خاندان میں پیدا ہوئے۔ یہ ایک چھوٹی مسلمان ریاست تھی۔ بعد میں نصراللہ خان امرتسر چلے گئے۔ نصراللہ خان کے آبا و اجداد غیر منقسم ہندوستان میں صوبہ سرحد کے شہر پشاور کے رہنے والے تھے۔ ان کے دادا کی مادری زبان پشتو تھی اور پیشہ تجارت تھا۔ بعد ازاں وہ امرتسر میں آباد ہو گئے تھے۔ نصراللہ خان کے والد کا نام محمد عمر خان تھا جو تدریس سے وابستہ تھے اور ادب کا بھی شوق رکھتے تھے۔ نصراللہ خان نے باقاعدہ تعلیم مسلم ہائی اسکول امرتسر سے حاصل کی اور پنجاب یونیورسٹی سے میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ مزید تعلیم کے لیے ایم اے او (MAO) کالج امرتسر میں داخلہ لے لیا۔ پھر اجمیر سے بی اے اور بی ٹی کرنے کے بعد ناگپور یونیورسٹی سے اردو میں ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔ تقسیم کے بعد 1949ء سے 1953ء کے دوران ریڈیو پاکستان کراچی میں پروڈیوسر رہے، بعد ازاں روزنامہ انقلاب لاہور، روزنامہ حرّیت کراچی اور روزنامہ جنگ کراچی سے وابستہ ہوگئے اور آداب عرض کے نام سے ان کا کالم قارئین تک پہنچنے لگا جو بہت مقبول ہوا۔ 25 فروری 2002 کو نصراللہ خان وفات پاگئے تھے۔

    اردو زبان میں نصراللہ خان کی صحافت کا آغاز مولانا ظفر علی خان کے زمیندار اخبار سے ہوا تھا اور انہی کے زیر سایہ ان کی فکری اور قلمی تربیت ہوئی تھی۔ پاکستان میں اپنی صحافتی زندگی کے دوران خان صاحب نے مختلف شعبہ جات سے تعلق رکھنے والی بہت سی اہم شخصیات کو قریب سے دیکھا اور ان سے بات چیت کا بھی موقع انھیں ملا۔ ان میں جید عالم دین، سیاست داں، فن کار، شاعر، ادیب، موسیقار الغرض‌ متنوع شخصیات شامل ہیں۔ ان شخصیات سے اپنے تعلقات اور ملاقاتوں کو نصر اللہ خان نے اپنے منفرد اسلوب میں رقم کیا اور شخصی خاکوں کی ایک کتاب سامنے لائے جو بہت دل چسپ ہے اور کئی اہم واقعات ہمارے سامنے لاتی ہے۔ اس کتاب کو ایک مستند حوالہ اور معیاری تذکرہ اس لیے بھی کہا جاسکتا ہے کہ مصنف نے خوش قسمتی سے مختلف علاقوں کی تہذیب و ثقافت کو قریب سے دیکھا اپنے وقت کے مشاہیر سے بھی ملاقاتیں کیں اور ان کی صحبت میں وقت گزارا تھا۔ تقسیم سے قبل نصر اللہ خان بھوپال، امرتسر، اجمیر، ناگپور اور لاہور میں بھی رہ چکے تھے۔ نصر اللہ خان کی یہ تصنیف "کیا قافلہ جاتا ہے” کے عنوان سے پہلی بار 1984 میں شائع ہوئی تھی۔ مصنف کی دوسری تصانیف میں کالموں کا مجموعہ بات سے بات، ڈرامہ لائٹ ہاؤس کے محافظ، اور ان کی سوانح عمری اک شخص مجھی سا تھا، شامل ہیں۔

  • جان کیٹس: نوجوانی میں موت سے ہم آغوش ہونے والا عظیم رومانوی شاعر

    جان کیٹس: نوجوانی میں موت سے ہم آغوش ہونے والا عظیم رومانوی شاعر

    بیماری سے لڑتے لڑتے زندگی کی بازی ہار جانے والے جان کیٹس کو اس کی موت کے بعد بطور رومانوی شاعر لازوال شہرت نصیب ہوئی۔ جان کیٹس ایسا جوانِ رعنا تھا جس کی زندگی نے ابھی اترانا سیکھا ہی تھا اور جو اپنے خوابوں کو شاعری میں جگہ دے رہا تھا۔ وہ 26 برس زندہ رہ سکا۔ جان کیٹس آج ہی کے روز 1821ء میں‌ چل بسا تھا۔

    لندن کے ایک علاقہ میں جان کیٹس نے غریب گھرانے میں آنکھ کھولی تھی۔ 31 اکتوبر 1795ء کو پیدا ہونے والے کیٹس کا باپ مقامی شراب خانے میں ساقیا تھا۔ وہ ایک بہن اور تین بھائی تھے۔ جان کیٹس نے خراب مالی حالات کے باوجود طب کے مضمون میں سند حاصل کی۔ اُسے برطانیہ کے جس سستے اسکول میں داخلہ ملا تھا، وہاں خوش قسمتی سے جان کلارک جیسا ذہین، قابل اور ادبی ذوق رکھنے والا استاد اس کی زندگی میں آیا۔ کلارک نے کیٹس کو برطانوی زبان میں‌ ادب پاروں کا مطالعہ کرنے پر اکسایا اور کلاسیکی ادب کے تراجم سے واقف کرایا۔ ایک روز غربت زدہ کنبے کا سربراہ یعنی کیٹس کا باپ گھوڑے سے گِر کر ہلاک ہوگیا۔ یوں اس گھر کے افراد معمولی آمدنی سے بھی محروم ہوگئے۔ چند ماہ بعد کیٹس کی ماں نے دوسری شادی کر لی، مگر دوسرا شوہر ایک برا آدمی ثابت ہوا۔ جان کیٹس کی ماں نے اس سے طلاق لے لی اور بچّوں کے ساتھ ان کی دادی کے پاس چلی گئی۔ وہاں چند ماہ گزرے تھے کہ بچّے اپنی ماں کے سائے سے بھی محروم ہوگئے۔ اس کے بعد کیٹس کو اسکول سے اٹھا لیا گیا۔ اسے خاندان کے ایک شناسا سرجن کے پاس مقامی اسپتال میں‌ ان کا ہاتھ بٹانے کے لیے جانا پڑا۔ کیٹس نے 1814 سے 1816 تک وہاں‌ ادویات اور سرجری کی تعلیم و تربیت حاصل کی۔ پھر ایک اسپتال میں معمولی نوکری مل گئی۔ اس نے اسپتال میں‌ سرجری کی کلاسیں‌ لینا شروع کردیا اور اسی عرصہ میں شاعری بھی کرنے لگا۔ اس کی لگن اور طلبِ علم کی شدید خواہش نے 1816 میں اسے ادویہ سازی اور سرجری میں سند یافتہ بنا دیا۔ جان کیٹس اس پیشے میں اب آگے بڑھ سکتا تھا، لیکن اس کا دل نہیں مانا۔ وہ دادی کے گھر میں اپنا زیادہ وقت شاعری کرتے ہوئے گزارنے لگا۔

    جان کیٹس نے جس دور میں شاعری شروع کی‌، اس وقت دو ادبی رسائل تنقید کی آڑ میں نئے لکھنے والوں کو آڑے ہاتھوں لے رہے تھے۔ اس کے ہم عصر اور برطانیہ کے مقبول شعرا میں‌ شیلے اور بائرن بھی شامل ہیں اور انھیں‌ بھی بے جا تنقید اور ادبی دنیا میں رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا۔ ان ناموافق حالات میں اس وقت کے ایک اہم شاعر لی ہنٹ نے ایک رسالہ نکالا اور نئے لکھنے والوں کو اس میں جگہ دی۔ جان کیٹس کی نظمیں بھی ہنٹ کے رسالے میں شایع ہوئیں اور جلد ہی جان کیٹس کی نظموں کا پہلا مجموعہ بھی منظرِعام پر آ گیا۔ برطانیہ میں ادب کے قارئین جان کیٹس کو پہچاننے لگے، لیکن مستحکم ادبی حلقوں اور ان کے رسائل میں دوسروں کے ساتھ کیٹس پر بھی بے جا تنقید شروع کردی گئی اور یہ تک لکھا گیا کہ جان کیٹس کو شاعری ترک کر کے ادویہ سازی پر توجہ دینا چاہیے۔ جان کیسٹس جیسے حساس اور زود رنج شاعر کے لیے یہ تنقید ناقابل برداشت تھی۔ جان کیٹس بدقسمتی سے ٹی بی جیسے مرض کا شکار ہوچکا تھا جو اس دور میں‌ ناقابل علاج اور مہلک مرض تھا۔ دراصل جان کیٹس کو یہ مرض اپنے ٹی بی کا شکار بھائی سے منتقل ہوا تھا۔ وہ تنقید کے ساتھ ٹی بی کی شدت بھی سہہ رہا تھا۔ اگرچہ بائرن، لی ہنٹ اور شیلے وہ شاعر اور ادیب تھے جنھیں جان کیٹس سے ہمدردی بھی تھی اور وہ اس کی شاعری کے معترف بھی تھے۔ ان کی حوصلہ افزائی اور ساتھ جان کیٹس کو ضرور نصیب تھا، مگر ٹی بی نے اسے مزید حساس بنا دیا تھا اور وہ خود پر کڑی تنقید برداشت نہیں کر پا رہا تھا۔

    بات صرف یہی نہیں‌ تھی بلکہ جان کیٹس عشق کا روگ بھی لگا بیٹھا تھا۔ یہ لڑکی اس کی پڑوسی فینی بران تھی۔ کہتے ہیں کہ بیماری کے دنوں میں فینی کی محبت اور دیکھ بھال نے ہی جان کیٹس کو بہت سہارا دے رکھا تھا ورنہ بیماری اسے تیزی سے موت کی طرف لے جارہی تھی۔ جان کیٹس نے اپنی مشہور نظم برائٹ اسٹار اسی لڑکی فینی سے ایک ملاقات کے دوران لکھی تھی۔ ان میں پیامات کا تبادلہ بھی ہوتا تھا اور یہ خطوط بعد میں بے مثال رومانوی خطوط کے طور پر محفوظ کر لیے گئے۔

    نوجوان شاعر جان کیٹس نے اپنی نظموں‌ میں‌ حسن و عشق اور جذبات کو اپنے تخیل میں اس طرح‌ سمویا کہ بعد میں اس کی شاعری کو ایک دبستان قرار دیا گیا۔ مختصر زندگی میں غربت اور جسمانی تکلیف کے ساتھ نام نہاد ادبی نقادوں کی دل آزار باتوں اور عشق نے جان کیٹس کو ایک بے مثال شاعر بنا دیا۔ کیٹس کی شاعری لازوال ثابت ہوئی۔ انگریزی ادب کے ناقدین کہتے ہیں کہ کیٹس کی زندگی کے رنج و غم، اس پر بے جا تنقید اور فینی کی محبت نے ہی اسے بطور شاعر شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیا۔ جان کیٹس یونانی دیومالائی کرداروں سے متاثر تھا اور ان کرداروں کا ذکر جا بجا اس کی شاعری میں دیکھنے کو ملتا ہے۔

    اٹلی کے مشہور شہر روم میں‌ قیام کے دوران ٹی بی کے مرض کی شدت کے سبب جان کیٹس کی موت واقع ہوگئی۔ اس عظیم انگریز رومانوی شاعر کی تدفین بھی روم ہی میں کی گئی۔

  • مدھو بالا:‌ روپ کی رانی جو عین جوانی میں زندگی سے محروم ہوگئی

    مدھو بالا:‌ روپ کی رانی جو عین جوانی میں زندگی سے محروم ہوگئی

    مدھو بالا نے فلم ‘مغلِ اعظم’ میں ‘انار کلی’ کا کردار قبول کر کے شہرت اور مقبولیت کے ہفت آسمان گویا راتوں رات طے کر لیے۔ حسین اور دل کش سراپے کی مالک مدھو بالا ہندوستانی سنیما پر چھا گئیں اور انھیں ‘وینس آف انڈین سنیما’ کہا جانے لگا۔ آج اداکارہ مدھو بالا کی برسی ہے۔‌

    تاریخ کے اوراق الٹیں‌ تو مغلیہ دور کی ایک کنیز انار کلی کے بارے میں مشہور ہے کہ اسے بادشاہ کے حکم پر دیوار میں‌ زندہ چنوا دیا گیا تھا۔‌ فلم میں‌ یہ کردار اداکارہ شہناز، نرگس اور نوتن کو آفر ہوا تھا، لیکن ان کی قسمت میں ‘انار کلی’ بننا نہیں لکھا تھا اور یوں لازوال شہرت اداکارہ مدھو بالا کا مقدر بنی۔‌

    فلمی دنیا کی مدھو بالا کا اصل نام ممتاز تھا۔ اسی نام سے وہ پہلی مرتبہ بڑے پردے پر فلم ‘بسنت’ میں نظر آئی تھیں۔ یہ 1942ء کی بات ہے۔ مشہور ہے کہ اسی دور کی ایک معروف اداکارہ دیویکا رانی کے کہنے پر ممتاز نے فلمی پردے کے لیے اپنا نام مدھو بالا رکھا تھا۔ فلمساز اور ہدایت کار کیدار شرما نے 1947ء میں انھیں اپنی پہلی فلم نیل کمل میں بطور ہیروئن سائن کیا تھا۔ اس وقت مدھو بالا کی عمر صرف تیرہ سال تھی۔ بعد میں وہ سب سے زیادہ معاوضہ لینے والی اداکارہ بنیں اور پھر مغلِ اعظم میں لاجواب اداکاری کے ساتھ ان کے حسن وجمال کا بھی ہر طرف چرچا ہونے لگا۔ یہاں یہ بات قابلِ‌ ذکر ہے کہ مغلِ اعظم کی عکس بندی کے دوران مدھو بالا بیمار تھیں، لیکن انھوں نے شوٹنگ جاری رکھی۔ ہندوستانی سنیما میں یہ فلم آج بھی ایک کلاسک کا درجہ رکھتی ہے۔ اس کنیز کا کردار نبھانے کے لیے مدھو بالا کا رنگ روپ، بانکپن، تمکنت اور دل کش لب و لہجہ فلم ساز کو بہت موزوں نظر آیا تھا اور واقعتاً مدھو بالا کے. آصف کی توقعات پر پورا اتریں اور بیماری کے باوجود اپنا کردار بہت عمدگی سے نبھایا۔

    لاکھوں دلوں‌ کی دھڑکن اور روپ کی رانی مدھو بالا نے عمر بہت تھوڑی پائی۔ وہ صرف 36 زندہ رہ سکیں اور اس عرصہ میں بھی 9 سال وہ تھے جب مدھو بالا بیماری کی وجہ سے اپنے گھر میں بستر تک محدود تھیں۔ مدھو بالا کے دل میں سوراخ تھا اور معالجین کا کہنا تھا کہ انھیں زیادہ سے زیادہ آرام کرنا ہوگا۔ 14 فروری کو دہلی میں پیدا ہونے والی ممتاز کے والدین کو ڈاکٹروں نے کہا تھاکہ اس کے آرام کا خاص خیال رکھنا ہوگا، ان کی بیٹی بہت زیادہ کام نہیں‌ کرسکتی اور عام آدمی کی طرح‌ مسلسل جسمانی سرگرمی اس کے لیے مسئلہ بن سکتی ہے۔

    ممتاز جس کنبے کی فرد تھی وہ والدین اور گیارہ بہن بھائیوں پر مشتمل تھا۔ ممتاز کے والد عطاء اللہ لاہور میں ایک ٹوبیکو کمپنی کے ملازم تھے، جو نوکری چھوڑ کر دہلی منتقل ہوگئے اور اپنی بیٹی ممتاز کو چھوٹی عمر میں‌ فلم نگری میں‌ کام دلوانے میں کام یاب رہے۔ بمبئی میں‌ مقیم ممتاز کو آرام کرنے کا موقع کم ملتا تھا۔ وہ مسلسل شوٹنگ کی وجہ سے اکثر تھکن محسوس کرتی تھیں۔ لیکن عطاء اللہ کو بیٹی کی صحت سے زیادہ اس کی کمائی سے غرض تھی۔ ممتاز بڑی ہورہی تھی اور فلم کی دنیا میں اس کے حسن کا جادو چل چکا تھا اور پھر وہ وقت آیا جب عطاء اللہ کے گھر گویا ہن برسنے لگا۔

    دیکھا جائے تو مدھو بالا کے فلمی سفر کا آغاز، اپنے حسن اور دل کش سراپے کی بدولت فلم سازوں‌ کی نظر میں آنا اور پھر کام یابیاں‌ سمیٹتے چلے جانا ایک قابلِ‌ ذکر کہانی ہے، لیکن اس کا الم ناک پہلو مدھو بالا کی بیماری، فلمی دنیا میں عشق اور شادی کے بعد بھی رنج و آلام اور روح پر لگنے والے زخم ہیں، جن کے بعد وہ تیزی سے موت کی طرف بڑھ گئی۔ مدھو بالا 1969ء میں‌ آج ہی کے دن دنیا سے رخصت ہوگئی تھیں۔ ان کی زندگی کے آخری ایّام آنسو بہاتے ہوئے گزرے۔

    اداکارہ مدھو بالا اور دلیپ کمار کے عشق کی داستان بھی فلمی دنیا میں بہت مشہور ہوئی تھی۔ کہتے ہیں کہ ایک وقت آیا جب یوسف خان المعروف دلیپ کمار اداکارہ پر نکاح کے لیے دباؤ ڈالنے لگے، لیکن مدھو بالا اپنے باپ کے خوف سے ایسا کوئی قدم اٹھانے کو فی الوقت تیّار نہ تھی۔ مدھو بالا کو کچھ وقت چاہیے تھا، لیکن دلیپ نہ مانے اور مدھو بالا سے ناتا توڑ لیا۔ دلیپ کمار سے مایوس، گھر کے حالات، اپنے والد کی لالچی اور خود غرضانہ طبیعت اور اپنی بیماری سے پریشان مدھو بالا نے یہ سوچ کر اس وقت کشور کمار کا ہاتھ تھام لیا کہ وہ اسے زندگی کی طرف لوٹا سکے گا۔ 1960 میں ان کی شادی ہوئی۔ لیکن گلوکار کشور کمار بھی مدھو بالا کو خوشیاں نہ دے سکے۔ انھیں مدھو بالا کی بیماری کا علم تو تھا لیکن وہ یہ نہیں سمجھ سکے تھے کہ بیماری کس حد تک ان کی نوبیاہتا کو متاثر کرچکی ہے۔ بہرحال، وہ اپنی بیوی کو علاج کے لیے لندن لے گئے، لیکن ڈاکٹروں نے کہہ دیا کہ وہ چند سال ہی زندہ رہ سکیں‌ گی۔ کشور کمار نے ایک بیمار عورت کے ساتھ زندگی گزارنے کے بجائے اپنی ذات اور سکون کو ترجیح دی اور مدھو بالا کو اس کے والدین کے گھر چھوڑ دیا۔ وہ دو، تین ماہ میں ایک بار اپنی بیوی کی خیریت دریافت کرنے چلے آتے تھے۔ کشور کمار کے اس سلوک نے شکستہ دل مدھو بالا کو مزید ہلکان کردیا۔ پرستار لاکھوں، آگے پیچھے پھرنے والے ہزاروں، فلم انڈسٹری اور باہر کی دنیا میں ہر ایک مدھو بالا کے حسن و جمال اور ان کے فنِ اداکاری کا قائل تھا، مگر مدھو بالا کو حقیقی خوشیاں اور سکھ نصیب نہ ہوسکا۔

    فلم انڈسٹری کی معروف شخصیت کمال امروہوی بھی عاشق مزاج اور حُسن پرست مشہور تھے جن کی مدھو بالا سے پہلی ملاقات کا ایک واقعہ انیس امروہوی نے یوں بیان کیا ہے۔

    ایک بار ایک دوست نے کمال امروہی کو کھانے پر مدعو کیا جہاں ممتاز نام کی ایک خوب صورت لڑکی سے اُن کی ملاقات ہوئی۔ کھانے کی میز پر وہ لڑکی کمال امروہی کے بالکل سامنے بیٹھی تھی۔ جب وہ کسی کام سے میز سے اُٹھ کر گئی تو کمال صاحب نے اپنے دوست سے دریافت کیا کہ کیا یہ لڑکی فلموں میں کام کرنا چاہتی ہے؟

    اُن دنوں کمال صاحب کو فلم ’محل‘ کے لیے ہیروئن کی تلاش تھی۔ دوست نے بتایا کہ ممتاز کئی فلموں میں کام کر چکی ہے اور اس دعوت کا مقصد بھی یہی تھا کہ ممتاز (مدھو بالا کا اصلی نام) کو آپ سے ملوایا جائے۔ اس طرح چھوٹی فلموں کی اداکارہ ممتاز بڑی فلم ’محل‘ کی ہیروئن مدھوبالا بنی۔

    اداکارہ مدھو بالا نے 66 فلموں میں کردار ادا کیے۔ ان کی مشہور فلموں میں دلاری، دولت، اپرادھی، نادان، ساقی، سنگدل، امر، نقاب، پھاگن، کلپنی، بارات کی رات، مغلِ اعظم، شرابی اور جوالا سرِ فہرست ہیں۔ کہتے ہیں کہ بولی وڈ میں ذاتی محافظ رکھنے کا آغاز مدھو بالا نے کیا تھا۔ اداکارہ کی آخری آرام گاہ ممبئی میں ہے۔

  • مشفق خواجہ: ادبی دنیا کا ایک نابغہ

    مشفق خواجہ: ادبی دنیا کا ایک نابغہ

    اردو ادب کے مایہ ناز ادیب و شاعر، ناقد، محقق اور مقبول کالم نگار مشفق خواجہ ان شخصیات میں سے ایک ہیں جنھیں نابغۂ روزگار کہا جاتا ہے۔ آج مشفق خواجہ کی برسی ہے۔

    مشفق خواجہ کو نہ صرف ان کے فکاہیہ کالموں نے ادبی حلقوں اور قارئین میں مقبول بنایا بلکہ وہ طنز و مزاح لکھنے والوں میں اپنے موضوعات اور اسلوب کی وجہ سے بھی ممتاز ہوئے۔ مشفق خواجہ نے قلمی نام سے اپنے کالموں کی بدولت ادب اور صحافت کی دنیا میں بھی خوب نام بنایا۔ موضوع کی سطح پر مشفق خواجہ کا سب سے اہم کارنامہ تو یہی ہے کہ انھوں نے باضابطہ معاصر ادیب و شعرا اور تازہ ادبی مسائل کو اپنے فکاہیہ کالموں میں جگہ دی اور یوں ’’ادبی کالم نگاری‘‘ کی داغ بیل پڑی۔ کون ہے جسے مشفق خواجہ نے اپنے قلم کی نوک سے نہ گدگدایا ہو اور شعر و ادب میں گروہ بندی، پست تحریروں، شہرت و جاہ اور انعامات کے لیے ادیب و شعرا کی قلابازیوں، داؤ پیچ اور سچ جھوٹ کے ساتھ ان کی بعض حرکتوں پر گرفت نہ کی ہو۔ غیر ادبی عناصر، رجحانات اور تحریکوں کے نام پر ادب کو بے ادبی سکھانے والوں کی نشان دہی اور صنفی تجربات کے نام پر مذاق کرنے والوں‌ کو انھوں نے خوب بے نقاب کیا۔ آج مشفق خواجہ کی برسی ہے۔

    ایک قصّہ پڑھتے چلیے، مشہور ہے کہ ایک مرتبہ جگن ناتھ آزاد (شاعر، ادیب اور محقّق) مشفق خواجہ سے ملاقات کے لیے گئے۔ بات چیت کے دوران جگن ناتھ آزاد نے متعدد بار اپنی کتابوں کی غرقابی کا تذکرہ بڑے ہی درد ناک انداز میں کیا۔ ساتھ ہی یہ بھی کہتے رہے، ’’اس میں نہ صرف مطبوعہ کتابیں ضائع ہوئیں بلکہ کچھ غیر مطبوعہ تصانیف کے مسودے بھی برباد ہوگئے۔‘‘

    خواجہ صاحب نے آٹھ دس مرتبہ سیلاب کی اس دل خراش داستان کو ان کی زبانی سننے کے بعد عرض کیا، ’’اگر اجازت دیں تو ایک درد انگیز واقعہ بلا تشبیہ میں بھی عرض کروں۔‘‘

    آزاد صاحب نے کہا سنائیے، تو خواجہ صاحب بولے: ’’چند برس قبل ایک مشہور ادیب کے ہاں اتفاق سے آگ لگ گئی۔ اس میں ان کے کتب خانے کی بہت سی نادر کتابیں اور غیر مطبوعہ تصانیف کے مسودے بھی جل کر راکھ ہوگئے۔ خانہ سوختہ ادیب کے کچھ دوست اظہار ہمدردی کے لیے آئے اور ان سے افسوس کا اظہار کیا۔ ایک دوست نے اپنے جذبات کا اظہار اس انداز سے کیا۔ ’’اس میں کوئی شبہ نہیں کہ آپ کے کتب خانے کا جل جانا ایک درد ناک سانحہ ہے، جہاں مطبوعہ کتابوں کا جل جانا افسوس ناک ہے وہاں غیر مطبوعہ تصانیف کا غیر مطبوعہ رہ جانا اطمینان کا باعث ہے۔ یقیناً یہ آپ کا نقصان ہے لیکن یہ بھی تو دیکھیے آپ کے قارئین بے شمار متوقع نقصانات سے بچ گئے۔‘‘

    اس پر جگن ناتھ آزاد ہنسنے پر مجبور ہوگئے اور جتنے دن مشفق خواجہ کے ساتھ رہے، ان سے اپنی کتابوں کے ضایع ہوجانے کا ذکر نہیں کیا۔

    مشفق خواجہ اپنا کالم بہ عنوان خامہ بگوش کو بہت لطافت اور زبان کی چاشنی سے تحریر کیا کرتے تھے اور اس میں ادبی موضوعات ہی نہیں سیاسی اور سماجی مسائل بھی خوب اجاگر ہوتے رہے اور وہ طنز و مزاح کے ساتھ عوام کی آواز بنے۔ تاہم ان کے کالموں کو اگر ہم صنف کے اعتبار سے ادبی کالم کہیں تو غلط نہ ہو گا جس میں انھوں نے معاصر اہلِ قلم شخصیات سے متعلق کھل کر لکھا اور کالموں میں ادبی گروہ بندیوں کو فروغ دینے والوں اور مفاد پرست ٹولے کو بے نقاب کیا۔

    مشفق خواجہ کا اصل نام خواجہ عبدُالحیّ تھا۔ وہ 19 دسمبر 1935ء کو لاہور میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم اور بی اے (آنرز) کے بعد 1958ء میں ایم اے (اردو) کیا۔ کئی برس تک انجمن میں علمی و ادارتی شعبہ کے نگراں رہے۔ یہاں خواجہ صاحب نے بحیثیت مدیر ماہ نامہ’’قومی زبان‘‘ سہ ماہی’’اردو‘‘ اور ’’قاموس الکتب‘‘ کے لیے خدمات انجام دیں۔ ان کی چند کتب ’’غالب اور صفیر بلگرامی‘‘، ’’جائزہ مخطوطاتِ اردو‘‘، ’’خامہ بگوش کے قلم سے ‘‘، ’’سخن در سخن‘‘، ’’سخن ہائے نا گفتنی‘‘، ’’سخن ہائے گسترانہ‘‘(ادبی کالموں کا انتخاب)، ’’ابیات‘‘(شعری مجموعہ)، ’’کلیاتِ یگانہ‘‘(ترتیب وتدوین) کے عنوان سے شایع ہوئیں۔ مشفق خواجہ نے ادبی رسائل اور جرائد میں‌ مضامین کے علاوہ ریڈیو پاکستان کے لیے مختلف موضوعات پر درجنوں فیچر بھی لکھے۔

    صدارتی ایوارڈ یافتہ مشفق خواجہ 21 فروری 2005ء کو کراچی میں وفات پاگئے۔